وہ عقیلہ بیگم کے سامنے اس بارے میں بات نہیں کرنا چاہتی تھی اس لئے فون رکھنے لگی۔دوسری جانب غزنوی کا غصہ سوا نیزے پر پہنچ گیا تھا۔اسکا جی چاہا کہ ابھی وہاں جا کر سب کا مزاج ٹھکانے لگا دے کہ اسکی بات کو اہمیت ہی نہیں دی جا رہی تھی۔
"ادھر لاؤ۔۔۔میری بات کرواؤ۔۔"
ملائکہ کو فون رکھتے دیکھکر عقیلہ بیگم نے فون کیطرف ہاتھ بڑھایا۔وہ اس بارے میں ان کے سامنے مزید بات نہیں کر پا رہی تھی تھی اسلئے فون رکھ رہی تھی۔۔لیکن اب اس نے ان کے کہنے پر فون ان کی طرف بڑھا دیا۔دوسری جانب غزنوی اکیلا بیگم کی آواز سن کر خاموش ہو رہا۔
"کیا بات ہے غزنوی۔۔۔بار بار کالز کر رہے ہو۔۔خیر تو ہے نا۔۔۔؟؟ کام سے فرصت میرے بیٹے کو۔۔؟؟"
عقیلہ بیگم کے لہجے میں چھپا طنز اس سے مخفی نہ رہ سکا
ملائکہ نے اس سے کہا اور خود کچن سے نکل گئی۔وہ لاونج میں رکھے فون اسٹینڈ کی جانب آئی اور فون اٹھا کر کان سے لگایا۔شاہ گل بھی وہیں صوفے پہ ہاتھ میں تسبیح لئے بیٹھی تھیں۔اس نے ایک نظر اسے دیکھا اور پھر ہچکچاتے ہوئے فون اٹھایا۔
"السلام و علیکم۔۔۔!!"
ملائکہ نے عقیلہ بیگم کی جانب کنکھیوں سے دیکھا تھا۔
"ملائکہ ابھی اور اسی وقت میری بات ایمان سے کرواؤ۔"
وہ سلام کا جواب دے کر فوراً بولا۔
"بھائی۔۔۔وہ۔۔۔وہ اس وقت ایمان یہاں موجود نہیں ہے۔"
ملائکہ رک رک کر بولی۔۔خود پہ گڑی عقیلہ بیگم کی نظریں وہ محسوس کر رہی تھی۔عقیلہ بیگم بھی جانتی تھیں کہ وہ کس بارے میں بات کر رہا ہے۔
"میں رات کو بھی کافی دیر تک تمھارے موبائل پہ کالز کرتا رہا مگر تم نے میری کال ریسیو نہیں کی۔
اب کی بار وہ غضبناک انداز میں بولا۔
"جی بھائی۔۔۔اللہ حافظ۔۔۔!!"
اس نے سوچا کہ میٹنگ ختم ہونے کے بعد وہ کال پہ بات کرے گا ایمان سے اور خود کل صبح ہی روانہ ہو جائے گا۔
یہ سوچ کر وہ سر ہلاتا اشفاق صاحب کے ساتھ میٹنگ روم کی جانب بڑھ گیا۔
❤️
"ملائکہ بی بی۔۔۔؟؟"
وہ کچن میں تھی جب شگفتہ اسے پکارتی ہوئی کچن میں آئی۔ایمان بھی وہیں موجود تھی۔اس نے بھی شگفتہ کے پکارنے پر اسے پلٹ کر دیکھا تھا۔
"کیا ہوا۔۔؟"
ملائکہ نے برنر سلو کیا۔
"وہ جی غزنوی صاحب کا فون ہے۔۔آپ سے بات کرنا چاہتے ہیں۔"
شگفتہ نے کہا تو انکی نظریں بہ یک وقت ملیں۔۔غزنوی کا نام سن کر ایمان کے دل کی دھڑکن بڑھی تھی۔
"اچھا آؤ تم یہاں۔۔یہ چائے تیار ہے داجی اور شاہ گل کو دے دو۔"
وہ اٹھا اور گاڑی چابی، والٹ پاکٹ میں ڈالا اور تیزی سے اپنے کیبن سے نکلا۔
"ایکسکیوزمی سر۔۔۔!! مسٹر کامران باقی اسٹاف کے ساتھ میٹنگ روم میں کب سے آپکے منتظر ہیں۔میں بھی یہ فائل لینے اور آپکو بلانے آیا تھا۔"
ابھی وہ کیبن سے نکلا ہی تھا کہ مینیجر اشفاق احمد نے اسے روکا۔
"پلیز اشفاق صاحب۔۔۔آج کی یہ میٹنگ کینسل کر دیجیئے۔۔مجھے ایک بہت ضروری کام سے پشاور جانا ہے۔۔آپ پلیز سنبھال لیں۔۔"
وہ پریشانی سے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے بولا۔
"لیکن سر۔۔۔آج رات ہی مسٹر کامران بھی جرمنی فلائی کر جائیں گے۔۔اگر آج نہ ہوئی تو پھر کبھی یہ ڈیل نہیں ہو پائے گی۔۔ہم ایک نقصان پہلے بھی اٹھا چکے ہیں۔اب مزید کی گنجائش نہیں ہے۔کمپنی ڈوب جائے گی۔"
ان کی بات سن کر وہ مزید پریشان ہو گیا۔
وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ ایسا ہو جائے گا۔وہ بالکل ساکت بیٹھا رہ گیا تھا اور اسکے کان میں صرف ایک ہی جملہ گونج رہا تھا۔۔" خوش ہو جائیں بھائی۔۔وہ جلد سائن کر دے گی۔"
کچھ پل یونہی خاموشی کی نظر ہو گئے پھر اچانک ایک خیال بجلی کی سی تیزی سے اسکے ذہہن میں کُودا۔وہ ایمان سے بات کر کے اسے اعتماد میں لے سکتا تھا۔اسے بتا سکتا تھا کہ وہ اسکے لئے کیا ہے۔۔اسکا ساتھ اسکی زندگی کے لئے اتنا ہی ضروری ہے جتنا کہ سانس لینا۔اس نے جلدی سے دوبارہ نمبر ڈائل کیا مگر ملائکہ فون نہیں اٹھا رہی تھی۔اس نے بار بار ٹرائی کیا مگر۔۔۔۔وہی خاموشی۔۔۔
اس نے فون تقریبا پٹخ دیا۔۔۔وہ بھول گیا تھا تھوڑی دیر بعد اسکی ایک بہت اہم میٹنگ ہے۔
"مجھے واپس جانا ہو گا۔۔۔ورنہ میں خالی ہاتھ رہ جاوں گا۔۔کچھ نہیں بچے گا۔۔۔"
دوسری جانب غزنوی کو یقین نہیں آ رہا تھا کہ داجی ایسا فیصلہ کریں گے اور وہ بھی اس سے کچھ پوچھے یا اسکی سنے بغیر۔۔وہ مانتا تھا اس سے غلطی ہوئی تھی۔اسے ایمان کے ساتھ ایسا سلوک نہیں کرنا چاہیئے تھا۔وہ شرمندہ تھا اپنے کیے ہوئے فعل پہ۔۔۔
مگر اب کیا۔۔۔؟؟
ایک بڑا سا سوالیہ نشان اسکی نظروں کے سامنے تھا۔
"اور ایمان۔۔۔۔؟؟"
اس نے دھیرے سے پوچھا۔۔
"بھائی آپ آ جائیں۔۔اس سے پہلے کہ سب ختم ہو جائے۔۔آپ کو اسے منا لینا چاہیئے ورنہ کچھ بھی باقی نہیں رہے گا۔۔اگر ایمان آپکو اپنی لائف میں چاہیئے تو جلدی آ جائیں بلکہ ابھی آ جائیں۔۔آپ کے اسکے بیچ غلط فہمیوں کی ایک مضبوط دیوار کھڑی ہے جسے صرف آپ ہی پاٹ کر سکتے ہو ایمان نہیں۔۔۔اور اگر آپکے دل میں اسکے لئے ذرا برابر بھی گنجائش نہیں ہے تو پھر خوش ہو جائیں بھائی۔۔۔وہ جلد سائن کر دے گی۔"
غزنوی کی آواز میں دبے دبے غصے کے ساتھ پریشانی بھی تھی۔
"آپکی اور ایمان کی۔۔۔۔"
آخر اس نے کہہ ہی دیا۔
"کیا بکواس کر رہی ہو؟"
وہ گرجدار آواز میں بولا۔
"میں سچ کہہ رہی ہوں بھائی۔۔۔انہوں نے وہ کاغذات ایمان کو سائن کرنے کے لئے بھی دے دیئے ہیں۔امی نے بہت سمجھایا، سبھی نے اس فیصلے کی مخالفت کی مگر وہ اپنے فیصلے سے ایک انچ بھی پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہیں۔شاہ گل تو اس بارے میں امی کی بھی نہیں سن رہی ہیں۔آپ آ جائیں پلیز۔۔۔"
وہ کہتے کہتے رو دی۔۔اسے اس رشتے کا انجام دیکھ کر بہت دکھ ہو رہا تھا۔ایمان اسے بہت عزیز تھی۔وہ غزنوی کے رویے کے بھی مخالف تھی مگر ایسا بھی نہیں چاہتی تھی کہ وہ دونوں الگ ہو جائیں۔
وہ ڈرتے ڈرتے بولی کیوں کہ وہ جانتی تھی کہ غصہ تو غزنوی کا بھی ناک پہ دھرا رہتا ہے۔
"کیسا فیصلہ۔۔۔۔؟"
اسے ملائکہ کے لہجے سے بات کی سنجیدگی کا اندازہ ہوا۔
"بھائی۔۔۔۔۔وہ۔۔۔۔"
ملائکہ کچھ کہتے کہتے رک گئی۔
"کیا وہ وہ۔۔۔۔اب بتا بھی چکو۔۔۔کیسا فیصلہ۔۔؟"
وہ اس کے اسطرح رکنے پر چڑتے ہوئے بولا۔
"بھائی داجی نے خلع کے پیپرز تیار کروا لئے ہیں۔"
وہ جلدی سے بولی۔
"ملائکہ کیا پہیلیاں بُھجوا رہی ہو۔۔۔ٹھیک سے بتاو۔۔کس کی خلع کے پیپرز تیار کروا لئے ہیں؟"
غزنوی نے اس سے پوچھا۔
"نہیں۔۔وہ تو گھر پہ ہی ہیں۔۔شاید سو رہے ہوں۔"
ملائکہ سمجھ گئی تھی کہ انہوں نے جان بوجھ کر کال ریسیو نہیں کی ہو گی ورنہ عموما ایسا ہوتا نہیں تھا۔
"اس وقت۔۔۔"
غزنوی نے اپنے ہاتھ پہ بندھی گھڑی کی جانب دیکھا۔
"بھائی آپ بھی آ جائیں۔۔"
ملائکہ نے بات بدلی۔
"یہاں بہت کام ہے۔۔۔میں فلحال نہیں آ سکتا۔"
غزنوی نے سامنے پڑی فائل بند کی۔
"بھائی مجھے آپکو کچھ بتانا تھا۔۔۔شاہ گل نے داجی کو سب بتا دیا ہے۔داجی بہت خفا ہو رہے تھے بلکہ انہوں نے ایک فیصلہ بھی کر ڈالا ہے۔"
غزنوی نے کال کاٹ کر داجی کا نمبر ملایا مگر ان کی جانب سے خاموشی تھی۔اسے لگا جیسے وہ جان بوجھ کر اسکی کال ریسیو نہیں کر رہے ہیں ورنہ وہ خود اسے کالز کیا کرتے تھے اگر وہ ان کی نظروں کے سامنے نہ ہوتا تو۔۔۔لیکن اب اسکے کانوں میں گونجتی ٹوں ٹوں کی آواز اسکا منہ چڑا رہی تھی۔اس نے دوبارہ کال ملائی مگر وہی خاموشی۔۔۔پھر کچھ سوچ کر اس نے ملائکہ کو کال کی۔
"ملائکہ۔۔۔ایمان کہاں ہے۔۔میری بات کراو اس سے۔"
کال ریسیو ہوتے ہی اس نے ملائکہ سے ایمان کے متعلق پوچھا۔
"بھائی وہ تو اپنے روم میں ہیں۔۔"
ملائکہ جو الماری کھولے کھڑی تھی، بند کرتے ہوئے بولی۔
"داجی نے گل خان کو ایمان کو لے جانے سے کیوں منع کیا ہے۔۔میں نے کہا تھا کہ ہم عید پہ آئیں گے مگر پھر بھی میری بات کسی کو سمجھ نہیں آ رہی۔اب میں انھیں کال بھی کر رہا ہوں تو وہ ریسیو نہیں کر رہے ۔۔
"اور ہاں۔۔۔کھانا کھائے بنا مت جانا۔۔کچھ دیر آرام کرو۔۔پھر چلے جانا۔"
وہ پلٹ کر بولے اور پھر سیڑھیوں کی جانب بڑھ گئے۔گل خان بھی لاونج سے نکل گیا۔
باہر آ کر اس نے جیب سے موبائل فون نکالا اور کال ریکارڈز میں غزنوی کا نمبر نکال کر بٹن پُش کیا۔اگلی بیل پر کال ریسیو کر لی گئی تھی۔
"جی کاکا۔۔۔کہیئے۔۔۔"
غزنوی مصروف انداز میں بولا۔
"چھوٹے صاحب۔۔ایمان بی بی نہیں آ رہی ہیں۔داجی نے کہا ہے کہ وہ وہیں رہیں گی اور آپ کو بھی بلایا ہے۔"
"ایسا داجی نے کہا ہے؟"
اس کی بات سن کر غزنوی کا ماتھا ٹھنکا۔ ۔
"جی صاحب۔۔۔"
"ٹھیک ہے۔۔۔میں خود بات کرتا ہوں۔"
داجی۔۔۔مجھے چھوٹے صاحب نے ایمان بی بی کو لینے بھیجا ہے۔"
کچھ پل خاموشی سے گزرنے کے بعد اس نے دوبارہ اپنے آنے کا مقصد بتایا۔اتنی سی بات کے اتنی سوچ بچار۔۔۔اسے کچھ عجیب لگا۔
"گل خان۔۔ایمان اب یہیں رہے گی۔۔دو دن ہوئے یہاں آئے۔رمضان وہ ہمارے ساتھ گزارے گی۔غزنوی سے کہنا کہ وہ بھی یہاں آ جائے اور رمضان ہمارے ساتھ گزارے۔جہاں تک بزنس کی بات ہے تو ہم ظہور صاحب کو بھیج دیں گے۔ویسے بھی ان کی فیملی رمضان میں اسلام آباد شفٹ ہو رہی ہے۔وہ بہت قابل بھروسہ اور سمجھدار ہیں۔اچھی طرح سنبھال لیں گے تمام معاملات۔۔"
اتنا کہنے کے بعد وہ اٹھ کھڑے ہوئے۔
"جی جناب۔۔۔"
وہ پلٹ کر جانے لگا۔۔حالانکہ غزنوی نے اسے ایمان کو ضرور اپنے ساتھ لانے کی ہدایت کی تھی بلکہ یہاں تک کہا تھا کہ اسے لئے بنا وہ واپس نہ آئے۔لیکن اب وہ داجی سے تو بحث کرنے سے رہا
داجی۔۔۔باہر گل خان آیا ہے۔۔کہہ رہا ہے کہ چھوٹے صاحب نے ایمان بی بی کو لینے بھیجا ہے۔"
چوکیدار ان کے سلام پھیرنے کا منتظر کھڑا تھا اور اس سے پہلے کہ وہ دوبارہ نیت باندھتے،وہ فورا بولا۔
"اسے چائے پانی پوچھو، میں آتا ہوں۔"
وہ اس سے کہہ کر نیت باندھ چکے تھے۔چوکیدار واپس پلٹ آیا اور گل خان کو ان کا پیغام دیا۔تقریبا بیس منٹ بعد اعظم احمد لاونج میں آئے اور شگفتہ وہیں لاونج میں موجود تھی۔انہوں نے اسے گل خان کو بلانے کا کہا۔شگفتہ سر ہلاتی لاونج سے چلی گئی۔کچھ دیر بعد وہ گل خان کے ساتھ لاؤنج میں داخل ہوئی۔
"السلام علیکم داجی۔۔!!"
گل خان ان کیطرف دیکھتے ہوئے بولا۔ان کے چہرے کے سنجیدہ تاثرات کو وہ سمجھ نہیں پا رہا تھا۔اعظم احمد نے سر کے اشارے سے سلام کا جواب دیا تھا۔
کیا ہوتا اگر یہ دھونس پیار بھری ہوتی تو وہ ایک پل یہاں نہ رکتی۔۔لیکن وہ یہ صرف سوچ کر ہی رہ گئی۔
"تم سمجھدار ہو۔۔۔اپنے لئے بہتر فیصلہ کر سکتی ہو۔اپنے مستقبل کو اندھیری کھائی میں مت گم ہونے دو۔ایسے راستے پر مت چلو جس پہ چھائی کہر میں منزل دکھائی نہ دے۔"
عائشہ نے اسکے کندھے پہ ہاتھ رکھا اور ٹیپو کو اٹھاتی کمرے سے نکل گئی۔
"آپ ٹھیک کہتی ہیں آپی۔۔۔اگر وہ مجھ سے الگ ہو کر خوش رہتا ہے تو میں کیوں روکاوٹ بنوں۔"
وہ سامنے رکھے کاغذ کو اٹھاتے ہوئے خود سے بولی۔اسکے ہاتھ کپکپا رہے تھے۔اسے خوف نے آ لیا تھا۔محبت ترک کرنے سے کب ترک ہوتی ہے مگر یہ فیصلہ اسے کرنا تھا۔محبت کو چھوڑنے کا فیصلہ۔۔۔
🏵️
عائشہ نے اسکے ہاتھ تھام کر اسے ہمت دلائی۔
"میں اس محبت کا کیا کروں آپی۔۔جسکی جڑیں میرے اندر مضبوط ہو چکی ہیں۔میں ان سے الگ ہو کر خالی ہو جاوں گی۔۔ختم ہو جاوں گی۔"
"کیا کرنا ایسی محبت کا جسکی جڑوں کو تم اپنے خون سے سینچ رہی ہو۔اسے تمھاری ذرا پرواہ نہیں۔جب سے آئی ہو۔۔کال کی اس نے؟"
عائشہ نے پوچھا۔
"جی۔۔آج کال کی تھی۔۔کہا کہ گل خان کاکا کو بھیج رہے ہیں مجھے لینے۔"
ایمان نے آنسووں کے بیچ بتایا۔
"ہیم۔۔۔خود نہیں آئے گا لینے۔۔واہ بھئی۔۔"
عائشہ اٹھ کھڑی ہوئی۔ایمان خاموش رہی۔۔اسے اسکے لہجے میں رچی دھونس یاد آئی۔۔
"بےمہر انسان۔۔"
وہ صرف سوچ کر رہ گئی
ایمان بھائی کو ایک موقع تو ملنا چاہیئے۔۔۔کیا پتہ جیسا ہم سوچ رہے ہیں اسکے بالکل الٹ ہو۔"
ملائکہ نے غزنوی کی سائیڈ لیتے ہوئے کہا۔
"تمھیں اب بھی لگتا ہے کہ ہمیں اسے وقت دینا چاہیئے۔۔ملائکہ میں اپنے کانوں سے سنا ہے اسکو ایمان کو ڈی گریڈ کرتے ہوئے۔۔وہ اس کی بےعزتی کرتے وقت یہ بھی نہیں دیکھتا کہ آس پاس کون ہے اور وہ کہاں کھڑا ہے۔یہ تو ایمان نے اس پہ پردہ ڈال دیا ورنہ میں تب ہی یہ مسئلہ سب بڑوں کے سامنے رکھ دیتی اور اب سوچتی ہوں تو مجھے یہ بات پہلے کر لینی چاہیئے تھی تو آج یہ وقت نہ آتا اور دور کیوں جاتی ہو خود اپنی آنکھوں سے ایمان کے ساتھ اسکا سلوک دیکھ چکی ہو۔"
عائشہ ملائکہ کی بات سن کر غصے سے بولی۔ملائکہ خاموش ہو گئی اور روم سے چلی گئی۔
"ایمان میرا خیال ہے تمھیں غزنوی سے علیحدہ ہو جانا چاہئیے۔اس بار فیصلہ تم کرو۔۔
وہ لفافے کے اندر رکھے پیپرز نکال چکی تھی جبھی پھٹی پھٹی آنکھوں سے ایمان کو دیکھ رہی تھی جبکہ ایمان نے سر جھکا لیا۔عائشہ نے پلٹ کر ملائکہ کو دیکھا جو ٹیپو کو بیڈ پر لٹا رہی تھی۔پھر ملائکہ نے عائشہ سے کچھ بھی نہیں چھپایا۔اسلام آباد جانے اور وہاں سے واپس آنے کی ساری روداد کہہ سنائی۔سب سن کر عائشہ افسوس سے ایمان کو دیکھا۔جو سر جھکائے بیٹھی تھی اور اسکےبےآواز آنسو اسکے گود میں رکھے ہاتھوں پر گر رہے تھے۔وہ ایک گہری سانس خارج کرتی ایمان کے قریب ہوئی اور اسکا چہرہ اونچا کیا۔
"تم کیا چاہتی ہو۔۔؟"
عائشہ نے پوچھا۔
"میں۔۔۔؟؟ میں تھک گئی ہوں آپی۔۔"
وہ عائشہ کے گلے لگ کر رو دی۔عائشہ نے اسکے بکھرے وجود کو سنبھالا۔
ملائکہ۔۔۔!! تم بتاؤ۔۔۔کیا چل رہا ہے۔۔ایمان کس کے ساتھ اسلام آباد سے آئی اور غزنوی کہاں ہے؟"
عائشہ ملائکہ کی جانب مڑی۔۔۔جس کے چہرے پہ صاف لکھا تھا کہ وہ جانتی ہے ایمان کیوں رو رہی ہے۔
"آ۔۔۔آ۔۔آپی۔۔۔پتہ نہیں۔۔۔میں تو نیچے تھی۔"
ملائکہ نے ایمان کی جانب دیکھا جو اسے آنکھوں ہی آنکھوں میں منع کر رہی تھی بتانے سے۔
"کمال ہے۔۔۔مجھے کوئی بتائے گا کہ یہاں کیا ہو رہا ہے۔۔ایمان۔۔۔!! سچ بتاؤ، تمھارے اور غزنوی کے بیچ سب ٹھیک ہے نا۔۔۔اور یہ کیا ہے؟"
اس کا رخ اب پھر سے ایمان کی جانب تھا کہ اچانک اسکی نظر بیڈ پہ ایک جانب پڑے خاکی لفافے پر پڑی اور اس سے پہلے کہ ایمان اسے اٹھاتی، عائشہ نے اٹھا لیا۔
"یہ۔۔۔۔۔۔؟؟"
تکیہ تیزی سے اسکے آنسوؤں سے بھیگنے لگا تھا۔
"ایمان۔۔۔کیا ہوا ہے۔۔ایسے کیوں رو رہی ہو؟"
اس نے ایک مانوس آواز سن کر سر اٹھایا۔اس کے بالکل قریب عائشہ کھڑی تھی اور اس سے کچھ ہی فاصلے پر ملائکہ ٹیپو کو اٹھائے کھڑی تھی۔جو گہری نیند میں تھا۔ایمان جلدی سے اٹھ بیٹھی اور اپنے آنسوؤں سے دھلا چہرہ صاف کیا۔ملائکہ کی شرمندگی سے بھری نگاہیں ایمان پہ تکیہ ہوئی تھیں۔وہ جانتی تھی کہ وہ کیوں رو رہی ہے۔
"ارے عائشہ آپی۔۔آپ کب آئیں؟"
وہ بمشکل مسکراتے چہرے کے ساتھ عائشہ کے پاس آئی۔
"ابھی کچھ دیر ہی ہوئی ہے۔۔۔لیکن تم کیوں رو رہی تھی؟"
عائشہ نے اسے یوں ہلکان ہوتے پہلی بار دیکھا تھا۔
"کچھ نہیں۔۔۔وہ بس بابا کی یاد آ رہی تھی تو دل بھر آیا۔آپ کھڑی کیوں ہیں آئیں بیٹھیں۔"
ایمان نے اسے اپنے پاس بٹھایا۔عائشہ اس کے جواب سے مطمئن نہیں ہوئی تھی۔
وہ اس وقت بیڈ پہ بیٹھی اپنے سامنے پڑے خاکی رنگ کے لفافے کو دیکھ رہی تھی، جس میں موجود پیپرز نے اسکی سانسیں روک رکھی تھیں۔حالانکہ کچھ دیر پہلے شمائلہ بیگم نے اسے ان کاغذوں میں چھپے مفہوم کے بارے بتا دیا تھا۔لیکن وہ سمجھ کر بھی نہیں سمجھ پائی تھی اور اب وہی اژدھا اس کے سامنے منہ کھولے کھڑا تھا۔اسے کہا گیا تھا کہ فیصلہ وہ کرے۔۔۔
"کیا مجھ میں اتنی ہمت ہے جس کے بَل پر میں کوئی فیصلہ کر سکوں۔میں کیا فیصلہ کروں گی۔۔میں تو خود ایک ایسی بند گلی میں کھڑی ہوں جس کے دونوں راستے بند ہوں۔"
اپنی بیچارگی پہ اسکا جی چاہا کہ پھوٹ پھوٹ کر رو دے۔اسے وہ خاکی لفافہ اپنی بےبسی کا مذاق اڑاتا محسوس ہو رہا تھا۔
"یا اللہ۔۔۔تُو رحیم و کریم ہو۔۔جہاں سب دروازے بند ہو جاتے ہیں وہاں ایک تیرا در کھلا رہتا ہے۔تُو مجھے ہمت دے کہ میں اس خاردار جنگل سے نکل سکوں۔"
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain