لاسٹ ایئر کا سٹوڈنٹ ہی واحد اس پر شک ہے مجھے
جب میں کلاس سے باہر نکلے وہ کالج سے پیچھے کی طرف اس کو بلا رہے تھے ۔
مجھے دیکھ کر بات بدل دی میں سو پرسنٹ یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ وہاں پیچھے ہے کچھ گڑبڑ
لاسٹ ایئر کا واحد کون چشمش وہ جو لاسٹ ائیر فرسٹ آیا تھا
ہاں وہی مجھے ہنڈرڈ پرسنٹ یقین ہے اس کے اس کے ساتھ کچھ الٹا سیدھا ہونے والا ہے ۔یار وہ کافی زیادہ گھبرایا ہوا تھا میرے جانے سے پہلے کوئی بات ہو رہی تھی لیکن میرے جاتے ہی بات بدل دی
کسی کو شک نہ ہو اس لئے میں نے بھی اگنور کر دیا مجھے لگتا ہے نظر رکھنی پڑے گی اس پے یہ ہمیں کسی نہ کسی سوراخ تک ضرور پہنچا دے گا
مجھے پورا یقین ہے واحد کو فالو کرنے سے ہم یہ کیس جلدی حل کر سکینگے شام نے یقین سے کہا
ٹھیک ہے تو پھر انتظار کس بات کا واحد پر نظر رکھنے کے لئے زائم کو لگا دو ۔زاوق نے کہا
مریم نے اس کی ہاں میں ہاں ملائی
پھر بھی دیکھ نا سر حیدر پے کیسے لائن مار رہی ہے اور سر حیدر میں بھی اس میں انٹرسٹڈ لگتے ہیں
وہاخ اسے دیکھتے ہوئے بولی تو مریم نے نہ میں گردن ہلائی
وہ ایسی لڑکی نہیں ہے ۔غلط سوچ رہی ہوںخ ویسے بھی سر حیدر کچھ زیادہ ہی اسٹکٹ ہیں یاد نہیں سر نے پہلے ہی دن سے کتنی بری طرح سے ڈانٹا تھا مریم نے اس کے بات کی نفی کی تو سدرہ نے بھی سر ہاں میں ہلا دیا
لیکن ان دونوں کو ایک ساتھ دیکھ کر اس کی آنکھوں میں مرچی چھبی تھی
❤
سن مجھے تھوڑی سی انفارمیشن ملی ہے وہ ابھی ابھی آفیس روم میں داخل ہوا تھا کالج کی طرف سےانہیں ایک الگ روم ملا تھا جو اسکالج کے پرنسپل کی طرف سے شام اور اسے اسپیشل دیا گیا تھا
کالج میں پرنسپل کے علاوہ اور کوئی یہ وجہ نہیں جانتا تھا کہ وہ دونوں یہاں کیا کر رہے ہیں
نہیں سر میں تو پنسل مانگ رہی تھی اس نے فوراً ہی اس کی ڈسک سے پنسل اٹھائی
آپ کالج میں آ چکی ہیں زارا ایک ڈیڑھ سال میں آپ یونیورسٹی میں چلی جائیگی یہ سکول کے بہانے بنانا چھوڑ دے وہاں سے گھورتے ہوئے بولا
زارا شرمندگی سے سر جھکا کر اپنا پیپر حل کرنے لگی آج صبح ہی یہ سوال اسے احساس نے سمجھایا تھا اور اس کی قسمت میں وہی سوال آیا تھا ٹیسٹ ختم ہونے کے بعد جب حیدر نے سب کے پیپر اٹھائے تھے اس کی مسکراتے نظروں نے اسے مسکرانے پر مجبور کر دیا
یقین ٹیسٹ بہت اچھا ہوا تھا اسی لئے وہ اتنی خوش کی
جبکہ ان دونوں کی مسکراہٹ کلاس سے باہر کھڑی سدرا بہت غور سے دیکھ رہی تھی
مریم یہ احساس کا تو نکاح ہوا ہے نا اسنے مریم کے کندھے پر ہاتھ پھیلاتے ہوئے پوچھا
ہاں سنا تو میں نے بھی یہی ہے کہ اس کا نکاح اس کے کزن کے ساتھ ہوا ہے
یہ نیا ٹیچر جب سے آیا تھا اس کی بےعزتی کئے جا رہا تھا کہ کتنے اشارے چکی تھی وہ اسے ہر طرح سے اس پر اپنے حسن کا جادو چلانے کی کوشش کر چکے تھی
لیکن نہ جانے یہ کس مٹی سے بنا تھا جس پر نہ تو اس کے حسن کا کوئی اثر ہو رہا تھا اور نہ ہی وہ اس کے اشاروں کو سیریس لے رہا تھا
سدرہ اسے گھورتی ہوئی اپنی سیٹ سے اٹھ گئی اور کمرے سے باہر نکل گئی
اس کے پیچھے سدرا کے چمچ یوں کا منہ بنا دیکھ کر زارا اپنی ہنسی پر کنٹرول نہ کر سکی
بیچاری ہر طرح سے سر حیدر پر لائن مارنے کی کوشش کرتی ہے لیکن مجال ہے جو سر حیدراسے نظر اٹھا کے دیکھیں
وہ اس کے کان میں پھر پھسپھسائی تو وہ بھی مسکرا دی
ی
زاراکوئی مسئلہ ہے آپ کو آپ کو بھی کلاس سے باہر جانا ہے وہ ان دونوں کی سرگوشی سن تو نہیں پایا تھا لیکن کلاس میں ان کا یہ انداز حیدر کو برا لگا تھا
#میں_عاشق_دیوانہ_تیرا
#قسط_نمبر8
❤
اس نے جیسے ہی کلاس میں قدم رکھا سب سے پہلے ٹیسٹ کے لیے ہی کہا تھا پچھلے 10 دن سے اس نے جو چپٹر سب سٹوڈنٹس کو سمجھایا تھا آج اس کا ٹیسٹ تھا
سب کو الگ الگ سوال لکھا کر اب وہ اپنی کرسی پر بیٹھا تھا
کچھ لوگ اپنے سوالات حل کر رہے تھے جبکہ کچھ لوگ اگلے پچھلے ٹیبل کی طرف دیکھ رہے تھے
اسے اپنے کالج کا دور یاد آ رہا تھا جب وہ اور شام بھی یہی سب کچھ کیا کرتے تھے
اس نے جان بوجھ کر سب کو الگ الگ سوال دیا تھا تاکہ کوئی بھی کسی کی مدد نہ کر سکے
سب پر نظر ڈالتے ہوئے اس نے ایک نظر سدرآ کو دیکھا جب اس کی آنکھیں غصے سے بھر آئی
سدرہ اس کلاس سے باہر نکل جائے وہ جو کب سے اسے ہی دیکھ رہی تھی
اس کی آواز پر چونکی۔
آپ کو شاید میری آواز نہیں آئی میں نے کہا میری کلاس سے باہر نکل جائے ۔وہ اسے گھورتے ہوئے بولا تھا
وہ کھوئے ہوئے انداز میں بولی۔
ہائے ظالم یہ محبت تم نے کبھی اسے بتایا کہ تم اس سے کتنی محبت کرتی ہو زاراآہ بر کر کہنے لگی
محبت لفظوں کی محتاج نہیں ہوتی یہ تو آنکھوں سے بیان ہو جاتی ہے ۔
اور اب تم یہ محبت نامہ بند کرو اور جلدی سے یہ آخری دو سوال حل کرو اس کا طریقہ تھوڑا الگ ہے وہ اس کا دیہان ٹیسٹ کی طرف لگاتی ہوئے بولی تو زارہ مسکرا کر اپنا کام کرنے لگے
وہ شخص بہت لکی ہو گا جو تم سے محبت کرتا ہے نہ جانے میں کب ملوں گی اس سے زارا سوال حل کرتے ہوئے بڑبڑائی تو احساس مسکرا دی وہ تو بیچاری جانتی بھی نہیں تھی کہ وہ نہ جانے اس سے پچھلے ایک مہینے میں کتنی بار مل چکی ہے
·
اور اس کے سمجھانے سے تھوڑی ہی دیر میں اسے سب سمجھ میں آنے لگا اسے
اسے امید تھی کہ اس کا زارا دونوں کا ٹیسٹ آج اچھا ہوگا
ویسے یار تمہیں تو متھس بالکل بھی پسند نہیں ہے پھر تم نے یہ سبجیکٹ کیوں لیا وہ اسے دیکھ کر پوچھنے لگی
ہاں یاد آیا تمہارا منگیتر آرمی ایجنٹ ہے نہ اور آرمی والے تو بہت بڑے لکھے ہوتے ہیں اسی سے مقابلہ کرنا چاہتی ہو کیا۔زارا چھڑتے ہوئے بولی
منگیتر نہیں شوہر کتنی بار بتا چکی ہوں کہ ہمارا نکاح ہوا ہے مجھے یہ منگیتر لفظ بالکل اچھا نہیں لگتا اس میں نہ کوئی پاکیزگی ہے نہ کوئی جذبات شوہر لفظ سے کتنی لگن ہوتی ہے نہ اسی لیتے ہی وہ شخص آپ کی سامنے آجاتا ہے جس سے آپ بے پناہ محبت کرتے ہیں جس کے ساتھ آپ کا ہر جذبات جوڑا ہوتا ہے
ٹیسٹ کی کیسی تیاری ہے زارا اداس بیٹھی تھی جب وہ اس کے پاس آ کر پوچھنے لگی
اتنی بری کی دل کرتا ہے سب کچھ چھوڑ چھاڑ کے کالج سے گھر بھاگ جاؤں زارا منہ بسور کر بولی تو اسے کل رات کا زاوق کا جملہ یاد آگیا تمہاری دوست زارا تم سے بھی زیادہ نالائق ہے
وہ ہلکی سی مسکرائی اور اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا
چلو میں سمجھا دیتی ہوں میری تیاری اچھی ہے وہ اسے حوصلہ دیتے ہوئے بولی تو زارا کھل کر مسکرائی
تم نے کیسے تیار کیا اتنا مشکل تھا یہ مجھ سے تو نہیں ہوا رات ساری بیٹھ کے لگی رہی اس وقت بھی نیند آ رہی ہے کیسے کیا تم نے وہ پرامید سی اسے دیکھ کر پوچھنے لگی
مشکل نہیں تھا بس ٹھیک سے سمجھنے کی ضرورت ہی چلو آؤ میں تمہیں سمجھآتی ہوں دیکھنا ابھی سمجھ آ جائے گا وہ بک کھول کر اسے سمجھانے لگی
اس کے باہر نکلتے ہی احساس اپنا بیگ اٹھائے اور اپنے جذبات پر قابو کرتے ہوئے اس کی گاڑی میں آ گئی تھی
ہاں کیوں کے اس کے ساتھ بیٹھنے کی خوشی تو اس کے ساتھ بھی شئیر نہیں کرنا چاہتی تھی
سفر خاموشی سے گزر گیا وہ ہر تھوڑی دیر میں اسے دیکھتا تو مسکرا کر نظریں جھکا لیتی اسکا یہ شرمیلا زاوق کے لئے اس کی جان تھا
تمہارے چہرے پر میری قربت کی سرخی بہت حسین لگتی ہے ۔اس کے اچانک اپنے قریب آنے پر پہلے تو وہ گھبرا کر اپنا دل تھام چکی تھی لیکن اس کی اگلی جسارت نے اس کے پورے جسم میں سنسنی پھیلا دی تھی
کانپتے ہاتھوں کو قابو کر کے وہ جلدی سے گاڑی سے باہر نکلی ۔
جب کہ اس کی حالت پر زاوق قہقہ لگا کر گاڑی سٹارٹ کرتا آگے بڑھ چکا تھا
💘
کل ٹیسٹ اچھے سے دینا وہ ہلکے سے مسکرا کر اس کے قریب سے اٹھ کر چلا گیا
جب کہ احساس اپنی دھڑکنوں کا طوفان سنبھالتے کتابیں ایک طرف رکھ کر فوراً اپنے کمرے میں بھاگ گئی
❤
آؤ چھوڑ دوں اسے کالج کے لیے نکلتے دیکھ کر دیکھ کر آفر کی
ہاں کیوں تاکہ سب کو پتہ چل جائے کہ سر حیدر عرف زاوق حیدر شاہ ۔میرے کیا لگتے ہیں لیکن اگر آپ کو یاد ہو تو آپ نے پہلے دن خود ہی کہا تھا کہ اپنا اور میرا رشتہ میں کسی کے ساتھ شیئرنہ کروں
اس نے اسے یاد دلاتے ہوئے کہا
میں نے یہ نہیں کہا کہ میں تمہیں اپنے ساتھ کالج کے اندر لے کے جاؤں گا میں بس یہ کہہ رہا ہوں کہ میں تمہیں کالج تک ڈراپ کر دیتا ہوں پچھلی اگلی میں اتار دوں گا وہاں سے آگے خود چلی جانا
وہ مسکرا کر آئیڈیا دیتا باہر نکل گیا یقیناً آج کی صبح اس کے لئے حسین تھی اور اب شروع ہونے والا یہ سفر بھی
اور اب وہ سےخمھ آ بھی گئے تھے
اگلے پندرہ منٹ میں ہی وہ سارا سوال حل کرکے اس کے سامنے رکھ چکی تھی اور اب ایکسائٹ سی اسے دیکھ رہی تھی کہ وہ اسے دیکھ کر بتائیے کہ وہ صحیح ہے یا غلط
زاوق نے سوال چیک کیا جو کہ بالکل صحیح طریقے سے حل کیا گیا تھا
فائنلی میں نے تمہیں سمجھا دیا زاوق نے مسکراتے ہوئے کہا تو احساس بھی مسکرا دی
چلو اب میرا معاوضل نکالو وہ شرارت سے مسکراتے ہوئے اسے مزید اپنے قریب کر چکا تھا
اس طرح تم مجھے مزید بے خود کر دو گی ۔وہ دھمکی دے رہا تھا یا اپنے جذبات بتا رہا تھا وہ سمجھنے کی کنڈیشن میں نہیں تھی
اسی لیے سوال سمجھنے کے بعد وہاسح انعام دینے کے لیے تیار رہے
❤
وہ اسےسنجیدگی سے سوال سمجھا رہا تھا پہلے تو وہ اس کی قربت سے گھبرائی گھبرائی سی تھی لیکن اس کا سیریز انداز دیکھتے ہوئے احساس کو احساس ہوا کہ وہ بے کار میں گھبرا رہی ہے کیونکہ زاوق بہت دھیان سے سمجھا رہا تھا
اسی لیے اپنی سوچوں کو جھٹلاتے ہوئے وہ بھی سوال پر دھیان دینے لگی
اور دھیان سے سمجھنے پر اسے جلدی سمجھ بھی آنے لگے
کل اس چپٹر کا ٹیسٹ تھا اور وہ تقریبا اسے پورا چپٹر ہی سمجھا چکا تھا
پڑا کچھ پلے زاوق نے مسکرا کر کہا تو اس نے جوش میں کہا میں گردن ہلائی
زاوق نے فورا ہی ایک سوال نکال کر اس کے حوالے کر دیا کہ جو کچھ سمجھ میں آیا ہے کر کے دکھاو مجھے ۔زاوق نے کہا تو وہ خوشی سے جواب حل کرنے لگی
کل تک جو اسے بہت مشکل لگ رہا تھا آج وہی ا سے بہت آسان لگ رہے تھے
تو اس کی بات سننے کے بعد اس کے گال لال ہونے لگے تھے
ایک کپ چائے ۔احساس اپنا دوپٹہ سہی کرتے ہوئے بولی جو پہلے ہی اس کے سر پر ٹھیک سے سجا ہوا تھا
چائے کی جگہ کچھ اور مل سکتا ہے اس پر باقاعدہ اس کے لبوں انگوٹھے سے چھو کر بولا
نہ نہیں ۔۔۔۔۔میں خود کر لوں گی۔ وہ اس سے فاصلے پر گھسکتے کرتے ہوئے بولی
تم نے انکار کر دیا اور میں نے مان لیا۔ وہ مذاق اڑانے والے انداز میں مسکرایا ۔
اپنا معاوضہ میں خود لے لوں گا چلو پہلے تمہیں سمجھا دیتا ہوں
وہ بات کرتے ہوئے مسکرایا اور اس کا بازو پکڑ کر اسے کھینچ کر بالکل اپنے قریب کر لیا ۔
اب میرے قریب بیٹھ کر صرف مجھے دیکھتی نہ رہنا سوال سمجھو مجھے دیکھنے کے لیے ساری زندگی پڑی ہے ۔
اور اس کے بعد میں اپنا معاوضہ لوں گا ۔اس نے صاف انداز میں کہا تھا کہ اسے رایت کا کوئی موقع نہیں ملے گا ا
اور اس شخص کی وجہ سے وہ زاوق کے سامنے اور شرمندہ نہیں ہونا چاہتی تھی
❤
بس لکھے جا رہی ہو یا کچھ پلے بھی پڑھ رہا ہے وہ اسے نوٹ بک پر جھکے تیزی سے لکھتے فیکھ کر کہ اس کے قریب آ بیٹھا
جب کہ اسے اچانک یہاں دیکھ کر وہ منہ بنا گئی
کچھ ہیلپ کردوں اس کے منہ کے ڈیزائن صاف بتا رہے تھے کہ وہ جو بھی لکھ رہی ہے غلط ہے
ویسے صبح مجھے زارا سمجھا دیتی لیکن آپ کہہ رہے ہیں تو آپ ہی سمجھا دیں
وہ کاپی اسے تھماتے ہوئے احسان کرنے والے انداز میں بولی
جبکہ اس کے انداز پر وہ مسکرا دیا
ویسے ایک بات کہوں زارا تم سے زیادہ نالائق ہے وہ اپنی ہنسی دباتے ہوئے بولا
اور خود تو جناب بہت لائق ہیں وہ کم آواز میں منمنائی
جبکہ اس کے انداز پر وہ مسکرا دیا ۔
اگر میں سمجھا دوں تو کیا ملے گا وہ اس کے گال کو دیکھتے ہوئے بولا
بکواس بند کرو بد ذات عورت میرے بس دیکھنا چاہتا ہوں کہ وہ میری بیٹی سے کتنی محبت کرتا ہے اور آگے زندگی میری بیٹی کو خوش رکھ سکتا ہے یا نہیں
ایک مکان تو نام کر نہیں سکتا کیسے سمجھوں گی کہ وہ میری بیٹی کو خوش رکھے گا ساری زندگی
رحمان صاحب نے بات بنانے کی کوشش کی
ہاں تو پھر ایسا کہیں کہوہ مکان احساس کے نام کرے آپ ایسا کیوں چاہتے ہیں کہ وہ مکان آپ کے نام کریں اور جہاں تک میری بات کرنے کا سوال ہے تو میں اس معاملے میں اس سے کوئی بات نہیں کروں گی
یہ مکان اس کے ماں باپ کی آخری نشانی ہے جو میں اس سے کبھی نہیں مانگوں گی ۔
ٹھیک ہے اگر تم نہیں کہو گی تو میں اس سے بات کروں گا اور میرا طریقہ اسے پسند نہیں آئے گا ۔
رحمان صاحب غصے سے کہتے ہوئے باہر نکل گئے ۔جبکہ ان کے جانے سے عائشہ پرسکون ہو چکی تھی اب ان کی واپسی لیٹ نائٹ ہی ہونے تھے
اور اب وہ پچھلے بارہ سال سے مسلسل سے اس کی دولت پر عیش کیے جا رہے تھے انہوں نے خود ہی کمپنی پر قبضہ جمانا چاہا جس سے کمپنی کے حالات کافی بگڑ گئے وہ تو ورکرز کی محنت تھی کہ ہم ان کو زیادہ نقصان نہیں ہوا
اور ورکرز نے سارا کا کام سنبھال لیا ۔
ورنہ چند دن میں ہی زاوق کی کمپنی ڈوب سکتی تھی ۔
❤
تم نے بات کی زاوق سے جو میں نے کہا تھا اس کے بارے میں کھانے کے بعد وہ پوچھنے لگے
نہیں میں نے اس بارے میں اس سے کوئی بات نہیں کی اور نہ ہی میں اس بارے میں اس سے کوئی بات کروں گی میں آپ کو پہلے بھی بتا چکی ہوں کہ وہ احساس سے محبت کرتا ہے اور وہ اسے اس طرح سے طلاق نہیں دے گا
اگر طلاق نہیں دیتا تو کہو اسے مکان نام کرے ورنہ میں اپنی بیٹی کسی قیمت پر اس کے حوالے نہیں کروں گا
خدا کا خوف کریں رحمان اپنی بیٹی کی قیمت لگا رہےہیں آپ عائشہ نے تڑپ کر کہا
جیسے خود سے دور کرنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا اپنا بزنس اپنی جائیداد ہر چیز رحمان صاحب کے ہاتھ پر تھی وہ اسے کیسے چلاتے ہیں کیا کرتے ہیں زاوق نے کبھی سوال نہیں کیا تھا ۔
لیکن یہ بات بھی کلیئر کر دی تھی کہ اپنی ماں باپ کی جائیداد کا ایک پیسہ بھی وہ کسی کے نام نہیں کرے گا ۔
اور یہی وجہ تھی کہ رحمان صاحب اب اپنی بیٹی کی شادی زاوق کے ساتھ نہیں کروانا چاہتے تھے ۔
کیوں کہ اس شادی میں انہیں کوئی اپنا فائدہ نظر نہیں آرہا تھا
وہ محنت کش انسان کبھی بھی نہ تھے ہمیشہ دوسروں کے ٹکڑوں پر پلنے والوں میں سے تھے ۔
اور زاوق کے روپ میں انہیں ایک جیتی جاگتی پیسے کی مشین مل گئی
کیونکہ وہ اندازہ لگا چکا تھا کہ عائشہ کا موڈ خراب ہو چکا ہے
اور عائشہ اس کی زندگی کے لیے بہت اہم تھی تیرہ سال کا تھا جب اس کی ماں باپ ایکسیڈنٹ میں گزر گئے ۔
ایک یہی تو مخلص رشتہ ملا تھا اسے ۔ورنہ کون تھا اس کا اپنا ہر کوئی تو اس کی جائیداد کی پیچھے پڑا تھا
حتیٰ کہ خالو بھی ۔
کھانا کھانے کے بعد احساس نے برتن سمبھالے جبکہ اس دوران وہ عائشہ کے پاس ہی بیٹھا ان سے باتیں کرتا رہا
لیکن جب خالو کے گھر آنے کا وقت ہوا وہ آرام کا کہہ کر اپنے کمرے میں چلا گیا اور زیادہ دیر ان کے پاس نہیں بیٹھتا تھا اور نہ ہی ان کی کمپنی اسے پسند تھی
وہ چاہتے تھے یہ گھر جو اس کے ماں باپ کا ہے وہ ان کے نام کر دے لیکن وہ ایسا نہیں چاہتا تھا اور نہ ہی وہ ایسا کرنے والا تھا
کیوںکہ یہ اس کے ماں باپ کی آخری نشانی تھی
میں_عاشق_دیوانہ_تیرا
#قسط_7
❤
کھانا آرام دہ ماحول میں کھا گیا وہ کھانے کے دوران بھی ہر تھوڑی دیر کے بعد احساس کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کر رہا تھا لیکن وہ خاموشی سے اپنے کھانے پر دھیان دیتی اس کی کسی بات کا جواب نہیں دے رہی تھی۔
جب کہ ماما تو بس اللہ سے دعائیں مانگتی تھی ان کی جوڑی سلامت رہے
وہ تو اپنی بیٹی کی قسمت پر بہت خوش تھی
کتنے دن رہنے کے لئے آئے ہو ۔۔۔۔۔۔؟ ما ما نے پوچھا
کل صبح واپسی ہوگی وہ مسکرا کر بولا
اب آ ہی گئے ہو تو دو چار دن رک زاوق کچھ دن اپنی ماں کے ساتھ بھی گزار لو ۔
عائشہ اداسی سے بولی پورے مہینے میں مشکل سے گھر ایک دن کے لیے آتا تھا ۔
اور وہ بھی جلدی چلا جاتا ہے اس کے جانے کا سن کر عائشہ اداس ہو گئی
کوشش کروں گا اگلی بار رکنے کی لیکن اس بار تو ایک دن کی چھٹی ملی ہے ۔اس نے سمجھاتے ہوئے کہا
کھانے کے دوران بھی وہ باز نہیں آیا ہر تھوڑی دیر میں احساس کی جانب جملے پھینکتے ہوئے اسے تنگ کرتا رہا جب کہ احساس منہ بناتی رہی۔
جب کہ وہ اس کا پھولا ہوا منہ دیکھ کر مسکرائے جا رہا ۔
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain