میں کبھی تمہارے ساتھ نہیں آؤں گا وہ غصے سے اس کی غلط فہمی دور کرنے لگاشاید پیار سے بہت سمجھا چکا تھا
یہ سب کچھ تم ان لوگوں کی وجہ سے کر رہے ہو نا شہریار تمہیں لگتا ہے کہ یہ لوگ تمہارے اپنے ہیں
تم ایک پریزاد کے شوہر ہو میں تمہیں دنیا کی ہر خوشی دے دوں گی یہ سب کچھ میرے لیے کوئی بڑی بات نہیں ہے میں میں تو پوری دنیا لا کر تمہارے قدموں میں رکھ سکتی ہوں
اوع ان کے لئے تم مجھے ٹھکرا رہے ہو ۔۔۔
یہ عارضی رشتے ہیں لیکن ہمارا رشتہ مضبوط ہے وہ اسح سمجھاتے ہوئے مزید اس کے قریب آئی جب شہریار نے اس کے ہاتھ لسے پرے کرتے ہوئے سے دور جھٹکا
نفرت ہو رہی ہے مجھے تم سے تمہارے وجود سے تمہاری ذات سے نہیں چاہیے مجھے تمہارے جیسے رشتے
میرے لئے میرے رشتہ اہم ہیں میری ماں میرا باپ میری بیوی تم کچھ نہیں لگتی میری مجھے لگا تھا
او شہریار میں تمہارا ہی انتظار کر رہی تھی اس نے مسکراتے ہوئے اسے ویلکم کیا
تمہاری ہمت کیسے ہوئی میری ماں کو اس حالت میں پہنچانے کی کیا کیا ہے تم نے ان کے ساتھ کہ انہیں ہوش ہی نہیں آ رہا وہ چلاتے ہوئے بولا
وہ تمہیں مجھ سے الگ کرنے کی باتیں کر رہی تھی مجھے غصہ آگیا لیکن میں نے انہیں جان سے نہیں مارا مجھے پتا تھا تمہیں تکلیف ہوگی تمہاری ماں ہے تمہاری ہر بیٹا اپنی ماں سے بہت محبت کرتا ہے میں نے تمہارے صدقے اس کی جان بخش دی وہ مسکراتے ہوئے بتا رہی تھی
جب کہ شہریار کا دل چاہا کہ وہ اس کے منہ پر تھپڑ مار مار کے اس کا چہرہ لال کر دے
پہلے مجھے تم پر ترس آتا تھا لیکن اب مجھے تم سے نفرت ہوتی جارہی ہے ساریسہ اگر تمہیں لگتا ہے کہ میرے گھر والوں کو نقصان پہنچا کر تم مجھے اپنے ساتھ لے جانے پر راضی کر لو گی تو یہ صرف تمہاری غلط فہمی ہے
عشق
#قسط18
❤
وہ جیسے کمرے سے باہر نکلا ماما کو بے ہوش حالت میں دیکھ کر پریشانی سے اس کی طرف دوڑ کر آیا
وہ جلدی سے اپنی بے ہوش ماں کو اٹھا کر روم میں لایا
ماما کیا ہوگیا ہے آپ کو پلیز آنکھیں کھولیں اپنی ماں کی حالت دیکھ کر وہ بہت گھبرا گیا تھا
سکندر صاحب اسیہ کی حالت دیکھ کر اس کے قریب آ گئے وہ ابھی کمرے میں داخل ہوئے تھے اور شہریار کو اس طرح دیکھ کر اسے حوصلہ دینے لگے
بابا دیکھے ماما کو کیا ہو گیا ہے کہیں اس پریذاد تونے کچھ نہیں کیا ۔بابااگر اس نے میری ماما کو نقصان پہنچایا تو میں
اسے کبھی معاف نہیں کروں گا
شہریار بابا سے کہتا ہوا غصے سے کمرے سے باہر نکلا بابا
اسے روکنے کی کوشش کی لیکن وہ رکا نہیں
اور بنا دروازہ کھٹکھٹائے اندر داخل ہوا اسے یقین تھا کہ وہ اس وقت اسی کمرے میں موجود ہو گی۔
اس کے انداز پر اسیہ دو قدم پیچھے ہٹی
شہریارکبھی تمہارا نہیں ہو سکتا تم خود سوچو وہ ایک عام انسان ہے اور تم ایک پریزاد ہو تم دونوں کا کوئی جوڑ نہیں بنتا
اسیہ اسے سمجھانے کی کوشش کر رہی تھی جب اچانک اپنی گردن پر اس نے دباؤ محسوس کیا اس کے پاؤں زمین سے اٹھ گئے تھے وہ اسے فضا میں لہرائے غصے سے دیکھ رہی تھی
خبردار خبردار جو تم نے میری امید تورڑ نے کی کوشش کی شہریار تو میرا ہے اسے حاصل کروں گی میں اور یہاں سے ہمیشہ کے لئے لے جاؤں گی
اونچی اونچی آواز میں چلاتے ہوئے بول رہی تھی گردن پر دباؤ بڑھتا جا رہا تھا اگلے ہی پل اس نے آسیہ کو دور پٹکا اگر وہ اسے نہیں چھوڑتی تو یقینا اسیہ ہی دم توڑ چکی ہوتی
❤
ایسا کبھی نہیں ہو گا میرا بیٹا کبھی تمہارے ساتھ نہیں جائے گا کیونکہ وہ تم سے نہیں مہر سے محبت کرتا ہے میں تمہارے سامنے ہاتھ جوڑتی ہوں ساریسہ ساتھ میرے بچے کی زندگی بخش دو وہ کبھی تم سے محبت نہیں کرے گا
خدا کے لیے چھوڑ دو اسے سکندر کی غلطی کی سزا میرے شہریار کو مت دو پچھلے 22 سال سے بے چین ہے وہ اس کے سامنے ہاتھ جوڑتے ہوئے بولی
اور میں پچھلے 22 سال سے قید تھی کیا ہے اس مہر میں جو ہوا اس سے عشق کر بیٹھا مجھے دیکھو میں ایک پری ذاد ہوں وہ جو چاہے میں اسے دے سکتی ہوں میں ساری دنیا لاکر اس کے قدموں میں رکھ سکتی ہوں کیا ہے وہ عام سی انسان
کچھ بھی نہیں ایک بار شہریار میرے ساتھ چلنے کے لیے مان جائے میں مہر کو اس کی زندگی سے نکال دور پھینک دوں گی اور جو میرے راستے میں آیا اس کو بھی وہ اسے انگلی دکھاتے ہوئے بول رہی تھی
اگر تم نے اسے اس بات کا احساس دلا دیا تو تم صرف میر سے محبت کرتے ہو اور اس کے کبھی کوئی رشتہ نہیں رکھنا چاہتے تو وہ خود ہی تمہاری زندگی سے نکل جائے گی
پیر صاحب نے سمجھاتے ہوئے کہا جبکہ شہریار ایک بار پھر سے بےبسی سے بیٹھ گیا اس کے پاس کوئی راستہ نہ تھا سارسیہ کو اس بات کا احساس دلانے کے لیے کہ وہ اس کی زندگی میں کوئی اہمیت نہیں رکھتی
اور شہر یار چاہے کچھ بھی کر لے وہ اسے چھوڑ کر نہیں جانے والی تھی
❤
کیوں بلایا تھا ان کو یہاں مجھے یہاں سے بیجھنے کے لئے تم لوگوں کو کیا لگتا ہے عالم مجھے یہاں سے نکال دے گا اس کے پاس صرف تعویذوں کی طاقت ہے میرے پاس عشق طاقت ہے مجھے یہاں سے میری مرضی کے بغیر کوئی نہیں بھیج سکتا اور میں تمہارے بیٹے کو یہاں سے لے کر جاؤں گی
آسیہ کو کمرے سے باہر نکلتے دیکھا وہ اچانک اس کے سامنے آ رکی
اسی امید پر وہ یہاں ہے اگر ایک پری زاد کو یقین ہو جائے اس کا شوہر کبھی اس کا نہیں ہو سکتا کبھی اس کی محبت میں مبتلا نہیں ہو سکتا تو وہ خود ہی اس کی جان چھوڑ دیتی ہے
لیکن میں اسے کیسے یقین دلاؤں میں کیسے بتاؤں کہ ایک پریذاد کے ساتھ ساری زندگی گزارنا میرے لئے بہت مشکل ہے کیسے کیسے یقین دلاؤں کے مہر سے محبت کرتا ہوں ۔میں اسے کیسے یقین دلاؤں کہ میں اس کے ساتھ ایک نارمل زندگی نہیں گزار سکتا ۔شہریار ان کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھنے لگا
یہ تو اب تمیں دیکھنا ہے کہ اب تم کیا کرو گے تم کس طرح اسے اپنی زندگی سے نکالو گے
تمہیں اس کی امید توڑنی ہوگی اسے یقین دلانا ہو گا کہ تم ملر کے ہو چکے ہوں اور کسی عورت کی زندگی میں کوئی جگہ نہیں ہے
آیک پریذاد سب کچھ برداشت کر سکتی ہے لیکن اپنے شوہر کے دل میں کسی اور کی محبت نہیں
اگر شہریار اس کے دل میں یہ بات ڈال دے کہ جو کچھ کر رہی ہے وہ غلط ہے اور شہر یار کبھی اس کا نہیں ہو سکتا تب وہ یہاں سے جائے گی
اب وہ آزاد ہے کچھ بھی کر سکتی ہے آپ سب کو اپنا خیال رکھنا ہوگا وہ کسی کو بھی نقصان پہنچا سکتی ہے
پیر صاحب نے کہا
لیکن پیر صاحب کوئی حل تو ہو گا میرے بچے کی زندگی پر بنی ہوئی ہے مہر کو تو ہم نے یہاں سے بھیج دیا لیکن شہریار جہاں جائے گا وہ اس کے پیچھے جائے گی وہ اسے کسی بھی طرح سے اپنے ساتھ لے کے جانا چاہتی ہے
آسیہ نے روتے ہوئے بتایا جبکہ شہریارکھڑکی کے قریب کھڑا تھا ۔
شہریارتم اسے کسی بھی بات کا مطلب یا کسی چیز کا احساس دلا سکتے ہو تمہیں اس کی امید توڑنی ہوگی یہ امید کہ وہ تمہیں اپنے ساتھ لے کے جا سکتی ہے
اسے لگتا ہے آج نہیں تو کل تم بھی اس سے اس کی طرح محبت کرنے لگے
تمہارے اس عشق پر میں کیسے یقین کروں تم لوگوں کی جان لیتی ہو اپنی طاقتوں کا استعمال کرکے معصوم لوگوں کو ڈراتی ہو
اگر عشق سچا ہو تو اس کی طاقت سے انسان تو کیا اللہ بھی دعائیں قبول کرتا ہے
تم جس احساس کو عشق کہتی ہو ۔وہ عشق نہیں ہے
عشق تو پریام نے کیا جو سکندر کے ایک بار کہنے پر خود ہار گئی
اور ایک تم ہو ۔۔۔جو اپنی ضد کی خاطر معصوم لوگوں کی جان لے رہی ہو
تم رشق نہیں کرتی تم صرف ایک ضدی اور بد دماغ پری ہو جس کے اندر صرف نفرت بھری ہوئی ہے تمہیں تو عشق کا مطلب ہی نہیں پتا عشق میں انسان کا کیا فرشتے بھی فنا ہو جاتے ہیں ۔
شہریار اس کی آنکھوں میں دیکھتا ہوا خاموشی سے اٹھ کر وہاں سے چلا گیا ۔
جب کہ وہ اس کی پیٹھ کو دیکھتی رہ گئی
❤
اسے شہر یار چاہئے جب تک شہریار یہاں سے جانے کے لیے مان نہیں جاتا اس کے ساتھ تب تک وہ کہیں نہیں جائے گی
چاہے جو بھی ہو جائے میں تمہارے ساتھ نہیں جاؤں گا اور میری مرضی کے بغیر تم مجھے اپنے ساتھ لے کر جا نہیں سکتی
تم نے مجھ سے میری مہر کو دور کردیا اسے بنا کسی غلطی کی سزا دی ۔
تمیہں صرف ایک بدلے کے لئے استعمال کیا گیا ہے ۔اور تم اس استعمال میں اس حد تک برھ گئ کہ تم نے تین معصوم لوگوں کی جان لے لی تو مہر کو مارنے والی تھی ۔
میں نے کبھی نہیں سنا تھا کہ پریاں تم جیسی ہوتی ہے مجھے شروع سے پریاں بہت اچھی لگتی تھی ان کی کہانیاں سنتے ہوئے مجھے سکون ملتا تھا لیکن تم سے ملاقات کرنے کے بعد مجھے پری ذادسے نفرت ہونے لگی ہے
ایسا مت کہو شہریارمیں بری نہیں ہوں میں تو صرف تم سے عشق کرتی ہوں اور میرا عشق مجھے برا بنا رہا ہے
وہ اداس لہجے میں بولی ۔اپنی ضد اور عشق کے جنون میں وہ جو کچھ کر رہی تھی وہ غلط تھا اس بات کا احساس اسے بھی تھا ۔
نا ممکن نہیں اللہ نے انسان کو اس دنیا میں سب سے اعلی مقام دیا تھا تو وہ اس سے کیوں ڈرتا
میرے ساتھ چلنا ہوگا شہریار میری دنیا میں تم میرے شوہر ہوں تمہیں میرے ساتھ چلنا ہوگا
وہ اس کے بالکل قریب آ چکی تھی میں تمہارے ساتھ کہیں نہیں جاؤں گا میں مہر کو یہاں سے دور بھیج چکا ہوں تاکہ تم مزید کسی کو نقصان نہ پہنچاؤ نہ کہ اس لیے کہ میں تمہارے ساتھ جانا چاہتا ہوں مجھے تمہارے ساتھ کہیں نہیں جانا شہریار نے غصے سے کہا
جب کہ اس کے غصے پر وہ مسکرا دی تھی
تمہیں چلنا ہو گا شہریار کسی بھی قیمت پر میرے ساتھ چلناہوگا اور وہ بھی اپنی مرضی سے میں تمہیں زبردستی اپنے ساتھ نہیں لے کر جا سکتی
تمہیں میرے ساتھ چلنے سے دنیا کی کوئی طاقت نہیں روک سکتی وہ اسے سمجھانے والے انداز میں کہہ رہی تھی
اور تم مجھے زبردستی اپنے ساتھ نہیں لے کر جا سکتی
اسے جانا ہی تھا نہ جانے کیسے شہریار کے اندر ساریسی کا سارا خوف ختم ہو چکا تھا وہ اس کی ایک غلطی پر اسے جان سے مار سکتی تھی لیکن پھر بھی اسے اس بات کا کوئی ڈر نہ تھا
وہ جانتا تھا یہ لڑکی کسی کو بھی نقصان پہنچا سکتی تھی لیکن وہ اس سے ڈرتا نہیں تھا
اسے جانا تھا اگر تم نہیں جانے دیتے تو میں اسے دنیا سے بھیج دیتی ہے ۔اب سے تم صرف میرے ہو اب سے ہم ایک نئی زندگی کی شروعات کریں گے میں تمہیں ہمیشہ کے لئے یہاں سے اپنے ساتھ لے جاؤں گی
میری دنیا میں وہ آہستہ آہستہ قدم اٹھاتی اس کے قریب آ رہی تھی جبکہ ماما اور بابا صبح سے ہی اپنے کمرے میں بند تھے عابد پھر سے کسی پیر کو لانے گیا تھا
کہاں لے جانا چاہتی ہو مجھے۔۔۔۔۔؟ اس کے قریب آنے پر وہ گھبرایا نہیں تھا کیوں کہ یہ وقت گھبرانے کا نہیں بلکہ مقابلہ کرنے کا تھا مشکل تھا
لیکن کہانی اور زندگی میں بہت فرق ہوتا ہے
یہ بات اسے اب سمجھ آئی تھی
❤
مہر کے جانے کے بعد وہ گھر واپس آیا اور اب خاموشی سے صوفے پر بیٹھا ہوا تھا نہ کچھ کرنے کو تھا نہ کچھ کہنے کو یہ سب کچھ کیا ہو رہا تھا اس کی زندگی اتنی مشکل اس نے تو کبھی نہیں سوچتی تھی
اس کی زندگی ایک راز ہے یہ تو وہ ہمیشہ سے جانتا تھا بچپن سے ہی ان آوازوں سے وہ اندازہ لگا چکا تھا کہ اس کی زندگی میں کچھ تو گڑبڑ ہے وہ ہر عام انسان کی طرح عام نہیں ہے
اور وہ تو اسے اپنا وہم سمجھتا تھا لیکن وہ اس کا وہم نہیں بلکہ سچ تھا وہ آوازیں حقیقت تھی ایک وجود کے ساتھ
چھوڑ آئے اسے دور ہماری دنیا سے ۔۔۔۔۔؟اسے آواز اوپر کی طرف آئی شہر یار نے فور اوپر کی طرف دیکھا تھا جہاں وہ اسی کمرے کے باہر کھڑی پوچھ رہی تھی
#عشق
#قسط17
❤
مہر کو کینیڈا بیج کر وہ واپس آیا تھا اسے خود سے دور کرتے ہوئے مہر اتنا روئی کہ خود شہریار کا دل بھی بُراہوگیا وہ اس سے دور نہیں جانا چاہتی تھی شاید جانتی تھی
کہ اگر وہ ایک بار اس سے دور چلی گئی تو ممکن ہے کہ دوبارہ اس سے کبھی بھی نہ مل سکے
یہ سچ ہے کہ اس نے شہریار سے کوئی دھواں دار عشق نہیں کیا تھا لیکن وہ اس کا شوہر تھا اس سے محبت کرنا اس پر فرض تھا
اور ایسا ہی فرض ساریسہ بھی نبھا رہے تھی۔ وہ ساریسہ کو غلط نہیں کہتی تھی آخر اس نے اتنے سال شہر یار کا انتظار کیا تھا 22 سال ایک اندھیرے کمرے میں بند رہ کر وہ پل پل اسے پکارتے رہی تھی۔
لیکن اس میں تو مہر کی بھی کہیں کوئی غلطی نہ تھی وہ تو اس سب کے بارے میں جانتی تک بھی نہیں تھی
وہ تو ہمیشہ سے فیئری ٹیلز کی کہانیوں کو بہت خوبصورت سمجھتی تھی
نہیں آئے گی وہ یہاں سے چلی جائے گی میں اسے یہاں سے دے دوں گا شہریار نے وعدہ کرنے والے انداز میں کہا
اگر مجھے دوبارہ اس کی شکل نظر آئی تو میں تمہاری قسم بھول جاؤں گی شہریار
وہ مہر کو نفرت بھری نگاہوں سے دیکھتے ہوئے بولی تو شہریار اسے اپنی طرف گھسیٹ کر لے گیا وہ اسے جلد سے جلد یہاں سے نکالنا چاہتا تھا
تمہیں میری قسم پلیز اسے چھوڑ دو شہر یار نے منتیں کرتے ہوئے کہا تو ساریسہ کے ہاتھ اس کی گردن پر نرم پر گئے
اس کی پکڑ سے آزاد بھی ملتے ہی وہ شہریار کی طرف بھاگنے لگی جب ساریسہ نے اس کے بالوں سے پکڑ کر اسے واپس پیچھے لیا
چلی جاؤ میرے اور شہریار کے بیچ سے وہ صرف میرا ہے میرا "عشق" ساریسہ کا "عشق" اور ساریسہ اپنا حق کسی کو نہیں دے گی ۔وہ مہر کو واڑن کرنے والے انداز میں کہتی ہوئی سے جھٹکا دے کر شہریار کی طرف پھینکا
اس سے پہلے کہ وہ گرتی شہریار نے اسے تھام لیا
میں نے اسے صرف تمہاری قسم پر چھوڑا ہے اسے میں نے تم سے "عشق" کیا ہے تمہاری قسم ہے تو نبھا نی پڑیگی اسے یہاں سے بہت دور بیج دومجھے دوبارہ اس کی شکل نظر نہیں آنی چاہیے
ان سب سے میں نے تمہاری باتیں سن کر بھی اگنور کر دی گناہ گار میں ہوں وہ نہیں پلیز اسے چھوڑ دو اس معصوم نے تمہارا کچھ نہیں بگڑا ۔
شہریار نے اس کے سامنے ہاتھ جوڑ کے ہوئے کہا
معصوم ہی سہی لیکن ہمارے بیچ تو آئی ہے اور جو ہمارے بیچ آئے گا وہ مرے گا ۔
نہیں ایسا نہیں پلیز خدا کے لئے اسے چھوڑ دو میں تمہارے سامنے ہاتھ جوڑتا ہوں میں تم سے وعدہ کرتا ہوں تو تم جو کہو گی میں کروں گا
پلیز مہر کو چھوڑ دو مہر کی گردن پر دباؤ سے مہر کی دبی دبی چیخیں شہریار کو اس کی مزید منتیں کرنے پر مجبور کر رہی تھی ۔
لیکن ساریسہ پرتو جیسے جنون سوار تھا وہ مہر کی جان لینا چاہتی تھی
ساریسہ تمہیں میری قسم پلیز اسے چھوڑ دو میں اسے یہاں سے بہت دور بھیج دوں گا خدا کے لئے تم مجھ "عشق " کرتی ہو تو تم میرے لیے اتنا نہیں کر سکتی
پورے کمرے میں آواز گونج رہی تھی کبھی وہ اسے ایک دیوار سے نکلتی نظر آتی تو کبھی دوسری دیوار میں جاتی نظر آتی ۔
مہر بری طرح سے گھبرائے چکی تھی اس کا دل بہت زوروں سے دھڑک رہا تھا جب پورا دروازہ کھل گیا
اور مہر کی گردن پر ساریسہ کا ہاتھ تھا
وہی رگ جاؤ اندر مت آنا دیکھو میں تم سے کتناا "عسق" کرتی ہوں ہمارے بیچ آنے والے ہر شخص کو میں جان سے مار دوں گی یہ ہم دونوں کے بیچ آ رہی ہے شہریار میں اسے مار دوں گی اسے مر جانا چاہیے
تم پر صرف ساریسہ کا حق ہے تم ساریسہ کا "عشق" ہو اور ساریسہ اپنا آپ ختم کر لے گی لیکن اپنا "عشق "کسی کو نہیں دے گی
ساریسہ میں تمہارے سامنے ہاتھ جوڑتا ہوں خدا کے لیے مہر کو چھوڑ دو اس نے تمہارا کیا بگاڑا ہے تمہارا گناہ گار میں ہوں میں نے اس سے شادی کی ہے وہ تو انجان تھی
اس نے جلدی سے اٹھ کر دوبارہ دروازے کی طرف لپکنے کی کوشش کی جب کسی نے اسے پاوں سے پکڑ کر زمین پر پٹکا ۔
مہر کی زوردار چیخ بلند ہوئی جب شہر یار اور دوز سے دروازہ کھٹکھٹانے لگا
مہر دروازہ کھولو یہ دروازہ کیسے بند ہو گیا باہر سے شہریار کی آواز آرہی تھی لیکن مہر کچھ بھی نہیں بول پا رہی تھی اس کی زبان تالو جا چپکی تھی ۔
خوف سے پورے جسم پرپسینہ آ چکا تھا
اسے لگا جیسے اس کے جسم سے جان نکلنے جارہی ہے اس کی زندگی کے آخری لمحات شروع ہو چکے ہیں کسی چیز نے مہر کو سیدھا کیا وہ اسے دیکھ نہیں پا رہی تھی لیکن اس کی پکڑ اتنی سخت تھی کہ مہرکو اپنی جان نکلتی محسوس ہوئی
تو مجھ سے میرے شہر یار کو چھینے گی میں تجھے جان سے مار دوں گی وہ صرف میرا ہے اس پے صرف میرا حق ہے میں اس کے سامنے تیری جان لے لوں گی
تقریبا دو بجے کے بعد مہراپنا سارا سامان تیار کر چکی تھی وہ اپنے کمرے میں تھی جبکہ شہریار باہر بیٹھا ہوا تھا اپنے والدین کے ساتھ ایک کے بعد دوسرا امل پیر صاحب نہ جانے کون کون آ رہے تھے ۔
لیکن اس طاقت کو یہاں سے نکالنا مشکل ہی نہیں ناممکن تھا وہ 22 سال سے اس گھر پہ قبضہ کیے ہوئے تھی۔ یہ گھر اب اسی کا تھا کیونکہ اس نے اپنی زندگی کے بائیس سال اس گھر میں گزار لیے تھے
سارا سامان پیک کر کے باہر جانے لگی جب اچانک دروازے بند ہوگئے
مہر نے فورا دروازہ کھولنے کی کوشش کی لیکن اسے ایسا محسوس ہوا کہ کمرے میں کوئی ہے ہر طرف نظر گھمانے کے بعد بھی اسے کوئی نظر نہ آیا وہ زور زور سے دروازہ پیٹتے لگی دروازے کی آواز سن کر سب دروازے کی طرف بھاگے
لیکن دروازہ کھلنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا جب ہوا میں مہر کو ایک زور دار تھپڑ مارا اور مہر دورجاگری
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain