Damadam.pk
Mirh@_Ch's posts | Damadam

Mirh@_Ch's posts:

Mirh@_Ch
 

نجانے 22 سال ساریسہ نے ایک ہی کمرے میں تنہائی میں کس طرح سے گزارے ہوں گے اس نے غلطی کی تھی اس نے تین لوگوں کا قتل کیا تھا لیکن قتل کی سزا 22 سالہ کمرے میں قید رہ کر کو کاٹ چکی تھی
اپنی جادوئی طاقتوں کے بغیر اپنے پری زاد وجود کے بغیر بنا کسی سے بات کیے صرف شہریار کو 22 سال تک وہ پکارتی رہی ۔
تو کیا شہریار اس سے بات کر کے اسے سمجھا نہیں سکتا تھا ۔
مشکل تھا لیکن شہریار یہ مشکل کام کرنا چاہتا تھا
دوپہر 2 بجے کی فلائٹ سے اس نے مہر کو بیجنے کا فیصلہ کیا گیا زیان کے ساتھ تھا
اور اس کا انتظام اس نے بہت مشکل سے کیا تھا کیونکہ ان کی سیٹ ایک ہفتے کے بعد کنفرم ہوئی تھی ۔
لیکن اس وقت مہر کا جانا بہت ضروری تھا کیونکہ اس کی جان خطرے میں تھی اور شہر یار اپنی جان کو اپنی آنکھوں کے سامنے مرتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا تھا

Mirh@_Ch
 

لیکن اس نے صاف انکار کر دیا اس نے کہا کہ وہ ساریسہ سے بات کرے گا اسے سمجھائے گا کہ وہ ایک عام انسان ہے اور پریذاد کے ساتھ زندگی گزارنے کے بارے میں نہیں سوچ سکتا
یہ سچ ہے کہ اب ساریسہ اس کے کسی حکم کی تکمیل نہیں کرنے والی تھی کیونکہ یہ کام اسے صرف سات دنوں میں کرنا تھا ۔
اب ساریسہ خود مختار ہیں وہ جو چاہے کر سکتی ہے لیکن وہ اس سے "عشق" کا دعوی کرتی تھی تو کیا اسی " عشق " کے ہاتھوں اس کی بات مان نہیں سکتی تھی
جو کرنے جا رہا تھا وہ بہت مشکل تھا لیکن ایک کوشش کرنے میں کیا حرج ہے وہ اتنے سالوں سے اس لڑکی کے ساتھ ناانصافی کر رہا تھا اتنے برسوں سے جس سے نفرت کرتا تھا جس کے لیے وہ بے چین تھا اس کی حقیقت جان کر اسے تکلیف ہوئی تھی
اس نے خود کسی انسان کے بارے میں برا نہیں سوچتا تھا

Mirh@_Ch
 

وہ مانتا تھا کہ اس میں کہیں نہ کہیں غلطی سکندر کی ہے ۔جو انجانے میں ایک لڑکی سے محبت کر بیٹھا اس کی حقیقت جان کر اس کا ساتھ نبھانے کے بجائے اسے چھوڑ دیا
لیکن وہ ایک عام انسان تھا اس نے اپنی زندگی میں کسی پری کا تصور نہیں کیا تھا
شہریار نے مہر کو بہت مشکل سے منایا وہ جاننے کے لئے ہرگز تیار نہ تھی لیکن شہریار سے جانے پر مجبور کر دیا اپنی قسم دے کر اور شہریار کی قسم پر مہر جانے کے لیے مجبور ہوگئی
وہ زیان کے ساتھ کینیڈا جارہی تھی یہ بات مہر کے گھر والے بھی نہیں جانتے تھے اور نہ ہی شہر یار نے انہیں بتانے کے بارے میں سوچا تھا وہ اپنے مسئلے میں انہیں شامل نہیں کرنا چاہتے تھے اور مہر بھی اس کے اس فیصلے میں اس کا بھرپور ساتھ دے رہی تھی

شہریار نے مہر جانے کا سارا انتظام کر لیا تھا مامابابا چاہتے تھے کہ شہریار بھی چلا جائے

Mirh@_Ch
 

کتنی مختلف تھی
کتابوں کی کہانی اور زندگی کی کہانی
ہر چیز کے دو پہلو ہوتے ہیں اگر اس دنیا میں اچھی پریاں ہیں تو کچھ ساریسہ جیسی بھی ہے جو صرف اور صرف اپنی ضد کے لئے کسی کو بھی نقصان پہنچا سکتی ہیں
پریام کے والد نے سکندر سے بدلہ لینے کے لیے ساریسا کا نکاح شہریار سے کروا دیا اور ہر پریزاد کی طرح ساریسہ کے لئے اس کا شوہر اس کا "عشق " تھا جسے نبھانا وہ اپنا فرض سمجھتی تھی
لیکن پریام کے والد نے یہ کبھی نہیں سوچا تھا کہ ساریسا اپنی ضد میں اس حد تک آگے بڑھ جائے گی کہ انسانی زندگیوں کی جان لینے لگے گی
شہریار کے دادا نے صرف اسے بچی سمجھ کر ڈانٹا تھا اور عابد کی بیوی صرف فطرتا مسکرائی تھی
چھوٹی سی بچی پر ہاتھ اٹھانے کے جرم میں کوئی کسی کا قتل نہیں کرتا
شہریار نے اپنے اپنے کھوئے تھے

Mirh@_Ch
 

اب اس کے ساتھ ناانصافی نہیں کر سکتا تھا
لیکن ایک پری ذاد کے ساتھ ساری زندگی گزارنا ایک انسان کے بس سے باہر تھا
کسی نے سچ ہی کہا تھا پر یاں صرف کتابوں کی حد تک ہی اچھی لگتی ہیں اگر یہ آپ کی اصل زندگی میں شامل ہو جائیں آپ کبھی ایک نارمل زندگی نہیں گزار سکتے
اور شہر یار ایک نارمل زندگی گزارنا چاہتا تھا وہ کوئی فیری ٹیل کہانی کا حصہ نہیں بننا چاہتا تھا

میں کہیں نہیں جاؤں گی شہریار جب تک تم یہاں پہ ہو میں یہاں سے کہیں نہیں جاؤں گی اور ماما بابا اگر ساریسا نے کچھ کر دیا تو ۔۔۔۔۔۔؟
میں تم لوگوں کو یہاں اکیلا چھوڑ کر نہیں جاؤں گی میں اگر کینیڈا جاوں گی تو تم میرے ساتھ چلو گے مہر نے انکار کرتے ہوئے کہا
کل تک اسے پریاں بہت اچھی لگتی تھی پریوں کی کہانیاں پڑھنا اس کا سب سے فیورٹ کام تھا لیکن اپنی زندگی میں اس پری کی خواہش کر کے پچھتا رہی تھی

Mirh@_Ch
 

عشق
#قسط_16

ساریسہ گھر پر نہیں تھی لیکن اس کا ڈر پوری حویلی میں پھیلا ہوا تھا
سب لوگ سمجھتے تھے کہ وہ مہر کے علاوہ اس وقت اور کسی کی دشمنی نہیں
اور یہی چیز شہریار برداشت نہیں کر پا رہا تھا اسے سمجھ آ چکا تھا کہ وہ مہر کو نہیں چھوڑے گی کسی بھی حال میں مہر کو نقصان پہنچانے کی کوشش ضرور کرے گی
اسی لئے صبح ہوتے ہی وہ وہ مہر کو یہاں سے نکال دینا چاہتا تھا
وہ مہر کو کینیڈا بیج رہا تھا لیکن وہ خود ابھی نہیں جا رہا تھا کہ وہ اپنے ماں باپ کو اس مسئلے میں اکیلا چھوڑ کر نہیں جا سکتا
اس کے ماں باپ اسے سمجھانے کی ہر ممکن کوشش کر رہے تھے لیکنیہ کوئی چھوٹی سی بات نہ تھی
ان سات دنوں میں شہریار نے اس سے جو کچھ بھی کہا تھا ساریسہ نے وہ سب کچھ کیا یہاں تک کہ اپنے شوہر کے حکم پر وہ قید بھی ہوگی 22 سال سے اس کے لئے تڑپ رہی تھی

Mirh@_Ch
 

اس کے ایک اور گناہ سے اس کی ساری جادوئی طاقتی اس کا ساتھ چھوڑ سکتی تھی
لیکن شہریار نے میں باہر کب آؤں گی ساریسہ نے پوچھا
جب میں کہوں گا تب ہی میرے علاوہ تم کسی کی اجازت سے اس کمرے سے باہر نہیں آ سکتی ۔
لیکن آپ کو پکار تو سکتی ہو نا اسے جیسے اجازت چاہی تھی
شہریار نے اپنے باپ کو دیکھا جو اس کا ہاتھ تھامے اس سے اور اپنی ماں اور بیوی کو کمرے سے باہر نکال کر دروازہ بند کر رہا تھا
اس نے دروازے پر کوئی بڑا سا تالا لگایا اور پھر بھیڑیاں لا کر لگانے لگا ۔
تاکہ یہ دروازہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بند ہو جائے
لیکن اس کمرے سے سسکیوں کی آواز پچھلے 22 سال سے آرہی تھی شہریار کے کانوں میں آوازیں پچھلے 22 سال سے اسے بے چین کیے ہوئے تھی
اور اب 22 سال بعدوہ پورے روپ کے ساتھ اس کے سامنے کھڑی تھی

Mirh@_Ch
 

انھوں نے شہریار کا ہاتھ تھام کر اسے اپنی طرف کھینچا
اور شہریار کے منہ سے نکلنے والے الفاظ کچھ یہ تھے
آج سے تم اسی کمرے میں رہوگی جب تک میں تمہیں حکم نہیں دیتا اس کمرے سے نکل نہیں آ سکتی۔ شہریار نےاسے حکم دیتے ہوئے بیڈ پر بیٹھنے کے لئے کہا
توساریسہ غصے سے سکندر کو دیکھا
جبکہ سکندر شہریار کا ہاتھ ہمیں سے باہر لے کے جا رہا تھا ان سات دنوں کے دوران اگر ایک پری ذات کو کوئی بھی حکم اس کے شوہر کی طرف سے ملے تو وہ اسے ساری زندگی نبھاتی ہے جب تک شوہر کا حکم نہ ہو ۔
اسی لیے یہ سات دن ایک پریزاد بہت احتیاط سے گزارتی ہے کہیں اس سے کوئی غلطی نہ ہو جائے لیکن ساریسہ سے بہت ساری غلطیاں ہو چکی تھی وہ تین قتل کر چکی تھی جس کی سزا یہ تھی کہ اب زندگی میں کوئی گناہ نہیں کر سکتی تھی

Mirh@_Ch
 

وہ کیا جانے محبت کیا ہوتی ہے سکندر نے نفرت سے دیکھا ّّ
ہاں میں محبت کا مطلب نہیں جانتی کیونکہ میں نے کبھی کسی سے محبت نہیں کی میں نے صرف عشق کیا ہے شہریار سے
اور میں اپنا عشق اپنے ساتھ لے کر جاؤں گی ۔
اور جو میرے راستے میں آئے گا اس کا میں یہ حال کروں گی ساریسہ نے کہتے ہوئے دیکھتے ہی دیکھتے سب کے سامنے اپنا پھول اٹھا کر امی کے پیٹ میں دے مارا تھوڑی دیر میں زمین ان کے خون سے بھر چکی تھی اور تڑپتے تڑپتے ان کی روح پرواز کر گئی ۔
تم نے میری دادی کو مار ڈالا میں تمہیں چھوڑوں گا نہیں ۔تم بہت بری ہوں ۔آی ہیٹ یو آی ہیٹ یو شہریار اپنے نازک ہاتھوں سے اسے مارنے لگا ۔
جبکہ اس دوران وہ خاموشی سے سر جھکائے شاید شہریار کے غصے کا احترام کر رہی تھی ۔
اپنے ماں باپ کو کھو کر سکندر ناھال ہو چکا تھا اب ان کے پاس اس کے علاوہ اور کوئی راستہ نہ تھا

Mirh@_Ch
 

کل اس نے عابد کی بیوی کو مار ڈالا اس نے بابا جان کو مار ڈالا اب جانے آگے وہ کیا کرے گی کچھ کرے سکندر خدا کے لئے کچھ کرے مجھ میں اور کسی کو کھونے کی ہمت نہیں ہے ۔
آسیہ نے روتے ہوئے کہا ۔۔۔۔۔
جب کہ اپنے شوہر کی موت پر نڈھال امی مجھ سے سیڑھیاں چڑھتی اس کمرے میں آگئی اور آگے پیچھے دیکھے بنا اس کے چہرے پر تھپڑ مارنے لگی
بتا میرے شوہر نے تیرا کیا بگاڑا تھا کیوں ان کی جان لی کیوں قتل کیا ان کا میں تجھے نہیں چھوڑوں گی تو نے میرے شوہر کی جان لی میں تیری جان لے لوں گی امی غصے سے بول رہی تھی
ساریہ خاموشی سے کھڑی ان کے تھپپر کھائے جا رہی تھی جب سکندر نے انہیں آکر روکا ۔
بس کردے امی یہ کوئی انسان نہیں ہے جو انسانوں کے جذبات رکھے گی ۔وہ ایک پری ذات ہے اس کے لئے انسان کی جان لینا کوئی مشکل نہیں ۔

Mirh@_Ch
 

خون کو دیکھتے ہوئے وہ دونوں گھبرا کر پیچھے ہٹی ساریسہ نے ایک خطرناک ترین نظر ان دونوں پر ڈالی اور آگے بڑھ گئی ۔

سکندر ہر طرف جا کر بابا جان کو ڈھونڈ کر واپس آیا تھا لیکن وہ اسے کہیں نہیں مل رہے تھے
اخر بابا گئے تو گئے کہا کسی کو کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا
جب پولیس سٹیشن سے فون آیا کہ جنگل کے بیچوں بیچ آپ کے والد صاحب کی لاش ملی ہے ۔
اور یہ سنوتے ہی حویلی میں سناٹا چھا گیا ۔حویلی کے بچوں کے سر سے بزرگ کا سایہ اٹھ چکا تھا
انہوں نے ایک نظراس کے کمرے کی طرف دیکھا
سکندر یہی یہی رات کے وقت واپس آ رہی تھی ہاتھ میں خون سے بھرا ہوا پھول لے کر کہیں اس نے تو بابا جان کو۔ ۔اپنی بات کرتے ہوئے آسیہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی ۔
وہ میرے شہر یار کو بھی مار دے گی وہ اسے بھی نہیں چھوڑے گی کل بابا نے دن میں اسے ڈانٹا تھا

Mirh@_Ch
 

گھر سے باہر نکلتے ہی نہیں تھے امی جان بھی بہت پریشان تھیں۔
کہیں ساریسہ نے تو کچھ۔ ۔۔۔۔ اگر وہ ایک نوکرانی کو صرف خود پر ہنسنے کی سزا دے سکتی ہے تو بابا نے تو اسے ڈانٹا تھا کہیں وہ ہونے کچھ کر نہ دے
امی جان نہ جانے بابا جان کہاں چلے گئے ہیں میں پوری حویلی میں ڈھونڈ چکی ہوں کہیں نہیں مل رہے۔
گھبراؤ مت بیٹا یہی کہیں گے میں بھی انہیں کوڈھونڈ رہی ہو امی جان بھی انہیں ڈھونڈنے لگی
لیکن بہت تلاش کے بعد بھی وہ کہیں نہ ملے جب ہم نے ساریسہ ۔ گھر کے اندر آتی دکھائی دی
کھلے بال بڑی بڑی آنکھیں لیکن آج ہاتھ میں گلابی کے پھول کی جگہ لال بولتا تھا ۔
قریب سے دیکھنے پر احساس ہوا کہ وہ لال۔ لال نہیں ہے بلکہ اس پہ خون لگا ہوا ہے کس سے دیکھتے ہیں اماں سائیں نے اپنا دل تھام لیا ۔
وہ آہستہ آہستہ قدم اٹھاتی سیڑھیاں چڑھنے لگی

Mirh@_Ch
 

ہاں مجھے آپ کے پاس رہنا ہے اس کے پاس نہیں بہت گندی ہے وہ میری دوست نہیں ہے مجھے ایسی فرینڈ نہیں چاہیے مجھے آپ کے پاس نہیں آنے دیتی شہریار رونے لگا
دیکھو میرا بچہ میں جو کہوں گی تم ہو کرو گے تو یہاں سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے چلی جائے گی
ہم اس گندی بچی کو ہمیشہ کے لئے یہاں سے بھیج دیں گے وہ اسے سمجھاتے ہوئے بولی
ٹھیک ہے ماما آپ جو کہیں گے میں کروں گا وہ ان کی بات ختم ہونے سے پہلے بولا تھا
آسیہ بیگم نے ایک نظر سکندر صاحب کو دیکھا اور یقین سے اثبات میں گردن ہلائی
اور پھر اسے سمجھانے لگے کی آخر کرنا کیا ہے جبکہ سکندر صاحب دروازے پر کھڑے تھے کہیں وہ واپس نہ آ جائے

شہریار کو واپس اسی کمرے میں چھوڑ کراس وہ باہر آئیں تو بابا جان کہیں نہیں مل رہے تھے نہ جانے وہ کہاں چلے گئے جب سے کہ پریوں کا معاملہ شروع ہوا تھا

Mirh@_Ch
 

اپنی ماں کو دروازے کے پاس کھڑا دیکھتے ہیں وہ فوراً دور کا انسان سے آ کر لیٹ گیا اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا
وہ اسے خاموش کرنے لگی اب اسے کسی بھی طرح سے بہلانا تھا پیر صاحب کی بات پر عمل کرنا تھا اگر وہ حل کامیاب ہو جاتا تو وہ ہمیشہ کے لئے ان کی زندگیوں سے چلی جاتی
اور شہر یار بھی آزاد ہو جاتا ۔
اور شہریار کو اس ان چاہے رشتے سے آزاد کرنے کے لئے اس لیے کچھ بھی کرنے کو تیار تھی
سکندر کی جلد بازی میں کیا گیا فیصلہ ان کے لیے بہت غلط ثابت ہورہا تھا ساریسہ بہت ضدی اور خطرناک پری تھی جو اپنی پسند کی چیز کو اس طرح سے جانے نہیں دے سکتی تھی

دیکھو شہریار بیٹا ہم جو کہہ رہے ہیں تمہیں وہی کرنا ہے میرے اچھے بچے تم کرو گے نا آسیہ نے اس کا چھوٹا سا چہرہ اپنے ہاتھوں میں لے لیتے ہوئے یقین کرنا چاہا

Mirh@_Ch
 

#عشق
#قسط15

نہ جانے وہ کہاں جا چکی تھی شہریار کو اکیلے کمرے میں دیکھ کر آسیہ کر دل چاہا کہ وہ اس کے پاس چلی جائے
لیکن اندر خوف بھی تھا کچھ کر نہ دے وہ ان کے معصوم بچے کو
لیکن کچھ تو کرنا تھا اس کا کوئی حل نہیں نکالا تھا ایک راستہ پیر صاحب نے بتایا تھا
اگر وہ کامیاب ہو جائے تو وہ ہمیشہ کے لئے ان کی زندگیوں سے بہت دور جا سکتی تھی
اور یہی خطرناک زات کو اپنے پاس رکھنا بھی نہیں چاہتے تھے
سچ کہتے ہیں لوگ پریاں جتنی خوبصورت ہوتی ہیں اتنی ہی خطرناک ہوتی ہیں
ان کے گھر سے ایک فرد کی جان جا چکی تھی نہ جانے اس کا اگلا شکار کون تھا
کہیں وہ شہریار کو ہی کچھ نہ کر دے یہی سوچتے ہوئے اسیہ دل بار بار گھبرا رہا تھا
پھر اپنے دل سے ہارتے ہوئے وہ آخر اس کمرے میں جا چلی گئی جہاں شہریار تھا ۔

Mirh@_Ch
 

تین دن کے بعد دنیا کی کوئی طاقت اسے روک نہیں پائے گی اور وہ شہریار کو ہمیشہ کے لئے اپنے ساتھ لے جائے گی
اب آگے آپ لوگوں نے کچھ ایسا کرنا ہے کہ خود شہریار اسے کوئی حکم دے کہ وہ شہریار سے دور ہو جائے جائے و ہی شہریار کی جان بھی چھوٹ سکتی ہے
لیکن پیر صاحب شہریار صرف پانچ سال کا ہے وہ ان سب باتوں کو سمجھتا بھی نہیں وہ کیسے اس پری زادکو کوئی بھی حکم دے سکتا ہے سکندر نے پریشانی سے کہا
سکندر صاحب بچہ شہریار ہے آپ لوگ نہیں آپ لوگوں سے سمجھائیں تو آپ لوگوں کی باتوں کو سمجھے گا بس کسی بھی طرح سے آپ کو شہریار سے اکیلے میں ملنا ہوگا پیر صاحب جتنا سمجھا سکتے تھے سمجھا کر چکے تھے سے زیادہ وہ ان کے لیے کچھ نہیں کر سکتے تھے ۔

Mirh@_Ch
 

وہ ساری رات اپنے کمرے کے باہر بیٹھی رہی لیکن اس نے دروازہ نہیں کھلا

صبح چھ بجے پیر صاحب گھر آ چکے تھے اور وہ یہ بھی جانتے تھے کہ شہریار ساریسہ کے پاس ہے اور وہ اسے کسی سے بھی ملے نہیں دے رہی ۔
یہاں تک کہ اسے بالکل چھپا کے رکھ لیا ہے اور سات دن کے بعد وہ اسے ہمیشہ کے لئے اپنے ساتھ لے جانے والی ہے
ایک قتل کرچکی تھی ۔
اگلے قتل کے لیے بھی تیار تھی وہ شہر یار اور اپنے راستے میں آنے والی ہر رکاوٹ کو ختم کر دینے والی تھی پیر صاحب نے زندگی میں اس سے زیادہ ضدی پری نہیں دیکھی تھی
پیر صاحب نے ساریسہ کو سمجھانے کی بہت کوشش کی نہ تو اس پر ان کے عمل کا اثر ہوا تھا اور نہ ہی ان کی باتوں کا ۔

شہریار کو بچانے کا بس ایک ہی راستہ ہے اور وہ یہ ہے کہ اگر ایک پریزاد کا شوہر خود اسے کسی بات کا حکم دے تو وہ جان لٹا کر بھی اس کا حکم بجا لاتی ہیں

Mirh@_Ch
 

رات کے اندھیرے گہرے ہوئے تو باہر سے عابد بیوی کے چیخنے چلانے کی آوازیں آنے لگیں پریشانی حد سے سوار تھی کوئی بھی سو نہیں رہا تھا نوکرانی کی آواز سنتے ہی سب لوگ باہر آئے پر کہیں پر بھی عابد کی بیوی نظر نہ آئی
وہ تیزی سے بھاگ کر گھر سے باہر نکلے تو سامنے بڑے سے درخت پر اس کی گردن لٹکی ہوئی تھی جب کہ ہاتھ کاٹے دور پڑے تھے اور جسم وہی زمین پر پڑا تھا
آج دوپہر میں جب بابا جان اسے ڈانٹ رہے تھے تب یہی نوکرانی مسکرا رہی تھی اور ان کے جاتے ہی اس نے کہا تھا
بڑی آئی پری ۔اور اس سے ساریسی نے اسے دیکھا تھا طے حد غصہ تو ہھر اس کا شاید یہی انجام ہونا تھا ۔
ساریسہ کہاں گئی کوئی نہیں لیکن وہاں باہر نہیں تھی شہریار کمرے میں اکیلا سو رہا تھا یہ سوچتے ہی آسیہ اور اپنے کمرے کی طرف بھاگی لیکن اپنا کمرہ بند دیکھ کر پریشان ہو گئی

Mirh@_Ch
 

یہاں تک کہ اس کا سخت رویہ دیکھتے ہوئے آسیہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی جس پربابا جان کو بہت غصہ آنے لگا انہوں نے اپنا غصہ نکالتے ہوئے ایک بار نہیں سوچا کہ اس کا کیا انجام ہوگا
اور بنا سوچے سمجھے ساریسہ کو بہت سارا ڈالتا اور زبردستی شہریار کو اٹھا کر اسی کی گود میں ڈال دیا لیکن اس کے بعد وہ اپنے انجام سے بے خبر تھے وہ عجیب نظروں سے نانہیں دیکھتی واپس وہاں کرسی پر بیٹھ گئی اس کے چہرے سے اس کے غصے کا اندازہ لگانا زیادہ مشکل نہ تھا ۔لیکن اس وقت تو بہت کچھ نہیں بولی

رات دو بجے وقت تھا تقریبا سب ہی لوگ سو گئے تھے شہر یار آج اپنی ماں کے پاس تھا صبح پیر صاحب یہاں آنے والے تھے وہی سب کا کوئی حل نکانے والے تھے
اسی لئے گھر کے سبھی افراد کل صبح ہونے کا انتظار کر رہے تھے ان دنوں وہ سب ہی بہت پریشان ہو چکے تھے

Mirh@_Ch
 

ساریسہ سائےکی طرح شہریار کے ساتھ رہتی تھی وہ اس کی ماں کو بھی اس کے قریب نہ طھٹکنے دیتی
یہ ان کی کی پریوں کی نگری کا ایک رواج تھا کے پری سات دن تک پہلے شوہر کے گھر پر رہ کر اسے ہمیشہ کے لئے اپنے ساتھ لے جاتی ہے
اور یہی وجہ تھی کہ ساریسہ یہاں سات دن رہنے آئی تھی سات دنوں کے لئے اس نے شہریار کو ان سے بہت دور کر دیا تھا
شہریار روتا رہتا تڑپتا رہتا وہ اسے اس کی ماں کے پاس نہ جانے دیتی ہے اور نہ ہی گھر میں کسی اور کے پاس
اگر ان لوگوں میں سے کوئی اس کے پاس جاتا تو وہ اپنی جادوئی طاقت کا استعمال کرتے ہوئے ان کے ساتھ برا سلوک کرتی گھر کے مالک تو مالک نوکر بھی اس چھوٹی سی بچی سے ڈرے سہمے سہمے رہنے لگے تھے

گھر میں سب لوگ بہت پریشان تھے اور پریشانی کی وجہ تھی ساریسہ تھی جو شہریار کو ایک سیکنڈ کے لئے خود سے دور نہیں کر رہی تھی