دیکھو کتنی تیز ہوا چل رہی ہے ایسی ہواؤں میں اگر میری خوبصورت سی بیوی کا کوئی جن عاشق ہوگیا تو خبردار تم کھڑکی کے پاس گئی میں خود بند کر کے آتا ہوں ۔
وہ جارحانہ انداز میں اس کا گال چومتا اس کے قریب سے اٹھا تھا جب کہ جن والی بات سن کر حوریہ کی ہنسی نکل گئی ۔
میں اتنی خوبصورت نہیں ہوں مقدم سائیں لیکن آپ پر کوئی چڑیل عاشق ہو سکتی ہے ۔
وہ اس کے دلکش چہرے کو دیکھتے ہوئے مسکرا کر بولی ۔
مقدم سائیں اب چڑیلوں کا کیا کرے گا ایسے تو ایک خوبصورت پری مل گئی ہے کھڑکی بند کرتے ہوئے وہ مسکراتے ہوئے واپس اس کے قریب آگیا ۔
خوبصورت پریاں میرے جیسے ہوتی ہیں ۔حوریہ نے مسکراتے ہوئے پوچھا تھا کیونکہ وہ کبھی بھی اپنےآپ کو خوبصورت لوگوں میں شمار نہیں کرتی تھی ۔
یہ تو مقدم کی چاہت تھی کہ اسے دن بدن خوبصورت ترین کرتی جا رہی تھی ۔
وہ اس کے سینے پر سر رکھیے گہری نیند سو رہی تھی ۔
جب اچانک کھڑکی پر ذرا سی آواز پیدا ہوئی
حوریہ کی آنکھ اچانک ہی کھل گئی تھی آج کل اسے عجیب بیچینی نے گہرا ہوا تھا ۔
اکثر اس کی آنکھ کھل جاتی اسے عجیب عجیب سے خواب آنے لگے تھے وہ خوابوں میں اکثر مقدم کو خود سے دور جاتا دیکھتی ۔
لیکن اب وہ اپنے خواب مقدم کے ساتھ شیئر نہیں کرتی تھی کیونکہ اس کے خواب سننے کے بعد مقدم کا ری ایکشن اسے خواب سے زیادہ ڈر ا دیتا ۔
اس کھڑکی کی جانب دیکھا پردے ہوا سے اڑ رہے تھے ۔
اس نے آہستہ سے مقدم کے حصار سے نکلنا چاہا جب مقدم کی آنکھ کھل گئی ۔
کیا ہوا تم ٹھیک تو ہو وہ اسے اس طرح سے اٹھتے دیکھ کر فوراً اس کے ساتھ اٹھا تھا ۔
مقدم سائیں کھڑکی کھلی ہے بند کرنے جا رہی ہوں ۔وہ اس کےانداز پر بے ساختہ مسکراتے ہوئے اٹھنے لگی ۔
ابھی بنا کے لاتی ہوں لڈو بھی لےکےآتی ہوں اتنے دن ہو گئے دادا سائیں تو بالکل مجھے پوچھتے ہی نہیں ۔لڈو کھیلنا تو دور کی بات
ہم دونوں کھیلیں گے ۔کھیلیں گے نا اس نے امید بھری نظروں سے اس کی طرف دیکھا تھا ۔
جاؤ جلدی سے آؤ کردم نے مسکراتے ہوئے کہا ۔
نہ جانے کتنے دنوں سے وہ ذہنی ٹینشن لے رہی تھی اور اپنی ٹینشن کسی کے ساتھ شئیر تک نہیں کر پا رہی تھی۔
اب اس کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ دیکھ کر وہ اندر تک پرسکون ہو گیا تھا ۔
جبکہ پھوپو سائیں سے اسے اسی طرح کے رویے کی امید تھے پچھلے 19 سالوں سے انہوں نےحوریہ کو یہ طعنے دیے تھے اور اب دھرکن اس چیز کا شکار ہورہی تھی جو کردم نے تو کم از کم نہیں ہونے دینا تھا ۔
حوریہ کی بات الگ ہے پھوپو سائیں لیکن میری دھڑکن کسی ملک کی بیٹی نہیں ہے اور آپ کو یہ بات سمجھنی ہوگی کردم نے سوچتے ہوئے کہا
❤
ورنہ میں آپ کو بتاؤں گی ہی نہیں ۔
وہ ضدی انداز میں ہولی ۔
ٹھیک ہے بتاؤ یہ بات تمہارے اور میرے درمیان رہے گی ۔
وہ بس جاننا چاہتا تھا کہ پھوپو سائیں نے اس سے ایسا بھی کیا کہا ہے کہ وہ اس سے ملنے تک نہیں آئی ۔
کیونکہ یہ بات تو وہ بھی جانتا تھا کہ تائشہ کی کسی بات کو وہ کوئی اہمیت نہیں دیتی اور نازیہ تو کبھی ایسے معاملات میں پڑتی ہی نہیں تھی تو پھوپو سائیں کے علاوہ اور کوئی ایسا نہیں ہوسکتا جو دھڑکن سے اس طرح کی کوئی بات کرے
دھڑکن نے اسے ایک ایک بات بتا دی۔جسے سن کر کر دم کاری ایکشن بالکل دھڑکن کی بالکل سوچ کے مطابق تھا
اب اس بارے میں آپ بالکل بھول جائیں گے جیسے آپ نے وعدہ کیا ہے دھڑکن نے اس کو اس کا وعدہ یاد دلاتے ہوئے کہا ۔
چائے پیئں گے دھڑکن نے اس کا غصہ کم کرنے کی کوشش کی ۔
جبکہ اس کے شرارتی انداز پر وہ بے ساختہ مسکرایا تھا ۔
اب مجھے جلدی سے بتاؤ تمہیں کس نے کیا کہا ہے کیوں کہ یہ منت بھی تم نے بے وجہ نہیں مانگی ہوگی اتنا تو میں تمہیں جان ہی چکا ہوں ۔
ذرا سوچا ہے تم نے کہ ایک دن کی دلہن کیا آپ اپنے شوہر سے ملنے نہ آئے تو کتنا برا لگتا ہے ۔لیکن اگر مجھے اپنے نہ آنے کی صحیح وجہ بتاؤ گی
تومجھے بہت خوشی ہوگی وہ اسے دیکھتے ہوئے بولا
جب دھڑکن نے نرمی سے اس کا ہاتھ تھام کر اپنے سر پے رکھا ۔
آپ میری قسم کھائیں کہ آپ کسی کو کچھ نہیں کہیں گے ۔
یعنی میرا شک ٹھیک ہے پھوپو سائیں نے کچھ کہا وہ اس کے بولنے سے پہلے بولا تھا
۔
مجھے قسم کھانے سے نفرت ہے دھڑکن بتاؤ مجھے کیا کہا ہے پھوپو سائیں نے وہ اس کے سر سے اپنا ہاتھ ہٹاتے ہوئے بولا ۔
نہیں بتاؤں گی پہلے آپ مجھے وعدہ کریں کے آپ کسی سے کچھ نہیں کہیں گے اس بارے میں بلکہ اس بات کو یہیں پر بھلا دیں گے
کیونکہ میں جب سے آپ کی زندگی میں آئی ہوں آپ کی زندگی میں کچھ بھی اچھا نہیں ہوا
دھڑکن تم اتنی چھوٹی سوچ کی مالک ہو۔۔۔،مجھے یقین نہیں آرہا ۔کس نے تم سے کہا کہ تم جب سے میری زندگی میں آئی ہومیرے ساتھ کچھ اچھا نہیں ہوا ۔
دھڑکن تم جب سے میری زندگی میں آئی ہو مجھے سکون مل گیا ہے وہ سکون میں جو میں ڈیروں کی تنہائی میں جاکے ڈھونڈتا تھا وہ مجھے گھر کے شور میں ملا ۔
میں جب بھی بے چین ہوتا تھا تب ڈیرے پر چلا جاتا تھا کیونکہ وہ جگہ میرے ماں باپ کی تھی ۔
مجھے اس دنیا میں سب سے زیادہ وہ جگہ پسند ہے کیونکہ مجھے بہت سکون ملتا ہے وہاں لیکن دھڑکن جب سے تم میری زندگی میں آئی ہو تم میرا سکون بن گئی ہو ۔
وہ اس کا ہاتھ کا میں آہستہ آہستہ بول رہا تھا جیسے اسے اس کی اپنی زندگی میں اہمیت بتا رہا ہوں ۔
کردم نے اس کا چہرہ دیکھتے ہوئے کہا
ایسے ہی دھڑکن نے چھپانے کی کوشش کی
مجھ سے جھوٹ بولنے کی کوشش بھی مت کرنا دھڑکن مجھے سخت نفرت ہے جھوٹے لوگوں سے تمہیں اپنی زندگی میں شامل کرنے کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ تم جھوٹ نہیں بولتی اور یقین کرو کہ اگر تم نے تو یہی کام کیا تو تم میں اور دوسرے لوگوں میں کوئی فرق نہیں رہ جا ئے گا اس کے سامنے وہ تائشہ کا نام نہیں لے پایا
دادا سائیں بات ہی نہیں کر رہے تھے انہوں نے اتنے سارے دن سے میرے ساتھ لڈو بھی نہیں کھیلی ۔
دھڑکن نے سچ بولا تھا لیکن سچ چھپایا بھی تھا
یہ ہسپتال نہ آنے کی وجہ تو نہیں ۔۔۔۔۔
میں نے منت مانگی تھی کہ جب تک آپ ٹھیک نہیں ہو جاتے تب تک میں آپ کے سامنے نہیں آوں گی
میں نے اللہ تعالی سے دعا کی تھی ۔آپ بالکل ٹھیک ہوجائیں گے تبھی میں آپ کے سامنے آوں گی ۔
بھیگی_پلکوں_پر_نام_تمہارا_ہے
#قسط_57
ناجانے کتنی دیر ہو اس کے گلے سے لگ کر روتے رہی کردم نے بھی اس کے دل کا غبار نکلنے دیا وہ جاننا چاہتا تھا کہ آخر وہ اس سے ملنے ہسپتال کیوں نہیں آئی اور جانتا تھا اگر دھڑکن اس کے لئے اتنی بے چین تھی ضرور وہ کسی کے منع کرنے کی وجہ سے ہسپتال نہیں آئی
اسے منع کون کرسکتا ہے یہ تو وہ جانتا ہی تھا لیکن پھر بھی وہ اس کی زبان سے سننا چاہتا تھا ۔
بہت سارا دھونے کے بعد جب وہ چپ ہوئی تو کردم نے اس کا ہاتھ تھام کر اسے اپنے قریب بیڈ کر بٹھایا ۔
اب بتاؤ کردم نے اسے دیکھتے ہوئے سوالیہ انداز میں پوچھا کیا بتاؤں۔۔۔۔۔؟ دھڑکن نے بھی اسی کے انداز میں سوال کیا
یہیں کہ جب تمہیں میری اتنی پرواہ ہے تو تم ہسپتال میں مجھ سے ملنے کیوں نہیں آئی
آپ کو گولی لگی تھی نہ کردم سائیں پھر معصومیت سے بھرپور جواب آیا
ہاں تو گولی مجھے لگی تھی تم کیوں رو رہی تھی ۔۔۔۔؟کردم شاہ اس کی معصومیت پر دل و جان سے نثار ہوتے ہوئے بولا ۔
اگر آپ کو کچھ۔۔۔۔۔۔اس سے زیادہ دھڑکن سے بولا نہ گیا اس کی آنکھوں سے بے اختیار آنسو گرنے لگے ۔
تو تمہیں کیا مرتا تو میں مرتانہ نجانے وہ اس کے لبوں سے کیا سننا چاہتا تھا ۔
میرے بابا سائیں کہتے ہیں اس دنیا میں عورت کا اس کے سر کے سائیں سے زیادہ اور کوئی اپنا نہیں ہوتا اگر سر کا سائیں ساتھ نہ ہو تو عورت کی کوئی پہچان نہیں اگر آپ کو کچھ ہو جاتا تو میرا سب کچھ ختم ہو جاتا وہ اس کی شرٹ اتراتی اپنی بات مکمل کر چکی تھی ۔
جب کردم نے ایک ہاتھ سے پکڑ کر اسے اپنے قریب کر لیا شاید اسے اس کا جواب مل گیا شاید وہ یہی سننا چاہتا تھا
اس کے لئے بہت عزیز ہو گئی تھی وہ اس کی محبت تھی لیکن ایک ہفتہ پہلے جوحرکت سب کے سامنے اس نے کی تھی اس کے بعد کردم شاہ اس سے محبت نہیں بلکہ عشق کرنے لگا تھا ۔
کردم شاہ نے اس کے سست پڑتے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھنا چاہا۔
میں کر رہی ہوں نہ آپ کا زخم دکھ جائے گا وہ تیزی سے بولی پھر نظراٹھا کر اس کے چہرے کی طرف دیکھا جہاں آج سختی ڈھونڈنے سے بھی نہیں مل رہی تھی ۔
وہ کردم سائیں آپ کو تکلیف ہوگی نا تو۔۔۔۔۔تو اسے سمجھ نہ آیا کہ وہ کیا کہے ۔
تو تمہیں رونا آئے گا کردم نے اپنی طبیعت کے برخلاف جاکر بے فضول بات کی تھی ۔ دھڑکن اسے دیکھنے لگی ۔
تم رو کیوں رہی تھی دھڑکن ۔
تب رونا آگیا تھا دھڑکن نے سرجھکا کر آخری بٹن کھولا ۔
کیوں رونا آگیا تھا ۔۔۔؟کردم نے دھڑکن کا چہرہ پر ہاتھ کی انگلی کی مدد سے اوپر کیا ۔
ایک ہفتہ پہلے جو کچھ ہوا اس کے بعد اس میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ وہ اس کا سامنا کر پاتی وہ آہستہ سے قدم واپس کمرے سے باہر کی طرف اٹھانے لگی ۔
اگر آہی گئی ہو تو آؤ یہ شرٹ اتارنے میں مدد کرو اس کی قسمت میں ہی اس شخص سے دور جانا نہیں لکھا تھا ۔
وہ۔ آہستہ آہستہ قدم اٹھاتی اس کی پیچھے آ گئی اسے پھر سے رونا آنے لگا ۔
کردم شاہ ڈریسنگ ٹیبل کے ساتھ ٹیک لگا کر تھوڑا ساجھکا تاکہ دھڑکن آسانی سے اس کی شرٹ کے بٹن کھول سکے ۔
وہ اپنی آنکھوں کی نمی چھپائے سر جھکا کر اپنے کام میں مصروف ہو گئی ۔
ایک ہفتے سے شوہر کمرے میں پڑا ہے اسے گولی لگی ہے اور محترمہ کمرے میں ہی تشریف نہیں لا رہی تھی وہ باقاعدہ اسے سناتے ہوئے بڑبڑایا۔
اس کے لفظوں سے دھڑکن کے آنسو روکنا مشکل ہوگیا ۔
لیکن وہ کچھ نہ بول پائی۔
وہ جس دن سے اس کے نکاح میں شامل ہوئی تھی
دھڑکن کسی مجرم کی طرح نظریں جھکا ان کے سامنے آگئی ۔
رخصتی ہوچکی ہے تمہاری اور یہ بات ہمیں بار بار تمہیں بتانے کی ضرورت نہ پڑے آج سے بلکہ ابھی سے تم اپنے شوہر والے کمرے میں جاکر رہوگی ۔
کیونکہ میرا نہیں خیال کہ تم اپنے شوہر کی اجازت سے دوسرے کمرے میں رہ رہی ہوآئی بات سمجھ میں ان کے روعب دا لہجے کے سامنے آج دھڑکن بھی سہم کر رہ گئی ۔
جی دادا سائیں وہ کہتی فور سیرھیوں کی طرف جانے لگی ۔
اور سیڑھیوں کے اوپر کھڑی اب دادا سائیں کو پلٹ کر دیکھا ۔
اس کا رخ بائیں جانب تھا جب دادا سائیں نے سے دوبارہ پکارا ۔
کردم سائیں کا کمرا اس طرف ہے دادا سائیں کے غصے سے گھورنے پر وہ فورا نہیں اپنا رستہ بدلتی کردم کے کمرے کی طرف چل دی
❤
یا اللہ کردم سائیں سوگئے ہوں وہ دل سے دعا مانگتی کمرے میں داخل ہوئی
جب دیکھا وہ آئینے کے سامنے کھڑا شرٹ اتار رہا تھا ۔
اس نے ان سے بس اتنا کہا تھا کہ دھڑکن کو اس کے حال پر چھوڑ دیا جائے ۔اور اس نے یہ بھی کہا تھا کہ کردم کی وجہ سے دادا سائیں دھڑکن سے ناراضگی نہ بنائیں
وہ جو کچھ کر رہی ہے اس کے پیچھے ایک وجہ ہے اور جلد ہی وہ خود ہی آکر کردم کو بتائے گی
❤
کردم کو واپس آئے ایک ہفتہ گزر چکا تھا لیکن دھڑکن اب بھی اس سے ملنے نہ گئی وہ اس کے غصے کو ٹھیک سے سمجھ میں رہی تھی
اب مقدم اورجنید روز اسے باہر واک بھی کروانے لے کے جا رہے تھے لیکن دھڑکن اس کے سامنے بھی نہیں آرہی تھی
دھڑکن کو نیند نہیں آ رہی تھی جب وہ اٹھ کر باہر آ گئی وہ سیڑھیوں پر یہ کھڑی تھی جب اسے نیچے ٹی وی کے سامنے دادا سائیں بیٹھے نظر آئیں ۔
اس نے وہیں سے واپس جانا چاہا جب داداسائیں نے اسے دیکھ لیا
سنو لڑکی یہاں نیچے آؤ وہ غصے اور روعب سے بولے تھے
تائشہ نےاسے بہت کچھ آکر بتایا کہ دھڑکن کو اس کی اتنی پروانہیں ہے کے کمرے میں آکر کا حال بھی پوچھ لے بلکہ اسے اسی کمرے میں رہنا چاہیے یے ۔
دھڑکن کو یہ سمھجنا چاہیے کہ اس کے رخصتی ہوچکی ہے اور اب سے ساری زندگی اس کے ساتھ اسے کمرے میں رہنا ہے لیکن دھڑکن کو تو اس بات کی پرواہ ہی نہ تھی تائشہ کے مطابق ۔
جبکہ تائشہ سے اسے دھڑکن کی ساری خبریں مل رہی تھی کیونکہ اس کا کمرے سے باہر نکلنا بھی بند کر دیا گیا تھا دھڑکن کی لاپرواہی دیکھتے ہوئے دادا سائیں اس کے لیے ایک نرس کا انتظام کرنا چاہا ۔
جس پر اس نے صاف کہہ دیا کہ وہ ایک غیر لڑکی کو اپنے گھر میں یا کمرے میں کبھی نہیں گھسنے دے گا ۔
اسی لئے دادا سائیں نے دھڑکن سے بات کرنی چاہیے تو اس کے لیے بھی انہیں منع کر دیا
مقدم نے ان کی بات کاٹتے ہوئے کہا تھا ۔
اس کی نظروں میں کوئی سوال نہیں تھا کوئی شکایت نہیں تھی ۔بس ایک کل التجا تھی وہ خاموشی سے ان کے قریب سے اٹھ کر باہر چلا گیا
❤
اس وقت کردم کو بہت غصہ آرہا تھا اس نے اپنی ساری ناراضگی ختم کرکے خود دھڑکن کو اپنے کمرے میں آنے کے لیے بلایا تھا
لیکن وہ نہ آئی دو دن ہوچکے تھے اسے واپس آئے ہوئے لیکن دھڑکن نے تو اس کے کمرے میں آنا دور جھانک کر دیکھا بھی نہیں ۔
تائشہ ہر تھوڑی دیر میں اسے کبھی چائے تو کبھی کھانے کو کچھ دینے آپہنچتی ۔
اور جس کو یہ سب کچھ کرنا چاہیے جس کی یہ ساری ذمہ داری ہے وہ تو اس کے کمرے میں بھی نہ آئی ۔
دھڑکن اب تم جب چاہو گی تب ہی یہاں ہوگی میں تمہیں نہیں بلاؤں گا ۔
اسے اس پر بہت غصہ تھا لیکن اس کے باوجود بھی وہ اس سے ناراض نہ تھا
میرا مطلب ہے آپ پرانی ساری باتیں بھلا چکی ہیں نہ اس نے ان کے چہرے کو دیکھتے ہوئے پوچھا تو اس نے مسکرا کر ہاں میں گردن ہلائی
ہاں بالکل ٹھیک کہا ہے کسی نے اگر شادی شدہ بیٹے کو ہمیشہ کے لیے اپنا بنانا ہو تو پہلے بہو کو خوشدلی سے اپنا لو ۔جس طرح سے آپ نے کرلیا ۔
ورنہ آج کل کی دنیا میں بہو اور ساس کے بیچ میں جاری چپقلش کبھی کبھی اتنی خطرناک ہو جاتی ہے کہ مائیں اپنے بیٹے کو کھو دیتی ہیں یا بیویاں اپنے شوہروں کے دلوں سے اتر جاتی ہیں ۔اللہ سائیں نے اس دنیا میں کچھ رشتے ایسے بنائیں ہیں جو کبھی ایک دوسرے سے الگ نہیں ہو سکتے اور جب جینا مرنا ایک ہو تو کیوں نہ دکھ سے مرنے کی جگہ خوشی سے جی لیا جائے مقدم نے ان کی گود میں سر رکھ رکھتے ہوئے کہا ۔
ہاں بالکل میرا بھی یہی ماننا ہے
تو پلیز حوریہ سے نفرت نہ کریں میں اس سے بہت محبت کرتا ہوں
آگیا میرا چاند نازیہ نے اسے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے مسکرا کر کہا لیکن انہیں دیکھ کر وہ آج مسکرا بھی نہ پایا ۔
جی آگیا نازیہ نے نرمی سے اس کے ماتھے کو اپنے لبوں سے چھوا تھا ۔
کتنے کمزور ہوتے جارہے ہیں آپ مقدم سائیں لگتا ہے میری بہو آپ کو ٹھیک سے کھانے کا نہیں پوچھتی۔
ہاں بالکل ٹھیک کہہ رہی ہیں آپ اب آپ کی طرح کھانا تو نہیں بنا سکتی نہ لیکن کوئی بات نہیں آپ سکھا دیں گی نااسے۔ ۔۔
مقدم نے اس کے چہرے کو جانچتے ہوئے کہا وہ اپنی ماں سے شکایت نہیں کر سکتا تھا اور نہ ہی اس کا دل بدل سکتا تھا ۔
ہاں کیوں نہیں میں تو کل سے ہی اس کی کلاسیں شروع کر دونگی میرے بیٹے کو اچھا کھانا کھلائے اب تو اسی کے حوالے کردیا ہے اپنا چاند نازیہ نے مسکراتے ہوئے کہا ۔
اماں سائیں اب آپ کے دل میں حوریہ کے لیے کوئی بات تو نہیں ہے نا
جبکہ مقدم نے بے یقینی سے جاتی ہوئی اپنی ماں کو دیکھا تھا ۔
ایک سائیڈ پے ہونے کی وجہ سے وہ اسے نہیں دیکھ پائی تھی اور نہ ہی حوریہ نے اسے دیکھا تھا ۔
وہ زبردستی اپنے چہرے پر مسکراہٹ سجائے آگے بھرا میرا سوہنا ماہی یہاں کیا کر رہا ہے یقیناًمیرا انتظار کر رہا ہوگا مقدم نے آگے بھر کے اس کے ماتھے پر بوسہ دیا توحوریہ نے فورا اپنی آنکھیں صاف کرتے ہوئے مسکرا کراسے ویلکم کیا ۔
جی میں آپ کا ہی انتظار کر رہی تھی آپ جلدی سے فریش ہو کے آئیں میں کھانا تیار کرتی ہوں حوریہ نے تھوڑی دیر پہلے ہوئی ساری کاروائی چھپانے کی کوشش کی اور اسے فریش ہونے کے لیے بھیجا ۔
ہاں تم لگاؤ کھانا میں بس اماں سائیں کو سلام بول کے آتا ہوں وہ مسکراتے ہوئے اماں کے کمرے کی طرف چلا گیا
مجھے اس کی محبت یا بیوی سے کوئی مسئلہ ہے لیکن میں یہ بات نہیں بھلا سکتی کہ تمہاری ماں کی وجہ سے میں نے اپنے شوہر کو کھو دیا اور میرے شوہر کا قتل تمہارے باپ نے کیا ہے میرا بچہ ساری زندگی یتیم رہا تمہاری وجہ سے اور اب تم ساری زندگی کے لیے اس کی زندگی میں شامل ہو چکی ہو مامی کا انداز جتنا نرم تھا ان کے لفظ اتنے ہی حوریہ کو تکلیف دے تھے
حوریہ پلیز رونا بند کرو دیکھو مقدم کے آنے کا وقت ہو گیا ہے اس طرح سے تمہیں روتا دیکھ کر اسے تکلیف پہنچے گی ۔
دیکھو مجھے تم سے کوئی مسئلہ نہیں ہے تم صرف میرے بیٹے کی پسند ہو ۔
لیکن میرے لیے تم کچھ نہیں ہو۔اس لیے کوشش کرو کہ تم مجھے مخاطب نہ کرو کیونکہ پھر تمہیں میرے لفظوں سے تکلیف ہو گی اور کیا پتا کہ تم میرے بیٹے کو ہی مجھ سے چھین لو چائے کیلئے اٹھائے برتنوں کو واپس وہیں پر رکھ کر باہر نکل گئی
کردم جب سے گھر واپس آیا تھا سب ہی ریلیکس ہو چکے تھے کردم کی غیر موجودگی میں مقدم پر بہت کام آ گیا تھا وہ اپنا سارا کام ختم کرکے ابھی گھر واپس آیا تھا رات کے دس بج رہے تھے جب اس نے حوریہ کو کچن کچھ کرتے دیکھا ۔
ابھی وہ دروازے پہ ہی کھڑا تھا جب اس نے اپنی ماں کو بھی کچن کی طرف جاتے دیکھا ۔
ارے واہ ساس بہو دونوں ساتھ ساتھ وہ مسکراتے ہوئے کچن کی طرف آ گیا ۔
مامی آپ کو کچھ چاہیے تھا اس نے نازیہ کو کام کرتے دیکھ کر پوچھا وہ اپنے لئے چائے بنا رہی تھی ۔
دیکھو حوریہ تم کوئی چھوٹی یا نہ سمجھ بچی تو نہیں ہو جو اس بات کا اندازہ لگا سکو کہ مجھے تم سے بات نہیں کرنی ۔
دیکھوحوریہ مقدم میرے لیے بہت اہم ہے اس کے سامنے میں تم سے بات کرنے کی کوشش کرتی ہوں کیونکہ میں نہیں چاہتی کہ اسے کبھی بھی اس طرح سے محسوس ہو
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain