Damadam.pk
Mirh@_Ch's posts | Damadam

Mirh@_Ch's posts:

Mirh@_Ch
 

آنکھوں پہ ہاتھ رکھے وہ ساکت لیٹا رہا مگر تھوڑی تھوڑی دیر بعد سوئی ہوئی ایمان پر ایک نظر ڈالنا نہیں بھولتا۔۔
رات آنکھوں میں کٹ گئی تھی۔وہ ساری رات سو نہیں پایا تھا اور صبح وہ ایمان کے جاگنے سے پہلے آفس کے لئے نکل گیا تھا۔
💓

Mirh@_Ch
 

آنسووں کے مٹے مٹے نشان اسکے چہرے پہ دکھائی رہے تھے۔غزنوی نے کمبل کھول کر اسے اوڑھایا اور قریب ہو کر بہت نرمی سے اپنے ہاتھ کی پشت سے ایمان کے گال کو چُھوا۔ایک بار، دو بار، بار بار غزنوی کے ہاتھ نے اسکے چہرے کی نرمی کو اپنے اندر سمویا تھا۔وہ حیران ہوا کہ ایمان اسکے چھونے سے اٹھ کیوں نہیں رہی۔اسی لمحے اسکی نظر سائیڈ ٹیبل پہ دھرے دودھ کے خالی گلاس اور اسکے ساتھ پڑی ٹیبلیٹس پر پڑی۔غزنوی نے اٹھا کر چیک کیا۔یہ نیند کی ٹیبلیٹس تھیں۔وہ ٹیبلیٹس رکھتا اسکے پاس بیٹھ گیا۔
بھوک پیاس سے بےنیاز وہ کتنی ہی دیر اسے دیکھتا رہا اور پھر دھیرے سے اسکے گالوں کو لبوں سے چُھوا۔
کچھ پل اور وہ اسکے بےخبر وجود کو دیکھتا رہا پھر وہ اٹھ کر اپنی جگہ پہ آ کر لیٹ گیا۔نیند آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔

Mirh@_Ch
 

"کاکا۔۔۔۔!!"
اس نے چوکیدار کو پکارا۔گل خان فورا اپنے کمرے سے باہر آیا۔
"جی صاحب۔۔؟"
وہ بھاگ کر قریب آیا تھا۔
"کیا شاہ گل وغیرہ واپس جا چکی ہیں؟"
اس نے گل خان سے ہوچھا۔
"نہیں صاحب۔۔۔گھر پر ہی ہیں سب۔۔۔"
گل خان کے کہنے کے بعد وہ سر ہلاتا واپس پلٹ گیا۔اپنے کمرے کے بند دروازے کو دیکھتا کمرے کی جانب بڑھا۔باقی کمروں کے دروازے بھی بند تھے۔معمول کے مطابق وہ بناء دستک دیئے کمرے میں داخل ہوا۔کمرے میں جلتی نائٹ بلب کی روشنی میں سب واضح نظر آ رہا تھا۔ایمان بیڈ کے دائیں جانب سکڑی سمٹی لیٹی تھی۔یہ دیکھنے کے لئے کہ وہ جاگ رہی ہے یا سو رہی ہے، وہ قریب آیا۔وہ گہری نیند میں تھی۔دائیں کروٹ لیٹنے سے اسکا وہی گال اسکی نظروں کے سامنے تھا جس پہ اسکی انگلیوں کے نشان اب بھی موجود تھے۔غزنوی کو اپنے دل کی دھڑکن رکتی محسوس ہوئی۔

Mirh@_Ch
 

تو کرنا ہی تھا۔اسے اپنی غلطی کا احساس تھا مگر یہ احساس بھی اسی سکون نہیں دے رہا تھا۔یہ اس کی زندگی کی دوسری بڑی غلطی تھی جس پر وہ بے حد شرمندہ تھا۔ایمان کا معصوم چہرہ ایک پل کے لئے بھی اس کی آنکھوں سے سے دور نہیں ہٹا تھا۔رہ رہ کر خود پہ غصہ بڑھتا ہی جا رہا تھا تھا کہ اس نے نے کسی اور کا غصہ اس پر اتار دیا۔آفس میں میں آج ایک اہم ڈیل فائنل ہونی تھی مگر ایک بزنس حریف کی وجہ سے یہ ڈیل اس کے ہاتھوں سے نکل گئی۔اس لئے وہ آفس سے جلدی اٹھ آیا تھا اور یہی غصہ اس نے ایمان پر اتار دیا تھا۔اسکا گھبراتا اور بھیگا وجود اسکے لئے آزمائش بن گیا تھا اور اس سے پہلے کہ وہ کمزور پڑتا اس کا بپھرتا غصہ عود کر آیا اور اپنے ساتھ سب کچھ بہا لے گیا۔ریڈیو پہ اب نصرت فتح علی خان کی آواز اپنا جادو چلا رہی تھی۔اس نے ہاتھ بڑھا کر بٹن آف کر دیا۔سناٹے کو چیرتی آواز خاموش ہو

Mirh@_Ch
 

اس نے آنکھیں کھول دیں اور اس سچویشن سے نکلنے کے لئے اس نے ریڈیو آن کیا۔مہدی حسن کی پُرسوز آواز گاڑی میں گونجنے لگی۔
میں ہوش میں تھا تو پھر اس پہ مر گیا کیسے
یہ زہر میرے لہو میں اتر گیا کیسے۔۔
کچھ اس کے دل میں لگاوٹ ضرور تھی ورنہ
وہ میرا ہاتھ دبا کر گزر گیا کیسے۔۔
ضرور اس کی توجہ کی رہبری ہو گی
نشے میں تھا تو میں اپنے ہی گھر گیا کیسے۔۔
جسے بھلائے کئی سال ہو گئے کامل
میں آج اس کی گلی سے گزر کیسے۔۔
اندھیرا کافی بڑھ گیا تھا۔۔۔بے خیالی میں ڈرائیو کرتے کرتے وہ گھر سے کافی دور آ گیا تھا۔اس نے گاڑی ریسورس کی اور اسپیڈ بڑھائی۔گھر جانے کی ہمت تو نہیں تھی مگر سامنا تو کرنا ہی تھا۔

Mirh@_Ch
 

گاڑی کی سیٹ سے پشت ٹکائے وہ آنکھیں بند کیے بیٹھا تھا۔اس کے ہاتھ پہ ٹہرا وہ نازک لمس اسکی تکلیف بڑھا رہا تھا۔اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ جو کچھ اس نے کر دیا تھا اس کا سدباب اب وہ کیسے کرے گا۔ایمان کی آنکھوں میں ہلکورے لیتا درد اس کی نگاہوں سے پوشیدہ نہیں تھا۔وہ کیسے سمجھائے گا اسے کہ یہ ایک غیر ارادی فعل تھا۔

Mirh@_Ch
 

"ائے لڑکی اب تم نہیں اٹھی تو میں یہیں شروع ہو جاوں گی۔"
انہوں نے پیار بھری دھمکی دی تو وہ اٹھی۔
"چلو جلدی سے فریش ہو کر نیچے آو۔۔مل کر کھانا کھاتے ہیں۔کمبخت بھوک نے ادھ مرا سے کر دیا ہے۔"
وہ اسکے سر پہ ہاتھ رکھتی کمرے سے نکل گئیں۔اسکی نظر دروازے کے دائیں طرف دیوار پہ لگی غزنوی تصویر پر پڑی۔
"بےشرم عورت۔۔۔"
غزنوی کے الفاظ اسکے کانوں میں گونجے جو اس پہ چابک کیطرح لگے۔آنکھوں میں ڈولتا نمکین پانی گالوں سے ہوتا ہوا اسکے بکھرے بالوں میں جذب ہو گیا۔چہرے کی جلن بڑھ رہی تھی اور آنکھوں کا کاجل پھیلتا جا رہا تھا۔

Mirh@_Ch
 

وہ اسکے بائیں گال کو پیار سے سہلاتے ہوئے بولیں۔ایمان کی آنکھیں نمکین پانیوں سے بھر گئیں اور چہرہ بھیگ گیا۔۔خیرن بوا نے اسے گلے لگایا اور وہ اتنی محبت پا کر بکھر گئی۔
"بس چپ کر جا۔۔۔میری بچی۔۔تمھارے رونے سے میرا کلیجہ پھٹ رہا ہے۔۔کیا حال ہو گیا ہے۔۔چل شاباش بس اپنے آنسو پونچھو اور کپڑے بدلو۔۔کہیں بخار نے آ لیا تو۔۔۔شاباش میری بچی۔۔"
انہوں نے اسکی پیٹھ سہلاتے ہوئے اسے خود سے الگ کیا۔وہ سسکیاں بھرتی ان سے الگ ہوئی۔
"جا کپڑے بدل۔۔۔گھر لوٹ کر آنے دے اسے۔۔وہ لتے لوں گی کہ ساری زندگی یاد رکھے گا۔"

Mirh@_Ch
 

ایمان بٹیا۔۔۔"
خیرن بوا کی آواز اسے حال میں کھینچ لائی۔وہ جھٹکے سے اٹھ بیٹھی۔نہایت پُھرتی سے اپنے بھیگے ڈوپٹے سے چہرہ صاف کیا۔
"ایمان۔۔۔"
خیرن بوا کمرے میں داخل ہوئیں تو وہ کارپٹ پہ بیٹھی ہوئی تھی۔
"ارے بوا۔۔۔آپ کب آئیں۔؟"
وہ چہرے پہ ذبردستی کی مسکراہٹ سجائے بولی۔وہ ان کی جانب ڈائریکٹ دیکھنے سے گریز کر رہی تھی۔لیکن اسکے نازک گال پہ غزنوی کے انگلیوں کے نشان، اسکی بکھری حالت، کانپتے ہونٹ اور سوجی آنکھیں۔۔اسکی ظاہری حالت اسکے لہجے کے بالکل برعکس تھی۔
"رو لے بٹیا۔۔دل میں روگ نہ پال۔۔غزنوی ایسا نہیں ہے۔۔کوئی اور وجہ ہو گی جسکا غصہ وہ بیوقوف تم پر نکال بیٹھا۔۔اب یقینا پچھتا رہا ہو گا۔"

Mirh@_Ch
 

عقیلہ بیگم نے لاریب سے کہا تو وہ انھیں سہارا دیئے کمرے میں لے گئی اور باقی سب افسوس سے ایک دوسرے دیکھتے ہوئے سر جھکا گئیں تھیں۔
💕
اسے سمجھ نہیں آیا تھا کہ یہ سب اچانک کیا ہو گیا تھا۔وہ اسی پوزیشن میں کارپٹ پہ بےحس و حرکت پڑی تھی۔اٹھنے کی کوشش تک نہیں کی تھی۔غزنوی کے الفاظ اسکے کانوں کسی سیسے کی طرح پڑے تھے۔جس کی تپش اسکا سارا جسم جھلسائے دے رہی تھی۔کس قدر نفرت میں لپٹے تھے اس کے الفاظ، جنھوں نے اسکی بچی کچی طاقت تک چھین لی تھی۔
آنکھوں سے گرم سیلے رواں جاری تھا۔بایاں ہاتھ ابھی تک بائیں گال پہ ساکت تھا۔بھیگے کپڑوں میں جیسے آگ سی دہک رہی تھی۔آج اسکے بےجان رشتے کا لاشہ سب کی نظروں کے سامنے تھا۔

Mirh@_Ch
 

تم لوگوں کا بھی قصور ہے۔۔مگر غزنوی کو تو بہانا چاہئیے تھا، لہذاء اسے وہ موقع آج تم لوگوں نے فراہم کر دیا۔اچھا ہی ہوا کہ اس رشتے کی حقیقت ہمارے سامنے آ گئی۔اب فیصلہ لینے میں آسانی ہو گی۔"
وہ بہت دکھ سے بولیں۔
"ائے کوئی اس بچی کو بھی جا کر دیکھو۔"
خیرن بوا نے ان سب سے کہا۔
"بوا ہم میں تو اتنی ہمت نہیں ہے۔۔"
ارفع بولی تو باقی سب نے بھی اثبات میں سر ہلایا۔
"ٹھیک ہے میں خود دیکھتی ہوں۔"
خیرن بوا گھٹنوں پہ ہاتھ رکھتیں اٹھ کھڑی ہوئیں۔
"مجھے کمرے میں لے جاو لاریب۔۔مجھ میں ہمت نہیں ہے کہ میں اس بچی کا سامنا کر سکوں۔"

Mirh@_Ch
 

خیرن بوا بھی ان کے پاس آ بیٹھیں اور ان کے کندھے پہ ہاتھ رکھا۔
"سب ٹھیک ہو جائے گا۔۔میاں بیوی میں ایسا ہوجاتا ہے کبھی کبھی۔"
خیرن بوا نے انھیں تسلی دی۔
"افسوس تو اس بات کا ہے خیرن کہ ہمارے ایک غلط فیصلے نے بچوں کی زندگی خراب کر دی۔لیکن اب وقت آ گیا ہے کہ اپنی غلطی کو درست کر لیا جائے۔"
وہ بھیگے لہجے میں بولیں۔
"یہ سب ہماری غلطی کی وجہ سے ہوا شاہ گل۔۔ہمیں نہیں معلوم تھا کہ وہ اسطرح ری۔ایکٹ کریں گے۔"
عنادل شرمندہ لہجے میں بولیں۔۔باقی سب کو بھی اپنے فعل پر افسوس ہو رہا تھا۔

Mirh@_Ch
 

"شرم لحاظ سب بھول بیٹھی ہو کیا۔۔وہ تو بچیاں ہیں تم تو سمجھدار تھیں نا۔۔بےشرمی کا جامہ پہن کر مجھے لبھانے کے ارادے ترک کر دو۔آئیندہ اگر ایسی کوئی حرکت کی تو ایک سیکنڈ نہیں لگاوں گا تمھیں اپنی زندگی سے نکال باہر کرنے میں۔۔بےشرم عورت۔"
وہ اونچی آواز میں چلاتا کمرے سے نکل گیا۔بےپناہ غصے میں لاونج سے گزرتے ہوئے وہ شاہ گل اور خیرن بوا کو نہیں دیکھ پایا تھا۔باقی سب بھی ہکا بکا رہ گئیں تھیں۔جہاں کچھ دیر پہلے کھلکھلاہٹیں تھیں اب وہاں موت کی سی خاموشی چھا گئی تھی۔کسی میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ وہ روم میں جا کر ایمان کو دیکھتا۔عقیلہ بیگم کانپتی ٹانگوں سے چلتی ہوئی صوفے پہ گرنے کے سے انداز میں بیٹھ گئیں۔انھیں اندازہ نہیں تھا کہ غزنوی کے دل میں ایمان کے لئے اتنی نفرت ہے۔وہ سر پکڑ کر بیٹھ گئیں۔

Mirh@_Ch
 

ایمان نے بولی تھی۔دروازہ جیسے ہی کھلا انہوں نے ایمان کو اندر کی جانب دھکا دیا اور خود وہاں سے بھاگ گئیں۔ایمان اپنا توازن برقرار نہیں رکھ پائی اور دروازے کی دوسری جانب کھڑے غزنوی سے ٹکرا گئی۔غزنوی اس اچانک افتاد پہ حیران اسے دیکھ رہا تھا۔وہ گرنے والی تھی کہ غزنوی نے فوراً اسے سمیٹا بازوؤں میں سمیٹا۔۔اس کے بازو بھی بھیگ گئے تھے۔
اگلے ہی پل شدید غصے سے غزنوی کا چہرہ سرخ ہو چکا تھا۔
"سس۔۔سوری۔۔یہ ان سب۔۔"
اس سے پہلے کہ وہ بات مکمل کر پاتی ایک زناٹے دار تھپڑ ایمان کے نازک گال پہ اپنی چھاپ چھوڑ گیا۔جسکی آواز لاؤنج تک سنائی دی تھی۔وہ قہر بھری سرخ آنکھوں سے اسے دیکھ رہا تھا۔ایمان نیچے کارپٹ پہ گری، دائیں گال پہ رکھے اسے حیران نظروں سے دیکھ رہی تھی۔

Mirh@_Ch
 

"شش۔۔۔!!"
لاریب نے ہونٹوں پہ انگلی رکھ کر انھیں خاموش رہنے کو کہا۔وہ سب خاموش ہو گئیں۔ایمان نفی میں سر ہلانے لگی۔عنادل نے فائقہ کو دستک دینے کا اشارہ کیا۔
فائقہ نے دستک دی مگر دروازہ نہیں کھلا۔ایمان نے شکر کا سانس لیا۔
"یار وہ دروازہ نہیں کھول رہے۔۔لگتا ہے سو گئے ہیں۔"
ارفع نے آہستہ آواز میں کہا۔
"دوبارہ دو دستک۔۔"
لاریب نے فائقہ سے کہا۔فائقہ نے اس بار زور سے دستک دی۔اگلے ہی پل دروازہ کھلنے کی آواز پہ انہوں نے ایک دوسرے کو الرٹ رہنے کا اشارہ کیا۔
"نن۔۔نہ۔۔نہیں۔۔۔"

Mirh@_Ch
 

"نہیں نہیں۔۔۔"
ایمان نے اپنی حالت کے پیش نظر انھیں روکا۔
"ہاں ہاں۔۔۔"
فائقہ نے باقی سب کو آنکھ ماری۔۔ایمان کا دل کسی پتے کی مانند لرزنے لگا۔
"یار پلیز۔۔۔ایسا نہ کرو۔۔۔وہ مزید غصہ ہو جائیں گے۔"
ایمان نے انھیں سمجھانے کی کوشش کی۔
"کچھ نہیں ہوتا۔۔۔دیکھنا ان کے غصے کا پارہ کیسے نیچے آتا ہے۔تمھیں اس بھیگے بھیگے موسم میں بھیگا بھیگا دیکھکر۔"
عنادل نے کہا تو باقی سب کا قہقہ گونج گیا۔وہ سب اسے لئے روم کے دروازے تک پہنچ گئیں تھیں۔وہ اسکی ایک بات نہیں سن رہی تھیں اور اسے لگ رہا تھا جیسے اسکا سانس بند ہو جائے گا

Mirh@_Ch
 

چلو لڑکیو۔۔۔!! پلان نمبر ٹو۔۔۔"
لاریب نے نعرہ لگانے کے سے انداز میں ہاتھ بلند کیا۔
"او کے باس۔۔۔"
وہ سب ایک آواز میں بولیں اور ایمان کو پکڑے اندر جانے لگیں۔
"یہ کیا کر رہی تم لوگ۔۔"
وہ مسلسل ہنس رہی تھی۔
"ہم تمھیں ٹھنڈا ٹھار کر کے کسی کا غصہ اتارنے والے ہیں۔۔دیکھنا تمھیں یوں بھیگا بھیگا دیکھ کر سارا غصہ ہوا ہو جائے گا۔"
ارفع نے اسے اطلاع دی۔
"کیا مطلب۔۔۔؟؟"
ایمان نے کچھ سمجھنے اور کچھ ناسمجھنے کے سے انداز میں کہتے ہوئے اپنے ہاتھ جھٹکے سے ان کی گرفت سے چھڑائے تھے۔۔مگر انہوں نے پھر سے اسے قابو کر لیا۔

Mirh@_Ch
 

یہ کیا کر رہی ہو تم لوگ۔۔۔رُکو عنادل۔۔۔"
وہ دونوں ہاتھوں سے پانی کی بوچھاڑ کو روکنے کی ناکام کوشش کرتی ان کیطرف بڑھ رہی تھی۔وہ سبھی ہنس رہی تھیں۔اس بیچ وہ اچھی خاصی بھیگ چکی تھی۔
"چلو پلان کا ایک مرحلہ تو مکمل ہو گیا۔"
عنادل نے پائپ پھینک کر ہاتھ جھاڑے۔
"یہ کیا کیا ہے تم لوگوں نے بدتمیزو۔۔۔!!"
وہ اپنا بھیگا ڈوپٹہ نچوڑتے ہوئے بولی۔مسکراہٹ اسکے چہرے پر بھی اپنی چھب دکھلا رہی تھی۔وہ سب بھی ہنس رہی تھیں۔
"میں تم لوگوں کو نہیں چھوڑوں گی۔"
ایمان بھی پائپ اٹھانے کے لئے آگے بڑھی تھی مگر انھوں نے اسے پکڑ لیا تھا۔

Mirh@_Ch
 

"ان کا غصہ تو ایک ہی صورت کو دیکھکر کم ہو سکتا ہے۔"
ملائکہ نے ایمان کو دیکھا جو اس ادھیڑ بن میں تھی کہ غزنوی کیوں اتنے غصے میں ہے۔وہ سب بھی اسکا اشارہ سمجھ گئیں تھیں۔
"ہاں ٹھیک کہہ رہی ہو۔۔"
ارفع کے ذہہن میں جھماکا سا ہوا۔اس نے پودوں کو پانی دیتی عنادل کے کان میں کچھ کہا اور دونوں ایمان کیطرف شرارت سے دیکھتی ہنس دیں اور باقی سب کو بھی اشارے سے بلایا۔ایمان ان سب سے بےخبر وہیں بیٹھی اپنے اور غزنوی کے روم کی کھڑکی کو دیکھ رہی تھی۔
"آہ۔۔۔۔"
ٹھنڈے پانی کی پھوار جیسے ہی اس پر پڑی وہ اچھل کر اٹھ کھڑی ہوئی۔

Mirh@_Ch
 

بھائی غصے میں لگ رہے ہیں۔"
ملائکہ کے ساتھ ساتھ باقی سب کا بھی یہی اندازہ تھا۔چوکیدار گیٹ بند کر کے گیٹ کے قریب بنے ایک چھوٹے سے کمرے میں چلا گیا تھا۔
"اس وقت تو کبھی نہیں آتے۔۔۔آج کیسے۔۔"
ایمان نے غزنوی کو گاڑی سے نکلتے اور مین ڈور کی طرف بڑھتے دیکھ کر کہا۔
"دیکھ نہیں رہی کس قدر غصے میں ہیں۔"
فائقہ نے کہا۔
"کچھ ہوا ہو گا آفس میں۔۔۔"
"میں تو پودوں کو پانی دینے لگی ہوں۔"
"لیکن یار بھائی کا غصہ کیسے کم کیا جائے۔۔یہ تو سوچو۔۔۔"
ملائکہ اور ارفع ایک آواز میں بولیں تھیں اور پھر ایک دوسرے کو دیکھ کر کھلکھلا کر ہنس دیں۔