Damadam.pk
Mirh@_Ch's posts | Damadam

Mirh@_Ch's posts:

Mirh@_Ch
 

اور اسے لالچ کو پورا کرتے ہوئے انہوں نے اپنی 6 سالہ بیٹی کا نکاح تیرا سالہ زاوق سے کروا دیا ۔
اس دولت کی لالچ میں وہ اکیلے نہیں بیٹھے تھے زاوق کے اور بھی بہت سارے رشتے دار تھے جو اس دولت کو اپنا بنانے کے لیے کوئی بھی حد پار کر سکتے تھے
وہی لوگ تھے جنہوں نے زاوق کے کان میں یہ بات ڈالی تھی کہ اس کے خالو نے دولت کے لالچ میں اپنی بیٹی کا نکاح اس کے ساتھ کروایا تھا لیکن ان سب باتوں سے زاوق کو کوئی فرق نہیں پڑتا تھا نکاح کے بعد سے لے کر اب تک وہ احساس کو دیوانوں کی طرح چاہتا تھا ۔
اور اسے کسی قیمت پر چھوڑنے کے لئے تیار نہ تھا جبکہ اب اپنے ہاتھ کچھ نہ آتا دیکھ کر خالو نے یہی فیصلہ کیا تھا کہ وہ احساس کو زاوق سے طلاق دلوا کر اس کی شادی کسی امیر آدمی سے کروا دیں گے ۔
کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ زاوق سے ان کو اب کوئی فائدہ نہیں ہونا

Mirh@_Ch
 

لیکن ایک بات کان کھول کر سن لیجئے امی جان اگر آپ کے شوہر نے میرے اور احساس کے بیچ میں آنے کی کوشش کی تو میں لحاظ نہیں کروں گا ویسے بھی بہت لحاظ کرتا آیا ہوں میں ان کا
اور خالو جان کو ایک اور بات بھی بتا دیجئے گا کہ اگلے دو ماہ میں احساس 18 سال کی ہو جائے گی
اور وہ جو چالبازیاں اپنے دماغ میں سوچے ہوئے ہیں وہ نکال دیں تو بہتر ہوگا دنیا کا کوئی شخص میری احساس کو مجھ سے چھین نہیں سکتا
تھوڑی دیر پہلے والی محبت نرمی اس کے سخت لہجے کی سختی میں کہیں کھو سی گئی تھی
وہ احساس کے معاملے میں ایسا ہی تھا ۔13 سال کا تھا جب ایک ایکسیڈنٹ میں اس کے ماں باپ اسے ہمیشہ کے لیے چھوڑ کر چلے گئے
اور تب اس کے سر پر اس کے خالواور خالا نے ہاتھ رکھا ۔
کروڑوں کی جائیداد کا اکیلا وارث تھا جسے دیکھتے ہوئے اس کے خالو کے دل میں لالچ نے جنم لیا

Mirh@_Ch
 

پھر تو آپ مجھے زبردستی بھی بھیجیں گی تو میں جاؤں گا نہیں زاوق شرارت سے مسکراتے ہوئے بولا
ہائے میں صدقے میں تو اس دن کا انتظار کر رہی ہوں کہ کب احساس کو تیری دلہن بنا کر تیرے کمرے میں بیٹھاکر جاؤں بس ایک بار رحمان مان جائیں تو ان شاءاللہ ایک دن نہیں لگاؤں گی
وہ تو تیری ہی امانت ہے تیرے ہی نام پر بیٹھی ہے بس ایک بار رحمان مان جائیں اس شادی کے لیے عائشہ نے اداسی سے کہا
کوئی مانے یا نہ مانے مجھے فرق نہیں پڑتا احساس میری بیوی ہے اور میں جب چاہے اسے اپنے کمرے میں لا سکتا ہوں ابھی تک اگر مجھے کسی بات کا لحاظ ہے تو صرف اور صرف اس کی پڑھائی کا
جب تک وہ اپنی پڑھائی مکمل نہیں کرتی تب تک میں اس طرح کا کوئی فیصلہ نہیں کرنا چاہتا ۔

Mirh@_Ch
 

#میں_عاشق_دیوانہ_تیرا
#پہلی_قسط

امی جان بس چند دنوں کی بات ہے میں جلدی واپس آنے کی کوشش کروں گا پلیز اس طرح سے روئے تو نہیں ۔زاوق ان کو روتے دیکھ کر ان کے قریب آ کر بیٹھا
تو میں کیا کروں تم ہی بتاؤ تم جاتے ہو واپس آنے کا نام نہیں لیتے نہ جانے کون سا کام کرتے ہو تم اللہ غرق کرے ایسے کاموں کو جو اولاد کو اپنے والدین سے دور کر دے عائشہ بیگم بددعائیں دیتے ہوئے بولی تو زاوق بے اختیار مسکرا دیا
اب تُو ہنسنا بند کر دے تیرا ہنسنا مجھے مزید غصہ دلا رہا ہے عائشہ بیگم اس کے قریب سے اٹھتے ہوئے بولیں تو زاوق نے ان کا ہاتھ تھام کر واپس اپنے قریب بیٹھا لیا ۔
ویسے اگر آپ چاہتی ہیں میں ہمیشہ کے لئے واپس آ جاؤں تو آپ اپنی بہو کو میرے کمرے کا راستہ دکھا دیں میں خود ہی ہمیشہ کے لئے واپس آ جاؤں گا

Mirh@_Ch
 

لیکن کیا پریا اس نے کہا کو قبول کرے گی ۔
کیا وہ ساری زندگی ایک پری زادے کی ہو کر رہ سکے گی
کیا عشق اتنا ہی آسان ہے ۔کیا زاریم کا عشق لائے کا پریام کی زندگی میں ایک نیا موڑ یا پھر زاریم لکھے گا عشق کی نئی داستان ۔

Mirh@_Ch
 

اور ایک بیٹی کی شادی کرنا تو ہر ماں باپ کا فرض تھا جس کے لیے مہر اور شہریار نے بھی کچھ خواب دیکھے تھے اور ساریسہ اپنے عشق کے خواب پورے نہ کرے ایسا تو ممکن ہی نہ تھا
لیکن ساریسہ اپنا خواب بھی پورا کیا تھا اپنی پریام کو ہمیشہ کے لئے اپنی دنیا میں لانے کے لئے ایک پری زادے سے اس کا نکاح کر کے
پریوں کی ہر نسل پہلے سے زیادہ خطرناک ضدی اور مغرور ہوتی ہے ان بزرگوں کے یہ الفاظ سکندر کے کان میں آج بھی گونجتے تھے
اور اس بچے کو دیکھ کر اس کا ضدی پن اس کا مغرورانہ انداز اور وہ کس حد تک خطرناک ہے دیکھ سکتے تھے۔
اس بچے نے مسکرا کر ایک نظر پریام کو کو دیکھا اور پھر غائب ہو گیا لیکن یہ بھی سچ کہا کہ وہ بہت جلد اپنی پریام کو لینے آنے والا تھا ۔

Mirh@_Ch
 

خوبصورتی بے مثال وہ گہری سبز آنکھوں والا لڑکا سرخ و سفید رنگت کا مالک تھا
آج میں نے پری ماں کہا کہ میں خود اسے گھر چھوڑ کے جاؤں گا بچہ مسکراتے ہوئے بولا تو مہر بھی مسکرا دی اتنا حسین لڑکا شاید اس دنیا کو ہو بھی نہیں سکتا تھا
ویسے بھی اپنی چیزوں کا خیال میں خود رکھتا ہوں اس کے انداز میں حق بول رہا تھا
تو سوچا آپ کو ساتھ بتا بھی دوں کہ پریام کو خود سے دور مت کریں بہت کم وقت کے لیے یہ آپ لوگوں کے پاس ہے بعد میں میں اسے اپنی دنیا میں لے جاؤں گا ۔
اس کے انداز سے ایسا لگ رہا تھا جیسے ابھی ان کی بیٹی کو ان سے دور کر دے گا لیکن وہ خاموش رہی کچھ بولنے کو اس کے پاس تھا ہی نہیں
وہ جانتی تھی آج نہیں تو کل اس کی بیٹی اس سے دور ہو جائے گی لیکن یہ تو ساریسہ کا احسان تھا جس نے ان سے ان کی بیٹی چھینی نہ تھی

Mirh@_Ch
 

اس معاملے میں اپنا دل بھی بڑا کر چکی تھی۔
اگر وہ اس بچے کے لیے اپنا عشق چھوڑ سکتی تھی تو مہر بھی اسے ماں بننے کا حق دے سکتی تھی ۔

تین سال بعد
پریام بیٹا کہاں ہو تم جلدی آؤ دیکھو بابا آ گئے
سکندر صاحب ہر طرف اپنی پوتی کو ڈھونڈ رہے تھے ۔
لیکن نہ جانے وہ کہاں چلی گئی تھی ۔ان کے لئے یہ کوئی نئی بات نہ تھی کہ وہ اکثر غائب ہو جاتی تھی اور اندھیرا ہونے سے پہلے ہی واپس آ جاتی تھی اور اگر اس سے پوچھتے تھے وہ کہاں گئی ہے تو وہ کہتی تھی کہ وہ اپنی ماں کے پاس تھی
مہر تو اس کی موم تھی اس کی ماں کو ساریسہ تھی جو اسے اپنے ساتھ اپنی دنیا میں لے جاتی تھی
لیکن اس دن کچھ عجیب ہوا کسی نے دروازہ کھٹکھٹایا کچن میں کام کرتی مہر کر دروازہ کھولنے لگی تو سامنے اس کی بیٹی کے ساتھ 10 سالہ بچہ کھڑا تھا

Mirh@_Ch
 

میں اوپر تک نہیں پہنچ سکتی ۔
وہ کمرے میں آ کر شہریار کو جگانے لگی جو گہری نیند سو رہا تھا
بہت کوشش کے باوجود بھی نہ جاگا تو وہ واپس آ گئی اسے چائے کی طلب ہو رہی تھی اور چینی کا ڈبہ بہت اونچائی پر پڑا تھا
شہر یار تو اسے کوئی کام نہیں کرنے دیتا تھا لیکن وہ اپنی عادت سے مجبور اپنے کام خود ہی اپنے ہاتھوں سے کرتی تھی
وہ واپس کچن میں آئی تو چینی کا ڈبہ نیچے رکھا ہوا تھا
ملازمہ کے آنے کا ابھی وقت نہیں ہوا تھا اور گھرمیں شہریار اور اس کے علاوہ کوئی نہ تھا
ڈبہ نیچے دیکھ کر بے اختیار مسکرا دیں اب اسے ان سب چیزوں کی عادت ہو چکی تھی
ساریسہ اس کے نہیں بلکہ اپنے بچے کا خیال رکھتی تھی
اسے آہستہ آہستہ ساریسہ گہری باتوں کا مطلب سمجھ چکا تھا ۔
شہریار کی پہلی اولاد پر ساریسہ کا حق تھا یہ بات وہ سمجھ چکی تھی

Mirh@_Ch
 

اس کا ارادہ شہریار یا کسی اور کو بلانے کا تھا جو بیگ نیچے رکھ کے گاڑی میں
لیکن جب وی گاڑی تک پہنچی اس کے سارے بیگ پہلے ہی گاڑی میں موجود تھے
شہریار یہ بیگ تم نے رکھوائے وہ پریشان تھی وہ تو انہیں کمرے میں چھوڑ کے آئی تھی تو اس سے پہلے یہ بیگ یہاں کیسے پہنچے
نہیں مہر سارے ملازم تو دوسری طرف ہے یہ یہاں کس نے رکھے وہ اس کے قریب آ کر پوچھنے لگا اس نے مہر کو کوئی بھی بھاری کام کرنے سے منع کیا تھا
مہر پریشان سی واپس جانے لگی جب ہوا کے ایک جھونکے نے اس کے کان میں سرگوشی کی ۔
اس نے مڑکر شہریار کو دیکھا جو مسکرا رہا تھا
دونوں کے لبوں سے ایک سرگوشی نمایاں ہوئی
ساریسہ ۔۔اور وہ دونوں بے اختیار مسکرا دیئے

چھ ماہ بعد۔
شہریار یہاں آؤ دیکھو چینی کا ڈبہ بہت اونچا پڑا ہے یہاں نیچے تھی وہ ختم ہو گئی ہے پلیز اٹھا دو

Mirh@_Ch
 

تین ماہ بعد۔
ساریسہ کا خوف ختم ہو چکا تھا تین مہینے ہو چکے تھے اس حویلی میں رہتے ہوئے وہ اپنے ماں باپ کے ساتھ رہ رہا تھا اور آج واپس کینیڈا جانے والا تھا
زیان اور منال کی شادی دھوم دھام سے ہوئی تھی جس کی ساری تیاری شہریار اور مہر نے کی تھی
شہریار اس کا بہت خیال رکھا تھا اور سکندر اور آسیہ اسے کسی کام کو ہاتھ نہ لگانے دیتے
لیکن اب انھیں واپس جانا تھا کیونکہ وہاں شہریار کا بزنس پھیلا ہوا تھا جسے سنبھالنا اس کے لیے بہت ضروری تھا
آسیہ اور سکندر نے وعدہ کیا کہ وہ کچھ ماہ میں ہی وہاں آ جائیں گے اور مہر کی ڈلیوری سے پہلے ہی وہ ہمیشہ کے لئے واپس پاکستان آنے کا ارادہ رکھتے تھے ۔
مہر اپنا سارا سامان کر چکی تھی لیکن بیگ وزنی ہونے کی وجہ سے اس سے اٹھایا نہیں جا رہا تھا
اس نے وہی پیڈ پر رکھے اور باہر نکل آئی

Mirh@_Ch
 

وہ آنکھوں میں آنسو لیے مسکراتے ہوئے کہتے غائب ہو چکی تھی ۔
جب کہ اس کھڑکی کے قریب شہریار اور مہردونوں کی نگاہیں اسے تلاش کر رہی تھی
کیا وہ چلی گئی شہریار ۔۔۔؟
مہر نے پوچھا تو شہریار نے خاموشی سے اسے اپنے سینے سے لگا گیا۔ وہ خود بھی یقین نہیں کر پا رہا تھا

سکندر صاحب کی زندگی کی بس ایک ہی خواہش کی وہ بس ایک بار آخری بار پریام سے ملیں لیکن اب یہ ممکن نہ تھا
لیکن یہ بھی سچ ہے کہ پریام کے عشق کی کوئی انتہا نہ تھی وہ ایک رات چپکے سے اس کے خواب میں آئی
جہاں سکندر نے رو رو کر اس سے معافی مانگی تھی
سکندر کی غلطی بہت بڑی تھی اس کی وجہ سے ایک پری اپنی ہر خواہش کو ادھورا چھوڑ کر ساری زندگی کے لیے قید ہوگئی
اب اس کی رہائی ممکن نہ تھی ۔
پھر بھی اس نے سکندر کو معاف کردیا تھا
شاید عشق سزا نہیں دیتا ۔اور ایسا ہی عشق پریام نے کیا تھا

Mirh@_Ch
 

کبھی مجھ سے محبت نبھانے کا وعدہ نہیں کیا یہ تو بس میرا عشق تھا جو مجھے تمہارے ساتھ قید رکھے ہوئے تھا
لیکن اک پری زاد کبھی اپنی سوتن کو قبول نہیں کر سکتی میرے بزرگوں نے مجھے بدلے کے لئے استعمال کیا میں نے اپنا فرض نبھاتے ہوئے تم سے عشق کیا ہے لیکن شاید میرے نصیب میں یہ عشق لکھا ہی نہیں ہے
میں تم سے سب کچھ چھین سکتی ہوں لیکن یہ خوشی نہیں
جاؤ کیا یاد کرو گی مہر ۔ایک پری ذاد نے تمہیں اپنا عشق دے دیا لیکن اپنے آپ کو تنہا مت سمجھنا میں ہر پل تمہارے ساتھ ہوں شہریار۔۔مہر تمہاری کوکھ سے جنم لینے والے پہلے بچے پر میرا حق ہوتا ہے
اور اسے تم مجھ سے چھین نہیں پاؤ گی ۔
شہریار اور مہر خاموشی سے اس کی باتیں سن رہے تھے لیکن اس کی باتوں کی گہرائی کا مطلب نہیں جانتے تھے
جاؤ مہرشہر یار تمہیں میرا عشق مبارک ہو

Mirh@_Ch
 

چلی جاؤں گی شہر یار لیکن تنہا نہیں تمہیں ساتھ لے کر اور وہ بھی اس کی جان لے کر بس تم ایک بار میرے ساتھ چلو مجھ سے زیادہ خوش تمیہں اس دنیا میں کوئی نہیں رکھ سکتا ۔
اس کی جان تو میں آج لے کر رہوں گی یہی ہمارے بیچ دیوار بنی ہوئی ہے ۔ شہریار کا ہاتھ جھٹکتے ایک بار پھر سے مہر پر حملہ کرنے لگی
ایسا مت کرو ساریسہ وہ ایک نہیں دو دو جانیں ہیں اس کی کوکھ میں میرا بچہ پل رہا ہے شہریار نے چلاتے ہوئے کہا جب ساریسہ کے ہاتھ سے پھول نیچے دیا
وہ بے یقینی سے اسے دیکھنے لگی ۔
ہاں وہ چاہے کتنے بے گناہ کرلے لیکن ایک معصوم سے دنیا میں آنے کا حق میں ہی چھین سکتی تھی
اس نے مہر کو ایک نظر دیکھا آنکھوں سے آنسو بہنے لگے ۔
وہ خاموشی سے قدم اٹھاتی پیچھے کی طرح آئی
تم نے ٹھیک کہا۔
تم نے کبھی مجھ سے محبت نہیں کی

Mirh@_Ch
 

اس سے پہلے کہ وہ مہر کے اسے نقصان پہنچاتی کوئی اس کا ہاتھ تھام چکا تھا
اس نے فورا پیچھے مڑ کر دیکھا جہاں شہریار اس کا ہاتھ اپنی پوری قوت سے تھام کر کھڑا تھا
بس کر دو ساریسہ جینے دو ہمیں میرے بابا کی غلطی کی سزا تم ان کی جان لینے کی کوشش کرکے دے چکی ہو
تم نے میرے دادا کو مار ڈالا تم نے میری دادی کو مار ڈالا تم نے اس معصوم ملازمہ کی جان لے لی کی اب بس کر دو ہم لوگوں نے تمہارا کیا بگڑا ہے کیوں کر رہی ہو یہ سب کچھ میں کبھی تمہارا نہیں ہوں سکتا میں نے کبھی تمہیں نہیں چاہا تم صرف میری بے چینی کی وجہ بن کر میری زندگی میں آئی ہو تم کبھی میری نہیں ہواور نہ ہی میں عام انسان ہو کر ایک پریوں کی دنیا میں رہ سکتا ہوں میں عام انسان ہوں ساریسیہ مجھے ایک عام انسان رہنے دو چلی جاؤ ہماری زندگی سے
وہ ہاتھ باندھے بولا

Mirh@_Ch
 

شہریار دوائیوں کے زہر اثر گہری نیند سو رہا تھا جب کہ وہ اس کے پاس بیٹھی آہستہ آہستہ اس سے باتیں کر رہی تھی
جب اسے محسوس ہوا کہ کوئی نفرت بڑی نگاہوں سے اسے دیکھ رہا ہے اس نے فوراً اپنی دائیں جانب دیکھا
جہاں وہ بیٹھی اسے گھور رہی تھی
اسے دیکھتے ہی مہرنے شہریار کا ہاتھ چھوڑ دیا
تم واپس آ گئی میں نے منع کیا تھا میرےشہر یار کی زندگی میں واپس مت آنا ۔
منع کیا تھا نہ میں نے لیکن تمہیں میری بات سمجھ میں نہیں آئی تھی تمہیں اپنی جان پیاری نہیں ہے لڑکی
ساریسہ نے چلاتے ہوئے ایک زور دار تھپڑ مہر کے منہ پر دے مارا
مہر اس تھپڑ کی تاب نہ لاتے ہوئے دور جا گری
آج میں تمہیں اپنےاور شہریارکے بیچ سے ہمیشہ کے لئے ہٹا دوں گی وہ غصے سے اٹھ کر اس کے قریب آئی اور اپنا بھول نکالا
اس کا ارادہ آج مہرکی جان لینے کا تھا

Mirh@_Ch
 

اور عابد پھر کسی پیر صاحب کو بلانے گیا تھا تاکہ ان مسائل کا کوئی حل نکل سکے ۔
شہریار کی حالت بہت خراب تھی مہر نے بہت مشکل سے ماما بابا کو گھر بھیجا تھا وہ اسے چھوڑ کر نہیں جانا چاہتے تھے لیکن آرام بھی ضروری تھی مہر نے زیان بھی واپس جانے کے لیے کہا
وہ جانے کے لئے راضی نہیں ہو رہا تھا لیکن مہر کی ضد کے سامنے ہار گیا

اس وقت مہرشہر یار کے پاس کرسی رکھے بیٹھی تھی جب کہ اس کی گردن پر پٹی بندھی ہوئی تھی ۔
کتنی تکلیف ہوئی ہوگی اسے کتنے درد میں ہوگا وہ اس کی حالت دیکھ کر مہر کو بار بار رونا آ رہا تھا ڈاکٹر نے بہت مشکل سے اسے شہریار کے پاس بیٹھنے کی اجازت دی تھی
شہر یار پلیز واپس آ جاؤ ہم تمہارے بغیر نہیں جی سکتے ۔سوچو جب کل ہمارا بچہ اس دنیا میں آئے گا میں اور تم مل کر اس کا خیال رکھیں گے اس کی پرورش کریں گے اس کو ایک اچھا انسان بنائیں گے

Mirh@_Ch
 

وہ اس سے کیا نفرت کرے گا
نفرت کا احساس بھی وہاں پیدا ہوتا ہے جہاں عشق بے پناہ ہو ۔اور ساریسہ شہر یار سے بے پناہ عشق کرتی تھی

جی ان کو ہوش آگیا ہے وہ اب کومہ سے باہر نکل آئے ہیں لیکن جان اب بھی خطرے میں ہے ان کا بہت سارا خون ضائع ہو چکا تھا لیکن ہم اپنی پوری کوشش کر رہے ہیں آپ لوگ بھی دعا کیجئے
ان چار دنوں میں آج پہلی بار ان کی حالت میں تھوڑا سا سدھار آیا ہے ۔
ڈاکٹر نے باہر آکر خوشخبری کے ساتھ ساتھ بری خبر بھی سنائی تھی شہریار کی جان اب بھی خطرے میں تھی ۔
آسیہ مصئلے پر بیٹھیں مسلسل اپنے بچے کے لیے دعائیں مانگی تھیں ڈاکٹر کی خبر نے سکندر صاحب کو تھوڑا پر سکون کیا تھا
جبکہ مہر کے آنسو ختم ہونے کا نام نہیں لے رہے تھے ۔
ایسے میں زیان نے دوست ہونے کا فرض نبھاتے ہوئے سب کو سنبھال رہا تھا ۔

Mirh@_Ch
 

اگر سکندر کی طرح شہریار نے بھی نکاح نہ کیا ہوتا تو تمہیں بھی پریام کی طرح ساری زندگی کے لیے قید کر دیا جاتا
تم بھی ہمیشہ کے لیے قیدیوں کی زندگی گزارتی واپس آجاؤ ساریسہ اب بھی وقت ہے اور دعا کرو کہ شہریار بچ جائے
کیوں کہ اگر اسے کچھ ہوگیا تو تم سے تمہاری پریوں کی ساری طاقتیں چھین لی جائیگی ۔
نہیں اسے کچھ نہیں ہوگا میں اسے کچھ نہیں ہونے دوں گی میں شہریار کو واپس لاونگی میں اسے بچاکر اپنے ساتھ لاؤں گی میں اسے یوں نہیں چھوڑوں گی وہ میرا ہے اس پر میرا حق ہے وہ جنونی انداز میں بولی ضد ایک بار پھر سے سر اٹھا چکی تھی
بزرگ اسے سمجھا سمجھا کر تھک ہار چکے تھے مگر وہ اپنی ضد کی پکی تھی اسے شہریار چاہیے تھا کسی بھی قیمت پر وہ غصے میں اس پر حملہ کر بیٹھی تھی لیکن عشق مرتا نہیں نفرت آسان نہیں ہوتی اور جس نے زندگی کے ہر پل کے ساتھ کسی سے عشق کیا ہو

Mirh@_Ch
 

اسے میرے لیے بنایا گیا تھا اسے مجھے دیا گیا تھا تو کیوں اسے مجھ سے چھینا جا رہا ہے
وہ تڑپتے ہوئے بولی
کیونکہ تم نے غلطیاں کی ہیں ساریسہ اور غلطیوں کی سزا ہوتی ہے ۔
تم نے پہلے اس کے دادا دادی کو مار ڈالا پھر اس ملازمہ کا قتل ہمیں آدم زاد کی حفاظت کے لیے بنایا گیا تھا ان کی جان لینے کے لئے نہیں
اگر تین قتل کرنے کے بعد بھی تم اسے مانگتی ہو تو وہ تمہیں نہیں ملے گا تمہیں شہریار کی اجازت ملنے کے بعد اپنے گھر واپس آ جانا چاہیے تھا نہ کہ وہیں رک کر اپنی ضد پر قائم رہنا چاہیے تھا
جو غلطیاں تم کر چکی ہو اس کے بعد شہریار ویسے بھی تمہیں نہیں مل سکتا شہریار یہاں آنے سے انکاری ہے ۔تم اسے زبردستی نہیں لا سکتی
تم اسے حاصل نہیں کرسکتی بھول جاؤ اسے اور واپس آ جاؤ ۔شکر کرو کہ تم شہریار کے نکاح میں ہو اور اب بھی اپنی گدی پر حکومت کر سکتی ہو