Damadam.pk
Mirh@_Ch's posts | Damadam

Mirh@_Ch's posts:

Mirh@_Ch
 

پیر صاحب نے تفصیل سے بتایا
اور اس بات سے بے خبر تو بھی نہ تھے
وہ تو صرف احتیاط کے لیے لگاتے تھے کہ کہیں وہ باہر نکل آئے
تو اب ہمیں کیا کرنا چاہیے کیا ہم اس سے چھٹکارہ پا سکتے ہیں
نہیں یہ ممکن ہی نہیں وہ 22 سال سے اس رشتے میں باندھی ہوئی ہے آپ کبھی اس سے چھٹکارا نہیں پا سکتے جب وہ اپنی مرضی سے یہ جگہ چھوڑ کر نہ جائے
اس کا مقصد کسی کو نقصان پہنچانا نہیں کیونکہ 22 سال پہلے وہ اتنی غلطیاں کر چکی ہے کہ اب مزید ایک غلطی سے بھی وہ ساری عمر کے لئے قید ہو سکتی ہے اب کسی کی جان لینا اس کے بس سے باہر ہے اگر اس نے کسی کی زندگی چھین لینا چاہی تو اسے قید کر لیا جائے گا کیونکہ پریوں کا یہ قبیلہ کسی کی جان لینے کے لیے نہیں بلکہ انسانوں کی حفاظت کے لیے بنایا گیا تھا

Mirh@_Ch
 

اور وہ بھی اپنے ماں باپ کے ساتھ ایک اور ہفتہ گزار سکتا تھا لیکن اسے اسے نجانے کیوں لگ رہا تھا اس کے ماں باپ کو اس بات کی خوشی نہیں ہوگی

وہ لوگ حویلی پہنچ گئے ہیں عابد نے سب سے پہلے اپنے ایک دوست کو پیرصاحب کا انتظام کرنے کو کہا تھا اور پیر صاحب ان کے گھر میں بیٹھے ان کا انتظار کر رہے تھے
اور یہ بات پتہ چلتے ہیں وہ لوگ جلدی گھر کے لئے نکل چکے تھے
راحیل صاحب آپ کے گھر میں کوئی سایا یا کوئی چڑیل نہیں بلکہ ایک پری کا قبضہ ہے
اور وہ پری زاد کسی ناجائز رشتے سے نہیں بلکہ ایک جائز تعلق سے یہ رہ رہی ہے
اس پر کمرے سے باہر نکلنے کی پابندی لگی ہوئی ہے اور کمرے میں تالے لگائے ہوئے ہیں اس تالوں کو لگانے کا کوئی فائدہ نہیں اسے جب بھی اس کے محبوب کی اجازت ملے گی وہ اس کمرے سے باہر نکل آئے گی اسے دنیا کی کوئی طاقت نہیں روک پائے گی

Mirh@_Ch
 

اب تو ایئرپورٹ پر بیٹھے ان کو تقریبا دو گھنٹے گزر چکے تھے ان کی فلائٹ کا وقت بھی ہو چکا تھا لیکن ابھی تک ان کی اناؤنسمنٹ نہ ہوئی جب ایک ورکر ان کے پاس آئی
سر ایم ریلی سوری پاکستان سے کینیڈا جانے والی فلائٹ کینسل ہو چکی ہے
آپ سے نیو بکنگ آج سے ایک ہفتے بعد ہی ہوگی
ایم ریلی سوری اگر آپ چاہیں تو ہم آپ کی رہائش کا انتظام کروا دیں لڑکی نے معذرت خواہانہ انداز میں اس سے کہا تو مہر خوش ہوگئی
کیا سچی فلائٹ کینسل ہو گئی کتنا اچھا ہوا شکر ہے ایک ہفتہ میں اپنے ماں باپ کے پاس رہوں گی اور شہر یار مجھے آپ کی حویلی دیکھنے کا بھی بہت شوق ہے وہ اکیلے میں اسے تم جب کہ کسی کے سامنے آپ کہہ کر بلاتی تھی شہریار نے یہ بات نوٹ تو کی تھی لیکن اسے ٹوکا نہیں تھا اس کا تم کہنا سے اچھا لگتا تھا
فلائٹ کینسل ہونے کی خوشی اسے بھی بہت ہو رہی تھی

Mirh@_Ch
 

اپنے ماں باپ کی حالت دیکھتے ہوئے اس نے خوش رہنے کا فیصلہ کیا پریام کے بغیر بھی زندگی بھی اسے کاٹ کھانے کو دوڑتی ہے لیکن وہ کیا کرتا مجبور تھا
وہ اپنے ماں باپ کی اکلوتی اولاد تھا ان کاسہارا تھا وہ انہیں اس طرح سے تنہا نہیں چھوڑ سکتا تھا چاہے اس کی اپنی زندگی کیسی بھی کیوں نہ ہو لیکن اسے اپنے ماں باپ کو سہارا دینا تھا
اور وہ معصوم سی لڑکی وہ اسے جب بھی دیکھتا اسے اس پر بے اختیار ترس آتا جو ایک انجان رشتے میں اس کے ساتھ بندھی ہوئی تھی جسے نبھانے کی وہ ہر ممکن کوشش کر رہی تھی سکندر نے فیصلہ کرلیا کہ پریام چاہے اس کی زندگی سے جائے یا نہ جائے لیکن وہ اس لڑکی کو ایک مقام ضرور دیکھا جو کچھ بھی ہوا اس نے اس لڑکی کی کوئی غلطی نہیں ہے

سب سے مل کر وہ تینوں ایئرپورٹ پر آ کر بیٹھے تھے یہاں سے آتے ہوئے اس کے ماں باپ حویلی کے لیے نکل چکے تھے

Mirh@_Ch
 

جبکہ زیان کا دل چاہا کہ اس پیاری سی بھابی پلس بہن کو دنیا کی ہر خوشی دے ڈالے جس نے اس کا کام اتنا آسان کر دیا تھا

چھ مہینے گزر چکے تھے وہ علاقہ چھوڑے اس کے بعد سکندر وہاں کبھی نہ گیا اور نہ ہی جانے کا ارادہ رکھتا تھا ایک عجیب سی بے سکونی اس کی زندگی میں پھیل چکی تھی
اپنی بیوی سے وہ بات کرتا نہیں تھا جب کہ ماں باپ اس کی خالی بے رنگ زندگی دیکھ کر دن با دن پریشان ہوتے جا رہے تھے وہ اپنے ماں باپ کی تکلیف دیکھ سکتا تھا سمجھ سکتا تھا لیکن وہ چاہ کر بھی کچھ نہیں کر سکتا تھا وہ ان کی پسند کی لڑکی کے ساتھ ساری زندگی نہیں گزار سکتا تھا جبکہ وہ خود ہی کسی کی زندگی برباد کر چکا تھا سکندر ہر وقت اس گلٹ میں رہتا کہ اس کی وجہ سے پریام ساری زندگی کے لیے قید ہوگئی اور اب اس سے ملنا نا ممکن ہو چکا تھا

Mirh@_Ch
 

ویسے تو یہاں آتے ہوئے شہریار نے مہر کے سامنے اسے چھیڑتے ہوئے مہر کو بتایا تھا کہ وہ منال کو پسند کرتا ہے
لیکن اسے یقین تھا کہ مہرنےیہ بات راز ہی رکھی ہوگی
جب کہ اس کی پکار پر منال کے چہرے پر سرخی کھلنے لگی
جی کہیں اس کے قریب آ کر کر پوچھنے لگی
منال بات گھما پھرا کر کرنے کا عادی نہیں ہوں سیدھی سی بات ہے کہ تم مجھے پسند ہو اور میں تمہارے گھر اپنے ماں باپ کو لے کر آنا چاہتا ہوں اگر تم راضی ہو تو میں چاہتا ہوں کہ اگلی بار جب ہم تینوں یہاں آئے تو ہم چار لوگ واپس جائے وہ مسکراتے ہوئے مہر اور شہریار کی طرف اشارہ کر رہا تھا جب منال مسکرائی
اس بارے میں آپ میرے والدین سے ہی بات کر لیجئے گا یعنی کے مہر اسے سب کچھ بتا چکی تھی منال آہستہ سے گردن جھکائے چہرے کی سرخی چھپاتی اسے خدا حافظ کہتی وہاں سے نکل گئی

Mirh@_Ch
 

مہر کو ساتھ لے کر اسی لئے اپنی بیٹی کی دوری کا سوچتے ہوئے وہ اس سے کچھ بھی نہ پوچھ پائے
جب کہ مہر بہت اداس تھی وہ پہلی بار اپنے ماں باپ کو چھوڑ کر اتنی دور جا رہی تھی شہریار اس کی کنڈیشن سمجھ رہا تھا لیکن یہ اس کی بھی مجبوری تھی
وہ چاہتا تھا کہ کچھ دن مہر کے ماں باپ کے ساتھ رہ کر انہیں یقین دلایا کہ وہ ان کی بیٹی کا بہت خیال رکھیے گا لیکن نجانے اس کے ماں باپ کو اسے بھیجنے کی اتنی جلدی آخر کیوں تھی
اس کی ہر بات بس اسی سوال پہ آ کے رک جاتی

شہریار اور مہر کے ساتھ زیان بھی آیا تھا وہ تو کب سے صرف اور صرف منال کو دیکھنا چاہتا تھا اور منال آخر میں مہر سے ملی اس سے پہلے تو مہراور منال دونوں ہی کمرے میں نہ جانے کیا کیا باتیں کر رہی تھی
منال میں تم سے کچھ بات کرنا چاہتا ہوں کیا تم ایک منٹ کے لئے یہاں آؤگی وہ اسے دیکھتے ہوئے بولا

Mirh@_Ch
 

آج ہی شام کی فلائٹ ہے ہمیں آج ہی نکلنا ہوگا میرے پیچھے بابا ولیمہ کروائیں گے بنا دولہا اور دلہن کے وہ اپنے ہی باپ کی بات بتاتے ہوئے حیرت سے مسکرایا تھا
اور مہر کو یہ بات بتاتے ہوئے اسے اور بھی عجیب لگ رہا تھا
یہ کیا بات ہوئی بنا دولہا اور دلہن کے ولیمہ ہوتا ہے کیا وہ اسے گھورتے ہوئے بولی تو شہریار مسکرا دیا
ہم سارے کام یونیک کرتے ہیں یہ بھی یونیک کریں گے وہ اس کے ماتھے پر بوسہ دیتے ہوئے نہانے چلا گیا جب کہ وہ اس کی بات پر حیران اور پریشان دوبارہ سونے کی کوشش کرنے لگی

تقریباً گیارہ بجے وہ مہر کے ماں باپ کے گھر گئے تھے
ولیمے کا انویٹیشن ان لوگوں کو مل چکا تھا جو حویلی میں تھا دو دن بعد
وہ خود بھی اس بارے میں شہریار سے بات کرنا چاہتے تھے لیکن شہریار آج ہی واپس جا رہا تھا

Mirh@_Ch
 

#عشق
#قسط12

صبح شہریار کی آنکھ کھلی تو مہر اس کے سینے پر سر رکھ کے سو رہی تھی اسے دیکھتے ہی شہر یار کو لگا جیسے اس کی زندگی مکمل ہوگئی ہو
مجھے نیند آرہی ہے مہراسے خود سے دور کرتے ہوئے دوبارہ سے ہونے کی کوشش کرنے لگی
نہیں میڈم آپ سو نہیں سکتی اگر آپ کو یاد ہو تو ہمیں آپ کے گھر جانا ہے تاکہ آپ کے والدین سے ملاقات کر سکے آج شام ہی ہمیں نکلنا ہے شہریار نے اسے اٹھاتے ہوئے کہا
ہاں تو ولمیے پر ماما بابا آئیں گے نہ توہم ان سے مل لیں گے مہر کی بات پر حیران ہوتے ہوئے اسے دیکھ کر بولی
نہیں میری جان ولیمہ یہاں پر نہیں حویلی میں ہوگا اور تب تک ہم لوگ جا چکے ہوں گے

Mirh@_Ch
 

چلو یہ تو ہو گیا ماں کی طرف سے گفٹ اب تم دو وہ اسے گزرتے ہوئے بولی
یہ میں نے ہی دیا ہے جان من شہریار نے بتانا ضروری سمجھا
یہ خاندانی ہے جناب آپ نے ابھی تک کوئی تحفہ نہیں دیا یہ تو ویسے بھی مجھے ملنے ہی تھے اس میں نیو کیا ہے
اس کے انداز نے شہریارکو مسکرانے پر مجبور کر دیا میں تمہیں صبح دوں گا شہریار نے ٹالنا چاہا
قریب بھی صبح ہی آئیے گا ۔
وہ منہ بناتے ہوئے بولی
لیکن یہ گنگوتیلی تو ابھی ہی پاس آئے گا تمہارا تحفہ مجھ پر ادھار رہا
چاند خوبصورت رات کی چاندنی میں مہک رہا تھا تو کوئی دور ویرانے میں سسکیاں لے کر رو رہا تھا

Mirh@_Ch
 

اسی لیے تمہارا یہ انداز مجھے قبول ہے اس نے مسکراتے ہوئے سر کو خم دیا
لیکن اگر تم تھوڑا شرما تو مجھے بہت خوشی ہوگی
کچھ زیادہ جلدی نہیں ہے جناب کو
پہلے منہ دکھائی نکالے میری اپنا ہاتھ آگے کرتے ہوئے وہ حق سے بولی
ظالم لڑکی ہو شہریار مسکرایا اور اپنی جیب سے ایک ڈبی نکالیں ۔جسے کھولتے ہوئے ایک نظر اس نے اسے دیکھا تھا جو ایکسائٹڈ انداز میں ڈبی کو دیکھ رہی تھی
شہریار نے ہیرو سے جگمگاتے ہوئے دو خوبصورت کنگن نکالے اور اس کی خوبصورت کلائی میں پہنانے لگا
یہ میری پردادی کے ہیں انہوں نے دادی کو دیے دادی نے ماما کو دیے اور ماما نے تمہارے لئے سنبھال کے رکھے تھے ۔

Mirh@_Ch
 

تو وہ میری بہن ہے اس بارے میں تمہیں ٹینشن لینے کی ضرورت نہیں ۔شہریار نے اس کی بات کاٹتے ہوئے اس کا ہاتھ تھام کر بولنا شروع کیا
مجھے بھی وہ مرد ہی نہیں لگتے جو پہلی رات بیوی نیچا دکھاتے ہیں اور الٹی سیدھی باتیں بتاتے ہیں کہ یہ تم پر فرض ہے وہ تم پر فرض ہے
میں جانتا ہوں تمہاری تربیت ایسی ہے کہ تم خود ہی سمجھ جاؤ گی کہ تمہیں کیا کرنا ہے اور کیا نہیں ۔
میں تمہیں کیوں بتاؤں کہ تمہیں میرے ماں باپ کی عزت کرنی ہے ان سے پیار کرنا ہے یہ سب کچھ تو تم بچپن سے کر رہی ہو اپنے ماں باپ کو کون پیار نہیں کرتا
بس یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ سسر اور ساس بھی ماں باپ ہی ہوتے ہیں ۔
اور گھبرانے والی لڑکی مجھے اچھی لگتی ہیں لیکن یہ بات بھی صحیح ہے کہ شادی کی پہلی رات لڑکی شرماتی اور گھبر آی رہے تم اپنی لائف کے رولز کبھی اپنے شوہر پر لاگو نہیں کر سکتی

Mirh@_Ch
 

جس طرح سے میں تمہارے بابا کو اپنے بابا مانوں گی اسی طرح سے تمہیں بھی میرے بابا کو اپنے بابا ماننا پڑے گا لیکن تمہاری کوئی بہن نہیں ہے نہ میں بول رہی ہوں تمہیں میری بہن کو بھی بہت پیار دینا ہوگا
مجھے وہ مرد اچھے نہیں لگتے جو پہلی رات عورت پر اس بات کا روعب جماتے ہیں کہ میں تمہارا شوہر ہوں تمہیں بیا کر لآیا ہوں اور اب میں جو کہوں گا تمھیں وہ کرنا ہوگا مجھے اس طرح کے مرد اچھے لگتے ہیں جو کہتے ہیں ۔۔۔۔۔
ہم دونوں برابر ہیں جس طرح سے میرے ماں باپ کا خیال رکھنا تم پر فرض ہے تمہارے ماں باپ کا خیال رکھنا مجھ پر فرض ہے
تمہارے بابا نے مجھ سے کہا تھا کہ ان کا کوئی بیٹا نہیں ہے اور انہوں نے مجھے اپنا بیٹا بنایا ہے تمہیں تو داماد بننے نہیں والا میں تو ان کا بیٹا ہی بنوں گا اور جہاں تک تمہاری بہن کا سوال ہے

Mirh@_Ch
 

تو تم دوسری شادی کر لو کیوں کہ مجھ سے اس طرح کی کوئی امید رکھنا سوائے بے وقوفی کے اور کچھ نہیں ہے ۔
دنیا میں ایک انسان ہوتا ہے جیسے ہم اپنا کہہ سکتے ہیں جس کے ساتھ اپنا دکھ شیئر کرسکتے ہیں اور اگر اس سے ہی شرماتتے رہیں گھبراتے رہیں گے تو ہم اسے کیسے اپنے بارے میں کچھ بتائیں گے ۔
جیسے اب تم مجھے یہ کہو گے میری ماں کا خیال رکھنا ان کا ہر حکم ماننا میرے بابا کے سامنے زبان میں چلانا اور میں جی حضور جی کروں گی
میں تمہیں ایک بات کہوں گی کہ میری لائف کے بھی کچھ رولز ہیں جن کو تمہیں فولو کرنا ہے
سنو پہلے تم میرے رول سنو پھر میں تمہارے رولز سنتی ہوں
میرے ماما بابا میں لائف میں بہت امپورٹیڈ ہیں میں تمہارے ماما کو بہت پیار دوں گی ان کی عزت کروں گی ان کے ساتھ اچھے سے رہوں گی لیکن یہی رولز تم پر بھی لاگو ہوتے ہیں

Mirh@_Ch
 

اور وہ خبر یہ تھی کہ آج سے 24 سال پہلے جن پیر صاحب نے ساریسہ کو قید کیا تھا وہ وفات پا چکے تھے
اب ان کے پاس ان کی طاقت کا سہارا نہیں تھا ۔
اور یہی وجہ تھی کہ انہوں نے کل ہی شہریار کو واپس بھیجنے کا فیصلہ کر دیا

اس نے آہستہ سے دروازہ کھول کر کمرے میں قدم رکھا وہ سراپا حسن بنی اس کا انتظار کر رہی تھی
کتنی دیر دروازے پر کھڑا اسے دیکھتا رہا
اب کیا اندر آنے کے لئے انویٹیشن کارڈ بھیجوں دولہن کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا اور اس کے ساتھ ہی شہریار کا قہقہ بلند ہوا
اس رات میں لڑکیاں شرمآتی ہے گھبراتی ہیں اور تم ہو کے اس طرح دابنگ ہو کے بیٹھی ہو ایسے نہیں چلے گا مجھے تو شرمانے اور گھبرانے والی لڑکی اچھی لگتی ہے وہ آہستہ آہستہ قدم اٹھاتا اس کے قریب آ بیٹھا

Mirh@_Ch
 

لیکن کچھ بھی نہ بولیں بلکہ شادی میں بہت خوشی سے شرکت کی تھی
سب کچھ بہت اچھے سے ہوا تھا اور اب مہر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اس کی زندگی میں شامل ہو چکی تھی لیکن آنے والا وقت ان کے لیے کیا لا رہا تھا اس سے وہ دونوں انجان تھے

شادی بہت اچھے سے ہو گئی تھی سب کچھ بہت اچھے سے ہوا تھا مہر ہمیشہ کے لئے اس کے گھر آ چکی تھی
ان کی طرف سے زیادہ مہمان شادی میں شریک نہیں ہوئے تھے
لیکن اس کے باوجود بھی آسیہ بیگم نے سب کچھ بہت اچھے سے سنوارا تھا اپنے اکلوتے بیٹے کی شادی کے سارے ارمان نکالے تھے
راحیل صاحب خوش ہونے کے باوجود بھی خوش نہیں ہو پا رہے تھے بہت کوشش کے باوجود بھی وہ اپنی سوچوں کو جٹلا نہیں پا رہے تھے ۔
عابد بھی ان کی پریشانی کی وجہ اچھے سے سمجھتا تھا
لیکن اب جو خبر عابد نے انہیں سنائی تھی اسے سوچ کر وہ اور پریشان ہو چکے تھے

Mirh@_Ch
 

وہ تو کہہ رہا تھا کہ سالیوں کا حق ہوتا ہے اور اس کو اس کا حق نبھانا ہے
جبکہ مہرماہ تھوڑی شرمیلی تھی وہ نیگ کے معاملے میں زیادہ حصہ نہیں لے رہی تھی تو اس کے لیے وہ جو بھی منال کہتی وہی سہی تھا ۔
اور منال تو ہر بات میں دابنگ تھی اور اس کے اس دابنگ انداز زیان جانثار ہوتا جا رہا تھا

رخصت دھوم دھام سے ہوئی ۔
مہر اپنے گھر والوں سے بچھڑتے ہوئے بہت روئی کیوں کہ وہ صرف اپنے سسرال نہیں بلکہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے دوسرے ملک جا رہی تھی جہاں سے واپس جلدی آنا ممکن نہ تھا
شاید اب اس کے اپنے گھر والوں سے ملاقات سات آٹھ سال بعد ہوتی یہ بات الگ تھی کہ کل ہی واپسی کی رسم کرنے والی تھی
لیکن ماں باپ سے دور ہونے کا دکھ تو ہوتا ہی ہے
اپنی شادی پہ مہر کی دور کی چاچی دیکھ کر شہریار اور زیان دونوں بے اختیار مسکرا دیئے وہ بھی انہیں پہچان چکی تھی

Mirh@_Ch
 

لیکن اب وہاں نہ تو کوئی محل تھا اور نہ ہی کوئی خوبصورت نگری وہاں پر صرف پنجارو کا علاقہ نظر آتا تھا
سکندر مایوسی سے واپس لوٹ کر آنے لگا جب اس کی نظر کو انہیں گلابی پھولوں پر پڑی
جو پوری طرح سے مرجائے ہوئے تھے اس کے کانوں میں پریام کی آواز گونجی جس نے کہا تھا
یہ ساریسہ کے پھول ہیں جب وہ مسکراتی ہے تب یہ پھول کھلتے ہیں ۔
وہ عشق کی گلیوں سے واپس لوٹ آیا
جہاں آنے کے بعد وہ کہیں مہینوں تک پریام کی یادوں میں ڈوب رہا وہ اپنے آپ کو پریام کا گنہگار سمجھتا تھا
اور وہ گناہ گار تھا بھی اس کی وجہ سے ایک پری اپنا سب کچھ گنوا بیٹھی تھی

آج مہر کی رخصتی تھی منال کی خوشی کی کوئی انتہا نہ تھی کیونکہ وہ ہر بات میں نیگ وصول کر رہی تھی
جب کہ اس کے اس نیگ میں سب سے زیادہ اس کا ساتھ زیان دے رہا تھا

Mirh@_Ch
 

شور کی آواز سن کر ماما اور بابا فورا اس کے کمرے کی طرف بھاگ گئے اور ان کے پیچھے عابد بھی آیا
شہر یار میرا بچا تم ٹھیک تو ہو تمہیں کچھ ہوا تو نہیں یہ چوٹ کیسے لگی یہ فانوس کیسے گرا ماما سے دیکھتے ہوئے پریشانی سے بولی جبکہ راحیل صاحب کا سارا دھیان کمرے کے چاروں طرف گھوم رہا تھا ۔
آپ کمرے کو کیا دیکھ رہے ہیں ڈاکٹر کو بلائیں دیکھیں اسے کتنی چوٹ لگی ہے ۔
آسیہ بیگم نے راحیل صاحب کو کمرے کو دیکھتے ہوئے جھنجلا کر کہا ۔
جب کہ عابد کو اشارہ ملتے ہی وہ ڈاکٹر کو کال کرنے چلا گیا
کچھ نہیں ماما میں واشروم جا رہا تھا کہ یہ ٹوٹ کر گر گیا شاید کافی عرصہ لگا ہے اس لیے اس نے ماما کو مطمئن کرتے ہوئے کہا ۔
اور انہیں بازو کے گھیرے میں لئے کمرے سے باہر نکل آیا ۔

سکندر سب کی مخالفت کے باوجود بھی اس علاقے میں واپس جا چکا تھا

Mirh@_Ch
 

کون ہو تم اور کیوں میرا پیچھا کر رہے ہو مجھ سے کیا چاہتے ہو تم ۔۔۔۔۔؟
شہریار نے نیچی آواز میں کہا ۔
وہ نہیں چاہتا تھا کہ گھر میں کوئی بھی ڈسٹرب ہو
دیکھو تمہیں جو چاہیے تو مجھے صاف صاف بتا دو اس طرح سے چھپ کر حملہ بند کرو کس نے بھیجا ہے تمھیں اور کیوں میرے پیچھے پڑے ہو اگر تمہیں یہ لگتا ہے کہ تم چھپ کر مجھ پر وار کرو گے تو میں یہ سوچوں گا کہ تم کوئی اور مخلوق ہو تو میں اتنا بے وقوف نہیں ہوں
تم مجھے ڈرانے میں نا کامیاب ہوچکے ہوں اس لیے بہتر ہوگا کہ سامنے آ جاؤ
شہریار نے اسے وارن کرتے ہوئے کہا ۔
جب اچانک ہی کمرے کے بیچ میں چھت پر لگا فانوس چھت سے ٹوٹ کر اس کے اوپر گرا وقت پر دور ہو جانے کی وجہ سے اس سے زیادہ چوٹ تو نہیں آئی تھی لیکن پھر بھی اس کے بازو پر کافی چوٹ لگی تھی ۔