تم لوگوں کے پاس صرف سات دن ہیں میں سات دن کے بعد اسے یہاں سے ہمیشہ کے لئے لے جاؤں گی یہ میرا ہے ۔
وہ شہریار کا ہاتھ تھامے ہوئے اسے صوفے پر بٹھاتی ہوئی اس کے ساتھ بیٹھ گئی
وہ ننھی سی بچی ہاتھوں میں پھول تھامیں اتنی پیاری اور معصوم لگ رہی تھی کہ اس سے ایسے لفظوں کی امید کسی کو کوئی امید نہ تھی
❤
سکندر نے مجبور ہو کر گھر میں سب کو سب کچھ بتا دیا کسی کو سکندر سے ایسی امید نہ تھی اتنا بڑا قدم وہ بھی بنا سوچے سمجھے بنا کسی سے مشورہ کیے وہ اٹھا کیسے سکتا تھا
سکندر نے بہت بڑی غلطی کر دی تھی ایک پری کے ساتھ اپنے بیٹے کا نکاح کرکے
اور اب اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کرے اس لڑکی سے جان چھڑانے کے لئے ۔
جب ان کے خاندانی نوکر عابد نے انہیں پیر بابا کا مشورہ دیا ان سب باتوں پر یقین نہ کرتے ہوئے بھی وہ اس وقت عابد کی بات ماننے پر مجبور تھے
آسیہ نے مسکراتے ہوئے بتایا
میں شہریار کو لینے آئی ہوں سکندر ۔آپ کو سب کچھ پتہ ہے نہ میں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ شہریار کو اپنے اپنے ساتھ لے جاؤں
اور ویسے بھی میں اپنی چیزیں کسی کو نہیں دیتی اسی لئے میں شہریار کو لینے کے لئے آئی ہوں ہمیشہ کے لئے
وہ ان کے قریب کھڑی ان کی نظروں سے نظریں ملائیے بول رہی تھی
آسیہ شہریار کو اندر لے کر جاؤ انہوں نے آسیہ کی طرف دیکھ کر اشارہ کیا
تو وہ بنا کچھ بولے شہریار کا ہاتھ تھام کر اسے اندر لے جانے لگی جب اچانک ہی ساریسہ نے شہریار کا دوسرا ہاتھ تھام لیا
میں اپنی چیزیں کسی کو نہیں دیتی اور شہریار میرے شوہر ہیں انہیں مجھ سے کوئی دور نہیں کر سکتا اس کی باتیں سنتے ہوئے آسیہ کا ہاتھ اپنے آپ شہریار کے ہاتھ سے چھوٹ گیا وہ اس ننھی سی بچی کو دیکھنے لگی
میں اپنے شوہر کو یہاں سے لے جانے آئی ہوں
اور یہ بات انہوں نے نکاح سے پہلے نہیں بلکہ نکاح کے بعد بتائی تھی
اور سکندر اپنے بیٹے کو کھونے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا اسی لیے اس نے اس نکاح کی بات کو چھپا دیا
اگر پریام اس کا کچھ بھی نہیں بگاڑ پائی تھی تو اسے نہیں لگاتا کہ ایک چھوٹی سی بچی اسے کچھ کہہ سکتی ہے اور یہی اس کی سب سے بڑی غلط فہمی تھی
اور اس کی یہ غلط فہمی دور ہوئی جب دو سال کے بعد ساریسہ شہریار کو لینے آ گئی
❤
سکندر آفس سے لوٹا تو اپنے شہریار کے ساتھ ایک چھوٹی سی بچی کو بیٹھے دیکھ کر پریشان ہو گیا اسے پہچاننے میں اس نے زیادہ دیر نہیں لگائی تھی ہاتھوں میں گلابی پھول پکڑے وہ مسکرا کر شہریار سے باتیں کر رہی تھی
سکندر کے آتے ہی وہ اٹھ کر اس کے قریب آئے اور ادب سے سلام کیا
بہت پیاری بچی ہے اپنا نام ساریسہ بتاتی ہے نہ جانے کہاں سے آئی ہے یہ کہتی ہے کہ میں پری ہوں
#عشق
#قسط14
❤
نکاح کے بعد وہ شہریار کو لے کر واپس آ گیا انجام کی فکر کئے بغیر
نکاح ہو چکا تھا
سکندر نے سوچا تھا کہ آگے دونوں کی مرضی تھی کہ وہ اس نکاح کو نبھاتے ہیں یا نہیں نبھاتے
لیکن ایک پری ذاد کے ساتھ ساری زندگی گزارنا شہریار کے بس میں سے نہ تھا وہ بھی عمر میں وہ سے چار سال بڑی تھی
لیکن پریوں کا عمر سے کوئی واسطہ نہیں ہوتا یہ بات ان بزرگوں نے پہلے بھی بتا دی تھی ۔
سکندر شہریار کو لے کر واپس آ گیا شہریار اب بالکل عام بچوں کی طرح تھا ہنسنا کھیلنا ضد کرنا بالکل عام بچوں کی طرح رہنا
اس نکاح کے بارے میں سکندر نے کسی کو کچھ نہیں بتایا تھا اور نا ہی بتانے کا ارادہ رکھتا تھا
کیونکہ ان بزرگوں نے کہا تھا کہ جب ساریسہ اس نکاح کو سمجھے گی
اسے کبھی کھونے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا
ٹھیک ہے سکندر لیکن ایک بات ہمیشہ یاد رکھنا پریوں کی ہر نسل پہلی نسل سے زیادہ طاقتور مغرور اور ضدی ہوتی ہے
اور ساریسہ سے زیادہ ضدی کوئی نہیں ہے وہ اپنی چیزیں کسی کو نہیں دیتی
یہ بہیت مشکل ہو گا آگے چل کے
میرے بیٹے کی جان بچ جائے مجھے اور کچھ نہیں چاہے سکندر نے ابہیں دیکھتے ہوئے فصیلہ سنایا۔
💘
اگر آپ کے پاس کوئی راستہ ہے اسے ٹھیک کرنے کا تو مجھے بتائیں میں آپ کا شکر گزار رہوں گا
اگر تم اپنے بیٹے کی جان بچانا چاہتے ہو تو اس کا بس ایک ہی راستہ ہے کہ اس کا نکاح کسی پریزاد سے کردو ۔
ان حالات میں تو اس کی جان بچا سکتے ہو ورنہ تم اسے کھو دو گے ۔
انہیں نے اپنے سے کچھ فاصلے پر کھڑی ایک چھوٹی سی پانچ سالہ بچے کی طرف اشارہ کیا جو چھوٹے چھوٹے گلابی پھولوں سے کھیل رہی تھی
یہ ساریسہ کے پھول ہیں جب وہ مسکراتی ہے تب یہ پھول کھلتے ہیں خوبصورت گلابی پھولوں کو دیکھتے ہوئے اسے پریام کی بات یاد آئی اس نے اندازہ لگایا تھا کہ وہ ساریسہ تھی
مجھے منظور ہے اپنے بیٹے کی حالت دیکھتے ہوئے سکندر نے فورا ہی فیصلہ کیا تھا ۔اس کے لیے یہ کہنا مشکل نہیں تھا کہ وہ اس دنیا میں سب سے زیادہ محبت شہریار سے کرتا تھا
اس کا خیال رکھنا سکندر کے لیے بہت مشکل تھا ۔
وہ اس علاقے میں واپس پہنچا تو اسی پہاڑی پر گیا جہاں وہ محل تھا اس بار بھی اس سے وہاں کوئی محل نظر نہ آیا
لیکن وہاں ایک بزرگ تھے شاید وہی بزرگ پریام کے والد تھے انہیں پہچاننے میں زیادہ دیر نہ لگی تھی سکندر نے انہیں سلام کیا تو جواب دیتے ہوئے اپنی بات کا آغاز کرنے لگے مجھے یہاں پریام نے بھیجا ہے اس نے کہا ہے کہ تمہارا بیٹا بہت بیمار رہتا ہے یہ ایک طرح سے ٹھیک ہو سکتا ہے لیکن یاد رکھنا یہ تمہارے لیے بہت مشکل ہوگا
انہوں نے بات کرتے ہوئے اس کی طرف دیکھا
آپ جو کہیں گے مجھے منظور ہے لیکن خدا کے لیے میرے بیٹے کو بچا لیں نہ جانے اسے کیا ہو گیا ہے اتنا بیمار رہتا ہے کہ میں اس کی امید ہی چھوڑ چکا ہوں شاید یہ کبھی ٹھیک نہیں ہو سکتا ڈاکٹر نے کہا ہے کہ یہ زیادہ سے زیادہ چند ماہ اور جی سکتا ہے
شہریار تین سال کا ہوا تو ڈاکٹر کی سمجھ سے اس کی بیماری باہر ہو گئی
اس کا بخار کبھی کبھار خطرناک کی حد تک بھر جاتا اور ڈاکٹر بے بس ہو جاتے یہاں تک کہ ایک بار ڈاکٹر نے جواب دے دیا
اس کے بعد سکندر اور زیادہ پریشان رہنے لگا جب اسے ایک رات خواب میں پریام روتی ہوئی نظر آئی
وہ ا سے بلا رہی تھی شاید اسی علاقے میں واپس
لیکن وہاں سے اکیلے نہیں بلکہ شہریار کو بھی ساتھ بلا رہی تھی ۔
اس نے اسے خوابوں میں بہت روتے ہوئے دیکھا تو فیصلہ کیا کہ وہ پریام کے پاس ضرور جائے گا شاید وہ اس کی قید کبھی ختم نہ کر پائے لیکن اپنے کیے کی معافی ضرور مانگے گا
اور اسی طرح سے وہ ایک دن اپنے تین سالہ بیٹے شہریار کو لے کر وہاں چلا گیا
لیکن سفر کے دوران شہریار کی طبیعت بہت زیادہ خراب ہو گئی آسیہ اب اس کے ساتھ نہیں تھی جو اس کا خیال رکھتی
سکندر اپنی زندگی میں آگے بڑھ چکا تھا شادی کے تقریبا دو سال کے بعد اس کے ہاں ایک چاند سا بیٹا پیدا ہوا جس کا نام اس نے شہریار سکندر رکھا
اور جتنا خوبصورت تھا اتنا ہی بیمار رہتا
ڈاکٹر کے مطابق اسے کوئی بیماری نہ تھیی
شہریار باقی بچوں کی نسبت الگ تھا وہ نہ تو زیادہ کھیلتا تھا اور نہ ہی روتا دھوتا تھا وہ تو اکثر بیمار رہتا
اور اس کی بیماری آسیہ کو بھی پریشان رکھتی۔
سکندر جب اس علاقے سے واپس آیا تو اس نے اپنے دادا سکندرشاہ کا نام استعمال کرنا چھوڑ کر اب وہ اپنا اصل نام راحیل استعمال کرنا شروع کر دیا
کیونکہ وہ نہیں چاہتا تھا کہ اب سکندر نام سے اسے کوئی بھی پکارے وہ نام پریام کے ساتھ ہی چھوڑ چکا تھا
اب لوگوں سے راجیل شاہ کے نام سے جانتے تھے
جب کہ شہریار کی بیماری آئے دن پریشان کیے رکھتی
آزاد ہے نہ وہ اب مل گئی نہ اس کو آزادی تو اب چلے جانا چاہیے اسے وہاں جہاں سے آئی ہے ساری زندگی حرام کر دی ہے اس نے رات کو سو نہیں پاتا خدا کے لئے بتائے مجھے کہ وہ کیوں نہیں جاتی یہاں سے
کیونکہ بیوی ہے وہ تمہاری نکاح میں ہے تمہارے وہ مرتے مر جائے گی لیکن تمہیں کبھی چھوڑ کر نہیں جائے گی
نکاح کیا ہے اس نے تم سے
میں مجبور ہوں شہریار اگر میں تمہارا نکاح اس کے ساتھ نہیں کرواتا تو تمہاری جان چلی جاتی
میں اتنا مجبور تھا کہ اپنے بیٹے کی محبت میں اپنے ہی بیٹے کا نکاح پریزاد سے کروا دیا اور پریوں کی ہر نسل پہلی نسل سے زیادہ ضدی اور طاقتور ہوتی ہے
وہ پریام نہیں ہے جو محبت میں ہار جائے گی وہ ساریسہ ہے اگر تم اسے نہ ملے تو وہ تمہیں بھی ختم کر دے گی وہ تمہارے لیے تین قتل کر چکی ہے اور اس کا چوتھا وار مہر پر ہوگا
❤
مہر میری جان تم ٹھیک تو ہو کیا ہوا ہے تمہیں وی اس کے ہاتھ پیر سہلانے لگا
جبکہ مہر کسی چیز سے خوف زدہ دروازے کی طرف دیکھ رہی تھی
لیکن نہ تو وہ کچھ بول پا رہی تھی اور نہ ہی کسی کو مخاطب کر پا رہی تھی حتیٰ کے دروازے کی طرف اشارہ کرکے دروازے پر کھڑی خوبصورت لڑکی کی طرف کسی کو متوجہ نہیں کر پا رہی تھی
پھر دیکھتے ہی دیکھتے مہر بے ہوش ہوگئی
کسی کے لئے سمجھنا مشکل نہ تھا اگر وہ تھوڑی دیر یہاں اور نہ پہنچتے تو یقیناً وہ مر جاتی اور اس کی جان کی دشمن کون تھی یہ یہاں پر موجود سبھی لوگ جانتے تھے
❤
بس بابا میں مزید برداشت نہیں کر سکتا میں مہر کی جان پر رسک نہیں لے سکتا بتائیں وہ کیا ہے اور کیوں کر رہی ہے وہ یہ سب کچھ مہر کے ساتھ اس کی کیا دشمنی ہے
اگر وہ آزاد ہو چکی ہیں تو چلی جائے نہ یہاں سے کیوں ہمیں مصیبت میں ڈالا ہوا ہے
میں صبح ہوتے ہی ان پیر صاحب کو واپس لے آؤں گا
اللہ رحم کرے گا ویسے بھی تو ساریسہ نجانے کہاں جا چکی ہے مجھے تو لگتا ہے کہ وہ جہاں سے آئی تھی وہیں واپس چلی گئی اللہ نے سب کچھ بہتر کر دیا آپ پریشان نہ ہوں بی بی جی
وہ راحیل صاحب اور آسیہ بیگم کو دلاسہ دیتے ہوئے بولا
جبکہ شہریار آنکھوں میں سوال لیے ان دونوں کی طرف دیکھ رہا تھا
جب شہریار کو اپنے کمرے سے مر کی چیخنے کی آواز سنائی دی
کچھ بھی پوچھنا یہ سمجھنے کی کا وقت نہیں تھا شہریار نے فورا کمرے کی طرف دوڑ لگائی آسیہ نے اسے روکنے کی کوشش کی لیکن یہاں سوال اس کی محبت کا تھا
وہ کمرے میں داخل ہوا تو مہر بیڈ سے نیچے پڑی تھی اور اب اپنا سینے پہ ہاتھ رکھتے ہوئے سانس لینے کی کوشش کر رہی تھی
جب کہ اس کے آس پاس کوئی بھی نہ تھا وہ بھاگتے ہوئے مہر کے پاس آیا اور اسے اٹھا کر بیڈ پر رکھا
جن کا ذکر کرنے سے آپ نے مجھے منع کیا تھا
بابا یہ کیا راز ہے بتائیں مجھے بتائیں مجھے ان آوازوں کا تعلق میرے خوابوں سے ہے نا اس دروازے کا تعلق ان آوازوں سے ہے جو مجھے بچپن سے آتی ہیں
بتائیں بانا آپ خاموش کیوں سے بتائیں مجھے اس کمرے میں کون ہے ۔ شہریار ان کے سامنے کھڑا ان سے جواب مانگ رہا تھا جبکہ راحیل صاحب کا سارا دھیان اوپر سیڑھیوں کی گرل پرکھڑی اس خوبصورت پریزاد پر تھا جو جتنی خوبصورت تھی اتنی خطرناک تھی
💘
نہ جانے وہ لڑکی کہاں غائب ہو چکی تھی اس کمرے سے نکلنے کے بعد وہ کہاں غائب ہوئی تھی کوئی نہیں جانتا تھا
عابد اب کیا ہوگا وہ آزاد ہو چکی ہے عابد اب وہ سب کچھ تباہ کر دے گی کچھ کرو کچھ کرو خدا کے لئے کچھ کرو میرا بیٹا برباد ہو جائے گا
آسیہ بیگم نے روتے ہوئے عابد سے کہا
پریشان نہ ہوں بی بی جی خدا سب کچھ بہتر کرے گا
کیونکہ پوری حویلی میں آوازیں گونجنے لگی تھی عجیب سی آواز ہیں وہ کبھی روتی تو کبھی قہقے لگاتی باہر کی طرف آ رہی تھی
آسیہ بیگم اور راحیل صاحب بھاگ کر کمرے سے باہر نکلے
جہاں سامنے شہریار کو سیڑھیوں سے نیچے اتر کر دیکھا
بابا اس کمرے میں آوازیں کمرے میں کوئی تھا ۔وہ کافی بوکھلایاہوا تھا
مجھے کسی نے کہا کہ شہریار میں باہر آجاؤں تو میں نے غصے میں کہ دیا کہ آ جاؤ میں تمہیں دیکھنا چاہتا ہوں
بابا پھر اسی وقت سے اور یہ عجیب عجیب آوازیں آنے لگیں اور وہ بیریاں تالے ٹوٹ چکے ہیں
بابا یہ وہی آواز ہے جو مجھے بچپن سے آتی ہے یہ وہی آوازیں ہیں جن کا ذکر کرنے سے آپ نے مجھے منع کیا تھا
بابا یہ کیا راز ہے بتائیں مجھے بتائیں مجھے ان آوازوں کا تعلق میرے خوابوں سے ہے نا اس دروازے کا تعلق ان آوازوں سے ہے جو مجھے بچپن سے آتی ہیں
#عشق
#قسط13
❤
پوری حویلی میں عجیب سا سناٹا پھیلا ہوا تھا رات کی تاریخی کچھ الگ ہی لگ رہی تھی شہریار نہیں جانتا تھا کہ وہ اتنا ڈر ہے وں رہا ہے
اس کا دل کسی سوکھے پتے کی طرح کانپ رہا تھا
وہ اتنا ڈر کیوں رہا تھا اسے اتنا پسینہ کیوں آ رہا تھا
کافی دیر کوئی آواز نہ آئی تو شہریار پر سکون سے واپس لیں اترنے لگا
جب اچانک کسی پیچھے سے اپنے دروازے کی بیریاں کھلتی ہوئی محسوس ہوئی
اس نے بے اختیار پیچھے مڑ کر دیکھا جہاں تالا خود بخود کھل چکا تھا اور بیریاں اپنے آپ ٹوٹ رہی تھی
اپنی آنکھوں سے یہ بے یقین منظر دیکھ کر شہریار کے قدم خود بخود نیچے کی طرف جانے لگے
اس وقتے ساتھ ہی حویلی میں قہقوں کی آواز گونجنا شروع یوئی
وہ تیزی سے نیچے کی طرف جانے لگا
اسے یقین تھا اس کے ساتھ 22 سال سے جن آوازوں کا رشتہ جوڑا ہے اس کا تعلق اسی حویلی سے ہے سیڑھیوں سے اوپر جاتے ہوئے وہ ایک کمرے کے سامنے رک گیا
وہ کچھ دن پہلے بھی رات کے وقت اسی کمرے کے پاس آیا تھا
اس کے کمرے کے پاس آتے ہیں سسکیاں بند ہوگی
وہ خاموشی سے مڑ گیا شاید اس کا وہم تھا وہ واپس اپنے کمرے کی طرف جانے لگا جب اس کے قدم رک گئے
شہریار میں باہر آجاؤں۔ ۔۔۔؟
شہریار مجھے اجازت دیں
کیا میں باہر آ سکتی ہوں ۔۔۔
شہریار مجھے بلا لیں ۔۔۔۔
میں باہر آ جاؤں۔۔ ۔ ۔؟
وہی سوال وہی سسکیاں جو پچھلے 22 سال سے اسے ہر رات تنگ کر رہی تھی
اتنے قریب سے ان آوازوں کو سنتے ہوئے شہریار کو غصہ آنے لگا
ہاں آو تم باہر میں تمہیں دیکھنا چاہتا ہوں
بس بہت ہوا
مجھے بھی میرے سوالوں کے جواب چاہیے
میں کہتا ہوں باہر نکلو
میں تمہیں دیکھنا چاہتا ہوں
شہریار اگر تم مجھے تنگ کرو گے تو میں چلی جاؤں گی کمرے سے وہ غصے سے گھورتے ہوئے بولے
❤
رات دو بجے کا وقت تھا جب اسے آواز سنائی تھی مہر اس کے سینے پر سر رکھ کے آرام دہ نیند سو رہی تھی
اسے لگا جیسے یہ سکیوں کی آوازیں باہر سے آ رہی ہیں وہ فوراً مہر کو تکیہ پر لٹاتا اٹھ کر باہر نکل آیا
آواز اوپر کی طرف جاتی سیڑھیوں سے آ رہی تھی
اس کا مطلب تھا کہ اب سکیوں کا تعلق ان سوالوں کا تعلق ان آوازوں کا تعلق اسی کے گھر کے کسی کونے سے تھا
شاید یہی وجہ تھی کہ اس کے ماں باپ اسے یہاں نہیں آنے دے رہے تھے شیر یار اوپر چڑنے لگا
وہ جلد سے جلد اس راز سے پردہ اٹھانا چاہتا تھا
شہریا کمرے میں آیا تو بہت پریشان تھا مہف اس کی پریشانی نوٹ کر رہی تھی لیکن اس نے کچھ پوچھا نہیں شاید اس کے ماں باپ اسے یہاں دیکھ کر خوش نہیں ہوئے تھے
شہری اچھا ہوگیا نہ کل ولیمہ ہو گا تو دلہا دلہن دونوں وہاں موجود ہوں گے اور مسکراتے ہوئے اس کے گلے میں باہیں ڈال کر بولی
اداس کیوں ہو تم کہ تم کچھ یونیک نہیں کر پائے اپنے ولیمے میں اس لیے اداس ہو اس کا چہرہ اپنی نظروں کے حصار میں لیے محبت سے بولی تو شہریار مسکرا دیا
ہاں یار کتنا آکسائیڈ تھا میں اسے کچھ یو نیک کروں گا اور یہاں دیکھو کیا ہوگیا
مجھے افسوس ہے شہریار کے انداز پر مہر نے گردن ہلا کر کہا
اگر اتنا ہی افسوس ہے تو پاس آ کر اظہار افسوس کرو اتنے دور سے کیا کرنا وہ اس کی کمر میں بازو ڈالتے ہوئے اس کی کمر کو جکڑتے ہوئے بیڈ پر لٹا چکا تھا
جب کہ اس کے ماں باپ کی نظروں سے اٹھتے سوال تو وہ دونوں بھی پڑھ چکے تھے شاید اسی لیے منظر سے ہٹنا ضروری سمجھا
بس کر دے بابا بہت ہوگیا کیا ہوگیا ہے آپ کو میں آپ کا بیٹا ہوں کوئی غیر نہیں اور یہ میرا گھر ہے اس گھر کو چھوڑ کر کہاں جاؤں گا میں
ایم سوری غلطی ہوگئی مجھ سے وہاں کسی ہوٹل میں رہنے کے بجائے اپنے ماں باپ کے پاس آ گیا تھا کہ آپ لوگوں کو دیکھ سکوں اور لوگوں کے ساتھ وقت گزار سکوں لیکن شاید بہت بڑی غلطی کر دی ہے میں نے رات ہو چکی ہے صبح ہوتے ہی یہاں سے نکل جاؤں گا شہریار بدتمیزی اور غصے سے کہتا ہوااپنے کمرے کی طرف چلا گیا
جب کہ بابا کو سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ اسے کیسے سمجھائیں کہ اس کا یہاں رہنا خطرے سے خالی نہیں جبکہ بات تو وہ بھی جانتے تھے کہ آج اس کے ماں باپ نے اس سے بہت ہرٹ کیا ہے
❤
لیکن ساریسہ تین قتل کر چکی ہے اب اگر اس نے مزید کسی کی جان لی تو وہ ہمیشہ کے لئے قید ہو جائے گی اس لیے بے فکر ہو جائے وہ کسی کو جانی نقصان نہیں پہنچا سکتی
اب میں چلتا ہوں مجھے بہت دیر ہو رہی ہے پیر صاحب نے اٹھتے ہوئے کہا اور باہر کی راہ لی جہاں دروازے پر شہریار زیان اور مہر کو کھڑے دیکھ کر سب پریشان ہوگئے
❤
تم واپس کیوں آئی شہریار تمہیں وہیں سے چلے جانا چاہیے تھا اگر نہیں تو وہی کسی ہوٹل میں رک جاتے تمہیں حویلی آنے کی کیا ضرورت تھی بابا جان کا غصہ کسی طرح سے کم نہیں ہو رہا تھا
اسے دیکھ کر خوش ہونے کی بجائے وہغصہ ہو رہے تھے مہر اپنے کمرے میں آرام کرنے جا چکی تھی اور زیان بھی یہاں سے جا چکا تھا اگر ان کے سامنے وہ اسے اس طرح سے جانتے تو وہ دونوں کیا سوچتے کہ اس کے ماں باپ اس سے محبت نہیں کرتے
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain