Damadam.pk
Mirh@_Ch's posts | Damadam

Mirh@_Ch's posts:

Mirh@_Ch
 

علیان نے فجر کو دیکھتے ہوئے ہی گولیاں نگلیں اور پانی کا گلاس سائیڈ ٹیبل پر رکھ کر ایک آبرو اچکا کر نرس کو دیکھا جیسے کہہ رہا ہو اور کچھ نرس نفی میں سر ہلاتی بایر نکل گئی تو فجر قریب ہی رکھے ٹو سیٹر صوفے پر جا بیٹھی تو عالیان بولا
تم نے مجھ سے یہ تو پوچھا ہی نہیں کہ میں کیسا ہوان بس آتے ہی لڑنا شروع ہوگئی
ہاں کیونکہ مجھے پہلے سے پتا ہے کہ تم بہت برے ہوا
اچھا ٹھیک ہے مان لیا کہ میں بہت برا ہوں اب یہ بتاؤ کچھ کھایا ہے تم نے
عالیان کی بات پر فجر ایسے بیٹھی رہی جیسے اس نے کچھ سنا ہی نہ ہو تو عالیان نے پھر اسے پکارا
فجر
اب کی بار بھی فجر ٹس سے مس نہ ہوئی تو عالیان بولا
فجر تم کیا چاہ رہی ہو کہ میں خود چل کر آؤں تمہارے پاس
اب کہ عالیان کے کہنے پر فجر فوراً بولی
مجھے بھوک نہیں ہے

Mirh@_Ch
 

نرس کے پوچھنے پر فجر اثبات میں سر ہلا دیا تو نرس مزید گویا ہوئی
آپ کے ہزبینڈ میڈیسن نہیں لے رہے کہہ رہے ہیں کہ جب تک آپ نہیں آئیں گی وہ میڈیسن نہیں لیں گے
نرس کے بتانے پر فجر گہری سانس لیتی نرس کے پیچھے روم کی طرف بڑھی اور اسے روم میں داخل ہوتے دیکھ عالیان کے چہرے پر مسکراہٹ نمودار ہوئی
فجر نے اندر داخل ہو کر اسے غصیلی نظروں سے گھورا جبکہ عالیان اس کی گھوریوں کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے مسکراتا رہا تو فجر زچ ہو کر بولی
کیا مسئلہ ہے تمہارے ساتھ میڈیسن کیوں نہیں لے رہے ہو
کس نے کہا ہے میں نہیں لے رہا میڈیسن تم کہو اور میں نہ لوں ایسا ہو سکتا ہے
فرماں بردار شوہر کی بھر پور ایکٹنگ کرتے ہوئے عالیان بولا توفجر نے نرس کی طرف دیکھا جس نے فوراً آگے بڑھ کر گولیاں نکال کر عالیان کو دیں جو مسلسل فجر کو دیکھ رہا تھا

Mirh@_Ch
 

سعد نے سمجھنے والے انداز میں کہا جس پر پری نے زور زور سے اثبات میں سر ہلایا
گڈ اب تم جاکر اپنے لیے ناشتہ بناؤ میں تو ایک گھنٹے بعد اٹھوں گا
یہ کہہ کر سعد نے کروٹ لے کر آنکھیں بند کر لیں اور پری اپنے لیے ناشتہ بنانے چلی گئ اور سعد پری کے جانے کے بعد آنکھیں کھول کر مسکراتا ہوا بولا
بے وقوف
💚💚💚💚💚💚💚💚💚💚💚💚💚
فجر روم سے نکل کر ایک بار پھر اس بینچ پر جا بیٹھی اور رونے لگی کیونکہ اب اسکا گلٹ اور زیادہ بڑھ گیا تھا کیونکہ عالیان نے یہ سب اس کی وجہ سے کیا تھا لیکن اس کے ساتھ وہ عالیان سے خفا بھی تھی جس نے اپنی ضد پوری کرنے کے لیے خود کو نقصان پہنچایا تھا
یوں ہی بیٹھے بیٹھے کبھی خود سے تو کبھی عالیان سے گلہ کرتے کرتے اسے وقت کا پتا ہی نہیں چلا اسے احساس تو تب ہوا جب ایک نرس اس کے پاس آ کر کنفرم کرنے کے لیے بولی
مسز عالیان

Mirh@_Ch
 

سعد اس کی دھمکی کو کسی خاطر میں لائے بغیر بولا جسپر پری کا منہ کھل گیا
ٹھیک ہے میں جا رہی ہوں اور اب تمہیں پورا دن کچھ کھانے کو نہیں ملے گا بھوکے مرنا
یہ کہہ کر پری جانے لگی جب سعد نے اس کی کلائی پکڑ کر ہلکا سا جھٹکا دیا جس پر وہ بیڈ پر جا بیٹھی تو سعد منہ بنا کر بولا
بس ہر وقت مجھے مارنے کے پلینز بناتی رہا کرو
میں نے کب تمہیں مارنے کے پلینز بنائے ہیں
پری نے حیرت سے پوچھا
لو ابھی تو کہہ رہی تھی کہ پورا دن کچھ کھانے کو نہیں دو گی اور میں بھوکا مروں تو یہ تم مجھے مارنے کے پلینز ہی تو بنا رہی ہو
نہیں سعد میں کوئی پلینز نہیں بنا رہی میں نے تو بس ویسے ہی کہہ دیا تھا
پری نفی میں سر ہلاتے ہوئے بولی
اچھا مطلب اب دو گی نہ کھانا

Mirh@_Ch
 

تو پری نے آہستہ سے کمبل سے منہ نکال کر جھانکا تو سعد اس سے بے پرواہ سویا ہوا تھا
پری شکر کا سانس لے کر اٹھی اور بالوں کا ڈھیلا جورا بنا کر واش روم میں گھس گئی اور فریش ہو کر باہر نکلی تو اس نے سوچاکہ ناشتہ بنانے سے پہلے سعد کو اٹھا دے اسی مقصد سے وہ سعد کی طرف بڑھی اور اس کا کندھا ہلانے لگی
سعد اٹھو
سونے دو نہ پری نہ تنگ کرو
پری کے اس کا کندھا ہلانے پر سعد اپنا کندھا چھڑواتا ہوا نیند میں بولا
کیا مطلب سونے دوں اٹھو فوراً ٹائم دیکھو ایک بج رہا ہے
میں نے سونا ہے جاؤ
سعد میں ناشتہ بنانے جا رہی ہو اگر تم ناشتہ بننے تک آ گئے نہ تو ہی تمہیں ناشتہ ملے گا ورنہ نہیں ملے گا
پری نے سعد کے نا اٹھنے پر دھمکی دی
ٹھیک ہے اب جاؤ

Mirh@_Ch
 

وہ تو میں ہوں
مسکرا کر کہنے کے بعد عالیان نے آنکھیں بند کر لی کیونکہ وہ جو چاہتا تھا وہ اسے مل گیا تھا
💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙
تھکے ہونے کے باعث پری اور سعد آتے ہی سو گئے دوبارہ پری کی آنکھ ایک بجے کھلی تھی جبکہ سعد ابھی تک سویا ہوا تھا پری کہنی سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئی اور سعد کو دیکھنے لگی
میری آنکھوں پر کوئی منتر پڑھ کر پھونک....
یہ بار بار تجھے دیکھنے کی ضد کرتی ہیں ...
اسے کل رات کا سرپرائز ایک بار پھر یاد آیا اور وہ مسکرا دی اور سعد کے ماتھے پر بکھرے بالوں کو اپنے ہاتھوں سے ہٹانے کے بعد اس کے بالوں میں انگلیاں چلانے لگی تبھی اچانک سعد کسمایا اور ہری فوراً سے سیدھی ہی کر لیٹ گئی اور کمبل میں منہ چھپا کر آنکھیں میچ لیں لیکن پھر جب کافی دیر بعد کوئی حرکت نہ ہوئی ہوئی

Mirh@_Ch
 

اپنا کہا پورا کرنے کے لیے اپنا ایکسیڈنٹ کروا لیا
بےیقینی سے بولتے ہوئے آنسو اس کے گالوں پر بہہ گئے
مجھے ہرانے کے لیے تم نے اپنی جان کی بھی پروا نہیں کی اگر تمہیں کچھ ہو جاتا تو تم نے کسی کے بارے میں سوچا تک نہیں تمہیں اندازہ ہے انکل آنٹی سب تمہاری وجہ سے کتنے پریشان تھے
اب کہ ہچکیوں سے روتے ہوئے وہ کہہ رہی تھی یہ بات ہی اس کے لیے ناقابلِ برداشت تھی کہ عالیان نے صرف اس کی وجہ سے اپنی زندگی کو داؤ پر لگا دیا
تمہیں ہرانے کے لیے نہیں فجر تمہیں بلانے کے لیے کیونکہ مجھے پتا تھا کہ تم ضرور آؤ گی اور جب تم آؤ گی تو مجھے کچھ نہیں ہو سکتا
یقین سے کہتے ہوئے عالیان نے فجر کا ہاتھ پکڑنا چاہا جسے ایک جھٹکے سے چھڑاتے ہوئے وہ پیچھے ہوئی اور بولی
تم بہت برے ہو عالیان
ہذیاتی انداز میں کہتی فجر باہر نکل گئی اور اس کے جانے کے بعد عالیان بولا

Mirh@_Ch
 

عالیان کے کہنے پر فجر کو حیرت کا شدید جھٹکا لگا ایک دم سے وہ پریشان ہو کر سوچنے لگی کہ کہیں عالیان نے بے ہوشی میں اس کی کہی ساری باتیں سن تو نہیں لی اسی فکر میں فجر نے پوچھا
کیوں کر رہے تھے ویٹ اگر میں نہ آتی تو
فجر کی بات پر عالیان مسکرایا اور بولا
اگر مجھے یقین نہ ہوتا کہ میری ایکسیڈنٹ کی خبر سن کر تم نہیں آؤ گی تو میرا ایکسیڈنٹ ہوا ہی نہ ہوتا تمہیں آنا تو تھا اور تمہیں لانے کے لیے میں کچھ بھی کر سکتا تھا اوردیکھ لو میں نے جو کہا تھا سچ کر کے دکھایا میں تمہیں لینے نہیں آیا فجر تم خود کھینچی چلی آئی
عالیان کی بات پر فجر ہکلاتے ہوئے بولی
ک۔ک کیا مطلب کہ اگر تمہیں آنے میرے آنے کا یقین نہ ہوتا تو یہ ایکسیڈنٹ نہ ہوتا
میں نے بس اپنا کہا پورا کیا ہے
عالیان کے آرام سے کہنے پر فجر پھٹ پڑی

Mirh@_Ch
 

نہیں میں یہیں ٹھیک ہوں مجھے کہیں نہیں جانا اور آپ بھی تو رات سے یہیں ہیں نہ آپ نے بھی تو کچھ نہیں کھایا آپ کو بھی آرام کی ضرورت ہے آپ گھر چلی جائیں میں ہوں یہاں
فجر کے کہنے پر ثمینہ بیگم نے اثبات میں سر ہلایا چلی گئیں
سب کے جانے کے بعد فجر کچھ دیر کشمکش میں عالیان کے روم کے دروازے کے باہر کھڑی رہی اور پھر آخر ہمت کر کے آہستہ سے دروازہ کھول کر اندر داخل ہوئی جہاں عالیان بیڈ پر آنکھیں موندے لیٹا تھا
فجر دروازے کے قریب ہی کھڑے ہو کر کچھ دیر اسے دیکھتی رہی اور پھر خاموشی سے چل کر اس کے قریب پڑی چیئر پر جا کر بیٹھ گئی تبھی عالیان نے مسکراتے ہوئے آنکھیں کھولیں اور گہری سانس کھینچ کر بولا
اتنی دیر لگا دی فجر تم نے آنے میں میں کب سے تمہارا ویٹ کر رہا تھا

Mirh@_Ch
 

اچھا اب میں چلتی ہوں بعد میں ملاقات ہوگی ابھی سب میرا ویٹ کر رہے ہوں گے چلنے کے لیے
یہ کہہ کر پری اٹھ کھڑی ہوئی اور فجر ایک بار پھر اس کے گلے لگ گئی کچھ دیر بعد فجر سے علیہدہ ہونے کے بعد پری نرمی سے اس کے گالوں کو چھوتے ہوئے بولی
اپنا خیال رکھنا
یہ کہہ کر پری مڑ گئی اور فجر بھی اس کے پیچھے سب کو سی اوف کرنے چلی گئی کیونکہ سب لوگ رات سے یہیں موجود تھے اور اب جب سب کو تسلی ہوگئی کہ عالیان کو ہوش آگیا تو سب واپس جا رہے تھے صرف ثمینہ بیگم اور فجر نے رکنے کا کہا تھا لیکن سب کے جاتے وقت ثمینہ بیگم فجر کے پاس آئیں اور کہا
فجر بیٹا ایک کام کرو تم بھی سب کے ساتھ واپس چلی جاؤ رات سے یہیں ہو نہ تم نے کچھ کھایا ہے اور نہ دو منٹ سکون سے بیٹھی ہو تم بھی گھر چلی جاؤ اور ریسٹ کرو
ثمینہ بیگم کے سمجھانے پر فجر نفی میں سر ہلاتی بولی

Mirh@_Ch
 

آج مجھے احساس ہو رہا ہے کہ میں اس کے ساتھ جب بے رُخی برتتی ہوں گی تو اسے کیسا لگتا ہوگا گو اس نے اب تک ایسا کچھ نہیں کیا لیکن مجھے ڈر ہے کہ وہ بھی اب مجھ سے ایسے ہی بدلہ لے گا اورمیں اس کی بے ُرخی برداشت نہیں کر پاؤں گی
کہتے ہوئے فجر کی آنکھ سے آنسو جاری تھے پری نے اس کے کندھے پر اپنے ہاتھوں کا ہلکا سا دباؤ ڈالا اور کہا
ایسا کچھ نہیں ہوگا فجر تم ایک دفعہ اس سے مل تو لو پتہ ہے سب اس کے پاس تھے لیکن اس کی نظریں پھر بھی کسی اور کو تلاش رہیں تھی اور وہ کوئی اور یقیناً تم ہو فجر
پری نے پر یقین لہجے میں کہا
اور اگر ایسا نہ ہوا اگر اسے میرا انتظار نہ ہوا اگر اس نے بھی مجھے ویسے ہی جانے کا کہہ دیا تو
ضروری نہیں ہے کہ ایسا ہی ہو
پری نے اسے تسلی دینے والے انداز میں کہا اور پھر فجر کے گلے لگتی ہوئی بولی

Mirh@_Ch
 

وہ کیسے ؟
کیونکہ میں نے اسے کہا تھا کہ وہ چلا جائے میں نے اس سے کہا تھا کہ مجھے اس کی ضرورت نہیں ہے میری وجہ سے ہی اس کا ایکسیڈنٹ
ہوا ہے اسی لیے میں اس سے نظریں نہیں مل رہی مجھے ڈر لگ رہا ہے کہ میں اس کے سامنے جاؤں گی تو وہ بھی مجھے ایسے ہی دھتکار دے گا
جیسے میں نے دھتکارا تھا وہ بھی مجھ سے کہے گا کہ اسے میری ضرورت نہیں ہے میں چلی جاؤں
اسی لیے میں اس کے سامنے نہیں جانا چاہتی میں نہیں چاہتی کہ کہیں وہ بھی میرے ساتھ وہی نہ کرے جو میں نے اس کے ساتھ کیا تھا اور پتا ہے سب سے بڑا مسئلہ کیا ہے میں عالیان نہیں ہوں جو برداشت کرلوں گی میں فجر ہوں اور عوت کی برداشت مرد کی برداشت سے بہت کم ہوتی ہے وہ کسی کی بے رُخی نہیں برداشت کر سکتی اور مرد بڑی سے بڑی بات بھی برداشت کر جاتے ہیں

Mirh@_Ch
 

شکرانے کے نفل ادا کرنے کے بعد فجر ہاسپٹل کے چھوٹے سے گارڈن میں جہاں چند پودے لگے تھے اور قریب ہی ایک بینچ لگا تھا جس پر وہ جابیٹھی
ابھی اسے بیٹھے ہوئے پانچ منٹ ہی گزرے ہوں گے جب پری وہاں آئی اور فجر کو دیکھ کر گہری سانس بھر کر اس کے ساتھ بینچ پر جا بیٹھی اور کہنے لگی تم یہاں بیٹھی ہو اور میں کب سے تمہیں اندر ڈھونڈ رہی ہوں میں نے سوچا جانے سے پہلے تم سے مل لوں لیکن۔۔۔
پری بولتے بولتے خاموش ہو گئی اور فجر کو دیکھ کر بولی
کیا ہو فجر تم اتنی خاموش کیوں ہو عالیان بھائی جلد ٹھیک ہو جائیں گے تم فکر مت کرو
پری کو اس کی خاموشی سے لگا کہ شاید وہ عالیان کی وجہ سے پریشان ہے اس لیے وہ اسے تسلی دینے لگی تو فجر کھوئے کھوئے لہجے میں بولی
تمہیں پتا ہے پری عالیان کا ایکسیڈینٹ میری وجہ سے ہوا ہے
فجر کی بات پر پری نے حیران ہوتے ہوئے سوال پوچھا

Mirh@_Ch
 

اسے اپنے دل کی ہر بات بتانا چأہتی تھی جو شاید وہ اسے ویسے کبھی نہ بتاتی لیکن جب آپکی کوئی قیمتی چیز آپ سے دور جانے لگتی ہے تب آپ کو اس کی اہمیت کا احساس ہوتا ہے تب پتا چلتا ہے کہ وہ چیز آپ کے لیے کیا معنی رکھتی ہے
کاش کہ تم میرے ہوتے
پر پھر ملے ہی نہ ہوتے
💖💖💖💖💖💖💖💖
آخر پوری رات ہوسپٹل میں گزارنے کے بعد صبح جا کر اسے ہوش آیا تھا تو بہت سے دلوں کو قرار آیا تھا بہت سے لبوں سے تشکر کے الفاظ ادا ہوئے تھے سب باری باری اس سے ملنے جا رہے تھے
لیکن فجر ان اب کو دیکھتی بھیگی آنکھوں سے مسکراتی باہر ہی موجود تھی کیونکہ شرمندگی سے وہ عالیان سے نظریں نہیں ملا سکتی تھی اس لیے اس نے سب اے پہلے اپنے رب کا شکر ادا کرنے کے لیے پریئر روم کا ُرخ کیا
..................

Mirh@_Ch
 

تم کہہ رہے تھے نہ کہ میدانِ جنگ میں ہار مانی جا سکتی ہے سہی کہتے تھے تم عالیان میں نے مان لی ہار شاید آج سے نہیں کب سے اور جیت گیا یہ ظالم عشق جس نے مجھے بھی اپنا غلام بنا لیا ہے شاید مجھے خود بھی نہیں پتا کب سے جب تم مجھ پر غصہ کرتے تھے یا تب جب تم مجھ پر مہربان ہوتے تھے
اس سچ کو تم سے خود سے چھپانے کے لیے میں تم سے دور ہونا چاہتی تھی کہ کہیں تم میرے دل کا بھید نہ جان لو اگر تمہیں پتا چل جاتا کہ ہر وقت مجھ سے نفرت کرنے کا کہنے والی کو مجھ سے عشق ہوگیا تو میری عزتِ نفس مجروع نہ ہو جاتی لیکن آج مجھے پتا چلا کہ عشق میں عزتِ نفس نہیں ہوتی اس میں ہر چیز بالائے طاق رکھتے ہوئے صرف دل کی سنی جاتی ہے
رق رو کر آج اس نے اپنا دل عالیان کے سامنے کھول دیا تھا جو شاید اسے سن بھی نہیں رہا تھا لیکن وہ آج اسے سب سنانا چاہتی تھی

Mirh@_Ch
 

عالیان کا ہاتھ پکڑ کر اپنے لبوں سے لگاتے ہوئے وہ کچھ دیر بے تہاشہ روتی رہی اور پھر اپنے آنسو رگڑتی ہوئی بولی
تم چاہتی تھے نہ کہ میں تمہیں آپ کہوں تو میں ہمیشہ تمہیں آپ کہوں گی تم چاہتے تھی میں کھانا بنانا سیکھوں تو میں اب کچھ بنانا سیکھ لوں گی تم چاہتے تھے نہ تمہیں چھوڑ کر کہیں نہ جا ؤں تو میں کہیں نہیں جاؤں گی تم کہو گے نہ تو کسی سے نہیں ملوں گی کسی اے بات نہیں کروں گی تم چاہتے تھے نہ کہ میں تمہاری ہر بات مانوں تم سے تمیز سے بات کروں تو میں سب کچھ کروں گی آئی پرامس بس تم اٹھ جاؤ عالیان مجھے ضرورت ہے تمہاری دیکھو میں کہہ رہی ہوں نہیں رہ سکتی نہ میں تمہاعے بغیر عادت ہو گئی ہے تمہاری تمہاری ڈانٹ کی اٹھو نہ غصہ کرو مجھ پر میں بلکل برا نہیں مناؤں گی پر پلیز تم اٹھ جاؤ
لوٹ کر کب آنا ہے تم نے
بس ویسے ہی تمہیں عادتاً پکارتے رہتے ہیں

Mirh@_Ch
 

روم میں داخل ہوتے جہاں عالیان پٹیوں سے جگڑا ہوا تھا اسے دیکھ کر فجر کو یقین ہی نہیں آ رہا تھا کہ یہ وہی عالیان ہے جس سے وہ کچھ دیر پہلے ملی تھی
عالیان کے قریب بیٹھتے ہوئے اسے عالیان کی آخری بات یاد آئی تھی جب اس نے کہا تھا کہ اب میں تمہیں لینے نہیں آؤں گا بلکہ تم خود آؤ گی اور کہو گی کہ تمہیں میری ضرورت ہے
اسکی بات یاد کر کے ایک آنسو اس کی آنکھ سے بے مول ہوا تھا اور اس نے اس بات کی تصدیق خود اپنے لبوں سے کی تھی
سہی کہا تھا تم نے عالیان دیکھو میں خود آئی ہوں میں خود کہتی ہوں مجھے تمہاری ضرورت ہے پلیز ایک بار اٹھ کر دیکھو نہ تم ہمیشہ کی طرح جیت گئے میں خود کھینچی چلی آئی پھر سے ہرا دیا تم نے مجھے لیکن اس بار مجھے اپنی ہار بلکل بری نہیں لگی بلکہ میں ہمیشہ تم سے ہارنا چاہتی ہوں عالیان پلیز تم بس ایک بار اٹھ جاؤ

Mirh@_Ch
 

آج اس کے آنسو سب واضع کر رہے تھے کہ اسے کیا چاہیے اسے کس چیز کی ضرورت ہے اور کس کی نہیں آج زبان سے نہیں آنسوؤں سے اعتراف ہو رہا تھا
اس کی تڑپ بتا رہی تھی کہ عالیان اس کے لیے کیا ہے
بھولنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا میرے سرکار
تمہیں میں نے نہیں میرے دل نے چنا ہے
💖💖💖💖💖💖💖💖💖
جب فجر واپس آئی تو اسے پتا چلا کہ ڈاکٹرز نے اگلے چوبیس گھنٹے انتہائ کریٹیکل ہیں اور ان میں ہوش آنا بہت ضروری ہے ورنہ وہ کوما میں بھی جاسکتا ہے
پری کے بتانے پر فجر کو اپنا دل بند ہوتا ہوا محسوس ہو رہا تھا
💖💖💖💖💖💖💖💖💖
اتنا درد تو مرنے سے بھی نہ ہوگا
جتنا تیری خاموشی نے دیا ہے

Mirh@_Ch
 

وہ پانچ منٹ پہلے ہی ہوسپٹل پہنچی تھی اور اب ایمرجنسی روم کے باہر کھڑی مسلسل اندر دیکھ رہی تھی
دل و دماغ بار بار سامنے نظر آتے منظر کو جھٹلا رہا تھا آنسو بار بار سارے منظر کو دھندلا رہے تھے جسے وہ بار بار رگڑ رہی تھی
دل سے بار بار یہ آواز آ رہی تھی کہ یہ سب اس کی وجہ سے ہوا ہے
جب جب کوئی اسے تسلی دینے کے لیے اس کے شانے پر ہاتھ رکھتا تھا تو ایک گلٹی ابھر کر معدوم ہوتی تھی
دل بار بار دہائیاں دے رہا تھا کہ تم یہی تو چاہتی تھی کہ وہ چلا جائے تمہیں چھوڑ کر تاکہ تم اس کی قید سے آزاد ہو سکو
دل کی آواز اے تنگ آ کر اس نے اپنے کانوں پر ہاتھ رکھ لیا اور پریئر روم کی طرف بڑھی اور گڑگڑا گڑگرا کر عالیان کے لیے دعا مانگنے لگی اسی کے لیے جس کی قید سے وہ آزادی چاہتی تھی جس کی اسے ضرور نہیں تھی ہاں

Mirh@_Ch
 

بی بی وہ آپ کے شوہر عالیان صاحب جو آج آئے تھے ان کا ایکسیڈینٹ ہوگیا ہے
ابھی وہ کہہ ہی رہا تھا جب بہت زور سے بجلی چمکی تھی اور فجر کو لگ اجیسے اسکا خواب سچ ہوگیا ہو جیسے قدرت نے اس کی کہی بات کو سچ میں بدل دیا ہو
اس کے کانوں میں خود کے الفاظ گونج رہے تھے
کچھ دیر تو وہ پتھر بنی وہیں کھڑی رہی اور پھر جب اسے ہوش آیا تو وہ جیسے تھی ویسے باہر بھاگی اور برستی بارش کا خیال کیے بنا جا کر گاڑی میں بیٹھی تھی
آنسو اچانک لڑی کی صورت اس کے آنکھوں سے متواتر بہہ رہے تھے بار بار وہ اپنے چہرے پر ہاتھ پھیرتی اپنے آپ پر قابو پا رہی تھی
💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖
کھانا کھانے کے بعد سب گھر جانے والے تھے جب ساجدہ بیگم کے فون پر ثمینہ بیگم کا فون آیا تھا جنھوں نے روتے ہوئے انھیں عالیان کے شدید ایکسیڈینٹ کا بتایا تھا جس پر سب وہیں سے ہاسپٹل کے لیے چلے گئ