عالیان کے بتانے پر فجر نے اس کے کندھے پر مکا جڑا اور بولی
عالیان تم بہت برے ہو
تم بھی کچھ کم نہیں ہو فجر مادام
عالیان مسکراہٹ دباتا ہوا بولا
عالیان میں تمہارا سر پھاڑ دوں گی اگر تم نے آج کے بعد ایسا کیا
شرم تو نہیں آ رہی اپنے معصوم شوہر کو ایسی دھمکیاں دیتے ہوئے
عالیان نے دہائی دی
معصوم تو دیکھو
فجر نے ناک چڑھا کر کہا
معصوم تو میں ہوں تم مانو یا نہ مانو اب ایک کام کرو اپنے معصوم شوہر کے لیے مزے دار سی کافی بنا لاؤ
یہ کہہ کر عالیان اٹھا اور فجر کے ساتھ جا کر بیٹھا کیونکہ ایسے بیٹھنے سے اس کے پاؤں میں درد ہو رہا تھا جبکہ فجر جو اب ہوش میں آئی تھی اپنے لب ہونٹوں میں دبائے اب شرمندہ سی بولی
آئی ایم سوری
آئی تھنک تمہیں سوری نہیں مجھے تھینکیو بولنا چاہیے کب سے انتظار کر رہا تھا میں یہ سب سننے کے لیے
جوش میں بول کر عالیان نے فجر کو گلے لگایا اور بولا
تھینکیو تھینکیو سو مچ میں نے تمہارے ساتھ بہت برا کیا لیکن پھر بھی تم نے مجھ سے محبت کی آئی ایم ویری تھینک فل ٹو یو فار دس
یہ کہہ کر عالیان اس سے الگ ہوا اور بولا
آئی ایم سوری میں تھوڑا لود غرض ہو گیا تھا تم سے اظہارِ محبت سننے کے لیے میں نے یہ سب کیا
وہ روتے روتے اسے یقین دلانے کی کوشش کر رہی تھی لیکن کسی بچے کی طرح اس سے الگ نہیں ہورہی تھی کہ وہ کہیں پھر سے اس پر غصہ نہ کرے اور ساتھ اس سے یقین چاہتی تھی کہ اسے بھی عشق ہے نہ جب وہ اس سے الگ نہ ہوئی تو وہ اسے اپنے ساتھ لگائے بیڈ تک لایا اور اس کے ساتھ بیٹھ کر اس کی پیٹھ سہلاتے ہوئے بولا
فجر مجھے صرف تم سے عشق ہے جو تاقیامت زندہ رہے گا تم ہو میں ہوں
پیار،محبت،عشق یہ سب الفاظ ہیں ۔۔۔۔
مگر جب تم ملے ان الفاظ کو معنی ملے۔۔۔۔۔
فجر کا آنسوؤں سے تر چہرہ تھپتھپا کر عالیان نے اسے چپ کرانے کی سعی کی تو وہ ہوش میں آئی اور رونا بول کر حیرت سے اسے آنکھیں پھاڑ کر دیکھنے لگی تو عالیان نے پانی کا گلاس بھر کر اسے پلایا اور گہری سانس بھر کر اس کے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھ کر اس کا ہاتھ پکڑ کر بولا
شکر ہے تم چپ تو ہوئی ڈرا دیا تھا مجھے
پلیز ایسا مت کرو میرے ساتھ مجھ سے برداشت نہیں ہوتا
وہ عالیان کے سینے سے لگی بچوں کی طرح بلک بلک کر رو رہی تھی
عالیان اس کے ایسا کرنے پر حیران رہ گیا اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ اسے کیا کہے
فجر رونا بند بات سنو میری
وہ فجر کا کندھا پکڑ کر اسے سمجھانے کی کوشش کر رہا تھا لیکن وہ مسلسل نفی میں سر ہلاتی بولی
نہیں پلیز عالیان آئ ایم سوری مجھ پر غصہ مت کرنا پلیز پہلے والے عالیان بن جاؤ میں تمہیں بلکل تنگ نہیں کروں گی تم تم مجھ سے پوچھ رہے تھے نہ کہ مجھے تم سے عشق تو نہیں ہوگیا ہاں ہاں مجھے ہوگیا ہے عالیان اسلیے مجھ سے برداشت نہیں ہوتی تمہاری بے رُخی پلیز ایسے مت کرو تم نے بھی تو کہا تھا کہ تمہیں مجھ سے عشق ہے ہے نا
آج کھا قسم اپنی خوبصورت آنکھوں کی۔۔۔۔۔
کیا تجھے ذرا سی بھی محبت نہیں ہم سے۔۔۔۔۔
لیکن آپ تو کہتے تھے کہ آپکے کپڑے نکالنے کی ڈیوٹی میری ہے کیونکہ یں آپکی بیوی ہوں
آج فجر نے بغیر کسی دھمکی کے اسے آپ کہا تھا اپنی مرضی سے جس پر عالیان کا دل زور سے ہنسنے کو کر رہا تھا لیکن وہ اپنی ہنسی ہر ضبط کرتا ہوا بولا
کہا ہوگا لیکن مجھے تمہارے فضول چونچلوں کی ضرورت نہیں ہے اس لیے یہ اچھی بیوی ہونے کے ڈرامے کہیں اور جا کر کرو جیسے میں تو تمہیں جانتا ہی نہیں ہوں
عالیان تمسخر سے بولا تو فجر جو کب سے ضبط کیے کھڑی تھی عالیان کی اس بات پر خود پر قابو نہ رکھ سکی اور عالیان کا بازو پکڑ کر روتے ہوئے بولی
عالیان ایسا کیوں کر رہے ہو میرے ساتھ میں کوئی ڈرامے نہیں کر رہی پلیز پہلے والے عالیان بن جاؤ نہ مجھے اس کی عادت ہے میں اس کے بغیر نہیں رہ سکتی مجھے اس سے محبت ہے تم بہت برے ہو پلیز وہ والے عالیان بن جاؤ میں اس کی سارے باتیں مانوں گی
عالیان اپنی وارڈروب سے کپڑے نکال رہا تھا جب فجر اس کے پیچھے جا کھڑی ہوئی اور بولی
میں نکال دوں
نہیں میں نکال سکتا ہوں
عالیان نے ایک نظر اسے دیکھ کر پھر سے چہرے کا رُخ سامنے کر لیا
میں نکال دیتی ہوں
یہ کہہ کر فجر آگے بڑھی اور کپڑے نکالنے لگی تو اس کے کانوں سے عالیان کی غصے بھری آواز ٹکڑائی
میری کہی ہوئی بات تمہیں سمجھ نہیں آ رہی میں نے کہا ہے نہ میں خود نکال لوں گا ہٹو پیچھے
عالیان کے غصے سے چیخنے پر فجر جو کپڑے ناک کر الماری بند کرکے پلٹنے لگی تھی ڈر کے الماری سے جا لگی عالیان نے اس کے ہاتھوں سے اپنے کپڑے چھینے اور وارن کرنے والے انداز میں بولا
اور پھر جیسے جیسے میں بڑا ہوتا گیا مجھے بس یہ پتا تھا کہ تم پر بس میرا اختیار ہے اسی لیے پاکستان آ کر میں اپنے ہر عمل سے یہ بات ظاہر کرتا رہا کہ تم پر بس میرا حق ہے میرا دل کہتا تھا کہ تم پر میرا اختیار ہے اس لیے میں تم سے اپنے دل کی ہر بات منوانا چاہتا تھا لیکن تم میری بات نہیں مانتی تھی تو مجھے ضد ہو گئ تمہیں حاصل کرنے کی اور دیکھو کر لیا میں نے تمہیں حاڈل پھر کب محبت ہوئی کب عشق ہوا پتا نہیں ویسے تمہیں کب محبت ہوئی تھی مجھ سے
پتا نہیں
پری نے کندھے اچکا کر کہا جس پر دونوں کا مشترکہ قہقا گونجا
تیری معصوم نگاہوں کی قسم.....
دل نے کیا روح نے بھی تجھ سے پیار کیا ہے......
پری کے اقرار پر سعد سرشار سا مسکرا دیا جبکہ پری کو تو جیسے پوری دنیا مل گئی تھی اس اچانک اقرار پر اس کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ پوری دنیا کو بتائے کہ میں آج بے انتہا خوش ہوں سعد نے ایک خوبصورت بریسلہٹ پری کو پہنایا جبکہ پری کے ہونٹوں اے تو مسکراہٹ ہی جدا نہیں ہو رہی تھی
پھر وہ پری کا ہاتھ پکڑ کر آگے لےگیا جہاں ایک ٹیبل پر کینڈلز سے دل بنایا ہوا تھا دونوں نے ڈنر کیا
اور اس کے بعد وہ دونوں ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑے سمندر کی لہروں کے پاس جا رکے تو پری نے سعد سے کہا
سعد تمہیں مجھ سے محبت کب ہوئی تھی
پتا نہیں بس مجھے اتنا پتا تھا کہ تم میری ہو اور ہمیشہ میری رہو گی بچپن سے کینڈا جانے سے پہلے بس میرے دماغ میں یہی بات تھی کہ ایک پیاری کی ڈول بس میری ہے
آگے جانے کا فیصلہ ترک کر کے اس نے اپنا موبائل نکالا اور ابھی وہ فون ملانے ہی لگی تھی جب کای نے پیچھے سے اسے اپنی گرفت میں لیا
تو پری کا اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا نیچے رہ گیا تب کسی نے اس کے کان میں سر گوشی کی
سرپرائز
ایک مانوس سی آواز سن کر پری نے مڑ کر دیکھا تو روشنیوں میں سعد کے چہرے کا ایک ایک نقش نظر آ رہا تھا اسے دیکھتے ہی بے اختیار پری کے چہرے پر مسکراہٹ نے جگہ لے لی اور وہ خوشگوار حیرت سے بولی
سعد تم
سعد گھوم کر پری کے سامنے آیا اور گھٹنوں کے بل اس کے سامنے بیٹھ کر اپنا ہاتھ پھیلایا اور بولا
Today i want to say i love you misses pareeshay saad ❤will you?
سعد کے اچانک پوچھنے پر کچھ دیر تو پری حیرت سے سن ہوگئی اور جب ہوش آ یا تو سعد کا بڑھا ہوا ہاتھ تھام کر شعر پڑھا
تیار ہو کر وہ ڈرائیور کے ساتھ گھر سے نکلی راستے میں اس نے فلاور شاپ سے روز کا بوکے لیا اور ایک لمبے سفر کے بعد ڈرائیور نےگاڑی سمندر کے قریب روکی پری نے گاڑی سے اتر کر دیکھا تو اسے دور سے لائٹس نظر آئیں آس پاس کوئی بھی نہیں تھا پری کچھ آگے گئی لیکن اسے کوئی نظر نہ آیا اسےلگا شاید ڈرائیور اسے غلط جگہ لے آیا ہے یہی کہنے کے لیے جب اس نے مڑ کر دیکھا تو وہاں اب نہ ڈرائیور تھا نہ گاڑی گویا وہ جا چکا تھا پری کچھ اور آگے آئی تو اسے روشنی نظر آئی لیکن اسے اب اکیلے گبھراہٹ شروع ہوگئی تھی وہ آہستہ آہاتہ قدم اٹھاتی روشنیوں کی طرف بڑھی جہاں پھولوں کی ایک لمبی روش بنی تھی اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا وہ کہاں آ گئی یہاں تو اور کوئی بھی نہیں تھا جبکہ پھپھو نے تو کہا تھا کہ انکی فرینڈ اسے باہر ہی مل جائیں گی
اپنے آنسو چھپانےکے لیے تیزی سے باہر نکل گئی کیونکہ وہ دونوں لڑتے تھے جھگڑتے تھے اور پھر سے ٹھیک ہو جاتے تھے لیکن آج پہلی دفعہ عالیان نے اس سے ایسے بات کی تھی جو اس سےبلکل برداشت نہیں ہوئی تھی کیونکہ عشق میں لاتعلقی برداشت نہیں ہوتی دوسری طرف عالیان بھی فجر کے ساتھ ایسا کر کے خوش نہیں تھا کیونکہ وہ چاہتا تھا کہ فجر بس اقرار کر دے
یہ عشق کی منزل ہے قدم سوچ کر رکھنا....
دریائے محبت کے کنارے نہیں ہوتے.....
💜💜💜💜💜💜💜
کچھ دیر پہلے ہی فائزہ بیگم ریڈ کلر کی زمین کو چھوتی میکسی پری کو دے کر گئی تھی پارٹی میں پہننے کے لیے جو پری کو پرتھ ڈے پارٹی کے حساب سے بہت ہیوی لگی تھی لیکن پھر پھر بھی اس نے پہن لی لائٹ اے میک اپ میں لمبے لٹکنے والے سلور ایئر رنگز جس پہنے بالوں کو کھلا چھوڑے وہ بے حد حسین لگ رہی تھی
اوکے
پری کے رضامند ہوجانے پر فائزہ بیگم چلی گئیں اور پری اب اس برتھ ڈے پارٹی کے بارے میں سوچنے لگی
💙💙💙💙💙💙
فجر کمرے میں آئی تو عالیان موبائل پر مصروف تھا فجر نے اسے پکارا ایک بار دو بار لیکن اس نے جواب نہیں دیا تو فجر چیخی
عالیان میں تمہیں بلا رہی ہوں تمہیں سنائی نہیں دے رہا
کیا ہے فجر دیکھ نہیں رہی ہو میں بزی ہوں دماغ مت خراب کرو میرا جاؤ یہاں سے
عالیان کے اکتائے ہوئے لہجے پر پہلے تو فجر ہکا بکا رہ گئی کیونکہ وہ ایسے جواب کی بلکل امید نہیں کر رہی تھی لیکن پھر سنبھل کر بولی
عالیان مجھے بات کرنی ہے
لیکن مجھے نہیں کرنی جاؤ یہاں سے پلیز تنگ مت کرو
اب کہ عالیان کے روکھے پھیکے انداز پر فجر رونے والی ہو گئی
جی پھپھو بولیں
پری وہ دراصل میری ایک فرینڈ کی بیٹی کی برتھڈے ہے میری طبعیت نہیں ٹھیک اور اس نے بہت اسرارکر کے بلایا تھا اب اگر میں نہ گئی تو اچھا نہیں لگے گا تو کیا تم میری جگہ چلی جاؤ گی
میں
پری حیران ہوتے ہوئے بولی
لیکن میں تو کسی کو جانتی بھی نہیں ہونگی تو میں کیسے
پری تذبذب کا شکار ہوتے ہوئے بولی
اگر میری طبعیت ٹھیک ہوتی تو میں خود ہی چلی جاتی پری لیکن اگر کوئی نہ گیا تو کہیں اسے برانہ لگے
ٹھیک ہے پھپھو میں چلی جاؤں گی ڈونٹ وری اب بس یہ بتا دیں کب جانا ہے
پری نے مسکرا کر کہا
آج شام ڈرائیور کے ساتھ چلی جانا
دیکھ تو وہ ٹی وی کی طرف رہی تھی اور سوچ یہ رہی تھی کہ اسے بھلا میری کیا پروا خود تو مزے میں ہوگا اور میں فضول میں اس کا انتظار کر رہی ہوں اب تو اگر آیا بھی فون تب بھی نہیں اٹھاؤں گی
بھولنا بھی چاہو تو یاد آ جائیں گے ہم....
اس طرح سے تمہارے خیالوں پے چھا جائیں گے ہم.....
پری اپنی سوچوں میں اتنی محو تھی کہ اسے پتا ہی نہیں چلا کب فائزہ بیگم اس کے پاس آ کر بیٹھیں پری کو ہوش تب آیا جب انھوں نے زور سے پری کا نام پکارا تو پری اپنی جگہ سے اچھلی اور بولی
پھپھو آپ کب آئیں
میں تو کب سے آئی ہوئی ہوں تم ہی پتا نہیں کن سوچوں میں گم ہو
سوری پھپھو مجھے پتا نہیں چلا
فائزہ بیگم کی بات پر پری کچھ شرمندہ ہوتی ہوئی بولی
کوئی بات نہیں پری وہ دراصل مجھے تم سے کچھ کام تھا
بات تو سنو یار
عالیان مسکراتا ہوا بیڈ پر لیٹ گیا اور اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے خود سے بولا
اقرار تو میں بھی کروا کر رہوں گا مسز فجر عالیان
داری طرف فجر خود کو کوس رہی تھی کہ کیوں نہیں رہتا اس کا خود پر کنٹرول اب عالیان ہر وقت اسے چڑائے گا
کن لفظوں سے کروں بیاں اہمیت تیری......
کہ بن تیرے ہم اکثر نامکمل رہتے ہیں .....
💕💕💕💕💕
سعد کو گئے ایک ہفتہ ہوگیا تھا اور ایک ہفتے کے دوران اس نے ایک دفعہ بھی پری سے کانٹیکٹ نہیں کیا تھا جبکہ پری پورا دن ادھر سے ادھر باولی ہوئی پھرتی تھی پورا دن فون کو دیکھتی رہتی تھی کہ شاید اب اس کا فون آئے اب آئے لیکن اب تک انتظار لاحاصل ہی رہا تھا آج بھی وہ اس کے فون کا انتظار کر کے جب تھک گئی تو غصے میں ٹی وی چلا کربیٹھ گئی
فجر نے بغیر آواز کے اپنے لبوں کو جنبش دی اور عالیان سے دور ہوئی
تو عالیان شرارت سے بولا
ویسے ایک بات تو بتاؤ تم تو کہتی تھی کہ تمہیں کسی بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا پھر رو کیوں رہی تھی کہیں عشق تو نہیں ہوگیا مجھ سے
عالیان تم نے کہا تھا تم اب تنگ نہیں کرو گے مجھے
فجر نے عالیان کی بات کا ثر زائل کرنے کے لیے غصے میں کہا
تنگ تو نہیں کر رہا بس پوچھ رہا ہوں
تو کیوں پوچھ رہے ہو نہ پوچھو نہ
غصے میں چیختی ہوئی فجر باہر نکل گئی تو عالیان نے پیچھے سے ہانک لگائی
آرام سے تم آ بھی تو نہیں رہی تھی نہ
میں ویسے بھی آ ہی جاتی عالیان تمہیں ایسا کرنے کی کیا ضرورت تھی
فجر نے عالیان کے سر پر لگی پٹی پر انگلیاں پھیرتے ہوئے کہا جبکہ اسی وقت فجر کا ایک آنسو اس کے گال پر لڑھک گیا
میں تمہیں جانتا ہوں فجر تم کبھی نہ آتی
عالیان زخمی مسکراہٹ کے ساتھ بولا
پلیز اب کہیں مت جانا یار
منت بھرے لہجے میں کہہ کر آخر میں وہ فجر کے گلے لگ گیا اور سرگوشی میں بولا
آئی ریئلی مس یو آ لاٹ
آئی مس یو ٹو
مجھے بات ہی نہیں کرنی تم سے
عالیان نے اس کی کلائی پکڑ کر واپس بٹھایا اور کہا
اچھا نہ یار مزاق کر رہا تھا نہیں کرتا تنگ اور اتنی مشکل سے تو تم ہاتھ آئی ہو اب میں کہیں نہیں جانے دوں گا تمہیں
عالیان اگر اب تم نے مجھے تنگ کیا نہ تو میں پھر سے چلی جاؤں گی
فجر نے دھمکی دینے والے انداز میں کہا
تو میں پھر سے تمہیں ویسے ہی بلوا لوں گا جیسے پہلے بلوایا تھا
عالیان
عالیان کی بات پر فجر نے روہانسی ہو کر زور سے اس کا نام پکارا تھا اور اس کا کالر اپنی مٹھیوں میں جگڑ کر بولی تھی
اگر تم نے دوبارہ ایسا سوچا بھی نہ تو میں کبھی تم سے بات نہیں کروں گی
یہ کہہ کر فجر نے اپنے آنکھوں میں آئی نمی چھپانے کے لیے سر جھکا لیا
مجھے تو کسی اینگل سے نہیں لگ رہی تم معصوم
معصوم پر زور دیتے ہوئے عالیان قہقہ لگا کر بولا جس پر فجر منہ بنا کر دوسری طرف دیکھنے لگی
تو عالیان اس کا ہاتھ پکڑ کر بولا
مزاق کر رہا تھا یار تم تو بہت معصوم ہو تمہاری جیسی معصوم تو میں نے اپنی پوری زندگی میں نہیں دیکھی
فجر نے عالیان کا ہاتھ جھٹکا کیونکہ اسے پتا تھا کہ وہ مکھن لگا رہا ہے اور کہا
جھوٹ مت بولو
فجر کی بات پر عالیان نے قہقہ لگایا اور ہنستے ہوئے اپنے کندھے سے اس کا کندھا ٹکڑا کر بولا
یعنی کہ تم خود مانتی ہو کہ تم معصوم نہیں ہو
عالیان کے ہنسنےپر فجر کا چہرہ غصے سے لال ہوگیا اور وہ اسے دھکا دے کر اٹھتے ہوئے بولی
کیوں ؟
اگر ایک بیمار شخص کی بیوی اسے اسے بغیر بتائے بغیر ملے چھوڑ کر چلی جائے اور مڑ کر دیکھے بھی نہ کہ وہ کیسا ہے تو اس کا ناراض ہونا تو بنتا ہے
عالیان کے منہ بنا کر کہنے پر فجر نے اپنی ہنسی دباتے ہوئے بولی
تو اس بیمار شخص کو بھی چاہیے نہ کہ بیماری میں اپنی معصوم بیوی کو اتنا تنگ نہ کرے کہ وہ اسے بغیر بتائے بغیر ملے چھوڑ کے چلے جانے پر مجبور ہو جائے
معصوم تو دیکھو
فجر کی بات پر عالیان بڑبڑایا جبکہ اسکی بڑبڑاہٹ اتنی اونچی ضرور تھی کہ فجر باآسانی سن لی اور عالیان کے کندھے پر مکہ جڑ کے بولی
تو کیا نہیں ہوں میں معصوم
فجر کے کہنے پر عالیان مسکراتے ہوئے اسے ہر زاویے سے دیکھنے لگا اور پھر کچھ دیر بعد کندھے اچکا کر بولا
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain