ہو گئی شام غریباں علی اکبر(ع) جاگو ماں چلی جانب زندان علی اکبر(ع) جاگو بیٹا مادر ہے پریشاں علی اکبر(ع) جاگو جل گئے خیمے یہاں ہے قیامت کا سماں اے علی جان علی جان علی جان علی اکبر (ع) من نوجوان اکبر(ع) من
میری صغرا(س) کو کیا پتا ،میری صغرا(س) کو کیا پتا نہ قاسمؑ مہندیاں والا ،نہ اکبرؑ سہریاں والا ،نہ اصغرؑ لوریاں والا ، نہ غازیؑ علماں والا میرا بچھڑ گیا ہر پیارا ،میرا اجڑ گیا گھر سارا میرا کوئی نہیں رہا میری صغرا(ص) کو کیا پتا
چُن قاسمؑ جھولی پا فرماوے رو رو شاہؑ تیڈے ٹکڑے چن قاسمؑ کیویں ڈیکھسی اجڑی ماء(س اے ماء(س) دی سند والے ٹکڑے شاہؑ کوں یاد اے جڈاں چنن لگا قاسمؑ بن وچ دستار وچھا
فرماتے تھے حسین(ع) وہ انسان نہیں ہے لوٹے جو دل کا چین وہ انسان نہیں ہے روے نہ جسکے نین وہ انسان نہیں ہے ہنسے جو سن کے بین وہ انسان نہیں ہے انسانیت بچائے وہ انسان ہے انسان انسان کا دکھ اٹھائے وہ انسان ہے انسان انسان کو حسین (ع) نے انسان بنا دیا انسانیت کے لب پہ مسلسل تھی یہ صدا کہ ہمارے ہیں یا حسین(ع