پیر صاحب نے تفصیل سے بتایا
اور اس بات سے بے خبر تو بھی نہ تھے
وہ تو صرف احتیاط کے لیے لگاتے تھے کہ کہیں وہ باہر نکل آئے
تو اب ہمیں کیا کرنا چاہیے کیا ہم اس سے چھٹکارہ پا سکتے ہیں
نہیں یہ ممکن ہی نہیں وہ 22 سال سے اس رشتے میں باندھی ہوئی ہے آپ کبھی اس سے چھٹکارا نہیں پا سکتے جب وہ اپنی مرضی سے یہ جگہ چھوڑ کر نہ جائے
اس کا مقصد کسی کو نقصان پہنچانا نہیں کیونکہ 22 سال پہلے وہ اتنی غلطیاں کر چکی ہے کہ اب مزید ایک غلطی سے بھی وہ ساری عمر کے لئے قید ہو سکتی ہے اب کسی کی جان لینا اس کے بس سے باہر ہے اگر اس نے کسی کی زندگی چھین لینا چاہی تو اسے قید کر لیا جائے گا کیونکہ پریوں کا یہ قبیلہ کسی کی جان لینے کے لیے نہیں بلکہ انسانوں کی حفاظت کے لیے بنایا گیا تھا
اور وہ بھی اپنے ماں باپ کے ساتھ ایک اور ہفتہ گزار سکتا تھا لیکن اسے اسے نجانے کیوں لگ رہا تھا اس کے ماں باپ کو اس بات کی خوشی نہیں ہوگی
❤
وہ لوگ حویلی پہنچ گئے ہیں عابد نے سب سے پہلے اپنے ایک دوست کو پیرصاحب کا انتظام کرنے کو کہا تھا اور پیر صاحب ان کے گھر میں بیٹھے ان کا انتظار کر رہے تھے
اور یہ بات پتہ چلتے ہیں وہ لوگ جلدی گھر کے لئے نکل چکے تھے
راحیل صاحب آپ کے گھر میں کوئی سایا یا کوئی چڑیل نہیں بلکہ ایک پری کا قبضہ ہے
اور وہ پری زاد کسی ناجائز رشتے سے نہیں بلکہ ایک جائز تعلق سے یہ رہ رہی ہے
اس پر کمرے سے باہر نکلنے کی پابندی لگی ہوئی ہے اور کمرے میں تالے لگائے ہوئے ہیں اس تالوں کو لگانے کا کوئی فائدہ نہیں اسے جب بھی اس کے محبوب کی اجازت ملے گی وہ اس کمرے سے باہر نکل آئے گی اسے دنیا کی کوئی طاقت نہیں روک پائے گی
اب تو ایئرپورٹ پر بیٹھے ان کو تقریبا دو گھنٹے گزر چکے تھے ان کی فلائٹ کا وقت بھی ہو چکا تھا لیکن ابھی تک ان کی اناؤنسمنٹ نہ ہوئی جب ایک ورکر ان کے پاس آئی
سر ایم ریلی سوری پاکستان سے کینیڈا جانے والی فلائٹ کینسل ہو چکی ہے
آپ سے نیو بکنگ آج سے ایک ہفتے بعد ہی ہوگی
ایم ریلی سوری اگر آپ چاہیں تو ہم آپ کی رہائش کا انتظام کروا دیں لڑکی نے معذرت خواہانہ انداز میں اس سے کہا تو مہر خوش ہوگئی
کیا سچی فلائٹ کینسل ہو گئی کتنا اچھا ہوا شکر ہے ایک ہفتہ میں اپنے ماں باپ کے پاس رہوں گی اور شہر یار مجھے آپ کی حویلی دیکھنے کا بھی بہت شوق ہے وہ اکیلے میں اسے تم جب کہ کسی کے سامنے آپ کہہ کر بلاتی تھی شہریار نے یہ بات نوٹ تو کی تھی لیکن اسے ٹوکا نہیں تھا اس کا تم کہنا سے اچھا لگتا تھا
فلائٹ کینسل ہونے کی خوشی اسے بھی بہت ہو رہی تھی
اپنے ماں باپ کی حالت دیکھتے ہوئے اس نے خوش رہنے کا فیصلہ کیا پریام کے بغیر بھی زندگی بھی اسے کاٹ کھانے کو دوڑتی ہے لیکن وہ کیا کرتا مجبور تھا
وہ اپنے ماں باپ کی اکلوتی اولاد تھا ان کاسہارا تھا وہ انہیں اس طرح سے تنہا نہیں چھوڑ سکتا تھا چاہے اس کی اپنی زندگی کیسی بھی کیوں نہ ہو لیکن اسے اپنے ماں باپ کو سہارا دینا تھا
اور وہ معصوم سی لڑکی وہ اسے جب بھی دیکھتا اسے اس پر بے اختیار ترس آتا جو ایک انجان رشتے میں اس کے ساتھ بندھی ہوئی تھی جسے نبھانے کی وہ ہر ممکن کوشش کر رہی تھی سکندر نے فیصلہ کرلیا کہ پریام چاہے اس کی زندگی سے جائے یا نہ جائے لیکن وہ اس لڑکی کو ایک مقام ضرور دیکھا جو کچھ بھی ہوا اس نے اس لڑکی کی کوئی غلطی نہیں ہے
❤
سب سے مل کر وہ تینوں ایئرپورٹ پر آ کر بیٹھے تھے یہاں سے آتے ہوئے اس کے ماں باپ حویلی کے لیے نکل چکے تھے
جبکہ زیان کا دل چاہا کہ اس پیاری سی بھابی پلس بہن کو دنیا کی ہر خوشی دے ڈالے جس نے اس کا کام اتنا آسان کر دیا تھا
❤
چھ مہینے گزر چکے تھے وہ علاقہ چھوڑے اس کے بعد سکندر وہاں کبھی نہ گیا اور نہ ہی جانے کا ارادہ رکھتا تھا ایک عجیب سی بے سکونی اس کی زندگی میں پھیل چکی تھی
اپنی بیوی سے وہ بات کرتا نہیں تھا جب کہ ماں باپ اس کی خالی بے رنگ زندگی دیکھ کر دن با دن پریشان ہوتے جا رہے تھے وہ اپنے ماں باپ کی تکلیف دیکھ سکتا تھا سمجھ سکتا تھا لیکن وہ چاہ کر بھی کچھ نہیں کر سکتا تھا وہ ان کی پسند کی لڑکی کے ساتھ ساری زندگی نہیں گزار سکتا تھا جبکہ وہ خود ہی کسی کی زندگی برباد کر چکا تھا سکندر ہر وقت اس گلٹ میں رہتا کہ اس کی وجہ سے پریام ساری زندگی کے لیے قید ہوگئی اور اب اس سے ملنا نا ممکن ہو چکا تھا
ویسے تو یہاں آتے ہوئے شہریار نے مہر کے سامنے اسے چھیڑتے ہوئے مہر کو بتایا تھا کہ وہ منال کو پسند کرتا ہے
لیکن اسے یقین تھا کہ مہرنےیہ بات راز ہی رکھی ہوگی
جب کہ اس کی پکار پر منال کے چہرے پر سرخی کھلنے لگی
جی کہیں اس کے قریب آ کر کر پوچھنے لگی
منال بات گھما پھرا کر کرنے کا عادی نہیں ہوں سیدھی سی بات ہے کہ تم مجھے پسند ہو اور میں تمہارے گھر اپنے ماں باپ کو لے کر آنا چاہتا ہوں اگر تم راضی ہو تو میں چاہتا ہوں کہ اگلی بار جب ہم تینوں یہاں آئے تو ہم چار لوگ واپس جائے وہ مسکراتے ہوئے مہر اور شہریار کی طرف اشارہ کر رہا تھا جب منال مسکرائی
اس بارے میں آپ میرے والدین سے ہی بات کر لیجئے گا یعنی کے مہر اسے سب کچھ بتا چکی تھی منال آہستہ سے گردن جھکائے چہرے کی سرخی چھپاتی اسے خدا حافظ کہتی وہاں سے نکل گئی
مہر کو ساتھ لے کر اسی لئے اپنی بیٹی کی دوری کا سوچتے ہوئے وہ اس سے کچھ بھی نہ پوچھ پائے
جب کہ مہر بہت اداس تھی وہ پہلی بار اپنے ماں باپ کو چھوڑ کر اتنی دور جا رہی تھی شہریار اس کی کنڈیشن سمجھ رہا تھا لیکن یہ اس کی بھی مجبوری تھی
وہ چاہتا تھا کہ کچھ دن مہر کے ماں باپ کے ساتھ رہ کر انہیں یقین دلایا کہ وہ ان کی بیٹی کا بہت خیال رکھیے گا لیکن نجانے اس کے ماں باپ کو اسے بھیجنے کی اتنی جلدی آخر کیوں تھی
اس کی ہر بات بس اسی سوال پہ آ کے رک جاتی
❤
شہریار اور مہر کے ساتھ زیان بھی آیا تھا وہ تو کب سے صرف اور صرف منال کو دیکھنا چاہتا تھا اور منال آخر میں مہر سے ملی اس سے پہلے تو مہراور منال دونوں ہی کمرے میں نہ جانے کیا کیا باتیں کر رہی تھی
منال میں تم سے کچھ بات کرنا چاہتا ہوں کیا تم ایک منٹ کے لئے یہاں آؤگی وہ اسے دیکھتے ہوئے بولا
آج ہی شام کی فلائٹ ہے ہمیں آج ہی نکلنا ہوگا میرے پیچھے بابا ولیمہ کروائیں گے بنا دولہا اور دلہن کے وہ اپنے ہی باپ کی بات بتاتے ہوئے حیرت سے مسکرایا تھا
اور مہر کو یہ بات بتاتے ہوئے اسے اور بھی عجیب لگ رہا تھا
یہ کیا بات ہوئی بنا دولہا اور دلہن کے ولیمہ ہوتا ہے کیا وہ اسے گھورتے ہوئے بولی تو شہریار مسکرا دیا
ہم سارے کام یونیک کرتے ہیں یہ بھی یونیک کریں گے وہ اس کے ماتھے پر بوسہ دیتے ہوئے نہانے چلا گیا جب کہ وہ اس کی بات پر حیران اور پریشان دوبارہ سونے کی کوشش کرنے لگی
❤
تقریباً گیارہ بجے وہ مہر کے ماں باپ کے گھر گئے تھے
ولیمے کا انویٹیشن ان لوگوں کو مل چکا تھا جو حویلی میں تھا دو دن بعد
وہ خود بھی اس بارے میں شہریار سے بات کرنا چاہتے تھے لیکن شہریار آج ہی واپس جا رہا تھا
#عشق
#قسط12
❤
صبح شہریار کی آنکھ کھلی تو مہر اس کے سینے پر سر رکھ کے سو رہی تھی اسے دیکھتے ہی شہر یار کو لگا جیسے اس کی زندگی مکمل ہوگئی ہو
مجھے نیند آرہی ہے مہراسے خود سے دور کرتے ہوئے دوبارہ سے ہونے کی کوشش کرنے لگی
نہیں میڈم آپ سو نہیں سکتی اگر آپ کو یاد ہو تو ہمیں آپ کے گھر جانا ہے تاکہ آپ کے والدین سے ملاقات کر سکے آج شام ہی ہمیں نکلنا ہے شہریار نے اسے اٹھاتے ہوئے کہا
ہاں تو ولمیے پر ماما بابا آئیں گے نہ توہم ان سے مل لیں گے مہر کی بات پر حیران ہوتے ہوئے اسے دیکھ کر بولی
نہیں میری جان ولیمہ یہاں پر نہیں حویلی میں ہوگا اور تب تک ہم لوگ جا چکے ہوں گے
چلو یہ تو ہو گیا ماں کی طرف سے گفٹ اب تم دو وہ اسے گزرتے ہوئے بولی
یہ میں نے ہی دیا ہے جان من شہریار نے بتانا ضروری سمجھا
یہ خاندانی ہے جناب آپ نے ابھی تک کوئی تحفہ نہیں دیا یہ تو ویسے بھی مجھے ملنے ہی تھے اس میں نیو کیا ہے
اس کے انداز نے شہریارکو مسکرانے پر مجبور کر دیا میں تمہیں صبح دوں گا شہریار نے ٹالنا چاہا
قریب بھی صبح ہی آئیے گا ۔
وہ منہ بناتے ہوئے بولی
لیکن یہ گنگوتیلی تو ابھی ہی پاس آئے گا تمہارا تحفہ مجھ پر ادھار رہا
چاند خوبصورت رات کی چاندنی میں مہک رہا تھا تو کوئی دور ویرانے میں سسکیاں لے کر رو رہا تھا
اسی لیے تمہارا یہ انداز مجھے قبول ہے اس نے مسکراتے ہوئے سر کو خم دیا
لیکن اگر تم تھوڑا شرما تو مجھے بہت خوشی ہوگی
کچھ زیادہ جلدی نہیں ہے جناب کو
پہلے منہ دکھائی نکالے میری اپنا ہاتھ آگے کرتے ہوئے وہ حق سے بولی
ظالم لڑکی ہو شہریار مسکرایا اور اپنی جیب سے ایک ڈبی نکالیں ۔جسے کھولتے ہوئے ایک نظر اس نے اسے دیکھا تھا جو ایکسائٹڈ انداز میں ڈبی کو دیکھ رہی تھی
شہریار نے ہیرو سے جگمگاتے ہوئے دو خوبصورت کنگن نکالے اور اس کی خوبصورت کلائی میں پہنانے لگا
یہ میری پردادی کے ہیں انہوں نے دادی کو دیے دادی نے ماما کو دیے اور ماما نے تمہارے لئے سنبھال کے رکھے تھے ۔
تو وہ میری بہن ہے اس بارے میں تمہیں ٹینشن لینے کی ضرورت نہیں ۔شہریار نے اس کی بات کاٹتے ہوئے اس کا ہاتھ تھام کر بولنا شروع کیا
مجھے بھی وہ مرد ہی نہیں لگتے جو پہلی رات بیوی نیچا دکھاتے ہیں اور الٹی سیدھی باتیں بتاتے ہیں کہ یہ تم پر فرض ہے وہ تم پر فرض ہے
میں جانتا ہوں تمہاری تربیت ایسی ہے کہ تم خود ہی سمجھ جاؤ گی کہ تمہیں کیا کرنا ہے اور کیا نہیں ۔
میں تمہیں کیوں بتاؤں کہ تمہیں میرے ماں باپ کی عزت کرنی ہے ان سے پیار کرنا ہے یہ سب کچھ تو تم بچپن سے کر رہی ہو اپنے ماں باپ کو کون پیار نہیں کرتا
بس یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ سسر اور ساس بھی ماں باپ ہی ہوتے ہیں ۔
اور گھبرانے والی لڑکی مجھے اچھی لگتی ہیں لیکن یہ بات بھی صحیح ہے کہ شادی کی پہلی رات لڑکی شرماتی اور گھبر آی رہے تم اپنی لائف کے رولز کبھی اپنے شوہر پر لاگو نہیں کر سکتی
جس طرح سے میں تمہارے بابا کو اپنے بابا مانوں گی اسی طرح سے تمہیں بھی میرے بابا کو اپنے بابا ماننا پڑے گا لیکن تمہاری کوئی بہن نہیں ہے نہ میں بول رہی ہوں تمہیں میری بہن کو بھی بہت پیار دینا ہوگا
مجھے وہ مرد اچھے نہیں لگتے جو پہلی رات عورت پر اس بات کا روعب جماتے ہیں کہ میں تمہارا شوہر ہوں تمہیں بیا کر لآیا ہوں اور اب میں جو کہوں گا تمھیں وہ کرنا ہوگا مجھے اس طرح کے مرد اچھے لگتے ہیں جو کہتے ہیں ۔۔۔۔۔
ہم دونوں برابر ہیں جس طرح سے میرے ماں باپ کا خیال رکھنا تم پر فرض ہے تمہارے ماں باپ کا خیال رکھنا مجھ پر فرض ہے
تمہارے بابا نے مجھ سے کہا تھا کہ ان کا کوئی بیٹا نہیں ہے اور انہوں نے مجھے اپنا بیٹا بنایا ہے تمہیں تو داماد بننے نہیں والا میں تو ان کا بیٹا ہی بنوں گا اور جہاں تک تمہاری بہن کا سوال ہے
تو تم دوسری شادی کر لو کیوں کہ مجھ سے اس طرح کی کوئی امید رکھنا سوائے بے وقوفی کے اور کچھ نہیں ہے ۔
دنیا میں ایک انسان ہوتا ہے جیسے ہم اپنا کہہ سکتے ہیں جس کے ساتھ اپنا دکھ شیئر کرسکتے ہیں اور اگر اس سے ہی شرماتتے رہیں گھبراتے رہیں گے تو ہم اسے کیسے اپنے بارے میں کچھ بتائیں گے ۔
جیسے اب تم مجھے یہ کہو گے میری ماں کا خیال رکھنا ان کا ہر حکم ماننا میرے بابا کے سامنے زبان میں چلانا اور میں جی حضور جی کروں گی
میں تمہیں ایک بات کہوں گی کہ میری لائف کے بھی کچھ رولز ہیں جن کو تمہیں فولو کرنا ہے
سنو پہلے تم میرے رول سنو پھر میں تمہارے رولز سنتی ہوں
میرے ماما بابا میں لائف میں بہت امپورٹیڈ ہیں میں تمہارے ماما کو بہت پیار دوں گی ان کی عزت کروں گی ان کے ساتھ اچھے سے رہوں گی لیکن یہی رولز تم پر بھی لاگو ہوتے ہیں
اور وہ خبر یہ تھی کہ آج سے 24 سال پہلے جن پیر صاحب نے ساریسہ کو قید کیا تھا وہ وفات پا چکے تھے
اب ان کے پاس ان کی طاقت کا سہارا نہیں تھا ۔
اور یہی وجہ تھی کہ انہوں نے کل ہی شہریار کو واپس بھیجنے کا فیصلہ کر دیا
❤
اس نے آہستہ سے دروازہ کھول کر کمرے میں قدم رکھا وہ سراپا حسن بنی اس کا انتظار کر رہی تھی
کتنی دیر دروازے پر کھڑا اسے دیکھتا رہا
اب کیا اندر آنے کے لئے انویٹیشن کارڈ بھیجوں دولہن کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا اور اس کے ساتھ ہی شہریار کا قہقہ بلند ہوا
اس رات میں لڑکیاں شرمآتی ہے گھبراتی ہیں اور تم ہو کے اس طرح دابنگ ہو کے بیٹھی ہو ایسے نہیں چلے گا مجھے تو شرمانے اور گھبرانے والی لڑکی اچھی لگتی ہے وہ آہستہ آہستہ قدم اٹھاتا اس کے قریب آ بیٹھا
لیکن کچھ بھی نہ بولیں بلکہ شادی میں بہت خوشی سے شرکت کی تھی
سب کچھ بہت اچھے سے ہوا تھا اور اب مہر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اس کی زندگی میں شامل ہو چکی تھی لیکن آنے والا وقت ان کے لیے کیا لا رہا تھا اس سے وہ دونوں انجان تھے
❤
شادی بہت اچھے سے ہو گئی تھی سب کچھ بہت اچھے سے ہوا تھا مہر ہمیشہ کے لئے اس کے گھر آ چکی تھی
ان کی طرف سے زیادہ مہمان شادی میں شریک نہیں ہوئے تھے
لیکن اس کے باوجود بھی آسیہ بیگم نے سب کچھ بہت اچھے سے سنوارا تھا اپنے اکلوتے بیٹے کی شادی کے سارے ارمان نکالے تھے
راحیل صاحب خوش ہونے کے باوجود بھی خوش نہیں ہو پا رہے تھے بہت کوشش کے باوجود بھی وہ اپنی سوچوں کو جٹلا نہیں پا رہے تھے ۔
عابد بھی ان کی پریشانی کی وجہ اچھے سے سمجھتا تھا
لیکن اب جو خبر عابد نے انہیں سنائی تھی اسے سوچ کر وہ اور پریشان ہو چکے تھے
وہ تو کہہ رہا تھا کہ سالیوں کا حق ہوتا ہے اور اس کو اس کا حق نبھانا ہے
جبکہ مہرماہ تھوڑی شرمیلی تھی وہ نیگ کے معاملے میں زیادہ حصہ نہیں لے رہی تھی تو اس کے لیے وہ جو بھی منال کہتی وہی سہی تھا ۔
اور منال تو ہر بات میں دابنگ تھی اور اس کے اس دابنگ انداز زیان جانثار ہوتا جا رہا تھا
❤
رخصت دھوم دھام سے ہوئی ۔
مہر اپنے گھر والوں سے بچھڑتے ہوئے بہت روئی کیوں کہ وہ صرف اپنے سسرال نہیں بلکہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے دوسرے ملک جا رہی تھی جہاں سے واپس جلدی آنا ممکن نہ تھا
شاید اب اس کے اپنے گھر والوں سے ملاقات سات آٹھ سال بعد ہوتی یہ بات الگ تھی کہ کل ہی واپسی کی رسم کرنے والی تھی
لیکن ماں باپ سے دور ہونے کا دکھ تو ہوتا ہی ہے
اپنی شادی پہ مہر کی دور کی چاچی دیکھ کر شہریار اور زیان دونوں بے اختیار مسکرا دیئے وہ بھی انہیں پہچان چکی تھی
لیکن اب وہاں نہ تو کوئی محل تھا اور نہ ہی کوئی خوبصورت نگری وہاں پر صرف پنجارو کا علاقہ نظر آتا تھا
سکندر مایوسی سے واپس لوٹ کر آنے لگا جب اس کی نظر کو انہیں گلابی پھولوں پر پڑی
جو پوری طرح سے مرجائے ہوئے تھے اس کے کانوں میں پریام کی آواز گونجی جس نے کہا تھا
یہ ساریسہ کے پھول ہیں جب وہ مسکراتی ہے تب یہ پھول کھلتے ہیں ۔
وہ عشق کی گلیوں سے واپس لوٹ آیا
جہاں آنے کے بعد وہ کہیں مہینوں تک پریام کی یادوں میں ڈوب رہا وہ اپنے آپ کو پریام کا گنہگار سمجھتا تھا
اور وہ گناہ گار تھا بھی اس کی وجہ سے ایک پری اپنا سب کچھ گنوا بیٹھی تھی
❤
آج مہر کی رخصتی تھی منال کی خوشی کی کوئی انتہا نہ تھی کیونکہ وہ ہر بات میں نیگ وصول کر رہی تھی
جب کہ اس کے اس نیگ میں سب سے زیادہ اس کا ساتھ زیان دے رہا تھا
شور کی آواز سن کر ماما اور بابا فورا اس کے کمرے کی طرف بھاگ گئے اور ان کے پیچھے عابد بھی آیا
شہر یار میرا بچا تم ٹھیک تو ہو تمہیں کچھ ہوا تو نہیں یہ چوٹ کیسے لگی یہ فانوس کیسے گرا ماما سے دیکھتے ہوئے پریشانی سے بولی جبکہ راحیل صاحب کا سارا دھیان کمرے کے چاروں طرف گھوم رہا تھا ۔
آپ کمرے کو کیا دیکھ رہے ہیں ڈاکٹر کو بلائیں دیکھیں اسے کتنی چوٹ لگی ہے ۔
آسیہ بیگم نے راحیل صاحب کو کمرے کو دیکھتے ہوئے جھنجلا کر کہا ۔
جب کہ عابد کو اشارہ ملتے ہی وہ ڈاکٹر کو کال کرنے چلا گیا
کچھ نہیں ماما میں واشروم جا رہا تھا کہ یہ ٹوٹ کر گر گیا شاید کافی عرصہ لگا ہے اس لیے اس نے ماما کو مطمئن کرتے ہوئے کہا ۔
اور انہیں بازو کے گھیرے میں لئے کمرے سے باہر نکل آیا ۔
❤
سکندر سب کی مخالفت کے باوجود بھی اس علاقے میں واپس جا چکا تھا
کون ہو تم اور کیوں میرا پیچھا کر رہے ہو مجھ سے کیا چاہتے ہو تم ۔۔۔۔۔؟
شہریار نے نیچی آواز میں کہا ۔
وہ نہیں چاہتا تھا کہ گھر میں کوئی بھی ڈسٹرب ہو
دیکھو تمہیں جو چاہیے تو مجھے صاف صاف بتا دو اس طرح سے چھپ کر حملہ بند کرو کس نے بھیجا ہے تمھیں اور کیوں میرے پیچھے پڑے ہو اگر تمہیں یہ لگتا ہے کہ تم چھپ کر مجھ پر وار کرو گے تو میں یہ سوچوں گا کہ تم کوئی اور مخلوق ہو تو میں اتنا بے وقوف نہیں ہوں
تم مجھے ڈرانے میں نا کامیاب ہوچکے ہوں اس لیے بہتر ہوگا کہ سامنے آ جاؤ
شہریار نے اسے وارن کرتے ہوئے کہا ۔
جب اچانک ہی کمرے کے بیچ میں چھت پر لگا فانوس چھت سے ٹوٹ کر اس کے اوپر گرا وقت پر دور ہو جانے کی وجہ سے اس سے زیادہ چوٹ تو نہیں آئی تھی لیکن پھر بھی اس کے بازو پر کافی چوٹ لگی تھی ۔
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain