شمائلہ بیگم نے پرخہ اور سحرش سے پوچھا۔۔
"اوہو۔۔۔ممانی بتا تو رہے ہیں کہ سارا پلان ہم نے صرف اور صرف ایمان کے لئے بنایا ہے۔۔اور ہادی اور مصطفیٰ بھائی بھی جا رہے ہیں ہمارے ساتھ۔۔"
سحرش بولی۔۔اب شمائلہ بیگم کو کیا پتہ تھا کہ یہ پلان انہی دونوں کا ہے ورنہ دونوں کی خیر نہ ہوتی۔
"بھابھی۔۔!! بچیاں ٹھیک کہہ رہی ہیں۔۔ایمان بہت چپ چپ سی رہنے لگی ہے۔اچھا ہے ایک دو دن گھوم پھر آئیں گے تو اچھا رہے گا۔شاہ گل آپ بھی مان جائیں۔۔پھر لڑکے ساتھ جا تو رہے ہیں۔"
صائمہ بیگم نے بھی ان کا ساتھ دیا۔
"اچھا ٹھیک ہے۔"
بالآخر عقیلہ بیگم کو ماننا ہی پڑا۔
"یاہو۔۔۔۔!!"
ان کا ماننا ہی تھا کہ وہ سب خوشی سے اچھلنے لگیں۔
"اے لو۔۔۔اب بندریا کی طرح اچھلنے کی کیا ضرورت ہے۔"
بوا ٹھیک کہہ رہی ہیں۔۔چار دن ہی تو باقی ہیں رمضان المبارک میں۔۔۔اور تم لوگ ایک دو دن کے لئے جا کر بھی کیا کرو گے۔۔عید کے بعد سب مل کر جانا اور زیادہ دن گزارنا۔دو دن میں کیا لطف اٹھا پاؤ گے۔"
شمائلہ بیگم نے انہیں سمجھایا۔
"امی۔۔۔یہ پلان ہم نے اپنے لئے تھوڑی نا بنایا ہے۔۔یہ تو ہم نے ایمان کے لئے بنایا ہے۔۔وہ بہت اداس ہے۔۔جگہ بدلے گی تو اسکے لئے اچھا رہے گا نا۔۔آپ خود تو دیکھ رہی ہیں کہ وہ کتنی خاموش ہو گئی ہے۔"
ملائکہ نے شمائلہ بیگم کے گلے میں بانہیں ڈالیں۔وہ سب بھی زور زور سے سر ہلانے لگیں۔
"سحرش اور پرخہ۔۔۔یہ تو بچیاں ہیں۔۔مجھے تم دونوں سے ایسی بے وقوفی کی امید نہیں تھی۔تم دونوں کو چاہیئے تھا کہ انہیں سمجھاتیں، الٹا ان کی الٹی سیدھی پِینگوں میں تم بھی جھولنے کو تیار ہو گئیں۔۔اپنے اپنے شوہروں سے اجازت لی ہے تم دونوں نے؟"
وہ ساری ایک بار زور و شور سے سے اپنی اسکیم تیار کرنے لگیں۔پلان بنانے کے بعد انہوں لڑکوں سے بھی بات کر لی۔۔وہ سب بھی تیار تھے جانے کے لئے۔۔لیکن انہوں نے بڑوں کو منانے کا زمہ انہی کے سر ڈال دیا تھا۔۔ان سب نے کل کا دن ڈیسائیڈ کیا تھا عقیلہ بیگم سے بات کرنے کا کیونکہ ان کی طبیعت کچھ ٹھیک نہیں تھی۔غزنوی کے اسطرح بنا بتائے چلے جانے سے وہ بہت پریشان تھیں بلکہ سبھی پریشان تھے۔
❇️
"پلیز شاہ گل۔۔آپ پرمیشن لے دیں نا۔۔۔داجی سے۔۔"
وہ ساری اگلے ہی دن اپنے متفقہ پلان کو عملی جامہ پہنانے کے لئے عقیلہ بیگم کے پیچھے پڑی ہوئیں تھیں۔
"ائے لڑکیو۔۔۔!! بالکل ہی باؤلی ہوئی جا رہی ہو تم لوگ تو۔۔۔ائے یہ بھی کوئی دن ہیں گھومنے پھرنے کے۔۔عید کے بعد چلے جانا سارے۔۔"
وہ جو سب اسکی بات سمجھنے کی کوشش کر رہی تھیں، اسکے یوں بھنویں اُچکا کر ہاتھ پھیلانے پر ہنس دیں اور اس کے ہاتھ پہ ہاتھ رکھ دیئے۔اب وہ سب سر جوڑے اور حالاتِ حاضرہ کا جائزہ لیتے ہوئے اپنے اپنے آئیڈیاز دے رہی تھیں۔
"اے لڑکیو۔۔۔یہ کیا سر جوڑے بیٹھی ہو تم سب۔۔پھر کون سی کھچڑی پکا رہی ہو۔"
خیرن بوا پھولتی سانسوں پر قابو پاتیں ان کے قریب رکھی کرسی پہ آ کر بیٹھ گئیں۔
"کچھ نہیں بوا۔۔۔ہم تو بس یونہی۔"
سحرش سیدھی ہو کر بیٹھ گئی۔
"اچھا جاو۔۔۔اپنی اماں کی مدد کرو جا کر۔۔رمضان شروع ہونے والا ہے۔"
ویسے ایمان کو اس وقت ہلکے پھلکے ماحول کی ضرورت ہے۔۔کیوں عنادل۔۔؟؟"
لاریب نے عنادل کو ٹہوکا دیا۔
"ہاں ہاں۔۔۔۔بالکل۔۔۔"
عنادل نے لاریب کی ہاں میں ہاں ملائی۔
"تو پھر۔۔۔۔۔ہم ایسا کرتے ہیں کہ غزنوی بھائی کو فون کر کے کہتے ہیں کہ ایمان ان کے غم میں بے ہوش ہو گئی ہے۔"
ملائکہ جو اتنی دیر سے بالکل خاموش بیٹھی تھی، کھڑی ہوئی۔ایمان نے فوراً اسکی طرف دیکھا۔
"خبردار ملائکہ۔۔۔۔اگر تم نے ایسا کچھ بھی کیا تو پھر مجھ سے کبھی بات مت کرنا۔"
وہ اسے وارننگ کرتی وہاں سے چلی گئی۔
"ِان دونوں کو سیدھا کرنے کے لئے ہمیں ہی کچھ کرنا ہو گا۔"
پرخہ نے دور جاتی ایمان پر سے نظریں ہٹا کر ان سب کی طرف دیکھا۔
"یہ کیا بونگیاں مار رہی ہو؟"
سحرش نے اسکے سر پہ چپت لگائی۔
"اللہ۔۔آپی محاورہ بولا ہے نا۔۔"
عنادل نے سر پہ ہاتھ پھیرا۔
"اس وقت تو ان دونوں پہ یہ محاورہ سوٹ کرتا ہے۔۔۔وہ کیا تھا۔۔۔؟"
لاریب سوچنے لگی۔۔۔وہ سبھی اسکی طرف دیکھ رہیں تھیں۔
"ہاں یاد آیا۔۔۔۔ایک میان میں دو تلواریں نہیں رہ سکتیں۔"
لاریب بولی تو سبھی کو ہنسی آ گئی۔
"شش۔۔۔!! یہ کوئی موقع ہے شگوفے چھوڑنے کا۔۔۔"
سحرش نے انہیں ڈانٹا اور ایمان کی طرف اشارہ کیا جو ابھی تک پیٹھ کیے بیٹھی تھی۔
پریشانیوں کو ایسے ہی نظر انداز کرو 😇😇
جیسے
شادیوں پہ کھانا کھاتے ہوۓ لوگوں کو نظرانداز کرتے ہو. 😂😂
عنادل نے غزنوی کو باہر آتے دیکھکر کہا تو سب گھبرا کر اٹھ کھڑیں ہوئیں۔ایمان نے جلدی سے اپنا چہرہ صاف کیا اور تھوڑا سا رخ موڑ گئی۔۔وہ غصے میں لگ رہا تھا اور ان سب پہ ایک بھی نظر ڈالے بغیر سوٹ کیس کو تقریباً گھسیٹتے ہوئے گاڑی تک لایا۔
"رفیق۔۔۔!!"
اس نے گاڑی کا دروازہ کھولا اور چلّاتے ہوئے چوکیدار کو آواز دی۔۔وہ بیچارا بھاگ کر آیا اور سوٹ کیس اٹھا کر گاڑی کی پچھلی سیٹ پہ رکھا، پھر گیٹ کھولنے کے لئے بھاگا۔
وہ سب وہیں کھڑیں اسے جاتا دیکھ رہی تھیں۔۔لیکن ایمان نے ایک بار بھی پلٹ کر نہیں دیکھا تھا۔اسے ڈر تھا کہ ایک بار بھی اگر اس نے اسے پلٹ کر دیکھ لیا تو وہ ٹوٹ جائے گی اور وہ ٹوٹنا نہیں چاہتی تھی۔
گیٹ کھلتے ہی وہ گاڑی زن سے گیٹ سے نکال لے گیا۔
"چلو جی۔۔۔اللہ ملائے جوڑی،ایک اندھا ایک کوڑی۔۔۔"
عنادل نے ہاتھ جھاڑتے ہوئے کہا۔
ایمان کے رونے میں اضافہ ہوا۔۔فائقہ نے اسکے آنسو پونچھے۔۔
"تو جب دل کڑا کر کے فیصلہ لے لیا ہے تو پھر خود کو مضبوط رکھو۔"
لاریب نے بھی سمجھانے کی کوشش کی۔۔ایمان کا یوں رونا ان سب کو تکلیف دے رہا تھا۔
"تم فکر نہ کرو۔۔۔مصطفیٰ آئیں گے تو میں بات کروں گی کہ وہ غزنوی سے بات کریں۔۔۔اسے سمجھائیں۔"
پرخہ نے اسے ساتھ لگایا۔
"نہیں پرخہ آپی۔۔۔آپ کوئی بات نہیں کریں گی مصطفیٰ بھائی سے۔۔"
ایمان نے پرخہ کو منع کیا۔
"اچھا ٹھیک ہے تو پھر سنبھالو خود کو۔۔۔"
پرخہ نے اسے ہلکا سا ڈانٹ دیا۔
"اوئے۔۔۔۔غزنوی بھائی آ رہے ہیں۔"
وہ وہاں سے سیدھی لان میں آئی تھی۔۔موسم کافی خوشگوار ہو رہا تھا۔ہلکی ہلکی ہوا طبیعت پہ اچھا اثر ڈال رہی تھی۔وہ کین کی کرسی کو پیڑ کے سائے میں لے آئی اور وہیں بیٹھ گئی۔
"مجھے تو خوش ہو جانا چاہیئے تھا۔۔۔پھر کیوں میرے دل کی گرہ کھلی نہیں ہے۔۔کیوں اس رشتے کے بےجان لاشے پر آنسو بہانے کو جی چاہ رہا ہے۔۔کیوں اپنا ہی فیصلہ مجھے بیاباں میں گھسیٹ لایا ہے۔۔"
وہ چہرہ ہاتھوں میں چھپائے رو دی۔
"یوں رونے سے دل پہ پڑا بوجھ کم ہونے سے رہا۔"
ارفع کی آواز پہ اس نے چہرے سے ہاتھ ہٹا کر اسے دیکھا اور تیزی سے اپنے بہتے آنسوؤں کو صاف کیا۔ارفع کے ساتھ عنادل، ملائکہ اور باقی سب بھی تھیں۔وہ سبھی اسکے پاس نیچے ہی بیٹھ گئیں۔
"جانتی ہوں کہ دل پہ پڑا بوجھ رونے سے کم نہیں ہو گا۔۔مگر اس درد میں گھلنے سے تو بہتر ہے کہ اسے کسی صورت تو باہر نکالوں۔۔
میں اب بھی اپنے فیصلے پر قائم ہوں شاہ گل۔۔۔میں ان کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی۔۔میری ہمت جواب دے گئی ہے اس رشتے کی سیلن زدہ دیواروں کہ بیچ رہ کر۔۔۔"
وہ بنا جھجک بولی۔۔۔وہ نہیں جانتی تھی کہ یہ ہمت اسکے اندر کہاں سے آ گئی تھی۔شاید اس نے اپنے دل کو مار کر زندگی گزارنا سیکھ لیا تھا۔
اس کا فیصلہ سن کر سب کو جیسے سانپ سونگھ گیا۔۔عقیلہ بیگم نے غزنوی کو دیکھا۔
غزنوی تیزی سے اٹھا اور کمرے سے نکل گیا۔
"ٹھیک ہے بیٹا۔۔۔جو تمھارا فیصلہ، وہی ہمارا فیصلہ۔۔"
عقیلہ بیگم اسے سمجھانا چاہتی تھیں مگر اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتیں اعظم احمد نے اسکے فیصلے پر مُہر لگا دی۔وہ خاموش ہو رہیں۔۔
السلام علیکم۔۔۔!!"
ایمان نے کمرے میں داخل ہوتے ہی باآوازِ بلند سلام کیا۔غزنوی کو وہاں موجود پا کر وہ مزید گھبرا گئی تھی۔لیکن پھر سب کی موجودگی کا احساس اسے ہمت دلا گیا۔
"یہاں آؤ بیٹا۔۔میرے پاس۔۔"
عقیلہ بیگم نے اپنے پاس بلایا۔وہ نَپے تلے قدموں سے چلتی ان کے پاس آ کر بیٹھ گئی۔غزنوی نے ایک بار بھی اسکی طرف نظر اٹھا کر نہیں دیکھا۔وہ مظفر احمد سے باتوں میں مگن تھا۔
"ایمان۔۔۔بیٹا ہم سب نے غزنوی کو ایک اور موقع دینے کا فیصلہ کیا ہے۔۔تم ہمارے نزدیک اتنی ہی اہم ہو جتنا کہ غزنوی ہے۔وہ اپنے کیے پر شرمندہ ہے اور اس رشتے کو ایک اور موقع دینا چاہتا ہے اور علیحدگی نہیں چاہتا۔ہم نے بےشک علیحدگی کا فیصلہ تمھارے لئے، تمھاری خوشیوں کو مدنظر رکھ کر کیا تھا لیکن ہم میں سے کوئی بھی اس فیصلے پہ خوش نہیں تھا۔۔ہمیں صرف اور صرف تمھاری خوشی درکار تھی۔
وہ سب راضی تھے۔۔غزنوی کو ایک موقع دینا چاہتے تھے۔اس لئے اگلے دن سبھی بڑے ان کے روم میں موجود تھے اور ایمان کا انتظار کر رہے تھے۔شمائلہ بیگم اسے بلانے گئی تھیں۔وہ سب تو یہ جان ہی گئے تھے کہ غزنوی خلع کے پیپرز پھاڑ چکا ہے اور دل ہی دل میں اس کے اس اقدام پر خوش بھی تھے۔غزنوی بھی وہیں موجود تھا۔
تھوڑی دیر بعد ایمان شمائلہ بیگم کے ساتھ کمرے میں داخل ہوئی۔وہ دل ہی دل میں بہت کنفیوز تھی۔شمائلہ بیگم نے اسے نہیں بتایا تھا کہ داجی اور شاہ گل اسے کس لئے بلایا ہے۔وہ اسے سرپرائز دینا چاہتی تھیں۔کیونکہ وہ جانتی تھیں کہ ایمان بھی اس رشتے کو ختم کرنا نہیں چاہتی ہے بس وہ غزنوی کے رویے کے باعث یہ فیصلہ کرنے پر مجبور ہوئی ہے۔
جس نے گنہگاروں کی دنیا اتنی خوبصورت بنا دی
سوچو اس رب کی جنت کتنی حسین ہوگی...! 💞
وہ جانتے تھے کہ وہ اپنے غصے پر قابو نہیں رکھ پاتا۔۔اور ایمان اس کے مزاج کے اس رخ سے اچھی طرح واقف ہے۔
"معاف کیجئے گا بابا۔۔۔میں اس سے اپنے کیے کی معافی مانگ چکا ہوں اور آپ سب کا مجھ سے مزید معافیوں کی توقع رکھنا عبس ہے۔۔آپ لوگ علیحدگی کے ٹاپک کو ختم کیجیئے اور ایمان کو میرے ساتھ بھیجیں۔۔وہاں میرے کام کا حرج ہو رہا ہے۔"
وہ اپنی بات کہہ کر خاموش ہوا۔
"ٹھیک ہے۔۔۔کیوں کہ تمھاری ماں یہ سب نہیں چاہتی۔۔اس لئے میں داجی اور شاہ گل سے صبح اس بارے میں بات کروں گا کہ تمھیں ایک موقع اور دیں۔۔جاؤ اب آرام کرو۔۔۔صبح بات ہو گی۔"
اسے جانے کا اشارہ کیا۔وہ بھی کمرے سے نکل آیا اور کچھ دیر کے لئے وہیں لاونج میں بیٹھ گیا تھا، کیونکہ اس وقت وہ ایمان کا سامنا نہیں کرنا چاہتا تھا۔
بابا۔۔۔پلیز۔۔۔!! میں ایسا کچھ بھی نہیں چاہتا۔۔ٹھیک ہے میں مانتا ہوں کہ میری کچھ غلطیاں ہیں۔۔جنھیں میں ٹھیک کرنا بھی چاہتا ہوں۔۔لیکن کوئی میری بات سُنے تب نا۔۔۔اوپر سے آپکی بہو۔۔۔وہ تو چار ہاتھ آگے ہے آپ سب سے۔۔۔میری بات ہی نہیں سُنتی۔"
غصہ ایک بار پھر عود کر آیا تھا۔
"یہ اچھی بات ہے کہ تم اب اپنی غلطی کو سُدھارنا چاہتے ہو۔۔لیکن اس کے لئے تمھیں ایمان سے معافی مانگنی ہو گی۔"
وہ اٹھ کھڑے ہوئے۔
"معافی۔۔۔۔؟؟ کس بات کی معافی۔۔۔؟؟"
وہ بمشکل اپنا لہجہ دھیما کر پایا تھا ورنہ ان کی بات نے آگ پہ تیل کا کام کیا تھا۔
"جو رویہ تم نے اسکے ساتھ روا رکھا تھا۔۔اس کی ذات کی نفی کرتے رہے۔۔اس رویے کی معافی۔۔"
وہ اس کے چہرے کے اتار چڑھاؤ کا بغور معائنہ کرتے ہوئے بولے تھے۔
شمائلہ بیگم تو بیڈ کی جانب بڑھ گئیں جبکہ غزنوی ان کے سامنے آ کھڑا ہوا۔وہ پوری طرح سے کتاب میں محو دکھائی دے رہے تھے یا پھر دکھائی دینے کی بھرپور کوشش کر رہے تھے۔وہ سامنے کھڑا تھا اور وہ اس سے مکمل طور پر لاپروائی برت رہے تھے۔یہ بات اسے کَھلنے لگی۔
"بابا۔۔۔!! آپ کو کچھ بات کرنی تھی۔"
مجبوراً اسے انہیں متوجہ کرنا پڑا۔
"شمائلہ بیگم۔۔!! دیکھا تم نے۔۔زرا سی اگنورنس اس سے برداشت نہیں ہو رہی۔"
مکرم احمد نے کتاب گود میں رکھی اور شمائلہ بیگم کی طرف دیکھا۔
وہ بچہ نہیں تھا کہ ان کی بات کے پیچھے چھپے مفہوم کو نہ جان سکتا۔
"برخوردار۔۔۔یہی لاپروائی تم نے اس بچی سے بھی برت رکھی ہے۔داجی اور شاہ گل نے جو بھی فیصلہ کیا۔۔پہلے تو میں اس کے حق میں نہیں تھا مگر اب میں بھی ان کے ساتھ ہوں۔"
اب وہ اسکی طرف دیکھ رہے تھے۔
آپ میری ماں ہیں یا اسکی۔۔۔جب دیکھو اسی کی ڈھال بنی کھڑی رہتی ہیں۔"
اسکا دل کہہ رہا تھا کہ غلطی اسی کی ہے مگر دماغ اسے صحیح قرار دے رہا تھا۔
"میں تم دونوں کی ماں ہوں لیکن تم میری تربیت کا پاس رکھنے میں ناکام رہے غزنوی۔۔اب چل کر اپنے بابا کی بات سن لو۔۔وہ انتظار کر رہے ہوں گے۔"
شمائلہ بیگم یہ کہہ کر پلٹ گئیں۔۔وہ بھی خاموشی سے ان کے پیچھے چلنے لگا۔
"اب ایک اور لیکچر سننا پڑے گا۔"
یہ سوچ کر ہی وہ کوفت میں مبتلا ہونے لگا تھا۔
شمائلہ بیگم کے پیچھے ہی وہ کمرے میں داخل ہوا تو مکرم احمد کھڑکی کے قریب چیئر پر بیٹھے کسی کتاب کے مطالعے میں مصروف تھے۔کھڑکی کھلی ہوئی تھی اور تازہ ہوا کے جھونکے کھڑکی کے پردے سے ٹکرا کر کمرے کے اندر اپنا احساس دلا رہے تھے۔
"معاف کرنا بیٹا۔۔تم نے اسے اپنایا بھی تو نہیں۔۔"
انہوں نے اسکی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا۔
"آپ نے اسکا رویہ نہیں دیکھا۔۔"
وہ دھیرے سے بولا۔
"بیٹا۔۔۔!! کسی سے اپنا رویہ اتنا سخت نہیں رکھنا چاہیئے کہ جب وہ پلٹ کر آپ کے سامنے آئے تو آپ اسے سہل نہ کر پاو۔۔زندگی گزارنے کے لئے ایک دوسرے کے ساتھ سمجھوتا کرنا ضروری ہوتا ہے۔ورنہ رشتوں کی ڈور بہت نازک ہوتی ہے۔۔صرف ایک جھٹکا کافی ہوتا ہے ٹوٹنے کے لئے۔۔جہاں تک میں جانتی ہوں ساری غلطی تمھاری ہے۔۔تم نے شروع ہی سے اپنے اور اسکے بیچ انا کی دیوار تعمیر کر رکھی ہے۔اب جبکہ وہ تھک چکی ہے اور پیچھے ہٹنا چاہتی ہے تو تم اسے پیچھے ہٹنے بھی نہیں دے رہے ہو۔"
انہوں نے اسے نرمی سے سمجھانے کی کوشش کی۔
"اگر وہ تھک گئی ہے تو کہہ نہیں سکتی۔"
وہ اب بھی جھکنے کو تیار نہیں تھا۔
وہ اسے گھورتے ہوئے اپنے کمرے کی جانب بڑھ گئے۔
"امی۔۔۔!!"
شمائلہ بیگم نے بھی ان کے پیچھے ہی قدم بڑھائے تھے مگر غزنوی نے انہیں روک دیا۔
"غزنوی۔۔۔بیٹا جو معاملات آرام سے بیٹھ کر سلجھانے والے ہیں تم نے اپنے غصے کی بدولت انہیں مزید گھمبیر کر دیا ہے۔تمھیں میں نے کتنا سمجھایا تھا کہ ایمان کو نرمی سے سمجھاو اسے اپنے ساتھ کا احساس دلاو۔۔۔مگر تم۔۔۔۔تم صرف مجھے بار بار اسکے سامنے شرمندگی سے دوچار کر دیتے ہو؟"
وہ نہایت افسردگی سے اسکی طرف دیکھ رہی تھیں۔
"امی۔۔۔!! وہ ایسی حرکتیں کرتی ہی کیوں ہے جن سے مجھے غصہ آتا ہے۔۔وہ خود کیوں نہیں سمجھ لیتی کہ اگر میں اسے چھوڑنا چاہتا تو اتنا وقت کیوں برباد کرتا۔"
اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ کس طرح سب تک اپنی بات پہنچائے۔۔
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain