"۔مُجھ سے ضِد ہے تو اِس ضد کو نبھانے کے لیے
میں جو مر جاؤں تو پھر آپ بھی مر جائیے گا
اسے کہنا بیمار ہو میں
اچانک مر جاؤں تو آپنا خیال رکھنا
بہت ہمت والی ہوں مگر کبهی کبهی ہار جاتی ہوں
کچھ باتیں سن کر، کچھ لہجے دیکھ کر
بےقصور بھی تھے اس کی محبت کے وفادار بھی تھے
. پھر کیوں یار بھی روٹھا۔۔
ساتھ بھی چھوٹا۔۔ اور دل بھی ٹوٹا.
"محبت قید ہےاس قید کے عادی نہ ہوجانا سلاخیں ٹوٹ بھی جائے تو رہائی مار دیتی ہے
ہماری شرطِ وفا یہی ہے، وفا کرو گے، وفا کریں گے
ہمارا ملنا ہے ایسا ملنا،۔ ملا کرو گے، ملا کریں گے
: برباد کرنا تھا تو کسی اور طریقے سے کرتے
کیوں زندگی میں زندگی بن کر زندگی سے زندگی ہی چھین لی
محبت نے بغاوت کی اجازت ہی نہیں دی ورنہ
تم کو تو میں ،"ضبط" سے لیکر "مکافات" تک کے معنی سمجھاتی
وہ خواب کہ دیکھا نہ کبھی لے اُڑا نیندیں
وہ درد کہ اٹھا نہ کبھی کھا گیا دل کو
اب تو حسرت نہیں رہی کسی سے وفا پانے کی
اس قدر ٹوٹا کہ اب تنہائ اچھی لگتی ہے
دل کی وحشت بڑھنے لگی ہے
ہر آرزو اب مرنے لگی ہے