اب لڑیں گے نہیں نا؟"
ایمان نے اس یقین دہانی چاہی۔
"نہیں۔"
غزنوی نے نفی میں سر ہلایا۔
"اور میرے کاموں میں کیڑے بھی نہیں نکالیں گے؟"
اس نے ایک اور وعدہ چاہا۔
"نہیں۔"
وہ اسکا چہرہ ہاتھوں پہ لئے بولا۔ایمان مسکرائی۔
"یار ان کھلے بالوں میں تو تم بالکل چڑیل لگ رہی ہو۔آئیندہ بال کھلے مت چھوڑنا۔"
غزنوی اسے سر تا پیر گھورتے ہوئے بولا۔
تاروں میں چمک...
تتلی میں رنگ...
میرا تمہارا رشتہ اٹوٹ ہے....
جو جڑا رہے تو زندگی.....
اور ٹوٹ جائے تو موت.............!!
وہ اسکی آنکھوں میں دیکھتا گھمبیر لہجے میں کہتا گیا اور وہ اسکی آنکھوں کے حصار میں جکڑی اسکے حرف حرف پہ ایمان لے آئی۔
"آج بھاگنا نہیں ہے؟"
"مجھے آپکی محبت کے حصار سے کبھی نہیں بھاگنا۔"
وہ دھیرے سے بولی تھی۔
"میں بھاگنے دوں گا بھی نہیں۔"
تم نے اقرار مانگا ہے....
تو سنو......!!
دل کے سچے جذبے...
اظہار کے محتاج نہیں ہوتے...
یہ تو وہ جذبے ہیں...
جو جگنو بن کر...
آنکهوں میں چمکتے ہیں...
ہونٹوں کے نرم گوشوں میں رہ کر..
دل میں بستے ہیں....
تم مجھ میں اس طرح سمائی ہو...
"میں نے ایسا کوئی کام نہیں کیا۔۔ہاں البتہ آپ نے مجھے پریشان کیے رکھا، پورے فنکشن میں میرے باڈی گارڈ بنے رہے۔"
"بالکل غلط۔۔۔الٹا تم مجھ پہ اپنی یہ بندوق جیسی آنکھیں تانے ہوئے تھیں جیسے کسی دشمن گروہ سے میرا تعلق ہو۔"
غزنوی نے چہرے پہ معصومیت سجاتے ہوئے کہا۔
"اب اس وقت اس فضول بحث کا مقصد؟"
ایمان نے پلٹ کر اسکی طرف دیکھا جسکے چہرے پہ کچھ اور ہی رنگ بکھرے تھے۔
"میرا مقصد تو واضح ہے۔"
غزنوی نے اسکے سر سے سر ٹکرایا۔
"آپکا مقصد تو صرف مجھے تنگ کرنا ہے محبت کرنا نہیں۔"
ایمان نے نارضگی جتائی۔
کیوں۔۔۔؟؟"
غزنوی نے اسکی سنہری مائل ذلفوں میں چہرہ چھپایا۔
"کیونکہ مجھے نیند آ رہی ہے۔"
ایمان نے تھکاوٹ بھرے لہجے میں کہا۔
"اچھا ابھی تمھیں نیند آ رہی ہے اور فنکشن کے دوران جو تم مجھے اشارے کر رہی تھیں، وہ کیا تھا؟"
غزنوی کا انداز سنجیدگی لئے ہوئے تھا۔
"کیا۔۔۔میں؟؟ میں نے کب آپکو اشارے کیے؟"
حیرت کی زیادتی سے ایمان کی آنکھیں پھیل گئیں۔
"چلو اب نخرے مت کرو اور مان لو کہ تم مجھے اشارے کر رہی تھیں۔"
وہ ہنسی دباتے ہوئے بولا۔
"چائے۔۔۔"
ایمان کی آواز پہ وہ آنکھیں کھول کر سیدھا ہوا۔
"چائے بنا رہی تھی یا پائے؟"
وہ کپ ٹیبل پہ رکھ کر پلٹ کر جا رہی تھی جب غزنوی نے پیچھے سے اسے گھیرے میں لیا اور اسکے گال سے گال ٹکراتا بولا۔
"آپ کیا ہر وقت میرے ساتھ جنگ کی حالت میں رہتے ہیں۔"
ایمان نے کہا۔
"یہ محبت کی جنگ ہے اور تم جانتی ہو کہ محبت اور جنگ میں سب جائز ہے اور پھر میری تو محبت اور جنگ دونوں ساتھ ساتھ جاری ہیں۔"
غزنوی نے اپنی قید کا حصار اسکے گرد تنگ کیا۔
"میں باز آئی آپ کی ایسی جنگ نما محبت سے۔۔مجھے معاف رکھئیے۔"
ایمان کے ہاتھ اسکے مضبوط بازوں پہ جمے تھے۔
چھوڑیں غزنوی۔۔۔"
ایمان نے دھیرے سے کہتے ہوئے اپنا ہاتھ چھڑانا چاہا۔
"کیا۔۔۔۔؟؟"
وہ شریر ہوا۔
"میرا ہاتھ۔۔۔"
ایمان نے التجائی نظروں سے اسکی جانب دیکھا۔وہ اسکا ہاتھ چھوڑ کر وہاں سے چلا گیا۔
"تم یہاں ہو۔۔۔چلو سب بلا رہے ہیں رسم شروع ہو گئی ہے۔"
ملائکہ اسکا ہاتھ پکڑتی باہر لان کی جانب بڑھ گئی۔ __________________________________________
رسمیں کافی دیر تک چلیں تھیں۔اب تھک کر سب اپنے اپنے کمروں میں تھے۔شگفتہ اپنے کوارٹر میں جاتے ہوئے اسے غزنوی کا پیغام دے کر گئی تھی اور اب وہ نیند کو دور بھگاتی اس کے لئے چائے بنا رہی تھی۔چائے لئے وہ کمرے میں آئی تو غزنوی صوفے پہ آنکھیں موندے بیٹھا تھا۔
کہہ رہی ہیں وہ جھیل سی آنکھیں
ہے خبر، لوٹنا نہیں اُس کو
پھر بھی ہیں راہ دیکھتی، آنکھیں
در حقیقت ہمارے اندر کی
بس دکھاتی ہیں روشنی آنکھیں
اُن میں کچھ بات ہے الگ یوسف
ورنہ دنیا میں اور بھی آنکھیں۔۔۔۔۔
ایمان سے وہاں رکنا محال ہو گیا مگر اسکا ہاتھ اب بھی غزنوی کے مضبوط ہاتھ میں تھا۔
"ایمان۔۔۔۔۔!!"
اسی اثناء میں ملائکہ اسے پکارتی اندر کی جانب آ رہی تھی۔ایمان ہوش میں آئی۔
ایمان کو اپنی طرف محو انداز میں دیکھتا پا کر اسکی جانب جھک کر شرارتی انداز میں بولا۔
"اللہ رے یہ خوش فہمی۔۔۔کس نے کہہ دیا آپ سے ایسا؟"
ایمان نے جانے لگی۔
"آپکی آنکھوں نے۔"
غزنوی نے اسکا ہاتھ تھام کر اسے روکا۔وہ اسکے سامنے کھڑا ہوا اور اسکی آنکھوں جھانکتا گھمبیر لہجے میں گنگنایا۔
سب بتاتی ہیں ان کہی ، آنکھیں
دل کی کرتی ہیں مخبری، آنکھیں
جھانک لیتی ہیں دل کے اندر تک
جب بھی ملتی ہیں باہمی آنکھیں
اک غزل آج اُن پہ کہہ ڈالوں
ارے ارے بیگم صاحبہ۔۔۔سنبھل کر چلیے۔"
غزنوی کی گھمبیر آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی۔
"افف۔۔۔ایک تو آپ میرے لئے یہ مصیبت غرارہ خرید لائے ہیں۔گز بھر کا تو ڈوپٹہ ہے۔اوپر سے بیوٹیشن کو اپنے نادر مشورے کیوں دیئے۔اچھا بھلا اسے چوٹی بنانے کا کہا تھا۔"
ایمان ایک ہاتھ سے ڈوپٹہ سنبھالتی اور دوسرے ہاتھ سے بکھرے سلکی بال۔۔جو چہرے پہ بکھر آئے تھے، تپے ہوئے لہجے میں بولی۔
اسکی بھوری آنکھوں میں کاجل کی گہری لکیر۔۔۔غزنوی نے نظروں کا زاویہ بدلا۔
"نیچے اترو۔۔۔"
غزنوی نے ہاتھ اسکی طرف بڑھایا جو ایمان نے تھام لیا اور نیچے اتری۔سفید کلف لگے شلوار سوٹ میں وہ بہت ہینڈسم لگ رہا تھا۔
"کیوں لگ رہا ہوں نا دولہا؟"
ایمان کو اپنی طرف محو انداز میں دیکھتا پا کر اسکی جانب جھک کر شرارتی انداز میں بولا۔
شگفتہ نے ٹوکرا اٹھایا اور پرخہ کو ڈھونڈتی آگے بڑھی۔
"خیرن کیوں اپنا جی جلاتی ہو، بچیاں دیکھ لیں گی خودی۔"
عقیلہ بیگم اپنا سفید بڑا سا چکن کا ڈوپٹہ سر پہ ٹکاتی لاونج میں داخل ہوئیں اور خیرن بوا کو شگفتہ سے الجھتے دیکھ کر کہا۔
"ائے ان پہ ڈال دیا تو ہو گیا کام۔۔اوپر سے یہ شگفتہ۔۔کمبخت ایک نمبر کی کام چور ہے۔چاہتی ہے کہ ہر وقت نٹھلی بیٹھی رہے۔"
خیرن بوا ناک چڑھا کر اوپر جاتی شگفتہ کیطرف دیکھا۔عقیلہ بیگم سر ہلاتی چپ کر گئیں۔انہیں معلوم تھا کہ اس بحث کا کوئی اختتام نہیں ہو گا۔ _________________________________________
گوٹہ کناری لگے بڑے سے پیلے ڈوپٹے کو سنبھالتی وہ نیچے اتر رہی تھی کہ آخری سیڑھی پہ پاوں مڑا اور اس سے پہلے کہ وہ گرتی کسی کے مضبوط بازوں نے اسے سنبھالا۔
غزنوی نے اسے اشارہ کیا۔ایمان نفی میں گردن ہلاتی نہایت پھرتیلے انداز میں کمرے سے نکلی تھی جبکہ وہ سیٹی پہ کوئی دھن بجاتا واش روم کی جانب بڑھ گیا۔ _____________________________________
آج مہندی تھی اس لئے گھر میں صبح سے ہی چہل پہل کا سماں تھا۔لان کو مہندی کے فنکشن کے لئے سجایا گیا تھا۔سبھی لڑکیاں صبح سے ہی تیاری میں مگن تھیں۔ہر کام مکمل ہونے کے باوجود کسی کا ڈوپٹہ نہیں مل رہا تھا تو کوئی اپنا ڈریس کہیں رکھ کر بھول گئی تھی۔ایک اودھم سا برپا تھا پورے گھر میں۔
"ائے کوڑھ مغز۔۔تجھے کہا ہے کہ یہ پھول اندر لے جا مگر تو نے تو یہیں ڈھیر لگا دیا۔عقل کیا گھانس چرنے گئی ہوئی ہے تیری۔"
خیرن بوا نے شگفتہ کو گلاب کے پھول وہیں ٹیبل پہ رکھ کر جاتے دیکھ کر اسے خوب لتاڑا۔آج صبح ہی سے بیچاری کی شامت آئی ہوئی تھی۔
اس لئے اس نے کچھ بھی کہے بغیر اس کے پاس سے نکلنا چاہا۔
"بیڈ پہ شاپنگ بیگز رکھے تھے۔"
غزنوی نے اسے روکا اور سوالیہ انداز میں بیڈ کیطرف اشارہ کیا۔
"الماری میں رکھ دیئے ہیں۔"
ایمان نے بتایا۔
"تم نے دیکھی، پسند آئی؟"
غزنوی نے گھڑی اتار کر سائیڈ ٹیبل پہ رکھی۔
"جی دیکھی بھی اور پسند بھی آئی۔ویسے کمال کی بات ہے آپ جلد فارغ ہو گئے "فالتو" لوگوں کے لئے۔"
ایمان نے اسکا بغور جائزہ لیا۔ایمان کے لہجے میں طنز محسوس کرتا وہ دراز کھولتا وہیں تھم گیا۔
"یہاں آؤ ذرا۔۔۔"
آرام سے نہیں چل سکتی تھی۔"
غزنوی نے خود پہ ہوتے اس جادو کو توڑا جو اسے لپیٹ میں لینے لگا تھا۔
"میں تو آرام سے ہی چل رہی تھی۔"
وہ بسورتے ہوئے بولی اور آنسو صاف کیے۔
"ویسے ایک بات تو بتاؤ یہ تلوار جیسی ناک لئے طوفان میل بنی کہاں جا رہی تھی، سینہ چیر دیا لے کے۔"
غزنوی نے مسکراتے ہوئے اسکی ناک کو پکڑ کر ہلکے سے دبایا۔ایمان نے اپنی بند مٹھی اسکے سینے سے ٹکرائی۔
"اور آپ خود کون سی میل پہ سوار تھے، یا پھر جان بوجھ کر مجھ سے ٹکرا رہے تھے؟"
وہ اس سے فاصلے پہ کھڑی ہوئی۔
"ارے بیگم صاحبہ ہم تو آئے ہی اس دنیا میں آپ سے ٹکرانے کے لئے ہیں۔"
غزنوی دھیرے سے کہتا اپنے اور ایمان کے بیچ موجود فاصلے کو مٹا گیا اور اپنے مخصوص انداز میں اس کے چہرے پر پھونک ماری۔ایمان نے آنکھیں بند کیں۔وہ یہ نرم جھونکے سہنے کی عادی ہو گئی تھی
اسکا دل ٹوٹ جاتا تھا، ساری دینا سے خفا ہو جاتا تھا لیکن جب وہ اسکے دل کی تاروں کو چھو آتا تو وہ سب کچھ بھلا دیتی۔۔۔اپنی ذات کو بھی جسکی خاطر وہ اسکے سامنے تن کر کھڑی ہونے لگی تھی۔اس کی محبت سے مخمور وہ نماز ادا کرنے اٹھ کھڑی ہوئی۔مغرب پڑھ کر وہ کمرے سے باہر نکلنے ہی والی تھی کہ تیزی سے اندر داخل ہوتے غزنوی سے ٹکرا گئی۔
"اففف۔۔!!"
ایمان نے اپنی ناک پہ ہاتھ رکھا جو غزنوی کے فولادی سینے سے ٹکرائی تھی۔درد کی شدت سے آنکھوں میں آنسو تیرنے لگے تھے۔
"اوہ۔۔۔!! ٹھیک ہو تم؟"
غزنوی نے اسے فوراً سنبھالا تھا۔ایمان نے ناک پہ دباؤ بڑھاتے ہوئے سر اثبات میں ہلایا۔آنسو ڈھلک کر چہرہ بھگو گئے تھے۔۔غزنوی نے بغور اسکی طرف دیکھا۔پیلے رنگ کی پھولدار قمیص پہ سفید ڈوپٹہ شانوں پہ پھیلائے اسی کی جانب دیکھ رہی تھی۔سرخ و سپید رنگت پیلے رنگ میں مزید نکھر گئی تھی۔
۔اس نے سوئچ بورڈ ٹٹول کر لائٹس آن کیں اور پلٹ کر دروازہ بند کرتی اندر آئی۔کمرہ روشن ہوتے ہی بید پہ پڑے شاپنگ بیگز اسکی آنکھوں سے ٹکرائے۔اس کی حیرت میں اضافہ ہوا جب اس نے ایک ایک شاپر کھول کر دیکھا۔تین بے حد خوبصورت اور آنکھوں کو خیرہ کر دینے والے ملبوسات، میچنگ جیولری، سینڈلز، کلچز اور پرفیومز۔۔۔باقی دو شاپرز میں مردانے کپڑے اور جوتے تھے۔سبھی برانڈڈ اور خوبصورت تھا۔
"صاحب بہادر نے تو اچھا خاصا خرچہ کر ڈالا۔"
وہ تمام چیزوں پہ توصیفی نظر ڈالی اور غزنوی کی پسند کی کھلے دل سے داد دیتے ہوئے تمام شاپرز اٹھا کر الماری میں رکھے۔کبھی کبھی غزنوی کی جانب سے دلایا گیا محبت کا احساس اسے بہت معتبر کر دیتا تھا، دل میں پھول سے کھل جاتے اور ان پھولوں کی مہک سے اسکی زندگی بھی مہکنے لگتی تھی۔بےشک وہ کبھی کبھی اسکے لہجے کی سختی اسکا دل بھی پتھر کر دیتی تھی،
بلاآخر اس نے شمائلہ بیگم سے پوچھ لیا۔
"وہ تمھاری چچی کی طرف گئی ہے۔"
شمائلہ بیگم نے بتایا۔
"اچھا۔۔۔ذرا میرے لئے ایک کپ چائے بھجوا دیں۔"
وہ اٹھ کھڑا ہوا۔
"اچھا۔۔۔اور ہاں یاد آیا۔۔مصطفی کئی بار کال کر چکا ہے کہہ رہا تھا تم اسکا فون نہیں اٹھا رہے ہو۔کال کر لو اسے۔"
انہوں نے یاد آنے پر اس سے کہا۔
"جی کر لیتا ہوں۔۔میں مال میں تھا اور موبائل گاڑی میں ہی رہ گیا تھا اس لئے ریسیو نہیں کر سکا۔"
اس نے پلٹ کر کہا اور پھر تیزی سے سیڑھیاں چڑھ گیا۔شمائلہ بیگم اس کے چائے بنانے کے لئے اٹھ کھڑی ہوئیں۔ __________________________________________
شام کے قریب قریب وہ گھر میں داخل ہوئی۔تھکاوٹ کے باعث سیدھی اپنے کمرے میں آئی۔پورا کمرہ تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا۔
ملائکہ نے شاپنگ بیگ تھامتے ہوئے شمائلہ بیگم کی طرف دیکھا۔شمائلہ بیگم نے اثبات میں سر ہلایا۔
"یہ کچھ اپنی اور ایمان کے لئے۔"
وہ سر کھجاتا بولا۔
"تھینک یو بھائی۔۔۔اتنا خوبصورت ڈریس۔"
ملائکہ کی آنکھیں خوشی سے چمک رہی تھیں۔
"ویلکم۔۔۔اب ایسا کرو کہ یہ باقی شاپرز کمرے میں رکھ آو۔"
غزنوی نے حکم نامہ بھی جاری کیا۔ملائکہ نے شاپرز اٹھائے پلٹ گئی۔اسی دوران شگفتہ پانی کا گلاس لئے لاونج میں داخل ہوئی۔
"شگفتہ یہ باقی تم اٹھا لاو۔"
ملائکہ نے شگفتہ سے کہا تو سر ہلاتی گلاس غزنوی کے سامنے رکھتی اس کے ساتھ ہو لی۔غزنوی کی نظریں مطلوبہ شخص کی تلاش میں تھیں مگر وہ کہیں دکھائی نہیں دے رہی تھی۔
"ایمان کہاں ہے؟"
وہ دونوں آگے پیچھے لاونج میں داخل ہوئے۔شمائلہ بیگم بھی وہیں موجود تھیں۔انہوں نے غزنوی کو شاپنگ بیگز سے لدا پھدا دیکھکر نرمی سے مسکرائیں۔
"کیا ہوا جو یہ لڑکا کسی کی بات مان لے۔۔اپنی مرضی کا مالک ہے۔"
وہ بڑابڑائیں۔۔غزنوی بلند آواز میں سلام کرتا ان کے پاس آ بیٹھا۔
"آج آفس نہیں گئے تھے کیا، فرصت کیسے ملی میرے بیٹے کو؟"
انہوں نے مسکراہٹ دباتے ہوئے پوچھا۔وہ ان کے لہجے میں چھپا طنز محسوس کر کے مسکرا دیا۔
"آج آفس سے وقت پہ نکل آیا تھا تو سوچا شاپنگ کر لی جائے۔"
غزنوی نے ایک شاپر ان کی طرف اور دوسرا شاپر ملائکہ کی طرف بڑھایا۔
"امی لگتا ہے بھائی آج سارا مال ہی خرید لائے ہیں۔"
اس وقت بھی وہ ساری مل جل کر کام نبٹا رہی تھیں کہ ملائکہ ایمان سے گھر جانے کا کہتی کمرے سے نکل آئی۔
"ملائکہ۔۔!"
وہ لان سے گزر کر اندر جا رہی تھی کہ غزنوی کی آواز پہ اس نے پورچ کی جانب دیکھا۔وہ دونوں ہاتھوں میں ڈھیر سارے شاپرز پکڑے ہوئے تھے۔وہ رک کر اسکی طرف بڑھی۔
"السلام و علیکم بھائی۔۔!!"
ملائکہ نے سلام کیا۔
"وعلیکم السلام۔۔!! یہ پکڑو ذرا۔۔"
غزنوی نے کچھ شاپرز اسکی طرف بڑھائے جو ملائکہ نے تھام لئے۔
"آپ نے تو آج کافی شاپنگ کر لی۔"
وہ شاپنگ بیگز میں جھانکتی ہوئی بولی۔
"ہاں آج جلدی فارغ ہو گیا تھا تو مارکیٹ کا چکر لگا لیا۔"
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain