Damadam.pk
Mirh@_Ch's posts | Damadam

Mirh@_Ch's posts:

Mirh@_Ch
 

#عشق
#قسط_11
(

شہریار سو رہا تھا
جب اسے اپنے آس پاس کوئی محسوس ہوا ۔۔ کسی احساس کے تحت اس کی آنکھ کھل گئی اس نے اپنے کمرے کے چاروں اور دیکھا لیکن کوئی نہ تھا آج پھر اسے وہی خوف محسوس ہوا جو پاکستان آنے پر پہلی رات ہوا تھا جب کسی نے اس پر حملہ کیا تھا اور سینے کے بیچوں بیچ کسی کے ہاتھ کا نشان تھا
کمرے میں کسی کو بھی نہ دے کر وہ کسی کو محسوس کر رہا تھا وہ جانتا تھا کہ اس کمرے میں ضرور کوئی ہے اور وہ اس کا وہم نہیں ہے
وہ آہستہ سے اپنے بیڈ سے اٹھا اور لائٹ آن کی ۔
کون ہو تم ۔۔۔۔؟
دیکھو میں جانتا ہوں یہاں کوئی تو ہے ۔۔۔۔۔
میں جانتا ہوں تو مجھے ڈرانا چاہتے ہو ۔۔۔

Mirh@_Ch
 

اس سے آزادی تو دے سکتا تھا
اسی لیے کسی کی بھی بات نہ مانتے ہوئے جیسے ہی اسے ہوش آیا اس نے پاکستان واپس آیا اور پاکستان سے سیدھا اس کا ارادہ واپس اسی علاقے میں جانے کا تھا جہاں اس کی پریاں رہتی تھیں

Mirh@_Ch
 

اب تم اپنا وعدے سے پھر نہیں سکتے بابا نے اس کا وعدہ یاد دلایا اس نے وعدہ کیا تھا کہ اگر اس کی شادی مہر سے کروا دی گئی تو وہ اس بارے میں ان سے کچھ نہیں پوچھے گا وہ اسے نہیں پوچھے گا کہ وہ اسے اتنی جلدی واپس کیوں بھیجنا چاہتے ہیں

اسے ہوش آیا تو اس کا پہلا ارادہ ہی واپس اس علاقے میں جانے کا تھا
لیکن بابا جان اسے واپس جانے کی اجازت نہیں دے رہے تھے وہ یہی چاہتے تھے کہ وہ سب کچھ بھلا کر ایک نئی زندگی کی شروعات کریں
لیکن سکندر تو ایک نئی زندگی کی شروعات نہیں کر سکتا جب تک کہ اپنی غلطی کو سدھارنا لے
اسے پریام کے پاس واپس جانا تھا اسے ایک نئی زندگی دینی تھی چاہے وہ اسے اپنا نہ سکتا ہے وہ اس کے ساتھ زندگی نہیں گزار سکتا لیکن اسے اپنا نام تو دے سکتا تھا

Mirh@_Ch
 

آخر انہوں نے اپنے بیٹے کی یہ خواہش بھی پوری کر دی تھی
کل رخصتی ہے اور پرسوں تمہاری اور مہر کی کینیڈا کی فلائٹ ولیمہ کے فورا بعد تم کینیڈا کے لیے نکل جاؤ گے
بابا نے اسے اپنے سامنے بٹھاتے ہوئے بتایا
کیا مطلب ہم واپس کراچی نہیں جائیں گے اور آپ نے ولیمے کا انتظام یہاں کیوں کر آیا ہے یہاں ہمہیں لوگ جانتے ہی کتنے ہیں ہم اپنی حویلی میں کروائیں گے کوئی بڑی محفل
شہریار کو یہ سب کچھ عجیب لگ رہا تھا آخر اس کے ماں باپ اسے یہاں سے بھگانا کیوں چاہتے تھے
دیکھو شہری تم نے جو کہا ہم نے وہ کر دیا تم مہر شادی کرنا چاہتے تھے اور اب ہم نے تمہاری یہ خواہش پوری کر دی ہے اب تم مہر کو ہمیشہ کے لئے یہاں سے لے جاؤ میں اور تمہاری ماما جلد ہی تم سے ملنے آئیں گے اور تم نے وعدہ کیا تھا کہ اگر تمہاری شادی مہر سے ہوگئی تو مجھ سے کوئی سوال نہیں پوچھو گے

Mirh@_Ch
 

جب کہ وہ معصوم لڑکی ہر ممکن طریقے سے اپنے شوہر کا خیال رکھنے کی کوشش کرتی اس کی ساری ذمہ داری اس نے اپنے سر اٹھا لی تھی
کومہ کے تین ماہ کے دوران سکندر کو دوبار ہوش آیا اور اس نے ہر بارپریام کا نام لیا پریام کون ہے کہاں ہے کیسی ہے کوئی نہیں جانتا تھا ان سب کے لیے تو یہ نام بھی نیا تھا جس سے وہ واقفیت ہی نہیں رکھتے تھے
تین مہینے گزر جانے کے بعد بھی جب سکندر کو ہوش نہیں آیا تو بابا نے اسے امریکا بھیج کر اس کا علاج کروانا چاھا جس سے علاج سے انہیں کافی فائدہ ہوا تھا
ڈاکٹر نے انہیں اچھی امی دلوائی تھی

نکاح کے بعد وہ بہت پر سکون تھا شام ہوتے ہی وہ گھر واپس آ گئے اس کی خوشی کا اندازہ لگانا اس کے چہرے سے ہی بہت آسان لگ رہا تھا
ماما تو بار بار اس کی بلائیں لیتی
جبکہ بابا بھی اسے دیکھ کر خوش تھے

Mirh@_Ch
 

خدا سے مانگا تھا شہزادہ مل گیا گنگوتیلی چلیں کوئی بات نہیں زندگی گزارنی ہے نا قبول ہے مہر ٹھیڑے میڑے منہ بناتی ہوئی بولی جہاں شہریار اس کا بے باک انداز دیکھ کر اسے گھورنے لگا تھا وہی زیان کا قہقہ ہے ساختہ تھا
رخصتی کی رسم کل ادا ہونی تھی ورنہ وہ آج ہی خود کو گنگوتیلی کہنے کا حساب ضرور بےباک کرتا

دن گزرتے جا رہے تھے اسے کوما میں گئے تین مہینے گزر چکے تھے کومہ کے دوران بھی اسے صرف اور صرف پریام کا خیال آرہا تھا اس کی وجہ سے پریاں کی زندگی چھین سکتی تھی وہ ہر ممکن طریقے سے واپس دنیا میں لوٹنے کی کوشش کر رہا تھا ڈاکٹر اس کی کنڈیشن پر پُرامید تھے
ڈاکٹر کا کہنا تھا کہ وہ جینا چاہتا ہے اس کے اندر جینے کی خواہشیں ابھی زندہ ہے اس کے بابا اور ماما ٹوٹ کر رہ گئے اپنے جوان بیٹے کی یہ حالت دیکھ کر

Mirh@_Ch
 

اور پھر مولوی صاحب نے نکاح کی رسم شروع کی
پہلے انہوں نے شہریار سے نکاح کی رضامندی جانی چاہیے وہ تو دل و جان سے نکاح کے لئے راضی تھا لیکن ناجانے کیوں نکاح نامہ سائن کرتے ہوئے اس کے ہاتھ کانپنے لگے دل ایک بار پھر سے زور زور سے دھڑکنے لگا عجیب سا خوف اس کے چاروں طرف سے جا چکا تھا
اسے ایسا لگ رہا تھا کہ وہ ویرانے میں بالکل اکیلا بیٹھا ہے اور کوئی بہت بڑا گناہ کرنے جا رہا ہے لیکن شاید محبت کی طاقت اس خوف پرحاوی ہو گئی اور شہریار نے نکاح نامے پر سائن کر دیے
مہر خان آفریدی ولد رحمان خان آفریدی آپ کا نکاح شہریار شاہ ولد راحیل شاہ کے ساتھ پچاس لاکھ سکہ رائج الوقت قرار پایا ہے کیا آپ کو یہ نکاح قبول ہے
مولوی صاحب کی آواز کمرے میں گونجی رہی تھی
شہریار کا سارا دھیان سرخ دوپٹے میں بیٹھی اپنی دلہن پر تھا
خدا سے مانگا تھا شہزادہ مل گیا

Mirh@_Ch
 

وہ شہریار کے سامنے جوس کا گلاس رکھتے ہوئے مسکرا کر جتلانے والے انداز میں بولی
جبکہ شہریار اس کے بات پر مسکرا دیا تھا وہ تو صرف مہر کو اپنی نگاہوں کے سامنے دیکھنا چاہتا تھا اس وقت سے سوائے مہر کے دیدار کے اور کچھ بھی نہیں چاہیے تھا
اور یہاں پے یہ ظالم سماج جو صاف الفاظ میں کہہ چکے تھے کہ جب تک نکاح نہیں ہو جاتا تب تک مہر باہر نہیں آئے گی
اسی لئے اب وہ بیچینی سے نکاح کا انتظار کر رہا تھا
اور پھر تھوڑی دیر بعد اس کی یہ خواہش بھی پوری ہوگی
جب سامنے والے کمرے سے آہستہ آہستہ قدم اٹھاتی مہر سرخ دوپٹے میں باہر آئی دلہن کے حسین جوڑے میں وہ کسی اپسرا سے کم نہیں لگ رہی تھی
یہ وہ واحد لڑکی تھی جس نے پہلی ہی ملاقات میں شہریار کے دل کے تار چھیڑ دیے تھے
اسے شہریار کے سامنے بٹھایا گیا اور بیچ میں ایک جالی کا کپڑا لگایا گیا

Mirh@_Ch
 

کچھ ہی دیر میں نکاح ہونے والا تھا شہریار نے جو یہاں آکر سب سے زیادہ نوٹ کیا تھا وہ تھا زیان جو اس کے ساتھ نہیں بلکہ منال کی مدد کرنے کے چکر میں لگا تھا
زیان صاحب اگر آپ کو لگتا ہے کہ آپ میری مدد کریں گے تو میں اپنا نیگ نہیں لوں گی تو یہ آپ کی غلط فہمی ہے منال نے اسے دیکھتے ہوئے کہا
ارے منال میڈم آپ کو ایسا کیوں لگتا ہے کہ میں آپ کے نیگ مطلب کہ آپ کے حق پر کچھ گڑبڑ کرنے کی کوشش کروں گا ارے میں تو خود لڑوں گا آپ کے لیے آپ کو جینا نیگ چاہے بس منہ سے آواز نکالیں ان شاء اللہ آپ کو ضرور ملے گا
زیان نے سے پچکارتے کراتے ہوئے کہا
بہت شکریہ لیکن مجھے نہیں لگتا کہ مجھے یہاں جنگ لڑنے کی ضرورت پڑے گی
کیونکہ شہریار بھائی ماشاءاللہ سے اتنے بڑے بزنس مین ہیں اب نیگ دینے میں تو کچھ گڑبڑ کر بھی نہیں سکتے آخر ان کی عزت کا سوال ہے

Mirh@_Ch
 

کیسے وہ اس کی ایک پکار پر دوڑتی چلی آتی ہے ۔
وہ پہار سے اتر کر سڑک پر پہنچ چکا تھا
نہیں پریام کو خود سے محبت کرنے کی سزا نہیں دے سکتا مجھے اس سے جینے کا حق چھینے کا کوئی حق نہیں ہے وہ کون سا مجھ سے کوئی حق مانگ رہی ہے صرف نکاح کے لئے ہی تو کہہ رہی ہے اس نکاح سے جینے کا حق ملے گا
مجھے پریام سے نکاح کر لینا چاہئے وہ مجھ سے کچھ نہیں مانگ رہی سوائے نکاح کے ہاں مجھے اس سے نکاح کر لینا چاہیے سکندر نے سوچتے ہوئے اپنے قدموں ہی روک لیے
اور تیزی سے سڑک پار کرتے واپس پہاڑی کی طرف جانا چاہا لیکن شاید قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا اس سے پہلے کہ وہ سرحد پار کرتا ایک تیز رفتار گاڑی اس سے آکر ٹکرائی اور کے چند ہی منٹ میں وہ اپنے ہوش و حواس سے بیگانہ ہو چکا تھا

شہریار اور اس کی فیملی نکاح کے لیے رحمان صاحب کے گھر آ چکے تھے ۔

Mirh@_Ch
 

#عشق
#قسط_10
(

سکندر کے ڈر مارے وہاں سے نکل تو آیا لیکن جیسے جیسے وہ پہاڑی اتر رہا تھا ویسے ویسے ہی اس کا دھیان ان بزرگ کی باتوں پر گیا جو کہہ رہے تھے کہ اگر اس نے نکاح نہ کیا تو وہ ہمیشہ کے لئے پریام کو قید کر دیں گے
اس سے جینے کا حق ہی لے لیا جائے گا اسے انسان سے عشق کرنے کی سزا دی جائے گی
سکندر بھی تو محبت کرتا تھا وہ اسے عام انسان سمجھتا تھا لیکن پھر بھی پریام نے تو اسے کبھی نہیں کہا تھا کہ وہ ایک عام انسان ہے
اگر پریام نے اس سے اس بارے میں کچھ نہیں بتایا تھا تو سکندر نے بھی تو کبھی اس سے اس بارے میں کچھ نہیں پوچھا تھا کہ وہ اس ویران پہاڑی پر اکیلی کیا کر رہی ہے ۔

Mirh@_Ch
 

سکندر میں نے تم سے سچا عشق کیا ہے خدا کے لئے واپس آ جاؤ ورنہ پچھتاؤ گے
ہایم پریام کو تابوت میں بند کر دیا جائے ایک انسان سے عشق کرنے کی سزا اسے ضرور ملے گی ۔
بزرگ نے ایک نظر اپنی روتی بیٹی کو دیکھا اور پھر بنا اس کی طرف دیکھے چلے گئے
تم نے میرے ساتھ اچھا نہیں کیا سکندر تمہیں اس کی سزا ضرور ملے گی ۔تم نے مجھ سے میری زندگی چھین لی ہے میں تمہاری نسلیں برباد کر دوں گی

Mirh@_Ch
 

جینے کی اجازت تو ملے اگر تم نے اس سے نکاح سے انکار کر دیا تو سزا کے طور پر اسے ایک تابوت میں بند کر دیا جائے گا
جس سے وہ ساری زندگی کبھی آزاد نہیں ہو پائے گی وہ تمہیں اپنا محرم مانتی ہے تمہارے علاوہ وہ کسی کے خوابوں میں بھی نہیں آ سکتی ۔
یا تو تم اسے اپنا لو ۔نہیں تو بس اس سے نکاح کر لو تاکہ وہ ساری زندگی قید خانے میں تو نہ رہے
بزرگ نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا
نہیں میں کچھ نہیں کر سکتا آپ مجھے معاف کر دیجیے مجھے نہیں رہنا یہاں پر سکندر نے ایک نظر اس محل کی طرف دیکھا اور پھر باہر کی طرف چلا گیا
نہیں سکندر تم مجھے چھوڑ کر نہیں جا سکتے تم مجھ سے محبت کرتے ہو تو میرے ساتھ ایسا کیسے کر سکتے ہو کیوں مجھے پل پل کی موت دے رہے ہو

Mirh@_Ch
 

پریام بھی اسی کے سامنے اسی کے انداز میں ہاتھ باندھ کر کھڑی ہو چکی تھی
مجھے معاف کردو پریام مجھے لگا تم ایک عام انسان ہو اگر مجھے پتا ہوتا کہ تم ایک پریزاد ہو تو میں اپنے قدم روک لیتا ۔
میں یہ نکاح نہیں کر سکتا مجھے یہاں سے واپس جانا ہے خدا کے لئے مجھے جانے دیں یہاں سے
سکندر تمہارے یہاں سے چلے جانے سے پریام کو اپنی زندگی ختم کرنی پڑے گی تم کیوں نہیں سمجھ رہے ہو اسے ساری زندگی ایک تابوت میں گزارنی پڑے گی ۔
یہ اصول ہے ایک پریزافاگر ایک انسان کے عشق میں مبتلا ہو جائے اور وہ انسان اسے اپنانے سے انکار کرکے تو اسے ساری زندگی قیدخانے میں گزارنی پڑتی ہے جہاں سے نہ تو وہ کبھی نہیں نکل سکتی ہے ۔اور نہ ہی جی سکتی ہے
ٹھیک ہے اگر تم اس کے ساتھ نہیں رہنا چاہتے تو بھی کوئی بات نہیں لیکن اس سے نکاح کر لو تاکہ اسے آزادی تو ملے

Mirh@_Ch
 

اس سے اس کی آزادی چھین لی جائے گی اس سے اس کے جینے کےحق چھین لے جائیں گے ۔
سمجھنے کی کوشش کر سکندر تم اس طرح اسے واپس نہیں جا سکتے یہ سچ ہے کہ ہم تمہارے ساتھ زبردستی نہیں کر سکتے اس نے کہا کے لئے لیکن ہم اپنی بچی کوکھو بھی نہیں کر سکتے ۔
میں کچھ نہیں جانتا میں نہیں کرنا چاہتا نکاح میں نے پرمام سے محبت اسے انسان جان کر کی تھی یہاں جو کچھ میں دیکھ چکا ہوں اس کے بعد پریام کو ایک پری کے طور پر قبول کرنا میرے بس سے باہر ہے مجھے معاف کیجئے میں یہاں شادی نہیں کرنا چاہتا ۔
مجھے جانے دیں یہاں سے سکندر ان کے سامنے ہاتھ جوڑے
بولا
میں تمہارے ساتھ ساری زندگی انسان کی طرح رہوں گی تم سے کبھی کچھ نہیں مانگوں گی سکندر مجھے چھوڑ کے مت جاؤ میں تم سے بے تحاشا محبت کرتی ہو مجھ جیساعشق کوئی نہیں کر سکتا

Mirh@_Ch
 

یہ پہاڑی ایک پریوں کا قیلہ ہے جس کے ساتھ تمہارا نکاح ہو رہا ہے وہ ایک پری ذاد ہے اس قیلہ کی اصل مالکن تم سے محبت کرتی ہے اسی لئے ہم تمہارا نکاح اس کے ساتھ کر رہے ہیں ورنہ ایک انسان کے ساتھ ایک پریزاد کا نکاح ہماری اور تمہاری نسلیں برباد کر سکتا ہے
لیکن ہم پھر بھی اپنی بیٹی کی خواہش کے سامنے بے بس ہیں اب خاموشی سے بیٹھ جاؤ تاکہ نکاح کی کاروائی شروع ہو بزرگ نے سمجھاتے ہوئے کہا
نکاح کون سا نکاح میں ایک انسان سے نکاح کرنے جا رہا تھا اگر مجھے ذرا بھی اندازہ ہوتا کہ پر یام کوئی پری ہے تو میں کبھی ہم واپس نہ آتا
میں یہاں ایک پل نہیں روکنا چاہتا ہوں مجھے یہاں سے واپس جانا ہے سکندر ان سب کو دیکھتے ہوئے باہر کی طرف جانے لگا
نہیں سکندر تم اسے واپس نہیں جا سکتے تم نے ہماری بچی سے وعدہ کیا ہے اگر تم نے وعدہ خلافی کی تو وہ اپنی زندگی گوا دے گی ۔

Mirh@_Ch
 

بے وقوف میں نے بد دعا دی تھی دعا نہیں مہر پیچھے سے بتانا نہ بھولی

سکندر سامنے بیٹھے ہیں سب لوگوں کو گھورے جا رہا تھا جبکہ پریام مسکرا رہی تھی
اسے حیرت کا اصل جھٹکا تب لگا جب ایک سفید دوپٹہ ہوا میں اڑتا پریام کے سر پر پیار کا
نکاح کی کارروائی شروع کی جائے بزرگ کی آواز کمرے میں گونجی
ایک منٹ یہ سب کچھ کیا ہے یہ دوپٹہ اپنے آپ کیسے آیا اور یہاں پر کچھ دیر پہلے جو لڑکیاں کھڑی تھی وہ کہاں غائب ہو گئیں یہاں پر کیا ہو رہا ہے یہ سب کچھ کیسے پہلے یہاں پر محل نہیں تھا پھر اچانک یہ محل کہاں سے آیا باہر جو بچی پھولوں سے کھیل رہی تھی وہ کہاں چلی گئی
پہلے میرے سارے سوالوں کے جواب دیں پھر نکاح کی کارروائی شروع ہوگی یہ سب کچھ کیا ہے مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا سکندر نے کھڑے ہوتے ہوئے پریشانی سے پوچھا

Mirh@_Ch
 

مجھے تو لگتا ہے وہی لفٹ پر میں تجھ پر فدا ہو گیا تھا منال نے تصویر دیکھتے ہوئے کہا ۔
ہاں تو فدا تو ہونا ہی تھا اب میں ہوں ہی ۔
بندریہ ۔اس سے پہلے کہ مہر بولتی منال بولی
اپنی شکل دیکھی ہے تو نے چوہیا جیسی مجھے بنرریہ کہتی ہے اپنی خوبصورت شکل کا مذاق اڑاتے دیکھ کر مہرغصے سے بولی اور کھینچ کر کشن اٹھا کر اس کے سر پر دے مارا ۔جبکہ خود کو چوییا کہلانے پر منال نے بھی اس سے خوب بدلہ لیا
اللہ کرے میرے لئے ایک بیوٹیفل کا رشتہ آیا ہے جو ساتھ میں بیوٹیفل تھا اس کے لیے تیرا رشتہ آئے اور تیرے ابّا ماں تجھ سے پوچھے بغیر رشتہ پکا کر دیں پھر دیکھ میں تیری شادی پہ کیسے بنگڑے ڈال ڈال کے ناچتی ہوں
مہرنے ایک بار پھر سے کشن مارتے ہوئے بددعا دی
ہاں یار وہ بھی کافی ہینڈسم ہے آمین ثم آمین اس کی بد دعا پر آمین کہتے باہر کی طرف دوڑ لگائی

Mirh@_Ch
 

اچانک خوف سے اس کا پورا بدن کپکپانے لگتا لیکن اسے کس چیز کا ڈر تھا یہ وہ خود بھی نہیں جانتا تھا اسیہ اور راحیل صاحب بہت پریشان تھے
عابد تو کسی پیر سے اس کے لئے تعویذ بھی لے آیا تھا جسے پہننے سے شہریار نے انکار کر دیا اور بہت منانے کے باوجود بھی شہریار نہ مانا ۔

یار یہ تو وہی لڑکا ہے نہ جو لیفٹ میں ہم سے ملا تھا منال نے فوٹو دیکھتے ہوئے پوچھا
ہاں وہی ہے گنگوتیلی مجھے لگا تھا کوئی شہزادہ آئے گا میری زندگی میں یاراب تو میں نے بابا کے سامنے بھی ہاں کر دی وہ بھی بنا تصویر دیکھے اب جمعہ کو نکاح ہے انکار بھی نہیں کر سکتی
ہائے کہاں پھوٹی میری قسمت ایک بار گنگوتیلی کو دیکھ تو لیتی پھر ہاں کرتی ۔
اے ساری زندگی میرا مذاق اڑائے گا کہ میں نے اسے بیوٹیفل کہا تھا ہینڈسم نہیں ۔مہر اپنا سر پیٹتے ہوئے بولی

Mirh@_Ch
 

دیکھیں میں سکندر کو بھی اپنے ساتھ لے آئی پریار نے مسکراتے ہوئے تعارف کروایا
آپ سے مل کر خوشی ہوئی بزرگ انسان بنا مسکرائے سنجیدہ انداز میں بولے
اور پیچھے کی طرف اشارہ کیا جہاں سے وہ اندر داخل ہوئے تھے اور ان کے اشارے کے ساتھ ہی کچھ لڑکیاں چہرے پر جعلی سے نقاب کئے داخل ہوئیں
یہ منظر اتنا خوبصورت تھا کہ سکندر خوفزدہ ہو گیا اس کا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا لیکن کیوں یہ سب کچھ تو اتنا خوبصورت تھا پھر کیوں اسے ڈر لگ رہا تھا کیوں سے یہ سب کچھ عجیب لگ رہا تھا

ان دو دنوں سے شہریار بہت بےچین رہا وہ ایک سیکنڈ کو بھی وہ سو نہ سکا
یہاں تک کہ بے چینی اور نیند پوری نہ ہونے کی وجہ سے اسے تیز بخار نے گھیر لیا زیان ہر وقت اس کے ساتھ رہتا تھا لیکن اس کے باوجود بھی وہ ان آوازوں سے اپنا پیچھا نہیں چھوڑا پا رہا تھا ۔