جسے عکس عکس گنوا دیا کبھی رو بر تھی میرے لئے جسے نقش نقش بجھا دیا کبھی چار سو تھی میرے لئے جو حد ہوا سے بھی دور ہے کبھی کو بکو تھی میرے لئے جو تپش ہے موج سراب کی کبھی آبجو تھی میرے لئے جسے ” آپ “ لکھتا ہوں خط میں اب !! کبھی صرف " تو " تھی میرے لئے
میرے دل کے سبھی موسم اُسی پہ جا کے کُھلتے تھے میں آدھی بات کرتا تھا وہ پوری جان لیتا تھا اگرچہ متفّق ہوتا نہیں تھا وہ ذرا سا بھی ذرا سی بحث کرتا تھا مگر پھر مان لیتا تھا حسیں انداز سے پڑھتا تھا وہ گلزار کی نظمیں وہ جیسے ریت میں سے ہیرے موتی چھان لیتا تھا میں لفظوں کا لبادہ اوڑھ لیتا تھا مگر پھر بھی مجھے وہ بِھیڑ میں بھی دُور سے پہچان لیتا تھا کبھی سَرگوشیوں میں دھیمی دھیمی گفتگو کرتا کبھی خاموشیوں کی سَرد چادر تَان لیتا تھا کبھی خودسر کبھی ضدی مگر اک بات اچھی تھی میرے لکھے ہوئے لفظوں کو وہ بھی مان دیتا تھا میرے ہاتھوں پہ اپنے ہاتھ رکھ دیتا تھا دانستہ پھر اپنی مُسکراہٹ سے وہ میری جان لیتا تھا۔۔
کسی کی قید میں رہنا مجھے اچھا نہیں لگتا میں اک آزاد پنچھی ہوں سنا ھے پھر سے تنہا ہوں دسمبر کے مہینے میں بہت خاموش رہتی ھو کہ جس کو تم نے چاہا تھا وفا کے نام سے اس کو بہت وحشت سی ہوتی ہے وہ اک آزاد پنچھی تھا کسی کی قید میں رہنا اسے اچھا نہیں لگتا سنا ھے میرے آنگن کی تمہیں اب یاد آتی ھے سنا ھے تم پشیماں ھو چلو پھر ایسا کرتے ہیں دسمبر کا مہینہ ھے نیا آغاز کرتے ہیں تمہیں بانہوں میں لے لوں میرے سینے پر سر رکھ کر حیا سے منہ چھپا لو تم دسمبر جانے والا ھے سنو اب لوٹ آؤ تم
دسمبر جانے والا ھے تمہارے لوٹ آنے کی کوئی امید باقی ھے؟ ابھی پچھلے برس تم نے میرے سینے پر سر رکھ کر حیا سے منہ چھپایا تھا ابھی پچھلے برس ہی تو دسمبر کے مہینے میں تمہیں بانہوں میں تھاما تھا مگر اپریل آنے تک تمہاری جھیل آنکھوں میں نیا سپنا سمایا تھا میرے چھوٹے سے آنگن میں تمہیں وحشت سی ہوتی تھی مجھے تم نے بتایا تھا
کوئی ہے ان کے کرم کا طالب کسی کا شوق وصال آنکھیں نہ یوں جلائیں نہ یوں ستائیں کریں تو کچھ یہ خیال آنکھیں ہیں جینے کا اک بہانہ یارو یہ روح پرور جمال آنکھیں دراز پلکیں غزل آنکھیں مصوری کا کمال آنکھیں شراب رب نے حرام کردی مگر ہیں رکھی حلال آنکھیں ہزاروں ان سے قتل ہوے ہیں خدا کے بندے سنبھل آنکھیں 👁️👁️
گلاب آنکھیں شراب آنکھیں ، یہی تو ہیں لا جواب آنکھیں ، انہی میں الفت ، انہی میں نفرت ثواب آنکھیں ، عذاب آنکھیں . کبھی نظر میں بلا کی شوخی کبھی سراپا حجاب آنکھیں . کبھی چپھاتی ہوں راز دِل کے کبھی ہوں دِل کی کتاب آنکھیں . کسی نے دیکھی تو جھیل جیسی کسی نے پائیں سراب آنکھیں . وہ آئے تو لوگ مجھ سے بولے حضور آنکھیں جناب آنکھیں . عجیب تھا گفتگو کا عالم سوال کوئی جواب آنکھیں . یہ مست مست بے مثال آنکھیں نشے سے ہر دم نڈھال آنکھیں . اُٹھائیں تو ہوش حواس چھینین گرے تو کر دیں کمال آنکھیں .
سنا ہے لوگ اسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں سو اس کے شہر میں کچھ دن ٹھہر کے دیکھتے ہیں سنا ہے ربط ہے اس کو خراب حالوں سے سو اپنے آپ کو برباد کر کے دیکھتے ہیں سنا ہے درد کی گاہک ہے چشم ناز اس کی سو ہم بھی اس کی گلی سے گزر کے دیکھتے ہیں سنا ہے اس کو بھی ہے شعر و شاعری سے شغف سو ہم بھی معجزے اپنے ہنر کے دیکھتے ہیں سنا ہے رات اسے چاند تکتا رہتا ہے ستارے بام فلک سے اتر کے دیکھتے ہیں سنا ہے دن کو اسے تتلیاں ستاتی ہیں سنا ہے رات کو جگنو ٹھہر کے دیکھتے ہیں سنا ہے حشر ہیں اس کی غزال سی آنکھیں سنا ہے اس کو ہرن دشت بھر کے دیکھتے ہیں سنا ہے رات سے بڑھ کر ہیں کاکلیں اس کی سنا ہے شام کو سائے گزر کے دیکھتے ہیں سنا ہے بولے تو باتوں سے پھول جھڑتے ہیں یہ بات ہے تو چلو بات کر کے دیکھتے ہیں