پری بےیقینی سے سعد کی طرف دیکھنے لگی
میں آگیا ہوں نہ تبھی تم یہاں صحیح سلامت کھڑی ہو
اس سے پہلے سعد کچھ اور بولتا پری کو فجر کا فون آنے لگا
شاید یہاں پر سگنلز موجود تھے
پری نے فجر کو تفصیل بعد میں بتانے کا کہہ کر اسے لینے آنے کا کہا
سعد نے بھی گھر فون کر لیا اور دونوں انتظار کرنے لگے
اس دوران پری نے ایک بھی بار سعد کی طرف نہیں دیکھا
اس کےدل میں سعد کے لیے شدید نفرت پیدا ہونا شروع ہو گئ تھی
پری فجر کے ساتھ اس کے گھر اور سعد اپنے گھر چلا گیا
--_---_-------------------
تو سعد پری کی طرف بڑھا اور اسے کندھوں سے پکڑ کر جھنجوڑا کہ پری کو اس کی انگلیاں اپنے بازوؤں میں پیوست ہوتی ہوئی محسوس ہوئ
تمہارا دماغ خراب ہو گیا تھا کیا تمہارے پاس عقل نام کی چیز ہے یا نہیں
میں نے کیا کیا ہے ؟
آخر پری نے ہمت کر کے پوچھ ہی لیا
کیا کیا ہے تم نے یہ بھی میں بتاؤں تمہیں
ہاں تو تم ہی کہہ رہے تھے نہ کہ میں چلی جاؤں تم تو چاہتے ہی یہی تھے تو پھر اب کیوں آئے
ہو پری بھی غصے میں چلائ
تو سعد نے کھینچ کر ایک تھپڑ پری کے منہ پر مارا
پری یہ دیکھ کر بوکھلا کر آگے جانے لگی تو ایک لڑکا وہاں کھڑا ہو گیا
پھر جب وہ پیچھے کی طرف بڑھی تو وہاں پر بھی ایک لڑکا کھڑا تھا
آخر پری ہمت کر کے بھاگنے لگی تو ایک لڑکے نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا
چھوڑو میرا ہاتھ کوئ ہے پلیز ہیلپ
پری روتے روتے چلانے لگی
تبھی کسی نےاس لڑکے کے منہ پر مکا مارا تو وہ لڑکھڑا کر پیچھے گرا پری فوراً سنبھل کر پیچھے ہٹی
اب وہ لڑکا ان سب لڑکوں کی پٹائ کر رہا تھا پری کی طرف اس کی پیٹھ تھی لیکن پری پہچان گئ کہ وہ سعد تھا کیونکہ اس نے ایسی ہی شرٹ پہنی ہوئ تھی
ان لڑکوں کی اچھی طرح پٹائ کرنے کے بعد جب وہ بھاگ گئے
جس پر عالیان نے ایک جاندار قہقہ لگایا اور نفی میں سر ہلاتا ہوا چلا گیا
فجر دل ہی دل میں عالیان سے مخاتب ہوئی
عالیان فجر سے پنگا لے کر تم نے اچھا نہیں کیا you have to pay for this
یہ کہتے ہوئے فجر عالیان سے بدلا لینے کے عزم کے ساتھ چلی گئ
💖💕💖💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💖💕💕💕💕💕
سعد کی باتوں کو سن کر غصے میں پری سعد کی الٹی طرف بڑھ گئ اور تیز تیز چلنے کی وجہ سے اسے پتا ہئ نہیں لگا کہ وہ کہاں آگئ
ابھی وہ ادھر ادھر دیکھ کر جگہ کا اندازہ لگانے کی کوشش کر ہئ رہی تھی کہ کچھ لڑکے اپنی بائیک پر آ کر پری کے اردگرد چکر لگانے لگے
میں نے وہی کیا ہے جو تم ڈیزرو کرتی تھی
یہ سنتے ہی فجر کو غصہ آگیا تم نے میرا اتنا مہنگا فون توڑ دیا کبھی دیکھا بھی ہے تم نے اتنا ایکسپینسو فون
عالیان کہیں سے بھی غریب تو نہیں لگتا تھا بلکہ اس کے کپڑوں سے لے کر جوتوں تک ہر چیز بہت مہنگی لگتی تھی
لیکن غصے میں فجر کے منہ میں جو آیا بول دیا
اتنا مہنگا فون دیکھنے کاتو پتا نہیں لیکن توڑنے کا شرف مجھے یقیناً حاصل ہے
یہ کہتے ہوئے ایک دل جلا دینے والی مسکراہٹ نے عالیان کے چہرے کا احاطہ کیا
جس پر فجر کا خون کھول اٹھا
عالیان تمہیں پتا نہیں ہے کہ تم نے پنگا کس سے لیا ہے اب تم دیکھنا میں تمہارا کیا حشر کرتی ہوں
میں کہوں گی کہ تم نے میرا فون چوری کیا ہے
یہ سنتے ہی عالیان کا غصے سے برا حال ہو گیا
آگئ نہ اپنی اوقات پر
یہ کہتے ہی عالیان نے پوری شدت سے اپنے ہاتھ میں موجود فجر کا فون دیوار پر مارا کہ فون ٹوٹ کر چکنا چور ہو گیا
فجر منہ کھولے اپنے ٹوٹے ہوئے فون کو دیکھنے لگی اور ہوش میں آتے ہی بولی یہ کیا کیا تم نے میرا اتنا قیمتی فون توڑ دیا
یہ کہتے ہی فجر کی آنکھوں میں بےبسی سے آنسو آ گئے
ایک منٹ کے لیے تو عالیان اس کی آنکھوں میں کھو سا گیا لیکن پھر سنبھلتے ہوئے بولا
آں ہاں! ایسے نہیں پہلے ہاتھ جوڑ کر معافی مانگو
میں نے کل تمہیں سوری بولا تھا اب میرا فون واپس کرو
فجر بہت ضبط سے بولی
مجھے تو ایسا کچھ یاد نہیں مجھے تو بس یہ یاد ہے کہ کل آپ نے مجھے بہت باتیں سنائ تھی اور چور بھی کہا تھا اب جب تک آپ مجھے سوری نہیں بول دیتی آپ کا فون تو آپ کو ملنے سے رہا
دیکھو عالیان چپ چاپ میرا فون واپس کرو ورنہ
ورنہ.... کیا ہاں
ورنہ میں ایڈمن آفس میں تمہاری کمپلین کردوں گی
اچھا کیا کہو گی کیا کیا ہے میں نے
وہ بڑی دلچسپی سے اس کی دھمکی سن رہا تھا
فجر نے یونی پہنچ کر پری کو کال کی لیکن پری کا فون نہیں لگ رہا تھا
فجر لیکچر لینے کے بعد عالیان کو ڈھونڈنے لگی کیونکہ اسے اپنا فون واپس چاہئے تھا
ابھی وہ عالیان کو ڈھونڈ ہی رہی تھی کہ اسے اپنے پیچھے سے کسی کی آواز آئ
کہیں آپ مجھے تو نہیں ڈھونڈ رہیں
فجر نے مڑ کر دیکھا تو عالیان ہاتھ باندھے کھڑا تھا
اسے دیکھتے ہی فجر کو غصہ تو بہت آیا لیکن ضبط کر گئ کیونکہ اسے ابھی اپنا فون واپس چاہئے تھا
میرا فون واپس کرو
فجر ہاتھ آگے بڑھاتے ہوئے بولی
پری نے پیچھے سے ہی ہانک للگائسعد نے پھر تک کر اسے دیکھا
ہاں تو اب تو ماما یہاں نہیں ہیں نہ اب تو تمہاری کوئ مجبوری نہیں ہہے
یہ کہہ کر وہ پھر سے چلنے لگا
جب کافی دیر بعد اسے اپنے پیچھے کسی کے نہ ہونے کا احساس ہوا تو اس نےمڑ کر دیکھا
پری کہیں نہیں تھی پری ... اس نے پریشانی سے اسے آواز دی
سعد کو بھی اب غصہ آگیا تھا
لیکن تم منع تو کرسکتے تھے نہ
مجھے بھی کوئ شوق نہیں ہے تمہارے ساتھ جانے کا
یہ کہہ کر سعد تیز تیز چلنے لگا کہ پری کو آس لے ساتھ چلنے کے لیے تقریباً بھاگناپڑ رہا تھا
آہستہ چلو میں تھک گئ ہوں
پری نے ہانپتے ہوئے کہا
سعد نے رک کر اسے دیکھا
تم تو میرے ساتھ آنا ہئ نہیں چاہتی تھی نہ تو میں کیوں آہستہ چلوں
یہ کہہ کر وہ پھر سے چلنے لگا
ہوں نہیں ہے شوق مجھے بھی تمہارے ساتھ آنے کا میں تو پھپھو کے کہنے پر آ گئ تھی
یہ کہہ کر وہ گاڑی سے اتر گیا اور پری بھی برے برے منہ بناتی اس کی تقلید میں گاڑی سے اتر گئ
اگر ہم اس طرح چلتا رہے تو میں یونی کیسے پہنچوں گئ اس سے اچھا تو میں فجر کے ساتھ چلی جاتی
یہ کہتے ہی وہ تو فجر کو فوں کرنے لگی لیکن وہاں سگنل ہی نہیں آ رہے تھے
تم منع نہیں کر سکتے تھے خام خواہ آج مجھے تمہاری وجہ سے چھٹی کرنی پرے گی
میری وجہ سے ؟
یہ سن کر سعدحیران رہ گیا
ایک تو میں تمہیں چھوڑنے آیا ہوں اور تم مجھے ہی بلیم کر رہی ہو میں نے گاڑی جان بوجھ کر خراب نہیں کی
یہ کہتے ہوئے سعد باہر نکل گیا اور پری بھی اس کے پیچھے چل دی
گاڑی کو میں روڈ پر لانے کے بعد سعد نے پری سے راستہ پوچھا
تو پری نے ایک سڑک کی طرف اشارہ کر کےکہا کہ یہاں سے چلو یہ شارٹ کٹ ہے
یہ راستہ قدرے سنسان تھا
ابھی وہ لوگ کچھ دور ہی گئے تھے کہ
گاڑی ایک جھٹکے سے رک گئ
کیا ہوا؟
پری نے پریشان ہو کر پوچھا کیونکہ وہ پہلے ہئ لیٹ ہو چکی تھی اور اب گاڑی خراب ہو نا افورڈ نہیں کر سکتی تھی
سعد نے گاڑی سے اترا اور کچھ دیر بود گاڑی چیخ لر لے مایوسی سے لوٹ آیا
گاڑی خراب ہو گئ ہے اور یہاں سے کوئ ٹیکسی بھی نہیں ملے گئ ہمیں پیدل ہئ جانا پڑے گا
کوئی بات نہیں وہ آکر ناشتہ کر لے گا
کیوں سعد تم چھوڑ آؤ گے نا پری کو
سامنے سے آتے سعد کو دیکھ کر فائزہ بیگم نے اس سے پوچھا
نہیں میں فجرکو کال کرکے بلالیتی ہوں
پری سرد لے کچھ کہنے سے پہلے بولی
اسے آنے میں دیر ہو جائے گی سعد چھوڑ دے گا
فائزہ بیگم نے پھر سعد کی خدمات پیش کیں
ہاں نو پرابلم میں چھوڑ دوں گا
چلو
کیا تو پھر میں یونی کیسے جاؤں
گی .پری نے رونی صورت بنا کر کہا
کیا کیا جا سکتا ہے بیٹا تم چھٹی کرلو گاڑی تو کھڑی ہے لیکن تمہیں چھوڑ کرکون آئے گا تمہارے بابا بھی گھر پر موجود نہیں ہیں
لیکن ماما آج میرا بہت امپورٹنٹ لیکچر ہے میں چھٹی کیسے کرسکتی ہوں
تبھی فائزہ پھپھو وہاں آئیں اور پری کے پھولے چہرے کو دیکھ کر وجہ دریافت کی تو عابدہ بیگم نے انھیں ساری بات بتائ
یہ تو کوئ مسئلہ ہی نہیں ہے سعدہے نا وہ چھوڑ آئے گا
لیکن وہ تو ابھی اٹھا ہے اس نے تو ابھی تک ناشتہ بھی نہیں کیا
عابدہ بیگم نے پریشانی سے کہا
تم فائزہ پھپھو کے بیٹے ہو
جی بلکل سہی پہچانا آپ نے
میں اپنی ماما کا ہی بیٹا ہوں
یہ سب کر سب مسکرا دیے
پری کو سعد برا نہیں تو اچھا بھی نہیں لگا تھا پتہ نہیں کیوں اس کے تعارف کے بعد اسے سعد کی آنکھوں میں غرور سا نظر آیا تھا شاید کسی ایسی بات کا جسے وہ نہیں جانتی تھی
میں بہت تھک گئی ہوں آرام کرنے جا رہی ہوں
یہ کہہ کر پری اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی
💖💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕
اگلے دن پری یونی جانے کےلیے تیار ہوئی اور آج بھی وہ حسب ِمعمول لیٹ تھی اس لئے جلدی جلدی دروازےکی طرف بڑھی کہ تبھی عابدہ بیگم نے اسے بتایا کہ ڈرائیور گھر پر موجود نہیں ہے کسی کام سے گیا ہے
پری ناسمجھی سے ماں اور پھپھو کی طرف دیکھنے لگی جیسےجاننا چاہ رہی
ہو کئ یہ کون ہے
تبھی فائزہ بیگم اس لڑکے کو مخاتب کر کے کہنے لگیں
یہ پری ہے عابدہ کی بیٹی
تو وہ لڑکا پری کو دیکھ کر کہنے لگا
اوہ آئ سی
لیکن پری ابھی ناسمجھی سے اس لڑکے کئ طرف دیکھ رہی تھی تبھی اس لڑکے نے پری کی مشکل آسان کردی
آئے ایم سعد علی خان-
یورفرسٹ کزن
یہ نام سن کر پری کو کچھ یاد آیا تو اس کے ہونٹ لاشعوری طور پر اووووو کی شکل اختیار کر گئے
اتنی دیر کر دی تم نے
ماما ٹانگ کاپتہ ہئ نہیں چلا
یہ مہترمہ کون ہیں؟
تبھی کسی خوبصورت مرد کئ آواز اس کے کانوں سے ٹکڑائی
اس نے آنکھیں کھول کر دیکھا تو ایک لڑکا نیلی شڑٹ پر جینز پہنے شہد رنگ آنکھوں میں چمک لئے اسی کی
طرف دیکھ رہا تھا
پہلے تو وہ کسی مرد کو گھر میں دیکھ کر حیران ہوئ اور پھر یہ سوچ کر جھنجلائ کہ اسی
کے گھر میں کوئ اسی کےبارے میں پوچھ رہا ہے کئ وہ کون ہے حالانکہ یہ سوال تو پری کو کرنا چاہیے
---
تم سب کےسامنے تماشہ لگا رہی تھی
ہاں تو اس طرح سڑک بلاک کر کے یہ
لوگ تماشہ نہیں لگا رہے
تم یہ چھوڑو غصہ کیوں کررہی ہو دیکھو ہٹ رہی ہیں ان کی گاڑیاں اب خوش
پری نے فجر کا غصہ ٹھنڈا کرنے کےلیے کہا
💖💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💖💖💖💖💖💖
پری اور فجر نے ڈھیر ساری شاپنگ کی کھانا کھایا اور پھر آپس کریم کھائ اور اس طرح گھر پہنچتے پہنچتے سات بج گئے
💖💕💕💖💕💕💕💕💕💖💖💖💖💕💕💕💕💕💕💕
پری شاپنگ بیگز لے کر گھر پہنچی تو سب لوگ لاؤنچ میں ہئ جمع تھے
اسے آتے دیکھ کر عابدہ بیگم نے کہا
تو ان گارڈز نے ڈرائیور کی کہی ہوئی بات دہرادی
تو فجر کے غصے میں مزید اضافہ ہوا
تو یہ آپ کے شاہ صاحب کا مسئلہ ہے میرا نہیں ہٹواؤ یہ گاڑیاں اور یہ شاہ صاحب کیا اتنےموٹے ہیں جو ایک گاڑی میں پورے نہیں آ رہے جو یہ چار گاڑیاں لائن میں لاکر کھڑی کردیں ہے یہ کسی کے باپ کی سڑک نہیں ہے
میں بھی تو دیکھوں یہ شاہ صاحب ہیں کون
فجرآگے جانےہی والی تھی کہ پری اسے کھینچ کر لے گئ
کیا یار کیوں لے کر آئی ہو مجھے ابھی میں اس کئ عقل ٹھکانے لگاتی
تو ان میں سے ایک گارڈ نے بتایا
شاہ صاحب کی گاڑی خراب ہو گئ ہے اس لئے وہ دوسری گاڑی میں بیٹھ رہے ہیں
جب ڈرائیور نے آکریہ بات فجر اور پری کو بتائی تو فجر نے جھنجلا کر کہا
اگر ان کے شاہ صاحب کی گاڑی خراب ہوئی ہے تو پوری سڑک کیوں بلاک
کی ہوئ ہے
یہ کہتے ہی فجر گاڑی سے اتری اور نظر ان گارڈز کو دیکھ کر آگے جانےلگی
آپ آگے نہیں جا سکتی
ان میں سے ایک گارڈ نے اسے روکا
کیوں نہیں جا سکتی
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain