Damadam.pk
Mirh@_Ch's posts | Damadam

Mirh@_Ch's posts:

Mirh@_Ch
 


"کہاں تھے تم۔۔؟"
رات کے تقریبا گیارہ بجے وہ گھر میں داخل ہوا تھا۔لاؤنج سے کمرے تک فاصلہ وہ بنا ادھر ادھر دیکھے طے کر رہا تھا کہ مکرم احمد کی آواز اسکے کانوں سے ٹکرائی۔اس نے پلٹ کر دیکھا تو وہ صوفے پر بیٹھے یقینا اسی کا انتظار کر رہے تھے۔ان کے ساتھ شمائلہ بیگم بھی موجود تھیں۔
دونوں کی آنکھوں میں غصے کی بجائے سرد مہری تھی۔
"السلام و علیکم بابا۔۔۔!!"
"وعلیکم السلام۔۔۔!! کہاں تھے۔۔تمھاری ۔
وہ کھڑے ہوتے ہوئے بولے۔
"فون آف ہو گیا تھا۔"
وہ مختصرا بولا۔
"ہیم۔۔۔روم میں آو تم سے بات کرنی ہے۔"

Mirh@_Ch
 

ایمان نے پیچھے مڑ کر ایک نظر دروازے کے بیچوں بیچ کھڑی شمائلہ بیگم کی طرف دیکھا۔ایمان کو ان کی موجودگی نے کچھ حوصلہ دیا تھا۔
اس دوران غزنوی نے الماری کھول کر اس میں سے خلع کے پیپرز نکالے اور الماری بند کر کے اسکے سامنے آیا۔
"یہ رہی تمھاری آذادی۔۔۔۔"
غزنوی نے خلع کے پیپرز اسکی آنکھوں کے سامنے پُرزے پُرزے کر دیئے اور پھر وہ وہاں رکا نہیں۔۔
ایمان دم سادھے کھڑی تھی۔۔اس نے پیروں میں بکھرے کاغذ کے ٹکڑوں کو دیکھا۔
شمائلہ بیگم کو غزنوی سے اس حرکت کی امید قطعی نہیں تھی۔
غزنوی کے جانے کے بعد وہ اسکے پاس آئیں۔
"تم پریشان مت ہو۔۔آئے گا تو میں سمجھاوں گی اسے۔۔سب ٹھیک ہو جائے گا۔"
انہوں نے اسکے کندھے پہ ہاتھ رکھا جسکی آنکھوں میں ڈولتی نمی اب پلکوں کی باڑ توڑ کر باہر آ کر اسکا چہرہ بھگو رہی تھی۔

Mirh@_Ch
 

پس پلٹ گئی تھیں۔
"کیا ہوا۔۔۔یہ گلاس۔۔۔؟؟"
شمائلہ بیگم نے فرش پہ پڑے کانچ کے ٹکڑوں کو دیکھا۔۔
"کچھ نہیں۔۔۔"
وہ کڑے تیور لیے کچن سے نکلا۔۔شمائلہ بیگم گھبرا کر اسکے پیچھے بھاگیں تھیں۔غزنوی کو کمرے کی طرف بڑھتا دیکھ کر ان کے ہاتھ پاؤں پھول گئے۔انہیں خوف نے آ لیا کہ کہیں وہ کچھ الٹا سیدھا نہ کر دے۔حالات ویسے بھی اسکے خلاف جا رہے تھے۔
"غزنوی۔۔۔بیٹا رکو۔۔بتاو تو سہی آخر ہوا کیا ہے؟"
وہ ہانپتی ہوئی اسکے پیچھے آ رہی تھیں جبکہ وہ تیز قدموں سے اپنے کمرے میں داخل ہوا۔اسکے اسطرح دھڑام کی آواز سے دروازہ کھول کر اندر داخل ہونے پر ایمان بوکھلا گئی۔۔
وہ تیزی سے اسکی جانب بڑھا۔
وہ الماری کے پاس کھڑی تھی۔۔ایمان کی آنکھوں میں خوف نک8 نک8ےلگے انگڑائی لی۔غزنوی نے ایک پل کو اسکی خوف سے پھیلتی آنکھوں میں جھانکا اور پھر اسے پکڑ کر الماری کے سامنے سے ہٹایا۔۔

Mirh@_Ch
 

وہ رخ پھیر کر سرد لہجے میں بولی۔۔اب وہ اس کے سامنے کمزور نہیں پڑنا چاہتی تھی۔
"میں۔۔۔؟؟ میں نے کب تم سے ایسا کہا کہ میں تم سے علیحدگی چاہتا ہوں۔"
غزنوی نے اسکا رخ اپنی جانب کیا۔
"بے شک زبان سے نہ کہا ہو مگر اپنے رویے سے آپ نے بارہا یہ باور کرایا ہے کہ آپ مجھے ایک ناپسندیدہ بوجھ سمجھتے ہیں اور یہ کہ آپکی نظروں میں میری کوئی وقعت نہیں۔"
ایمان نے اپنے آنسووں کو پیچھے دھکیلا جو سمندر کی منہ ذور لہروں کیطرح باہر آنے کو بیتاب تھے۔
"واہ واہ۔۔۔آپکی عقل کو تو میرا سلام ہے ایمان بی بی۔"
ایمان کے ہر بات خود سے اخذ کر لینے پر وہ مزید چڑ گیا۔
"مجھے آپکے ساتھ نہیں رہنا۔"
یہ کہہ کر وہ تیزی سے وہاں سے چلی گئی۔۔ایمان کو وہ سراسر اسکا مذاق اڑاتا محسوس ہوا تھا جبکہ غزنوی نے غصے سے بھپرتے ہوئے سامنے پڑے شیشے کے گلاس کو فرش پہ دے مارا۔

Mirh@_Ch
 

ٹھیک ہے۔۔۔لیکن میری ایک بات یاد رکھو کہ تم جو چاہتی ہو۔۔میں وہ ہونے نہیں دوں گا۔"
وہ دو ٹوک انداز میں بولا۔
"میں چاہتی ہوں ایسا۔۔؟؟"
ایمان کی سوالیہ نظریں اسکی جانب اٹھی ہوئیں تھیں۔
"تو اور کون چاہتا ہے۔۔۔؟؟ داجی یا شاہ گل۔۔۔؟؟ انہوں نے تو صرف کاغذات تیار کروائے تھے لیکن فیصلے کا حق تو تمھیں دیا تھا اور تم۔۔۔تم مادام تو جیسے دستخط کرنے کو اوتاولی ہوئی جا رہی تھی۔۔جھٹ کر دیئے۔۔تو کون چاہ رہا تھا ایسا۔۔تم، میں یا وہ دونوں۔۔یوں جلدی دستخط کر دیئے جیسے اسی دن کا تو تمھیں انتظار تھا کہ کب تمھیں موقع ملے اور کب تم کر گزرو۔"
وہ چبھتے ہوئے لہجے میں بولا۔۔اسکے طنزیہ لفظوں کی کاٹ ایمان کو اپنے دل کو چیرتی محسوس ہوئی۔
"میں نہیں بلکہ آپ ایسا چاہتے تھے۔"

Mirh@_Ch
 

اسکی آواز دھیمی تھی مگر لہجے میں سختی صاف محسوس کی جا سکتی تھی۔
"تم کون ہوتی ہو اسکا فیصلہ کرنے والی؟"
ایمان کا انداز اسے آگ بگولا کرنے میں بھرپور کردار ادا کر رہا تھا۔ایک تو وہ اسے اپنی بات کہنے کا موقع تک نہیں دے رہی اور نہ ہی خود اس موضوع پر بات کو تیار تھی۔دوسری جانب اعظم احمد اور عقیلہ بیگم نے بھی اس معاملے میں اسکے ساتھ سرد مہری سے کام لیا تھا۔وہ جب سے آیا تھا ان سے بات کرنے کی تگ و دو میں تھا مگر وہ اسے موقع ہی نہیں دے رہے تھے۔انہوں نے اگلی صبح ہی خلع کے کاغذات اسے دستخط کرنے کے لئے دے دیئے تھے۔اسکا جی تو چاہا کہ اسی وقت، ان کے سامنے اس آزادی کے پروانے کو پھاڑ دے مگر احترام آڑے آ گیا۔

Mirh@_Ch
 

"یہ کیا طریقہ ہے۔۔؟"
وہ رات کے کھانے کی تیاری کر رہی تھی جب وہ کچن میں اس کے سر پہ آ کھڑا ہوا۔
ایمان نے ناسمجھی سے اسکی جانب دیکھا اور پھر واپس اپنے کام میں مشغول ہو گئی۔
"میری طرف دیکھو۔۔۔"
غزنوی نے اسکی لاپروائی پہ کھولتے ہوئے اسے بازو سے پکڑ کر اس کا رخ اپنی جانب کیا۔اسکی سخت گرفت ایمان کو درد سے دوچار کر گئی۔
"مجھے آپ سے کوئی بات نہیں کرنی۔"
ایمان نے جھٹکے سے اپنا بازو اسکی گرفت سے آزاد کیا۔
"لیکن مجھے کرنی ہے۔"
غزنوی نے اسکی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا۔ایمان نے ایک پل کو اسکے چہرے پہ چھائے غصے کے بادلوں کو دیکھا اور بولی۔
"میں آپ سے پہلے بھی کہہ چکی ہوں کہ اب میرے اور آپ کے بیچ ایسا کچھ نہیں ہے جس پہ بات کی جائے۔"

Mirh@_Ch
 

اتنے دنوں بعد دیکھ رہا ہوں۔۔۔تھوڑا قریب سے تو دیکھنے دو۔۔"
غزنوی نے اچانک اسکی کمر میں بازو ڈال کر اسے قریب کیا۔.اسکی اس حرکت پہ ایمان نے اسے غصے سے دیکھا اور دونوں ہاتھ اسکے سینے پہ ہاتھ رکھ کر اسے پیچھے کیا۔غزنوی کی گرفت کمزور تھی اس لئے انکے بیچ کا فاصلہ بڑھ گیا۔
"میرے اور آپکے بیچ جو فاصلہ ہے وہ اس فاصلے سے کئی زیادہ ہے۔جسے پار کرنا آپکے بس کی بات نہیں اور نا ہی کبھی ایسی کوشش کیجیئے گا۔"
وہ اسے وارننگ دیتی کمرے سے نکل گئی جبکہ غزنوی چہرے پہ مسکراہٹ مگر آنکھوں میں فکروں کا جال لئے کھڑا رہ گیا۔
۔۔۔۔۔

Mirh@_Ch
 

وہ اسکی آنکھوں میں جھانکتا بولا۔اسکے لبوں کی مسکراہٹ ایمان کو اپنا مذاق اڑاتی محسوس ہوئی۔اس نے نظروں کا رخ پھیر لیا۔غزنوی نے بھی اسکی نظروں میں چھپی ناپسندیدگی کو پا لیا تھا۔
غزنوی نے اپنے اور اسکے بیچ فاصلے کو کم کیا۔
"پیچھے رہ کر بات کیجئے۔۔"
وہ اسکے بڑھتے قدموں سے گھبرائی تھی۔
"اور اگر میں قریب آ کر بات کرنا چاہوں تو۔۔۔؟"
وہ مزید قریب ہوا۔
"ہمارے بیچ اب ایسا کچھ نہیں جسے آپ بنیاد بنا کر میرے اور اپنے بیچ کے اس فاصلے کو مٹا سکو۔۔لہذاء اپنے حواسوں میں رہیئے۔"
اس نے تلخ لہجے میں کہا اور باہر کی جانب قدم بڑھائے مگر غزنوی نے اسکا راستہ روک لیا۔

Mirh@_Ch
 

وہ دبے پاؤں کمرے میں داخل ہوا تو وہ بالکل سامنے ہی بیٹھی تھی۔۔وہ دروازے کی جانب کمر کر کے بیٹھی کسی گہری سوچ میں گم تھی۔وہ بناء آہٹ قدم اٹھاتا اس پاس آیا تھا۔وہ آنکھیں موندے ہوئے تھی۔۔وہ اندازہ نہیں لگا پایا کہ وہ سو رہی ہے یا جاگ رہی ہے۔آوارہ لٹیں چہرے کے اردگرد سایہ فگن تھیں۔گلابی لب سختی سے باہم ملے ہوئے تھے اور گھنیری پلکیں میں ہلکی سی لرزش بغور دیکھنے سے محسوس ہوتی تھی۔
وہ چہرہ اسکے چہرے کے قریب لے آیا۔ایمان کو اپنے اردگرد کسی کی موجودگی کا احساس ہوا تو اس نے فوراً آنکھیں کھول دیں اور اپنے سامنے، بالکل قریب اس دشمن جاں کو مسکراتا پایا۔جس نے اسکے وجود میں محبت کا شجر اگایا تھا۔۔جس کی خوشبو سے اس کا تن من معطر رہتا تھا۔
"آپ۔۔۔۔؟؟"
وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔
"جی۔۔۔کوئی اعتراض

Mirh@_Ch
 

وہ فوراً ان کے راستے میں آ کھڑا ہوا۔
"خبردار جو میری بیٹی کے متعلق ایک لفظ بھی کہا تو۔۔۔۔مجھ سے برا کوئی نہیں ہو گا۔"
اعظم احمد نے شہادت کی انگلی اٹھا کر اسے وارننگ دی۔
"اچھا اچھا۔۔۔نہیں کرتا گستاخی آپکی بیٹی کی شان میں۔۔آپ لوگ آرام کریں۔۔کل ملاقات ہو گی۔۔شب بخیر۔۔!!"
وہ اعظم احمد سے کہتا اور عقیلہ بیگم کے ماتھے کا بوسہ لیتا کمرے سے نکل گیا۔وہ دونوں ایک دوسرے کو دیکھ کر رہ گئے۔
💓

Mirh@_Ch
 

"تم دیکھنا میں اپنی بیٹی کی شادی کتنے اچھے لڑکے سے کروں گا۔۔غزنوی سے بھی اچھا۔۔۔"
وہ ان کے کندھے پہ ہاتھ رکھتے ہوئے بولے۔
"غزنوی سے اچھا ایمان کے لئے آپکو چراغ لے کر بھی ڈھونڈنے سے نہیں ملے گا۔یہ آپ مجھ سے لکھوا لیں۔"
دروازہ کھول کر غزنوی اندر آیا تھا۔وہ دونوں اسے اپنے سامنے کھڑے دیکھ کر حیران رہ گئے تھے۔
"السلام و علیکم۔۔!!"
وہ ان دونوں کے درمیان میں آ کر بیٹھ گیا۔چہرے سے تھکن صاف ظاہر تھی مگر لہجہ ہشاش بشاش تھا۔
"وعلیکم السلام۔۔۔"
عقیلہ بیگم نے اس کے لئے بازو وا کیے جبکہ اعظم احمد خفگی ظاہر کرتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوئے۔وہ مسکراتے ہوئے عقیلہ بیگم سے ملا۔
"داجی۔۔۔ایمان نے آپکو مجھ سے چھین لیا ہے۔۔اس کے لئے اب آپ مجھ سے بات تک نہیں کریں گے؟"

Mirh@_Ch
 

ٹھیک ہے تو پھر آپ یہ رکھ لیجیئے۔۔۔وہ آئے تو اسے دیجیئے گا کہ دستخط کر دے۔"
عقیلہ بیگم نے لفافہ ان کے ہاتھ سے لے لیا جبکہ وہ خود اٹھ کر بیڈ کی طرف بڑھ گئے۔
"ویسے وقت تو کافی ہو گیا ہے۔۔۔اب تک تو اسے آ جانا چاہیئے تھا۔"
اعظم احمد نے گھڑی کی جانب دیکھا۔
"اگر اس نے کہا ہے کہ آئے گا تو آپ کو بھی پتہ ہے کہ وہ آپ کا پوتا ہے۔"
وہ پیپرز ایک جانب رکھتے ہوئے بولیں تو وہ مسکرا دیئے۔
"کہہ تو آپ ٹھیک رہی ہیں۔"
وہ یہ کہہ کر ان کی جانب سے رخ پھیر کر لیٹ گئے۔عقیلہ بیگم جانتی تھیں کہ وہ بہت دکھی ہیں۔۔ایمان کے سائن کرنے کے بعد انہوں نے کسی طرح کوشش کر کے گاؤں ایمان کے والد رشید خان سے بات کی اور انہیں شہر آنے کو کہا۔رشید خان بھی ان کے اسطرح اچانک بلانے پہ پریشان ہو گیا تھا۔

Mirh@_Ch
 

وہ جانتا تھا کہ ایمان اسکی طرف سے بہت بڑی غلط فہمی کا شکار ہے جسے صرف اور صرف مل کر ہی دور کیا جا سکتا ہے۔
"آپ بزی ہیں یہ میں جانتی ہوں اور اب جلتی ہوئی راکھ میں کوئی چنگاری بھی نہیں بچی۔۔پیپرز آپکو صبح تک مل جائیں گے۔۔میں دستخط کر چکی ہوں۔۔فی امان اللہ۔۔۔"
اس سے آگے بولنے کی ہمت وہ خود میں نہیں پا رہی تھی اس لئے اس نے الوادعی کلمات ادا کر کے کال ڈسکنیکٹ کر دی جبکہ دوسری جانب غزنوی اس کے الفاظ سن کر ساکت رہ گیا۔
⁦❣️⁩
"کیا اس نے آپ سے کہا تھا کہ وہ آ رہا ہے؟"
اعظم احمد نے عقیلہ بیگم سے پوچھا جو ابھی عشاء پڑھ کر فارغ ہوئیں تھیں۔وہ ہاتھ میں پکڑی تسبیح کے دانے گراتی ان کے پاس آ کر بیٹھ گئیں۔وہیں کچھ فاصلے پر گل خان بھی کھڑا تھا۔عقیلہ بیگم کی جانب سے اشارہ ملتے ہی انہوں نے گل خان سے جانے کا کہا اور پیپرز عقیلہ بیگم کی طرف بڑھائے۔

Mirh@_Ch
 

تم ٹھیک کہہ رہی ہو۔۔۔ابھی بھی کچھ نہیں بگڑا۔"
وہ آخری جملے پہ ذور دیتے ہوئے بولا۔وہ دھیان دیتی تو غزنوی کے آخری جملے میں اسکے دل کی کیفیت میں چھپے جذبوں کو محسوس کر سکتی تھی۔۔وہ جذبے جن میں پوشیدہ محبت کی خوشبو تھی۔۔۔خوش آئیند زندگی کی نوید تھی۔۔مگر اسکے دل کا درد اسقدر بڑھ گیا تھا کہ اس خوشبو کو وہ محسوس نہ کر سکی۔
"مجھے بہت افسوس ہے کہ میں آپکی تکلیف کا سامان بنی۔۔آپ پر ذبردستی مسلط کی گئی۔مجھے یہ سمجھتے ہوئے بہت دیر ہو گئی کہ ہمارا رشتہ ندی کے کناروں کیطرح ہے جو ساتھ ساتھ تو چلتی ہیں مگر کبھی ملتی نہیں ہیں۔آج تک میری کوئی بھی بات آپکو بُری لگی ہو یا میرا کوئی بھی عمل کسی تکلیف کا باعث بنا ہو تو مجھے معاف کر دیجیئے گا۔"
آنسوؤں کا گولا سا اسکے حلق میں اٹک گیا تھا۔
"میں شام تک پہنچ جاوں گا۔۔ہم اس بارے میں مل کر بات کریں گے۔"

Mirh@_Ch
 

اس نے اپنے لہجے کو نرم رکھا۔
"اب یہ معاملہ ہمارے بیچ تک کا کب رہا۔۔آپ بھول گئے ہیں شاید۔۔آپ ہی کی بدولت بات اس نہج تک پہنچ گئی ہے اور مجھے بھی لگتا ہے کہ اب ہمارے بیچ ایسا کچھ نہیں رہا جس پہ بات کی جائے بلکہ یہ بہت پہلے ہی ہو جانا چاہئیے تھا۔۔لیکن خیر۔۔۔۔!! اب بھی کچھ نہیں بگڑا۔۔"
وہ ایک گہری سانس خارج کرتے ہوئے بولی تو غزنوی کو معاملے کی سنجیدگی کا احساس ہوا۔وہ تو سمجھ رہا تھا کہ وہ سب سنبھال لے گا۔ایمان سے بات کرے گا اور سب ٹھیک ہو جائے گا مگر یہاں تو حالات سمندر کی منہ زور لہروں کی طرح بگڑ چکے تھے۔۔لیکن وہ کنارے پہ کھڑا ہو کر ان منہ ذور لہروں میں اپنے دل کو ڈوبتا دیکھ نہیں سکتا تھا۔

Mirh@_Ch
 

ڈھارس بندھی۔
"السلام و علیکم۔۔!!"
وہ دھیرے سے بولی۔۔
"یہ میں کیا سن رہا ہوں؟"
ایمان کی آواز سن کر اسکے بےقرار دل کو کچھ سکون ہوا تھا۔اسکا جی چاہا کہ اپنا دل کھول کر اس لڑکی کے سامنے رکھ دے مگر وہ اپنی بے قراری پر حتی الامکان قابو پاتے ہوئے بولا۔۔
"کیا سنا ہے آپ نے۔۔؟"
ایمان کا دل بھی اسکی آواز سن کر تیزی سے دھڑک رہا تھا۔غزنوی کو محسوس ہوا کہ اسکا لہجہ کسی بھی قسم کے احساس سے عاری تھا۔
"یہی کہ داجی نے خلع کے پیپرز تیار کروا لئے ہیں اور تم سے ان پر دستخط کرنے کو کہا ہے۔ایمان۔۔۔!! یہ ہمارے بیچ کا مسئلہ ہے۔اسے میں اور تم مل کر سارٹ آوٹ کر لیں گے پھر باقی سب کیوں یہ فیصلہ کریں کہ ہمیں ساتھ رہنا ہے یا نہیں۔"
غزنوی کو یہ سوچ کر ہی بہت غصہ آ رہا تھا کہ وہ ان کی بات کیوں مان رہی ہے مگر اب وہ بات کو مزید بگاڑنا نہیں چاہتا تھا

Mirh@_Ch
 

بھائی میں اس وقت باہر تھی روم سے اور موبائل روم میں ہی رہ گیا تھا۔جب واپس آئی تو آپکی کالز دیکھ کر ایمان کے پاس گئی تھی اس سے بات کروانے مگر وہ سو گئی تھی۔"
اس سے پہلے کہ وہ پھر غصے میں آتا وہ فورا بولی۔
"ٹھیک ہے ابھی بات کرواؤ۔۔۔"
اس نے وجہ بتائی تو وہ بولا۔
"وہ تو۔۔۔۔۔جی یہ لیں بات کریں۔"
وہ بیڈ سے اتر کر کمرے میں داخل ہوتی ایمان کیطرف بڑھی اور اسکی سوالیہ نظروں کی پرواہ کیے بغیر فون اسکے ہاتھ میں دے کر کمرے سے نکل گئی۔ایمان نے فون کان سے لگایا۔۔
"ہیلو۔۔!!"
"ایمان۔۔۔!!"
اسکی آواز سن کر غزنوی کے جلتے دل کو کچھ ڈھارس بندھی۔

Mirh@_Ch
 

انہوں نے پاس ہی کھڑی ملائکہ کو جانے کا اشارہ کیا جسکے کان انہی کی طرف تھے۔ملائکہ وہاں سے چلی گئی۔
"شاہ گل۔۔۔مجھے ابھی بات کرنی ہے۔۔آپ لوگ مجھ سے پوچھے بغیر اتنا بڑا فیصلہ۔۔"
"یہ باتیں فون پر کرنے کی نہیں ہیں۔۔آؤ تو بات ہو گی۔۔اللہ حافظ۔۔!!"
اس سے پہلے کہ وہ بات مکمل کر پاتا انہوں نے مزید کوئی بات سنے بغیر کہا اور فون رکھ دیا۔ان کا ٹھہرا انداز اسے بہت کچھ سمجھا گیا تھا۔کال ڈسکنیکٹ ہونے کے بعد اس نے نمبر ملایا۔اس بار وہ ملائکہ کے پرسنل نمبر پہ کال کر رہا تھا۔
ملائکہ ایمان کے روم میں اسکا انتظار کر رہی تھی کہ موبائل کی رنگ ٹون نے اسے متوجہ کیا۔
"ہیلو۔۔۔!!"
اس نے کال ریسیو کی۔
"میرا فون کل کیوں ریسیو نہیں کیا تھا۔"
غزنوی نے اس سے پوچھا

Mirh@_Ch
 

السلام و علیکم شاہ گل۔۔۔کیسی ہیں آپ؟"
اسے سمجھ نہ آئی کہ کیا کہے۔۔۔
"وعلیکم السلام۔۔۔!! میں بالکل ٹھیک ہوں تم کیسے ہو؟"
اسکی آواز سن کر ان کا دل پگھلا تھا۔۔وہ ان کا بہت لاڈلا تھا۔۔دل و جان سے عزیز تھا۔۔وہ اپنے لہجے کو سخت نہیں رکھ پائیں۔یہ خیال انہیں مزید بےچین کر گیا کہ ایمان کے ساتھ ساتھ ذیادتی غزنوی کے ساتھ ہوئی ہے۔ان کے فیصلے نے دونوں کی زندگی کا اتنا بڑا فیصلہ انجام سوچے بغیر کر دیا۔جس کا نتیجہ اب ان کی نیندیں اڑائے دے رہا تھا۔
"میں ٹھیک ہوں شاہ گل۔۔۔"
ان کا نرم لہجہ محسوس کر کے اسکی ہمت بڑھی۔۔۔وہ شرمندہ تھا۔
"کب آ رہے ہو؟"
انہوں نے پوچھا۔
"آج شام روانہ ہوں گا۔۔۔شاہ گل مجھے آپ سے بہت ضروری بات کرنی ہے۔"
اس نے ابھی ان سے بات کرنے کی ٹھانی۔۔۔وہ انہیں اعتماد میں لے سکتا تھا۔