#عشق
#قسط_11
(
❤
شہریار سو رہا تھا
جب اسے اپنے آس پاس کوئی محسوس ہوا ۔۔ کسی احساس کے تحت اس کی آنکھ کھل گئی اس نے اپنے کمرے کے چاروں اور دیکھا لیکن کوئی نہ تھا آج پھر اسے وہی خوف محسوس ہوا جو پاکستان آنے پر پہلی رات ہوا تھا جب کسی نے اس پر حملہ کیا تھا اور سینے کے بیچوں بیچ کسی کے ہاتھ کا نشان تھا
کمرے میں کسی کو بھی نہ دے کر وہ کسی کو محسوس کر رہا تھا وہ جانتا تھا کہ اس کمرے میں ضرور کوئی ہے اور وہ اس کا وہم نہیں ہے
وہ آہستہ سے اپنے بیڈ سے اٹھا اور لائٹ آن کی ۔
کون ہو تم ۔۔۔۔؟
دیکھو میں جانتا ہوں یہاں کوئی تو ہے ۔۔۔۔۔
میں جانتا ہوں تو مجھے ڈرانا چاہتے ہو ۔۔۔
اس سے آزادی تو دے سکتا تھا
اسی لیے کسی کی بھی بات نہ مانتے ہوئے جیسے ہی اسے ہوش آیا اس نے پاکستان واپس آیا اور پاکستان سے سیدھا اس کا ارادہ واپس اسی علاقے میں جانے کا تھا جہاں اس کی پریاں رہتی تھیں
❤
اب تم اپنا وعدے سے پھر نہیں سکتے بابا نے اس کا وعدہ یاد دلایا اس نے وعدہ کیا تھا کہ اگر اس کی شادی مہر سے کروا دی گئی تو وہ اس بارے میں ان سے کچھ نہیں پوچھے گا وہ اسے نہیں پوچھے گا کہ وہ اسے اتنی جلدی واپس کیوں بھیجنا چاہتے ہیں
❤
اسے ہوش آیا تو اس کا پہلا ارادہ ہی واپس اس علاقے میں جانے کا تھا
لیکن بابا جان اسے واپس جانے کی اجازت نہیں دے رہے تھے وہ یہی چاہتے تھے کہ وہ سب کچھ بھلا کر ایک نئی زندگی کی شروعات کریں
لیکن سکندر تو ایک نئی زندگی کی شروعات نہیں کر سکتا جب تک کہ اپنی غلطی کو سدھارنا لے
اسے پریام کے پاس واپس جانا تھا اسے ایک نئی زندگی دینی تھی چاہے وہ اسے اپنا نہ سکتا ہے وہ اس کے ساتھ زندگی نہیں گزار سکتا لیکن اسے اپنا نام تو دے سکتا تھا
آخر انہوں نے اپنے بیٹے کی یہ خواہش بھی پوری کر دی تھی
کل رخصتی ہے اور پرسوں تمہاری اور مہر کی کینیڈا کی فلائٹ ولیمہ کے فورا بعد تم کینیڈا کے لیے نکل جاؤ گے
بابا نے اسے اپنے سامنے بٹھاتے ہوئے بتایا
کیا مطلب ہم واپس کراچی نہیں جائیں گے اور آپ نے ولیمے کا انتظام یہاں کیوں کر آیا ہے یہاں ہمہیں لوگ جانتے ہی کتنے ہیں ہم اپنی حویلی میں کروائیں گے کوئی بڑی محفل
شہریار کو یہ سب کچھ عجیب لگ رہا تھا آخر اس کے ماں باپ اسے یہاں سے بھگانا کیوں چاہتے تھے
دیکھو شہری تم نے جو کہا ہم نے وہ کر دیا تم مہر شادی کرنا چاہتے تھے اور اب ہم نے تمہاری یہ خواہش پوری کر دی ہے اب تم مہر کو ہمیشہ کے لئے یہاں سے لے جاؤ میں اور تمہاری ماما جلد ہی تم سے ملنے آئیں گے اور تم نے وعدہ کیا تھا کہ اگر تمہاری شادی مہر سے ہوگئی تو مجھ سے کوئی سوال نہیں پوچھو گے
جب کہ وہ معصوم لڑکی ہر ممکن طریقے سے اپنے شوہر کا خیال رکھنے کی کوشش کرتی اس کی ساری ذمہ داری اس نے اپنے سر اٹھا لی تھی
کومہ کے تین ماہ کے دوران سکندر کو دوبار ہوش آیا اور اس نے ہر بارپریام کا نام لیا پریام کون ہے کہاں ہے کیسی ہے کوئی نہیں جانتا تھا ان سب کے لیے تو یہ نام بھی نیا تھا جس سے وہ واقفیت ہی نہیں رکھتے تھے
تین مہینے گزر جانے کے بعد بھی جب سکندر کو ہوش نہیں آیا تو بابا نے اسے امریکا بھیج کر اس کا علاج کروانا چاھا جس سے علاج سے انہیں کافی فائدہ ہوا تھا
ڈاکٹر نے انہیں اچھی امی دلوائی تھی
❤
نکاح کے بعد وہ بہت پر سکون تھا شام ہوتے ہی وہ گھر واپس آ گئے اس کی خوشی کا اندازہ لگانا اس کے چہرے سے ہی بہت آسان لگ رہا تھا
ماما تو بار بار اس کی بلائیں لیتی
جبکہ بابا بھی اسے دیکھ کر خوش تھے
خدا سے مانگا تھا شہزادہ مل گیا گنگوتیلی چلیں کوئی بات نہیں زندگی گزارنی ہے نا قبول ہے مہر ٹھیڑے میڑے منہ بناتی ہوئی بولی جہاں شہریار اس کا بے باک انداز دیکھ کر اسے گھورنے لگا تھا وہی زیان کا قہقہ ہے ساختہ تھا
رخصتی کی رسم کل ادا ہونی تھی ورنہ وہ آج ہی خود کو گنگوتیلی کہنے کا حساب ضرور بےباک کرتا
❤
دن گزرتے جا رہے تھے اسے کوما میں گئے تین مہینے گزر چکے تھے کومہ کے دوران بھی اسے صرف اور صرف پریام کا خیال آرہا تھا اس کی وجہ سے پریاں کی زندگی چھین سکتی تھی وہ ہر ممکن طریقے سے واپس دنیا میں لوٹنے کی کوشش کر رہا تھا ڈاکٹر اس کی کنڈیشن پر پُرامید تھے
ڈاکٹر کا کہنا تھا کہ وہ جینا چاہتا ہے اس کے اندر جینے کی خواہشیں ابھی زندہ ہے اس کے بابا اور ماما ٹوٹ کر رہ گئے اپنے جوان بیٹے کی یہ حالت دیکھ کر
اور پھر مولوی صاحب نے نکاح کی رسم شروع کی
پہلے انہوں نے شہریار سے نکاح کی رضامندی جانی چاہیے وہ تو دل و جان سے نکاح کے لئے راضی تھا لیکن ناجانے کیوں نکاح نامہ سائن کرتے ہوئے اس کے ہاتھ کانپنے لگے دل ایک بار پھر سے زور زور سے دھڑکنے لگا عجیب سا خوف اس کے چاروں طرف سے جا چکا تھا
اسے ایسا لگ رہا تھا کہ وہ ویرانے میں بالکل اکیلا بیٹھا ہے اور کوئی بہت بڑا گناہ کرنے جا رہا ہے لیکن شاید محبت کی طاقت اس خوف پرحاوی ہو گئی اور شہریار نے نکاح نامے پر سائن کر دیے
مہر خان آفریدی ولد رحمان خان آفریدی آپ کا نکاح شہریار شاہ ولد راحیل شاہ کے ساتھ پچاس لاکھ سکہ رائج الوقت قرار پایا ہے کیا آپ کو یہ نکاح قبول ہے
مولوی صاحب کی آواز کمرے میں گونجی رہی تھی
شہریار کا سارا دھیان سرخ دوپٹے میں بیٹھی اپنی دلہن پر تھا
خدا سے مانگا تھا شہزادہ مل گیا
وہ شہریار کے سامنے جوس کا گلاس رکھتے ہوئے مسکرا کر جتلانے والے انداز میں بولی
جبکہ شہریار اس کے بات پر مسکرا دیا تھا وہ تو صرف مہر کو اپنی نگاہوں کے سامنے دیکھنا چاہتا تھا اس وقت سے سوائے مہر کے دیدار کے اور کچھ بھی نہیں چاہیے تھا
اور یہاں پے یہ ظالم سماج جو صاف الفاظ میں کہہ چکے تھے کہ جب تک نکاح نہیں ہو جاتا تب تک مہر باہر نہیں آئے گی
اسی لئے اب وہ بیچینی سے نکاح کا انتظار کر رہا تھا
اور پھر تھوڑی دیر بعد اس کی یہ خواہش بھی پوری ہوگی
جب سامنے والے کمرے سے آہستہ آہستہ قدم اٹھاتی مہر سرخ دوپٹے میں باہر آئی دلہن کے حسین جوڑے میں وہ کسی اپسرا سے کم نہیں لگ رہی تھی
یہ وہ واحد لڑکی تھی جس نے پہلی ہی ملاقات میں شہریار کے دل کے تار چھیڑ دیے تھے
اسے شہریار کے سامنے بٹھایا گیا اور بیچ میں ایک جالی کا کپڑا لگایا گیا
کچھ ہی دیر میں نکاح ہونے والا تھا شہریار نے جو یہاں آکر سب سے زیادہ نوٹ کیا تھا وہ تھا زیان جو اس کے ساتھ نہیں بلکہ منال کی مدد کرنے کے چکر میں لگا تھا
زیان صاحب اگر آپ کو لگتا ہے کہ آپ میری مدد کریں گے تو میں اپنا نیگ نہیں لوں گی تو یہ آپ کی غلط فہمی ہے منال نے اسے دیکھتے ہوئے کہا
ارے منال میڈم آپ کو ایسا کیوں لگتا ہے کہ میں آپ کے نیگ مطلب کہ آپ کے حق پر کچھ گڑبڑ کرنے کی کوشش کروں گا ارے میں تو خود لڑوں گا آپ کے لیے آپ کو جینا نیگ چاہے بس منہ سے آواز نکالیں ان شاء اللہ آپ کو ضرور ملے گا
زیان نے سے پچکارتے کراتے ہوئے کہا
بہت شکریہ لیکن مجھے نہیں لگتا کہ مجھے یہاں جنگ لڑنے کی ضرورت پڑے گی
کیونکہ شہریار بھائی ماشاءاللہ سے اتنے بڑے بزنس مین ہیں اب نیگ دینے میں تو کچھ گڑبڑ کر بھی نہیں سکتے آخر ان کی عزت کا سوال ہے
کیسے وہ اس کی ایک پکار پر دوڑتی چلی آتی ہے ۔
وہ پہار سے اتر کر سڑک پر پہنچ چکا تھا
نہیں پریام کو خود سے محبت کرنے کی سزا نہیں دے سکتا مجھے اس سے جینے کا حق چھینے کا کوئی حق نہیں ہے وہ کون سا مجھ سے کوئی حق مانگ رہی ہے صرف نکاح کے لئے ہی تو کہہ رہی ہے اس نکاح سے جینے کا حق ملے گا
مجھے پریام سے نکاح کر لینا چاہئے وہ مجھ سے کچھ نہیں مانگ رہی سوائے نکاح کے ہاں مجھے اس سے نکاح کر لینا چاہیے سکندر نے سوچتے ہوئے اپنے قدموں ہی روک لیے
اور تیزی سے سڑک پار کرتے واپس پہاڑی کی طرف جانا چاہا لیکن شاید قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا اس سے پہلے کہ وہ سرحد پار کرتا ایک تیز رفتار گاڑی اس سے آکر ٹکرائی اور کے چند ہی منٹ میں وہ اپنے ہوش و حواس سے بیگانہ ہو چکا تھا
❤
شہریار اور اس کی فیملی نکاح کے لیے رحمان صاحب کے گھر آ چکے تھے ۔
#عشق
#قسط_10
(
❤
سکندر کے ڈر مارے وہاں سے نکل تو آیا لیکن جیسے جیسے وہ پہاڑی اتر رہا تھا ویسے ویسے ہی اس کا دھیان ان بزرگ کی باتوں پر گیا جو کہہ رہے تھے کہ اگر اس نے نکاح نہ کیا تو وہ ہمیشہ کے لئے پریام کو قید کر دیں گے
اس سے جینے کا حق ہی لے لیا جائے گا اسے انسان سے عشق کرنے کی سزا دی جائے گی
سکندر بھی تو محبت کرتا تھا وہ اسے عام انسان سمجھتا تھا لیکن پھر بھی پریام نے تو اسے کبھی نہیں کہا تھا کہ وہ ایک عام انسان ہے
اگر پریام نے اس سے اس بارے میں کچھ نہیں بتایا تھا تو سکندر نے بھی تو کبھی اس سے اس بارے میں کچھ نہیں پوچھا تھا کہ وہ اس ویران پہاڑی پر اکیلی کیا کر رہی ہے ۔
سکندر میں نے تم سے سچا عشق کیا ہے خدا کے لئے واپس آ جاؤ ورنہ پچھتاؤ گے
ہایم پریام کو تابوت میں بند کر دیا جائے ایک انسان سے عشق کرنے کی سزا اسے ضرور ملے گی ۔
بزرگ نے ایک نظر اپنی روتی بیٹی کو دیکھا اور پھر بنا اس کی طرف دیکھے چلے گئے
تم نے میرے ساتھ اچھا نہیں کیا سکندر تمہیں اس کی سزا ضرور ملے گی ۔تم نے مجھ سے میری زندگی چھین لی ہے میں تمہاری نسلیں برباد کر دوں گی
جینے کی اجازت تو ملے اگر تم نے اس سے نکاح سے انکار کر دیا تو سزا کے طور پر اسے ایک تابوت میں بند کر دیا جائے گا
جس سے وہ ساری زندگی کبھی آزاد نہیں ہو پائے گی وہ تمہیں اپنا محرم مانتی ہے تمہارے علاوہ وہ کسی کے خوابوں میں بھی نہیں آ سکتی ۔
یا تو تم اسے اپنا لو ۔نہیں تو بس اس سے نکاح کر لو تاکہ وہ ساری زندگی قید خانے میں تو نہ رہے
بزرگ نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا
نہیں میں کچھ نہیں کر سکتا آپ مجھے معاف کر دیجیے مجھے نہیں رہنا یہاں پر سکندر نے ایک نظر اس محل کی طرف دیکھا اور پھر باہر کی طرف چلا گیا
نہیں سکندر تم مجھے چھوڑ کر نہیں جا سکتے تم مجھ سے محبت کرتے ہو تو میرے ساتھ ایسا کیسے کر سکتے ہو کیوں مجھے پل پل کی موت دے رہے ہو
پریام بھی اسی کے سامنے اسی کے انداز میں ہاتھ باندھ کر کھڑی ہو چکی تھی
مجھے معاف کردو پریام مجھے لگا تم ایک عام انسان ہو اگر مجھے پتا ہوتا کہ تم ایک پریزاد ہو تو میں اپنے قدم روک لیتا ۔
میں یہ نکاح نہیں کر سکتا مجھے یہاں سے واپس جانا ہے خدا کے لئے مجھے جانے دیں یہاں سے
سکندر تمہارے یہاں سے چلے جانے سے پریام کو اپنی زندگی ختم کرنی پڑے گی تم کیوں نہیں سمجھ رہے ہو اسے ساری زندگی ایک تابوت میں گزارنی پڑے گی ۔
یہ اصول ہے ایک پریزافاگر ایک انسان کے عشق میں مبتلا ہو جائے اور وہ انسان اسے اپنانے سے انکار کرکے تو اسے ساری زندگی قیدخانے میں گزارنی پڑتی ہے جہاں سے نہ تو وہ کبھی نہیں نکل سکتی ہے ۔اور نہ ہی جی سکتی ہے
ٹھیک ہے اگر تم اس کے ساتھ نہیں رہنا چاہتے تو بھی کوئی بات نہیں لیکن اس سے نکاح کر لو تاکہ اسے آزادی تو ملے
اس سے اس کی آزادی چھین لی جائے گی اس سے اس کے جینے کےحق چھین لے جائیں گے ۔
سمجھنے کی کوشش کر سکندر تم اس طرح اسے واپس نہیں جا سکتے یہ سچ ہے کہ ہم تمہارے ساتھ زبردستی نہیں کر سکتے اس نے کہا کے لئے لیکن ہم اپنی بچی کوکھو بھی نہیں کر سکتے ۔
میں کچھ نہیں جانتا میں نہیں کرنا چاہتا نکاح میں نے پرمام سے محبت اسے انسان جان کر کی تھی یہاں جو کچھ میں دیکھ چکا ہوں اس کے بعد پریام کو ایک پری کے طور پر قبول کرنا میرے بس سے باہر ہے مجھے معاف کیجئے میں یہاں شادی نہیں کرنا چاہتا ۔
مجھے جانے دیں یہاں سے سکندر ان کے سامنے ہاتھ جوڑے
بولا
میں تمہارے ساتھ ساری زندگی انسان کی طرح رہوں گی تم سے کبھی کچھ نہیں مانگوں گی سکندر مجھے چھوڑ کے مت جاؤ میں تم سے بے تحاشا محبت کرتی ہو مجھ جیساعشق کوئی نہیں کر سکتا
یہ پہاڑی ایک پریوں کا قیلہ ہے جس کے ساتھ تمہارا نکاح ہو رہا ہے وہ ایک پری ذاد ہے اس قیلہ کی اصل مالکن تم سے محبت کرتی ہے اسی لئے ہم تمہارا نکاح اس کے ساتھ کر رہے ہیں ورنہ ایک انسان کے ساتھ ایک پریزاد کا نکاح ہماری اور تمہاری نسلیں برباد کر سکتا ہے
لیکن ہم پھر بھی اپنی بیٹی کی خواہش کے سامنے بے بس ہیں اب خاموشی سے بیٹھ جاؤ تاکہ نکاح کی کاروائی شروع ہو بزرگ نے سمجھاتے ہوئے کہا
نکاح کون سا نکاح میں ایک انسان سے نکاح کرنے جا رہا تھا اگر مجھے ذرا بھی اندازہ ہوتا کہ پر یام کوئی پری ہے تو میں کبھی ہم واپس نہ آتا
میں یہاں ایک پل نہیں روکنا چاہتا ہوں مجھے یہاں سے واپس جانا ہے سکندر ان سب کو دیکھتے ہوئے باہر کی طرف جانے لگا
نہیں سکندر تم اسے واپس نہیں جا سکتے تم نے ہماری بچی سے وعدہ کیا ہے اگر تم نے وعدہ خلافی کی تو وہ اپنی زندگی گوا دے گی ۔
بے وقوف میں نے بد دعا دی تھی دعا نہیں مہر پیچھے سے بتانا نہ بھولی
❤
سکندر سامنے بیٹھے ہیں سب لوگوں کو گھورے جا رہا تھا جبکہ پریام مسکرا رہی تھی
اسے حیرت کا اصل جھٹکا تب لگا جب ایک سفید دوپٹہ ہوا میں اڑتا پریام کے سر پر پیار کا
نکاح کی کارروائی شروع کی جائے بزرگ کی آواز کمرے میں گونجی
ایک منٹ یہ سب کچھ کیا ہے یہ دوپٹہ اپنے آپ کیسے آیا اور یہاں پر کچھ دیر پہلے جو لڑکیاں کھڑی تھی وہ کہاں غائب ہو گئیں یہاں پر کیا ہو رہا ہے یہ سب کچھ کیسے پہلے یہاں پر محل نہیں تھا پھر اچانک یہ محل کہاں سے آیا باہر جو بچی پھولوں سے کھیل رہی تھی وہ کہاں چلی گئی
پہلے میرے سارے سوالوں کے جواب دیں پھر نکاح کی کارروائی شروع ہوگی یہ سب کچھ کیا ہے مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا سکندر نے کھڑے ہوتے ہوئے پریشانی سے پوچھا
مجھے تو لگتا ہے وہی لفٹ پر میں تجھ پر فدا ہو گیا تھا منال نے تصویر دیکھتے ہوئے کہا ۔
ہاں تو فدا تو ہونا ہی تھا اب میں ہوں ہی ۔
بندریہ ۔اس سے پہلے کہ مہر بولتی منال بولی
اپنی شکل دیکھی ہے تو نے چوہیا جیسی مجھے بنرریہ کہتی ہے اپنی خوبصورت شکل کا مذاق اڑاتے دیکھ کر مہرغصے سے بولی اور کھینچ کر کشن اٹھا کر اس کے سر پر دے مارا ۔جبکہ خود کو چوییا کہلانے پر منال نے بھی اس سے خوب بدلہ لیا
اللہ کرے میرے لئے ایک بیوٹیفل کا رشتہ آیا ہے جو ساتھ میں بیوٹیفل تھا اس کے لیے تیرا رشتہ آئے اور تیرے ابّا ماں تجھ سے پوچھے بغیر رشتہ پکا کر دیں پھر دیکھ میں تیری شادی پہ کیسے بنگڑے ڈال ڈال کے ناچتی ہوں
مہرنے ایک بار پھر سے کشن مارتے ہوئے بددعا دی
ہاں یار وہ بھی کافی ہینڈسم ہے آمین ثم آمین اس کی بد دعا پر آمین کہتے باہر کی طرف دوڑ لگائی
اچانک خوف سے اس کا پورا بدن کپکپانے لگتا لیکن اسے کس چیز کا ڈر تھا یہ وہ خود بھی نہیں جانتا تھا اسیہ اور راحیل صاحب بہت پریشان تھے
عابد تو کسی پیر سے اس کے لئے تعویذ بھی لے آیا تھا جسے پہننے سے شہریار نے انکار کر دیا اور بہت منانے کے باوجود بھی شہریار نہ مانا ۔
❤
یار یہ تو وہی لڑکا ہے نہ جو لیفٹ میں ہم سے ملا تھا منال نے فوٹو دیکھتے ہوئے پوچھا
ہاں وہی ہے گنگوتیلی مجھے لگا تھا کوئی شہزادہ آئے گا میری زندگی میں یاراب تو میں نے بابا کے سامنے بھی ہاں کر دی وہ بھی بنا تصویر دیکھے اب جمعہ کو نکاح ہے انکار بھی نہیں کر سکتی
ہائے کہاں پھوٹی میری قسمت ایک بار گنگوتیلی کو دیکھ تو لیتی پھر ہاں کرتی ۔
اے ساری زندگی میرا مذاق اڑائے گا کہ میں نے اسے بیوٹیفل کہا تھا ہینڈسم نہیں ۔مہر اپنا سر پیٹتے ہوئے بولی
دیکھیں میں سکندر کو بھی اپنے ساتھ لے آئی پریار نے مسکراتے ہوئے تعارف کروایا
آپ سے مل کر خوشی ہوئی بزرگ انسان بنا مسکرائے سنجیدہ انداز میں بولے
اور پیچھے کی طرف اشارہ کیا جہاں سے وہ اندر داخل ہوئے تھے اور ان کے اشارے کے ساتھ ہی کچھ لڑکیاں چہرے پر جعلی سے نقاب کئے داخل ہوئیں
یہ منظر اتنا خوبصورت تھا کہ سکندر خوفزدہ ہو گیا اس کا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا لیکن کیوں یہ سب کچھ تو اتنا خوبصورت تھا پھر کیوں اسے ڈر لگ رہا تھا کیوں سے یہ سب کچھ عجیب لگ رہا تھا
❤
ان دو دنوں سے شہریار بہت بےچین رہا وہ ایک سیکنڈ کو بھی وہ سو نہ سکا
یہاں تک کہ بے چینی اور نیند پوری نہ ہونے کی وجہ سے اسے تیز بخار نے گھیر لیا زیان ہر وقت اس کے ساتھ رہتا تھا لیکن اس کے باوجود بھی وہ ان آوازوں سے اپنا پیچھا نہیں چھوڑا پا رہا تھا ۔
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain