احمد شاہ سے وہ بہت ناراض تھی۔
اسی لیے وہ کمرے سے باہر نہیں آرہی تھی جبکہ کردم رات کو بہت لیٹ گھرآیا تھا اس لئے یقیناً وہ سو رہا ہوگا ۔
حوریہ کو غصہ اس بات کا تھا کہ انتی خراب طبعیت میں وہ گیا کیوں جبکہ دادا سائیں کا کہنا تھا کہ ان کا پوتا شیر جوان ہے جو اب بالکل ٹھیک ہے ۔
بالکل بھی نہیں ہیں وہ اور آپ انہیں شیر کہہ کہہ بگاڑتے جا رہے ہیں اپنی صحت کا بالکل خیال نہیں رکھتے دھڑکن باہر آئے نہ اس کی کلاس لیتی ہوں میں میں نے اپنے بھائی کی اس ذمہ داریاں اس پر کیا ڈال دی اسے تو ہوش ہی نہیں ہے ۔
اب اس کی توپوں کا رخ دھڑکن کی طرف تھا وہ جانتے تھے کہ کردم کے معاملے میں وہ بچپن سے ہی بہت ٹچی ہے وہ اس سے بے انتہا محبت کرتی ہے ۔
اور ہر بہن کی طرح بھائی چاہے ہٹا کٹا ہی کیوں نہ ہو لیکن بہن کی نظر میں کمزور ہی تھا ۔
بھیگی_پلکوں_پر_نام_تمہارا_ہے
#قسط_65
😊
کردم لالہ کی طبیعت ابھی ٹھیک بھی نہیں ہوئی اور وہ شہر کے چکر لگانے لگے ہیں ۔
اس طرح سے رکھیں گے وہ اپنا خیال حوریہ صبح اٹھ کر باہر آئی تو نانا سائیں نے اسے بتایا کہ کردم سائیں کل سے شہر گئے ہوئے تھے رات کافی دیر سے واپس آئے ہیں
آج کل ناناسائیں کا اکثر وقت حوریہ اور دھڑکن کے ساتھ گزرتا تھا دن میں ایک اسپیشل وقت انہوں نے دھڑکن اور حوریہ کے لیے فکس کردیا تھا جس میں وہ تینوں اکثر لڈو کھیلتے تھے
شروع میں تو دھڑکن خوب بے ایمانی کیا کرتی تھی لیکن اب حوریہ کو خود ہی کھیل سمجھ میں آگیا تھا اور دھڑکن کی چالاکیاں بھی ۔ابھی تک دھڑکن کمرے سے باہر نہیں آئی تھی کل سے ہی اس نے اپنے آپ کو نظر بند کرکے رکھا تھا
پھر سے بتادیا نہ کردم شاہ سائیں کے آپ دنیا کے سب سے بورنگ ترین انسان ہیں
اگربیوی اداس ہوتو اسے پیار سے مناتے ہیں نہ کہ ڈراتے ہیں دھڑکن نے ناراضگی کے اصول بتائے ۔
ہاں لیکن اگر تم مجھ سے ناراض ہوتی تو میں تمہیں پیار سے مناتا لیکن تم تو اپنے بابا سائیں میرا مطلب ہے مسٹر بابا سائیں سے ناراض ہو۔
لیکن میں تم سے وعدہ کرتا ہوں دھڑکن کے بہت جلد میں تمہاری زندگی میں تمہارے ہر پیارے کی جگہ لے لوں گا میری محبت کے آگے تمہیں دنیا کی ہر محبت کم لگے گی
تم ہر دم صرف کردم شاہ کو چاہو گی صرف کردم شاہ کو سوچو گی کردم شاہ تمہارے حواسوں پے اس حد تک چھا جائے گا کہ تم سانس لو گی تو وہ تمہارے سینے میں دل بن کر دھڑکنے لگے گا ۔اور تم اسے اپنی ہر اک سانس میں محسوس کرو گی
کیا بات ہے دھڑکن تم اتنی اداس کیوں ہو آج نہیں تو کل تمہارے بابا کو جانا ہی تھا نہ اور وہ کونسا ہمیشہ کے لئے جا رہے ہیں تم روز ان سے باتیں کرنا ۔اور پھر گاؤں کے مسائل حل ہو جائیں میں تمہیں خود ان کے پاس لے کے چلوں گا
کردم نےوعدہ کرنے والے انداز میں کہتے ہوئے اسے بیڈ پر بٹھایا
لیکن بابا نہیں ہوگے تو میرا خیال کون رکھے گا مجھ سے پیارکون کرے گا دھڑکن نے معصومیت سے کہا مطلب ہر لڑکی کی طرح اسے بھی ایک نخرے اٹھانے والا انسان چاہیے تھا جو باپ کے علاوہ اور کوئی نہیں اٹھا سکتا تھا ۔بیٹیوں کو شہزادیاں بنا کر ان سے محبت صرف باپ ہی کرتا ہے
میں تمہیں پیار کروں گا میں تمہارا خیال رکھوں گا اور جب تم اپنی بے وقوفانہ حرکتیں کرو گی تب تمہیں بہت ڈانٹوں گا اور ایک آدھ لگابھی دیا کروں گا وہ شرارتی لہجے میں بولا
وہ تو شکر ہے کہ تھوڑی دیر پہلے ملازمہ کھانا دینے آئی تو اس نے لے لیا ۔۔ مطلب کے ناراضگی صرف احمد شاہ سے تھی کھانے سے نہیں وہ ان کی بات پے مسکرایا
چاچو سائیں آپ جائیں آرام کریں میں اسے سمجھاتا ہوں کردم نےانہیں حوصلہ دیتے ہوئے بھیجا ۔
دھڑکن دروازہ کھولو کردم نے دروازہ کھٹکٹھا تے ہوئے کہا
مسٹر بابا سائیں آپ کے پاس ہیں تومیں دروازہ نہیں کھول رہی اونچی آواز میں احمد شاہ کو سنانے والے انداز میں بولی
ناراضگی میں باباسائیں اکثر مسٹر باباسائیں ہو جایا کرتے تھے ۔
نہیں دھڑکن مسٹر بابا سائیں یہاں سے جا چکے ہیں اس وقت صرف آپ کے مسٹرہسبینڈ سائیں یہاں کھڑے ہیں
کردم نے اسی کے انداز میں کہا تو وہ اٹھ کر دروازہ کھول چکی تھی
💓
ہاتھ میں کیٹی کو پکڑے ہوئے سرخ آنکھیں یقینا وہ بہت روئی تھی
احمد شاہ کمرے کا دروازہ کھٹکھٹاتے ہوئے بولے وہ اسے منانا نہیں بلکہ اسے سمجھانا چاہتے تھے کہ دھڑکن کو اپنی زندگی میں آگے بڑھنا چاہیے
لیکن شاید ان کے واپس جانے کے اچانک فیصلے نے دھڑکن کو بہت اداس کر دیا تھا
آپ کو کیا فرق پڑتا ہے میں کیا کروں آپ تو جا رہے ہو نہ تو پھر یہاں کیوں آرہے ہیں جائیں یہاں سے ۔میں رہ لوں گی آپ کے بغیر ۔لیکن مسٹر بابا سائیں اپنا گھر چھوڑ کے کوئی نہیں جاتا سمجھے ۔وہ ہتھیلی سے اپنے گال رگڑتے ہوئے بولی۔
کردم ابھی ابھی واپس آیا ہے اور اپنے کمرے کے باہر احمد شاہ کو کھڑے دیکھ کر اور اندر سے آتی دھڑکن کی آواز نے وہ ایک ہی پل میں سمجھ چکا تھا کہ آخر ماجرا کیا ہے
کردم سائیں اب تمہیں سمجھاو اسے میری تو کوئی بات نہیں سن رہی صبح سے خود کو کمرے میں لاک کر رکھا ہے
یہاں تک کے صبح سے کچھ کھا بھی نہیں رہی تھی
جس کے بعد وہ تھوڑا بے فکر ہوکر خود ہی شہر آگیا۔
اسے یہ جان کر بہت حیرانگی ہوئی تھی کہ اس پر حملہ کروانے والوں میں تائشہ بھی شامل تھی لیکن پھر وہ اپنی عزت پررسک لے سکتی تھی تو یہ کیا چیز تھی
کام ختم کرکے جب وہ شہر سے واپس گاؤں کے لیے روانہ ہونے لگا تو اس کی نظرایک گفٹ شاپ پر گئی وہ جب بھی شہر آتا تھا حوریہ کے لیے کوئی نہ کوئی تحفہ ضرور خریدتا تھا
اور اس بار بھی اس نے اسے گفٹ دینے کے لیے ایک بہت خوبصورت گولڈ پین خریدا تھا ۔
پھر پازیب کے جوڑے پر نظر پڑتے ہی اسے دھڑکن کی یاد آئی تھی ۔
دھڑکن سائیں ایک گفٹ تمہارے لئے بھی اس نے مسکراتے ہوئے وہ پازیب کا جوڑا پیک کروایا تھا ۔
💓
دھڑکن بس بہت ہوگیا تم کوئی چھوٹی بچی نہیں ہو جو اس طرح سے صبح سے خود کو کمرے میں لاک کر کے بیٹھی ہو باہر نکلو بیٹا یہ نادانی مت کرو
میں کھا چکی ہوں اور یہ تمہاری غلط فہمی ہے کہ میں کھانے پر تمہارا انتظار کر رہی ہوں گی جاؤ جا کر کھانا کھا کر سو جاؤ انتہائی بدتمیز انداز میں کہتی اس نے ایک بار دروازے کا لاک دیکھا تھا کہیں وہ اندر ہی نہ آجائے ۔
بہت اچھی بات ہے وہ شرارتی انداز میں کہتا کچن میں آیا اور اپنے لئے کھانا گرم کرنے لگا ۔
جبکہ اس کے بات پر اندر ہی اندر گھبراتی تائشہ کوئی دسویں بار اپنے کمرے کا لاک چیک کرچکی تھی
💓
وہ شہر گیا ہوا تھا جنید نے اسے فون پر بتایا تھا کہ مقدم سائیں نے تائشہ کی ساری باتیں سن لی ہیں اور اس کا رابطہ ملک سے رہا ہے اور غصے میں اپنے گھر جا چکا ہے کردم کو ڈر تھا کہ کہیں وہ غصے میں کچھ الٹا سیدھا نہ کردے اسی لیے جب اس نے حویلی فون کیا تو پتہ چلا کہ وہ مقدم گھر آ چکا ہے
بھیگی_پلکوں_پر_نام_تمہارا_ہے
#قسط_63
جنید کی آنکھ کھلی تو تائشہ اسے کہیں نظر نہ آئی وہ فریش ہو کر باہر آیا اور مین گیٹ کی طرف دیکھا جو اندر سے لاک تھا مطلب کے وہ گھر کے اندر ہی تھی لیکن کہاں ۔۔۔۔۔؟
نا بیڈروم میں تھی اور نہ ہی کچن میں ۔
کچن میں آیا تو کھانا تیار تھا ۔اسے دیکھ کرخوشی ہوئی پھر باہر آکر اسے تلاش کرنے لگا ۔
جب دیکھا کہ تائشہ گھر کے دوسرے بیڈروم میں خود کولاک کیے بیٹھی ہے ۔
میری معصوم بیوی یقیناً یہ چالاکی تم نے آج رات مجھ سے بچنے کے لئے کی ہوگی ۔لیکن اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے اپنا حق تو میں تم سے وصول کے رہوں گا
اس نے تائشہ کے کمرے کا دروازہ کھٹکھٹایا تائشہ باہر آکر کھانا کھالو اس نے حکم دیا تھا
اور اپنی دادی سے اس سوال پر وہ پھر سے سے دیکھنے لگی
میری کوئی دادی بھی ہیں وہ حیرت سے پوچھنے لگی
تمہاری دادی ہیں حوریہ اور وہ آج مجھ سے ملیں تھیں تمہیں بہت سارا پیار دے رہیں تھیں
کیا وہ بھی میرے باپ جیسی ہیں وہ اس کی بات کاٹتے ہوئے بولی ۔
نہیں حور وہ ایک بہت اچھی اور نیک عورت ہیں مقدم نے دل سے اس عورت کی تعریف کی تھی ان کی تعریف تو دادا سائیں بھی اکثر کیا کرتے تھے
کیا ہم ان سے مل سکتے ہیں وہ حسرت بھرے انداز میں پوچھنے لگی
میں ملاؤں گا تمہیں ان سے وہ وعدہ کرنے والے انداز میں بولنا توحوریہ اس کے سینے پر سر رکھ گئی
💓
بلکہ صرف بات ہی نہیں کرنا چاہتا بلکہ ان کی پریشانی وجہ بھی جاننا چاہتا ہے وہ اس کے سینے پر سر رکھتے ہوئے بولی ۔
اور اس بار مقدم کا غصہ جواب دے گیا
حوریہ مجھے ایک بات بتاؤ اگر تمہیں کوئی میرے بارے میں کچھ کہے گا تو کیا تم اس کی بات مان لو گی ۔۔۔؟اس کے بالوں میں انگلیاں چلاتا نرمی سے بولا
اگر اچھی بات ہوگی تو مان لوں گی اگر بُری ہوئی تو ایک رکھ کے لگاؤں گی اس کے گال پراور کہوں گی خبردار جو میرے مقدم سائیں کو کچھ بھی الٹا سیدھا بولا تو وہ اس کے سینے پر تھوڑی ٹکاتی اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے بولی ۔
کیا تم اپنے باپ سے ملنا چاہتی ہواچانک سوال پہ حوریہ اسے دیکھ کر رہ گئی
میں اس کی شکل تک نہیں دیکھنا چاہتی مقدم سائیں اور آج کے بعد اس کے بارے میں مجھ سے کوئی بات مت کیجئے گا وہ اس کے سینے پر سر رکھے نظرچرا گئی
شاید اس کا غصہ کم ہو تو وہ اسے اپنے آپ ہی ساری بات بتا دے ۔
لیکن کافی دیر کے بعد مقدم نے کچھ بھی نہ کہا بلکہ بیڈ پر لیٹ گیا ۔
مقدم سائیں ایسا کیسے چلے گا اگر آپ مجھے کچھ بتائیں گے ہی نہیں تو حوریہ اس سے دیکھتے ہوئے بولی ۔
حوریہ میں کوئی بات نہیں کرنا چاہتا کہتے ہوئے اب اس نے منہ پر ہاتھ رہ گیا ۔
جب حوریہ دوسری طرف سے آکر اس کے سر کے قریب بیٹھ گئی
میرا بےبی ناراض ہے مجھ سے وہ اس کا ہاتھ اٹھاکر اسی کے انداز میں کہنے لگی
حوریہ۔۔۔ مقدم نےذرا سخت لہجے میں کہا
میلا جانو اتنا پریشان ہے کہ اپنی جان پر غصہ کرے گا وہ ابھی بھی وہی انداز اپنائے ہوئے تھی
حوریہ میں نے کہا اس وقت میں کسی سے بات نہیں کرنا چاہتا اس کا لہجہ اس بار نرم تھا
لیکن مقدم شاہ کے دل کا قرار تو ان سے بات کرنا چاہتا ہے
دھڑکن تو آج صبح سے ہی اپنے کمرے سے باہر نہ نکلی تھی جبکہ سویرا کی طبیعت خراب تھی اسی لئے وہ بھی اپنے کمرے میں تھی احمد شاہ دادا سائیں کے کمرے میں تھے اور کردم ابھی واپس نہ آیا تھا جبکہ رضوانہ نے کمرے سے نکلنا ہی چھوڑ دیا ۔
نہ جانے کیا بات ہوگئی مقدم کی پریشانی کی نازیہ نے سوچتے ہوئے اس کے کمرے کی طرف دیکھا جہاں ابھی حوریہ اندر گئی تھی
💓
حوریہ کب سے اس سے اس کی پریشانی کی وجہ جاننے کی کوشش کر رہی تھی جب کہ وہ خاموشی سے بیڈ پے بیٹھا ہوا تھا اس نے حوریہ سے بس اتنا ہی کہا تھا کہ مجھے اکیلا چھوڑ دو اس وقت میں کسی سے کوئی بات نہیں کرنا چاہتا جبکہ حوریہ کا اس کا اکیلا چھوڑنے کا کوئی ارادہ نہ تھا وہ کب سے اس کی پریشانی کی وجہ جاننا چاہ رہی تھی
مقدم کے غصے سے ڈر بھی لگتا تھا اسی لئے اب پوچھنے کے بجائے اس کے قریب ہی بیٹھ گئی
سکون سے کھانا کھا کروہ اس کمرے میں آگئی اور دروازہ اندر سے اچھے سے لاک کر دیا ۔
جنید خان تم ساری زندگی میرے ساتھ کے لئے ترستے ہی رہوگے کیوں کہ میرا تمہارے جیسے ملازم کے ساتھ ساری زندگی گزارنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے ۔
وہ پر سکون انداز میں بیڈ پرلٹتے ہوئے بولی اور آنے کل کے بارے میں سوچنے لگی
💓
مقدم گھر واپس آیا تو کافی پریشان تھا اسے پریشان دیکھ کر حور کمرے میں آ گئی جبکہ نازیہ نے بھی اس کی پریشانی نوٹ کر لی تھی لیکن جس دن سے مقدم کو سب کچھ پتہ چلا تھا نازیہ کو مخاطب کرنا چھوڑ چکا تھا ۔
وہ روز صبح اور شام اس کے کمرے میں آتا اور نازیہ ہمیشہ کی طرح اس کے ماتھے پر بوسہ دے کر اسے دعائیں دیتی اور وہ واپس اپنے کمرے میں آجاتا ۔
اس نے حور کے ساتھ دکھاوے سے منع کردیا تھا مقدم نے کہا تھا کہ حوریہ کے لئے صرف مقدم کا پیار ہی کافی ہے ۔
اس نے اپنا فون ڈھونڈنا چاہا تو وہ بیڈ پر جنید کے نیچے تھا ۔۔ اسے جگانے سے بہتر تھا کہ موبائل نہ لے شکر کا کلمہ پڑھتی وہ وہاں سے باہر آگئی۔
سُنا تھا جس گھرمیں عورتیں نہیں ہوتی وہ گند سے بھرا ہوا ہر طرف کچرہ وغیرہ ہوتا ہے لیکن اس معاملے میں جنید شاید صفائی پسند تھا اس کا گھر صاف ستھرا اور کھلا تھا
گھر میں چار کمرے تھے ۔اور ایک کچن۔ بیڈروم اور میٹنگ روم کے علاوہ اس نے اور کوئی کمرہ نہ دیکھا تھا
اب سوچا کیوں نہ اس گھر کو ہی دیکھ لے۔ وہ اس گھر کے طرف نظرثانی کرنے لگی
اس میں ایک اور بیڈروم موجود تھا اسے کو جان کر خوشی ہوئی مطلب سونے کے لئے جنید کی منتیں کرنے کی ہرگز ضرورت نہ تھی وہ رات کو اسی کمرے کولاک کرکے سونے کا ارادہ رکھتی تھی ۔
جبکہ آخری کمرے میں بہت سارے چارپائیاں بچھائی گئی تھی ۔
اناپرست سخت جاگیرجواپنی انا کے لئے کچھ بھی کر جائے گا لیکن اپنی جان سے پیاری بیوی سے کبھی یہ نہیں پوچھے گا کیا تمہارے اندر تمہارے باپ تمہاری دادی سے ملنے کہ خواہش ہے ۔
ارے نہیں مقدم شاہ تم نہیں پوچھو گے کیونکہ تم قاسم شاہ سائیں کے پوتے ہو ۔۔حوریہ مقدم شاہ کے شوہر ہولیکن اس کا دل کے حال پوچھنے والے ساتھی اس کے دوست نہیں تمہارا پیغام میں اپنے بیٹے کو دے دوں گی ۔
بس میرا پیار میری پوتی کو دے دینا ۔وہ اپنے چہرے پہ اپنی چادر رکھے پھوٹ پھوٹ کر رونے لگیں۔ جبکہ ان کی باتیں سننے کے بعد مقدم زیادہ دیر وہاں نہیں رکا تھا
💓
وہ کھانے کا بتانے کے لئے کمرے میں آئی تو جنید گہری نیند سو رہا تھا ۔وہ کل سارا دن کام پر لگا رہا اسی لیے شاید وہ سو گیا تھا تا ئشہ کو تو اس کی نیند سے کافی خوشی ملی تھی ۔
اہانہ کی جگہ کوئی نہیں لے سکتا ۔اور اس کی بات کے ساتھ اپنے پوتے پوتیوں سے کھیلنے کی خواہش میرے اندر ہی ختم ہوگئی ۔
یہ مرد اپنی خاندانی دشمنی میں یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ عورت بھی جذبات رکھتی ہے ۔یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ ان کے سخت فیصلے عورت کو اندر ہی اندر توڑ دیتے ہیں ۔وہ بکھر جاتی ہے لیکن آواز نہیں اٹھاتی یہ سوچ کے کہ کہیں اس کے خاندان کے انا پرست مردوں کو کوئی بات بُری نہ لگ جائے ۔اور وہ عمر بھریہ سمجھتا ہے کہ اس کے روعب اور غصے سے ڈر کر وہ اپنی خواہشیں مار دیتی ہے اور اس کے ساتھ آگے بڑھ جاتی ہے ۔لیکن وہ یہ نہیں سوچتے کہ خواہشیں اور خوشیاں چھین کر عورت اچھی بیوی اچھی ماں اچھی بیٹی تو بن جاتی ہے لیکن اندر سے کھوکھلی ہو جاتی ہے ۔
لیکن میں یہ ساری باتیں کس کے سامنے کر رہی ہوں تم بھی تو انہیں مردوں میں سے ہو۔۔
وہ فی الحال یہاں نہیں ہیں مقدم ۔۔۔خدیجہ جاؤ یہاں کھڑی کیا ہوحویلی کا داماد پہلی بار یہاں آیا ہے اس کی خاطر تواضع کا کچھ انتظام کرو ۔
وہ اس کے لہجے اور غصے کو نظرانداز کرتے ہوئے محبت سے بولیں ۔
وہ اس خاندان کی اکلوتی وارث کا شوہر تھا ۔
کوئی ضرورت نہیں اس دکھاوے کی اپنے بیٹے کو بتا دیجئے گا کہ دنیا کی کوئی طاقت مجھ سے میری حوریہ کو چھین نہیں سکتی ۔
اس بار میں اسے معاف کر رہا ہوں صرف یہ سوچ کے کہ میری حوریہ کا باپ ہے ۔لیکن اس کے بعد اگر اس نے دوبارہ یہ حرکت کی تو اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر دوں گا ۔
وہ غصے سے کہتے ہوئے پلٹا جب اماں نے اسے پکارا ۔
تمہارا انداز بتا رہا ہے کہ میری پوتی تمہارے لئے بہت اہم ہے ۔لیکن دیکھو نہ میری قسمت میں تو جانتی تک نہیں کہ وہ کیسے دیکھتی ہے ۔۔ احسن نے دوسری شادی نہیں کی کیونکہ اس کا کہنا تھا
یہ میرے بڑوں کی سکھائی ہوئی تمیز ہی ہے کہ ابھی تک میں اس گھر کے باہر کھڑا ہوں ۔ورنہ مجھ سے میرے زندگی چھیننے کا سوچنے والے کو ٹکڑوں میں تقسیم کرکے آگ لگا دوں تو میرا نام مقدم شاہ نہیں وہ اس خاتون کے سامنے اپنی آواز اور بدتمیزانہ لہجے پر کنٹرول کر گیا تھا ۔
جبکہ اس کی سرخ انگارہ آنکھیں اور خطرناک انداز دیکھ کر سامنے کھڑی عورت بھی گھبرا گئی تھی
تم میری حوریہ کےشوہر مقدم ہو ۔۔۔۔؟ انہوں نے محبت پاش نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے کہا
مجھے ملک سے ملنا ہے اس سے کہے باہر آئیں اس نے مجھ پر حملہ کروایا ہے ۔ مجھ سے میری حوریہ کو الگ کرنے کے لیے مجھ سے میرے جینے کی وجہ چھیننے کے لئے باہر نکالیں اسے آج میں اسے موت کے گھاٹ نہ اتار دوں تو میں قاسم شاہ سائیں کا پوتا نہیں ۔
وہ غصے سے دہاڑتے ہوئے حویلی کے دروازے کو دیکھ رہا تھا ۔
۔۔۔
اس سے چھپانے والا کچھ بھی اس موبائل میں موجود نہ تھا ۔
اسی لئے کمرے میں جانے کا رسک نہ لیتے ہوئے وہ واپس کچن میں آگئی
کچن میں ضرورت کی ہر چیز موجود تھی اسے کسی بھی چیز کو ڈھونڈنے کے لیے زیادہ محنت نہ کرنے پڑی چھوٹا سا کیچن اسے کافی پسند آیا تھا اور کھانا بنانے میں وہ شروع سے ہی ماہر تھی
لیکن جنید کے لئے کچھ بھی بنانا اس کے لئے دنیا کا سب سے مشکل ترین کام تھا ۔
💓
باہر نکل ملک ۔ ۔ وہ غصےسے آگ بگولا ملک کے حویلی کے باہر کھڑا تھا ۔
باہر نکل میں کہتا ہوں چھپ کے وار کرتا ہے بزدل سامنے آ اگر اتنا ہی جگر والا ہوتا تو سامنے سے وار کرتا گھٹیا آدمی ۔
کیوں شور ڈال رہے ہو لڑکے کیا تمہارے بڑوں نے تمہیں اپنے سے بڑے لوگوں کی تمیز کرنا نہیں سکھائی اماں سائیں ملازمہ کے سہارے باہر آکر غصے سے پوچھنے لگیں اس سے پہلے وہ مقدم سے کبھی نہ ملی تھی ۔
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain