Damadam.pk
Mirh@_Ch's posts | Damadam

Mirh@_Ch's posts:

Mirh@_Ch
 

تم لوگوں کے پاس صرف سات دن ہیں میں سات دن کے بعد اسے یہاں سے ہمیشہ کے لئے لے جاؤں گی یہ میرا ہے ۔
وہ شہریار کا ہاتھ تھامے ہوئے اسے صوفے پر بٹھاتی ہوئی اس کے ساتھ بیٹھ گئی
وہ ننھی سی بچی ہاتھوں میں پھول تھامیں اتنی پیاری اور معصوم لگ رہی تھی کہ اس سے ایسے لفظوں کی امید کسی کو کوئی امید نہ تھی

سکندر نے مجبور ہو کر گھر میں سب کو سب کچھ بتا دیا کسی کو سکندر سے ایسی امید نہ تھی اتنا بڑا قدم وہ بھی بنا سوچے سمجھے بنا کسی سے مشورہ کیے وہ اٹھا کیسے سکتا تھا
سکندر نے بہت بڑی غلطی کر دی تھی ایک پری کے ساتھ اپنے بیٹے کا نکاح کرکے
اور اب اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کرے اس لڑکی سے جان چھڑانے کے لئے ۔
جب ان کے خاندانی نوکر عابد نے انہیں پیر بابا کا مشورہ دیا ان سب باتوں پر یقین نہ کرتے ہوئے بھی وہ اس وقت عابد کی بات ماننے پر مجبور تھے

Mirh@_Ch
 

آسیہ نے مسکراتے ہوئے بتایا
میں شہریار کو لینے آئی ہوں سکندر ۔آپ کو سب کچھ پتہ ہے نہ میں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ شہریار کو اپنے اپنے ساتھ لے جاؤں
اور ویسے بھی میں اپنی چیزیں کسی کو نہیں دیتی اسی لئے میں شہریار کو لینے کے لئے آئی ہوں ہمیشہ کے لئے
وہ ان کے قریب کھڑی ان کی نظروں سے نظریں ملائیے بول رہی تھی
آسیہ شہریار کو اندر لے کر جاؤ انہوں نے آسیہ کی طرف دیکھ کر اشارہ کیا
تو وہ بنا کچھ بولے شہریار کا ہاتھ تھام کر اسے اندر لے جانے لگی جب اچانک ہی ساریسہ نے شہریار کا دوسرا ہاتھ تھام لیا
میں اپنی چیزیں کسی کو نہیں دیتی اور شہریار میرے شوہر ہیں انہیں مجھ سے کوئی دور نہیں کر سکتا اس کی باتیں سنتے ہوئے آسیہ کا ہاتھ اپنے آپ شہریار کے ہاتھ سے چھوٹ گیا وہ اس ننھی سی بچی کو دیکھنے لگی
میں اپنے شوہر کو یہاں سے لے جانے آئی ہوں

Mirh@_Ch
 

اور یہ بات انہوں نے نکاح سے پہلے نہیں بلکہ نکاح کے بعد بتائی تھی
اور سکندر اپنے بیٹے کو کھونے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا اسی لیے اس نے اس نکاح کی بات کو چھپا دیا
اگر پریام اس کا کچھ بھی نہیں بگاڑ پائی تھی تو اسے نہیں لگاتا کہ ایک چھوٹی سی بچی اسے کچھ کہہ سکتی ہے اور یہی اس کی سب سے بڑی غلط فہمی تھی
اور اس کی یہ غلط فہمی دور ہوئی جب دو سال کے بعد ساریسہ شہریار کو لینے آ گئی

سکندر آفس سے لوٹا تو اپنے شہریار کے ساتھ ایک چھوٹی سی بچی کو بیٹھے دیکھ کر پریشان ہو گیا اسے پہچاننے میں اس نے زیادہ دیر نہیں لگائی تھی ہاتھوں میں گلابی پھول پکڑے وہ مسکرا کر شہریار سے باتیں کر رہی تھی
سکندر کے آتے ہی وہ اٹھ کر اس کے قریب آئے اور ادب سے سلام کیا
بہت پیاری بچی ہے اپنا نام ساریسہ بتاتی ہے نہ جانے کہاں سے آئی ہے یہ کہتی ہے کہ میں پری ہوں

Mirh@_Ch
 

#عشق
#قسط14

نکاح کے بعد وہ شہریار کو لے کر واپس آ گیا انجام کی فکر کئے بغیر
نکاح ہو چکا تھا
سکندر نے سوچا تھا کہ آگے دونوں کی مرضی تھی کہ وہ اس نکاح کو نبھاتے ہیں یا نہیں نبھاتے
لیکن ایک پری ذاد کے ساتھ ساری زندگی گزارنا شہریار کے بس میں سے نہ تھا وہ بھی عمر میں وہ سے چار سال بڑی تھی
لیکن پریوں کا عمر سے کوئی واسطہ نہیں ہوتا یہ بات ان بزرگوں نے پہلے بھی بتا دی تھی ۔
سکندر شہریار کو لے کر واپس آ گیا شہریار اب بالکل عام بچوں کی طرح تھا ہنسنا کھیلنا ضد کرنا بالکل عام بچوں کی طرح رہنا
اس نکاح کے بارے میں سکندر نے کسی کو کچھ نہیں بتایا تھا اور نا ہی بتانے کا ارادہ رکھتا تھا
کیونکہ ان بزرگوں نے کہا تھا کہ جب ساریسہ اس نکاح کو سمجھے گی

Mirh@_Ch
 

اسے کبھی کھونے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا
ٹھیک ہے سکندر لیکن ایک بات ہمیشہ یاد رکھنا پریوں کی ہر نسل پہلی نسل سے زیادہ طاقتور مغرور اور ضدی ہوتی ہے
اور ساریسہ سے زیادہ ضدی کوئی نہیں ہے وہ اپنی چیزیں کسی کو نہیں دیتی
یہ بہیت مشکل ہو گا آگے چل کے
میرے بیٹے کی جان بچ جائے مجھے اور کچھ نہیں چاہے سکندر نے ابہیں دیکھتے ہوئے فصیلہ سنایا۔
💘

Mirh@_Ch
 

اگر آپ کے پاس کوئی راستہ ہے اسے ٹھیک کرنے کا تو مجھے بتائیں میں آپ کا شکر گزار رہوں گا
اگر تم اپنے بیٹے کی جان بچانا چاہتے ہو تو اس کا بس ایک ہی راستہ ہے کہ اس کا نکاح کسی پریزاد سے کردو ۔
ان حالات میں تو اس کی جان بچا سکتے ہو ورنہ تم اسے کھو دو گے ۔
انہیں نے اپنے سے کچھ فاصلے پر کھڑی ایک چھوٹی سی پانچ سالہ بچے کی طرف اشارہ کیا جو چھوٹے چھوٹے گلابی پھولوں سے کھیل رہی تھی
یہ ساریسہ کے پھول ہیں جب وہ مسکراتی ہے تب یہ پھول کھلتے ہیں خوبصورت گلابی پھولوں کو دیکھتے ہوئے اسے پریام کی بات یاد آئی اس نے اندازہ لگایا تھا کہ وہ ساریسہ تھی
مجھے منظور ہے اپنے بیٹے کی حالت دیکھتے ہوئے سکندر نے فورا ہی فیصلہ کیا تھا ۔اس کے لیے یہ کہنا مشکل نہیں تھا کہ وہ اس دنیا میں سب سے زیادہ محبت شہریار سے کرتا تھا

Mirh@_Ch
 

اس کا خیال رکھنا سکندر کے لیے بہت مشکل تھا ۔
وہ اس علاقے میں واپس پہنچا تو اسی پہاڑی پر گیا جہاں وہ محل تھا اس بار بھی اس سے وہاں کوئی محل نظر نہ آیا
لیکن وہاں ایک بزرگ تھے شاید وہی بزرگ پریام کے والد تھے انہیں پہچاننے میں زیادہ دیر نہ لگی تھی سکندر نے انہیں سلام کیا تو جواب دیتے ہوئے اپنی بات کا آغاز کرنے لگے مجھے یہاں پریام نے بھیجا ہے اس نے کہا ہے کہ تمہارا بیٹا بہت بیمار رہتا ہے یہ ایک طرح سے ٹھیک ہو سکتا ہے لیکن یاد رکھنا یہ تمہارے لیے بہت مشکل ہوگا
انہوں نے بات کرتے ہوئے اس کی طرف دیکھا
آپ جو کہیں گے مجھے منظور ہے لیکن خدا کے لیے میرے بیٹے کو بچا لیں نہ جانے اسے کیا ہو گیا ہے اتنا بیمار رہتا ہے کہ میں اس کی امید ہی چھوڑ چکا ہوں شاید یہ کبھی ٹھیک نہیں ہو سکتا ڈاکٹر نے کہا ہے کہ یہ زیادہ سے زیادہ چند ماہ اور جی سکتا ہے

Mirh@_Ch
 

شہریار تین سال کا ہوا تو ڈاکٹر کی سمجھ سے اس کی بیماری باہر ہو گئی
اس کا بخار کبھی کبھار خطرناک کی حد تک بھر جاتا اور ڈاکٹر بے بس ہو جاتے یہاں تک کہ ایک بار ڈاکٹر نے جواب دے دیا
اس کے بعد سکندر اور زیادہ پریشان رہنے لگا جب اسے ایک رات خواب میں پریام روتی ہوئی نظر آئی
وہ ا سے بلا رہی تھی شاید اسی علاقے میں واپس
لیکن وہاں سے اکیلے نہیں بلکہ شہریار کو بھی ساتھ بلا رہی تھی ۔
اس نے اسے خوابوں میں بہت روتے ہوئے دیکھا تو فیصلہ کیا کہ وہ پریام کے پاس ضرور جائے گا شاید وہ اس کی قید کبھی ختم نہ کر پائے لیکن اپنے کیے کی معافی ضرور مانگے گا
اور اسی طرح سے وہ ایک دن اپنے تین سالہ بیٹے شہریار کو لے کر وہاں چلا گیا
لیکن سفر کے دوران شہریار کی طبیعت بہت زیادہ خراب ہو گئی آسیہ اب اس کے ساتھ نہیں تھی جو اس کا خیال رکھتی

Mirh@_Ch
 

سکندر اپنی زندگی میں آگے بڑھ چکا تھا شادی کے تقریبا دو سال کے بعد اس کے ہاں ایک چاند سا بیٹا پیدا ہوا جس کا نام اس نے شہریار سکندر رکھا
اور جتنا خوبصورت تھا اتنا ہی بیمار رہتا
ڈاکٹر کے مطابق اسے کوئی بیماری نہ تھیی
شہریار باقی بچوں کی نسبت الگ تھا وہ نہ تو زیادہ کھیلتا تھا اور نہ ہی روتا دھوتا تھا وہ تو اکثر بیمار رہتا
اور اس کی بیماری آسیہ کو بھی پریشان رکھتی۔
سکندر جب اس علاقے سے واپس آیا تو اس نے اپنے دادا سکندرشاہ کا نام استعمال کرنا چھوڑ کر اب وہ اپنا اصل نام راحیل استعمال کرنا شروع کر دیا
کیونکہ وہ نہیں چاہتا تھا کہ اب سکندر نام سے اسے کوئی بھی پکارے وہ نام پریام کے ساتھ ہی چھوڑ چکا تھا
اب لوگوں سے راجیل شاہ کے نام سے جانتے تھے
جب کہ شہریار کی بیماری آئے دن پریشان کیے رکھتی

Mirh@_Ch
 

آزاد ہے نہ وہ اب مل گئی نہ اس کو آزادی تو اب چلے جانا چاہیے اسے وہاں جہاں سے آئی ہے ساری زندگی حرام کر دی ہے اس نے رات کو سو نہیں پاتا خدا کے لئے بتائے مجھے کہ وہ کیوں نہیں جاتی یہاں سے
کیونکہ بیوی ہے وہ تمہاری نکاح میں ہے تمہارے وہ مرتے مر جائے گی لیکن تمہیں کبھی چھوڑ کر نہیں جائے گی
نکاح کیا ہے اس نے تم سے
میں مجبور ہوں شہریار اگر میں تمہارا نکاح اس کے ساتھ نہیں کرواتا تو تمہاری جان چلی جاتی
میں اتنا مجبور تھا کہ اپنے بیٹے کی محبت میں اپنے ہی بیٹے کا نکاح پریزاد سے کروا دیا اور پریوں کی ہر نسل پہلی نسل سے زیادہ ضدی اور طاقتور ہوتی ہے
وہ پریام نہیں ہے جو محبت میں ہار جائے گی وہ ساریسہ ہے اگر تم اسے نہ ملے تو وہ تمہیں بھی ختم کر دے گی وہ تمہارے لیے تین قتل کر چکی ہے اور اس کا چوتھا وار مہر پر ہوگا

Mirh@_Ch
 

مہر میری جان تم ٹھیک تو ہو کیا ہوا ہے تمہیں وی اس کے ہاتھ پیر سہلانے لگا
جبکہ مہر کسی چیز سے خوف زدہ دروازے کی طرف دیکھ رہی تھی
لیکن نہ تو وہ کچھ بول پا رہی تھی اور نہ ہی کسی کو مخاطب کر پا رہی تھی حتیٰ کے دروازے کی طرف اشارہ کرکے دروازے پر کھڑی خوبصورت لڑکی کی طرف کسی کو متوجہ نہیں کر پا رہی تھی
پھر دیکھتے ہی دیکھتے مہر بے ہوش ہوگئی
کسی کے لئے سمجھنا مشکل نہ تھا اگر وہ تھوڑی دیر یہاں اور نہ پہنچتے تو یقیناً وہ مر جاتی اور اس کی جان کی دشمن کون تھی یہ یہاں پر موجود سبھی لوگ جانتے تھے

بس بابا میں مزید برداشت نہیں کر سکتا میں مہر کی جان پر رسک نہیں لے سکتا بتائیں وہ کیا ہے اور کیوں کر رہی ہے وہ یہ سب کچھ مہر کے ساتھ اس کی کیا دشمنی ہے
اگر وہ آزاد ہو چکی ہیں تو چلی جائے نہ یہاں سے کیوں ہمیں مصیبت میں ڈالا ہوا ہے

Mirh@_Ch
 

میں صبح ہوتے ہی ان پیر صاحب کو واپس لے آؤں گا
اللہ رحم کرے گا ویسے بھی تو ساریسہ نجانے کہاں جا چکی ہے مجھے تو لگتا ہے کہ وہ جہاں سے آئی تھی وہیں واپس چلی گئی اللہ نے سب کچھ بہتر کر دیا آپ پریشان نہ ہوں بی بی جی
وہ راحیل صاحب اور آسیہ بیگم کو دلاسہ دیتے ہوئے بولا
جبکہ شہریار آنکھوں میں سوال لیے ان دونوں کی طرف دیکھ رہا تھا
جب شہریار کو اپنے کمرے سے مر کی چیخنے کی آواز سنائی دی
کچھ بھی پوچھنا یہ سمجھنے کی کا وقت نہیں تھا شہریار نے فورا کمرے کی طرف دوڑ لگائی آسیہ نے اسے روکنے کی کوشش کی لیکن یہاں سوال اس کی محبت کا تھا
وہ کمرے میں داخل ہوا تو مہر بیڈ سے نیچے پڑی تھی اور اب اپنا سینے پہ ہاتھ رکھتے ہوئے سانس لینے کی کوشش کر رہی تھی
جب کہ اس کے آس پاس کوئی بھی نہ تھا وہ بھاگتے ہوئے مہر کے پاس آیا اور اسے اٹھا کر بیڈ پر رکھا

Mirh@_Ch
 

جن کا ذکر کرنے سے آپ نے مجھے منع کیا تھا
بابا یہ کیا راز ہے بتائیں مجھے بتائیں مجھے ان آوازوں کا تعلق میرے خوابوں سے ہے نا اس دروازے کا تعلق ان آوازوں سے ہے جو مجھے بچپن سے آتی ہیں
بتائیں بانا آپ خاموش کیوں سے بتائیں مجھے اس کمرے میں کون ہے ۔ شہریار ان کے سامنے کھڑا ان سے جواب مانگ رہا تھا جبکہ راحیل صاحب کا سارا دھیان اوپر سیڑھیوں کی گرل پرکھڑی اس خوبصورت پریزاد پر تھا جو جتنی خوبصورت تھی اتنی خطرناک تھی
💘
نہ جانے وہ لڑکی کہاں غائب ہو چکی تھی اس کمرے سے نکلنے کے بعد وہ کہاں غائب ہوئی تھی کوئی نہیں جانتا تھا
عابد اب کیا ہوگا وہ آزاد ہو چکی ہے عابد اب وہ سب کچھ تباہ کر دے گی کچھ کرو کچھ کرو خدا کے لئے کچھ کرو میرا بیٹا برباد ہو جائے گا
آسیہ بیگم نے روتے ہوئے عابد سے کہا
پریشان نہ ہوں بی بی جی خدا سب کچھ بہتر کرے گا

Mirh@_Ch
 

کیونکہ پوری حویلی میں آوازیں گونجنے لگی تھی عجیب سی آواز ہیں وہ کبھی روتی تو کبھی قہقے لگاتی باہر کی طرف آ رہی تھی
آسیہ بیگم اور راحیل صاحب بھاگ کر کمرے سے باہر نکلے
جہاں سامنے شہریار کو سیڑھیوں سے نیچے اتر کر دیکھا
بابا اس کمرے میں آوازیں کمرے میں کوئی تھا ۔وہ کافی بوکھلایاہوا تھا
مجھے کسی نے کہا کہ شہریار میں باہر آجاؤں تو میں نے غصے میں کہ دیا کہ آ جاؤ میں تمہیں دیکھنا چاہتا ہوں
بابا پھر اسی وقت سے اور یہ عجیب عجیب آوازیں آنے لگیں اور وہ بیریاں تالے ٹوٹ چکے ہیں
بابا یہ وہی آواز ہے جو مجھے بچپن سے آتی ہے یہ وہی آوازیں ہیں جن کا ذکر کرنے سے آپ نے مجھے منع کیا تھا
بابا یہ کیا راز ہے بتائیں مجھے بتائیں مجھے ان آوازوں کا تعلق میرے خوابوں سے ہے نا اس دروازے کا تعلق ان آوازوں سے ہے جو مجھے بچپن سے آتی ہیں

Mirh@_Ch
 

#عشق
#قسط13

پوری حویلی میں عجیب سا سناٹا پھیلا ہوا تھا رات کی تاریخی کچھ الگ ہی لگ رہی تھی شہریار نہیں جانتا تھا کہ وہ اتنا ڈر ہے وں رہا ہے
اس کا دل کسی سوکھے پتے کی طرح کانپ رہا تھا
وہ اتنا ڈر کیوں رہا تھا اسے اتنا پسینہ کیوں آ رہا تھا
کافی دیر کوئی آواز نہ آئی تو شہریار پر سکون سے واپس لیں اترنے لگا
جب اچانک کسی پیچھے سے اپنے دروازے کی بیریاں کھلتی ہوئی محسوس ہوئی
اس نے بے اختیار پیچھے مڑ کر دیکھا جہاں تالا خود بخود کھل چکا تھا اور بیریاں اپنے آپ ٹوٹ رہی تھی
اپنی آنکھوں سے یہ بے یقین منظر دیکھ کر شہریار کے قدم خود بخود نیچے کی طرف جانے لگے
اس وقتے ساتھ ہی حویلی میں قہقوں کی آواز گونجنا شروع یوئی
وہ تیزی سے نیچے کی طرف جانے لگا

Mirh@_Ch
 

اسے یقین تھا اس کے ساتھ 22 سال سے جن آوازوں کا رشتہ جوڑا ہے اس کا تعلق اسی حویلی سے ہے سیڑھیوں سے اوپر جاتے ہوئے وہ ایک کمرے کے سامنے رک گیا
وہ کچھ دن پہلے بھی رات کے وقت اسی کمرے کے پاس آیا تھا
اس کے کمرے کے پاس آتے ہیں سسکیاں بند ہوگی
وہ خاموشی سے مڑ گیا شاید اس کا وہم تھا وہ واپس اپنے کمرے کی طرف جانے لگا جب اس کے قدم رک گئے
شہریار میں باہر آجاؤں۔ ۔۔۔؟
شہریار مجھے اجازت دیں
کیا میں باہر آ سکتی ہوں ۔۔۔
شہریار مجھے بلا لیں ۔۔۔۔
میں باہر آ جاؤں۔۔ ۔ ۔؟
وہی سوال وہی سسکیاں جو پچھلے 22 سال سے اسے ہر رات تنگ کر رہی تھی
اتنے قریب سے ان آوازوں کو سنتے ہوئے شہریار کو غصہ آنے لگا
ہاں آو تم باہر میں تمہیں دیکھنا چاہتا ہوں
بس بہت ہوا
مجھے بھی میرے سوالوں کے جواب چاہیے
میں کہتا ہوں باہر نکلو
میں تمہیں دیکھنا چاہتا ہوں

Mirh@_Ch
 

شہریار اگر تم مجھے تنگ کرو گے تو میں چلی جاؤں گی کمرے سے وہ غصے سے گھورتے ہوئے بولے

رات دو بجے کا وقت تھا جب اسے آواز سنائی تھی مہر اس کے سینے پر سر رکھ کے آرام دہ نیند سو رہی تھی
اسے لگا جیسے یہ سکیوں کی آوازیں باہر سے آ رہی ہیں وہ فوراً مہر کو تکیہ پر لٹاتا اٹھ کر باہر نکل آیا
آواز اوپر کی طرف جاتی سیڑھیوں سے آ رہی تھی
اس کا مطلب تھا کہ اب سکیوں کا تعلق ان سوالوں کا تعلق ان آوازوں کا تعلق اسی کے گھر کے کسی کونے سے تھا
شاید یہی وجہ تھی کہ اس کے ماں باپ اسے یہاں نہیں آنے دے رہے تھے شیر یار اوپر چڑنے لگا
وہ جلد سے جلد اس راز سے پردہ اٹھانا چاہتا تھا

Mirh@_Ch
 

شہریا کمرے میں آیا تو بہت پریشان تھا مہف اس کی پریشانی نوٹ کر رہی تھی لیکن اس نے کچھ پوچھا نہیں شاید اس کے ماں باپ اسے یہاں دیکھ کر خوش نہیں ہوئے تھے
شہری اچھا ہوگیا نہ کل ولیمہ ہو گا تو دلہا دلہن دونوں وہاں موجود ہوں گے اور مسکراتے ہوئے اس کے گلے میں باہیں ڈال کر بولی
اداس کیوں ہو تم کہ تم کچھ یونیک نہیں کر پائے اپنے ولیمے میں اس لیے اداس ہو اس کا چہرہ اپنی نظروں کے حصار میں لیے محبت سے بولی تو شہریار مسکرا دیا
ہاں یار کتنا آکسائیڈ تھا میں اسے کچھ یو نیک کروں گا اور یہاں دیکھو کیا ہوگیا
مجھے افسوس ہے شہریار کے انداز پر مہر نے گردن ہلا کر کہا
اگر اتنا ہی افسوس ہے تو پاس آ کر اظہار افسوس کرو اتنے دور سے کیا کرنا وہ اس کی کمر میں بازو ڈالتے ہوئے اس کی کمر کو جکڑتے ہوئے بیڈ پر لٹا چکا تھا

Mirh@_Ch
 

جب کہ اس کے ماں باپ کی نظروں سے اٹھتے سوال تو وہ دونوں بھی پڑھ چکے تھے شاید اسی لیے منظر سے ہٹنا ضروری سمجھا
بس کر دے بابا بہت ہوگیا کیا ہوگیا ہے آپ کو میں آپ کا بیٹا ہوں کوئی غیر نہیں اور یہ میرا گھر ہے اس گھر کو چھوڑ کر کہاں جاؤں گا میں
ایم سوری غلطی ہوگئی مجھ سے وہاں کسی ہوٹل میں رہنے کے بجائے اپنے ماں باپ کے پاس آ گیا تھا کہ آپ لوگوں کو دیکھ سکوں اور لوگوں کے ساتھ وقت گزار سکوں لیکن شاید بہت بڑی غلطی کر دی ہے میں نے رات ہو چکی ہے صبح ہوتے ہی یہاں سے نکل جاؤں گا شہریار بدتمیزی اور غصے سے کہتا ہوااپنے کمرے کی طرف چلا گیا
جب کہ بابا کو سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ اسے کیسے سمجھائیں کہ اس کا یہاں رہنا خطرے سے خالی نہیں جبکہ بات تو وہ بھی جانتے تھے کہ آج اس کے ماں باپ نے اس سے بہت ہرٹ کیا ہے

Mirh@_Ch
 

لیکن ساریسہ تین قتل کر چکی ہے اب اگر اس نے مزید کسی کی جان لی تو وہ ہمیشہ کے لئے قید ہو جائے گی اس لیے بے فکر ہو جائے وہ کسی کو جانی نقصان نہیں پہنچا سکتی
اب میں چلتا ہوں مجھے بہت دیر ہو رہی ہے پیر صاحب نے اٹھتے ہوئے کہا اور باہر کی راہ لی جہاں دروازے پر شہریار زیان اور مہر کو کھڑے دیکھ کر سب پریشان ہوگئے

تم واپس کیوں آئی شہریار تمہیں وہیں سے چلے جانا چاہیے تھا اگر نہیں تو وہی کسی ہوٹل میں رک جاتے تمہیں حویلی آنے کی کیا ضرورت تھی بابا جان کا غصہ کسی طرح سے کم نہیں ہو رہا تھا
اسے دیکھ کر خوش ہونے کی بجائے وہغصہ ہو رہے تھے مہر اپنے کمرے میں آرام کرنے جا چکی تھی اور زیان بھی یہاں سے جا چکا تھا اگر ان کے سامنے وہ اسے اس طرح سے جانتے تو وہ دونوں کیا سوچتے کہ اس کے ماں باپ اس سے محبت نہیں کرتے