علیان نے فجر کو دیکھتے ہوئے ہی گولیاں نگلیں اور پانی کا گلاس سائیڈ ٹیبل پر رکھ کر ایک آبرو اچکا کر نرس کو دیکھا جیسے کہہ رہا ہو اور کچھ نرس نفی میں سر ہلاتی بایر نکل گئی تو فجر قریب ہی رکھے ٹو سیٹر صوفے پر جا بیٹھی تو عالیان بولا
تم نے مجھ سے یہ تو پوچھا ہی نہیں کہ میں کیسا ہوان بس آتے ہی لڑنا شروع ہوگئی
ہاں کیونکہ مجھے پہلے سے پتا ہے کہ تم بہت برے ہوا
اچھا ٹھیک ہے مان لیا کہ میں بہت برا ہوں اب یہ بتاؤ کچھ کھایا ہے تم نے
عالیان کی بات پر فجر ایسے بیٹھی رہی جیسے اس نے کچھ سنا ہی نہ ہو تو عالیان نے پھر اسے پکارا
فجر
اب کی بار بھی فجر ٹس سے مس نہ ہوئی تو عالیان بولا
فجر تم کیا چاہ رہی ہو کہ میں خود چل کر آؤں تمہارے پاس
اب کہ عالیان کے کہنے پر فجر فوراً بولی
مجھے بھوک نہیں ہے
نرس کے پوچھنے پر فجر اثبات میں سر ہلا دیا تو نرس مزید گویا ہوئی
آپ کے ہزبینڈ میڈیسن نہیں لے رہے کہہ رہے ہیں کہ جب تک آپ نہیں آئیں گی وہ میڈیسن نہیں لیں گے
نرس کے بتانے پر فجر گہری سانس لیتی نرس کے پیچھے روم کی طرف بڑھی اور اسے روم میں داخل ہوتے دیکھ عالیان کے چہرے پر مسکراہٹ نمودار ہوئی
فجر نے اندر داخل ہو کر اسے غصیلی نظروں سے گھورا جبکہ عالیان اس کی گھوریوں کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے مسکراتا رہا تو فجر زچ ہو کر بولی
کیا مسئلہ ہے تمہارے ساتھ میڈیسن کیوں نہیں لے رہے ہو
کس نے کہا ہے میں نہیں لے رہا میڈیسن تم کہو اور میں نہ لوں ایسا ہو سکتا ہے
فرماں بردار شوہر کی بھر پور ایکٹنگ کرتے ہوئے عالیان بولا توفجر نے نرس کی طرف دیکھا جس نے فوراً آگے بڑھ کر گولیاں نکال کر عالیان کو دیں جو مسلسل فجر کو دیکھ رہا تھا
سعد نے سمجھنے والے انداز میں کہا جس پر پری نے زور زور سے اثبات میں سر ہلایا
گڈ اب تم جاکر اپنے لیے ناشتہ بناؤ میں تو ایک گھنٹے بعد اٹھوں گا
یہ کہہ کر سعد نے کروٹ لے کر آنکھیں بند کر لیں اور پری اپنے لیے ناشتہ بنانے چلی گئ اور سعد پری کے جانے کے بعد آنکھیں کھول کر مسکراتا ہوا بولا
بے وقوف
💚💚💚💚💚💚💚💚💚💚💚💚💚
فجر روم سے نکل کر ایک بار پھر اس بینچ پر جا بیٹھی اور رونے لگی کیونکہ اب اسکا گلٹ اور زیادہ بڑھ گیا تھا کیونکہ عالیان نے یہ سب اس کی وجہ سے کیا تھا لیکن اس کے ساتھ وہ عالیان سے خفا بھی تھی جس نے اپنی ضد پوری کرنے کے لیے خود کو نقصان پہنچایا تھا
یوں ہی بیٹھے بیٹھے کبھی خود سے تو کبھی عالیان سے گلہ کرتے کرتے اسے وقت کا پتا ہی نہیں چلا اسے احساس تو تب ہوا جب ایک نرس اس کے پاس آ کر کنفرم کرنے کے لیے بولی
مسز عالیان
سعد اس کی دھمکی کو کسی خاطر میں لائے بغیر بولا جسپر پری کا منہ کھل گیا
ٹھیک ہے میں جا رہی ہوں اور اب تمہیں پورا دن کچھ کھانے کو نہیں ملے گا بھوکے مرنا
یہ کہہ کر پری جانے لگی جب سعد نے اس کی کلائی پکڑ کر ہلکا سا جھٹکا دیا جس پر وہ بیڈ پر جا بیٹھی تو سعد منہ بنا کر بولا
بس ہر وقت مجھے مارنے کے پلینز بناتی رہا کرو
میں نے کب تمہیں مارنے کے پلینز بنائے ہیں
پری نے حیرت سے پوچھا
لو ابھی تو کہہ رہی تھی کہ پورا دن کچھ کھانے کو نہیں دو گی اور میں بھوکا مروں تو یہ تم مجھے مارنے کے پلینز ہی تو بنا رہی ہو
نہیں سعد میں کوئی پلینز نہیں بنا رہی میں نے تو بس ویسے ہی کہہ دیا تھا
پری نفی میں سر ہلاتے ہوئے بولی
اچھا مطلب اب دو گی نہ کھانا
تو پری نے آہستہ سے کمبل سے منہ نکال کر جھانکا تو سعد اس سے بے پرواہ سویا ہوا تھا
پری شکر کا سانس لے کر اٹھی اور بالوں کا ڈھیلا جورا بنا کر واش روم میں گھس گئی اور فریش ہو کر باہر نکلی تو اس نے سوچاکہ ناشتہ بنانے سے پہلے سعد کو اٹھا دے اسی مقصد سے وہ سعد کی طرف بڑھی اور اس کا کندھا ہلانے لگی
سعد اٹھو
سونے دو نہ پری نہ تنگ کرو
پری کے اس کا کندھا ہلانے پر سعد اپنا کندھا چھڑواتا ہوا نیند میں بولا
کیا مطلب سونے دوں اٹھو فوراً ٹائم دیکھو ایک بج رہا ہے
میں نے سونا ہے جاؤ
سعد میں ناشتہ بنانے جا رہی ہو اگر تم ناشتہ بننے تک آ گئے نہ تو ہی تمہیں ناشتہ ملے گا ورنہ نہیں ملے گا
پری نے سعد کے نا اٹھنے پر دھمکی دی
ٹھیک ہے اب جاؤ
وہ تو میں ہوں
مسکرا کر کہنے کے بعد عالیان نے آنکھیں بند کر لی کیونکہ وہ جو چاہتا تھا وہ اسے مل گیا تھا
💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙
تھکے ہونے کے باعث پری اور سعد آتے ہی سو گئے دوبارہ پری کی آنکھ ایک بجے کھلی تھی جبکہ سعد ابھی تک سویا ہوا تھا پری کہنی سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئی اور سعد کو دیکھنے لگی
میری آنکھوں پر کوئی منتر پڑھ کر پھونک....
یہ بار بار تجھے دیکھنے کی ضد کرتی ہیں ...
اسے کل رات کا سرپرائز ایک بار پھر یاد آیا اور وہ مسکرا دی اور سعد کے ماتھے پر بکھرے بالوں کو اپنے ہاتھوں سے ہٹانے کے بعد اس کے بالوں میں انگلیاں چلانے لگی تبھی اچانک سعد کسمایا اور ہری فوراً سے سیدھی ہی کر لیٹ گئی اور کمبل میں منہ چھپا کر آنکھیں میچ لیں لیکن پھر جب کافی دیر بعد کوئی حرکت نہ ہوئی ہوئی
اپنا کہا پورا کرنے کے لیے اپنا ایکسیڈنٹ کروا لیا
بےیقینی سے بولتے ہوئے آنسو اس کے گالوں پر بہہ گئے
مجھے ہرانے کے لیے تم نے اپنی جان کی بھی پروا نہیں کی اگر تمہیں کچھ ہو جاتا تو تم نے کسی کے بارے میں سوچا تک نہیں تمہیں اندازہ ہے انکل آنٹی سب تمہاری وجہ سے کتنے پریشان تھے
اب کہ ہچکیوں سے روتے ہوئے وہ کہہ رہی تھی یہ بات ہی اس کے لیے ناقابلِ برداشت تھی کہ عالیان نے صرف اس کی وجہ سے اپنی زندگی کو داؤ پر لگا دیا
تمہیں ہرانے کے لیے نہیں فجر تمہیں بلانے کے لیے کیونکہ مجھے پتا تھا کہ تم ضرور آؤ گی اور جب تم آؤ گی تو مجھے کچھ نہیں ہو سکتا
یقین سے کہتے ہوئے عالیان نے فجر کا ہاتھ پکڑنا چاہا جسے ایک جھٹکے سے چھڑاتے ہوئے وہ پیچھے ہوئی اور بولی
تم بہت برے ہو عالیان
ہذیاتی انداز میں کہتی فجر باہر نکل گئی اور اس کے جانے کے بعد عالیان بولا
عالیان کے کہنے پر فجر کو حیرت کا شدید جھٹکا لگا ایک دم سے وہ پریشان ہو کر سوچنے لگی کہ کہیں عالیان نے بے ہوشی میں اس کی کہی ساری باتیں سن تو نہیں لی اسی فکر میں فجر نے پوچھا
کیوں کر رہے تھے ویٹ اگر میں نہ آتی تو
فجر کی بات پر عالیان مسکرایا اور بولا
اگر مجھے یقین نہ ہوتا کہ میری ایکسیڈنٹ کی خبر سن کر تم نہیں آؤ گی تو میرا ایکسیڈنٹ ہوا ہی نہ ہوتا تمہیں آنا تو تھا اور تمہیں لانے کے لیے میں کچھ بھی کر سکتا تھا اوردیکھ لو میں نے جو کہا تھا سچ کر کے دکھایا میں تمہیں لینے نہیں آیا فجر تم خود کھینچی چلی آئی
عالیان کی بات پر فجر ہکلاتے ہوئے بولی
ک۔ک کیا مطلب کہ اگر تمہیں آنے میرے آنے کا یقین نہ ہوتا تو یہ ایکسیڈنٹ نہ ہوتا
میں نے بس اپنا کہا پورا کیا ہے
عالیان کے آرام سے کہنے پر فجر پھٹ پڑی
نہیں میں یہیں ٹھیک ہوں مجھے کہیں نہیں جانا اور آپ بھی تو رات سے یہیں ہیں نہ آپ نے بھی تو کچھ نہیں کھایا آپ کو بھی آرام کی ضرورت ہے آپ گھر چلی جائیں میں ہوں یہاں
فجر کے کہنے پر ثمینہ بیگم نے اثبات میں سر ہلایا چلی گئیں
سب کے جانے کے بعد فجر کچھ دیر کشمکش میں عالیان کے روم کے دروازے کے باہر کھڑی رہی اور پھر آخر ہمت کر کے آہستہ سے دروازہ کھول کر اندر داخل ہوئی جہاں عالیان بیڈ پر آنکھیں موندے لیٹا تھا
فجر دروازے کے قریب ہی کھڑے ہو کر کچھ دیر اسے دیکھتی رہی اور پھر خاموشی سے چل کر اس کے قریب پڑی چیئر پر جا کر بیٹھ گئی تبھی عالیان نے مسکراتے ہوئے آنکھیں کھولیں اور گہری سانس کھینچ کر بولا
اتنی دیر لگا دی فجر تم نے آنے میں میں کب سے تمہارا ویٹ کر رہا تھا
اچھا اب میں چلتی ہوں بعد میں ملاقات ہوگی ابھی سب میرا ویٹ کر رہے ہوں گے چلنے کے لیے
یہ کہہ کر پری اٹھ کھڑی ہوئی اور فجر ایک بار پھر اس کے گلے لگ گئی کچھ دیر بعد فجر سے علیہدہ ہونے کے بعد پری نرمی سے اس کے گالوں کو چھوتے ہوئے بولی
اپنا خیال رکھنا
یہ کہہ کر پری مڑ گئی اور فجر بھی اس کے پیچھے سب کو سی اوف کرنے چلی گئی کیونکہ سب لوگ رات سے یہیں موجود تھے اور اب جب سب کو تسلی ہوگئی کہ عالیان کو ہوش آگیا تو سب واپس جا رہے تھے صرف ثمینہ بیگم اور فجر نے رکنے کا کہا تھا لیکن سب کے جاتے وقت ثمینہ بیگم فجر کے پاس آئیں اور کہا
فجر بیٹا ایک کام کرو تم بھی سب کے ساتھ واپس چلی جاؤ رات سے یہیں ہو نہ تم نے کچھ کھایا ہے اور نہ دو منٹ سکون سے بیٹھی ہو تم بھی گھر چلی جاؤ اور ریسٹ کرو
ثمینہ بیگم کے سمجھانے پر فجر نفی میں سر ہلاتی بولی
آج مجھے احساس ہو رہا ہے کہ میں اس کے ساتھ جب بے رُخی برتتی ہوں گی تو اسے کیسا لگتا ہوگا گو اس نے اب تک ایسا کچھ نہیں کیا لیکن مجھے ڈر ہے کہ وہ بھی اب مجھ سے ایسے ہی بدلہ لے گا اورمیں اس کی بے ُرخی برداشت نہیں کر پاؤں گی
کہتے ہوئے فجر کی آنکھ سے آنسو جاری تھے پری نے اس کے کندھے پر اپنے ہاتھوں کا ہلکا سا دباؤ ڈالا اور کہا
ایسا کچھ نہیں ہوگا فجر تم ایک دفعہ اس سے مل تو لو پتہ ہے سب اس کے پاس تھے لیکن اس کی نظریں پھر بھی کسی اور کو تلاش رہیں تھی اور وہ کوئی اور یقیناً تم ہو فجر
پری نے پر یقین لہجے میں کہا
اور اگر ایسا نہ ہوا اگر اسے میرا انتظار نہ ہوا اگر اس نے بھی مجھے ویسے ہی جانے کا کہہ دیا تو
ضروری نہیں ہے کہ ایسا ہی ہو
پری نے اسے تسلی دینے والے انداز میں کہا اور پھر فجر کے گلے لگتی ہوئی بولی
وہ کیسے ؟
کیونکہ میں نے اسے کہا تھا کہ وہ چلا جائے میں نے اس سے کہا تھا کہ مجھے اس کی ضرورت نہیں ہے میری وجہ سے ہی اس کا ایکسیڈنٹ
ہوا ہے اسی لیے میں اس سے نظریں نہیں مل رہی مجھے ڈر لگ رہا ہے کہ میں اس کے سامنے جاؤں گی تو وہ بھی مجھے ایسے ہی دھتکار دے گا
جیسے میں نے دھتکارا تھا وہ بھی مجھ سے کہے گا کہ اسے میری ضرورت نہیں ہے میں چلی جاؤں
اسی لیے میں اس کے سامنے نہیں جانا چاہتی میں نہیں چاہتی کہ کہیں وہ بھی میرے ساتھ وہی نہ کرے جو میں نے اس کے ساتھ کیا تھا اور پتا ہے سب سے بڑا مسئلہ کیا ہے میں عالیان نہیں ہوں جو برداشت کرلوں گی میں فجر ہوں اور عوت کی برداشت مرد کی برداشت سے بہت کم ہوتی ہے وہ کسی کی بے رُخی نہیں برداشت کر سکتی اور مرد بڑی سے بڑی بات بھی برداشت کر جاتے ہیں
شکرانے کے نفل ادا کرنے کے بعد فجر ہاسپٹل کے چھوٹے سے گارڈن میں جہاں چند پودے لگے تھے اور قریب ہی ایک بینچ لگا تھا جس پر وہ جابیٹھی
ابھی اسے بیٹھے ہوئے پانچ منٹ ہی گزرے ہوں گے جب پری وہاں آئی اور فجر کو دیکھ کر گہری سانس بھر کر اس کے ساتھ بینچ پر جا بیٹھی اور کہنے لگی تم یہاں بیٹھی ہو اور میں کب سے تمہیں اندر ڈھونڈ رہی ہوں میں نے سوچا جانے سے پہلے تم سے مل لوں لیکن۔۔۔
پری بولتے بولتے خاموش ہو گئی اور فجر کو دیکھ کر بولی
کیا ہو فجر تم اتنی خاموش کیوں ہو عالیان بھائی جلد ٹھیک ہو جائیں گے تم فکر مت کرو
پری کو اس کی خاموشی سے لگا کہ شاید وہ عالیان کی وجہ سے پریشان ہے اس لیے وہ اسے تسلی دینے لگی تو فجر کھوئے کھوئے لہجے میں بولی
تمہیں پتا ہے پری عالیان کا ایکسیڈینٹ میری وجہ سے ہوا ہے
فجر کی بات پر پری نے حیران ہوتے ہوئے سوال پوچھا
اسے اپنے دل کی ہر بات بتانا چأہتی تھی جو شاید وہ اسے ویسے کبھی نہ بتاتی لیکن جب آپکی کوئی قیمتی چیز آپ سے دور جانے لگتی ہے تب آپ کو اس کی اہمیت کا احساس ہوتا ہے تب پتا چلتا ہے کہ وہ چیز آپ کے لیے کیا معنی رکھتی ہے
کاش کہ تم میرے ہوتے
پر پھر ملے ہی نہ ہوتے
💖💖💖💖💖💖💖💖
آخر پوری رات ہوسپٹل میں گزارنے کے بعد صبح جا کر اسے ہوش آیا تھا تو بہت سے دلوں کو قرار آیا تھا بہت سے لبوں سے تشکر کے الفاظ ادا ہوئے تھے سب باری باری اس سے ملنے جا رہے تھے
لیکن فجر ان اب کو دیکھتی بھیگی آنکھوں سے مسکراتی باہر ہی موجود تھی کیونکہ شرمندگی سے وہ عالیان سے نظریں نہیں ملا سکتی تھی اس لیے اس نے سب اے پہلے اپنے رب کا شکر ادا کرنے کے لیے پریئر روم کا ُرخ کیا
..................
تم کہہ رہے تھے نہ کہ میدانِ جنگ میں ہار مانی جا سکتی ہے سہی کہتے تھے تم عالیان میں نے مان لی ہار شاید آج سے نہیں کب سے اور جیت گیا یہ ظالم عشق جس نے مجھے بھی اپنا غلام بنا لیا ہے شاید مجھے خود بھی نہیں پتا کب سے جب تم مجھ پر غصہ کرتے تھے یا تب جب تم مجھ پر مہربان ہوتے تھے
اس سچ کو تم سے خود سے چھپانے کے لیے میں تم سے دور ہونا چاہتی تھی کہ کہیں تم میرے دل کا بھید نہ جان لو اگر تمہیں پتا چل جاتا کہ ہر وقت مجھ سے نفرت کرنے کا کہنے والی کو مجھ سے عشق ہوگیا تو میری عزتِ نفس مجروع نہ ہو جاتی لیکن آج مجھے پتا چلا کہ عشق میں عزتِ نفس نہیں ہوتی اس میں ہر چیز بالائے طاق رکھتے ہوئے صرف دل کی سنی جاتی ہے
رق رو کر آج اس نے اپنا دل عالیان کے سامنے کھول دیا تھا جو شاید اسے سن بھی نہیں رہا تھا لیکن وہ آج اسے سب سنانا چاہتی تھی
عالیان کا ہاتھ پکڑ کر اپنے لبوں سے لگاتے ہوئے وہ کچھ دیر بے تہاشہ روتی رہی اور پھر اپنے آنسو رگڑتی ہوئی بولی
تم چاہتی تھے نہ کہ میں تمہیں آپ کہوں تو میں ہمیشہ تمہیں آپ کہوں گی تم چاہتے تھی میں کھانا بنانا سیکھوں تو میں اب کچھ بنانا سیکھ لوں گی تم چاہتے تھے نہ تمہیں چھوڑ کر کہیں نہ جا ؤں تو میں کہیں نہیں جاؤں گی تم کہو گے نہ تو کسی سے نہیں ملوں گی کسی اے بات نہیں کروں گی تم چاہتے تھے نہ کہ میں تمہاری ہر بات مانوں تم سے تمیز سے بات کروں تو میں سب کچھ کروں گی آئی پرامس بس تم اٹھ جاؤ عالیان مجھے ضرورت ہے تمہاری دیکھو میں کہہ رہی ہوں نہیں رہ سکتی نہ میں تمہاعے بغیر عادت ہو گئی ہے تمہاری تمہاری ڈانٹ کی اٹھو نہ غصہ کرو مجھ پر میں بلکل برا نہیں مناؤں گی پر پلیز تم اٹھ جاؤ
لوٹ کر کب آنا ہے تم نے
بس ویسے ہی تمہیں عادتاً پکارتے رہتے ہیں
روم میں داخل ہوتے جہاں عالیان پٹیوں سے جگڑا ہوا تھا اسے دیکھ کر فجر کو یقین ہی نہیں آ رہا تھا کہ یہ وہی عالیان ہے جس سے وہ کچھ دیر پہلے ملی تھی
عالیان کے قریب بیٹھتے ہوئے اسے عالیان کی آخری بات یاد آئی تھی جب اس نے کہا تھا کہ اب میں تمہیں لینے نہیں آؤں گا بلکہ تم خود آؤ گی اور کہو گی کہ تمہیں میری ضرورت ہے
اسکی بات یاد کر کے ایک آنسو اس کی آنکھ سے بے مول ہوا تھا اور اس نے اس بات کی تصدیق خود اپنے لبوں سے کی تھی
سہی کہا تھا تم نے عالیان دیکھو میں خود آئی ہوں میں خود کہتی ہوں مجھے تمہاری ضرورت ہے پلیز ایک بار اٹھ کر دیکھو نہ تم ہمیشہ کی طرح جیت گئے میں خود کھینچی چلی آئی پھر سے ہرا دیا تم نے مجھے لیکن اس بار مجھے اپنی ہار بلکل بری نہیں لگی بلکہ میں ہمیشہ تم سے ہارنا چاہتی ہوں عالیان پلیز تم بس ایک بار اٹھ جاؤ
آج اس کے آنسو سب واضع کر رہے تھے کہ اسے کیا چاہیے اسے کس چیز کی ضرورت ہے اور کس کی نہیں آج زبان سے نہیں آنسوؤں سے اعتراف ہو رہا تھا
اس کی تڑپ بتا رہی تھی کہ عالیان اس کے لیے کیا ہے
بھولنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا میرے سرکار
تمہیں میں نے نہیں میرے دل نے چنا ہے
💖💖💖💖💖💖💖💖💖
جب فجر واپس آئی تو اسے پتا چلا کہ ڈاکٹرز نے اگلے چوبیس گھنٹے انتہائ کریٹیکل ہیں اور ان میں ہوش آنا بہت ضروری ہے ورنہ وہ کوما میں بھی جاسکتا ہے
پری کے بتانے پر فجر کو اپنا دل بند ہوتا ہوا محسوس ہو رہا تھا
💖💖💖💖💖💖💖💖💖
اتنا درد تو مرنے سے بھی نہ ہوگا
جتنا تیری خاموشی نے دیا ہے
وہ پانچ منٹ پہلے ہی ہوسپٹل پہنچی تھی اور اب ایمرجنسی روم کے باہر کھڑی مسلسل اندر دیکھ رہی تھی
دل و دماغ بار بار سامنے نظر آتے منظر کو جھٹلا رہا تھا آنسو بار بار سارے منظر کو دھندلا رہے تھے جسے وہ بار بار رگڑ رہی تھی
دل سے بار بار یہ آواز آ رہی تھی کہ یہ سب اس کی وجہ سے ہوا ہے
جب جب کوئی اسے تسلی دینے کے لیے اس کے شانے پر ہاتھ رکھتا تھا تو ایک گلٹی ابھر کر معدوم ہوتی تھی
دل بار بار دہائیاں دے رہا تھا کہ تم یہی تو چاہتی تھی کہ وہ چلا جائے تمہیں چھوڑ کر تاکہ تم اس کی قید سے آزاد ہو سکو
دل کی آواز اے تنگ آ کر اس نے اپنے کانوں پر ہاتھ رکھ لیا اور پریئر روم کی طرف بڑھی اور گڑگڑا گڑگرا کر عالیان کے لیے دعا مانگنے لگی اسی کے لیے جس کی قید سے وہ آزادی چاہتی تھی جس کی اسے ضرور نہیں تھی ہاں
بی بی وہ آپ کے شوہر عالیان صاحب جو آج آئے تھے ان کا ایکسیڈینٹ ہوگیا ہے
ابھی وہ کہہ ہی رہا تھا جب بہت زور سے بجلی چمکی تھی اور فجر کو لگ اجیسے اسکا خواب سچ ہوگیا ہو جیسے قدرت نے اس کی کہی بات کو سچ میں بدل دیا ہو
اس کے کانوں میں خود کے الفاظ گونج رہے تھے
کچھ دیر تو وہ پتھر بنی وہیں کھڑی رہی اور پھر جب اسے ہوش آیا تو وہ جیسے تھی ویسے باہر بھاگی اور برستی بارش کا خیال کیے بنا جا کر گاڑی میں بیٹھی تھی
آنسو اچانک لڑی کی صورت اس کے آنکھوں سے متواتر بہہ رہے تھے بار بار وہ اپنے چہرے پر ہاتھ پھیرتی اپنے آپ پر قابو پا رہی تھی
💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖
کھانا کھانے کے بعد سب گھر جانے والے تھے جب ساجدہ بیگم کے فون پر ثمینہ بیگم کا فون آیا تھا جنھوں نے روتے ہوئے انھیں عالیان کے شدید ایکسیڈینٹ کا بتایا تھا جس پر سب وہیں سے ہاسپٹل کے لیے چلے گئ
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain