Damadam.pk
Mirh@_Ch's posts | Damadam

Mirh@_Ch's posts:

Mirh@_Ch
 

شہریار پر حملہ کرنے کے بعد ساریسہ کہاں گئی تھی کوئی نہیں جانتا تھا لیکن وہ واپس نہیں آئی تھی
پھر بھی اس کا خوف اس وقت بھی سکندر اور آسیہ کے آگے پیچھے منڈا جا رہا تھا ان لوگوں کو کسی پل سکون نہ تھا
پتا تھا تو بس اتنا کہ ساریسہ اگر عشق میں جان دے سکتی ہے
تو نفرت میں جان لینے میں بھی ایک پل نہیں لگائے گی
وہ کسی بھی وقت شہریار کی جان لے سکتی تھی ۔

یہ تم نے کیا کیا ساریسہ اپنے ہی شوہر کو جان سے مارنے کی کوشش کی یہ تھا تمہارا عشق یہ تھی تمہارے بائیس سال کی تڑپ یہ تھا تمہارا انتظار
اس کے لیے پکارتی تھی تم اس کو ۔۔
تو میں کیا کرتی وہ کہتا ہے وہ مجھ سے محبت نہیں کرتا وہ اس مہر کو چاہتا ہے وہ کہتا ہے وہ مجھ سے کبھی محبت نہیں کر سکتا وہ کہتا ہے وہ کبھی میرے ساتھ نہیں آئے گا وہ ساریسہ کا ہو کر ساریسہ کو اپنانے سے انکار کر رہا ہے

Mirh@_Ch
 

#عشق
#قسط20
#آخری_قسط
❤(

زیان اور مہر ہسپتال پہنچے تو شہریار کو ابھی تک ہوش نہیں آیا تھا اسے بے ہوش ہوئے 72 گھنٹے ہوچکے تھے ڈاکٹر نے کہا تھا کہ اگر مزید 24 گھنٹے میں اسے ہوش نہ آیا تو اس کی جان بچانا بہت مشکل ہو جائے گا
مہر کو واپس دیکھ کر اسیہ اور سکندر پریشان ہو چکے تھے وہ جانتے تھے کہ وہ شہریار کے لیے کتنی خاص ہے وہ ان کے لیے بھی خاص ہو چکی تھی وہ اسے بالکل اپنی سی بیٹی کی طرح محبت کرنے لگے تھے
اور اس طرح سے اچانک مہر کی واپسی نے انہیں بھی پریشان کر دیا تھا
فی الحال وہ نہیں چاہتے تھے کہ مہراور ساریسہ کا سامنا ہو ۔

Mirh@_Ch
 

میں کچھ نہیں جانتی میرے شوہر کی جان خطرے میں ہے اسے میری ضرورت ہے مجھے جانا ہے جانے دیں میں آپ کے سامنے ہاتھ جوڑتی ہوں زیان بھائی
وہ اس کے سامنے ہاتھ جوڑ کر التجا کرنے لگی اور اس کی جوڑے ہاتھوں کو دیکھ کر زیان بے بس ہو گیا وہ خود بھی تو شہر یار کو دیکھنے کے لئے تڑپ رہا تھا
اس پر جان لیوا حملے کا سن کر زیان بہت پریشان ہو چکا تھا ایک ہی تو دوست ہے اس کا جس کے بغیر رہ نہیں سکتا تھا اور اب وہ زندگی اور موت میں جنگ لڑ رہا تھا وہ اپنی دوستی کا فرض مہر کا خیال رکھ لر نبھا رہا تھا
لیکن شہریار سے اتنا دور رہ کر وہ خود کو بے بس محسوس کر رہا تھا اسی لیے اس نے شہر یار کا وعدہ توڑ دیتے ہوئے مہر کو اپنے ساتھ پاکستان لے جانے کا فیصلہ کیا

Mirh@_Ch
 

تو اسے جان سے مار دے گی اور اس نے ایسا ہی کیا
اور اگر وہ بچ گیا تب بھی وہ اس کی جان نہیں چھوڑے گی وہ واپس آئے گی اور پھر سے مارنے کی کوشش کرے گی کیونکہ اب وہ ساریسہ کے دل سے اتر چکا تھا
ہاں شہریار کے لفظوں نے ساریسہ کو اس سے نفرت کرنے پر مجبور کر دیا تھا
اب اس کا مقصد شہریار کو حاصل کرنا نہیں بلکہ اس کی جان لینا تھا ۔

پلیز مجھے جانے دو زیان خدا کے لیے شہر یار ہسپتال میں اس کی جان خطرے میں ہے پلیز مجھے جانے دو مہر نے روتے ہوئے کہا
آج بھی آسیہ نے فون پر اسے بتایا تھا کہ ساریسہ نےشہریار پر جان لیوا حملہ کیا ہے اور تب سے ہیں وہ بن پانی کے مچھلی کی تڑپ رہی تھی
بھابھی سمجھنے کی کوشش کریں آپ بیمار ہیں شہریار نے مجھے آپ کا خیال رکھنے کے لیے کہا ہے میں اس طرح سے آپ کو نہیں جانے دے سکتا

Mirh@_Ch
 

22 سال کی پریوں کی زندگی چھوڑ کر قیدی کی زندگی گزاری کس کے لئے تمہارے لئے اور تم مجھ سے نفرت کرتے ہو ۔۔۔۔
اگر تم مجھ سے نفرت کرتے ہو تو تمہیں جینے کا کوئی حق نہیں اگر تم میرے نہیں ہو سکتے تو میں تمہیں کسی اور کا نہیں ہونے دوں گی ۔
جو میرا ہے وہ صرف میرا ہے اگر میرا نہیں تو کسی کا نہیں ساریسہ کہتے ہوئے اس کے بالکل قریب آ چکی تھی اور اس کا پھول اسی گردن پر وار کرتے ہوئے خنجر کا روپ دھار چکا تھا ۔اور دیکھتے ہی دیکھتے فرش شہریار کے خون سے سرخ ہو گیا

اس پر وار کرنے کے بعد وہ غائب ہوگئی وہ کہاں گئی کوئی نہیں جانتا تھا لیکن شہریار کی حالت بہت بگڑ چکی تھی ۔
سکندر صاحب اسے ہسپتال لے گئے جب کہ آسیہ بیگم نے رو رو کر اپنا حال خراب کر لیا تھا
جس بات کا ڈر تھا وہی ہوا نکاح کے برد ان بزرگوں نے کہا تھا کے اگرساریسہ شہریار کو حاصل نہ کر سکی

Mirh@_Ch
 

تم مجھے مارنا چاہتے ہو اس شخص کے لئے جو ہمیں الگ کرنا چاہتا ہے تم مجھ سے نفرت کرتے ہو اس کے لیے جو اپنا عشق تک نہ نبھا سکا تم مجھ سے نفرت کرتے ہو جو 22 سال پر تمہارا انتظار کرتی رہی جو تمہارے ایک حکم پر ایک کمرے میں بند رہی اس سے نفرت کرتے ہو تم تم ۔۔۔۔
ہاں نفرت کرتا ہوں میں تم سے نفرت ہے مجھے تم سے بے تحاشہ نفرت ہے شہریار کی دھار نےسکندر صاحب کی آنکھ کھول دی
مجھ سے نفرت کرتے ہو تم ۔۔۔۔۔مجھ سے اگر تم میرے نہیں ہو سکتے شہریار تو تمہیں کسی کا نہیں ہونے دوں گی ۔۔
اگر میں نے مزید قتل کیا تومجھ سے پریوں کی طاقت سے چھین لی جائیں گی لیکن مجھے غم نہیں تھا اسے مارنے کا لیکن اب میں اسے نہیں تمہیں ختم کرو۔ گی جس کے لیے میں نے اتنا کچھ کیا تھا
میں نے 22سال انتظار کیا 22 سال ایک کمرے میں قیدر ہی

Mirh@_Ch
 

اس کا ارادہ آج ان کا قصہ تمام کرنے کا اسے سب کا قصور وار صرف اور صرف سکندر لگتا تھا
اس نے اپنا گلابی پھول نکالا لیکن اس سے پہلے کے وہ سکندر پر ایک بار پھر سے وار کرتی اچانک کمرے کی لائٹ آن ہوئی
کیا کرنے جا رہی تھی تم وہ دوڑتے ہوئے اس کے پاس آیا اور اسے دھکا دے کر پیچھے کی طرف دکھیلا
میں اس کی جان لینے والی تھی شہریار یہ ہم دونوں کے بیچ آ رہا ہے اسے مر جانا چاہیے ۔وہ جنونی انداز میں بولی
خبردار جو تم نے میرے بابا کو مارنے کی کوشش کی میں تمہیں جان سے مار ڈالوں گا اس کے انداز نے شہریار کو بھی غصہ دلادیا ۔
لیکن اس کے غصے کی پرواہ ساریسہ کونہ تھی۔
بلکہ اس کی دوپہر والی باتیں ابھی تک وہ اپنے دل پہ لیے بیٹھی تھی کتنی آسانی سے اس نے کہہ دیا تھا کہ وہ اس سے نفرت کرتا ہے جس سے عشق کی اس نے انتہا کر دی تھی

Mirh@_Ch
 

پھر سے آواز آئی گی ساریسہ کو کوئی پروا نہ تھی وہ اس پکار کو سننا ہی نہیں چاہتی تھی وہ اب بھی اپنی ضد پر قائم تھی اسے شہریار چاہیے تھا کسی بھی قیمت پر ہو ایک عام سی لڑکی کے سامنے یوں ہار نہیں سکتی تھی وہ اس سے زیادہ خوبصورت تھی اس سے زیادہ طاقتور تھی اس سے زیادہ اسے خوش رکھ سکتی تھی ۔
تو وہ اس سے کیوں ہارتی وہ کسی بھی قیمت پر مہر سے ہارنے کے لیے تیار نہ تھی۔
لیکن یہ آوازیں یہ پکارے اسے تنگ کر رہی تھی اس کا حوصلہ بڑھانے کی بجائے گٹا رہی تھی ۔

یہ سب کچھ تمہاری وجہ سے ہوا ہے سکندر کم تمہاری دنیا میں نہیں بلکہ تم ہماری دنیا میں آئے ہو تم نے سب کچھ برباد کیا ہے اب تمیں اس کی سزا ملے گی
میں تمہاری جان لے لوں گی اور شہریار کو یہاں سے ہمیشہ کے لئے لے کر چلی جاؤں گی ۔
وہ سکندر صاحب کے قریب کھڑی تھی جب وہ کے گہری نیند سو رہے تھے

Mirh@_Ch
 

نہیں ساریسہ ہار مان جاؤ وہ تمہارا کبھی نہیں ہو سکتا وہ کسی اور کا ہے کسی اور سے محبت کرتا ہے
اس نے کبھی تمہیں نہیں چاہا بزرگ کی آواز آئی ۔
لیکن میں اسے چاہتی ہوں وہ میرا شوہر ہے میں اسے اپنے ساتھ لے کے جاؤں گی ساریسہ اپنی چیزیں کسی کو نہیں دیتی وہ پھر ست بدتمیزی اور غصے سے بولی
ساریسہ میں مانتا ہوں میں قصور وار ہوں تمہارا اپنی بیٹی کا بدلا لینے کے لئے میں نے تمہاری قربانی تھی مجھ سے غلطی ہوگئی اس گناہ کی سزا مجھے مل چکی ہے میری بیٹی جو کبھی میرے خوابوں میں آکر مجھ سے بات کرتی تھی وہ بھی چھوڑ چکی ہے وہ مجھ سے نفرت کرتی ہے کیونکہ میں نے اس کے سکندر سے بدلہ لینے کی کوشش کی
میں نے اس کے عشق کی توہین کی لیکن خدا کے لئے تم چھوڑ دو ہار مان جاؤ ساریسہ وہ تمہارا کبھی نہیں ہو سکتا وہ تم سے نفرت کرتا ہے ۔

Mirh@_Ch
 

وہ کچھ بھی کر سکتی تھی اس کی فیملی کو نقصان پہنچا سکتی تھی اور یہ نہیں چاہتا تھا
اگر وہ اسے نقصان پہنچتی ہے تو ٹھیک ہے وہ ہنس کر اپنی فیملی کے لئے قربانی دے سکتا تھا لیکن اب مہر کے بارے میں سوچ رہا تھا کہ ایسے موڑ پر اسے تنہا نہیں چھوڑ سکتا تھا اس نے ان سب چیزوں سے بچنے کے لیے اپنی فیملی کو محفوظ رکھنے کے لئے ساریسی کی بات ماننے کا فیصلہ کیا تھا لیکن وہ فیصلہ بھی وہ نہیں ماننے والا تھا
اب اس نے صرف اپنی فیملی کی ہی نہیں بلکہ اپنی بھی جان کی حفاظت کرنی تھی ۔
اپنے بچے کے لئے اپنی مہر کے لیے ۔اپنے ماں باپ کے لیے ۔

نہیں میں نہیں ہاری ہوں میں نہیں ہار سکتی وہ چاہے مجھ سے نفرت کرے لیکن میں پھر بھی اسے اپنے ساتھ لے کے جاؤں گی ساریسہ نے کبھی ہار ماننا نہیں سیکھا
اور وہ اپنے عشق ہار جائے یہ ناممکن ہے وہ چلاتے ہوئے بولی

Mirh@_Ch
 

وہ 22 سال سے لوگوں کے بیچ میں رہی تھی اب اس کا یہاں کوئی کام نہیں تھا
لیکن شہریار کے بغیر وہ نہیں جا سکتی تھی وہ نہیں ہار سکتی تھی وہ پریام نہیں ساریسہ تھی اس نے ہار ماننا نہیں سیکھا تھا اسے کسی بھی حالت میں شہریار چاہے تھا

شہریار بہت خوش تھا اپنے ہونے والے بچے کے بارے میں سن کر اس کی خوشی کی کوئی انتہا ہی نہ تھی ۔
لیکن وہ اپنی یہ خوشی کی اپنے ماں باپ سے شیئر نہیں کر رہا تھا کیونکہ وہ نہیں چاہتا تھا کہ کسی بھی طرح سے یہ بات ساریسہ کو پتہ چلے اور وہ مہر کو دوبارہ نقصان پہنچانے کی کوشش کرے
اب وہ مہر پر رسک نہیں لینا چاہتا تھا ۔
پیر صاحب نے کہا تھا کہ وہ بار بار اس کے سامنے اپنی نفرت کا اظہار کرے کہ وہ اس سے بد دل ہو جائے لیکن اس کو اس بات کا بھی خیال رکھنا تھا کہ کہیں وہ غصے میں کوئی اور بڑا قدم نہ اٹھائے

Mirh@_Ch
 

#عشق
#قسط19
❤(

واپس آجاؤ ساریسہ بہت ہو چکا ہے وہ تم سے محبت نہیں کرتا وہ تم سے نفرت کرتا ہے تمہارے ساتھ آنے سے انکار کر چکا ہے اب اس سب کا کوئی فائدہ نہیں یہ ضد چھوڑ دو اور واپس آ جاؤ اس دنیا میں تمہارا کوئی کام نہیں یہ دنیا تمہارے لیے نہیں بنائی گئی
ساریسہ کے کان میں آواز گونج رہی تھی لیکن اس پر جنون سوار تھا اسے شہریار چاہیے تھا کسی بھی قیمت پر
شہریار ساریسہ سے نفرت کا اظہار کر چکا تھا تب سے ہی وہ بہت بے چین تھی۔
اس سے واپسی کا بلاوا آرہا تھا سب اسے وہاں پکار رہے تھے اسے باہر آنے کی اجازت اس کے شوہر نے دی تھی اسے گھر واپس جانا تھا

Mirh@_Ch
 

شہریار
ہم تمہارے بغیر کیسے رہیں گے شہر یار میں تم پے کوئی زمہداری نہیں ڈال رہی بس اتنا کہنا چاہتی ہوں کہ کوئی بھی فیصلہ کرنے سے پہلے ہم سب کے بارے میں ایک بار سوچ لینا مہے نے روتے ہوئے فون بند کر دیا جب کہ شہریار بس بند فون تو دیکھ رہا تھا

Mirh@_Ch
 

وہ صرف تمہارے نہیں میرے بھی والدین ہیں مہر فون پر رونے لگی
مہر میں بہت تنہا ہو گیا ہوں اس لڑکی نے میرا جینا حرام کر دیا ہے وہ مجھے اپنے ساتھ ہی لے کر جانا چاہتی ہے اور اگر میں نے اس کی بات نہیں مانی تو وہ گھر والوں کو مزید نقصان پہنچائے گی ۔
مجھے لگتا ہے کہ مجھے اس کی بات ماننی پڑے گی اگر میں اس کے ساتھ چلا گیا تو وہ سب کچھ چھوڑ دے گی سب لوگوں کی زندگی آسان ہو جائے گی شہریار کمرے کے اندر داخل ہوتے ہوئے کمرہ بند کر چکا تھا
تو میرا کیا ہو گا شہریار
میں تمہارے بغیر کیسے رہوں گی ہمارا بچہ تمہارے بغیر کیسے رہے گا مہر کی روتی ہوئی آواز آئی
شہریار کو لگا جیسے اس نے کچھ غلط سنا ہے
شہر یار ایم پریگنینٹ میری طبیعت خراب تھی تو زیان زبردستی مجھے ہسپتال لے گیا ہمارا بچہ اس دنیا میں آنے والا ہے

Mirh@_Ch
 

مجھ سے زیادہ تمہیں اور کوئی خوش نہیں رکھ سکتا
میرے راستے سے ہٹ جاؤ میں آرام کرنے اپنے کمرے میں جانا چاہتا ہوں شہریار نے نظر اٹھا کر بھی اس کی طرف نہ دیکھا اس کی ہی بات ساریسہ کو تڑپا رہی تھی
شہریار بنا اس کی طرف دیکھے ہوئے آگے بڑھنے لگا جب اس کا فون بجا
مہر کا فون دیکھ کر اسے عجیب سا سکون مل رہا تھا مہر کو گئے ہوئے اکیس دن ہو چکے ہیں
اور اب تک اس نے نہ تو مہر کا حال پوچھا تھا اور نہ ہی اسے فون کیا تھا وہ اسے کسی قیمت پر نقصان نہیں پہنچا سکتا تھا
لیکن اب اس کا فون آتا دیکھ کر وہ خود بھی تڑپ اٹھا
مہر میری جان کیسی ہو تم اس نے فون اٹھاتے ہوئے پوچھا
میں بالکل ٹھیک ہوں شہریار تم کیسے ہو ماما اور بابا کیسے ہیں ۔مہرنے پوچھا
اسے ساریسہ نے ان پر حملہ کیا ہے شہریار تم مجھے کچھ بتاتے کیوں نہیں ہوں کیوں مجھے ان سب باتوں سے دور رکھے ہوئے ہو

Mirh@_Ch
 

ان دو ہفتوں میں وہ ہسپتال میں ہی رہا آسیہ کی حالت اور ٹھیک ہوئی تو اس نے بتایا کہ ساریسہ نے اس پر حملہ کیا تھا
اور وہ ہر اس انسان کو مار دے گی جو شہریار اور اس کے بیچ میں آئے گا
یہ جان کر شہریار کو اس سے اور بھی زیادہ نفرت ہونے لگی تھی
آج پندرہ دنوں کے بعد وہ اپنے والدین کو واپس گھر لے کے آیا تھا لیکن وہاں پر ساریسہ کو دیکھ کر اسے پھر سے غصہ آنے لگا اس کا دل چاہا کہ اسے جان سے مار دے
اسے واپس پہنچنے کا اس کے پاس کوئی راستہ نہ تھا ۔
لیکن وہ اپنے انکار پر قائم تھا ۔
اپنے ماں باپ کمرے میں چھوڑ کر وہ کمرے سے باہر آیا تو ساریسہ اس کا انتظار کر رہی تھی
پہلے 22 سال پھر یہ پندرہ دن تم چاہتے ہو میں تمہارے لیے تڑپتی رہوں تو مجھے یہ بھی منظور ہے شہریار بس ایک بار میرے ساتھ چلو میں تمہیں زندگی کی ہر خوشی دوں گی

Mirh@_Ch
 

شہریار بہت پریشان تھا جب عابد نے اس کے کندھے پر اپنا ہاتھ رکھا ۔
اور وہ بنا سوچے سمجھے ان سے لپٹ کر کسی بچے کی طرح رونے لگا
مجھے یہاں آنا ہی نہیں چاہیے تھا عابد بابا میں نے بہت بڑی غلطی کر دی میرے ماں باپ نے مجھے وہاں رکھا تھا تاکہ میں محفوظ رہ سکوں لیکن میں نے ان کی بات نہیں مانی میں اپنی ضد میں یہاں آگیا اور اپنا سب کچھ کھو رہا ہوں
میں اپنے ماں باپ کو مرتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا کاش سب کچھ پہلے جیسا ہو جائے میں واپس چلا جاؤں گا میں کبھی پاکستان نہیں آؤں گا بس میرے ماں باپ کو زندگی مل جائے وہ عابد سے لپٹے مسلسل رو رہا تھا جب کہ عابد اس کی حالت پر اسے حوصلہ دے رہا تھا

وہ دو ہفتے کے بعد سکندر صاحب کوگھر واپس لایا تھا اور ان دو ہفتوں میں اس نے ساریسہ کو کہیں نہیں دیکھا تھا وہ واپس نہیں آیا تھا

Mirh@_Ch
 

دفع ہو جاو۔ ۔وہ چلایا۔
اور بنا پلٹ کر دیکھے سکندر کو اٹھا کر باہر کی طرف بھاگ گیا

عابد نے ڈاکٹر اور پولیس کو بڑی مشکل سے مطمئن کیا تھا یہ ایک جان لیوا حملہ تھا جس پر کوئی ڈاکٹر ہاتھ نہیں رکھ رہا تھا
سکندرصاحب کی حالت بھگرتے دیکھ کر ڈاکٹر نے ان کا علاج شروع کر دیا لیکن پولیس ان کی جان نہیں چھوڑی تھی جن کا کہنا تھا کہ ان پر جان لیوا حملہ ہوا ہے
پولیس نا تو کسی پری کی داستان پر یقین رکھتی تھی اور نہ ہی کسی جادوئی کہانی پر انہیں ہر چیز کا ثبوت چاہیے تھا
وہ تو عابد نے ایک پولیس والے کو رشوت کا لالچ دے کر وہاں سے ہٹایا
اس وقت ایک کمرے میں اس کا باپ اور دوسرے کمرے میں اس کی ماں تھی اس نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ اس کی ماں باپ کی زندگی اس کی وجہ سے کتنی مشکل میں پڑ جائے گی
نہ جانے مہر کی حالت میں ہوگی
شہریار بہت پریشان تھا

Mirh@_Ch
 

تم ہمیشہ کے لئے میرے ہو جاؤ گے ہاں شہریار میرا اگلا شکار تمہارا باپ ہوگا
پھر ہمارے بیچ اور کوئی نہیں آئے گا وہ غصے سے بول رہی تھی جب سکندر صاحب کمرے کے اندر داخل ہوئے
اس سے پہلے کے شہر یار کچھ سمجھ پاتا ساریسہ نے ایک پھول نکالا اور ان کی طرف بھرنے لگی ایک گلاب پھول سے وہ ان کا کیا بگاڑ سکتی تھی یہ شہریار کی سوچ تھی
لیکن دیکھتے ہی دیکھتے سارسیہ نے اس پھول کوسکندر صاحب کے گر دن پر چلا دیا
اور وہ نازک ساپھول خنجر کی دھار کی طرح ان کا گلا کاٹ چکا تھا
شہریار فور ان کی طرف بھاگا
اور اپنے باپ کو گرنے سے تھام لیا
بابا یہ کیا ہوگیا ہے آپ کو بابا آنکھیں کھولے آپ کو کچھ نہیں ہو گا میں ابھی آپ کو ہسپتال لے کے جاؤں گا سکندر کی حالت دیکھ کر شہریار بری طرح سے بوکھلا کر رہ گیا
دفع ہو جاؤ یہاں سے نفرت ہے مجھے تم سے تمہاری شکل تک نہیں دیکھنا چاہتا

Mirh@_Ch
 

میں تمہیں محبت سے سمجھاؤں گا لیکن تم محبت کے قابل ہی نہیں ہو ساریسا تم سے محبت نہیں کی جا سکتی تم سے صرف نفرت کی جا سکتی ہے
وہ ہارتے ہوئے بولا
جب کہ وہ غصے سے اسے گھور رہی تھی
چلے جاؤ یہاں سے شہر یار ورنہ میں کوئی ایسی غلطی کر دوں گی جس کی وجہ سے مجھے ساری عمر پچھتانا پڑے گا
بند کرو یہ ساری باتیں خبردار جو تم نے ہمیں نقصان پہنچانے کے بارے میں سوچا تم چاہے جو کر لو میں تمہارے ساتھ نہیں آؤں گا اسی لئے بہتر ہوگا ۔کہ تم یہاں سے چلی جاؤ شہر یار غصے سے بول رہا تھا لیکن اس کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر ایک لمحے کو کھٹکا
یہ سب کچھ تم اس سکندر کی باتوں میں آ کر کہہ رہے ہو نا تو مجھ سے قلندر کی بات مان رہے ہو نا چلو میں ایک اور غلطی کرتی ہوں اس سکندر کو ہمارے بیچ سے ہٹا دیتی ہوں اگر وہ سکندر ہی نہیں رہے گا