وہ آنکھ دباتا ہوا ایک بار پھر سے اس کے قریب آیا جب کہ اسے ایک بار پھر سے اپنے قریب آتا دیکھ کر احساس نے فوراً گاڑی کا دروازہ کھولا اور باہر نکل گئی
جبکہ وہ اسے اس طرح سے بھاگتے دیکھ کر مسکرایا تھا
❤
ذاوق کسی قیمت پر احاس اس کو طلاق نہیں دیےگا
عائشہ پیپرز ایک طرف پھینک کر اٹھ کر جانے لگی
وہ کون ہوتا ہے میری بچی کو طلاق نہ دینے والا غلطی ہوگئی ہم سے جو اس کے ساتھ نکاح کر دیا لیکن اب مزید نہیں میں یہ غلطی دہراؤں گا نہیں بلکہ اپنی بیٹی کی شادی کسی بہت امیر انسان سے کر آؤں گا اسے کہو کہ جلد سے جلد میری بیٹی کو فارغ کریں رحمان غصے سے بولے۔
رحمان کیا ہوگیا ہے آپ کو اب تو وہ مکان بھی آپ کے نام کرنے کو تیار ہے ساری جائیداد دینے کو تیار ہے پھر کیوں آپ یہ سب کچھ کر رہے ہیں اب طلاق ضروری تو نہیں وہ آپ کی شرط مان تو رہا ہے
گڈ تمہیں ایسے ہی میری ساری باتیں ماننی چاہیے خیر تمہیں روز مجھے کس کرنا ہوگا وہ اسے شاباشی دیتے ہوئے بولا جب کہ اس کی بات سننے کے بعد احساس کا منہ کھل چکا تھا
تمہارا تین ماہ کا وقت آج سے سٹارٹ ہو رہا ہے ۔
وہ مسکراتے ہوئے اس کے قریب آیا
مجھے یہ شرط منظور نہیں ہے وہ احتجاج کرتے ہوئے بولی
دیکھو اب تم منظور کر چکی ہواب کچھ نہیں ہو سکتا اسی لئے کہتا ہوں پہلے بات کو ٹھیک سے سنا کرو پھر قبول کیا کرو چل اب زیادہ ٹائم نہیں ہے میرے پاس
یا تو پیسے یہاں واپس رکھ دو یا میری شرط کو قبول کرو
اس کے انداز سے وہ یہ تو اندازہ لگا چکا تھا کہ زارا کو پیسوں کی جلدی ضرورت ہے اسی لیے وہ پیسے چھوڑ کر نہیں جانے والی تو کیوں نہ وہ اس موقع سے فائدہ اٹھا لے اب اتنا حق تو اس کا بنتا تھا
آپ میرا یہ بریسلیٹ رکھ لے وہ اسی کا پہنایا ہوابریسلیٹ اسے دکھاتے ہوئے بولی
تم ہاتھ سے نکالو تو سہی میں ہاتھ نہ کاٹ دوں تمہارا اسے بریسلیٹ کا ہک نکالتے ہوئے زاوق نے فورا اس کا ہاتھ تھام کر سے آنکھیں دکھائی
بیس لاکھ کی مالیت کا بریسلیٹ وہ ایک سیکنڈ میں 50 ہزار کے لئے اتارنے کو تیار تھی
تو پھر میں آپ کو کیا دوں جس سے آپ کو یقین ہو جائے کہ میں یہ پیسے آپ کو واپس دے دوں گی ۔احساس اسے دیکھتے ہوئے بولی جب کہ اندر ہی اندر اسے اس طرح سے دیکھ کر کھول اٹھی تھی وہ اسے اتنا بھوکا ٹائپ کبھی بھی نہیں لگا تھا
تم ایسا کرو ان پیسوں کے بدلے تم روز میرا ایک کام کر دیا کرو تین ماہ تک
مجھے منظور ہے احساس بنا سوچے سمجھے بولی جبکہ اس کے انداز پر وہ پھر سے مسکرایا تھا
یہ لو اپنی دوست کو دو کہ وہ اپنا مسلہ حل کر سکے اس اس نے پیسے دیتے ہوئے کہا
تھینک یو زاوق میں آپ کے پیسے جلدی واپس کر دوں گی اس سے یقینا زاراکی پرابلم دور ہو جائے گی وہ خوشی خوشی بولی
لیکن میری پریشانی بن جائے گی وہ اس کا حسین خوشی سے چہک کا چہرہ دیکھتے ہوئے بولا
آپ کی کون سی پریشانی زاوق ۔۔۔۔۔ وہ اسے دیکھ کر پوچھنے لگی کروڑوں کی جائیداد کا اکلوتا وارث 50ہزار سے اسے کیا فرق پڑتا تھا
ہاں میرے پیسے جا رہے ہیں اور نہ ہی کوئی گارنٹی دی جارہی ہے واپسی کی اور نہ ہی تم نے اپنی کوئی چیز میرے پاس ادھار رکھی ہے جس پر میں تم پر یقین کرکے یہ پیسے دے دو ں۔ وہ بھی سیریز انداز میں بول رہا تھا
اب وہ بات بات پر کہہ رہی تھی کہ وہ پیسے سے لوٹا دے گی تو وہ بھی تو موقع کا فائدہ اٹھا ہی سکتا تھا
ٹھیک ہے لیکن اگر مجھے وقت پر میرے پیسے نہ ملے تو میں اپنے طریقے سے وصول کروں گا ۔
وہ مسکراہٹ دبا کر اسے دیکھتے ہوئے بولا جبکہ احساس کو تو اس وقت صرف اپنے دوست کی پرواہ تھی۔
ٹھیک ہے تم جاؤ میں تھوڑی دیر میں پیسے بھیج دیتا ہوں تمہیں وہ مسکرا کر آگے بڑھ گیا
جبکہ وہ واپس زارا کے پاس جا چکی تھی
❤
چھٹی سے تھوڑی دیر پہلے زاوق نے احساس کو کالج کے پیچھے بلایا تھا جہاں وہ اپنی گاڑی کھڑی۔ کیے اس کا انتظار کر رہا تھا وہ اپنے پاس کبھی کیش نہیں رکھتا تھا اسی لئے پیسے لانے کے لئے اسے بینک جانا پڑا تھا
ویسے تو شام نے بھی اسے آفر کی تھی کہ وہ پیسے خود دے دے گا ویسے بھی مسئلہ زارا کا ہے اور زارا کا مسئلہ اس کا مسئلہ ہے
لیکن زاوق نے کہا کہ پیسے زارا نے نہیں بلکہ اس کی بیوی نے مانگے ہیں اسی لیے یہ مسئلہ ہے تو شام خاموش ہو گیا
ایک سٹوڈنٹس کا سارا خرچہ اس کے والدین اٹھا رہے تھے وہ اتنے پیسوں کا کیا کرے گی وہ سوچ میں پڑ چکا تھا
پتا نہیں بس اسے چاہیے اس نے مجھ سے مدد مانگی ہے اور میں اس کی مدد کرنا چاہتی ہوں ۔۔
دو ڈھائی ہزار تو میرے پاس ہیں باقی آپ دے دیں میں آہستہ آہستہ آپ کو واپس کر دوں گی ۔
اس کا انداز صاف ادھار مانگنے والا تھا اور اس کے انداز پر وہ مسکرائے بنا نہ رہ سکا
ٹھیک ہے تم مجھ سے پیسے لے لو لیکن کتنا آہستہ آہستہ واپس کرو گی یہ بتا کر وہ اپنی ہنسی دبا کر بولا
افف کتنےلالچی شخص ہیں اتنی دولت کے مالک ہیں پھر بھی 50000 کے لئے مرے جارہےہیں کڑوس کہیں کے۔ وہ دل ہی دل میں بولی
تین مہینوں میں واپس کر دوں گی احساس کو پتا تھا کہ تین مہینے میں اس کے اس سال کا رزلٹ آجائے گا اور پھر وہ جو بھی کچھ مانگے کی ماما بابا سے وہ اسے دے دیں گے ۔
جب شام نے اسے جانے کا اشارہ کیا وہ شام کو دیکھتا ہوا احساس کی طرف آ گیا
سب ٹھیک ہے نہ وہ اسے گھبرائے ہوئے دیکھ کر پوچھنے لگا
زاوق وہ دراصل مجھے کچھ ۔۔۔۔۔۔اساس سے بولا نہ گیا اس طرح کی سچویشن اس کی زندگی میں پہلی بار آئی تھی
بولو احساس کیا بات ہےزارا پریشان کیوں ہے کیوں رو رہی تھی وہ اتنا ۔۔زاوق پھر سے پوچھنے لگا
اسےکچھ پیسوں کی سخت ضرورت ہے میں بابا یا ماما کو اس بارے میں نہیں بتا سکتی اور وہ بھی اپنے ماں باپ سے پیسے نہیں لے سکتی۔ اگر اسے پیسے نہیں ملے تو کچھ بہت برا ہو جائے گا ۔
احساس نے اداسی سے کہا
تم فکر مت کرو احساس بتاؤ مجھے کتنے پیسے چاہیے اسے زاوق نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا
پچاس ہزار ۔۔۔ احساس نے ایک نظر دور بیٹھی زارا کی طرف دیکھتے ہوئے بتایا
اتنے پیسوں کا کیا کرے گی وہ ۔۔۔؟
میں_عاشق_دیوانہ_تیرا
#قسط_ 13
❤
ذاوق اور شام نہ جانے کب سے ان دونوں کو باتوں میں مصروف دیکھ رہے تھے ایسا لگ رہا تھا کہ وہ اس سے وجہ جانے میں کامیاب رہی ہے لیکن وجہ جاننے کے بعد وہ خود بھی بہت پریشان ہو گئی تھی
اور اس کی یہی پریشانی شام کو پریشان کر رہی تھی
یار یہ لڑکی تو ہمیشہ ہنستی بولتی رہتی ہے اچانک اسے ہوا کیا ہے کہیں گھر میں کوئی مسئلہ نہ ہو شام کا دیہان باہر کی طرف تھا
آنے دےتیری بھابھی کو آکر بتائے گی کیا مسلہ ہے اس نے شام کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا
یار یہ لڑکی ہمیشہ ہنستی مسکراتی اچھی لگتی ہے وہ سمجھ چکا تھا زارا کی اداسی شام کو اچھی نہیں لگ رہی ۔شاید محبت ایسی ہی ہوتی ہے ایسی ہی محبت تو وہ بھی کرتا تھا اپنی احساس سے
تھوڑی دیر کے بعد وہ زارا کے قریب سے اٹھ کر اندر کی طرف آئی ۔
زارا اپنی آنکھیں صاف کرتے ہوئے ناکام سے مسکرانے کی کوشش کر رہی تھی کچھ تو تھا جوزارا کو بے حد پریشان کر رہا تھا اور اس کی یہی پرشانی شام دیکھ نہیں پا رہا تھا
❤
ذارا پریشان ہے لیکن اس بات کو لے کر وہ اس سے کہیں بار پوچھ چکی تھی
اور اب زارا یہاں سے اٹھ کر کہاں چلے گی وہ خود بھی نہیں جانتی تھی وہ تو اپنے نوٹس بنانے میں مصروف تھی
زاوق کو ان دونوں کی دوستی سے کوئی مطلب نہ تھا اسے تو مطلب تھا اپنے دوست سے تھاجس سے زارا کی بے چینی ہضم نہیں ہو رہی تھی
نوٹس سے زیادہ فلحال آپ کے دوست کو آپ کی ضرورت ہے وہ اس کے نوٹس بندکرتے سے کلاس سے باہر چلا گیا۔
ویسے بھی بریک ٹائم تھا وہ آسانی سے زارا سے کچھ بھی پوچھ سکتی تھی
جبکہ اجازت ملتے ہی احساس فورا اپنا سامان وہی پر پھینکتی باہر نکل آئی
اور وہ واپس شام کے قریب کھڑا ہو گیا
اور اب وہ دونوں ان دونوں کو ایک ساتھ بیٹھے بات کرتے دیکھ رہے تھے اتنے دور سے وہ کیا باتیں کر رہی تھی اسے سمجھ نہیں آرہا تھا
جب کہ وہ اس کے بات پر سر ہلاتا اندر چلا گیا
مس احساس زاوق شاہ کیا زارا آپ کی دوست ہے وہ اس کے ڈسک پر دونوں ہاتھ رکھتے ہوئے پوچھنے لگا اس وقت کلاس میں بہت کم اسٹوڈنٹ تھے اور وہ ان کے سامنے یہ سوال کیوں پوچھ رہا تھا احساس کو سمجھ ہی نہ آیا وہ تو بس اپنے نوٹس پر جھکی ہوئی تھیں جبکہ حجاب بھی اسی کو گھور رہی تھی
جی ہاں وہ میری بیسٹ فرینڈ ہے احساس نے بتایا
بہت اچھی بات ہے کہ وہ آپ کی دوست ہے لیکن شاید آپ نہیں جانتی کہ جب آپ کی بیسٹ فرینڈ پریشان ہو سٹریس میں ہو تو آپ کو اس کا ساتھ دینا چاہیے نہ کہ یہاں بیٹھ کر اپنے نوٹس بنانے چاہیے ۔
شاید آپ کو اندازہ بھی نہیں کہ زارا کب یہاں آپ کے پاس سے اٹھ کر باہر درخت کے نیچے بیٹھی رو رہی ہے ۔
کیا اس کی بات سن کر احساس پریشانی سے کھڑی ہو گئی وہ صبح سے جانتی تھی
ابھی ان کا مشن پوری طرح سے ختم نہیں ہوا تھا جس کی وجہ سے ابھی بھی وہ اسی کالج میں موجود یہاں کے غیرقانونی کام پر نظر رکھے ہوئے تھے
لیکن شام کی باتیں سن کر کبھی کبھی زاوق اک دل چاہتا کہ اسے دو لگا کے رکھ دے ۔جو اکثر اس سے کہتا تھا کیا زارا اس کی محبت کو قبول کرے گی
جبکہ زاراکے بارے میں اس نے احساس سے جتنی بھی انفارمیشن لی تھی اسے یہ پتہ چلا تھا کہ وہ آرمی والوں کو بہت پسند کرتی ہے
آئی ہوئی ہے سامنے باہر کی طرف دیکھتے ہوئے کہا جہاں دور زارا ایک درخت کے نیچے بیٹھ گئی تھی چہرے پر پریشانی لیے گھبرائی نظروں سے ادھر ادھر دیکھ رہی تھی جیسے کسی کی نظروں سے چھپ جانا چاہتی ہو
یہ اتنی گھبرائی ہوئی کیوں ہے زاوق نے اسے دیکھتے ہوئے پوچھا
پتہ نہیں مجھے لگتا ہے اسے کوئی پریشانی ہے بھابی کو بیج نا پوچھنے کے لئے شام نے جیسے اس کی منت کی تھی
وہ جانتا تو نہیں تھا کہ زاراکے ساتھ اس کی محبت سہی ہے یا غلط وہ کبھی اس کا نصیب بنے گی یا نہیں لیکن شام کی آنکھوں میں اس کے لیے احساس دیکھ کر اسے اچھا لگا تھا ۔
وہ جانتا تھا کہ شام ایک بہت اچھا انسان ہے اور کسی بھی لڑکی کا نصیب بن سکتا ہے ۔
اسے بہت خوشی ہوئی تھی جب شام نے کہا کہ میری بھابی ہر وقت تیری بھابھی کے ساتھ گھومتی رہتی ہے اور اس زاوق نے شام کی بہت درگت بنا دی تھی
لیکن ایک دن شام نے پریشانی سے اس سے پوچھا یار میں تو اس کا ٹیچر ہوں وہ تو مجھے اپنا ٹیچر ہی سمجھتی ہو گی نا ۔اور دنیا کی نظر میں یہ بات کتنی غلط ہے کہ ایک ٹیچر اپنے سٹوڈنٹ کے ساتھ ۔۔۔۔شام کی پریشانی پر وہ مسکرایا
شام نہ تو زارا کا ٹیچر ہے اور نہ ہی میں احساس کا ٹیچر ہوں ہم بس اپنے مشن کے لئے اس کالج میں ہیں اور کچھ ہی دنوں میں یہاں سے چلے جائیں گے ۔
زاوق کے بارے میں آرمی والے بھی بس اتنا ہی جانتے تھے کہ اس کے والدین نے ایکسیڈنٹ میں گزر چکے ہیں
❤
اس واقعے کو تقریبا ایک ہفتہ گزر چکا تھا احساس کے پیپر شروع ہونے والے تھے جس کی وجہ سے وہ اس سے بالکل تنگ نہیں کر رہا تھا
سدرا کا اتنے دن غائب رہنا سب نے نوٹ کیا تھا سدرہ کے ساتھ ساتھ کالج کے بہت سارے اسٹوڈنٹس کے بارے میں پتہ چلا تھا کہ وہ کسی کلب میں نشے کی حالت میں پائے گئے ہیں سب نے یہی کہا امیر باپ کی بگڑی ہوئی اولاد ہیں یہ کام ان کے لیے کوئی برا نہیں
ایسے معاملوں میں نہ پڑتے ہوئے سب اپنے اپنے کام سے کام رکھا تھا
وہ کلاس لے کر باہر آیا تو شام کلاس کے باہر کھڑا تھا
کیا بات ہے میرے مجنوں کیا ہوا زارا نہیں آئی کیا شام کی زارا کے لئے پسندگی وہ نوٹ کر چکا تھا جس کی وجہ سے وہ اکثر اسے چھیڑتا تھا
اگر وہ قلب تک پہنچ کر اتنے لوگوں کو گرفتار کر چکے تھے تو کنگ تک پہنچنا بھی ان کے لئے مشکل نہ تھا کیونکہ اس کا بہت سارا مال ان کے قبضے میں تھا
جسے چھڑانے کے لئے وہ کچھ بھی کر سکتا تھا وہ لوگ جن کے لی خاص تھے کینگ انہیں بھگا چکا تھا ۔
اور اب زاوق کو کنگ کو ڈھونڈنے کی ضرورت نہیں تھی وہ خوداس پر حملہ کرنے والا تھا وہ اس کے گروپ کے چار لوگوں کی تفصیل لے کر ضرور ان کے ساتھ کچھ الٹا سیدھا کرکے اپنا پیسہ واپس لینے والا تھا
جس کے لئے زاوق شام حجاب اور زائم چاروں تیار تھے حجاب اور زائم اپنے بیٹے موسی کو کل ہی واپس بورڈنگ بھیجنے والے تھے ۔
جبکہ شام کو اس بات کی کوئی ٹینشن نہ تھی ۔
اس کی کوئی فیملی نہ تھی وہ یتیم تھا جو اپنے وطن کے لیے کچھ کرنے کی خاطر آرمی جوائن کر چکا تھا۔
جبکہ زاوق کے بارے میں انفارمیشن نکالنا اتنا بھی آساں نہ تھا
رائٹ سب سے پہلے فیملی شام نےاس کی بات پر مسکراتے ہوئے کہا
نو سر سب سے پہلے وطن پھر فیملی ججاب نے اس کی بات پر مسکراتے ہوئے کہا
جبکہ زاوق سر ہلا کر رہ گیا شاید آگے چل کر اس کی زندگی بھی ایسی ہی ہونی تھی لیکن وہ جانتا تھا احساس سب سمجھ جائے گی
❤
وہ شام کے ساتھ ہوٹل میں بیٹھا اپنا برتھ ڈے سیلیبریٹ کر رہا تھا جب اس کا فون بجا
ہیلو سر تھانے پہنچتے پہنچتے گاڑی سے تین لوگ بھاگ گئے ہیں ہم نے ہر جگہ ڈھونڈا لیکن وہ کہیں نہیں ملے مجھے لگتا ہے اس مشن میں وہ تین بہت اہم تھے
جس کی وجہ سے کنگ اور اس کے لوگ کافی ڈرے ہوئے تھے آفیسر نے اسے پوری بات بتائیں
بھاگنے والوں میں جاوید سدرہ اور ارسلان شامل ہیں ۔فون رکھ کر اس نے شام کو ساری بات بتائی
لیکن اس کے لیے وہ اتنے پریشان نہیں تھے یہ ان کے لیے کوئی بہت بڑی بات نہ تھی
جب اس نے مسکراتی نظروں سے زائم کی طرف دیکھا جس کی تعارف میں زاوق نے ایک لفظ بھی نہیں بولا تھا اس نے کیا ہی کیا تھا صرف اینڈ پر زاوق کو فون کیا تھا ۔
اور سب کچھ سمجھتے ہوئے پلان کے مطابق زاوق نے ٹائم پررید ڈال دی لیکن پھر بھی وہ اپنی بیوی کی کامیابی پر بہت خوش تھا
اور اس سے بھی زیادہ خوشی اسے چاکلیٹ کیک کی تھی جو گھر چل کر اسے ملنے والا تھا کیونکہ اگر یہاں کچھ الٹا سیدھا ہوجاتا اور حجاب کا موڈ آف ہو جاتا تو اسے اور اس کے معصوم بچے موسی کو کچھ نہیں ملنا تھا سوائے گھوریوں کے
زاوق تیری برتھ ڈے والے دن ہمیں اتنی بڑی کامیابی ملی ہے سلیبریشن تو بنتا ہے شام نے اسے دیکھتے ہوئے کہا
نہیں نہیں بالکل بھی نہیں موسی ابھی تک جاگ رہا ہوگا ہمارا انتظار کر رہا ہوں گا آپ پارٹی کریں ہم گھر کے لیے نکلتے ہیں ۔حجاب نے فورا سے کہا
کیا یہ قوم کسی ایک شہید کی جان کا ازالہ کر سکتی ہے ۔نہیں یہ صرف باتیں کر سکتی ہے
❤
ایک ارب کے قریب کیش مال اور اسلحہ برآمد ہوا ہے اس قلب سے جو سارا کا سارا انڈیا سے آیا تھا
بہت آسان سمجھ رکھا ہے انڈیا والوں نے ہمارے وطن کی جڑیں کاٹنا لیکن شاید وہ لوگ یہ نہیں جانتے ہیں کہ سرحدوں پر آج بھی جوان کھڑے ہیں جو ان کے ہر منصوبے کا منہ توڑ جواب دینے کے لیے ہر وقت تیار ہیں
ہم کنگ کو ایک بہت بڑا نقصان دینے میں کامیاب رہے ہیں
ادھا مشن ہم حل کر چکے ہیں کیونکہ گینگ کے آدھے لوگ ہمارے قبضے میں ہیں اور اس کی دولت کا سب سے بڑا حصہ بھی ہم ضبط کر چکے ہیں
حجاب نے بہت اچھا کام کیا ہے اس کی ہمت کی داد دینی پڑے گی ہمارے وطن کو تمہارے جیسے ہی آفیسرز کی ضرورت ہے حجاب گولڈ جاب ویلڈن ۔زاوق نے کھل کر اس کی تعریف کی تھی
حجاب کبھی موسی کو تو اتنے پیار سے مخاطب نہیں کیا تم نے زائم نے اپنے معصوم بچے کا نام لیتے ہوئے کہا جس کی ماں کو اپنی اولاد سے زیادہ دوسروں کی اولاد کی ماں بننے کا شوق چڑھا تھا
زائم کتنی بار کہا ہے تم سے کام کے دوران پرسنل لائف مت لگایا کرو ۔
۔ چلو باہر کلب میں ریڈ ڈال دی گئی ہے سارے اسٹوڈنٹ پکڑے گئے سر باہر ہیں حجاب کے غصے سے گھورنے پر زائم نے فورا کہا
ہاں جلدی چلو موسی انتظار کر رہا ہوں گا آج صبح ہی اس نے مجھ سے چاکلیٹ کیک کھانے کی فرمائش کی تھی حجاب آگے چلتے ہوئے بولی
آئی ایس آئی والوں کی بھی کیا زندگی تھی جو والدین اپنے بچوں کی خواہش دن کے اجالوں میں پورے کیا کرتے تھے
وہی وہ رات کے اندھیروں میں کرتے تھے اور صرف اپنے وطن کے لیے وہ اپنے بچوں تک کی زندگی اگنور کرتے تھے
اور ہماری قوم کہتی ہے ہمارے آرمی والے ہمارے معاوضہ پر پلتے ہیں ۔
جبکہ اس دوران سدرہ نے وہاں سے چپکے سے نکلنے کی کوشش کی لیکن اس سے پہلے ہی زائم دروازہ بند کر چکا تھا
سدرہ ڈارلنگ کچھ زیادہ ہی جلدی نہیں ہے یہاں سے نکلنے کی ۔تم بھی تیار ہو جاؤ سسرال جانے کے لئے
کون ہو تم اس کے بات بھی مکمل ہی نہیں ہوئی تھی جب سدرہ نے پوچھا
ار لے ارلے بچی پابھی تعارف کروایا تو سہی تمہاری اور ان سب کی ماں ہوں میں اور اب تمہارے پیچھوارے پر پھینٹی لگا لگا کہ بتاؤں گی کہ کون ہوں میں جو کام تمہاری کم عقل مائیں نہیں کر سکیں وہ میں کروں گی ۔
چلو آج زیادہ باتیں نہیں میری اچھی بیٹی چل تجھے عقل کی الف ٰب پڑھاتی ہوں ایک زور دار تھپڑ لگا
سدرہ کے منہ پر جھاڑتے ہوئے بولی۔
تمہیں کیا مجھے دیکھنے کے لیے بلایا گیا ہےوہ زائم کو گھورتے ہوئے بولی جو محبت پاش نظروں سے اسکا یہ انداز دیکھ رہا تھا
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain