اسی دوران موبائل فون کی رنگ ٹون نے کمرے میں گونجتی خاموشی کو توڑا۔ملائکہ نے ہاتھ میں پکڑے موبائل فون کو دیکھا۔
"جی بھائی۔۔۔یہ لیں بات کریں۔"
اس سے پہلے کہ وہ کچھ سمجھتی، ملائکہ نے فون اسکی طرف بڑھایا اور خود برق رفتاری سے کمرے سے نکل گئی۔غزنوی کی ہیلو ہیلو کرتی آواز واضح سنائی دے رہی تھی۔اس نے گلاس سائیڈ ٹیبل پہ رکھا اور فون کان سے لگایا۔
"ہیلو۔۔۔!! ایمان۔۔!"
دوسری جانب بیتابی سے پکارا گیا۔
"السلام و علیکم۔۔!!"
اس نے سلام کیا۔
"وعلیکم السلام۔۔!! کیسی ہو؟"
شمائلہ بیگم نے ٹرے اسکی طرف بڑھایا۔ملائکہ نے ان کے ہاتھ سے ٹرے لی اور کچن سے نکل آئی۔ایمان کے کمرے کا دروازہ بند تھا۔وہ بناء دستک دیئے کمرے میں داخل ہو گئی۔ایمان بیڈ پہ لیٹی تھی۔ملائکہ کو اندر آتا دیکھ کر اٹھ بیٹھی۔
"تم اتنی جلدی آ گئیں؟"
اس نے ملائکہ کو ٹرے ٹیبل پہ رکھتے دیکھ کر پوچھا۔
"ہاں۔۔۔چلو یہ لو جوس پیو اور کیا ہوا ہے تمھیں؟"
ملائکہ نے گلاس اسکی طرف بڑھایا جو ایمان نے تھام لیا۔
"کچھ نہیں۔۔میں ٹھیک ہوں۔"
ایمان نے جوس کا گلاس لبوں سے لگایا۔
"ٹھیک لگ تو نہیں رہیں۔۔آئینے میں چہرہ دیکھا ہے اپنا۔۔"
ملائکہ اسکے پاس ہی بیٹھ گئی اور اسکے سرخ چہرے کو بغور دیکھتے ہوئے کہا۔اسکی بات سن کر اس نے کوئی جواب نہیں دیا اور خاموشی سے جوس پینے لگی۔
لیکن بھائی۔۔۔تھوڑی دیر بعد۔۔۔"
"میں نے کہا نا مجھے ابھی بات کرنی ہے۔۔"
حسب معمول وہ بھڑک گیا۔
"جی اچھا۔۔"
وہ دھیرے سے بولی اور بیڈ سے اتری۔دوسری جانب غزنوی کال کاٹ چکا تھا۔ملائکہ گھر آئی تو لاونج لیکن کوئی بھی نہیں تھا۔وہ سیدھی کچن میں آئی۔
"امی۔۔!! ایمان کہاں ہے؟"
کچن میں ایمان کو موجود نہ پا کر اس نے شمائلہ بیگم سے پوچھا۔
"وہ اپنے روم میں ہے۔۔طبیعت کچھ ٹھیک نہیں تھی اسکی۔"
انہوں نے بتایا تو وہ پلٹ کر جانے لگی۔
"ملائکہ یہ جوس بھی لے جاو اسکے لئے۔"
"وعلیکم السلام۔۔!! کیسی ہو ملائکہ اور باقی سب کیسے ہیں؟"
غزنوی نے پیون کے ہاتھ سے فائل لی اور اسے جانے کا اشارہ کرتے ہوئے بولا۔
"الحمداللہ بھائی سب ٹھیک ہیں۔۔آپ کیسے ہیں؟"
ملائکہ نے طے کیا ہوا ڈریس کھولا۔
"میں بھی ٹھیک ہوں۔۔ملائکہ ایمان سے بات کروانا۔"
غزنوی بناء جھجکے کہا۔
"بھائی ابھی تو میں لاریب کیطرف آئی ہوں۔۔تھوڑی دیر تک واپس جا کر بات کرواتی ہوں۔"
اس نے لاریب کو دیکھا۔
"نہیں مجھے ابھی بات کرنی ہے۔۔ابھی جاو۔۔میں پانچ منٹ بعد فون کرتا ہوں۔"
اس سے پہلے کہ وہ فون بند کرتی غزنوی فورا بولا۔
آج بھی آفس میں لنچ بریک کے بعد اس نے گھر کے لینڈ لائن پہ فون کیا تو خیرن بوا کی آواز سن کر اس نے کوئی بات نہیں کی اور کال کاٹ دی۔
اچانک ایک خیال بجلی کیطرح اس کے ذہن میں آیا اور اپنی بیوقوفی پہ خود کو خوب صلواتیں سنائیں۔اس نے فوراً ملائکہ کو فون کیا۔وہ بےقراری سے اس کے کال پک کرنے کا منتظر تھا۔چوتھی بیل پہ فون اٹھا لیا گیا۔
"السلام علیکم بھائی۔۔!!"
وہ اس وقت لاریب کے ساتھ اسکے روم میں بیٹھی اسکی شاپنگ دیکھ رہی تھی کہ موبائل اسکرین پہ بلنک کرتا بھائی دیکھ کر اس نے فورا فون ریسیو کیا۔
ایمان کے جانے سے ایک مستقل اداسی نے جیسے گھر کا راستہ ہیدیکھ لیا تھا۔ہر دم اسے ایمان کی کمی محسوس ہوتی۔اسے گئے دودن ہو چکے تھے۔گھر کے ہر کونے میں اس کا احساس اجاگر ہوتا۔غزنوی کا دل جیسے ہر ایک شے سے اچاٹ ہو گیا۔صبح آفس کے لئےنکلتا تو رات گئے تک واپسی ہوتی۔۔
ایک دو بار اس نے گھر فون کیا اور دونوں بار اسکی بات شمائلہ بیگمسے ہوئی۔انہوں نے اس سے کسی قسم کی کوئی بات نہیں کی تھی لیکن ان کے لہجے سے چھلکتی سنجیدگی اسے اس بات کا یقین دے رہی تھی کہ ان سے کچھ چھپایا نہیں گیا۔اس نے ڈھکے چھپے الفاظ میں ایمان کے متعلق پوچھا تو انہوں نے بزی ہے کہہ کر اسکی بات نہیں کروائی۔وہ ایمان سے بات کرنا چاہتا تھا۔۔اس سے اپنی کی گئی زیادتی کی معافی مانگنا چاہتا تھا مگر اسکی بات ہی نہیں ہو پا رہی تھی۔
لیکن بےچینی کم ہونے کی بجائے بڑھتی ہی جا رہی تھی۔وہ کتنی ہی دیر یونہی بیٹھا رہا۔رات کا نجانے کون سا پہر تھا جب وہ اٹھ کر کمرے میں آیا تھا۔واش روم میں آ کر اس نے جلتی آنکھوں پہ پانی کے چھینٹے مارے اور ٹاول سے چہرہ پونچھتا بیڈ پہ آ گیا۔
اس نے ٹیبل سے موبائل فون اٹھایا۔گھڑی پہ نظر ڈالی تو اسے کال کرنے کے لئے یہ وقت مناسب نہیں لگا۔وہ کال کرنے ارادہ ملتوی کرتا گیلری اوپن کر گیا۔شادی کی مختلف فوٹوز ابھی تک اس کے فون میں سیو تھیں۔اس نے صرف اپنی اور ایمان کی پکچرز کو چھوڑ کر باقی تمام تصویریں ڈیلیٹ کر دیں۔
سُونا پن صاف دکھائی دے رہا تھا۔اسے اپنے فعل پہ مزید افسوس اور پچھتاوا ہونے لگا۔
وہ ایک گہری سانس خارج کرتا آنکھیں موند گیا مگر نیند آنکھوں سے کوسوں دُور تھی۔دائیں سے بائیں کروٹ لیتا وہ بےچینی سے اٹھ بیٹھا۔وہ بیڈ سے اترا اور سائیڈ ٹیبل کی دراز سے سیگریٹ کا پیکٹ اور لائٹر اٹھاتا ٹیریس پہ آ گیا۔چیئر پہ بیٹھ کر اس نے سیگریٹ سلگائی۔ہوا میں رچی رات کی رانی کی خُوشبو میں اب سیگریٹ کی بُو شامل ہونے لگی تھی۔سیگریٹ کے دھوئیں سے اسکی آنکھیں جلنے لگیں تھیں۔وہ کوئی چین سموکر نہیں تھا۔بس کبھی کبھار پیتا تھا اور آج وہ دل کی بےچینی کو کم کرنے کے لئے پی رہا تھا
روانہ ہو گئے تھے۔"
شاہدہ نے بتایا۔
"اور ایمان؟"
غزنوی کو اپنا اندازہ ٹھیک لگا مگر پھر بھی پوچھ لیا۔
"ایمان بی بی بھی ساتھ گئی ہیں ان کے۔۔کیا آپکو بتا کر نہیں گئیں؟"
شاہدہ کے بتانے پہ کچھ کہتے کہتے رک گیا اور پھر اگلے ہی پل بولا۔
"وہ مجھے کال کر رہی تھی لیکن بہت مصروفیت کے باعث میں کال اٹینڈ نہیں کر پایا۔"
غزنوی کو فوری طور پر یہی بہانا سوجھا اور اسکا جواب سُنے بغیر واپس پلٹ آیا۔ایمان کا اسطرح عقیلہ بیگم کے ساتھ جانا اسے مزید تھکا گیا۔وہ سست قدموں سے چلتا اپنے کمرے میں آیا۔اس وقت وہ کچھ نہیں سوچنا چاہتا تھا مگر ایمان کا خیال اور اسکا احساس اسے بےچین کر رہا تھا۔اس نے وراڈروب سے کپڑے لئے اور واش روم میں گھس گیا۔ٹھنڈا پانی بھی اسکی تھکن کو اتار نہیں پایا تھا۔وہ لائٹ آف کرتا، سست روی سے چلتا بستر پہ آ گیا۔
کچھ پل یونہی گزر گئے کسی نے دروازہ نہیں کھولا۔گھر کے اندر بچوں کے شور کی وجہ سے کسی نے دستک کی آواز نہیں سنی تھی۔اب کی بار اس نے ذرا زور سے دستک دی۔اس بار دروازہ کھول دیا گیا۔
"ارے صاحب۔۔۔آپ اس وقت۔۔خیر تو ہے نا۔۔؟"
شاہدہ کا شوہر اشرف جو اس گھر میں مالی تھا۔۔غزنوی کو اس وقت وہاں دیکھ کر حیران ہوا۔
"ہاں خیریت ہی ہے۔۔۔زرا شاہدہ کو بلاؤ۔۔بات کرنی ہے۔"
اسے اشرف سے پوچھنا مناسب نہ لگا اس لئے شاہدہ کو بلوایا۔اشرف واپس پلٹ گیا تھا۔تھوڑی دیر بعد وہ شاہدہ کے ساتھ واپس آیا۔
"جی صاحب۔"
شاہدہ نے اس کی جانب دیکھا۔۔جو کافی پریشان دکھ رہا تھا۔
"شاہدہ شاہ گل وغیرہ کس وقت گئے؟"
اس نے پوچھا۔
"صاحب وہ تو سارے صبح گیارہ بجے ہی روانہ ہو گئے تھے۔"
لگتا ہے شاہ گل وغیرہ چلی گئیں ہیں۔"
وہ خود سے کہتا اٹھا اور کمرے کی جانب بڑھ گیا۔
"ایمان۔۔۔!! یار ایک گلاس پانی تو پلاؤ۔۔"
کمرے میں داخل ہوتے ہی اس نے لائٹ آن کرتے ہوئے کہا۔۔اگلے ہی لمحے پورا کمرہ روشنی میں نہا گیا تھا۔ایمان کمرے میں نہیں تھی۔اس نے لیپ ٹاپ صوفے پہ رکھا اور واش روم کے ادھ کھلے دروازے سے جھانکا۔ایمان وہاں بھی نہیں تھی۔وہ ٹائی کی ناٹ ڈھیلی کرتا کمرے سے نکل آیا۔ایمان کو کمرے میں نہ پا کر اسکے ذہہن میں اچانک ایک خیال وارد ہوا۔جسے اسکا دل جُھٹلانا چاہ رہا تھا۔نیچے لاؤنج میں بھی خاموشی کا راج تھا۔وہ کچن میں آیا تو وہاں کی لائٹس بھی آف تھیں۔باری باری اس نے سارے رومز چیک کیے مگر ایمان کہیں بھی نہیں تھی۔اب اسکا رخ سرونٹ کوارٹر کی طرف تھا۔کچھ لمحوں بعد وہ شاہدہ کے کوارٹر کا دروازہ کھٹکھٹا رہا تھا۔اندر سے بچوں کی آوازیں آ رہی
تاکہ وقت پر گھر پہنچ سکے۔اس نے فیصلہ کیا بدلہ دل کے دھڑکنے کا انداز ہی بدل گیا تھا۔آفس سے نکلتے نکلتے بھی ساڑھے چھ بج چکے تھے۔آفس سے سیدھا وہ مارکیٹ آیا تھا۔اس نے ایمان کے لئے دو تین ڈریسز، جوتے اور میچنگ جیولری خریدی۔۔اپنے لیے بھی کچھ شاپنگ کی۔۔رات کے تقریباً آٹھ بجے وہ گھر میں داخل ہوا۔تھکے تھکے قدموں سے چلتا لاونج میں رکھے ٹرپل سیٹر صوفے پہ گرنے کے سے انداز میں بیٹھ گیا۔ہاتھ میں پکڑے شاپرز ٹیبل پر رکھ دیئے اور دونوں ہاتھوں کی انگلیوں سے اپنی کنپٹی کو ہلکے سے دبایا۔کچھ دیر یونہی بیٹھے رہنے کے بعد غیر معمولی خاموشی نے اسے متوجہ کیا تھا۔اس نے ادھر ادھر دیکھا، کہیں سے بھی کوئی آواز نہیں آ رہی تھی۔
رات بھر سوچتے ہوئے وہ ایک فیصلے پہ پہنچا تھا کہ اسے اب کیا کرنا ہے۔اس نے فیصلہ کیا کہ وہ ایمان کے ساتھ اپنی زندگی کی شروعات کرے گا۔زندگی کی ہر خوبصورتی جس پر اسکا حق ہے، اسکے قدموں میں لا کر ڈھیر کر دے گا۔اسے اتنی محبت دے گا کہ وہ اپنی ساری تکلیفیں بھول جائے گی۔وہ ان تمام پلوں کو دوبارہ جینا چاہتا تھا جو اس نے اپنی بیوقوفی کی نظر کر دیئے تھے۔وہ اپنے اس فیصلے پہ بہت خوش اور مطمئن تھا۔آج آفس میں ایمان کے متعلق سوچتے ہوئے اس نے سارا دن گزارا تھا۔اسکی ایک ایک ادا، ایک ایک انداز کو یاد کرتے ہوئے مسکراہٹ ایک پل کو بھی اس کے لبوں سے الگ نہیں ہوئی تھی۔دل ہی دل میں وہ اس حیرانی کو سوچ کر ایکسائیٹڈ ہو رہا تھا جو ایمان کے چہرے پہ اسکا بدلہ ہوا رویہ دیکھ کر آنی تھی۔وہ جلدی جلدی کام نبٹا رہا تھا
بی بی آپ پھر کب آئیں گی۔۔؟"
شاہدہ آنکھوں میں آنسو لئے اسے دیکھ رہی تھیں۔
"جلد آؤں گی۔۔"
وہ مختصرا کہتی عقیلہ بیگم کے پاس آئی تھی۔انہوں نے مسکرا کر اسے ساتھ لگایا اور شاہدہ کو خیال رکھنے کا کہتیں مین ڈور کی جانب بڑھ گئیں۔
اگلے دس منٹ وہ روانہ ہو گئے۔شاہدہ کو عقیلہ بیگم نے سمجھا دیا تھا کہ غزنوی ایمان کے متعلق پوچھے تو اسے بتا دے کہ وہ اسے اپنے ساتھ لے گئی ہیں۔وہ غزنوی کو بتائے بناء ان کے ساتھ آ تو گئی تھی مگر دل وہیں اٹک گیا تھا۔وہ جانتی تھی کہ غزنوی کو جب اسکے جانے کا علم ہو گا تو اسے یہ بات پسند نہیں آئے گی۔
سارا راستہ وہ اسی بارے میں سوچتی رہی تھی۔حالانکہ اسکی پریشان صورت دیکھ کر عقیلہ بیگم اسے اعتماد دلا رہیں تھیں کہ وہ سب سنبھال لیں گی اور یہ کہ وہ بالکل پریشان نہ ہو۔۔انہوں نے اس مسئلہ کا حل ڈھونڈ لیا ہے۔
وہ واپس مڑ گئی۔۔پتہ نہیں کیوں اسکا دل اداس تھا۔ایک گھبراہٹ سی تھی جو اس وجود پہ طاری ہو گئی تھی۔کل سے پہلے اگر وہ اسے ساتھ چلنے کا کہتیں تو وہ خوشی خوشی ان کے ساتھ چلی جاتی مگر اب اسکا دل قطعی نہیں مان رہا تھا۔ان کے ساتھ جانے کو دل نہیں چاہ رہا تھا۔شاید سب کے سامنے اسکا بھرم ٹوٹ گیا تھا۔اسے اندازہ ہو رہا تھا کہ شاہ گل اب اس بارے میں داجی سے بات ضرور کریں گی۔جس طرح ان کا انداز پرسکون تھا، لگتا تھا وہ اندر ہی اندر کوئی فیصلہ کیے ہوئے تھیں اور یہ اسکی چھٹی حس تھی جو اسے خبردار کر رہی تھی۔اسے سمجھا رہی تھی کہ کچھ ہونے والا ہے۔۔کچھ ایسا جسکے لئے اسکا دل راضی نہیں ہے۔۔لیکن شاہ گل کا فیصلہ رد کرنے کی ہمت اس میں نہیں تھی۔اس لئے خاموشی سے ساری پیکنگ کی۔
مگر شاہ گل۔۔۔"
ایمان نے کہا تو انہوں نے ایسی نظروں سے اسکی جانب دیکھا کہ وہ چپ رہ گئی اور قہوہ رکھ کر پلٹ گئی۔باقی سب لاؤنج میں تھیں۔اسی دن تو ان کی ہمت نہیں تھی کہ ایمان کا سامنا کرتیں مگر آج غزنوی کے آفس جاتے ہی سبھی نے اس سے معافی مانگی تھی۔وہ سب بھی بہت شرمندہ تھیں۔اگر وہ اسکی بات مان لیتیں تو وہ سب نہ ہوتا۔ملائکہ تو باقاعدہ اس کے لئے روئی بھی تھی۔
"کہاں جا رہی ہو ایمان۔۔قہوہ ٹھنڈا ہو رہا ہے۔"
لاریب نے اسے کمرے میں جاتے دیکھ کر پوچھا۔
"شاہ گل نے پیکنگ کرنے کا کہا ہے۔۔وہی کرنے جا رہی ہوں۔"
اس نے پلٹ کر کہا۔
"سچ۔۔۔؟؟"
اس کی بات سن کر ملائکہ کے چہرے پہ مسکراہٹ پھیل گئی۔
"ہیم۔۔"
عقیلہ بیگم خیرن بوا کے ساتھ اپنے کمرے میں تھیں کہ وہ قہوہ لئے کمرے میں داخل ہوئی۔اسے دیکھتے ساتھ ہی انہوں نے حکم صادر کیا تھا۔آواز میں نرمی تھی مگر لہجے سے ظاہر تھا کہ ان کا فیصلہ اٹل ہے۔
"مگر شاہ گل۔۔میں ایسے کیسے جا سکتی ہوں۔غزنوی سے پوچھا نہیں ہے میں نے۔"
وہ اب غزنوی کو غصہ دلانے جیسا کوئی کام نہیں کر سکتی تھی۔
"اس سے پوچھنے یا بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔میں مزید اب تمھیں یہاں نہیں چھوڑ سکتی۔عید کے بعد لوٹ آنا اس کے ساتھ۔۔۔مگر ابھی چلو۔۔"
انہوں نے اسکی سوال کرتی نظروں سے نگاہیں چراتے ہوئے کہا
ﺍﺑﮭﯽ ﺗﻢ ﻧﮯ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﮯ ﺑﺮﺳﺘﮯ ﺑﮭﯿﮕﺘﮯ ﻣﻮﺳﻢ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﯾﮑﮭﮯ
ﺍﺑﮭﯽ ﺗﻢ ﻣُﺴﮑﺮﺍﺗﮯ ﮨﻮ،
ﺳُﻨﻮ ﺟﺎﻧﺎﮞ۔۔!!
ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﯾﮧ ﮨﻨﺴﯽ ﭼﮭﯿﻨﯽ
ﺗﻮ ﭘﮭﺮ ﺁﻧﺴﻮ ﺑﮩﺎﺅ ﮔﮯ
ﺗﻢ ﺍﺗﻨﺎ ﺟﺎﻥ ﺟﺎﺅ ﮔﮯ۔
ﺟُﺪﺍﺋﯽ۔
ﻣﻮﺕ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ۔۔
"اپنا سامان پیک کرو۔۔تم ہمارے ساتھ جا رہی ہو۔۔غزنوی کا جب دل چاہے گا آ جائے گا۔ہم کل اسی لئے نہیں گئے کہ آج تمھیں ساتھ لے کر جائیں گے۔
ﮐﺒﮭﯽ ﺗﻢ ﺳﺴﮑﯿﺎﮞ ﺳُﻨﻨﺎ
ﮐﺒﮭﯽ ﻗﻄﺎﺭ ﻣﯿﮟ ﺑﭽﮭﮍﯼ ﮨﻮﺋﯽ ﮐﻮﻧﺠﻮﮞ ﮐﮯ ﻧﻮﺣﮯ ﭘﺮ
ﻧﮕﺎﮦ ﮐﺮﻧﺎ
ﮐﮧ ﮐﯿﺴﮯ ﺍﯾﮏ ﺩﻭﺟﮯ ﮐﯽ ﺟُﺪﺍﺋﯽ ﭘﺮ
ﺗﮍﭖ ﮐﺮ ﺑﯿﻦ ﮐﺮﺗﯽ ﮨﯿﮟ
ﮐﺒﮭﯽ ﺭﺧﺼﺖ ﮐﮯ ﻟﻤﺤﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﮐﺴﯽ ﮐﯽ ﺁﻧﮑﮫ ﺳﮯ ﻟﮍﮬﮑﺘﮯ ﮨﻮﮰ
ﺁﻧﺴﻮ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮭﻮ ﮔﮯ
ﺗﻮ ﺷﺎﯾﺪ ﺟﺎﻥ ﭘﺎﺅ ﮔﮯ۔۔!
ﺟُﺪﺍﺋﯽ ﻣﻮﺕ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ۔
ﺳُﻨﻮ ﺟﺎﻧﺎﮞ۔۔!!
ﺟﺪﺍﺋﯽ ﻣﻮﺕ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ۔
ﮐﺒﮭﯽ ﻓﺮﺻﺖ ﻣﻠﮯ ﺗﻮ ﺩﯾﮑﮭﻨﺎ ﭘﺘﻮﮞ ﮐﺎ ﮔِﺮﻧﺎ ﺗﻢ
ﮐﮧ ﺟﺐ ﯾﮧ ﺷﺠﺮ ﺳﮯ ﮔِﺮ ﮐﺮ ﺯﻣﯿﻦ ﭘﺮ ﺁﻥ ﭘﮍﺗﮯ ﮨﯿﮟ
ﺗﻮ ﮐﯿﺴﮯ ﺭﻭﻧﺪﮮ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ
ﭨﮭﭩﮭﺮﺗﯽ ﺭﺍﺕ ﮐﮯ ﺧﺎﻣﻮﺵ ﻟﻤﺤﻮﮞ ﻣﯿﮟ
ﮐﺴﯽ ﺑﮯ ﺑﺲ ﺍﮐﯿﻠﯽ ﺑﺎﻭﻓﺎ ﺧﺎﻣﻮﺵ ﻟﮍﮐﯽ ﮐﯽ
۔
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain