Damadam.pk
Mirh@_Ch's posts | Damadam

Mirh@_Ch's posts:

Mirh@_Ch
 

بازو کیسا ہے اب تمہارا
سعد کے گولی لگے بازو کی طرف دیکھتے ہوئے پری نے پوچھا جس پر سعد پر سعد عجیب سے انداز میں مسکرایا اور بولا
میری چھوڑو اپنی بتاؤ خوش تو بہت ہوئی ہوگی ویسے میرے گولی لگنے پر کہ میں مر جاؤں گا تو جان چھوٹ جائے گی مجھ سے تمہاری
طنزاً مسکرا کر کہتے ہوا وہ پری کو ذہر لگا کیونکہ اس کی بات پر دل کہیں بےچین سا ہو گیا تھا اور ساتھ ہی ساتھ اسے غصہ بھی بہت آیا تھا کہ وہ میرے بارے میں ایسا سوچتا ہے
ہاں بلکل صحیح کہا تم نے بہت زیادہ خوشی ہوئی مجھے
جل کر کہہ کر پری اپنی جگہ سے اٹھنے لگی لیکن پھر سعد کی بات سن کر واپس بیٹھ گئی
اور تم خوشی میں اتنی پاگل ہوگئ کہ مجھے ہاسپٹل لے آئی واہ
داد دینے والے انداز میں کہہ کر آخر میں ایک دل جلادینے والی مسکراہٹ اس کے چہرے پر چھا گئی

Mirh@_Ch
 

دلہن آپ کے کمرے میں ہے نہ غسل خانہ
لیکن وہاں عالیان ہے نہ آپ پلیز مجھے کسی اور واشروم کا بتا دیں
فجر کے کہنے پر وہ عورت آنکھیں پھاڑ کر فجر کو دیکھنے لگی جس سے فجر کو عجیب سا لگا
آئیے میں لے جاتی ہوں
یہ کہہ کر وہ فجر کو دوسرے کمرے میں چھوڑ کر چلی گئی
💖💖💖💖💖💖💖💖
سعد فائزہ بیگم کو تسلیاں دے رہا تھا کہ وہ ٹھیک ہے جب پری روم میں داخل ہوئی
اسے کو ایک نظر دیکھ کر وہ پھر سے فائزہ بیگم کی طرف متوجہ ہوا جو اب اس سے کھانے کا پوچھ رہی تھیں جس پر وہ برے برے منہ بنا رہا تھا
اچھا میں تمہارے لیے سوپ لے کر آرہی ہوں
یہ کہہ کر فائزہ بیگم روم سے باہر نکل گئیں تو پری ان کی جگہ آ کر بیٹھ گئی

Mirh@_Ch
 

میرے کپڑے بھی نکال کر مجھے واش روم میں دے دینا
یہ کہہ کر وہ واشروم میں گھس گیا جبکہ فجر ہکابکا واشروم کے دروازے کے دروازے کی طرف دیکھتی رہ گئی جہاں سے ہ ابھی
حکم صادر کر کے گیا تھا
فجر نے ناک پھلا کر عالیان کی الماری کھولی اور اس کے کپڑے دیکھنے لگی اور پھر غصے میں الماری بند کر کے بڑبڑائی
میں اس نواب کی نوکر نہیں ہوں خود نکالے مجھے کیا پتہ اس نے کیا پہننا ہے
بڑبڑا کر فجرنے اپنے کپڑے نکالے
اور ایک نظر واشروم کے بند دروازے پر ڈال کر کمرے سے باہف نکل گئی جہاں پر اسے ایک عورت کام کرتی ہوئی دکھائ دی
سنیں آپ پلیز مجھے بتادیں گی کہ واشروم کہاں ہے

Mirh@_Ch
 

عالیان کی آواز پر وہ نیند میں کروٹ بدلی اور بڑبڑائی
ماما مجھے سونے دیں
جبکہ اسکی بات سن کر عالیان مسکرایا اور اس کے کان میں سرگوشی کی
بائیس سال سے تمہاری ہر صبح تمہاری ماما کے گھر میں ہوتی تھی لیکن آج سے تمہاری ہر صبح یہاں ہمارے گھر میں ہوگی اس لیے اپنی عادت بدلو اور جلدی سے اٹھو
یہ کہہ کر عالیان اٹھ کر بیٹھ گیا جبکہ فجر کو بھی شاید احساس ہوگیا تھا کہ وہ کہاں ہے اس لیے وہ فوراً اٹھ کر بیٹھ گئی اور بیڈ سے اتر کر الماری کی طرچ کپڑے نکالنے کے لیے بڑھی جبکہ عالیان ابھی تک بیڈ پر بیٹھا اسے دیکھ رہا تھا نو اب الماری سے اپنے کپڑے نکال رہی تھی
سنو
فجر جو اپنا ڈریس سلیکٹ کر رہہ تھی عالیان کی آواز پر اس کی طرچ دیکھا جو اب بیڈ اے اگر رہا تھا

Mirh@_Ch
 

کندھے پر گولی لگی تھی ہم نے نکال دی ہے اب وہ خطرے سے باہر ہیں
ڈاکٹر کے کہنے پر فائزہ بیگم نے بے صبری سے کہا
ہم اس سے مل سکتے ہیں ؟
ابھی نہیں ہم انھیں ہم انھیں روم میں شفٹ کر دیں اس کے بعد
یہ کہہ کر ڈاکٹر چلا گیا جبکہ پری وہیں کھڑی یہ سب سن رہی تھی ڈاکٹر کی بات سن کر اسے لگا جیسے کسی نے اسے نئی زندگی دے دی ہو
💖💖💖💖💖💖💖💖💖
صبح اس کی آنکھ کھلی تو اس نے فجر کو اپنے سینے پر سر رکھ کر سوتے پایا کچھ دیر تک اسے دیکھتے رہنے کے بعد اس نے فجر کے بالوں میں انگلیاں چلاتے ہوئے اسے اٹھایا
فجر اٹھو

Mirh@_Ch
 

سعد آنکھیں کھول کر رکھنا دیکھو ہم بس ہاسپٹل پہنچنے والے ہیں
سامنے دیکھ کر سعد کو کہتے ہوئے اس نے گاڑی کی سپیڈ بڑھا دی اور ہاسپٹل پہنچنے تک سعد نے بامشکل خود کو ہواس میں رکھا ہوا تھا
ہاسپٹل پہنچ کر سعد کو سٹریچر پر لے جاتے وقت پری نے مضبوطی سے اس کا ہاتھ پکڑ رکھا تھا اور سعد کو آئی سی یو میں لےجاتے وقت صرف پری جانتی تھی کہ اس نے کیسے سعد کا ہاتھ چھوڑا تھا اسے لگ رہا تھا کہ اگر اس نے ہاتھ چھوڑ دیا تو وہ سب کچھ کھو دے گی
روتے روتے اس نے ریسیپشن سے عابدہ بیگم کو فون کیا اور اس کی کچھ ہی دیر بعد وہ ہاسپٹل میں موجود تھے جبکہ پری نے رو رو کر اپنی آنکھیں سوجا لیں تھی اسے خود بھی نہیں پتا تھا کہ وہ کیوں رو رہی ہے آنسو خود باخود اس کی آنکھوں سے بہہ رہے تھے عابدہ بیگم کئی بار اسے تسلی دے چکی تھیں جبکہ فائزہ بیگم کا تو خود رو رو کر برا حال تھا

Mirh@_Ch
 

پری کی چیخ کے ساتھ ہی ان گنڈوں نےایک دوسرے کی طرف دیکھا اور وہاں سے بھاگ گئے جبکہ پری فق چہرہ لیے بامشکل خود کو گھسیٹتی سعد تک لے کر گئی جس کے کندھے سے خون بہت تیزی سے نکل رہا تھا اور وہ دردسے کراہ رہا تھا
سعد تم ۔۔۔
روتے ہوئے پری کو خود سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ کیا کرے
بامشکل سعد کو کندھے کا سہارا دے کر پری نے اسے گاڑی میں بٹھایا اور کانپتے ہاتھوں سے گاڑی سٹارٹ کی
گاڑی چلاتے ہوئے پری بار بار ایک نظر سعد پر بھی ڈالتی نو بار بار کرہتے ہوئے درد برداشت کرنے کے النی آنکھیں میچ رہا تھا
پری کو اپنی آنسوں کی وجہ سے اپنی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھاتا ہوا لگا لیکن اس نے اپنے آنسو رگڑ کر خود کو ہوش میں رکھا
اور ایک اچٹکی نگاہ سعد پر ڈالی جسکی آنکھیں اب بند ہورہی تھیں

Mirh@_Ch
 

ان میں سے ایک کے کہنے پر سعد اپنا فون اور والٹ نکال کر انھیں دینے لگا
اصل مال تو یہاں پر ہے
تبھی ان میں سے ایک شخص نے پری کو دیکھ کر کمینگی سے کہا
جس پر پری نے ڈر کے سعد کی طرف دیکھا جبکہ یہ سن کر غصے سے سعد کی رگیں تن گئیں
جو چاہیے مجھ سے لو اور جاؤ
ہم بھی تو یہی کہہ رہے ہیں یہ حور پری ہمیں دو اور جاؤ
یہ کہہ کر ان سب نے قہقا لگایا اور بس پھر سعد کا ضبط جواب دے گیا وہ غصے میں گاڑی سے اترا اور ان میں سے ایک شخص جو پری کی سائیڈ کا دروازہ کھول چکا تھا اس کی طرف بڑھا اور اس کا گریبان پکڑ لیا اور اس پر لاتوں کی برسات کر دی تبھی اس کے باقی ساتھی بھی اس کی طرف بڑھے اور پری بھی گاڑی سے اتری تبھی فضا میں گولی کی آواز گونجی اور پھر پری کی چیخ
-----

Mirh@_Ch
 

سعد اپنا رخُ پری کی طرف موڑ کر بولا
میری مرضی پاگل واگل تو نہیں ہو گئے ہو تم میں نہ صرف ماما کی وجہ سے مانی ہوں اور تم تم بتاؤ نہ ذرا کہ یہ شوشا چھوڑنے کی ضرورت کیا تھی جب تمہیں اچھی طرح سے پتا تھا کہ مجھے آج واپس نہیں آنا تم سے تو نہ میرا سکون برداشت ہی نہیں ہوتا کیا ہوجاتا اگر میں سکون سے فجر کی شادی اٹینڈ کر کے آجاتی لیکن نہیں
پری جسکی زبان چلنا شروع ہوچکی تھی اور جسکا اب رکنا مشکل ہی تھا وہ کچھ لوگوں کو دیکھ کر رکی جو بائیک پر تھے اور اب بائیک سے اتر کر انھی کی طرف آرہے تھےجبکہ ان کے ہاتھ میں گنز تھی
پری کی نظروں کا تعاقب کرتے ہوئے سعد بھی انھیں دیکھ چکا تھا لیکن اس سے پہلے وہ کچھ کرتا وہ لوگ ان کے سر پر پہنچ چکے تھے
اپنے ہاتھ اوپر کرو اور جو بھی ہے سب نکالو

Mirh@_Ch
 

جبکہ وہ اس کی گھوریوں کو نظرانداز کیے سنجیدگی سے ڈرائیو کر رہا تھا
جب پری کے گھورنے کا کوئی فاعدہ نہیں ہوا تو پری تنگ کر بولی
اب تم مجھے بتانا پسند کرو گے کہ تمہارے ساتھ کیا مصیبت ہوگئی تھی جو تم مجھے ابھی سے اٹھا کر لے آئے ہو
جھوٹ بلکل جھوٹ
سعد کے سنجیدگی سے کہنے پر پری نے ابرو اٹھا کر پوچھا کیا
میں اٹھا کر کب لایا ہوں تمہیں تم خود اپنی مرضی سے اپنے پاؤں پر چل کر آئی ہو
او ہیلو اپنی مرضی سے کب تم تمہاری وجہ سے آنا پڑا ہے مجھے
پری کے جھنجلا کر کہنے پر سعد نے ایک سائیڈ پر گاڑی روکی جبکہ یہ سڑک سنسان تھی آس پاس گاڑیاں اور آبادی نہ ہونے کے برابر تھی
میری وجہ سے کیا مطلب اتنی اچھی تو تم ہو نہیں کہ میں کہوں اور تم میری بات مان لو ظاہر ہے تمہاری مرضی تھی تو تم آئی ہو

Mirh@_Ch
 

کیونکہ وہ ادھر سے ادھر پتا نہیں کن کاموں میں مصروف تھی لیکن رخصتی ہوتے ہی سعد نے اسے جا لیااور ساتھ ہی ساتھ ابھی گھر چلنے کا حکم بھی صادر کر دیا جس پر پری غصے سے دانت کچکا کر رہ گئی کیونکہ اسنے ولیمے کے بعد جانا تھا وہ سعد کو منع کرنا چاہتی تھی لیکن عابدہ بیگم کی موجودگی کی وجہ سے چپ تھی ایک تو پہلے ہی اسے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ شاہ کی جگہ عالیان کیا کر رہا تھا بے شک اس نے شاہ کو نہیں دیکھا تھا لیکن عالیان کو وہ فجر سے لڑتے ہوئے یقینً دیکھ چکی تھی جس کے بارے میں وہ فجر سے پوچھنا چاہتی تھی لیکن فجر تو جیسے پورے فنکشن میں بہری ہوئی بیٹھی تھی
فائزہ بیگم نے عابدہ بیگم کے ساتھ آج رات وہیں رکنا تھا جبکہ پری اور سعد نے گھر جانا تھا اور اب پری سعد کے ساتھ فرنٹ سیٹ پر برجمان واپسی کے راستے پر اسے مسلسل گھور رہی تھی

Mirh@_Ch
 

پانچ منٹ بعد جب وہ واپس آئی تو عالیان اب بھی ویسے ہی آنکھیں کھول کر لیٹا تھا اور فجر کو باہر آتا دیکھ کر بولا
یہاں آؤ
یہ کہہ کر وہ خود دوسری سائیڈ پر ہوگیا اور فجر کو اپنی چھوڑی ہوئی جگہ اشارہ کر کے بولا
لیٹو
پہلے تو فجر چپ چاپ اس جگہ تو دیکھتی رہی لیکن پھر عالیان کے گھورنے پر لیٹ گئی تو عالیان نے اس کے اوپر کمبل درست کیا اور اس کے کان میں سرگوشی کی
آنکھیں بند کرو اور سو جاؤ
یہ کہہ کر عالیان فجر کےبالوں میں منہ چھپا کر خود بھی سو گیا جبکہ فجر کی تو وہ راتوں کی نیندیں اڑا چکا تھا
💖💖💖💖💖💖💖💖💖
سعد اور فائزہ بیگم تھوڑی دیر سے شادی میں شریک ہوئے تھے لیکن بہرحال ہوگئے تھے اور پوری بارات میں سعد کی نظریں بھٹک کر بار بار پری پر جا رہی تھیں جو انتہائی خوبصورت لگ رہی تھی لیکن اسے ایک. ار بھی پری سے بات کرنے کا موقع نہیں ملا تھا

Mirh@_Ch
 

وہ بھی میں ہوں جو تم سے ریسٹرونٹ میں ملا تھا وہ بھی میں ہوں اور جس سے تمہاری شادی ہوئی ہے وہ بھی میں ہوں ہر طرف میں ہی میں ہوں اس لیے کسی اور کا نام بھی آج کے بعد تمہاری زبان پر آیا نہ فجر تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا
فجر جو عالیان کے دھارنے پر پہلے ہی سہمی ہوئی تھی عالیان اس کا منہ اپنے ہاتھوں سے دبوچ کر غرایا
سمجھ آئی تمہیں
فجر نے سہمی ہوئی پلکوں اور درد سے فوراً اثبات میں سر ہلایا تو عالیان نے اس کا منہ چھوڑا اور جا کر بیڈ پر لیٹ گیا جبکہ فجر ابھی تک صوفے پر اپنی جگہ جم کر اسی طرح بیٹھی تھی اور جب کافی دیر تک وہ اپنی جگہ سے نہ ہلی تو عالیان چڑ کر بولا
اب کیا پوری رات یوں ہی بیٹھے رہنے کا ارادہ ہے جاؤ چینج کر کے آؤ
عالیان کے کہنےپر فجر کے وجود میں حرکت ہوئی اور وہ اٹھ کر ڈریسنگ روم کی طرف بڑھ گئی

Mirh@_Ch
 

بس اتنی سی ہمت تھی جھوٹ بولتے ہوئے دھوکہ دیتے ہوئے تو بلکل ڈر نہیں لگتا تھا اور دو گھنٹے اندھیرے میں بند رہنے پر دیکھو کیا حالت ہو گئی ہے سچ بتاؤں ترس کھانا چاہتا ہوں تم پر لیکن کیا ہے نہ عالیان شاہ کو دھوکہ دینے والے کو وہ سزا ضرور دیتا ہے پھر چاہے سامنے اس کی بیوی ہی کیوں نہ ہو اور تم نے تو بہت بڑی گیم کھیلی ہے یہ الگ بات ہے کہ تم اس کھیل میں کامیاب نہیں ہوئی
عالیان پلیز ایسے مت بولو میری ایک بار شاہ سے بات کروا دو
فجر کے نفی میں سر ہلا کر کہنے پر پہلے تو عالیان ہنسا لیکن پھر دھارا
تمہیں سمجھ نہیں آتی کیا کوئی اور نہیں ہے صرف میں ہوں وہ جو تمہیں فون کالز کرتا تھا وہ بھی میں ہوں وہ جو تم سے عشق کے دعوے کرتا تھا

Mirh@_Ch
 

فجر نے آہستہ آہستہ گھٹنوں سے سر اٹھا کر اپنی لال آنکھیں کھولیں اور دروازے کی طرف دیکھا جہاں باہر سے آنے والی ہلکی ہلکی روشنی میں اسے عالیان کا چہرہ نظر آرہا تھا
اس پل یہ سوچے بغیر کے اسے اس اندھیرے کمرے میں بند کرنے والا بھی وہی تھا فجر اپنا بھاری لہنگا اٹھا کر بھاگنے کے انداز میں عالیان سے سینے سے جا لگی آنسو بہاتی وہ ڈر سے کانپ رہی تھی
ع ا لیا ن پ۔پلیز مم مجھے یہ۔ا ں سے لے ج ۔اؤ
الفاظ ٹوٹ کر ادا کرتے ہوئے وہ اس سے التجا کر رہی تھی اور اس کی التجا شاید سن لی گئی تھی جو عالیان اسے اپنے ساتھ لگائے کمرے کی طرف چل پڑا اور اسے صوفے خر بٹھا کر اسے پانی تھمایا اور خود اس کے سامنے بیٹھ کر بغور اسے دیکھتے ہوئے بولا جو پانی پی رہی تھی

Mirh@_Ch
 

اور پھر اس نے بھی ڈیل پوری کی لیکن اس کے اندر ایک چنگاری بھڑک رہی تھی کہ آخر فجر نے اسے دھوکہ دینے کا سوچا بھی کیسے اور پھر جب جب وہ فجر کے دھوکے کے بارے میں سوچتا تو وہ جنونی ہو جاتا اور اب بدلے کی باری اس کی تھی اسے فجر کے بارے میں اتنا تو پتا تھا کہ اسے اندھیرے سے ڈر لگتا ہے اسی لیےاس نے فجر کو سٹور میں بند کیا جہاں لائٹ نہیں تھی اور یہ تو بہت چھوٹی سی سزا تھی اس کے دھوکے کی اس نے گھڑی کی طرف دیکھا تو اسے لیٹے لیٹے دو گھنٹے ہو چکے تھے وہ اٹھا اور سٹور روم کی طرف بڑھ گیا
💖💖💖💖💖💖💖💖
اسے گھٹنوں میں سر دے کر روتے ہوئے کتنا وقت گزرا سے پتا ہی نہیں چلا اسے تو بس یہ پتا تھا کہ وہ اس تاریک کمرے میں اکیلی ہے ڈر سے وہ آنکھیں ہی نہیں کھول رہی تھی اور وہ مسلسل رو رہی تھی تبھی اسے دروازہ کھلنے کے ساتھ کسی کے قدموں کی چاپ سنائی دی

Mirh@_Ch
 

اور جب وہ نہیں آئی تو وہ اسے اپنے ساتھ لے گیا اور وہ جاننا چاہتا تھا کہ وہ اسے شاہ کے ساتھ موجودگی کا کیا جواز پیش کرتی ہے اور اس نے فجر کو وارن کیا کہ وہ اسے کسی اور کے ساتھ نظر نہ آئے اور وہی ہوا جو اس نے سوچا تھا فجر نے عالیان کی دھمکی سے ڈر کر شاہ سے ملنے سے انکار کر دیا تھا پھر اس کے پیپرز سٹارٹ ہوگئے جس میں وہ بزی ہوگیا لیکن پھر بھی وہ فجر سے بےخبر نہیں تھا اور اس دن جب فجر نے اسے ڈیل کا کہا کہ وہ اس سے شادی کر لے گی لیکن ایک مہینے تک وہ اس سے نہ ملے تب ایک پل کو تو وہ فجر کی چالاکی پر حیران رہ گیا لیکن ساتھ ہی ساتھ اسے فجر پر ہنسی اقر ترس دونوں آیا کہ وہ اسے بےوقوف بنانے کے چکر میں بےوقوف بننے والی ہے اس نے فجر سے ڈیل کر لی کیونکہ وہ جانتا تھا کہ فجر یہ ڈیل اس لیے کر رہی ہے تاکہ اس کی شادی آرام سے ہو جائے اور اسے علم نہ ہو

Mirh@_Ch
 

وہ فجر کو اپنے اور شاہ کے ایک ہی ہونے کی سچائی بتانا چاہتا تھا لیکن وہ چاہتا تھا کہ اس سے پہلے وہ جان لے کہ فجر شاہ سے کیا کہنا چاہتی ہے لیکن وہ اس سے شاہ بن کر مل نہیں سکتا تھا اس لیے وہ شاہ بن کر وہاں آیا اور بعد میں فجر کے سامنے ایسے شو کیا کہ وہ وہاں آیا تھا لیکن فجر کسی اور کے ساتھ تھی اور پھر جب فجر نے فون پر اسے بتایا کہ وہ شاہ سے شادی کرنا چاہتی ہے تو عالیان کے اندر غصے کی چنگاریاں چلنے لگیں کہ اس کی بیوی ہوتے ہوئے اس نے کسی اور کے بارے میں سوچا بھی کیسے پھر چاہے وہ کوئی اور وہ خود ہی کیوں نہیں تھا اس لیے اس نے فیصلہ کیا کہ اب وہ یہ شاہ والا ناٹک جاری رکھے گا اور وہ فجر سے ملنے کا انتظام بھی کر چکا تھا وہ ماسک پہن کر فجر سے شاہ بن کر ملنے آیا اور اسے اپنی محبت کا یقین دلایا اور اس کے ساتھ ساتھ اس نے عالیان بن کر فجر کو ملنے کا کہا

Mirh@_Ch
 

پارٹی والے دن وہ فجر سے شاہ بن کر بات کر کے ہٹا ہی تھا جب اسے اس کا ایک دوست وہاں مل گیا اور اس سے بات کرنے کے بعد وہ اندر جانے ہی والا تھا جب اسے کچھ چبتا ہوا محسوس ہوا اور وہ ہوش وہواس سے بیگانہ ہوگیا لیکن اس سب کے دوران فجر کا ایئر رنگ اس کی شرٹ کے بٹن میں پھنس گیا اور وہ تو فجر کو اتنی دفعہ دیکھ چکا تھا کہ اسے فجر کے ایئر رنگ کی پہچان ہو چکی تھی اور تبھی اس نے فجر کو سبق سکھانے کا فیصلہ کیا جس میں اس کی دلی خواہش بھی شامل تھی اور بس پھر اسے ہر چیز اپنی مرضی کی
چاہیے تھی لیکن تب وہ حیران رہ گیا جب فجر نے شاہ کو فون کیا
اور اسکی بات سن کر وہ حیران رہ گیا کہ کل تک وہ جس کی بےعزتی کرتی تھی آج اس سے پوچھ رہی ہے کہ وہ اس سے محبت کرتی ہے اور اس سے ملنا چاہتی ہے تو عالیان نے بھی فوراً ہاں کہہ دیا کیونکہ وہ نہیں چاہتا تھا کہ فجر کو کوئی شک ہو

Mirh@_Ch
 

فجر کو سٹور میں بند کرنے کے بعد عالیان کمرے میں آکر چینج کرنے کے بعد بیڈ پر لیٹ گیا اور چھت کو گھورنے لگا جبکہ ے پہلی ملاقات پر اسے وہ بغیر سوچے سمجھے بولنے اور فیصلے اخذ کرنے والوں میں سے لگی پھر جب اسے کینٹین میں فجر کا فون پڑا ملا نس پر اس کی پکچر لگی ہوئی تھی تب اسے یقین ہو گیا کہ اس کا فجر کے بارے میں خیال بلکل درست ہے اور پھر آہستہ آہستہ اسے فجر کو تنگ کرنے میں مزا آنے لگا اور کبھی کبھی اس کی حرکتوں پر غصہ بھی آتا تھا اور جب بھی اس کا فجر سے بات کرنے یا اسے چڑانے کا دل چاہتا تو وہ اسے شاہ بن کر فون کرتا جس میں وہ اکثر اسے بہت کچھ باور کروا دیا کرتا تھا اس کا چڑنا غصے سے ناک پھلانا اسے بہت اچھا لگتا تھا
اور جب اس نے فجر کا فون توڑا تھا تو فجر کی آنکھ میں نمی دیکھ کر اسکے اندر کچھ ہلچل ہوئی تھی