بازو کیسا ہے اب تمہارا
سعد کے گولی لگے بازو کی طرف دیکھتے ہوئے پری نے پوچھا جس پر سعد پر سعد عجیب سے انداز میں مسکرایا اور بولا
میری چھوڑو اپنی بتاؤ خوش تو بہت ہوئی ہوگی ویسے میرے گولی لگنے پر کہ میں مر جاؤں گا تو جان چھوٹ جائے گی مجھ سے تمہاری
طنزاً مسکرا کر کہتے ہوا وہ پری کو ذہر لگا کیونکہ اس کی بات پر دل کہیں بےچین سا ہو گیا تھا اور ساتھ ہی ساتھ اسے غصہ بھی بہت آیا تھا کہ وہ میرے بارے میں ایسا سوچتا ہے
ہاں بلکل صحیح کہا تم نے بہت زیادہ خوشی ہوئی مجھے
جل کر کہہ کر پری اپنی جگہ سے اٹھنے لگی لیکن پھر سعد کی بات سن کر واپس بیٹھ گئی
اور تم خوشی میں اتنی پاگل ہوگئ کہ مجھے ہاسپٹل لے آئی واہ
داد دینے والے انداز میں کہہ کر آخر میں ایک دل جلادینے والی مسکراہٹ اس کے چہرے پر چھا گئی
دلہن آپ کے کمرے میں ہے نہ غسل خانہ
لیکن وہاں عالیان ہے نہ آپ پلیز مجھے کسی اور واشروم کا بتا دیں
فجر کے کہنے پر وہ عورت آنکھیں پھاڑ کر فجر کو دیکھنے لگی جس سے فجر کو عجیب سا لگا
آئیے میں لے جاتی ہوں
یہ کہہ کر وہ فجر کو دوسرے کمرے میں چھوڑ کر چلی گئی
💖💖💖💖💖💖💖💖
سعد فائزہ بیگم کو تسلیاں دے رہا تھا کہ وہ ٹھیک ہے جب پری روم میں داخل ہوئی
اسے کو ایک نظر دیکھ کر وہ پھر سے فائزہ بیگم کی طرف متوجہ ہوا جو اب اس سے کھانے کا پوچھ رہی تھیں جس پر وہ برے برے منہ بنا رہا تھا
اچھا میں تمہارے لیے سوپ لے کر آرہی ہوں
یہ کہہ کر فائزہ بیگم روم سے باہر نکل گئیں تو پری ان کی جگہ آ کر بیٹھ گئی
میرے کپڑے بھی نکال کر مجھے واش روم میں دے دینا
یہ کہہ کر وہ واشروم میں گھس گیا جبکہ فجر ہکابکا واشروم کے دروازے کے دروازے کی طرف دیکھتی رہ گئی جہاں سے ہ ابھی
حکم صادر کر کے گیا تھا
فجر نے ناک پھلا کر عالیان کی الماری کھولی اور اس کے کپڑے دیکھنے لگی اور پھر غصے میں الماری بند کر کے بڑبڑائی
میں اس نواب کی نوکر نہیں ہوں خود نکالے مجھے کیا پتہ اس نے کیا پہننا ہے
بڑبڑا کر فجرنے اپنے کپڑے نکالے
اور ایک نظر واشروم کے بند دروازے پر ڈال کر کمرے سے باہف نکل گئی جہاں پر اسے ایک عورت کام کرتی ہوئی دکھائ دی
سنیں آپ پلیز مجھے بتادیں گی کہ واشروم کہاں ہے
عالیان کی آواز پر وہ نیند میں کروٹ بدلی اور بڑبڑائی
ماما مجھے سونے دیں
جبکہ اسکی بات سن کر عالیان مسکرایا اور اس کے کان میں سرگوشی کی
بائیس سال سے تمہاری ہر صبح تمہاری ماما کے گھر میں ہوتی تھی لیکن آج سے تمہاری ہر صبح یہاں ہمارے گھر میں ہوگی اس لیے اپنی عادت بدلو اور جلدی سے اٹھو
یہ کہہ کر عالیان اٹھ کر بیٹھ گیا جبکہ فجر کو بھی شاید احساس ہوگیا تھا کہ وہ کہاں ہے اس لیے وہ فوراً اٹھ کر بیٹھ گئی اور بیڈ سے اتر کر الماری کی طرچ کپڑے نکالنے کے لیے بڑھی جبکہ عالیان ابھی تک بیڈ پر بیٹھا اسے دیکھ رہا تھا نو اب الماری سے اپنے کپڑے نکال رہی تھی
سنو
فجر جو اپنا ڈریس سلیکٹ کر رہہ تھی عالیان کی آواز پر اس کی طرچ دیکھا جو اب بیڈ اے اگر رہا تھا
کندھے پر گولی لگی تھی ہم نے نکال دی ہے اب وہ خطرے سے باہر ہیں
ڈاکٹر کے کہنے پر فائزہ بیگم نے بے صبری سے کہا
ہم اس سے مل سکتے ہیں ؟
ابھی نہیں ہم انھیں ہم انھیں روم میں شفٹ کر دیں اس کے بعد
یہ کہہ کر ڈاکٹر چلا گیا جبکہ پری وہیں کھڑی یہ سب سن رہی تھی ڈاکٹر کی بات سن کر اسے لگا جیسے کسی نے اسے نئی زندگی دے دی ہو
💖💖💖💖💖💖💖💖💖
صبح اس کی آنکھ کھلی تو اس نے فجر کو اپنے سینے پر سر رکھ کر سوتے پایا کچھ دیر تک اسے دیکھتے رہنے کے بعد اس نے فجر کے بالوں میں انگلیاں چلاتے ہوئے اسے اٹھایا
فجر اٹھو
سعد آنکھیں کھول کر رکھنا دیکھو ہم بس ہاسپٹل پہنچنے والے ہیں
سامنے دیکھ کر سعد کو کہتے ہوئے اس نے گاڑی کی سپیڈ بڑھا دی اور ہاسپٹل پہنچنے تک سعد نے بامشکل خود کو ہواس میں رکھا ہوا تھا
ہاسپٹل پہنچ کر سعد کو سٹریچر پر لے جاتے وقت پری نے مضبوطی سے اس کا ہاتھ پکڑ رکھا تھا اور سعد کو آئی سی یو میں لےجاتے وقت صرف پری جانتی تھی کہ اس نے کیسے سعد کا ہاتھ چھوڑا تھا اسے لگ رہا تھا کہ اگر اس نے ہاتھ چھوڑ دیا تو وہ سب کچھ کھو دے گی
روتے روتے اس نے ریسیپشن سے عابدہ بیگم کو فون کیا اور اس کی کچھ ہی دیر بعد وہ ہاسپٹل میں موجود تھے جبکہ پری نے رو رو کر اپنی آنکھیں سوجا لیں تھی اسے خود بھی نہیں پتا تھا کہ وہ کیوں رو رہی ہے آنسو خود باخود اس کی آنکھوں سے بہہ رہے تھے عابدہ بیگم کئی بار اسے تسلی دے چکی تھیں جبکہ فائزہ بیگم کا تو خود رو رو کر برا حال تھا
پری کی چیخ کے ساتھ ہی ان گنڈوں نےایک دوسرے کی طرف دیکھا اور وہاں سے بھاگ گئے جبکہ پری فق چہرہ لیے بامشکل خود کو گھسیٹتی سعد تک لے کر گئی جس کے کندھے سے خون بہت تیزی سے نکل رہا تھا اور وہ دردسے کراہ رہا تھا
سعد تم ۔۔۔
روتے ہوئے پری کو خود سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ کیا کرے
بامشکل سعد کو کندھے کا سہارا دے کر پری نے اسے گاڑی میں بٹھایا اور کانپتے ہاتھوں سے گاڑی سٹارٹ کی
گاڑی چلاتے ہوئے پری بار بار ایک نظر سعد پر بھی ڈالتی نو بار بار کرہتے ہوئے درد برداشت کرنے کے النی آنکھیں میچ رہا تھا
پری کو اپنی آنسوں کی وجہ سے اپنی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھاتا ہوا لگا لیکن اس نے اپنے آنسو رگڑ کر خود کو ہوش میں رکھا
اور ایک اچٹکی نگاہ سعد پر ڈالی جسکی آنکھیں اب بند ہورہی تھیں
ان میں سے ایک کے کہنے پر سعد اپنا فون اور والٹ نکال کر انھیں دینے لگا
اصل مال تو یہاں پر ہے
تبھی ان میں سے ایک شخص نے پری کو دیکھ کر کمینگی سے کہا
جس پر پری نے ڈر کے سعد کی طرف دیکھا جبکہ یہ سن کر غصے سے سعد کی رگیں تن گئیں
جو چاہیے مجھ سے لو اور جاؤ
ہم بھی تو یہی کہہ رہے ہیں یہ حور پری ہمیں دو اور جاؤ
یہ کہہ کر ان سب نے قہقا لگایا اور بس پھر سعد کا ضبط جواب دے گیا وہ غصے میں گاڑی سے اترا اور ان میں سے ایک شخص جو پری کی سائیڈ کا دروازہ کھول چکا تھا اس کی طرف بڑھا اور اس کا گریبان پکڑ لیا اور اس پر لاتوں کی برسات کر دی تبھی اس کے باقی ساتھی بھی اس کی طرف بڑھے اور پری بھی گاڑی سے اتری تبھی فضا میں گولی کی آواز گونجی اور پھر پری کی چیخ
-----
سعد اپنا رخُ پری کی طرف موڑ کر بولا
میری مرضی پاگل واگل تو نہیں ہو گئے ہو تم میں نہ صرف ماما کی وجہ سے مانی ہوں اور تم تم بتاؤ نہ ذرا کہ یہ شوشا چھوڑنے کی ضرورت کیا تھی جب تمہیں اچھی طرح سے پتا تھا کہ مجھے آج واپس نہیں آنا تم سے تو نہ میرا سکون برداشت ہی نہیں ہوتا کیا ہوجاتا اگر میں سکون سے فجر کی شادی اٹینڈ کر کے آجاتی لیکن نہیں
پری جسکی زبان چلنا شروع ہوچکی تھی اور جسکا اب رکنا مشکل ہی تھا وہ کچھ لوگوں کو دیکھ کر رکی جو بائیک پر تھے اور اب بائیک سے اتر کر انھی کی طرف آرہے تھےجبکہ ان کے ہاتھ میں گنز تھی
پری کی نظروں کا تعاقب کرتے ہوئے سعد بھی انھیں دیکھ چکا تھا لیکن اس سے پہلے وہ کچھ کرتا وہ لوگ ان کے سر پر پہنچ چکے تھے
اپنے ہاتھ اوپر کرو اور جو بھی ہے سب نکالو
جبکہ وہ اس کی گھوریوں کو نظرانداز کیے سنجیدگی سے ڈرائیو کر رہا تھا
جب پری کے گھورنے کا کوئی فاعدہ نہیں ہوا تو پری تنگ کر بولی
اب تم مجھے بتانا پسند کرو گے کہ تمہارے ساتھ کیا مصیبت ہوگئی تھی جو تم مجھے ابھی سے اٹھا کر لے آئے ہو
جھوٹ بلکل جھوٹ
سعد کے سنجیدگی سے کہنے پر پری نے ابرو اٹھا کر پوچھا کیا
میں اٹھا کر کب لایا ہوں تمہیں تم خود اپنی مرضی سے اپنے پاؤں پر چل کر آئی ہو
او ہیلو اپنی مرضی سے کب تم تمہاری وجہ سے آنا پڑا ہے مجھے
پری کے جھنجلا کر کہنے پر سعد نے ایک سائیڈ پر گاڑی روکی جبکہ یہ سڑک سنسان تھی آس پاس گاڑیاں اور آبادی نہ ہونے کے برابر تھی
میری وجہ سے کیا مطلب اتنی اچھی تو تم ہو نہیں کہ میں کہوں اور تم میری بات مان لو ظاہر ہے تمہاری مرضی تھی تو تم آئی ہو
کیونکہ وہ ادھر سے ادھر پتا نہیں کن کاموں میں مصروف تھی لیکن رخصتی ہوتے ہی سعد نے اسے جا لیااور ساتھ ہی ساتھ ابھی گھر چلنے کا حکم بھی صادر کر دیا جس پر پری غصے سے دانت کچکا کر رہ گئی کیونکہ اسنے ولیمے کے بعد جانا تھا وہ سعد کو منع کرنا چاہتی تھی لیکن عابدہ بیگم کی موجودگی کی وجہ سے چپ تھی ایک تو پہلے ہی اسے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ شاہ کی جگہ عالیان کیا کر رہا تھا بے شک اس نے شاہ کو نہیں دیکھا تھا لیکن عالیان کو وہ فجر سے لڑتے ہوئے یقینً دیکھ چکی تھی جس کے بارے میں وہ فجر سے پوچھنا چاہتی تھی لیکن فجر تو جیسے پورے فنکشن میں بہری ہوئی بیٹھی تھی
فائزہ بیگم نے عابدہ بیگم کے ساتھ آج رات وہیں رکنا تھا جبکہ پری اور سعد نے گھر جانا تھا اور اب پری سعد کے ساتھ فرنٹ سیٹ پر برجمان واپسی کے راستے پر اسے مسلسل گھور رہی تھی
پانچ منٹ بعد جب وہ واپس آئی تو عالیان اب بھی ویسے ہی آنکھیں کھول کر لیٹا تھا اور فجر کو باہر آتا دیکھ کر بولا
یہاں آؤ
یہ کہہ کر وہ خود دوسری سائیڈ پر ہوگیا اور فجر کو اپنی چھوڑی ہوئی جگہ اشارہ کر کے بولا
لیٹو
پہلے تو فجر چپ چاپ اس جگہ تو دیکھتی رہی لیکن پھر عالیان کے گھورنے پر لیٹ گئی تو عالیان نے اس کے اوپر کمبل درست کیا اور اس کے کان میں سرگوشی کی
آنکھیں بند کرو اور سو جاؤ
یہ کہہ کر عالیان فجر کےبالوں میں منہ چھپا کر خود بھی سو گیا جبکہ فجر کی تو وہ راتوں کی نیندیں اڑا چکا تھا
💖💖💖💖💖💖💖💖💖
سعد اور فائزہ بیگم تھوڑی دیر سے شادی میں شریک ہوئے تھے لیکن بہرحال ہوگئے تھے اور پوری بارات میں سعد کی نظریں بھٹک کر بار بار پری پر جا رہی تھیں جو انتہائی خوبصورت لگ رہی تھی لیکن اسے ایک. ار بھی پری سے بات کرنے کا موقع نہیں ملا تھا
وہ بھی میں ہوں جو تم سے ریسٹرونٹ میں ملا تھا وہ بھی میں ہوں اور جس سے تمہاری شادی ہوئی ہے وہ بھی میں ہوں ہر طرف میں ہی میں ہوں اس لیے کسی اور کا نام بھی آج کے بعد تمہاری زبان پر آیا نہ فجر تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا
فجر جو عالیان کے دھارنے پر پہلے ہی سہمی ہوئی تھی عالیان اس کا منہ اپنے ہاتھوں سے دبوچ کر غرایا
سمجھ آئی تمہیں
فجر نے سہمی ہوئی پلکوں اور درد سے فوراً اثبات میں سر ہلایا تو عالیان نے اس کا منہ چھوڑا اور جا کر بیڈ پر لیٹ گیا جبکہ فجر ابھی تک صوفے پر اپنی جگہ جم کر اسی طرح بیٹھی تھی اور جب کافی دیر تک وہ اپنی جگہ سے نہ ہلی تو عالیان چڑ کر بولا
اب کیا پوری رات یوں ہی بیٹھے رہنے کا ارادہ ہے جاؤ چینج کر کے آؤ
عالیان کے کہنےپر فجر کے وجود میں حرکت ہوئی اور وہ اٹھ کر ڈریسنگ روم کی طرف بڑھ گئی
بس اتنی سی ہمت تھی جھوٹ بولتے ہوئے دھوکہ دیتے ہوئے تو بلکل ڈر نہیں لگتا تھا اور دو گھنٹے اندھیرے میں بند رہنے پر دیکھو کیا حالت ہو گئی ہے سچ بتاؤں ترس کھانا چاہتا ہوں تم پر لیکن کیا ہے نہ عالیان شاہ کو دھوکہ دینے والے کو وہ سزا ضرور دیتا ہے پھر چاہے سامنے اس کی بیوی ہی کیوں نہ ہو اور تم نے تو بہت بڑی گیم کھیلی ہے یہ الگ بات ہے کہ تم اس کھیل میں کامیاب نہیں ہوئی
عالیان پلیز ایسے مت بولو میری ایک بار شاہ سے بات کروا دو
فجر کے نفی میں سر ہلا کر کہنے پر پہلے تو عالیان ہنسا لیکن پھر دھارا
تمہیں سمجھ نہیں آتی کیا کوئی اور نہیں ہے صرف میں ہوں وہ جو تمہیں فون کالز کرتا تھا وہ بھی میں ہوں وہ جو تم سے عشق کے دعوے کرتا تھا
فجر نے آہستہ آہستہ گھٹنوں سے سر اٹھا کر اپنی لال آنکھیں کھولیں اور دروازے کی طرف دیکھا جہاں باہر سے آنے والی ہلکی ہلکی روشنی میں اسے عالیان کا چہرہ نظر آرہا تھا
اس پل یہ سوچے بغیر کے اسے اس اندھیرے کمرے میں بند کرنے والا بھی وہی تھا فجر اپنا بھاری لہنگا اٹھا کر بھاگنے کے انداز میں عالیان سے سینے سے جا لگی آنسو بہاتی وہ ڈر سے کانپ رہی تھی
ع ا لیا ن پ۔پلیز مم مجھے یہ۔ا ں سے لے ج ۔اؤ
الفاظ ٹوٹ کر ادا کرتے ہوئے وہ اس سے التجا کر رہی تھی اور اس کی التجا شاید سن لی گئی تھی جو عالیان اسے اپنے ساتھ لگائے کمرے کی طرف چل پڑا اور اسے صوفے خر بٹھا کر اسے پانی تھمایا اور خود اس کے سامنے بیٹھ کر بغور اسے دیکھتے ہوئے بولا جو پانی پی رہی تھی
اور پھر اس نے بھی ڈیل پوری کی لیکن اس کے اندر ایک چنگاری بھڑک رہی تھی کہ آخر فجر نے اسے دھوکہ دینے کا سوچا بھی کیسے اور پھر جب جب وہ فجر کے دھوکے کے بارے میں سوچتا تو وہ جنونی ہو جاتا اور اب بدلے کی باری اس کی تھی اسے فجر کے بارے میں اتنا تو پتا تھا کہ اسے اندھیرے سے ڈر لگتا ہے اسی لیےاس نے فجر کو سٹور میں بند کیا جہاں لائٹ نہیں تھی اور یہ تو بہت چھوٹی سی سزا تھی اس کے دھوکے کی اس نے گھڑی کی طرف دیکھا تو اسے لیٹے لیٹے دو گھنٹے ہو چکے تھے وہ اٹھا اور سٹور روم کی طرف بڑھ گیا
💖💖💖💖💖💖💖💖
اسے گھٹنوں میں سر دے کر روتے ہوئے کتنا وقت گزرا سے پتا ہی نہیں چلا اسے تو بس یہ پتا تھا کہ وہ اس تاریک کمرے میں اکیلی ہے ڈر سے وہ آنکھیں ہی نہیں کھول رہی تھی اور وہ مسلسل رو رہی تھی تبھی اسے دروازہ کھلنے کے ساتھ کسی کے قدموں کی چاپ سنائی دی
اور جب وہ نہیں آئی تو وہ اسے اپنے ساتھ لے گیا اور وہ جاننا چاہتا تھا کہ وہ اسے شاہ کے ساتھ موجودگی کا کیا جواز پیش کرتی ہے اور اس نے فجر کو وارن کیا کہ وہ اسے کسی اور کے ساتھ نظر نہ آئے اور وہی ہوا جو اس نے سوچا تھا فجر نے عالیان کی دھمکی سے ڈر کر شاہ سے ملنے سے انکار کر دیا تھا پھر اس کے پیپرز سٹارٹ ہوگئے جس میں وہ بزی ہوگیا لیکن پھر بھی وہ فجر سے بےخبر نہیں تھا اور اس دن جب فجر نے اسے ڈیل کا کہا کہ وہ اس سے شادی کر لے گی لیکن ایک مہینے تک وہ اس سے نہ ملے تب ایک پل کو تو وہ فجر کی چالاکی پر حیران رہ گیا لیکن ساتھ ہی ساتھ اسے فجر پر ہنسی اقر ترس دونوں آیا کہ وہ اسے بےوقوف بنانے کے چکر میں بےوقوف بننے والی ہے اس نے فجر سے ڈیل کر لی کیونکہ وہ جانتا تھا کہ فجر یہ ڈیل اس لیے کر رہی ہے تاکہ اس کی شادی آرام سے ہو جائے اور اسے علم نہ ہو
وہ فجر کو اپنے اور شاہ کے ایک ہی ہونے کی سچائی بتانا چاہتا تھا لیکن وہ چاہتا تھا کہ اس سے پہلے وہ جان لے کہ فجر شاہ سے کیا کہنا چاہتی ہے لیکن وہ اس سے شاہ بن کر مل نہیں سکتا تھا اس لیے وہ شاہ بن کر وہاں آیا اور بعد میں فجر کے سامنے ایسے شو کیا کہ وہ وہاں آیا تھا لیکن فجر کسی اور کے ساتھ تھی اور پھر جب فجر نے فون پر اسے بتایا کہ وہ شاہ سے شادی کرنا چاہتی ہے تو عالیان کے اندر غصے کی چنگاریاں چلنے لگیں کہ اس کی بیوی ہوتے ہوئے اس نے کسی اور کے بارے میں سوچا بھی کیسے پھر چاہے وہ کوئی اور وہ خود ہی کیوں نہیں تھا اس لیے اس نے فیصلہ کیا کہ اب وہ یہ شاہ والا ناٹک جاری رکھے گا اور وہ فجر سے ملنے کا انتظام بھی کر چکا تھا وہ ماسک پہن کر فجر سے شاہ بن کر ملنے آیا اور اسے اپنی محبت کا یقین دلایا اور اس کے ساتھ ساتھ اس نے عالیان بن کر فجر کو ملنے کا کہا
پارٹی والے دن وہ فجر سے شاہ بن کر بات کر کے ہٹا ہی تھا جب اسے اس کا ایک دوست وہاں مل گیا اور اس سے بات کرنے کے بعد وہ اندر جانے ہی والا تھا جب اسے کچھ چبتا ہوا محسوس ہوا اور وہ ہوش وہواس سے بیگانہ ہوگیا لیکن اس سب کے دوران فجر کا ایئر رنگ اس کی شرٹ کے بٹن میں پھنس گیا اور وہ تو فجر کو اتنی دفعہ دیکھ چکا تھا کہ اسے فجر کے ایئر رنگ کی پہچان ہو چکی تھی اور تبھی اس نے فجر کو سبق سکھانے کا فیصلہ کیا جس میں اس کی دلی خواہش بھی شامل تھی اور بس پھر اسے ہر چیز اپنی مرضی کی
چاہیے تھی لیکن تب وہ حیران رہ گیا جب فجر نے شاہ کو فون کیا
اور اسکی بات سن کر وہ حیران رہ گیا کہ کل تک وہ جس کی بےعزتی کرتی تھی آج اس سے پوچھ رہی ہے کہ وہ اس سے محبت کرتی ہے اور اس سے ملنا چاہتی ہے تو عالیان نے بھی فوراً ہاں کہہ دیا کیونکہ وہ نہیں چاہتا تھا کہ فجر کو کوئی شک ہو
فجر کو سٹور میں بند کرنے کے بعد عالیان کمرے میں آکر چینج کرنے کے بعد بیڈ پر لیٹ گیا اور چھت کو گھورنے لگا جبکہ ے پہلی ملاقات پر اسے وہ بغیر سوچے سمجھے بولنے اور فیصلے اخذ کرنے والوں میں سے لگی پھر جب اسے کینٹین میں فجر کا فون پڑا ملا نس پر اس کی پکچر لگی ہوئی تھی تب اسے یقین ہو گیا کہ اس کا فجر کے بارے میں خیال بلکل درست ہے اور پھر آہستہ آہستہ اسے فجر کو تنگ کرنے میں مزا آنے لگا اور کبھی کبھی اس کی حرکتوں پر غصہ بھی آتا تھا اور جب بھی اس کا فجر سے بات کرنے یا اسے چڑانے کا دل چاہتا تو وہ اسے شاہ بن کر فون کرتا جس میں وہ اکثر اسے بہت کچھ باور کروا دیا کرتا تھا اس کا چڑنا غصے سے ناک پھلانا اسے بہت اچھا لگتا تھا
اور جب اس نے فجر کا فون توڑا تھا تو فجر کی آنکھ میں نمی دیکھ کر اسکے اندر کچھ ہلچل ہوئی تھی
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain