شہریار پر حملہ کرنے کے بعد ساریسہ کہاں گئی تھی کوئی نہیں جانتا تھا لیکن وہ واپس نہیں آئی تھی
پھر بھی اس کا خوف اس وقت بھی سکندر اور آسیہ کے آگے پیچھے منڈا جا رہا تھا ان لوگوں کو کسی پل سکون نہ تھا
پتا تھا تو بس اتنا کہ ساریسہ اگر عشق میں جان دے سکتی ہے
تو نفرت میں جان لینے میں بھی ایک پل نہیں لگائے گی
وہ کسی بھی وقت شہریار کی جان لے سکتی تھی ۔
❤
یہ تم نے کیا کیا ساریسہ اپنے ہی شوہر کو جان سے مارنے کی کوشش کی یہ تھا تمہارا عشق یہ تھی تمہارے بائیس سال کی تڑپ یہ تھا تمہارا انتظار
اس کے لیے پکارتی تھی تم اس کو ۔۔
تو میں کیا کرتی وہ کہتا ہے وہ مجھ سے محبت نہیں کرتا وہ اس مہر کو چاہتا ہے وہ کہتا ہے وہ مجھ سے کبھی محبت نہیں کر سکتا وہ کہتا ہے وہ کبھی میرے ساتھ نہیں آئے گا وہ ساریسہ کا ہو کر ساریسہ کو اپنانے سے انکار کر رہا ہے
#عشق
#قسط20
#آخری_قسط
❤(
❤
زیان اور مہر ہسپتال پہنچے تو شہریار کو ابھی تک ہوش نہیں آیا تھا اسے بے ہوش ہوئے 72 گھنٹے ہوچکے تھے ڈاکٹر نے کہا تھا کہ اگر مزید 24 گھنٹے میں اسے ہوش نہ آیا تو اس کی جان بچانا بہت مشکل ہو جائے گا
مہر کو واپس دیکھ کر اسیہ اور سکندر پریشان ہو چکے تھے وہ جانتے تھے کہ وہ شہریار کے لیے کتنی خاص ہے وہ ان کے لیے بھی خاص ہو چکی تھی وہ اسے بالکل اپنی سی بیٹی کی طرح محبت کرنے لگے تھے
اور اس طرح سے اچانک مہر کی واپسی نے انہیں بھی پریشان کر دیا تھا
فی الحال وہ نہیں چاہتے تھے کہ مہراور ساریسہ کا سامنا ہو ۔
میں کچھ نہیں جانتی میرے شوہر کی جان خطرے میں ہے اسے میری ضرورت ہے مجھے جانا ہے جانے دیں میں آپ کے سامنے ہاتھ جوڑتی ہوں زیان بھائی
وہ اس کے سامنے ہاتھ جوڑ کر التجا کرنے لگی اور اس کی جوڑے ہاتھوں کو دیکھ کر زیان بے بس ہو گیا وہ خود بھی تو شہر یار کو دیکھنے کے لئے تڑپ رہا تھا
اس پر جان لیوا حملے کا سن کر زیان بہت پریشان ہو چکا تھا ایک ہی تو دوست ہے اس کا جس کے بغیر رہ نہیں سکتا تھا اور اب وہ زندگی اور موت میں جنگ لڑ رہا تھا وہ اپنی دوستی کا فرض مہر کا خیال رکھ لر نبھا رہا تھا
لیکن شہریار سے اتنا دور رہ کر وہ خود کو بے بس محسوس کر رہا تھا اسی لیے اس نے شہر یار کا وعدہ توڑ دیتے ہوئے مہر کو اپنے ساتھ پاکستان لے جانے کا فیصلہ کیا
❤
تو اسے جان سے مار دے گی اور اس نے ایسا ہی کیا
اور اگر وہ بچ گیا تب بھی وہ اس کی جان نہیں چھوڑے گی وہ واپس آئے گی اور پھر سے مارنے کی کوشش کرے گی کیونکہ اب وہ ساریسہ کے دل سے اتر چکا تھا
ہاں شہریار کے لفظوں نے ساریسہ کو اس سے نفرت کرنے پر مجبور کر دیا تھا
اب اس کا مقصد شہریار کو حاصل کرنا نہیں بلکہ اس کی جان لینا تھا ۔
❤
پلیز مجھے جانے دو زیان خدا کے لیے شہر یار ہسپتال میں اس کی جان خطرے میں ہے پلیز مجھے جانے دو مہر نے روتے ہوئے کہا
آج بھی آسیہ نے فون پر اسے بتایا تھا کہ ساریسہ نےشہریار پر جان لیوا حملہ کیا ہے اور تب سے ہیں وہ بن پانی کے مچھلی کی تڑپ رہی تھی
بھابھی سمجھنے کی کوشش کریں آپ بیمار ہیں شہریار نے مجھے آپ کا خیال رکھنے کے لیے کہا ہے میں اس طرح سے آپ کو نہیں جانے دے سکتا
22 سال کی پریوں کی زندگی چھوڑ کر قیدی کی زندگی گزاری کس کے لئے تمہارے لئے اور تم مجھ سے نفرت کرتے ہو ۔۔۔۔
اگر تم مجھ سے نفرت کرتے ہو تو تمہیں جینے کا کوئی حق نہیں اگر تم میرے نہیں ہو سکتے تو میں تمہیں کسی اور کا نہیں ہونے دوں گی ۔
جو میرا ہے وہ صرف میرا ہے اگر میرا نہیں تو کسی کا نہیں ساریسہ کہتے ہوئے اس کے بالکل قریب آ چکی تھی اور اس کا پھول اسی گردن پر وار کرتے ہوئے خنجر کا روپ دھار چکا تھا ۔اور دیکھتے ہی دیکھتے فرش شہریار کے خون سے سرخ ہو گیا
❤
اس پر وار کرنے کے بعد وہ غائب ہوگئی وہ کہاں گئی کوئی نہیں جانتا تھا لیکن شہریار کی حالت بہت بگڑ چکی تھی ۔
سکندر صاحب اسے ہسپتال لے گئے جب کہ آسیہ بیگم نے رو رو کر اپنا حال خراب کر لیا تھا
جس بات کا ڈر تھا وہی ہوا نکاح کے برد ان بزرگوں نے کہا تھا کے اگرساریسہ شہریار کو حاصل نہ کر سکی
تم مجھے مارنا چاہتے ہو اس شخص کے لئے جو ہمیں الگ کرنا چاہتا ہے تم مجھ سے نفرت کرتے ہو اس کے لیے جو اپنا عشق تک نہ نبھا سکا تم مجھ سے نفرت کرتے ہو جو 22 سال پر تمہارا انتظار کرتی رہی جو تمہارے ایک حکم پر ایک کمرے میں بند رہی اس سے نفرت کرتے ہو تم تم ۔۔۔۔
ہاں نفرت کرتا ہوں میں تم سے نفرت ہے مجھے تم سے بے تحاشہ نفرت ہے شہریار کی دھار نےسکندر صاحب کی آنکھ کھول دی
مجھ سے نفرت کرتے ہو تم ۔۔۔۔۔مجھ سے اگر تم میرے نہیں ہو سکتے شہریار تو تمہیں کسی کا نہیں ہونے دوں گی ۔۔
اگر میں نے مزید قتل کیا تومجھ سے پریوں کی طاقت سے چھین لی جائیں گی لیکن مجھے غم نہیں تھا اسے مارنے کا لیکن اب میں اسے نہیں تمہیں ختم کرو۔ گی جس کے لیے میں نے اتنا کچھ کیا تھا
میں نے 22سال انتظار کیا 22 سال ایک کمرے میں قیدر ہی
اس کا ارادہ آج ان کا قصہ تمام کرنے کا اسے سب کا قصور وار صرف اور صرف سکندر لگتا تھا
اس نے اپنا گلابی پھول نکالا لیکن اس سے پہلے کے وہ سکندر پر ایک بار پھر سے وار کرتی اچانک کمرے کی لائٹ آن ہوئی
کیا کرنے جا رہی تھی تم وہ دوڑتے ہوئے اس کے پاس آیا اور اسے دھکا دے کر پیچھے کی طرف دکھیلا
میں اس کی جان لینے والی تھی شہریار یہ ہم دونوں کے بیچ آ رہا ہے اسے مر جانا چاہیے ۔وہ جنونی انداز میں بولی
خبردار جو تم نے میرے بابا کو مارنے کی کوشش کی میں تمہیں جان سے مار ڈالوں گا اس کے انداز نے شہریار کو بھی غصہ دلادیا ۔
لیکن اس کے غصے کی پرواہ ساریسہ کونہ تھی۔
بلکہ اس کی دوپہر والی باتیں ابھی تک وہ اپنے دل پہ لیے بیٹھی تھی کتنی آسانی سے اس نے کہہ دیا تھا کہ وہ اس سے نفرت کرتا ہے جس سے عشق کی اس نے انتہا کر دی تھی
پھر سے آواز آئی گی ساریسہ کو کوئی پروا نہ تھی وہ اس پکار کو سننا ہی نہیں چاہتی تھی وہ اب بھی اپنی ضد پر قائم تھی اسے شہریار چاہیے تھا کسی بھی قیمت پر ہو ایک عام سی لڑکی کے سامنے یوں ہار نہیں سکتی تھی وہ اس سے زیادہ خوبصورت تھی اس سے زیادہ طاقتور تھی اس سے زیادہ اسے خوش رکھ سکتی تھی ۔
تو وہ اس سے کیوں ہارتی وہ کسی بھی قیمت پر مہر سے ہارنے کے لیے تیار نہ تھی۔
لیکن یہ آوازیں یہ پکارے اسے تنگ کر رہی تھی اس کا حوصلہ بڑھانے کی بجائے گٹا رہی تھی ۔
❤
یہ سب کچھ تمہاری وجہ سے ہوا ہے سکندر کم تمہاری دنیا میں نہیں بلکہ تم ہماری دنیا میں آئے ہو تم نے سب کچھ برباد کیا ہے اب تمیں اس کی سزا ملے گی
میں تمہاری جان لے لوں گی اور شہریار کو یہاں سے ہمیشہ کے لئے لے کر چلی جاؤں گی ۔
وہ سکندر صاحب کے قریب کھڑی تھی جب وہ کے گہری نیند سو رہے تھے
نہیں ساریسہ ہار مان جاؤ وہ تمہارا کبھی نہیں ہو سکتا وہ کسی اور کا ہے کسی اور سے محبت کرتا ہے
اس نے کبھی تمہیں نہیں چاہا بزرگ کی آواز آئی ۔
لیکن میں اسے چاہتی ہوں وہ میرا شوہر ہے میں اسے اپنے ساتھ لے کے جاؤں گی ساریسہ اپنی چیزیں کسی کو نہیں دیتی وہ پھر ست بدتمیزی اور غصے سے بولی
ساریسہ میں مانتا ہوں میں قصور وار ہوں تمہارا اپنی بیٹی کا بدلا لینے کے لئے میں نے تمہاری قربانی تھی مجھ سے غلطی ہوگئی اس گناہ کی سزا مجھے مل چکی ہے میری بیٹی جو کبھی میرے خوابوں میں آکر مجھ سے بات کرتی تھی وہ بھی چھوڑ چکی ہے وہ مجھ سے نفرت کرتی ہے کیونکہ میں نے اس کے سکندر سے بدلہ لینے کی کوشش کی
میں نے اس کے عشق کی توہین کی لیکن خدا کے لئے تم چھوڑ دو ہار مان جاؤ ساریسہ وہ تمہارا کبھی نہیں ہو سکتا وہ تم سے نفرت کرتا ہے ۔
وہ کچھ بھی کر سکتی تھی اس کی فیملی کو نقصان پہنچا سکتی تھی اور یہ نہیں چاہتا تھا
اگر وہ اسے نقصان پہنچتی ہے تو ٹھیک ہے وہ ہنس کر اپنی فیملی کے لئے قربانی دے سکتا تھا لیکن اب مہر کے بارے میں سوچ رہا تھا کہ ایسے موڑ پر اسے تنہا نہیں چھوڑ سکتا تھا اس نے ان سب چیزوں سے بچنے کے لیے اپنی فیملی کو محفوظ رکھنے کے لئے ساریسی کی بات ماننے کا فیصلہ کیا تھا لیکن وہ فیصلہ بھی وہ نہیں ماننے والا تھا
اب اس نے صرف اپنی فیملی کی ہی نہیں بلکہ اپنی بھی جان کی حفاظت کرنی تھی ۔
اپنے بچے کے لئے اپنی مہر کے لیے ۔اپنے ماں باپ کے لیے ۔
❤
نہیں میں نہیں ہاری ہوں میں نہیں ہار سکتی وہ چاہے مجھ سے نفرت کرے لیکن میں پھر بھی اسے اپنے ساتھ لے کے جاؤں گی ساریسہ نے کبھی ہار ماننا نہیں سیکھا
اور وہ اپنے عشق ہار جائے یہ ناممکن ہے وہ چلاتے ہوئے بولی
وہ 22 سال سے لوگوں کے بیچ میں رہی تھی اب اس کا یہاں کوئی کام نہیں تھا
لیکن شہریار کے بغیر وہ نہیں جا سکتی تھی وہ نہیں ہار سکتی تھی وہ پریام نہیں ساریسہ تھی اس نے ہار ماننا نہیں سیکھا تھا اسے کسی بھی حالت میں شہریار چاہے تھا
❤
شہریار بہت خوش تھا اپنے ہونے والے بچے کے بارے میں سن کر اس کی خوشی کی کوئی انتہا ہی نہ تھی ۔
لیکن وہ اپنی یہ خوشی کی اپنے ماں باپ سے شیئر نہیں کر رہا تھا کیونکہ وہ نہیں چاہتا تھا کہ کسی بھی طرح سے یہ بات ساریسہ کو پتہ چلے اور وہ مہر کو دوبارہ نقصان پہنچانے کی کوشش کرے
اب وہ مہر پر رسک نہیں لینا چاہتا تھا ۔
پیر صاحب نے کہا تھا کہ وہ بار بار اس کے سامنے اپنی نفرت کا اظہار کرے کہ وہ اس سے بد دل ہو جائے لیکن اس کو اس بات کا بھی خیال رکھنا تھا کہ کہیں وہ غصے میں کوئی اور بڑا قدم نہ اٹھائے
#عشق
#قسط19
❤(
❤
واپس آجاؤ ساریسہ بہت ہو چکا ہے وہ تم سے محبت نہیں کرتا وہ تم سے نفرت کرتا ہے تمہارے ساتھ آنے سے انکار کر چکا ہے اب اس سب کا کوئی فائدہ نہیں یہ ضد چھوڑ دو اور واپس آ جاؤ اس دنیا میں تمہارا کوئی کام نہیں یہ دنیا تمہارے لیے نہیں بنائی گئی
ساریسہ کے کان میں آواز گونج رہی تھی لیکن اس پر جنون سوار تھا اسے شہریار چاہیے تھا کسی بھی قیمت پر
شہریار ساریسہ سے نفرت کا اظہار کر چکا تھا تب سے ہی وہ بہت بے چین تھی۔
اس سے واپسی کا بلاوا آرہا تھا سب اسے وہاں پکار رہے تھے اسے باہر آنے کی اجازت اس کے شوہر نے دی تھی اسے گھر واپس جانا تھا
شہریار
ہم تمہارے بغیر کیسے رہیں گے شہر یار میں تم پے کوئی زمہداری نہیں ڈال رہی بس اتنا کہنا چاہتی ہوں کہ کوئی بھی فیصلہ کرنے سے پہلے ہم سب کے بارے میں ایک بار سوچ لینا مہے نے روتے ہوئے فون بند کر دیا جب کہ شہریار بس بند فون تو دیکھ رہا تھا
وہ صرف تمہارے نہیں میرے بھی والدین ہیں مہر فون پر رونے لگی
مہر میں بہت تنہا ہو گیا ہوں اس لڑکی نے میرا جینا حرام کر دیا ہے وہ مجھے اپنے ساتھ ہی لے کر جانا چاہتی ہے اور اگر میں نے اس کی بات نہیں مانی تو وہ گھر والوں کو مزید نقصان پہنچائے گی ۔
مجھے لگتا ہے کہ مجھے اس کی بات ماننی پڑے گی اگر میں اس کے ساتھ چلا گیا تو وہ سب کچھ چھوڑ دے گی سب لوگوں کی زندگی آسان ہو جائے گی شہریار کمرے کے اندر داخل ہوتے ہوئے کمرہ بند کر چکا تھا
تو میرا کیا ہو گا شہریار
میں تمہارے بغیر کیسے رہوں گی ہمارا بچہ تمہارے بغیر کیسے رہے گا مہر کی روتی ہوئی آواز آئی
شہریار کو لگا جیسے اس نے کچھ غلط سنا ہے
شہر یار ایم پریگنینٹ میری طبیعت خراب تھی تو زیان زبردستی مجھے ہسپتال لے گیا ہمارا بچہ اس دنیا میں آنے والا ہے
مجھ سے زیادہ تمہیں اور کوئی خوش نہیں رکھ سکتا
میرے راستے سے ہٹ جاؤ میں آرام کرنے اپنے کمرے میں جانا چاہتا ہوں شہریار نے نظر اٹھا کر بھی اس کی طرف نہ دیکھا اس کی ہی بات ساریسہ کو تڑپا رہی تھی
شہریار بنا اس کی طرف دیکھے ہوئے آگے بڑھنے لگا جب اس کا فون بجا
مہر کا فون دیکھ کر اسے عجیب سا سکون مل رہا تھا مہر کو گئے ہوئے اکیس دن ہو چکے ہیں
اور اب تک اس نے نہ تو مہر کا حال پوچھا تھا اور نہ ہی اسے فون کیا تھا وہ اسے کسی قیمت پر نقصان نہیں پہنچا سکتا تھا
لیکن اب اس کا فون آتا دیکھ کر وہ خود بھی تڑپ اٹھا
مہر میری جان کیسی ہو تم اس نے فون اٹھاتے ہوئے پوچھا
میں بالکل ٹھیک ہوں شہریار تم کیسے ہو ماما اور بابا کیسے ہیں ۔مہرنے پوچھا
اسے ساریسہ نے ان پر حملہ کیا ہے شہریار تم مجھے کچھ بتاتے کیوں نہیں ہوں کیوں مجھے ان سب باتوں سے دور رکھے ہوئے ہو
ان دو ہفتوں میں وہ ہسپتال میں ہی رہا آسیہ کی حالت اور ٹھیک ہوئی تو اس نے بتایا کہ ساریسہ نے اس پر حملہ کیا تھا
اور وہ ہر اس انسان کو مار دے گی جو شہریار اور اس کے بیچ میں آئے گا
یہ جان کر شہریار کو اس سے اور بھی زیادہ نفرت ہونے لگی تھی
آج پندرہ دنوں کے بعد وہ اپنے والدین کو واپس گھر لے کے آیا تھا لیکن وہاں پر ساریسہ کو دیکھ کر اسے پھر سے غصہ آنے لگا اس کا دل چاہا کہ اسے جان سے مار دے
اسے واپس پہنچنے کا اس کے پاس کوئی راستہ نہ تھا ۔
لیکن وہ اپنے انکار پر قائم تھا ۔
اپنے ماں باپ کمرے میں چھوڑ کر وہ کمرے سے باہر آیا تو ساریسہ اس کا انتظار کر رہی تھی
پہلے 22 سال پھر یہ پندرہ دن تم چاہتے ہو میں تمہارے لیے تڑپتی رہوں تو مجھے یہ بھی منظور ہے شہریار بس ایک بار میرے ساتھ چلو میں تمہیں زندگی کی ہر خوشی دوں گی
شہریار بہت پریشان تھا جب عابد نے اس کے کندھے پر اپنا ہاتھ رکھا ۔
اور وہ بنا سوچے سمجھے ان سے لپٹ کر کسی بچے کی طرح رونے لگا
مجھے یہاں آنا ہی نہیں چاہیے تھا عابد بابا میں نے بہت بڑی غلطی کر دی میرے ماں باپ نے مجھے وہاں رکھا تھا تاکہ میں محفوظ رہ سکوں لیکن میں نے ان کی بات نہیں مانی میں اپنی ضد میں یہاں آگیا اور اپنا سب کچھ کھو رہا ہوں
میں اپنے ماں باپ کو مرتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا کاش سب کچھ پہلے جیسا ہو جائے میں واپس چلا جاؤں گا میں کبھی پاکستان نہیں آؤں گا بس میرے ماں باپ کو زندگی مل جائے وہ عابد سے لپٹے مسلسل رو رہا تھا جب کہ عابد اس کی حالت پر اسے حوصلہ دے رہا تھا
❤
وہ دو ہفتے کے بعد سکندر صاحب کوگھر واپس لایا تھا اور ان دو ہفتوں میں اس نے ساریسہ کو کہیں نہیں دیکھا تھا وہ واپس نہیں آیا تھا
دفع ہو جاو۔ ۔وہ چلایا۔
اور بنا پلٹ کر دیکھے سکندر کو اٹھا کر باہر کی طرف بھاگ گیا
❤
عابد نے ڈاکٹر اور پولیس کو بڑی مشکل سے مطمئن کیا تھا یہ ایک جان لیوا حملہ تھا جس پر کوئی ڈاکٹر ہاتھ نہیں رکھ رہا تھا
سکندرصاحب کی حالت بھگرتے دیکھ کر ڈاکٹر نے ان کا علاج شروع کر دیا لیکن پولیس ان کی جان نہیں چھوڑی تھی جن کا کہنا تھا کہ ان پر جان لیوا حملہ ہوا ہے
پولیس نا تو کسی پری کی داستان پر یقین رکھتی تھی اور نہ ہی کسی جادوئی کہانی پر انہیں ہر چیز کا ثبوت چاہیے تھا
وہ تو عابد نے ایک پولیس والے کو رشوت کا لالچ دے کر وہاں سے ہٹایا
اس وقت ایک کمرے میں اس کا باپ اور دوسرے کمرے میں اس کی ماں تھی اس نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ اس کی ماں باپ کی زندگی اس کی وجہ سے کتنی مشکل میں پڑ جائے گی
نہ جانے مہر کی حالت میں ہوگی
شہریار بہت پریشان تھا
تم ہمیشہ کے لئے میرے ہو جاؤ گے ہاں شہریار میرا اگلا شکار تمہارا باپ ہوگا
پھر ہمارے بیچ اور کوئی نہیں آئے گا وہ غصے سے بول رہی تھی جب سکندر صاحب کمرے کے اندر داخل ہوئے
اس سے پہلے کے شہر یار کچھ سمجھ پاتا ساریسہ نے ایک پھول نکالا اور ان کی طرف بھرنے لگی ایک گلاب پھول سے وہ ان کا کیا بگاڑ سکتی تھی یہ شہریار کی سوچ تھی
لیکن دیکھتے ہی دیکھتے سارسیہ نے اس پھول کوسکندر صاحب کے گر دن پر چلا دیا
اور وہ نازک ساپھول خنجر کی دھار کی طرح ان کا گلا کاٹ چکا تھا
شہریار فور ان کی طرف بھاگا
اور اپنے باپ کو گرنے سے تھام لیا
بابا یہ کیا ہوگیا ہے آپ کو بابا آنکھیں کھولے آپ کو کچھ نہیں ہو گا میں ابھی آپ کو ہسپتال لے کے جاؤں گا سکندر کی حالت دیکھ کر شہریار بری طرح سے بوکھلا کر رہ گیا
دفع ہو جاؤ یہاں سے نفرت ہے مجھے تم سے تمہاری شکل تک نہیں دیکھنا چاہتا
میں تمہیں محبت سے سمجھاؤں گا لیکن تم محبت کے قابل ہی نہیں ہو ساریسا تم سے محبت نہیں کی جا سکتی تم سے صرف نفرت کی جا سکتی ہے
وہ ہارتے ہوئے بولا
جب کہ وہ غصے سے اسے گھور رہی تھی
چلے جاؤ یہاں سے شہر یار ورنہ میں کوئی ایسی غلطی کر دوں گی جس کی وجہ سے مجھے ساری عمر پچھتانا پڑے گا
بند کرو یہ ساری باتیں خبردار جو تم نے ہمیں نقصان پہنچانے کے بارے میں سوچا تم چاہے جو کر لو میں تمہارے ساتھ نہیں آؤں گا اسی لئے بہتر ہوگا ۔کہ تم یہاں سے چلی جاؤ شہر یار غصے سے بول رہا تھا لیکن اس کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر ایک لمحے کو کھٹکا
یہ سب کچھ تم اس سکندر کی باتوں میں آ کر کہہ رہے ہو نا تو مجھ سے قلندر کی بات مان رہے ہو نا چلو میں ایک اور غلطی کرتی ہوں اس سکندر کو ہمارے بیچ سے ہٹا دیتی ہوں اگر وہ سکندر ہی نہیں رہے گا
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain