غزنوی بھائی نہیں جانیں دیں گے۔۔وہ پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ وہ اور ایمان عید پہ ہی آئیں گے۔"
ملائکہ نے ایمان کو شرارتی نظروں سے دیکھا۔وہ سب بھی ہنس دیں۔
"یار یہ لان کتنا خوبصورت سے نا۔۔۔"
عنادل ایک گہری سانس لیتی اٹھ کھڑی ہوئی۔موسم صبح ہی سے کافی خوشگوار تھا۔
"ہاں واقعی۔۔۔ہمارے لان سے بھی زیادہ خوبصورت یے۔"
لاریب نے عنادل کی ہاں میں ہاں ملائی۔وہ سب باتیں کر رہی تھیں کہ گاڑی کے ہارن کی آواز نے سب کی توجہ اپنی جانب کھینچی۔چوکیدار گل خان نے آگے بڑھ کر آہنی گیٹ کھولا۔۔گیٹ کھلتے ہی غزنوی کی گاڑی اچھی خاصی اسپیڈ سے پورچ میں آ رکی۔وہ سب حیرانی سے اسے دیکھ رہی تھیں۔وہ اتنی ہی تیزی سے گاڑی سے نکلا اور زوردار آواز کے ساتھ دروازہ بند کیا۔
یہ سب کیا ہو رہا ہے۔۔۔؟"
ایمان ان سب کی تلاش میں باہر آئی تو وہ سب سر جوڑے لان میں بیٹھی تھیں۔
"کچھ نہیں۔۔۔آج ہم واپس جا رہے ہیں تو اس لئے دل اداس ہے۔"
لاریب لان کی سبز گھاس پہ ہاتھ پھیرتے ہوئے اداسی سے بولی۔
"اداس تو میں بھی ہوں تم سب کے جانے سے۔"
ایمان نے ان سب کیطرف دیکھا۔۔
"کتنی رونق ہو گئی تھی تم سب کے آنے سے۔"
وہ ان کے جانے کا سن کر بہت اداس ہو گئی تھی۔عقیلہ بیگم سے اس نے کچھ دن اور رکنے کا کہا تھا مگر انہوں نے سہولت سے منع کر دیا تھا۔
"تم بھی ہمارے ساتھ چلو۔۔۔"
"ائے ہاں۔۔یہیں پڑوس میں ہی رہتی ہے۔۔اسکے گھر میں تو ہر دم چہل پہل رہتی ٹیپو کی وجہ سے۔۔بہت ہی شرارتی لونڈا ہے۔۔ایک دم آفت کا پرکالہ۔۔۔ماں کو ٹک کے بیٹھنے ہی نہیں دیتا۔"
"بچوں سے تو گھر میں رونق ہوتی ہے۔"
عقیلہ بیگم ہنستے ہوئے بولیں۔
"سہی کہہ رہی ہیں آپ عقیلہ بیگم۔۔۔اللہ ہمیں بھی یہ دن دکھائے۔۔آمین۔۔!!"
خیرن بوا نے ایمان کی جانب دیکھتے ہوئے دعا دی۔
"آمین۔۔۔!"
عقیلہ بیگم نے آمین بولا۔ان کی بات کا مقصد سمجھ کر ایمان کے حلق میں نوالا اٹک گیا۔اس نے جلدی پانی کا گلاس منہ سے لگایا۔
"میں چلتا ہوں۔۔۔۔اللہ حافظ۔۔"
غزنوی ایک گہری نظر ایمان پر ڈالتا اٹھ کھڑا ہوا۔
"اللہ حافظ بیٹا۔۔۔"
وہ مزید کھنگالنے کا ارادہ ترک کرتیں ناشتہ کرنے لگیں تو ایمان نے سکھ کا سانس لیا۔وہ جب سے آئیں تھیں اس سے کرید کرید یہی جاننے کی کوشش کر رہی تھیں کہ وہ خوش ہے۔۔غزنوی کا رویہ اسکے ساتھ کیسا ہے۔۔وہ انھیں مطمئن کرنے کی ہر کوشش کر رہی تھی مگر وہ روز کسی نئے سوال کے ساتھ اسکے سامنے موجود ہوتی تھیں اور اوپر سے خیرن بوا کی ایکسرے مشین جیسی نگاہیں۔۔۔لگتا تھا دونوں اسی ایک کام سے یہاں آئیں تھیں۔
"ائے تم لوگوں کو تو جیسے سانپ سونگھ گیا لڑکیو۔۔!"
خیرن بوا اسقدر خاموشی سے گھبرا کر بولیں۔
"خیرن بوا۔۔۔آپکی بہن کا گھر یہاں پڑوس میں ہے؟"
انہوں نے گھونٹ گھونٹ چائے پیتے ہوئے غزنوی کو دیکھا۔
"جی ہاں۔۔۔سارا اسلام آباد دکھایا۔۔۔یہاں تک بیگم صاحبہ تو اپنے میکے کی بھی سیر کر آئی ہیں۔"
وہ آملیٹ سے مکمل انصاف کرتے ہوئے بولا۔اس کے جھوٹ پہ ایمان کا منہ طرف جاتا ہاتھ رک گیا مگر پھر اگلے ہی لمحے وہ اپنے کام میں مشغول ہو گئی۔
"ایمان کیا یہ ٹھیک کہہ رہا ہے؟"
انہوں نے آج دونوں کی کلاس لینے کی ٹھان لی تھی شاید۔۔
"جی شاہ گل۔۔۔جب میں گاؤں سے واپس آئی تھی تو لے کر گئے تھے۔۔"
وہ بناء کسی کی جانب دیکھے بولی تھی۔
"ہیم۔۔۔"
"غزنوی بھائی۔۔یہ کوئی وقت ہے رو۔۔۔"
اس سے پہلے کہ عنادل اپنا جملہ مکمل کرتی، عقیلہ بیگم کی گھورتی نگاہیں اسے چپ کرا گئیں۔
"میرا مطلب ہے کہ میں آپ کے انتظار میں ناشتہ کیے بغیر ہی مر جاتی تو۔۔۔"اس نے جلدی سے بات کو بدلا۔
"تو پھر ہم بھی ناشتہ نہ کرتے اور تین دن بعد تمھاری قُل کے چاول کھاتے۔۔۔"
غزنوی نے ہنستے ہوئے اسکی طرف دیکھا جبکہ وہ روہانسی ہو گئی۔
"غزنوی۔۔۔۔!!"عقیلہ بیگم نے غزنوی کو گھوری سے نوازا۔
"سوری شاہ گل۔۔۔"وہ کانوں کو ہاتھ لگاتا ناشتے میں مصروف ہو گیا۔
"ایمان کو اسلام آباد دکھایا یا تب سے اب تک اس گھر میں ہی قید ہے؟"
ایمان ناشتہ ریڈی ہے۔۔ہم سب انتظار کر رہے ہیں۔۔غزنوی بھائی سے کہو کہ یہ رومینس بعد میں کر لیں۔"
تیزی سے سیڑھیاں اترتی وہ روم کیطرف جا رہی تھی کہ فائقہ نے کچن سے نکل کر دُہائی دی۔۔بعد میں اپنے آخری جملے پر خود ہی کھی کھی کرنے لگی۔
"آ رہے ہیں۔۔"وہ فائقہ سے کہتی کمرے میں داخل ہوگئی۔
"یہ لیں اور آ جائیں، ناشتہ ریڈی ہے۔"
ایمان نے والٹ ہاتھ میں دینے کی بجائے بیڈ پہ اسکے قریب رکھا اور جھپاک سے کمرے سے نکل گئی۔
"بہت شکریہ۔۔"
وہ والٹ اور کیز اٹھاتا اسکے پیچھے کمرے سے نکلا۔وہ دونوں کچن میں پہنچے تو وہ سب ان کے انتظار میں بیٹھے تھے۔
ملے گی ہم کو بھی اپنے نصیب کی خوشیاں
بس انتظار ہے کب یہ کمال ہونا ہے
ہر ایک شخص چلے گا ہماری راہوں پر
محبتوں میں ہمیں وہ مثال ہونا ہے
زمانہ جس کے خم و پیچ میں الجھ جائے
ہماری ذات کو ایسا سوال ہونا ہے
یقین ہے مجھ کو وہ لوٹ آئے گا
اسے بھی اپنے کیے کا ملال ہونا ہے.۔!"
دھیرے دھیرے گنگناتے ہوئے وہ ایمان کے لوٹنے کا انتظار کرنے لگا۔
غصے میں جلتی بُھنتی وہ اسٹڈی میں آئی تھی۔اندر داخل ہوتے ہی اسے ٹیبل پہ پڑی چابیاں اور والٹ دکھائی دے گیا۔ایمان نے دونوں چیزیں اٹھائیں اور باہر آ گئی۔
اسکے غصے سے لال ہوتے چہرے کو یاد کرتے ہوئے غزنوی کو کہیں پڑھی ہوئی ایک نظم یاد آئی۔
"ابھی تو عشق میں ایسا بھی حال ہونا ہے
کہ اشک روکنا تم سے محال ہونا ہے
ہر ایک لب پہ ہے میری وفا کے افسانے
تیرے ستم کو ابھی لازوال ہونا ہے
بجا کہ خار ہیں لیکن بہار کی رُت میں
یہ طے ہے اب کہ ہمیں بھی نہال ہونا ہے
ہماری روح پہ جب بھی عذاب اتریں گے
تمھاری یاد کو اس دل کی ڈھال ہونا ہے
ہلکے گلابی رنگ کے پرنٹڈ سوٹ میں وہ خود بھی گلابی گلابی لگ رہی تھی۔شیفون کا گلابی آنچل بار بار ڈھلک جاتا۔۔ایمان خود پہ اسکی نظریں محسوس کر رہی تھی۔
"کہاں ہے یہ کمبخت والٹ۔۔۔"
وہ جلد سے جلد اسکی کھوجتی نظروں دور جانا چاہتی تھی مگر والٹ مل کے ہی نہیں دے رہا تھا۔
"کہاں رکھا تھا آپ نے۔۔؟"
ایمان نے بیڈ پہ سکون سے بیٹھے غزنوی کو دیکھا۔
"کہاں۔۔۔۔؟؟ اوہ ہاں یاد آیا۔۔میں اسٹڈ میں ہی چھوڑ آیا تھا۔دیکھو ساتھ میں گاڑی کی چابیاں بھی ہوں گی۔"
وہ سوچنے کی بھرپور ایکٹنگ کرتے ہوئے بولا۔اسکی آنکھوں کی شرارت اور چہرے پر بکھرتی مسکراہٹ ایمان کو اچھا خاصا تپا گئی۔اسکا جی چاہا کہ اسکے سر پہ کچھ دے مارے، لیکن برداشت کرتی اور ایک عدد گھوری سے نوازتی کمرے سے نکل گئی۔اپنے پیچھے اسے غزنوی کا دبا دبا سا قہقہ صاف سنائی دیا۔جس سے صاف ظاہر تھا
نظریں جھکائے جھکائے وہ شرٹ بیڈ پہ رکھ ہی رہی تھی کہ غزنوی بول پڑا۔ایمان نے شرٹ اس کے حوالے کی۔
"میرا والٹ نہیں مل رہا۔۔دیکھو کہاں ہے۔"
شرٹ دے کر وہ پلٹی ہی تھی کہ ایک نیا حکم صادر ہوا۔عزنوی کے لبوں کی دبی دبی مسکراہٹ ایمان کی جھکی نظروں سے مخفی تھی۔اس نے بیڈ کے آس پاس نظر دوڑائی مگر اسے والٹ کہیں نظر نہیں آیا۔
"یہاں تو نہیں ہے۔"اس نے پلٹ کر غزنوی کو دیکھا۔
"تو ڈھونڈو۔۔۔کہاں ہے۔۔"
اس نے شرٹ کا اوپری بٹن بند کیا اور کالر ٹھیک کرتا اسکی طرف پلٹا۔وہ پھر سے سارے کمرے میں ڈھونڈنے لگی جبکہ غزنوی اسے اس کام پہ لگا کر خود آرام سے بیڈ پہ بیٹھ کر اسے والٹ کی تلاش میں کمرے میں ادھر سے ادھر چکراتا دیکھتا رہا۔
میری ریڈ شرٹ کہاں ہے؟"غزنوی نے الماری کے پٹ بند کیے۔
"یہیں ہو گی۔۔۔الماری میں۔۔"
وہ بیڈ کیطرف آئی اور کمبل طے کرنے لگی۔
"میں کیا پوچھ رہا ہوں اور تم کیا کام لے بیٹھی ہو۔"
وہ آہستہ آواز میں کہتا قریب آیا۔ایمان نے غزنوی کو قریب آتے دیکھا تو کمبل چھوڑ کر الماری کیطرف بڑھی۔الماری کھول کر دیکھا تو مطلوبہ شرٹ نچلے خانے میں پڑی تھی۔اس نے شرٹ کے مل جانے پر دل ہی دل میں شکر ادا کیا۔
"یہ رہی۔۔۔"ایمان نے شرٹ غزنوی کو دکھائی۔۔
"یہ آئرن کون کرے گا؟"غزنوی نے آنکھیں دکھائیں۔ایمان سے تو وہاں کھڑا ہونا دوبھر ہو رہا تھا۔
"میں کر دیتی ہوں۔"وہ تیزی سے کمرے سے نکلی۔۔جلدی سے شرٹ آئرن کی اور کمرے میں واپس آئی۔۔
"وہاں کہاں رکھ رہی ہو۔۔ادھر لاو۔۔۔"
"ایمان۔۔۔!!"
کمرے سے غزنوی کے پکارنے کی آواز آ رہی تھی۔وہ کچن میں ان سب کے لئے ناشتہ تیار کر رہی تھی۔آج عقیلہ بیگم اور لڑکیوں کو آئے تیسرا دن تھا۔وہ سب بھی سوائے لاریب کے کچن میں اس کی ہیلپ کر رہی تھیں۔روٹی بیل کر اس نے دائیں سے بائیں ہاتھ پہ ڈال کر مزید ہموار کی اور توے پہ ڈال کر ارفع سے خیال رکھنے کا کہتی کچن سے نکل آئی۔
"ایمان دیکھو بیٹا۔۔غزنوی بلا رہا ہے۔"
وہ لاؤنج میں آئی تو عقیلہ بیگم نے اس سے کہا۔
"جی جا رہی ہوں۔"
وہ کمرے کیطرف بڑھ گئی۔دروازے پہ دستک دیئے بغیر وہ کمرے میں آئی تھی مگر اندر آ کر اپنی اس حرکت پہ لاکھ مرتبہ پچھتائی۔غزنوی بناء شرٹ کے الماری کے پاس کھڑا تھا۔ایمان کو اندر آتے دیکھکر اب اسکا رخ اسکی جانب تھا۔ایمان نظریں جھکا گئی۔چہرے پہ غصے کے آثار تھے۔
بی بی ناشتہ ابھی بناوں یا کچھ دیر ٹھہر کر۔۔۔؟"
شاہدہ نے ایمان سے پوچھا۔
"تھوڑی دیر بعد۔۔۔پراٹھوں کے لئے آٹا گوندھ لو۔شاہ گل آپ کیا لیں گی ناشتے میں۔۔؟"
ایمان نے ساتھ ہی عقیلہ بیگم سے پوچھا۔
"کچھ بھی بنا لو بیٹا۔۔۔"وہ چائے کا کپ ٹیبل پہ رکھتے ہوئے بولیں۔
"ٹھیک ہے تم جاؤ۔۔۔میں آتی ہوں تھوڑی دیر تک۔۔"
ایمان نے شاہدہ کو جانے کا کہا۔شاہدہ سر ہلاتی وہ سے چلی گئی۔
"میں زرا دیکھ آؤں۔۔غزنوی اٹھے ہیں یا نہیں۔"
ایمان نے تسبیح کے دانے گراتی عقیلہ بیگم سے کہا اور اٹھ کھڑی ہوئی۔عقیلہ بیگم بھی سر ہلاتی اپنے کام میں مشغول ہو گئیں اور ایمان اندر کی طرف بڑھ گئی۔
🏵️
ایمان نے ٹھنڈی ہوتی چائے کا کپ لبوں سے لگایا۔۔کچھ پل یونہی خاموشی کی نظر ہو گئے۔
"یہ کون ہے۔۔۔؟"
لان کے دائیں جانب سے شاہدہ کو گھر کی طرف جاتے دیکھ کر عقیلہ بیگم نے ایمان سے پوچھا۔ایمان کی اس جانب پیٹھ تھی اس لئے وہ شاہدہ کو آتے نہیں دیکھ پائی تھی۔اس نے پلٹ کر دیکھا۔۔
"یہ ملازمہ ہے۔۔۔شاہدہ۔۔۔یہیں سرونٹ کوارٹر میں رہتی ہے۔۔۔۔شاہدہ۔۔۔!!"
ایمان نے عقیلہ بیگم کو بتاتے بتاتے شاہدہ کو بھی آواز دے ڈالی۔شاہدہ نے ایمان کے ساتھ کسی خاتون کو بیٹھے دیکھا تو تجسس بھری نظروں سے عقیلہ بیگم کو دیکھتی ان کے پاس آ گئی۔
"السلام وعلیکم۔۔!!"شاہدہ قریب آئی۔
"وعلیکم السلام۔۔۔"
عقیلہ بیگم اور ایمان نے بیک وقت جواب دیا۔
"شاہدہ یہ شاہ گل ہیں۔۔ہماری دادی۔۔۔"
ایمان نے عقیلہ بیگم کا تعارف کروایا۔
ارفع نے اسے کانوں پہ ہاتھ رکھتے دیکھ کر کہا تو وہ ہنس دی۔
"اچھا۔۔۔تم لوگ گپ شپ لگاو۔۔"وہ اٹھ کر کچن کی طرف بڑھ گئی۔
🌺
"یہ لیجئے آپ کی چائے۔۔۔"
ایمان نے چائے کا کپ عقیلہ بیگم کے ہاتھ میں تھمایا۔وہ فجر پڑھ کر باہر لان میں آ گئیں تھیں۔۔ہلکی ہلکی ہوا طبیعت پہ اچھا اثر ڈال رہی تھی۔
"شکریہ بیٹا۔۔۔وہ سب بھی اٹھیں نماز کے لئے یا نہیں؟"
عقیلہ بیگم نے تازہ ہوا میں گہرا سانس لیا۔
"جی اٹھیں تھیں۔"
ایسا لگتا تو نہیں ہے غزنوی بھائی ایمان کو ہمارے ساتھ جانے دیں گے۔۔کیوں ایمان۔۔"
ملائکہ نے ایمان کو ٹہوکا دیا۔
"ارے اگر ہماری ایمان اپنے میاں جی سے کہے گی تو کیا مجال ہے کہ میاں جی اجازت نہ دیں۔"
عنادل نے بھی شرارتی انداز میں ایمان کی طرف دیکھا۔
"تم لوگ یہ قیاس آرائیاں چھوڑو اور بتاو کھانے میں کیا کھاو گے۔۔۔کیا بناؤں تم لوگوں کے لئے؟"
وہ ان کی باتوں سے جان چھڑاتی اٹھ کھڑی ہوئی اور وہ سب بھی اب اپنی اپنی فرمائشیں بتانے لگیں تھیں۔
"حوصلہ حوصلہ لڑکیو۔۔۔!! ابھی بہت سے دن ہیں تم لوگوں کی فرمائش پوری کرنے کے لئے۔۔ابھی کے لئے میری پیاری بہنو۔۔ایک ہی فرمائیش پہ متفق ہو جاو۔"
ایمان نے ان کی فرمائشوں پہ کان بند کر لئے۔
"ارے واہ۔۔!! خود ہی تو پوچھ رہی تھی۔"
وہ جاتے جاتے پلٹ کر عقیلہ بیگم سے بولیں۔
"اچھا ٹھیک ہے۔۔۔چلو لڑکیو۔۔!! میں ذرا آرام کر لوں۔"
عقیلہ بیگم بھی اٹھ کھڑیں ہوئیں۔
"آئیے شاہ گل میں آپ کو کمرہ دکھا دیتی ہوں۔"
ایمان بھی ان کے ساتھ آگے بڑھ گئی۔عقیلہ بیگم کو کمرے میں چھوڑ کر جب وہ نیچے آئی تو وہ ساری سر جوڑے بیٹھی تھیں۔۔
"کیا تخریب کاری ہو رہی ہے۔"
وہ ان کے بیچ آ کر بیٹھ گئی۔
"ہاں۔۔ہم سوچ رہے تھے کہ تمھیں کیسے چرا کر لے جائیں کہ تمھارے میاں جی کو اسکی خبر بھی نہ ہو سکے۔"
فائقہ کی بات پر وہ صرف مسکرا کر رہ گئی۔
🍁
صبح بخیر🌹
حقیقت یہ ہے کہ انسان جتنا بھی مضوط بن جائے اس کی ذات میں کوئی نہ کوئی غم ایسا ضرور ہوتا ہے جو یاد آنے پر آنسو بن کر آنکھوں میں ٹھہر جاتا
وہ ٹرے لئے لاونج میں آئی تو عقیلہ بیگم اسکے فیور میں غزنوی سے کہہ رہی تھیں۔ایمان نے مسکراتے ہوئے سب کو چائے سرو کی۔
"اچھا شاہ گل آپ لوگ گپ شپ لگائیں۔۔میں ذرا اسٹڈی میں ہوں۔۔کل ایک بہت اہم میٹنگ ہے۔رات کے کھانے پہ ملتے ہیں۔"
چائے ختم کرتے ہی وہ اٹھ کھڑا ہوا۔عقیلہ بیگم نے سر ہلا کر اسے اجازت دی تو وہ تیزی سے سیڑھیاں چڑھ گیا۔
"ائے میں ذرا اپنی بہن سے مل آؤں۔۔"
خیرن بوا گھٹنوں پہ ہاتھ رکھتی اٹھ کھڑی ہوئیں۔
"ہاں جاو۔۔مل آو۔۔میری طرف سے بھی حال احوال پوچھ لینا۔"
عقیلہ بیگم نے خیرن کو اٹھتے دیکھکر کہا۔
"ضرور۔۔۔"
خیرن بوا دروازے کیطرف بڑھ گئیں۔
"اور ہاں۔۔۔اگر اس نے کھانے کے لئے اسرار کیا تو میرا انتظار نہ کرنا کھانے پر۔۔"
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain