Damadam.pk
Mirh@_Ch's posts | Damadam

Mirh@_Ch's posts:

Mirh@_Ch
 

عالیان کے بتانے پر فجر نے اس کے کندھے پر مکا جڑا اور بولی
عالیان تم بہت برے ہو
تم بھی کچھ کم نہیں ہو فجر مادام
عالیان مسکراہٹ دباتا ہوا بولا
عالیان میں تمہارا سر پھاڑ دوں گی اگر تم نے آج کے بعد ایسا کیا
شرم تو نہیں آ رہی اپنے معصوم شوہر کو ایسی دھمکیاں دیتے ہوئے
عالیان نے دہائی دی
معصوم تو دیکھو
فجر نے ناک چڑھا کر کہا
معصوم تو میں ہوں تم مانو یا نہ مانو اب ایک کام کرو اپنے معصوم شوہر کے لیے مزے دار سی کافی بنا لاؤ

Mirh@_Ch
 

یہ کہہ کر عالیان اٹھا اور فجر کے ساتھ جا کر بیٹھا کیونکہ ایسے بیٹھنے سے اس کے پاؤں میں درد ہو رہا تھا جبکہ فجر جو اب ہوش میں آئی تھی اپنے لب ہونٹوں میں دبائے اب شرمندہ سی بولی
آئی ایم سوری
آئی تھنک تمہیں سوری نہیں مجھے تھینکیو بولنا چاہیے کب سے انتظار کر رہا تھا میں یہ سب سننے کے لیے
جوش میں بول کر عالیان نے فجر کو گلے لگایا اور بولا
تھینکیو تھینکیو سو مچ میں نے تمہارے ساتھ بہت برا کیا لیکن پھر بھی تم نے مجھ سے محبت کی آئی ایم ویری تھینک فل ٹو یو فار دس
یہ کہہ کر عالیان اس سے الگ ہوا اور بولا
آئی ایم سوری میں تھوڑا لود غرض ہو گیا تھا تم سے اظہارِ محبت سننے کے لیے میں نے یہ سب کیا

Mirh@_Ch
 

وہ روتے روتے اسے یقین دلانے کی کوشش کر رہی تھی لیکن کسی بچے کی طرح اس سے الگ نہیں ہورہی تھی کہ وہ کہیں پھر سے اس پر غصہ نہ کرے اور ساتھ اس سے یقین چاہتی تھی کہ اسے بھی عشق ہے نہ جب وہ اس سے الگ نہ ہوئی تو وہ اسے اپنے ساتھ لگائے بیڈ تک لایا اور اس کے ساتھ بیٹھ کر اس کی پیٹھ سہلاتے ہوئے بولا
فجر مجھے صرف تم سے عشق ہے جو تاقیامت زندہ رہے گا تم ہو میں ہوں
پیار،محبت،عشق یہ سب الفاظ ہیں ۔۔۔۔
مگر جب تم ملے ان الفاظ کو معنی ملے۔۔۔۔۔
فجر کا آنسوؤں سے تر چہرہ تھپتھپا کر عالیان نے اسے چپ کرانے کی سعی کی تو وہ ہوش میں آئی اور رونا بول کر حیرت سے اسے آنکھیں پھاڑ کر دیکھنے لگی تو عالیان نے پانی کا گلاس بھر کر اسے پلایا اور گہری سانس بھر کر اس کے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھ کر اس کا ہاتھ پکڑ کر بولا
شکر ہے تم چپ تو ہوئی ڈرا دیا تھا مجھے

Mirh@_Ch
 

پلیز ایسا مت کرو میرے ساتھ مجھ سے برداشت نہیں ہوتا
وہ عالیان کے سینے سے لگی بچوں کی طرح بلک بلک کر رو رہی تھی
عالیان اس کے ایسا کرنے پر حیران رہ گیا اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ اسے کیا کہے
فجر رونا بند بات سنو میری
وہ فجر کا کندھا پکڑ کر اسے سمجھانے کی کوشش کر رہا تھا لیکن وہ مسلسل نفی میں سر ہلاتی بولی
نہیں پلیز عالیان آئ ایم سوری مجھ پر غصہ مت کرنا پلیز پہلے والے عالیان بن جاؤ میں تمہیں بلکل تنگ نہیں کروں گی تم تم مجھ سے پوچھ رہے تھے نہ کہ مجھے تم سے عشق تو نہیں ہوگیا ہاں ہاں مجھے ہوگیا ہے عالیان اسلیے مجھ سے برداشت نہیں ہوتی تمہاری بے رُخی پلیز ایسے مت کرو تم نے بھی تو کہا تھا کہ تمہیں مجھ سے عشق ہے ہے نا
آج کھا قسم اپنی خوبصورت آنکھوں کی۔۔۔۔۔
کیا تجھے ذرا سی بھی محبت نہیں ہم سے۔۔۔۔۔

Mirh@_Ch
 

لیکن آپ تو کہتے تھے کہ آپکے کپڑے نکالنے کی ڈیوٹی میری ہے کیونکہ یں آپکی بیوی ہوں
آج فجر نے بغیر کسی دھمکی کے اسے آپ کہا تھا اپنی مرضی سے جس پر عالیان کا دل زور سے ہنسنے کو کر رہا تھا لیکن وہ اپنی ہنسی ہر ضبط کرتا ہوا بولا
کہا ہوگا لیکن مجھے تمہارے فضول چونچلوں کی ضرورت نہیں ہے اس لیے یہ اچھی بیوی ہونے کے ڈرامے کہیں اور جا کر کرو جیسے میں تو تمہیں جانتا ہی نہیں ہوں
عالیان تمسخر سے بولا تو فجر جو کب سے ضبط کیے کھڑی تھی عالیان کی اس بات پر خود پر قابو نہ رکھ سکی اور عالیان کا بازو پکڑ کر روتے ہوئے بولی
عالیان ایسا کیوں کر رہے ہو میرے ساتھ میں کوئی ڈرامے نہیں کر رہی پلیز پہلے والے عالیان بن جاؤ نہ مجھے اس کی عادت ہے میں اس کے بغیر نہیں رہ سکتی مجھے اس سے محبت ہے تم بہت برے ہو پلیز وہ والے عالیان بن جاؤ میں اس کی سارے باتیں مانوں گی

Mirh@_Ch
 

عالیان اپنی وارڈروب سے کپڑے نکال رہا تھا جب فجر اس کے پیچھے جا کھڑی ہوئی اور بولی
میں نکال دوں
نہیں میں نکال سکتا ہوں
عالیان نے ایک نظر اسے دیکھ کر پھر سے چہرے کا رُخ سامنے کر لیا
میں نکال دیتی ہوں
یہ کہہ کر فجر آگے بڑھی اور کپڑے نکالنے لگی تو اس کے کانوں سے عالیان کی غصے بھری آواز ٹکڑائی
میری کہی ہوئی بات تمہیں سمجھ نہیں آ رہی میں نے کہا ہے نہ میں خود نکال لوں گا ہٹو پیچھے
عالیان کے غصے سے چیخنے پر فجر جو کپڑے ناک کر الماری بند کرکے پلٹنے لگی تھی ڈر کے الماری سے جا لگی عالیان نے اس کے ہاتھوں سے اپنے کپڑے چھینے اور وارن کرنے والے انداز میں بولا

Mirh@_Ch
 

اور پھر جیسے جیسے میں بڑا ہوتا گیا مجھے بس یہ پتا تھا کہ تم پر بس میرا اختیار ہے اسی لیے پاکستان آ کر میں اپنے ہر عمل سے یہ بات ظاہر کرتا رہا کہ تم پر بس میرا حق ہے میرا دل کہتا تھا کہ تم پر میرا اختیار ہے اس لیے میں تم سے اپنے دل کی ہر بات منوانا چاہتا تھا لیکن تم میری بات نہیں مانتی تھی تو مجھے ضد ہو گئ تمہیں حاصل کرنے کی اور دیکھو کر لیا میں نے تمہیں حاڈل پھر کب محبت ہوئی کب عشق ہوا پتا نہیں ویسے تمہیں کب محبت ہوئی تھی مجھ سے
پتا نہیں
پری نے کندھے اچکا کر کہا جس پر دونوں کا مشترکہ قہقا گونجا

Mirh@_Ch
 

تیری معصوم نگاہوں کی قسم.....
دل نے کیا روح نے بھی تجھ سے پیار کیا ہے......
پری کے اقرار پر سعد سرشار سا مسکرا دیا جبکہ پری کو تو جیسے پوری دنیا مل گئی تھی اس اچانک اقرار پر اس کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ پوری دنیا کو بتائے کہ میں آج بے انتہا خوش ہوں سعد نے ایک خوبصورت بریسلہٹ پری کو پہنایا جبکہ پری کے ہونٹوں اے تو مسکراہٹ ہی جدا نہیں ہو رہی تھی
پھر وہ پری کا ہاتھ پکڑ کر آگے لےگیا جہاں ایک ٹیبل پر کینڈلز سے دل بنایا ہوا تھا دونوں نے ڈنر کیا
اور اس کے بعد وہ دونوں ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑے سمندر کی لہروں کے پاس جا رکے تو پری نے سعد سے کہا
سعد تمہیں مجھ سے محبت کب ہوئی تھی
پتا نہیں بس مجھے اتنا پتا تھا کہ تم میری ہو اور ہمیشہ میری رہو گی بچپن سے کینڈا جانے سے پہلے بس میرے دماغ میں یہی بات تھی کہ ایک پیاری کی ڈول بس میری ہے

Mirh@_Ch
 

آگے جانے کا فیصلہ ترک کر کے اس نے اپنا موبائل نکالا اور ابھی وہ فون ملانے ہی لگی تھی جب کای نے پیچھے سے اسے اپنی گرفت میں لیا
تو پری کا اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا نیچے رہ گیا تب کسی نے اس کے کان میں سر گوشی کی
سرپرائز
ایک مانوس سی آواز سن کر پری نے مڑ کر دیکھا تو روشنیوں میں سعد کے چہرے کا ایک ایک نقش نظر آ رہا تھا اسے دیکھتے ہی بے اختیار پری کے چہرے پر مسکراہٹ نے جگہ لے لی اور وہ خوشگوار حیرت سے بولی
سعد تم
سعد گھوم کر پری کے سامنے آیا اور گھٹنوں کے بل اس کے سامنے بیٹھ کر اپنا ہاتھ پھیلایا اور بولا
Today i want to say i love you misses pareeshay saad ❤will you?
سعد کے اچانک پوچھنے پر کچھ دیر تو پری حیرت سے سن ہوگئی اور جب ہوش آ یا تو سعد کا بڑھا ہوا ہاتھ تھام کر شعر پڑھا

Mirh@_Ch
 

تیار ہو کر وہ ڈرائیور کے ساتھ گھر سے نکلی راستے میں اس نے فلاور شاپ سے روز کا بوکے لیا اور ایک لمبے سفر کے بعد ڈرائیور نےگاڑی سمندر کے قریب روکی پری نے گاڑی سے اتر کر دیکھا تو اسے دور سے لائٹس نظر آئیں آس پاس کوئی بھی نہیں تھا پری کچھ آگے گئی لیکن اسے کوئی نظر نہ آیا اسےلگا شاید ڈرائیور اسے غلط جگہ لے آیا ہے یہی کہنے کے لیے جب اس نے مڑ کر دیکھا تو وہاں اب نہ ڈرائیور تھا نہ گاڑی گویا وہ جا چکا تھا پری کچھ اور آگے آئی تو اسے روشنی نظر آئی لیکن اسے اب اکیلے گبھراہٹ شروع ہوگئی تھی وہ آہستہ آہاتہ قدم اٹھاتی روشنیوں کی طرف بڑھی جہاں پھولوں کی ایک لمبی روش بنی تھی اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا وہ کہاں آ گئی یہاں تو اور کوئی بھی نہیں تھا جبکہ پھپھو نے تو کہا تھا کہ انکی فرینڈ اسے باہر ہی مل جائیں گی

Mirh@_Ch
 

اپنے آنسو چھپانےکے لیے تیزی سے باہر نکل گئی کیونکہ وہ دونوں لڑتے تھے جھگڑتے تھے اور پھر سے ٹھیک ہو جاتے تھے لیکن آج پہلی دفعہ عالیان نے اس سے ایسے بات کی تھی جو اس سےبلکل برداشت نہیں ہوئی تھی کیونکہ عشق میں لاتعلقی برداشت نہیں ہوتی دوسری طرف عالیان بھی فجر کے ساتھ ایسا کر کے خوش نہیں تھا کیونکہ وہ چاہتا تھا کہ فجر بس اقرار کر دے
یہ عشق کی منزل ہے قدم سوچ کر رکھنا....
دریائے محبت کے کنارے نہیں ہوتے.....
💜💜💜💜💜💜💜
کچھ دیر پہلے ہی فائزہ بیگم ریڈ کلر کی زمین کو چھوتی میکسی پری کو دے کر گئی تھی پارٹی میں پہننے کے لیے جو پری کو پرتھ ڈے پارٹی کے حساب سے بہت ہیوی لگی تھی لیکن پھر پھر بھی اس نے پہن لی لائٹ اے میک اپ میں لمبے لٹکنے والے سلور ایئر رنگز جس پہنے بالوں کو کھلا چھوڑے وہ بے حد حسین لگ رہی تھی

Mirh@_Ch
 

اوکے
پری کے رضامند ہوجانے پر فائزہ بیگم چلی گئیں اور پری اب اس برتھ ڈے پارٹی کے بارے میں سوچنے لگی
💙💙💙💙💙💙
فجر کمرے میں آئی تو عالیان موبائل پر مصروف تھا فجر نے اسے پکارا ایک بار دو بار لیکن اس نے جواب نہیں دیا تو فجر چیخی
عالیان میں تمہیں بلا رہی ہوں تمہیں سنائی نہیں دے رہا
کیا ہے فجر دیکھ نہیں رہی ہو میں بزی ہوں دماغ مت خراب کرو میرا جاؤ یہاں سے
عالیان کے اکتائے ہوئے لہجے پر پہلے تو فجر ہکا بکا رہ گئی کیونکہ وہ ایسے جواب کی بلکل امید نہیں کر رہی تھی لیکن پھر سنبھل کر بولی
عالیان مجھے بات کرنی ہے
لیکن مجھے نہیں کرنی جاؤ یہاں سے پلیز تنگ مت کرو
اب کہ عالیان کے روکھے پھیکے انداز پر فجر رونے والی ہو گئی

Mirh@_Ch
 

جی پھپھو بولیں
پری وہ دراصل میری ایک فرینڈ کی بیٹی کی برتھڈے ہے میری طبعیت نہیں ٹھیک اور اس نے بہت اسرارکر کے بلایا تھا اب اگر میں نہ گئی تو اچھا نہیں لگے گا تو کیا تم میری جگہ چلی جاؤ گی
میں
پری حیران ہوتے ہوئے بولی
لیکن میں تو کسی کو جانتی بھی نہیں ہونگی تو میں کیسے
پری تذبذب کا شکار ہوتے ہوئے بولی
اگر میری طبعیت ٹھیک ہوتی تو میں خود ہی چلی جاتی پری لیکن اگر کوئی نہ گیا تو کہیں اسے برانہ لگے
ٹھیک ہے پھپھو میں چلی جاؤں گی ڈونٹ وری اب بس یہ بتا دیں کب جانا ہے
پری نے مسکرا کر کہا
آج شام ڈرائیور کے ساتھ چلی جانا

Mirh@_Ch
 

دیکھ تو وہ ٹی وی کی طرف رہی تھی اور سوچ یہ رہی تھی کہ اسے بھلا میری کیا پروا خود تو مزے میں ہوگا اور میں فضول میں اس کا انتظار کر رہی ہوں اب تو اگر آیا بھی فون تب بھی نہیں اٹھاؤں گی
بھولنا بھی چاہو تو یاد آ جائیں گے ہم....
اس طرح سے تمہارے خیالوں پے چھا جائیں گے ہم.....
پری اپنی سوچوں میں اتنی محو تھی کہ اسے پتا ہی نہیں چلا کب فائزہ بیگم اس کے پاس آ کر بیٹھیں پری کو ہوش تب آیا جب انھوں نے زور سے پری کا نام پکارا تو پری اپنی جگہ سے اچھلی اور بولی
پھپھو آپ کب آئیں
میں تو کب سے آئی ہوئی ہوں تم ہی پتا نہیں کن سوچوں میں گم ہو
سوری پھپھو مجھے پتا نہیں چلا
فائزہ بیگم کی بات پر پری کچھ شرمندہ ہوتی ہوئی بولی
کوئی بات نہیں پری وہ دراصل مجھے تم سے کچھ کام تھا

Mirh@_Ch
 

بات تو سنو یار
عالیان مسکراتا ہوا بیڈ پر لیٹ گیا اور اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے خود سے بولا
اقرار تو میں بھی کروا کر رہوں گا مسز فجر عالیان
داری طرف فجر خود کو کوس رہی تھی کہ کیوں نہیں رہتا اس کا خود پر کنٹرول اب عالیان ہر وقت اسے چڑائے گا
کن لفظوں سے کروں بیاں اہمیت تیری......
کہ بن تیرے ہم اکثر نامکمل رہتے ہیں .....
💕💕💕💕💕
سعد کو گئے ایک ہفتہ ہوگیا تھا اور ایک ہفتے کے دوران اس نے ایک دفعہ بھی پری سے کانٹیکٹ نہیں کیا تھا جبکہ پری پورا دن ادھر سے ادھر باولی ہوئی پھرتی تھی پورا دن فون کو دیکھتی رہتی تھی کہ شاید اب اس کا فون آئے اب آئے لیکن اب تک انتظار لاحاصل ہی رہا تھا آج بھی وہ اس کے فون کا انتظار کر کے جب تھک گئی تو غصے میں ٹی وی چلا کربیٹھ گئی

Mirh@_Ch
 

فجر نے بغیر آواز کے اپنے لبوں کو جنبش دی اور عالیان سے دور ہوئی
تو عالیان شرارت سے بولا
ویسے ایک بات تو بتاؤ تم تو کہتی تھی کہ تمہیں کسی بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا پھر رو کیوں رہی تھی کہیں عشق تو نہیں ہوگیا مجھ سے
عالیان تم نے کہا تھا تم اب تنگ نہیں کرو گے مجھے
فجر نے عالیان کی بات کا ثر زائل کرنے کے لیے غصے میں کہا
تنگ تو نہیں کر رہا بس پوچھ رہا ہوں
تو کیوں پوچھ رہے ہو نہ پوچھو نہ
غصے میں چیختی ہوئی فجر باہر نکل گئی تو عالیان نے پیچھے سے ہانک لگائی

Mirh@_Ch
 

آرام سے تم آ بھی تو نہیں رہی تھی نہ
میں ویسے بھی آ ہی جاتی عالیان تمہیں ایسا کرنے کی کیا ضرورت تھی
فجر نے عالیان کے سر پر لگی پٹی پر انگلیاں پھیرتے ہوئے کہا جبکہ اسی وقت فجر کا ایک آنسو اس کے گال پر لڑھک گیا
میں تمہیں جانتا ہوں فجر تم کبھی نہ آتی
عالیان زخمی مسکراہٹ کے ساتھ بولا
پلیز اب کہیں مت جانا یار
منت بھرے لہجے میں کہہ کر آخر میں وہ فجر کے گلے لگ گیا اور سرگوشی میں بولا
آئی ریئلی مس یو آ لاٹ
آئی مس یو ٹو

Mirh@_Ch
 

مجھے بات ہی نہیں کرنی تم سے
عالیان نے اس کی کلائی پکڑ کر واپس بٹھایا اور کہا
اچھا نہ یار مزاق کر رہا تھا نہیں کرتا تنگ اور اتنی مشکل سے تو تم ہاتھ آئی ہو اب میں کہیں نہیں جانے دوں گا تمہیں
عالیان اگر اب تم نے مجھے تنگ کیا نہ تو میں پھر سے چلی جاؤں گی
فجر نے دھمکی دینے والے انداز میں کہا
تو میں پھر سے تمہیں ویسے ہی بلوا لوں گا جیسے پہلے بلوایا تھا
عالیان
عالیان کی بات پر فجر نے روہانسی ہو کر زور سے اس کا نام پکارا تھا اور اس کا کالر اپنی مٹھیوں میں جگڑ کر بولی تھی
اگر تم نے دوبارہ ایسا سوچا بھی نہ تو میں کبھی تم سے بات نہیں کروں گی
یہ کہہ کر فجر نے اپنے آنکھوں میں آئی نمی چھپانے کے لیے سر جھکا لیا

Mirh@_Ch
 

مجھے تو کسی اینگل سے نہیں لگ رہی تم معصوم
معصوم پر زور دیتے ہوئے عالیان قہقہ لگا کر بولا جس پر فجر منہ بنا کر دوسری طرف دیکھنے لگی
تو عالیان اس کا ہاتھ پکڑ کر بولا
مزاق کر رہا تھا یار تم تو بہت معصوم ہو تمہاری جیسی معصوم تو میں نے اپنی پوری زندگی میں نہیں دیکھی
فجر نے عالیان کا ہاتھ جھٹکا کیونکہ اسے پتا تھا کہ وہ مکھن لگا رہا ہے اور کہا
جھوٹ مت بولو
فجر کی بات پر عالیان نے قہقہ لگایا اور ہنستے ہوئے اپنے کندھے سے اس کا کندھا ٹکڑا کر بولا
یعنی کہ تم خود مانتی ہو کہ تم معصوم نہیں ہو
عالیان کے ہنسنےپر فجر کا چہرہ غصے سے لال ہوگیا اور وہ اسے دھکا دے کر اٹھتے ہوئے بولی

Mirh@_Ch
 

کیوں ؟
اگر ایک بیمار شخص کی بیوی اسے اسے بغیر بتائے بغیر ملے چھوڑ کر چلی جائے اور مڑ کر دیکھے بھی نہ کہ وہ کیسا ہے تو اس کا ناراض ہونا تو بنتا ہے
عالیان کے منہ بنا کر کہنے پر فجر نے اپنی ہنسی دباتے ہوئے بولی
تو اس بیمار شخص کو بھی چاہیے نہ کہ بیماری میں اپنی معصوم بیوی کو اتنا تنگ نہ کرے کہ وہ اسے بغیر بتائے بغیر ملے چھوڑ کے چلے جانے پر مجبور ہو جائے
معصوم تو دیکھو
فجر کی بات پر عالیان بڑبڑایا جبکہ اسکی بڑبڑاہٹ اتنی اونچی ضرور تھی کہ فجر باآسانی سن لی اور عالیان کے کندھے پر مکہ جڑ کے بولی
تو کیا نہیں ہوں میں معصوم
فجر کے کہنے پر عالیان مسکراتے ہوئے اسے ہر زاویے سے دیکھنے لگا اور پھر کچھ دیر بعد کندھے اچکا کر بولا