نجانے 22 سال ساریسہ نے ایک ہی کمرے میں تنہائی میں کس طرح سے گزارے ہوں گے اس نے غلطی کی تھی اس نے تین لوگوں کا قتل کیا تھا لیکن قتل کی سزا 22 سالہ کمرے میں قید رہ کر کو کاٹ چکی تھی
اپنی جادوئی طاقتوں کے بغیر اپنے پری زاد وجود کے بغیر بنا کسی سے بات کیے صرف شہریار کو 22 سال تک وہ پکارتی رہی ۔
تو کیا شہریار اس سے بات کر کے اسے سمجھا نہیں سکتا تھا ۔
مشکل تھا لیکن شہریار یہ مشکل کام کرنا چاہتا تھا
دوپہر 2 بجے کی فلائٹ سے اس نے مہر کو بیجنے کا فیصلہ کیا گیا زیان کے ساتھ تھا
اور اس کا انتظام اس نے بہت مشکل سے کیا تھا کیونکہ ان کی سیٹ ایک ہفتے کے بعد کنفرم ہوئی تھی ۔
لیکن اس وقت مہر کا جانا بہت ضروری تھا کیونکہ اس کی جان خطرے میں تھی اور شہر یار اپنی جان کو اپنی آنکھوں کے سامنے مرتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا تھا
❤
لیکن اس نے صاف انکار کر دیا اس نے کہا کہ وہ ساریسہ سے بات کرے گا اسے سمجھائے گا کہ وہ ایک عام انسان ہے اور پریذاد کے ساتھ زندگی گزارنے کے بارے میں نہیں سوچ سکتا
یہ سچ ہے کہ اب ساریسہ اس کے کسی حکم کی تکمیل نہیں کرنے والی تھی کیونکہ یہ کام اسے صرف سات دنوں میں کرنا تھا ۔
اب ساریسہ خود مختار ہیں وہ جو چاہے کر سکتی ہے لیکن وہ اس سے "عشق" کا دعوی کرتی تھی تو کیا اسی " عشق " کے ہاتھوں اس کی بات مان نہیں سکتی تھی
جو کرنے جا رہا تھا وہ بہت مشکل تھا لیکن ایک کوشش کرنے میں کیا حرج ہے وہ اتنے سالوں سے اس لڑکی کے ساتھ ناانصافی کر رہا تھا اتنے برسوں سے جس سے نفرت کرتا تھا جس کے لیے وہ بے چین تھا اس کی حقیقت جان کر اسے تکلیف ہوئی تھی
اس نے خود کسی انسان کے بارے میں برا نہیں سوچتا تھا
وہ مانتا تھا کہ اس میں کہیں نہ کہیں غلطی سکندر کی ہے ۔جو انجانے میں ایک لڑکی سے محبت کر بیٹھا اس کی حقیقت جان کر اس کا ساتھ نبھانے کے بجائے اسے چھوڑ دیا
لیکن وہ ایک عام انسان تھا اس نے اپنی زندگی میں کسی پری کا تصور نہیں کیا تھا
شہریار نے مہر کو بہت مشکل سے منایا وہ جاننے کے لئے ہرگز تیار نہ تھی لیکن شہریار سے جانے پر مجبور کر دیا اپنی قسم دے کر اور شہریار کی قسم پر مہر جانے کے لیے مجبور ہوگئی
وہ زیان کے ساتھ کینیڈا جارہی تھی یہ بات مہر کے گھر والے بھی نہیں جانتے تھے اور نہ ہی شہر یار نے انہیں بتانے کے بارے میں سوچا تھا وہ اپنے مسئلے میں انہیں شامل نہیں کرنا چاہتے تھے اور مہر بھی اس کے اس فیصلے میں اس کا بھرپور ساتھ دے رہی تھی
❤
شہریار نے مہر جانے کا سارا انتظام کر لیا تھا مامابابا چاہتے تھے کہ شہریار بھی چلا جائے
کتنی مختلف تھی
کتابوں کی کہانی اور زندگی کی کہانی
ہر چیز کے دو پہلو ہوتے ہیں اگر اس دنیا میں اچھی پریاں ہیں تو کچھ ساریسہ جیسی بھی ہے جو صرف اور صرف اپنی ضد کے لئے کسی کو بھی نقصان پہنچا سکتی ہیں
پریام کے والد نے سکندر سے بدلہ لینے کے لیے ساریسا کا نکاح شہریار سے کروا دیا اور ہر پریزاد کی طرح ساریسہ کے لئے اس کا شوہر اس کا "عشق " تھا جسے نبھانا وہ اپنا فرض سمجھتی تھی
لیکن پریام کے والد نے یہ کبھی نہیں سوچا تھا کہ ساریسا اپنی ضد میں اس حد تک آگے بڑھ جائے گی کہ انسانی زندگیوں کی جان لینے لگے گی
شہریار کے دادا نے صرف اسے بچی سمجھ کر ڈانٹا تھا اور عابد کی بیوی صرف فطرتا مسکرائی تھی
چھوٹی سی بچی پر ہاتھ اٹھانے کے جرم میں کوئی کسی کا قتل نہیں کرتا
شہریار نے اپنے اپنے کھوئے تھے
اب اس کے ساتھ ناانصافی نہیں کر سکتا تھا
لیکن ایک پری ذاد کے ساتھ ساری زندگی گزارنا ایک انسان کے بس سے باہر تھا
کسی نے سچ ہی کہا تھا پر یاں صرف کتابوں کی حد تک ہی اچھی لگتی ہیں اگر یہ آپ کی اصل زندگی میں شامل ہو جائیں آپ کبھی ایک نارمل زندگی نہیں گزار سکتے
اور شہر یار ایک نارمل زندگی گزارنا چاہتا تھا وہ کوئی فیری ٹیل کہانی کا حصہ نہیں بننا چاہتا تھا
❤
میں کہیں نہیں جاؤں گی شہریار جب تک تم یہاں پہ ہو میں یہاں سے کہیں نہیں جاؤں گی اور ماما بابا اگر ساریسا نے کچھ کر دیا تو ۔۔۔۔۔۔؟
میں تم لوگوں کو یہاں اکیلا چھوڑ کر نہیں جاؤں گی میں اگر کینیڈا جاوں گی تو تم میرے ساتھ چلو گے مہر نے انکار کرتے ہوئے کہا
کل تک اسے پریاں بہت اچھی لگتی تھی پریوں کی کہانیاں پڑھنا اس کا سب سے فیورٹ کام تھا لیکن اپنی زندگی میں اس پری کی خواہش کر کے پچھتا رہی تھی
عشق
#قسط_16
❤
ساریسہ گھر پر نہیں تھی لیکن اس کا ڈر پوری حویلی میں پھیلا ہوا تھا
سب لوگ سمجھتے تھے کہ وہ مہر کے علاوہ اس وقت اور کسی کی دشمنی نہیں
اور یہی چیز شہریار برداشت نہیں کر پا رہا تھا اسے سمجھ آ چکا تھا کہ وہ مہر کو نہیں چھوڑے گی کسی بھی حال میں مہر کو نقصان پہنچانے کی کوشش ضرور کرے گی
اسی لئے صبح ہوتے ہی وہ وہ مہر کو یہاں سے نکال دینا چاہتا تھا
وہ مہر کو کینیڈا بیج رہا تھا لیکن وہ خود ابھی نہیں جا رہا تھا کہ وہ اپنے ماں باپ کو اس مسئلے میں اکیلا چھوڑ کر نہیں جا سکتا
اس کے ماں باپ اسے سمجھانے کی ہر ممکن کوشش کر رہے تھے لیکنیہ کوئی چھوٹی سی بات نہ تھی
ان سات دنوں میں شہریار نے اس سے جو کچھ بھی کہا تھا ساریسہ نے وہ سب کچھ کیا یہاں تک کہ اپنے شوہر کے حکم پر وہ قید بھی ہوگی 22 سال سے اس کے لئے تڑپ رہی تھی
اس کے ایک اور گناہ سے اس کی ساری جادوئی طاقتی اس کا ساتھ چھوڑ سکتی تھی
لیکن شہریار نے میں باہر کب آؤں گی ساریسہ نے پوچھا
جب میں کہوں گا تب ہی میرے علاوہ تم کسی کی اجازت سے اس کمرے سے باہر نہیں آ سکتی ۔
لیکن آپ کو پکار تو سکتی ہو نا اسے جیسے اجازت چاہی تھی
شہریار نے اپنے باپ کو دیکھا جو اس کا ہاتھ تھامے اس سے اور اپنی ماں اور بیوی کو کمرے سے باہر نکال کر دروازہ بند کر رہا تھا
اس نے دروازے پر کوئی بڑا سا تالا لگایا اور پھر بھیڑیاں لا کر لگانے لگا ۔
تاکہ یہ دروازہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بند ہو جائے
لیکن اس کمرے سے سسکیوں کی آواز پچھلے 22 سال سے آرہی تھی شہریار کے کانوں میں آوازیں پچھلے 22 سال سے اسے بے چین کیے ہوئے تھی
اور اب 22 سال بعدوہ پورے روپ کے ساتھ اس کے سامنے کھڑی تھی
انھوں نے شہریار کا ہاتھ تھام کر اسے اپنی طرف کھینچا
اور شہریار کے منہ سے نکلنے والے الفاظ کچھ یہ تھے
آج سے تم اسی کمرے میں رہوگی جب تک میں تمہیں حکم نہیں دیتا اس کمرے سے نکل نہیں آ سکتی۔ شہریار نےاسے حکم دیتے ہوئے بیڈ پر بیٹھنے کے لئے کہا
توساریسہ غصے سے سکندر کو دیکھا
جبکہ سکندر شہریار کا ہاتھ ہمیں سے باہر لے کے جا رہا تھا ان سات دنوں کے دوران اگر ایک پری ذات کو کوئی بھی حکم اس کے شوہر کی طرف سے ملے تو وہ اسے ساری زندگی نبھاتی ہے جب تک شوہر کا حکم نہ ہو ۔
اسی لیے یہ سات دن ایک پریزاد بہت احتیاط سے گزارتی ہے کہیں اس سے کوئی غلطی نہ ہو جائے لیکن ساریسہ سے بہت ساری غلطیاں ہو چکی تھی وہ تین قتل کر چکی تھی جس کی سزا یہ تھی کہ اب زندگی میں کوئی گناہ نہیں کر سکتی تھی
وہ کیا جانے محبت کیا ہوتی ہے سکندر نے نفرت سے دیکھا ّّ
ہاں میں محبت کا مطلب نہیں جانتی کیونکہ میں نے کبھی کسی سے محبت نہیں کی میں نے صرف عشق کیا ہے شہریار سے
اور میں اپنا عشق اپنے ساتھ لے کر جاؤں گی ۔
اور جو میرے راستے میں آئے گا اس کا میں یہ حال کروں گی ساریسہ نے کہتے ہوئے دیکھتے ہی دیکھتے سب کے سامنے اپنا پھول اٹھا کر امی کے پیٹ میں دے مارا تھوڑی دیر میں زمین ان کے خون سے بھر چکی تھی اور تڑپتے تڑپتے ان کی روح پرواز کر گئی ۔
تم نے میری دادی کو مار ڈالا میں تمہیں چھوڑوں گا نہیں ۔تم بہت بری ہوں ۔آی ہیٹ یو آی ہیٹ یو شہریار اپنے نازک ہاتھوں سے اسے مارنے لگا ۔
جبکہ اس دوران وہ خاموشی سے سر جھکائے شاید شہریار کے غصے کا احترام کر رہی تھی ۔
اپنے ماں باپ کو کھو کر سکندر ناھال ہو چکا تھا اب ان کے پاس اس کے علاوہ اور کوئی راستہ نہ تھا
کل اس نے عابد کی بیوی کو مار ڈالا اس نے بابا جان کو مار ڈالا اب جانے آگے وہ کیا کرے گی کچھ کرے سکندر خدا کے لئے کچھ کرے مجھ میں اور کسی کو کھونے کی ہمت نہیں ہے ۔
آسیہ نے روتے ہوئے کہا ۔۔۔۔۔
جب کہ اپنے شوہر کی موت پر نڈھال امی مجھ سے سیڑھیاں چڑھتی اس کمرے میں آگئی اور آگے پیچھے دیکھے بنا اس کے چہرے پر تھپڑ مارنے لگی
بتا میرے شوہر نے تیرا کیا بگاڑا تھا کیوں ان کی جان لی کیوں قتل کیا ان کا میں تجھے نہیں چھوڑوں گی تو نے میرے شوہر کی جان لی میں تیری جان لے لوں گی امی غصے سے بول رہی تھی
ساریہ خاموشی سے کھڑی ان کے تھپپر کھائے جا رہی تھی جب سکندر نے انہیں آکر روکا ۔
بس کردے امی یہ کوئی انسان نہیں ہے جو انسانوں کے جذبات رکھے گی ۔وہ ایک پری ذات ہے اس کے لئے انسان کی جان لینا کوئی مشکل نہیں ۔
خون کو دیکھتے ہوئے وہ دونوں گھبرا کر پیچھے ہٹی ساریسہ نے ایک خطرناک ترین نظر ان دونوں پر ڈالی اور آگے بڑھ گئی ۔
❤
سکندر ہر طرف جا کر بابا جان کو ڈھونڈ کر واپس آیا تھا لیکن وہ اسے کہیں نہیں مل رہے تھے
اخر بابا گئے تو گئے کہا کسی کو کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا
جب پولیس سٹیشن سے فون آیا کہ جنگل کے بیچوں بیچ آپ کے والد صاحب کی لاش ملی ہے ۔
اور یہ سنوتے ہی حویلی میں سناٹا چھا گیا ۔حویلی کے بچوں کے سر سے بزرگ کا سایہ اٹھ چکا تھا
انہوں نے ایک نظراس کے کمرے کی طرف دیکھا
سکندر یہی یہی رات کے وقت واپس آ رہی تھی ہاتھ میں خون سے بھرا ہوا پھول لے کر کہیں اس نے تو بابا جان کو۔ ۔اپنی بات کرتے ہوئے آسیہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی ۔
وہ میرے شہر یار کو بھی مار دے گی وہ اسے بھی نہیں چھوڑے گی کل بابا نے دن میں اسے ڈانٹا تھا
گھر سے باہر نکلتے ہی نہیں تھے امی جان بھی بہت پریشان تھیں۔
کہیں ساریسہ نے تو کچھ۔ ۔۔۔۔ اگر وہ ایک نوکرانی کو صرف خود پر ہنسنے کی سزا دے سکتی ہے تو بابا نے تو اسے ڈانٹا تھا کہیں وہ ہونے کچھ کر نہ دے
امی جان نہ جانے بابا جان کہاں چلے گئے ہیں میں پوری حویلی میں ڈھونڈ چکی ہوں کہیں نہیں مل رہے۔
گھبراؤ مت بیٹا یہی کہیں گے میں بھی انہیں کوڈھونڈ رہی ہو امی جان بھی انہیں ڈھونڈنے لگی
لیکن بہت تلاش کے بعد بھی وہ کہیں نہ ملے جب ہم نے ساریسہ ۔ گھر کے اندر آتی دکھائی دی
کھلے بال بڑی بڑی آنکھیں لیکن آج ہاتھ میں گلابی کے پھول کی جگہ لال بولتا تھا ۔
قریب سے دیکھنے پر احساس ہوا کہ وہ لال۔ لال نہیں ہے بلکہ اس پہ خون لگا ہوا ہے کس سے دیکھتے ہیں اماں سائیں نے اپنا دل تھام لیا ۔
وہ آہستہ آہستہ قدم اٹھاتی سیڑھیاں چڑھنے لگی
ہاں مجھے آپ کے پاس رہنا ہے اس کے پاس نہیں بہت گندی ہے وہ میری دوست نہیں ہے مجھے ایسی فرینڈ نہیں چاہیے مجھے آپ کے پاس نہیں آنے دیتی شہریار رونے لگا
دیکھو میرا بچہ میں جو کہوں گی تم ہو کرو گے تو یہاں سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے چلی جائے گی
ہم اس گندی بچی کو ہمیشہ کے لئے یہاں سے بھیج دیں گے وہ اسے سمجھاتے ہوئے بولی
ٹھیک ہے ماما آپ جو کہیں گے میں کروں گا وہ ان کی بات ختم ہونے سے پہلے بولا تھا
آسیہ بیگم نے ایک نظر سکندر صاحب کو دیکھا اور یقین سے اثبات میں گردن ہلائی
اور پھر اسے سمجھانے لگے کی آخر کرنا کیا ہے جبکہ سکندر صاحب دروازے پر کھڑے تھے کہیں وہ واپس نہ آ جائے
❤
شہریار کو واپس اسی کمرے میں چھوڑ کراس وہ باہر آئیں تو بابا جان کہیں نہیں مل رہے تھے نہ جانے وہ کہاں چلے گئے جب سے کہ پریوں کا معاملہ شروع ہوا تھا
اپنی ماں کو دروازے کے پاس کھڑا دیکھتے ہیں وہ فوراً دور کا انسان سے آ کر لیٹ گیا اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا
وہ اسے خاموش کرنے لگی اب اسے کسی بھی طرح سے بہلانا تھا پیر صاحب کی بات پر عمل کرنا تھا اگر وہ حل کامیاب ہو جاتا تو وہ ہمیشہ کے لئے ان کی زندگیوں سے چلی جاتی
اور شہر یار بھی آزاد ہو جاتا ۔
اور شہریار کو اس ان چاہے رشتے سے آزاد کرنے کے لئے اس لیے کچھ بھی کرنے کو تیار تھی
سکندر کی جلد بازی میں کیا گیا فیصلہ ان کے لیے بہت غلط ثابت ہورہا تھا ساریسہ بہت ضدی اور خطرناک پری تھی جو اپنی پسند کی چیز کو اس طرح سے جانے نہیں دے سکتی تھی
❤
دیکھو شہریار بیٹا ہم جو کہہ رہے ہیں تمہیں وہی کرنا ہے میرے اچھے بچے تم کرو گے نا آسیہ نے اس کا چھوٹا سا چہرہ اپنے ہاتھوں میں لے لیتے ہوئے یقین کرنا چاہا
#عشق
#قسط15
❤
نہ جانے وہ کہاں جا چکی تھی شہریار کو اکیلے کمرے میں دیکھ کر آسیہ کر دل چاہا کہ وہ اس کے پاس چلی جائے
لیکن اندر خوف بھی تھا کچھ کر نہ دے وہ ان کے معصوم بچے کو
لیکن کچھ تو کرنا تھا اس کا کوئی حل نہیں نکالا تھا ایک راستہ پیر صاحب نے بتایا تھا
اگر وہ کامیاب ہو جائے تو وہ ہمیشہ کے لئے ان کی زندگیوں سے بہت دور جا سکتی تھی
اور یہی خطرناک زات کو اپنے پاس رکھنا بھی نہیں چاہتے تھے
سچ کہتے ہیں لوگ پریاں جتنی خوبصورت ہوتی ہیں اتنی ہی خطرناک ہوتی ہیں
ان کے گھر سے ایک فرد کی جان جا چکی تھی نہ جانے اس کا اگلا شکار کون تھا
کہیں وہ شہریار کو ہی کچھ نہ کر دے یہی سوچتے ہوئے اسیہ دل بار بار گھبرا رہا تھا
پھر اپنے دل سے ہارتے ہوئے وہ آخر اس کمرے میں جا چلی گئی جہاں شہریار تھا ۔
تین دن کے بعد دنیا کی کوئی طاقت اسے روک نہیں پائے گی اور وہ شہریار کو ہمیشہ کے لئے اپنے ساتھ لے جائے گی
اب آگے آپ لوگوں نے کچھ ایسا کرنا ہے کہ خود شہریار اسے کوئی حکم دے کہ وہ شہریار سے دور ہو جائے جائے و ہی شہریار کی جان بھی چھوٹ سکتی ہے
لیکن پیر صاحب شہریار صرف پانچ سال کا ہے وہ ان سب باتوں کو سمجھتا بھی نہیں وہ کیسے اس پری زادکو کوئی بھی حکم دے سکتا ہے سکندر نے پریشانی سے کہا
سکندر صاحب بچہ شہریار ہے آپ لوگ نہیں آپ لوگوں سے سمجھائیں تو آپ لوگوں کی باتوں کو سمجھے گا بس کسی بھی طرح سے آپ کو شہریار سے اکیلے میں ملنا ہوگا پیر صاحب جتنا سمجھا سکتے تھے سمجھا کر چکے تھے سے زیادہ وہ ان کے لیے کچھ نہیں کر سکتے تھے ۔
وہ ساری رات اپنے کمرے کے باہر بیٹھی رہی لیکن اس نے دروازہ نہیں کھلا
❤
صبح چھ بجے پیر صاحب گھر آ چکے تھے اور وہ یہ بھی جانتے تھے کہ شہریار ساریسہ کے پاس ہے اور وہ اسے کسی سے بھی ملے نہیں دے رہی ۔
یہاں تک کہ اسے بالکل چھپا کے رکھ لیا ہے اور سات دن کے بعد وہ اسے ہمیشہ کے لئے اپنے ساتھ لے جانے والی ہے
ایک قتل کرچکی تھی ۔
اگلے قتل کے لیے بھی تیار تھی وہ شہر یار اور اپنے راستے میں آنے والی ہر رکاوٹ کو ختم کر دینے والی تھی پیر صاحب نے زندگی میں اس سے زیادہ ضدی پری نہیں دیکھی تھی
پیر صاحب نے ساریسہ کو سمجھانے کی بہت کوشش کی نہ تو اس پر ان کے عمل کا اثر ہوا تھا اور نہ ہی ان کی باتوں کا ۔
❤
شہریار کو بچانے کا بس ایک ہی راستہ ہے اور وہ یہ ہے کہ اگر ایک پریزاد کا شوہر خود اسے کسی بات کا حکم دے تو وہ جان لٹا کر بھی اس کا حکم بجا لاتی ہیں
رات کے اندھیرے گہرے ہوئے تو باہر سے عابد بیوی کے چیخنے چلانے کی آوازیں آنے لگیں پریشانی حد سے سوار تھی کوئی بھی سو نہیں رہا تھا نوکرانی کی آواز سنتے ہی سب لوگ باہر آئے پر کہیں پر بھی عابد کی بیوی نظر نہ آئی
وہ تیزی سے بھاگ کر گھر سے باہر نکلے تو سامنے بڑے سے درخت پر اس کی گردن لٹکی ہوئی تھی جب کہ ہاتھ کاٹے دور پڑے تھے اور جسم وہی زمین پر پڑا تھا
آج دوپہر میں جب بابا جان اسے ڈانٹ رہے تھے تب یہی نوکرانی مسکرا رہی تھی اور ان کے جاتے ہی اس نے کہا تھا
بڑی آئی پری ۔اور اس سے ساریسی نے اسے دیکھا تھا طے حد غصہ تو ہھر اس کا شاید یہی انجام ہونا تھا ۔
ساریسہ کہاں گئی کوئی نہیں لیکن وہاں باہر نہیں تھی شہریار کمرے میں اکیلا سو رہا تھا یہ سوچتے ہی آسیہ اور اپنے کمرے کی طرف بھاگی لیکن اپنا کمرہ بند دیکھ کر پریشان ہو گئی
یہاں تک کہ اس کا سخت رویہ دیکھتے ہوئے آسیہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی جس پربابا جان کو بہت غصہ آنے لگا انہوں نے اپنا غصہ نکالتے ہوئے ایک بار نہیں سوچا کہ اس کا کیا انجام ہوگا
اور بنا سوچے سمجھے ساریسہ کو بہت سارا ڈالتا اور زبردستی شہریار کو اٹھا کر اسی کی گود میں ڈال دیا لیکن اس کے بعد وہ اپنے انجام سے بے خبر تھے وہ عجیب نظروں سے نانہیں دیکھتی واپس وہاں کرسی پر بیٹھ گئی اس کے چہرے سے اس کے غصے کا اندازہ لگانا زیادہ مشکل نہ تھا ۔لیکن اس وقت تو بہت کچھ نہیں بولی
❤
رات دو بجے وقت تھا تقریبا سب ہی لوگ سو گئے تھے شہر یار آج اپنی ماں کے پاس تھا صبح پیر صاحب یہاں آنے والے تھے وہی سب کا کوئی حل نکانے والے تھے
اسی لئے گھر کے سبھی افراد کل صبح ہونے کا انتظار کر رہے تھے ان دنوں وہ سب ہی بہت پریشان ہو چکے تھے
ساریسہ سائےکی طرح شہریار کے ساتھ رہتی تھی وہ اس کی ماں کو بھی اس کے قریب نہ طھٹکنے دیتی
یہ ان کی کی پریوں کی نگری کا ایک رواج تھا کے پری سات دن تک پہلے شوہر کے گھر پر رہ کر اسے ہمیشہ کے لئے اپنے ساتھ لے جاتی ہے
اور یہی وجہ تھی کہ ساریسہ یہاں سات دن رہنے آئی تھی سات دنوں کے لئے اس نے شہریار کو ان سے بہت دور کر دیا تھا
شہریار روتا رہتا تڑپتا رہتا وہ اسے اس کی ماں کے پاس نہ جانے دیتی ہے اور نہ ہی گھر میں کسی اور کے پاس
اگر ان لوگوں میں سے کوئی اس کے پاس جاتا تو وہ اپنی جادوئی طاقت کا استعمال کرتے ہوئے ان کے ساتھ برا سلوک کرتی گھر کے مالک تو مالک نوکر بھی اس چھوٹی سی بچی سے ڈرے سہمے سہمے رہنے لگے تھے
❤
گھر میں سب لوگ بہت پریشان تھے اور پریشانی کی وجہ تھی ساریسہ تھی جو شہریار کو ایک سیکنڈ کے لئے خود سے دور نہیں کر رہی تھی
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain