آپ مجھ پر اعتماد کر سکتی ہیں زارا کا انکار کرنا شام کو بالکل اچھا نہ لگا تھا
نہیں سر ایسی کوئی بات نہیں ہے میں تو بس ۔۔
اگر ایسی کوئی بات نہیں ہے تو میرے ساتھ چلنے میں کیا مسئلہ ہے دیکھیں آپ کی دوست بھی کافی لیٹ ہیں انہیں بھی جلدی گھر پہنچنا ہے اس لڑکی کی باتوں سے اندازہ لگا چکا تھا کہ وہ اس کی کوئی فیملی ممبر نہیں بلکہ دوست ہے
ذارا نے ایک نظر اپنے ساتھ کھڑی لڑکی کو دیکھا جو اس کی ہاں کی منتظر کھڑی تھی
سارا نے اسے ہاں کا اشارہ کیا تو وہ خوش ہو گئی
وہ بس جلد از جلد گھر جانا چاہتی تھی
ویسے تیرے سر بہت ہینڈسم ہیں وہ گاڑی میں بیٹھتے ہوئے سرگوشی نما آواز میں بولی
ہینڈسم تو ہیں زارا نے خوشی سے کہا
شاٹ اپ تو ایسا نہیں بول سکتی تمہارے ٹیچر ہیں وہ اسے گھورتے ہوئے شرارتی انداز میں بولی تو زارا بھی مسکرا دی
آئیے میں آپ کو آپ کے گھر ڈراپ کر دیتا ہوں ۔ویسے بھی بہت اندھیرا ہو رہا ہے ۔
تھینک یو سو مچ سر ابھی گاڑی ٹھیک ہو جائے گی زارا نے معذرت کرنا چاہی
اس طرح سے وہ کسی کے ساتھ گھر تو نہیں جا سکتی تھی جب کہ اس کے گھر والوں نے اسے ڈرائیور کے ساتھ بھیجا ہوا تھا
ڈرائیور چاچا ان کے گھر کے بہت پرانے ڈرائیور تھے اور ان کے گھر والوں کے لئے کابل اعتماد بھی
زارا چلو نا گھر چلتے ہیں یار میرے گھر والے انتظار کر رہے ہوں گے ذارا کی سہیلی بولی جو کہ ایسی کے محلے میں رہتی تھی ۔
کچھ ہی دن میں اس کی شادی ہونے جا رہی تھی اور وہ آجکل بازاروں کے چکر کاٹنے میں مصروف تھی
اس وقت وہ بیوٹی پارلر سے آئی تھی ان کی اپوائنمنٹ کافی لیٹ تھی جس کی وجہ سے وہ اتنی لیٹ ہوگئی اور پھر راستے میں گاڑی خراب ہوگئی
ذارا میں کوئی اجنبی انسان نہیں ہوں
لیکن پھر بھی زارا سے بات کرنے کا کوئی نہ کوئی بہانہ تو چاہیے تھا
شام سر کیسے ہیں آپ ذارا نے مسکراتے ہوئے کہا دو دن پہلے جب شام نے اس لڑکے کے موبائل سے اس کی ساری تصویریں ڈیلیٹ کر کے اسے یقین دلایا تھا کہ اب وہ لڑکا اسے بلیک میل نہیں کرے گا وہ اسی دن سے اس کا شکریہ ادا کرنا چاہتی تھی
لیکن اسے موقع ہی نہیں ملا
جی میں یہاں سے اپنے گھر جا رہا تھا ۔آپ کو کھڑے دیکھا تو پوچھنے کے لئے رک گیا سب خیریت ہے نا ۔
جی سر سب خیریت ہے ۔وہ دراصل ہم شاپنگ کے لیے آئے تھے کہ گاڑی خراب ہوگئی
اور ایسی منحوس جگہ ہے یہاں پر سروس بھی نہیں کہ گھر میں فون کرکے ہی بتا دوں ڈرائیور چاچا کب سے گاڑی ٹھیک کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن شاید نہیں ٹھیک ہوگی زارا نے مایوسی سے کہا
ارے اس میں پریشان ہونے والی کونسی بات ہے ۔۔۔۔
میں_عاشق_دیوانہ_تیرا
#قسط_15
❤
اندھیرا دھیرے دھیرے چھا رہا تھا ابھی شام اپنے گھر واپس جا رہا تھا
جب اچانک اسے سڑک کے کنارے زارا کھڑی نظر آئی
ذارا اس وقت یہاں کیا کر رہی ہے وہ حیرت سے سوچتا ہوا گاڑی کو آگے بڑھا کر اس کے سامنے لے آیا
ویسے تو آج کل اسے ہر طرف زارا ہی نظر آتی تھی ۔لیکن اس وقت اسے زارا کے ساتھ ایک اور لڑکی بھی کھڑی نظر آئی اور کچھ فاصلے پر ایک ڈرائیور گاڑی ٹھیک کرنے میں مصروف تھا
دونوں کے چہرے کے تاثرات اکتایت سے بھرپور تھے
شام نے گاڑی ان کے سامنے روکی اور دوسری طرف سے گاڑی کا شیشہ کھولتے ہوئے اپنے دل کے جذبات کو کنٹرول کیا اور ذرا سے جھک کر زارا سے یہاں رکنے کی وجہ پوچھنے لگا
خیر وہ تو اس کے سامنے تھی کہ گاڑی خراب ہوچکی ہے جس کی وجہ سے وہ یہاں سڑک کے کنارے کھڑی ہے
یہ ٹوٹل چار ٹیمیں ہیں جو کہ کراچی کے چار بڑے کالجز میں موجود ہیں سب سے بڑی ٹیم کا لیڈر زاوق حیدر شاہ تھا ۔
جس کی ٹیم میں شام حجاب اور زائم شامل ہیں۔شام کے بارے میں پتا کروایا ہے ہم نے اس کی کوئی فمیلی نہیں ہے جب کہ حجاب اور زائم کا ایک بیٹا بھی ہے
سر اگر آپ کے ہیں تو بچے کو اٹھا لیں سدرہ اس کے سامنے بیٹھتے ہوئے بولی جب کنگ نے نفی میں سر ہلایا
مجھے میرا پیسہ واپس چاہیے اور اپنا پیسہ واپس حاصل کرنے کے لئے مجھے درخت کے پتوں کو نہیں بلکہ جڑروں کو پکڑنا ہوگا ۔
ان کے گروپ کا لیڈر زاوق ہے جس کی کمزوری کو میں جڑ سے پکڑ چکا ہوں اب بس اکھارنا باقی ہے کنگ نے ایک بلندقہقہ لگاتے ہوئے کہا
لیکن اس سب کے باوجود بھی اس نے بہت ہمت اور حوصلے سے کام لیا تھا وہ رحمان صاحب کے ساتھ کوئی بدتمیزی نہیں کرنا چاہتا تھا
اسی لئے خاموشی سے گیا اور اپنی احساس کو اپنے ساتھ لے آیا بنا کسی سے کچھ کہے
وہ رحمان صاحب سے بالکل ملنا ہی نہیں چاہتا تھا لیکن پھر بھی ان کے راستے میں آئے جسکی وجہ سے وہ کچھ حد تک ان کے ساتھ بدتمیزی کر گیا تھا
لیکن اس کے لئے بھی انہوں نے ہی اسے مجبور کیا تھا
❤
سر میں نے ساری انفارمیشن نکال لی ہے آپ کا سارا پیسہ پاک آرمی سب کر چکی ہے
کراچی میں جتنے بھی کالجز ہیں جہاں ہمارے لوگ ہیں فل لوگوں نے سب سے بڑے کالج کو ٹارگٹ کیا تھا ہر کالج میں چار لوگوں کی ٹیم ہے جو صرف اور صرف آئی ایس آئی والوں کے لیے کام کر رہی ہے
ان لوگوں کا مقصد ڈرگز کو ختم کرکے جوان نسل میں نشہ ختم کرنا ہے
وہ ہر تھوڑی دیر کے بعد اس کے چہرے کو دیکھتا جہاں باپ کا ساتھ نا پانےکا غم تھا
وہ بھی اس کے درد میں برابر کا شریک تھا وہ بھی اس کے اپنے تھے
بے شک دولت کے لئے ہی سہی لیکن رحمان نے ایک باپ کی طرح اس کے سر پہ ہاتھ رکھا تھا وہ دل سے ان کی عزت کرتا تھا اور احساس کے والد ہونے کی وجہ سے وہ انہیں اپنے والد کے مقام پر رکھتا تھا
لیکن ان سے اسے یہ امید نہ تھی کہ وہ اپنی بیٹی کے ساتھ اس طرح سے کریں گے
اس سے ان کی حرکت پر غصہ تو بہت آیا لیکن اس نے انہیں کچھ نہیں کہا تھا وہ ان کی بیٹی تھی اس کے بارے میں بہتر سوچنے کا وہ حق رکھتے تھے
لیکن اب نہیں کیوں کہ اب وہ زاوق کی بیوی بھی تھی وہ کیسے اسے دھوکے میں رکھ کر پیپر سائن کروانے کی کوشش کر رہے تھے ۔
یہ بات اسے عائشہ نے بتائی تھی اگر وہ غلطی سے بھی ان پر سائن کر دیتی توزاوق کا تو سب کچھ لٹ جاتا
وہ ایک نظر رحمان صاحب کو گھورتا کمرے کی طرف جانے لگا تبھی احساس باہر آئی
سادہ سے سرخ جوڑے میں سیٹ جالی کا سرخ دوپٹہ کیے وہ دلہن تو نہیں لیکن دلہن سے کم بھی نہیں لگ رہی تھی
جیسے زاوق نے سوچا تھا بالکل سادہ سی بنا کسی آزائش کے بھی وہ قیامت ڈھا رہی تھی۔
زاوق نے مسکرا کر ایک نظر اس کے چہرے کو دیکھا اور اس کا ہاتھ تھام کر عائشہ کے سامنے لے آیا جس کے گلے لگ کر وہ پھوٹ پھوٹ کر رودی
جبکہ رحمان صاحب اپنی ہر کوشش کو ناکام ہوتے دیکھ کر اپنے کمرے میں چلے گئے
جب کہ وہ آنسو بہاتی ہے اپنی ماں کی دعاوں کے سہارے زاوق کے کندھے کا سہارا لیتے رخصت ہو چکی تھی
❤
آج وہ بے انتہا خوش تھا اور اپنی یہ خوشی وہ احساس کے ساتھ شئیر کرنا چاہتا تھا لیکن احساس کو اس قدر اداس دیکھ کر وہ کچھ بھی نہ بول پایا سفر خاموشی میں کٹ گیا
آپ روکیں گے مجھے ۔۔۔وہ گھورتے ہوئے بولا جیسے کہہ رہا ہواگر دم ہے تو روک لو
وہ میری بیوی ہے اللہ کے سوا اس دنیا کی کوئی طاقت اسے مجھے یہاں سے لے جانے سے روک نہیں سکتی
پلیز راستے سے ہٹائیں میں بہت ضروری کام چھوڑ کے آیا ہوں ۔
آپ کی فضول بحث اور تکرار میں اپنا قیمتی وقت ضائع نہیں کر سکتا امی جان احساس کو بلایں وہ انہیں اگنور کرتے ہوئے بولا ۔
ایک باپ کی مرضی کے بغیر تم اس کی بیٹی کی رخصتی نہیں کر سکتے یہ کسی کتاب میں نہیں لکھا وہ غصے سے بولے
اگر باپ اپنی بیٹی کا سودا کرنے پر آجائے تو ایک ماں حق رکھتی ہے اپنی بیٹی کی زندگی کا بہترین فیصلہ کرنے کا عائشہ اس کے سامنے ڈال بن کر کھڑی ہو گئی
احساس کو یہاں سے لے جاؤ وہ زاوق کو دیکھتے ہوئے بولی
یقین کرے مجھے آپ کی اجازت کے علاوہ موجود کسی کی اجازت درکار نہیں ہے
جس کی وجہ سے اس کے باپ نے لالچ میں آتے ہوئے اس کی شادی اس کے ساتھ کرانے کا فیصلہ کیا
اس رخصتی میں اس کے باپ کی مرضی شامل نہیں تھی لیکن اس کی ماں اسے دلہن کی طرح رخصت کرنا چاہتی تھی اس کی ماں کی کچھ خواہشیں تھیں جنہیں وہ اس طرح سے ادھورا چھوڑ کر نہیں جا سکتی تھی
لیکن باپ کی مرضی کے بغیر اس طرح سے تیار ہوتے ہوئے بھی اسے بہت عجیب لگ رہا تھا
ابھی بھی اپنے کمرے میں سامان پیک کرنے کے بعد تیاری کر رہی تھی جب دروازے کی بیل بجی یقینا وہ آ چکا تھا
اس میں کوئی بہت شوخ تیاری نہ کی تھی بس سادہ سا سرخ رنگ کا سوٹ پہنا تھا اس کے ساتھ ایک کافی بھاڑی کام جالی کا ڈوپٹہ تھا
وہ اپنا بیگ اٹھا کر خاموشی سے باہر چلی آئی
❤
میں اپنی بیٹی کی رخصتی نہیں کروں گا خبردار جو تم نے میری بیٹی کو ہاتھ بھی نہ لگایا وہ غصے سے آگے بڑھتے ہوئے بولے
میں_عاشق_دیوانہ_تیرا
#قسط_نمبر_14
❤
احساس بہت عجیب سی کشمکش میں تھی
ایک طرف اسکا باپ تھا دوسری طرف اس کا شوہر وہ اپنے باپ کی مرضی کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھانا چاہتی تھی وہ تو اس رشتے میں اپنے والدین ماں باپ دونوں کی رضامندی چاہتی تھی
بابا ماما دور کمرے میں لڑرہے تھے جبکہ ماما نے اسے کمرے میں بھیجتے ہوئے یہ کہا تھا جاکر تم تیاری کرو
میں تمہیں ایک دلہن کی طرح اس گھر سے رخصت کرنا چاہتی ہوں
ما ماکے کہنے پر وہ اپنے کمرے میں آ گئی ان کی کمرےسے ابھی بھی آوازیں آ رہی تھیں
آج وہ اپنے ماں باپ کی لڑائی کی وجہ بن گئی تھی
اس کا باپ چند پیسوں کے لیے اس کی زندگی مشکل میں ڈالنے کو تیار تھا
وہ آدمی احساس کے باپ کو گاڑی بنگلہ اور نہ جانے کیا کیا دینے کا وعدہ کر چکا تھا
سب کچھ ٹھیک تو ہے امی جان ان کی بات سن کر وہ حیران ہوا تھا
کچھ بھی ٹھیک نہیں ہے جو میں نے کہا ہے تم کرو عائشہ نے کہتے ہوئے فون بند کر دیا جب کہ وہ حیرانگی سے اپنے فون کو دیکھنے لگا
یہ تم ٹھیک نہیں کر رہی عائشہ اپنی بیٹی کے ساتھ کیسے زیادتی کر سکتی ہو تم ۔۔۔رحمان غصے سے بولے
زیادتی اس کء ساتھ تب ہوگی جب میں زاوق کے ساتھ دھوکے سے اس کی طلاق کروا دوں۔ نا تو میں ایسا کروں
گی اور نہ ہی میں ایسا کچھ ہونے دوں گی تھوڑی ہی دیر میں زاوق یہاں آنے والا ہے بہتر ہوگا کہ اچھے باپ کی طرح اپنی بیٹی کو رخصت کر دیں ورنہ احساس ویسے بھی اس کے نکاح میں ہے وہ۔اسے لے جانے کا حق رکھتا ہے
عائشہ اس کے غصے سے ڈرے بغیر بولی اور احساس کا ہاتھ تھام کر اسے دوسرےکمرے میں لے گئی
❤
لیکن اب کیوں رحمان اب تو وہ آپ سب کچھ دینے کو تیار ہے یہاں تک کہ اپنے ماں باپ کی آخری نشانی تک آپ کے نام کرنے کے لیے تیار ہے۔ پھر ۔۔۔۔
نہیں چاہیے مجھے اب چھوٹا سا گھر اب تو میں حویلی لوں گا حویلی ۔ رضوان مرزا کو میری بیٹی پسند آگئی ہے اور وہ اس سے نکاح کرنا چاہتا ہے رضوان مرزا کوئی چھوٹا موٹا نام نہیں ہے ارے مہرانی بنا کر رکھے گا میری بیٹی کو اور کہاں ہم اس زاوق کے پیچھے پڑے ہیں
رحمان صاحب ابھی نہ جانے کیا کیا اور کہتے کہ عائشہ نے موبائل نکالتے ہوئے زاوق کا نمبر ملایا
وہ بہت کم اسے فون کیا کرتی تھی ۔عائشہ کا فون آتا دیکھ کر زاوق مسکرایا
السلام علیکم امی جان کیسی ہیں آپ ۔۔۔؟زاوق نے سارا کام کاج چھوڑتے ہوئے سب سے پہلے عائشہ کا فون اٹھایا
زاوق آکر اپنی امانت لے جاؤ ابھی اور اسی وقت میں احساس کی رخصتی کرنا چاہتی ہوں۔
بالکل صحیح کیا ہے میں نے احساس یہ پیپرز کسی بیوٹیشن کورس کے نہیں تیری اور زاوق کی طلاق کے ہیں تیرے بیوٹیشن کورس کے نام پر جو صرف تیرے بابا دکھاوے کے لیے لائے ہیں یہ دھوکے سے تمہاری اور زاوق کی طلاق کروانا چاہتے تھے
اگر میں وقت پہ نہ آتی تو نہ جانے کیا ہو جاتا ۔
عائشہ نے رحمان صاحب کو گھورتے ہوئے احساس کو ساری بات بتائی
تو وہ بے یقینی سے اپنے باپ کو دیکھنے لگی
ہاں تو کیا غلط کر رہا ہوں میں ایک اچھی زندگی کے لیے یہ قدم اٹھانا بہت ضروری ہے
اب کیا ساری زندگی میں اس آدمی کے ساتھ اپنی بیٹی کو باندھ دوں جس کا اپنا نہ کوئی بھروسا ہے اور نہ ہی اس کی زندگی کا
مجھے میری بیٹی کے لیے ایک ایسا انسان چاہیے جو اسے ہمیشہ خوش رکھے
ہر حالات میں اس کے ساتھ رہے پیسے دولت کسی چیز کی کمی نہ ہو میری بیٹی کو ۔رحمان بنا شرمندہ ہوئے بولے
ہاں بیٹاتو نح کہا تھا نہ کہ بیوٹیشن کا کورس کرنا چاہتی ہے اس کے پیپرز لینے گیا تھا میں
بس جلدی سے ان پر سائن کر دے تاکہ میں جمع کراوں پھر جلدی ہی تیرے پیپر شروع ہوجائیں گے اور اس کے بعد گھر پہ فارغ بیٹھنے سے بہتر ہے کہ تو کچھ سیکھ لے ویسے بھی تو لڑکیوں کو بڑا شوق ہوتا ہے نا یہ کورس کرنے کا
رحمان نے پینسل کے ہاتھ میں پکڑ آتے ہوئے کہا
اس سے پہلے کہ وہ ان پر سائن کرتی کسی نے اس کا ہاتھ تھام لیا
اپنے سامنے عائشہ کو کھڑے دیکھ کر وہ اس کا چہرہ دیکھنے لگی
ؓماما بابا بیوٹیشن کورس کے پیرز لائے تھے میں وہی سائن کر رہی تھی احساس نے مسکراتے ہوئے بتایا لیکن عائشہ نے اس کے ہاتھوں سے پیپرز لے کر دو ٹکڑوں میں تقسیم کر دیے
ماما آپ نے کیا کیا احساس انہیں حیرانگی سے دیکھتے ہوئے پوچھنے لگی
جب کہ وہ غصے سے رحمان صاحب کو دیکھ رہی تھی
میں نے کہا جاؤ یہاں سے شام نے غصے سے گھورتے ہوئے کہا تو وہ نظر جھکا گئی
پر فوراً وہاں سے اپنی کلاس کی طرف چلی گئی
❤
احساس کو آتے ہی بابا نے اپنے کمرے میں بلا لیا
تو فورا ہی چینج کر کے سب سے پہلے بابا کے کمرے میں چلی گئی ماما تو گھر پہ نہیں تھی پڑوس کی آنٹی کی طبیعت زیادہ خراب ہو جانے کی وجہ سے وہ انہیں دیکھنے چلی گئی تھی
آبیٹا اندر آ جا اسے دروازے پر کھڑا دیکھ کر بابا نے مسکراتے ہوئے اسے اندر بلایا
جی بابا آپ نے بلایا مجھے ان کے قریب بیٹھتے ہوئے بولی
ہاں یہ کام تھا ان پیپرز پر سائن کردے بڑے ضروری کاغذات ہے تیرے سائن چاہیے ان پر
بابا نے پیپر سامنے کرتے ہوئے کہا
بابا یہ کس چیز کے پیپرز ہیں ۔۔۔بیوٹیشن کلاس کا ایڈمیشن فارم اس نے پیپر اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوئے پیپر پر لکھی تحریر پڑھی
پہلے تم لوگوں نے بیس ہزار کا کہا جس کا انتظام میں نے بہت مشکل سے کیا تھا پھر تم نے پچاس ہزار مانگے وہ بھی میں نے جیسے تیسے کر کے دے دیے اب پلیز تصویریں ڈلیٹ کر دو میرے پاس مزید کوئی پیسے نہیں ہیں زارا نے ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا لیکن سامنے کھڑے دونوں لڑکے اس کی حالت پر ہنسے جارہے تھے
ایسے کیسے بس کردے بے بی تم تو سونے کا انڈا دینے والی مرغی ہو ایسے ہی تھوڑی نہیں جانے دیں گے
ابھی تو یہ شروعات ۔۔۔۔
چٹاخ۔ ۔۔۔اس کے الفاظ ا منہ میں ہی دھرے رہ گئے جب شام کا زور دار تھپڑ اس کے منہ پر لگا
کون سی شروعات ہاں کس بات کی شروعات ہے تیرے اپنے گھر میں ماں بہن نہیں ہے کیا بے غیرت انسان
تم جاؤ یہاں سے اس نے ایک اور زور دار تھپڑ اس لڑکے کو مارتے ہوئے زارا کو جانے کا اشارہ کیا
لیکن سر میرے فوٹوز ۔۔۔۔۔
اسی لئے صرف پچاس ہزار مانگیں ہم نے تم سے۔ لیکن اب تمہیں ان تصویروں کو ہم سے ڈیلیٹ کروانے کے لیے تمہیں ہمہیں ایک لاکھ روپیہ دینا ہوگا
آخر تم نے ہم سے پیسے چھپا کر رکھے ہوئے تھے
میں نے کچھ نہیں چھپایا یہ تو میں نے احساس سے لئے ہیں دیکھو میرے پاس اور بالکل بھی پیسے نہیں میں نے ان کا بھی بہت مشکل سے انتظام کیا ہے پلیز تمام تصویریں ڈیلیٹ کر دو
زارا نے ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا دو ماہ پہلے کالج میں ہونے والی پارٹی میں زارا نے بہت ساری تصویریں بنوائی تھی لیکن اسے یہ اندازہ ہرگز نہ تھا کہ ان تصویروں کو اس طرح سے استعمال کیا جائے گا
کچھ بے ہودہ قسم کی تصویروں پر زاراکی جھوٹی فوٹو لگا کر اسے بلیک میل کیا جارہا تھا اور یہ کرنے والے کوئی اجنبی نہیں بلکہ اسی کے کلاس کے دو لڑکے تھے جس کی وجہ سے زیادہ بہت پریشان تھی
آج گھر آئی گی تو احساس سےکاغذات پر سائن لے لوں گا
اور ایک بار طلاق نامے پر سائن ہو جائے تو دنیا کی کوئی کوٹ کوئی کچہری ان کی طلاق اور روک نہیں سکے گی وہ اپنے ارادے بتاتا ہوں آکر سے باہر نکل گیا جب کہ عائشہ بہت پریشان ہو چکی تھی
❤
دیکھو یہ لو پیسے اور پلیز تصویریں ڈیلیٹ کر دو ذارا نے ہاتھ باندھتے ہوئے اس کی منت تھی
ارے زارا ڈارلنگ تم نے تو کہا تھا کہ میرے پاس پیسے نہیں ہیں مطلب ہم سے ہوشیاری جانتی نہیں ہو کیا کہ اگر یہ تصویر تمہاری ہم نے آگے پہنچا دیں تو تمہیں کتنا نقصان ہوگا
ذرا سوچو یہ تصویریں اگر میں نے تمہارے باپ یہ تمہارے بھائی کو دے دیں وہ تو تمہارا قتل ہی کردیں گے
ایسے کیسز میں کوئی یہ دیکھنے کی غلطی نہیں کرتا کی تصویر اصلی ہے یا فیک اور یہ سب کچھ جاننے کے بعد بھی تم نے ہم سے جھوٹ بولا کہ تمہارے پاس پیسے نہیں ہیں
عائشہ نے سمجھاتے ہوئے کہا
اب نہیں چاہیے مجھے اس کا یہ مکان اور اس کی وہ دولت کچھ نہیں چاہئے مجھے زاوق شاہ کا
کیونکہ اب میرے پاس اس گھر اور راوق کی دولت سے بھی زیادہ پیسہ ہو گا اتنا امیر شخص ہے دولتمند کرورروں ربوں کا مالک اس کے سامنے تو زاوق کچھ بھی نہیں ۔
وہ چاہے تو کھڑا کھڑا پورا ملک خرید سکتا ہے
ارے صرف حق مہر میں کروڑوں دے گا
بدبخت عورت سوچ اپنی بیٹی کے بارے میں ایش کرے گی رحمان اسے سمجھاتے ہوئے بولا
ہماری بچی کو ایش نہیں کرنی اس زاوق کے ساتھ ایک آسان زندگی گزارنی ہے خدارا آپ یہ ضد چھوڑ دیں
عائشہ اسے سمجھاتے ہوئے بولی
بند کر اپنی بکواس میں اتنی کروڑوں عربوں کی جائیداد چھوڑ دوں صرف اس کے لیے اتنا بے وقوف نہیں ہوں میں وہ میری بیٹی ہے اور میں جہاں چاہوں گا اس کی شادی کروں گا کوئی مجھے روک کر دکھائے
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain