نہ ہی جنید کی شکل دیکھنے کا اوپر سے جس حالت میں وہ جنید کے سامنے تھی وہ بھی اسے اچھا خاصہ شرمندہ کر چکی تھی جنید کے کپڑوں میں شاید وہ اندر ایک گھر بنا کر اس میں رہ بھی سکتی تھی ۔
دیکھو تائشہ تمہاری ناراضگی مجھ سے ہے کھانے سے نہیں وہ جانتا تھا کہ وہ اس کے نرم انداز سے کبھی بھی کھانے کے لئے تیار نہ ہو گی اسی لیے تھوڑا سختی کرتے ہوئے وہ اس کا چہرہ اپنی طرف موڑ کر اسے زبردستی کھانا کھانے لگا ۔
کیونکہ جو بھی تھا جنید نے غلطی کی تھی لیکن وہ اسے بھوکا نہیں رکھ سکتا تھا
💓
آج اس نے سب گاؤں والوں کے ساتھ مل کر کھانا کھایا تھا گاؤں کے ہر گھر سے اس کے لیے کھانا بنا کر بھیجا گیا تھا کر دم پہلے انکار کردینا چاہتا تھا لیکن جس محبت سے وہ سب کچھ اس کے لیے بنا کر لائے تھے وہ چاہ کر بھی انکار نہ کر سکا ۔
اور پھر وہ وقت آگیا جنید تیزی سے گھر میں داخل ہوا وہ جانتی تھی کہ اس کے علاوہ کوئی نہیں ہوگا اس نے آنکھیں کھولنے کی کوشش کی مگر کھول نہیں پائی اسے اس کے پیروں سے ایک زور دار ٹوکر لگی تھی ۔
لیکن اس نے اف تک نہ کی ۔ چلاچلا کر وہ اسے اپنا یقین تو پہلے بھی نہ دلا پائی تھی۔ جب وہ اسے جانوروں کی طرح مار رہا تھا خیر اب تو ذرا سی ٹھوکر ہی لگء تھی۔ اگر اتنی مار کھانے کے بعد وہ نہیں مری تھی تو اس سے کیا فرق پڑ جانا تھا ۔
اور پھر جنید اسے اٹھا کر بیڈ روم میں لایا شاید اس کی حالت دیکھ کر اسے اس پر رحم آگیا اس نے اس کے زخموں پر مرہم لگایا اور وہ بس آنکھیں کھولے اسے دیکھتے رہی ۔
پھر وہ کہیں چلا گیا پھر کھانے کا ٹرے لے کر اس کے سامنے بیٹھا تھا ۔
اس وقت نہ تو تائشہ کا کچھ کھانے کا دل کر رہا تھا
وہ مسلسل اٹھنے کی کوشش کرتی رہی اور اپنی کوشش میں ناکام ہوتی درد سے بے حال وہ پھر سے بے ہوش ہو گئی
اور پھر سورج ڈوب گیا ۔لیکن وہ فرش اب بھی آگ برسا رہا تھا ۔۔ آہستہ آہستہ شام بھی چلی گئی اور اندھیرا شروع ہوا ۔
وہ ہر تھوڑی دیر کے بعد آنکھیں کھول کے دیکھتی کہ شاید اس انسان کو اس پر رحم آ جائے وہ ایک بار ہی سے دیکھنے واپس آجائے ایک بار ہی پلٹ کر دیکھ لے کہ وہ زندہ ہے یا مر چکی ہے ۔لیکن شاید موت بھی اسے اتنی آسانی سے نہیں آنی تھی
سارا دن لیٹے ہوئے اسے بس ایک بات سوچی تھی کہ اس دنیا میں کوئی نہیں ہے جو اس سے محبت کرتا ہو۔کیا وہ محبتوں کے لائق نہیں ہے کیا وہ محبتوں کے لیے بنائی نہیں گئی ۔اس کی زندگی میں صرف ان محبتوں کا غم نہ تھا اپنوں کی بے رخی ماں کی بیگانگی ۔ ایک انچاہے شوہر کے ہاتھوں ذلت بھی تھی
اس غلطی کے بعد پھر میں ساری زندگی تمہاری غلامی کروں تو وہ بھی کم۔ ہوگا ۔
کھاناگرم کر کے کمرے میں آیا ۔
جہاں تائشہ بیڈ پر پڑی چھت کو گھور رہی تھی ۔
اس نے کھانا بیڈ پر رکھااور اسے اٹھانا چاہا ۔
لیکن اسے اپنے قریب محسوس کرتے ہی وہ اپنا چہرہ پھیر گئی شاید ناراضگی کا اظہار کر رہی تھی ۔
سارا دن وہ ایسے ہی پڑی رہی صبح وہ درد برداشت کرتے کرتے اس کے آنکھیں بند ہوگئی اسے لگاجیسے زندگی نے اس پر رحم کر دیا ہے ۔
لیکن ایسا نہ ہوا کڑکتی دھوپ میں نہ جانے کتنی دیر وہ بے ہوش پڑی رہیں ۔اور پھر جب اسے ہوش آیا اس نے اٹھنے کی کوشش کی لیکن اس کے جسم میں اتنی جان ہی نہ تھی ۔
جون کے اس مہینے نے اس تپتے فرش نے اس کی پیٹ کو جھلسا ڈالا اسے لگا شاید وہ جہنم میں ہے ۔اور آگ اسے ہر طرف سے جلا رہی ہے ۔
اور پھر دبی دبی سسکیاں ۔معافی نہیں مانگ سکتا تھا کیونکہ معافی کے لائق ہی نہیں تھا اس نے اس لڑکی کی زندگی کتنی تنگ کردی تھی وہ سانس لیتے ہوئے بھی تکلیف محسوس کر رہی تھی
یقینا صبح سے اس نے پانی تک نہ پیا تھا ۔گھر کی لائٹ آن کرتا وہ کچن کی طرف آیا جہاں خوشبو دار کھانوں کی مہک اس کی نتھوں سے ٹکرائی ۔
اس کے گھر کا کچن شیشے کی طرح چمک رہا تھا ۔
جس طرح سے جنید نے کہا محبت سے اسے اپنی زندگی میں شامل کیا تھا اسی طرح سے تائشہ نے اس کے گھر کو شاید اپنا گھر مان لیا تھا ۔
پانی کا گلاس بھر کر اس نے کھانا گرم کیا ۔
اپنے اس گناہ کا ازالہ میں تم سے معافی مانگ کر نہیں بلکہ تمہارا خیال رکھتے کروں گا ۔میں معافی کے قابل نہیں ہوں لیکن تم مجھے سزا دینے کی حقدار ہو ۔اور تم جیسے ہی ٹھیک ہو جاؤ گی تم میرے ساتھ کیسا بھی رویہ اختیار کرنے کی حقدارہو ۔
۔
جنید کو یاد نہیں تھا کہ اس پائپ کے ساتھ لگا موٹر کا لوہے کا چھوٹا سا حصہ بھی تھا جس سے یقینا یہ سارے زخم آئے تھے
کیسا حیو ان بن گیا تھا وہ اسے خود سے نفرت محسوس ہونے لگی ۔کیا وہ مرد تھا کیا ایسا ہوتا ہے ایک مرد وہ اسے عزت دینا چاہتا تھا اور اسے اسی کی نظروں میں گرا کر رکھ دیا
جنید الماری کی طرف آتے ہوئے اپنا سوٹ نکال کر واپس بیڈ پر آیا ۔
اور بنا ہچکچائے اس کے زخموں پر مرہم لگاتا اس کے کپڑے بدلنے لگا ۔
تائشہ کے جسم پر کہیں پرانے نشان تھے اس کا جسم زخموں سے بھرا ہوا تھا وہ سمجھ نہیں پا رہا تھا اس کے جسم پر نئے زخم زیادہ ہے یا پرا نے ۔
جیسے جیسے اس کے زخموں پر مرہم لگایا ویسے ویسے ہی اسے اپنے بالکل قریب سے تائشہ کی سانسوں کی آواز محسوس ہونے لگی ۔
بھیگی_پلکوں_پر_نام_تمہارا_ہے
#قسط_67
😊
جنید گھر واپس آیا تو رات کا اندھیرا پوری طرح سے پھیل چکا تھا
گھر میں بھی بالکل اندھیرا تھا کوئی لائٹ نہیں جل رہی تھی ۔
وہ تیزی سے کمرے کی طرف بڑھ رہا تھا جب کوئی نازک وجود اس کے پیروں سے ٹکرایا یہ وہی جگہ تھی جہاں وہ تائشہ کو پھینک کر گیا تھا ۔
یقینا یہ وجود اسی کا تھا اور وہ صبح سے یہی پڑی تھی ۔
جنید نے فورا جھک کا اسے یہی اندھیرے سے اٹھایا اور اپنے کمرے میں لے آیا ۔
اس نے تائشہ کو بیڈ پر لٹایا اور کمرے کی لائٹ آن کرتے ہوئے اپنے ہاتھوں کو دیکھا ۔
جو خون سے سرخ ہو چکے تھے ۔اس نے فورا پلٹ کر دیکھا تائشہ اس وقت اسی لباس میں تھی جو وہ کل رات گھر سے پہن کر آئی تھی ۔
اس کے سارے کپڑے اس کے جسم کے ساتھ چپکے ہوئے تھے اور اس پر اس کے خون کے دھبے تھے ۔
حوریہ میری بچی یہاں آو اور تم لوگ اسے یہاں سے باہر نکالو شاہ سائیں کے کہنے پر حوریہ اپنے ہاتھ چھڑاتے ہوئے نانا سائیں کی طرف آئی ۔
اور ان کے آدمی ملک کو دھکا مارنے لگے
بند کرو اپنی یہ ڈرامے بازیاں شاہ سائیں میں کہتا ہوں میری بیٹی کو میرے پاس بھیج دو جو تمہارے پوتے نے کیا ہے اس کے بعد تو میں ایک پل کو بھی اپنی بیٹی کو اس گھر میں نہیں رہنے دوں گا میں اپنی بچی کی زندگی برباد نہیں ہونے دوں گا ۔وہ چلاتے ہوئے بولا تھا
ایسا کیا کر دیا ہے میرے پوتے نے جو تم اس طرح سے پاگل ہوئے جا رہے ہو کیا کیا ہے میرے پوتے نے بولو وہ اسی کے انداز میں اونچی آواز میں بولے تھے
ارے نکاح کر لیا ہے اس نے تمہاری پوتی اور احمد شاہ کی بڑی بیٹی سویرہ شاہ کے ساتھ ملک کی آواز حویلی کے درودیوار میں گھونج کررہ گئی ۔
کون ہے یہ پاگل نکالو اسے یہاں سے باہر وہ ملازموں سے سے بولیں جیسے اسے پہچانا ہی نہ ہو لیکن ملک جانتا تھا کہ وہ اسے پہچان چکے ہیں
شاہ سائیں میری بیٹی کہاں ہے میں اسے لینے آیا ہوں اب میں ایک سیکنڈ کے لئے بھی اسے یہاں تمہارے گھر نہیں رہنے دوں گا شورشرابا سنتے ہوئے حوریہ بھی کچن سے باہر آگئی
جبکہ ملک نے فورا ہی اپنی بیٹی کو پہچان لیا تھا
میری بچی چلو یہاں وہ مقدم شاہ تمہارے قابل نہیں ہے اب میں اس کے ساتھ تمہیں ایک سیکنڈ بھی نہیں رہنے دوں گا ۔ملک حوریہ کی طرف بڑھتے ہوئے اس کے ہاتھ تھامیں اسے مقدم کے بارے میں بتانے لگا
جبکہ اس آدمی سے حوریہ کو عجیب سا خوف محسوس ہو رہا تھا جیسے وہ کوئی بہت بری خبر لایا ہو ۔
حوریہ کے کانپتے وجود کو ناناسائیں نے بھی نوٹ کر لیا تھا اسی لیے اسے اپنے پاس بلاتے ہوئے بولے
تب غصے میں اس کے دماغ نے کام نہیں کیا تھا لیکن اب وہ مسلسل یہی سوچ رہا تھا کہ تائشہ کا اس میں کوئی ہاتھ نہیں ہو سکتا ۔نجانے وہ کس حال میں تھی اس وقت ۔۔۔۔۔۔ ؟ وہ سوچتے ہوئے فوراً گھر کی طرف جانے لگا۔ ۔۔
💓
شاہ سائیں میری بیٹی کہاں ہے ملک شاہ سائیں کے آدمیوں کو پیچھے کی طرف دھکیلتا آگے بڑھ رہا تھا جب کہ وہ اسے روکنے کی کوشش کرتے اسے پیچھے کی طرف دھکا دے رہے تھے
شاہ سائیں میری بیٹی کہاں ہے نازیہ اور رضوانہ اپنے کمرےمیں تھیں کردم اور دھڑکن جا چکے تھے اور مقدم بھی اس وقت گھر میں موجود نہ تھا سوائے حوریہ کے اور وہ بھی ان کے لئے کچن میں چائے بنا رہی تھی
اور وہ باہر لڈو رکھیں اس کی چائے کا انتظار کررہے تھے جب ملک کو دیکھتے ہوئے ان کے ماتھے کی رگیں سامنے آنے لگیں
رات کا اندھیرا گہرا ہوچکا تھا پورے گاؤں میں اندھیرے پھیل چکا تھا جنید اس وقت بھی ندی کے کنارے بیٹھا پانی میں پتھر پھینک رہا تھا یہ کیا کر کے آیا تھا وہ وہ تو اپنی بیوی کو زندگی کی ہر خوشی دینا چاہتا تھا اور اسے ہی اتنی بے دردی سے پیٹ آیا
ہاں تو وہ تھی ہی اسی لائق اس کے دماغ نے کہا ۔
لیکن وہ کون تھا اسے سزا والا۔ اس نے کیوں اسے مارا اس کا کیا بنتا ہے اس کا اس طرح سے اسے پیٹنے کا ۔کل رات وہ اس سے عزت اور احترام کی وعدے کر رہا تھا اور آج جانوروں کی طرح مار آیا تھا جیسے وہ کوئی بے جان وجود ہو
وہ ایسا کیوں کرتی یہ سب کچھ کرتی کیسے ۔اس کے گھر میں رہتے ہوئے تائشہ کاملک سے رابطہ صرف موبائل کے تھروتھا اور ملک اپنی ہی بیٹی کے ساتھ اتنا برا کیسے کر سکتا تھا اس نے پہلے یہ ساری باتیں نہیں سوچتی تھی
گاؤں کے کچھ لوگوں نے یہاں آنے سے پہلے اس گھر کی صفائی کرائی تھی۔ گاؤں کے لوگوں کے لیے یہ بات اتنی چھوٹی نہ تھی کہ ان کا سائیں ان کے ساتھ آکر رہے گا ۔
جب کہ وہ لڑکا جو پنچایت میں کردم کو سزا دینے کی بات کر رہا تھا وہ نہ جانے کہاں غائب ہوچکا تھا ۔
دھڑکن کو یہ گھر بہت پسند آیا ۔
اور اب وہ اپنی کیٹی کے ساتھ گھر کے سارے کمرے دیکھنے میں مصروف تھی۔ اسے جیسے ہی یہ پتہ چلا کہ کردم کے ماں باپ اسی گھر میں رہتے تھے تو اس نے فیصلہ کرلیا کہ وہ ان کے کمرے میں رہیں گے ۔
جس پر کردم نے ہاں کردی اور آنے والی نئی صبح کو سوچنے لگا کیا زندگی کی تنگی اور مشکلات میں دھڑکن کی یہ مسکراہٹ ایسے ہی قائم رہے گی کیا یہ لڑکی اس کا ساتھ نبھا پائے گی ۔وہ خود سے سوال کرتا اس کے پیچھے پیچھے چل رہا تھا ۔
جبکہ دھڑکن کسی پرندے کی طرح پورے گھر میں چہک رہی تھی
💓
اسے کچھ علم نہ تھا ۔
وہ پرسکون ہو رہی تھی ۔آنکھیں بند ہوتے ہوتے اسے اپنا درد کم ہوتا محسوس ہوا ۔
💓
نہ جانے جنید کہاں تھا کردم اور دھڑکن حویلی سے گاؤں کے پرانے مکان میں شفٹ ہو چکے تھے
یہ اتنا چھوٹا نا تھا حویلی بننے سے پہلے دادا سائیں اور ان کے والدین اسی گھر میں رہا کرتے تھے
یہ گھر کردم کیلئے بہت اہم تھا کیونکہ اسی گھر میں اس کی ماں دلہن بن کے آئی تھی اور اسی گھر میں اس کے باپ کی پیدائش ہوئی تھی
دھڑکن کو سب لوگوں نے گاؤں جانے سے منع کیا لیکن اسنے کسی کی نہیں سنی بس کہہ دیا کہ جہاں اس کے سر کا سائیں رہے گا وہ بھی وہی رہے گی ۔
اور پھر دادا سائیں نے سب کو کچھ بھی کہنے سے منع کردیا ۔اور دھڑکن کو کردم کے ساتھ گاؤں کے پرانے گھر میں رخصت کر دیا ۔
یہ گھر اتنا چھوٹا تو نہ تھا لیکن اتنا بڑا بھی نہ تھا ۔
تائشہ میں اتنی بھی ہمت نہ بچی تھی کہ وہ زمین سے اٹھ پاتی ۔اس کی ماں اسے بدن کے ایسے حصے پر زخم دیتی تھی جوکسی کو نظر نہ آئے ۔
لیکن جنید نے اسے اس کے جسم کے ہر حصے پر زخم دیا تھا ۔اس کے ہونٹوں سے خون نکل رہا تھا جبکہ سارا جسم سوجن سے نیلا پڑ چکا تھا ۔
لیکن یہاں کیسے پروا تھی وہ تو بچپن سے ہی کسی کی محبت کے قابل نہ تھی انجانے جنید سے کون سی محبت کی امید کر رہی تھی۔ نجانے اسے کیوں لگ رہا تھا کہ یہ شخص اسے دنیا کہ دکھاؤے سے دور لے جائے گا
وہیں زمین پر پڑے اس کی نظر جنید کی پوکٹ سے گرے سرخ ڈبے پر پڑی ۔
جو آدھا کھلا ہوا تھا ۔اور اس میں سے ایک خوبصورت سا بریسٹ آدھا باہر جگمگا رہا تھا ۔
شاید یہ وہی تحفہ تھا جو جنید اس کے لیے لانے گیا تھا
اس تحفے کو دیکھتے آہستہ آہستہ تائشہ کی آنکھیں بند ہونے لگیں ۔اس کے آگے پیچھے کیا ہو رہا تھا
اور اسے اپنے ہاتھوں سے ڈبل کرتا ہوا اس کے قریب آیا
جنید مجھے سچ میں نہیں پتا وہ سہمی ہوئی آواز میں بولی ۔جب جنید نے بری طرح سے اس پائپ سے اس سے مارنا شروع کیا اور پھر بے دردی سے مارتا چلا گیا
تائشہ میں آخری بار پوچھ رہا ہوں مجھے بتاو وہ کہاں ہے شاہ سائیں ساری زندگی کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہیں گے گاؤں میں ان کا نام مٹی میں مل جائے گا ۔کردم سائیں کبھی سر اٹھا کر نہیں چل پائیں گے مقدم شاہ کا غرور ٹوٹ جائے گا تائشہ ۔ اسے بری طرح سے پیٹتے ہوئے جب وہ چیخ کر رونے لگی توجیند کو اس پر ترس آگیا اور پائپ اس سے دور پھینکے ہوئے اس کے قریب بیٹھ کر پوچھنے لگا ۔
جبکہ اس بار وہ زمین پر پڑی روتی رہی اور وہ بولتا رہا لیکن وہ منہ سے کچھ بھی نہ بولی ۔
آخر پوچھ پوچھ کر اٹھ کر دوبارہ باہر چلا گیا ۔
سویرا کہاں ہے ۔۔۔۔۔۔۔؟وہ اسے کھینچ کر سیدھا کرتے ہوئے پوچھنے لگا
مجھے کیا پتا حویلی میں ۔۔۔۔۔
چٹاخ ۔ایک زور دار تھپڑ نے تائشہ کو زمین بوس کر دیا
ایک لفظ بھی فالتو نہیں تائشہ بتاؤ مجھے سویرا کہاں ہے ۔۔۔۔۔؟۔وہ غصے سے دھاڑتے ہوئے بولا
مجھے کیسے پتہ ہوگا میں تو یہاں وہ سہمے ہوئے لہجے میں بولی جب ایک اور تھپڑ نے اس کا گال سرخ کر دیا ۔
تائشہ میں تم سے آخری بار پوچھ رہا ہوں بتاؤ سویرا کہاں ہے۔۔۔۔۔؟ اس کے بعد تم مجھ سے نرمی کی امید مت رکھنا ۔جنید پھر غصے سے آنکھیں دکھاتے ہوئے بولا
مجھے نہیں پتا ج۔۔تائشہ کے بات ابھی منہ میں ہی تھی جب وہ ایسے بالوں سے گھسیٹتے ہوئے باہر صحن میں لایا ۔
تم نرمی کے قابل ہی نہیں ہو ۔وہ غصے سے کہتے ہوئے پانی کے پائپ کی طرف جا رہا تھا اگلے ہی لمحے اس نے زمین دوز ٹیکی کے ساتھ لگے پانی کی موٹر سے پائپ کھینچا ۔
احمد شاہ کو دوبارہ سے بےہوشی کا انجکشن لگا دیا گیا تھا کیونکہ اتنے زخموں کے بعد بھی وہ مسلسل سویرا کے فکر میں ہلکان ہورہے تھے
جس کی وجہ سے ان کا بی پی بہت زیادہ ہائی ہو چکا تھا ڈاکٹر نے انہیں ریکس کرنے کے لیے اور ٹینشن نہ لینے کے لیے انجکشن دے دیا اور اسی کا فائدہ اٹھا کر مقدم اس لوکیشن پر پہنچنے کے لئے اسپتال سے نکل گیا
💓
وہ حویلی جانے سے پہلے اپنے گھر آیا تھا کیونکہ اسے پتہ لگانا تھا کہ آخر شاہ سائیں کے گھر کی عزت سویرا کہاں غائب ہے اور اسے پورا یقین تھا کہ تائشہ یہ بات جانتی ہے
کیونکہ مقدم کا شک ملک تھا اور ملک سے تائشہ آج صبح ہی فون پر بات کر رہی تھی۔
سارا دن فارغ بیٹھتے ہوئے تائشہ نے اس گھر کو شیشے کی طرح چمکا یا تھا جیسے جنید نے دیکھنا تک گوارا نہ کیا وہ سیدھا اس کے سر پر سوار تھا جو کچن میں اس کے لئے کچھ بنانے میں لگی تھی
یہ تم نے ٹھیک نہیں کیا تائشہ ہے اس بات کی سزا تمہیں ضرور ملے گی ۔
کردم کافون ابھی تک نہیں لگ رہا تھا جبکہ تائشہ اکیلی ہے گھر پر اور اسے کردم کو بھی خبر کرنی تھی کہہ کر جنید بھی گاؤں کے لئے نکل چکا تھا جبکہ ڈاکٹر نے احمد شاہ کو کچھ دیر مزید ہسپتال میں رہنے کے لئے کہا تھا
💓
مقدم۔ہسپتال کے بینچ پر بیٹھا مسلسل سویرا کے بارے میں سوچ رہا تھا جب اسے موبائل پر ایک میسج رسیو ہوا جس کے ساتھ لوکیشن سینڈ کی گئی تھی
اگر اپنی کزن کی جان اور عزت کی حفاظت چاہتے ہو تو اکیلے اس لوکیشن پر پہنچو۔میسج پڑھتے ہی مقدم اٹھ کر کھڑا ہوگیا
نا تو وہ اس نمبر سے واقفیت رکھتا تھا اور نہ ہی اسے اندازہ تھا کہ آخر وہ لوگ کون ہو سکتے ہیں ۔لیکن ان میں سے آج کوئی ایک بھی زندہ نہیں بچے گا اس کی گرنٹی مقدم دے سکتا تھا ۔
مقدم سائیں میری بیٹی ۔۔۔مقدم سائیں میری بچی کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہے گی ۔۔۔نہ جانے وہ لوگ اسے کس مقصد سے اٹھا کے لے کر گئے ہیں نہ جانے وہ لوگ اس کے ساتھ کیا کریں گے ۔احمدشاہ دہائیاں دیتے ہوئے بول رہے تھے جبکہ مقدم کے ذہن میں بس ملک کا نام گونج رہا تھا
لیکن وہ اپنی ہی بیٹی کو کیوں اٹھانے کی کوشش کرے گا ۔
وہ سوچتے ہوئے اٹھ کر باہر آگیا ۔
آپ کو کیا لگتا ہے مقدم سائیں یہ نیچ حرکت کون کر سکتا ہے جنید اس کے ساتھ بیٹھتے ہوئے بولا
مجھے تو ملک پر شک ہے جنید یہ کام۔ ملک نے کروایا ہوگا مقدم نے اپنا شک بیان کیا تو جنید کو آج صبح والی فون کال یاد آئی جب تائشہ گھبرائی ہوئی فون پر ملک سے بات کر رہی تھی
غصے سے اس کی ماتھے کی رگیں واضح ہونے لگی
تائشہ تم اتنا کیسے گر گئی جنید نے اپنے بالوں کو مٹھیوں میں بھیجتے ہوئے سوچا
اس کے دل سے بس ایک ہی دعا نکل رہی تھی سویرا جہاں بھی ہو محفوظ ہو ۔
اس نے ابھی تک گھر میں فون کرکے کسی کو یہ بات نہیں بتائی تھی اگر سویرہ کے لاپتہ ہونے کی خبر گاوں میں پھیل جاتی تو اس کی بہت بدنامی ہوتی
اور وہ اپنے خاندان کی عزت پررسک نہیں لے سکتا تھا ۔
دو گھنٹے کے بعد احمد شاہ کو ہوش آیا ان کی حالت بہت بگڑ چکی تھی ۔
مقدم کو اپنے قریب دیکھ کرانہوں نے فورا اسے سب کچھ بتایا ۔کہ کس طرح سے وہ لوگ حوریہ کو سمجھ کر سویرا کو لے گئے ۔
اتنی گری ہوئی حرکت کون کرسکتا ہے مقدم شاہ کی عزت پر ہاتھ ڈالنے کی ہمت تو کسی میں نہ تھی اس کا بڑے سے بڑا دشمن بھی اس سے اس بات پر پنگا نہیں لے سکتا تھا
مقدم کا دل یہ سوچ کر زور زور سے دھڑکنے لگا تھا کہ اگر سویرا کی جگہ وہاں حوریہ ہوتی تو شاید اب تک وہ اسے ڈھونڈتے ہوئے پاگل ہو چکا ہوتا ۔
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain