اچانک تیز ہواؤں کے ساتھ گرج چمک شروع ہوگئی جس پر فجر کو مزید بے چینی ہونے لگی اور وہ اندر کی طرف گئی اور لینڈ لائنڈ سے ساجدہ بیگم کو فون ملانے لگی کیونکہ اب کافی لیٹ ہوگیا تھا اور اب تک کوئی نہیں آیا تھا
اسکے پاس اپنا فون بھی نہیں تھا
اور لینڈ لائن سے فون ہو نہیں رہا تھا
پریشانی سے فجر ادھر ادھر چکر کاٹنے لگی جب چوکیدار بھاگتا ہوا اندر آیا جو شاید آتے آتے بارش میں بھیگ گیا تھا اور فجر سے بولا
فجر بی بی وہ بیگم صاحبہ کا فون آیا ہے وہ کہہ رہی ہیں کہ باہر ڈرائیور کھڑا ہے آپ اس کے ساتھ ہاسپٹل چلی جائیں
ہاسپٹل کے نام پر فجر کی دھڑکن ایک دم تیز ہوئی اور اسے شدت سے کچھ غلط ہونے کا احساس ہوا
بامشکل اپنے لحجے پر قابو پاتے ہوئے وہ بولی
ہاسپٹل کیوں جانا ہے
فجر نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے بچانا چاہا لیکن اس کا ہاتھ سلپ ہوگیا
عالیان......
فجر چیختی ہوئی اٹھی تھی اس کا پورا جسم پسینے سے شرابور تھا
میں نے کچھ بھی نہیں کیا میں نے تو نہیں کچھ ..
بے ربط جملے بولتی وہ کافی دیر تک حقیقت کی دنیا میں آ ہی نہیں تھی بلکہ ابھی تک خود کو اس بھیانک خواب کے زیرِاثر محسوس کر رہی تھی آخر جب کافی دیر تک خالی خالی نظروں سے ادھر ادھر دیکھنے کے بعد اسے یقین ہوگیا کہ یہ ایک خواب تھا تو وہ منہ پر ہاتھ پھیرتی ٹیرس میں جا کھڑی ہوئی لیکن اندر سے وہ اب تک بے چین تھی
اسے یاد تھا کہ عالیان کے جانے کے بعد وہ بیڈ پر لیٹ گئی تھی اور پھر اسے پتا نہیں چلا کب نیند نے اسے اپنے آغوش میں لے لیا
سعد مصنوعی غصہ دکھاتا ہوا بولا
نہیں مطلب بس غصہ کرتے تھے نہ
تو تم بھی یہ مت بھولو نہ پری تم بھی پہلے ایسی نہیں تھی بہت غصہ دلاتی تھی
مسکرا کر پری سے بولتا وہ اسے سب کے پاس لے گیا جہاں سب باتیں کر رہے تھے اور پھر وہ بھی ان کی گفتگو میں شامل ہو گئے
💖💖💖💖💖💖💖💖
عالیان اور فجر جنگل کے بیچ ایک ایسی جگہ پر کھڑے تھے جہاں ان کے پیچھے کھائی تھی اور فجر عالیان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اس سے بار بار ایک ہی بات کہہ رہی تھی
مجھے تمہاری ضرورت نہیں ہے
چلے جاؤ اور کہتے کہتے اسے دھکا بھی دے رہی تھی جبکہ عالیان بلکل خاموشی سے اسے سن رہا تھا فجر کے دھکے سے عالیان پیچھے ہوتا جا رہا تھا جب فجر نے اسے ایک زوردار دھکا دیا اور وہ نیچے کھائی میں گر گیا
تو تم مجھے فجر کے گھر چھوڑ دو گے نہ
ہممم ٹھیک ہے جاتے ہوئے ڈراپ کر دوں گا
سعد کے کہنے پر پری پری خوشی سے اچھلتی ہوئی بولی
تھینک یو سعد تم بہت اچھے ہو پر ایک بات کہوں
کہو
تم پہلے تو ایسے نہیں تھے
تو پھر کیسا تھا
تھوڑے کھروس سے تھے
پری منہ بنا کر بولی
اچھا میں کھروس تھا
اچھا تو میرے سے گفٹ نہیں لینا کیا
سعد نے آبرو اچکا کر پوچھا جس پر پری حیرت و خوشی سے بولی
تم بھی گفٹ دو گے مجھے
کیوں مجھے دینا منع ہے
نہیں منع تو نہیں ہے لیکن تم نے مجھے سرپرائز بھی تو دیا ہے نہ یہ بھی تو گفٹ ہی ہے
نہیں یہ گفٹ نہیں ہے گفٹ تو ابھی میں دوں گا ہاتھ آگے کرو
سعد مے کہنے پر پری ناسمجھی سے اپنا ہاتھ آگے بڑھا دیا جس پر سعد نے اس کا ہاتھ پکڑ کر خوبصورت نگوں والی رنگ اس کے ہاتھ میں پہنا دی جسے دیکھتے ہوئے پری خوشی سے سعد کا ہاتھ پکڑ کر بولی
تھینکیو تھینکیو تھینکیو سو مچ سعد اس سرپرائز کے لیے بھی اور اس گفٹ کے لیے بھی
موسٹ ویلکم مائے ڈیئر وائف
سعد کے مسکرا کر دیکھ کر کہنے پر پری ادھر ادھر دیکھتے ہوئے بولی
اچھا یہ بتائیں کہ وہ آئی کتنے دن کے لیے ہے
پتا نہیں یہ تو بتایا ہی نہیں اس نے
ساجدہ بیگم نے کندھے اچکاتے ہوئے کہا
اچھا ٹھیک ہے پھر میں سعد سے کہتی ہوں وہ مجھے واپسی پر وہیں چھوڑ دے
خوشی خوشی کہتی پری سعد کی طرف بڑھی جس کا چہرہ دوسری طرف تھا اور اس کا کندھا خوشی میں زور زور سے ہلاتے ہوئے بولی
سعد پلیز مجھے واپسی پر فجر کے گھر چھوڑ دو گے
کیوں بھئی کیوں جانا ہے تم نے فجر کے گھر
کیا مطلب کیوں جانا ہے اس سے ملنے کے لیے جانا ہے نہ اور اس کے ہاتھوں سے گفٹ بھی تو لینا ہے لے جاؤ گے نہ
خوشی خوشی بتاتے آخر میں اس نے لاڈ سے کہا
پری کے پوچھنے پر ساجدہ بیگم نے فجر کا پری کے لیے دیا ہوا گفٹ پری کی طرف بڑھایا اور بولی
فجر آئی ہوئی ہے گھر پر وہ کہہ رہی تھی کہ اس کی طبعیت نہیں ٹھیک اس لیے نہیں آئی پر اس نے تمہارے لیے یہ گفٹ بھیج دیا ہے..
ساجدہ بیگم کے کہنے پر پری خوش بھی ہوئی کہ وہ آئی ہوئی ہے اور دکھی بھی کہ وہ اس کی برتھ ڈے پر نہیں آئی اور بولی
گفٹ تو میں تب لوں گی جب وہ خود دینے آئے گی
پری منہ بناتے ہوئے بولی
ہاں تو تم آکر مل لینا نہ اس سے اچھا ہوگا اس کا بھی دن اچھا گزر جائے گا
تو ٹھیک ہے نہ آپ یہ گفٹ اسے واپس کر دیجیے گا جب میں اس سے ملنے آؤں گی تب اس کے ہاتھوں سے لوں گی
اچھا چلو ٹھیک ہے جیسے تمہاری مرضی
ساجدہ بیگم نے پری کو پیار کرتے ہوئے کہا تو پری نے پوچھا
اب میں نہیں آؤں گا اب تم آؤ گی اور خود کہو گی کہ تمہیں میری ضرورت ہے
سزا بن جاتی ہیں گزرے وقت کی یادیں ناجانے کیوں مطلب کے لیے مہربان ہوتے ہیں لوگ
پر یقین لہجے میں کہہ کر وہ لمبے لمبے ڈگ بھرتا وہاں سے چلا گیا اور
فجر کافی دیر تک وہیں کسی سٹیچو کی طرح کھڑی رہی اور پھر سر جھٹک کر وہ ہلکی سی زخمی مسکراہٹ کے ساتھ مسکرائی اور خود سے بولی ایسا کبھی نہیں ہوگا اور اندر چلی گئی
💖💖💖💖💖💖💖💖
پری نے کیک کاٹ کر باری باری سب کو کھلایا آج وہ بہت خوش تھی کیونکہ اسے لگا تھا کہ سب اس کا برتھڈے بھول گئے ہیں لیکن ایسا بلکل نہیں ہوا تھا سب کو اس کا برتھ ڈے یاد تھا لیکن اسے پھر بھی فجر کی کمی بہت محسوس ہوئی
اسی لیے وہ ساجدہ بیگم کے پاس گئی اور ان سے بولی
خالہ فجر کیوں نہیں آئی آپ اسے بھی لے آتی نہ
چلو تم جنگ کرو اور میں عشق کرتا ہوں لیکن ہوگا تو یہ سب میری قید میں ہی
یہ کہہ کر عالیان نے فجر کا بازو پکڑا اور اسے باہر کی طرف لے جانے لگا جب فجر بولی
اب نہ جنگ ہوگی اور نہ عشق بہتر
ہوگا کہ دونوں فریق ہار مان لیں
ناممکن تم ہار مان سکتی ہو کیونکہ تم میدانِ جنگ میں ہو لیکن میدانِ عشق میں نہ تو ہار مانی جاتی ہے اور نہ ہی میدان چھوڑ کر بھاگا جاتا ہے اس لیے تم ابھی اور اسی وقت میرے ساتھ چل رہی ہو
یہ کہہ کر فجر کا بازو پکڑ کر عالیان اسے لان میں لے آیا جب فجر نے اپنے ہاتھ کو جھٹکا دے کر عالیان کی گرفت سے چھڑایا اور بولی
میں تمہارے ساتھ نہیں جاؤں گی
کیوں نہیں جاؤ گی
کیونکہ مجھے تمہاری ضرورت نہیں ہے
فجر نے بھی دوبدو جواب دیا جس پر عالیان کچھ دیر خاموشی سے اسے دیکھتا رہا اور پھر بولا
میں نے وفا کے وعدے نہیں کیے تھے تم سے تم نے جو چاہا وہ کیا تو میں نے جو چاہا وہ کرنے پر مجھے کس بات کی سزا دے رہے ہو
سزا دینی ہے تو خود کو بھی دو
میں نے تو عشق کرتا ہوں تم سے اور عشق تو ہوتا ہی ظالم ہے
آج آخر اس نے وہ اعتراف کر ہی دیا تھا جو شاید آج سے پہلے واضع الفاظ میں نہیں کیا تھا لیکن اس اعتراف پر فجر نے بھی حساب برابر کرنا ضروری سمجھا تھا
اگر تم نے ظالم عشق کیا ہے نہ مجھ سے تو میں نے بھی جنگ کی ہے تم سے اور عشق اور جنگ میں سب جائز ہے تو تم اپنی غلطیوں کو عشق کا نام دو اور میں اپنی غلطیوں کو جنگ کا نام دیتی ہوں
جہاں ایک نے عشق کا اعتراف کیا تھا وہیں دوسرے نے اپنی غلطی بھی تسلیم کرلی تھی لیکن دونوں ابھی بھی عشق اور جنگ کے اس مشترکہ میدان میں کھڑے ایک دوسرے کو گھور رہے تھے
عالیان کے کہنے پر فجر نے ایک جھٹکے سے سر اٹھایا اور بولی
اگر تمہاری اجازت کے انتظار میں رہتی تو پوری زندگی تماری قیدی بن کر رہتی
اوہ تو میرے ساتھ رہنا تمہیں قید جیسا لگتا ہے
فجر کا بازو جھٹکے سے مڑورتے ہوئے عالیان بولا جس پر وہ عالیان کی آنکھوں میں دیکھتی ہوئی بولی
تو قید ہی تو ہے یہ جہاں نہ میں کسی سے مل سکتی ہوں نہ کہیں جا سکتی ہوں اور نہ کسی سے بات کر سکتی ہوں
چیخ کر کہتے ہوئے آخر میں فجر کی آنکھ سے ایک موتی بےمول ہوا تھا
بھولو مت کہ یہ قید تم نے خود چنی ہےتمہاری بےوفائی کی سزا ہے یہ قید
ایک مجرم کی سزا کی بھی مدت ہوتی ہے میری سزا کی مدت کیا ہے
کب ختم ہوگی میری سزا اور تم میرے ساتھ زبردستی کر کے وفا کی امید رکھ بھی کیسے سکتے ہو
چاروں طرف اندھیرا تھا صرف کھڑکی سے چاند کی ہلکی ہلکی روشنی آ رہی تھی جس میں وہ عالیان کی غصے سے سرخ ہوتی آنکھیں دیکھ سکتی تھی جو اسے گھورتا ہوا بولا
کس کی اجازت سے آئی ہو
عالیان کے پوچھنے پر فجر اس کے سرد لہجے پر اندھرے میں نظر آتے اس کے ہلکے ہلکے کو دیکھ رہی تھی جب عالیان اس کے خاموش رہنے پر دھاڑا
میں نے کچھ پوچھا ہے تم سے فجر کس کی اجازت سے آئی ہو
میں آنٹی سے اجازت لے کر آئی تھی
عالیان کی دھاڑ پر فجر خود کو مضبوط ظاہر کرتے ہوئے بولی
اور میری اجازت ؟
تمہیں بتا دیا تھا میں نے
یہ کہہ کر فجر نے ہلکا سا سر جھکا لیا
اور میں نے منع کردیا تھا
ہیپی برتھ ڈے
ہر طرف بیلون ہی بیلون تھے اور ڈم لائٹ سے ماحول کو سحر انگیز بنایا ہوا تھا
پری نے پہلے حیرانی سے سب کو دیکھا اور پھر بھاگ کر عابدہ بیگم کے گلے لگی اور پھر باری باری سب سے ملی
یہ برتھ ڈے یقیناً اس کی زندگی کا بہترین برتھ ڈے ہونا تھا
💖💖💖💖💖💖💖💖💖
فجر ساجدہ بیگم کے ساتھ آتو گئی تھی پر جب سے وہ آئی تھی اسے عجیب سی بے چینی ہو رہی تھی وہ جانتی تھی کہ آج پری کی برتھ ڈے ہے اور سب اسے سرپرائز دینے والے ہیں لیکن وہ نہیں گئی تھی بلکہ اپنی طرف سے گفٹ بھجوا دیا تھا اور اب وہ سوچ رہی تھی کہ جب عالیان کو پتا چلا ہوگا کہ وہ چلی گئی ہے تو اس کا کیا ریکشن ہوگا
ابھی وہ یہ سوچ ہی رہی تھی کہ گھر کی ساری لائٹس بند ہو گئیں اور فجر اندھیرے سے ڈر کر صوفے سے ایک دم کھڑی ہو گئی
یہ کہہ کر سعد باہر نکل گیا اور ٹھیک دس منٹ بعد وہ پری اور فائزہ بیگم کے ساتھ گھر سے نکلا
اور ایک ریسٹرونٹ کے باہر گاڑی روکی جس پر پری نے حیرت سے کہا
ہم تو مووی دیکھنے آئے تھے نہ تو پھر یہاں کیوں آئے ہیں
مووی دیکھنے سے پہلے کچھ کھا لینا چاہیے نہ اسلیے
یہ کہہ کر سعد گاڑی سے نکلا اور اس کی تقلید میں باقی سب بھی بھی اندر کی جانب بڑھے اور سعد جس سائیڈ پر انھیں لے کر گیا وہ سب سے الگ جگہ تھی
پری سب دیکھنے میں محو تھی اس لیے اس نے یہ سوچا ہی نہیں کہ ہم یہاں کیوں جا رہے ہیں اور پھر ایک دم سے لائٹز اوف ہو گئیں
اور ہر طرف اندھیرا چھا گیا
پری حیرانی سے لائٹ کی تالاش میں ادھر ادھر نظریں گھمانے لگی جب ایک دم سے سب لائٹز اون ہو گئی سب ایک ساتھ بولے
پری کے ماتھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے سعد بول
بخار تو نہیں ہے اب گڈ
اچھا اٹھو اٹھ کر تیار ہو ہم سب مووی دیکھنے جا رہے ہیں
سعد کی بات پر پری خوشگوار حیرت سے بولی
سچی
مچی
اب جلدی اٹھو
یہ کہہ کر سعد اٹھا اور پری کی وارڈروب سے ریڈ کلر کا فراک نکال کر پری کی طرف بڑھایا اور کہا
جلدی سے ریڈی ہو کر آؤ
ابھی بھی وہ وہی دیکھنے میں اس قدر محو تھی کہ اسے پتا ہی نہیں چلا کہ سعد کب کمرے میں داخل ہوا
بھاؤ
آآآ
سعد کے ڈرانے پر پری چیخی تھی جس پر سعد کا قہقہ بلند ہوا اور اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر بولی
ڈرا دیا مجھے
میں نے نہیں ڈرایا تم ہو ہی ڈرپوک
سعد کے کہنے پر پری منہ بنا کر بولی
جی نہیں
اچھا یہ بتاؤ طبعیت ٹھیک ہے اب تمہاری
نیچے پہنچ کر جو خبر اسے ملی اسےسن کر غصے سے اس کا برا حال ہوگیا
💖💖💖💖💖💖💖💖💖
فجر عالیان کے رویے پر اپنے آنسو رگڑتی بیگ اور باقی سامان لے کر ساجدہ بیگم کے ساتھ چلی گئی اس وقت اسے عالیان پر جتنا غصہ آرہا تھا اس غصے میں اس نے کسی بھی قسم کے نقصان کی پرواہ کیے بغیر ساجدہ بیگم کے ساتھ جانے کا فیصلہ کیا تھا
💖💖💖💖💖💖💖💖💖
آج سنڈے تھا اور ساتھ میں پری کی برتھ ڈے بھی اور اب تک اسے کسی نے وش نہیں کیا تھا ورنہ فجر ہمیشہ اسے رات کے بارہ بجے وش کرتی تھی آج پہلی دفعہ ہی ایسا ہوا تھا کہ کسی کو اس کی برتھ ڈے یاد نہیں تھی صبع سے شام ہو گئی تھی لیکن ناجانے صبح سے کہاں غائب تھا صبح جب وہ اٹھی تھی تب سعد نہیں تھا اس لیے ان کی کوئی بات نہیں ہوئی تھی
جب اسےکچھ بھی کرنے کو نہیں ملا تو وہ کارٹون لگا کر بیٹھ گئی ڈورےمون اسے ہمیشہ سے ہی بہت پسند تھے
فجر کے بازو پر گرفت سخت کرتا ہوا وہ غصے میں بولا جس پر فجر اپنا بازو چھڑوانے کی کوشش کرتے ہوئے بولی
عالیان میں کیا کرسکتی ہوں ماما نے کہا ہے نہ میں کیسے منع کروں پلیز چھوڑو مجھے درد ہو رہا ہے
جیسے مرضی منع کرو یہ میرا مسئلہ نہیں ہے تم کہیں نہیں جا رہی تو مطلب کہیں نہیں جا رہی سمجھی
جھٹکے سے فجر کا ہاتھ چھوڑ کر اس نے ایک نظر فجر کو دیکھا جس کی آنکھوں میں اب آنسو تھے اور سٹڈی میں چلا گیا جہاں اسے بار بار فجر کا روتا ہوا چہارہ یاد آ رہا تھا جس پر اسے ندامت ہوئی شاید اسے ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا
ہاں مجھے اسے اس کی ماما سے ملوانے لے جانا چاہیے سزا کسی اور طرح سے بھی تو دی جا سکتی ہے
کچھ سوچتے ہوئے عالیان نیچے گیا تاکہ اسے بتا سکے کیونکہ اسے یقین تھا کہ اب تک وہ یقیناً غصے میں کہیں بیٹھی ہوگی
یہ کہہ کر فجر اٹھی اور اپنی گود میں پڑا کشن عالیان کو مارا جو اس نے بروقت کیچ کر لیا اور فجر کو مارا جس سے بچ کر وہ باہر بھاگ گئی
💖💖💖💖💖💖💖💖💖
فجر کو جس وقت کا بے صبری سے انتظار تھا آخر وہ آ ہی گیا جب ساجدہ بیگم وہاں آئیں اور کچھ دیر بیٹھنے کے بعد انھوں نے فجر کو ساتھ چلنے کا کہا جس پر فجر کی خوشی کی انتہا نہ رہی اور وہ اپنا بیگ لینے اپنے کمرے میں گئی تو عالیان جو کہ تب سے کمرے میں موجود تھا اور ساجدہ بیگم کی آمد سے بے خبر تھا فجر کو بیگ اٹھاتا دیکھ کر بولا
کہاں جا رہی ہو تم ؟
عالیان کے پوچھنے پر فجر نے جلدی جلدی بتایا
ماما آئیں ہیں اور مجھے اپنے ساتھ لے کر جا رہی ہیں
مزے سے کہہ کر فجر اپنا کچھ سامان اٹھانے لگی جب عالیان نے اس کا بازو پکڑ کر اس کا رُخ اپنی طرف موڑا
کیا کہا ہے تم نے ابھی ہمم تم کہیں نہیں جا رہی سمجھ آئی
عالیان مزے سے بولا جس پر فجر کا دل چاہا اس کا سر پھاڑ دے
تم نے نہیں پر شاہ نے کہا تھا مجھے
فجر کوجب کچھ نہ سوجھا تو یہ بول دیا
اچھا ت شاہ نے کہا تھا نہ میں نے تو نہیں کہا نہ
عالیان مزے سے کندھے اچکا کر بول
ہاں ہاں ٹھیک ہے نہیں بولا نہ تم نے اور میں تو جیسے تم سے بلوانے کے لیے مری جا رہی ہوں نہ
غصے میں بولتے ہوئے فجر نے کشن اٹھا کر اپنی گود میں رکھا
فجر اگر اب تم نے دوبارہ مجھے تم کہا نہ تو آج کا ڈنر تم بناؤ گی اور پھر چاہے وہ جلے یا جو مرضی ہو میں تمہاری بلکل ہیلپ نہیں کروں
عالیان کی بات پر فجر کچھ سوچ کر مسکرائی اور پھر بولی
میں تو تم ہی کہوں گی تم نے جو کرنا ہے کر لو
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain