شفیقہ نے ساس پین میں نل سے پانی لیتے ہوئے اسکی طرف دیکھا۔
"تم باقی کام دیکھ لو۔۔۔لاؤ۔۔"
ایمان نے اسکے ہاتھ سے ساس پین لے لیا۔
"جی ٹھیک ہے۔۔"
شفیقہ کچن سے نکل گئی۔اس نے اپنے لئے چائے بنائی اور کپ لئے حویلی کی پچھلی جانب بنے لان میں آ گئی۔شام کا وقت قریب تھا۔ہلکی ہلکی ہوا نے موسم کو کافی حد تک خوشگوار کر دیا تھا۔وہ دھیرے دھیرے چلتی پھولوں کی باڑ کے پاس بنے سنگی بینچ پر آ بیٹھی۔۔لان کے دائیں جانب بیرونی دیوار کے ساتھ بڑے بڑے پتھروں کو جوڑ کر آبشار کی طرز کا فوارہ بنایا گیا تھا۔جس سے پانی ایک تسلسل سے بہہ رہا تھا۔پانی بہنے کی آواز نے خاموشی میں ایک ہلکا سا شور پیدا کر رکھا تھا۔
گاوں آئے آج اسے چوتھا دن تھا۔اس دن کے بعد وہ دوبارہ اپنے گھر نہیں گئی تھی لیکن اگلے دن رشید خان اس سے ملنے حویلی آیا تھا۔پھر اسی رات ایمان کے بہت اسرار پر وہ رات وہیں حویلی میں رہا۔وہ تو اگلے دن بھی اسے روکنا چاہتی تھی مگر رشید خان کام کا بہانا کر کے چلا گیا تھا۔کرنے کو کچھ خاص کام نہیں تھے بس کچن میں شفیقہ کی تھوڑی مدد کر دیتی تھی۔حالانکہ ایک بندے کا کام ہی کتنا ہونا تھا۔پھر بھی شفیقہ کے لاکھ منع کرنے کے باوجود وہ اس کے ساتھ حویلی کے دیگر کاموں میں بھی لگی رہتی۔شفیقہ وہاں اکلوتی ملازمہ نہیں تھی۔دوسری دو ملازمائیں چھٹی پر تھیں۔
"تم رہنے دو۔۔۔چائے میں خود بنا لوں گی۔"
شفیقہ اسے کچن میں آتا دیکھ کر اس کے لئے چائے بنانے لگی تھی کہ اس نے منع کر دیا۔
"بی بی میں بنا دیتی ہوں۔"
جی بابا۔۔۔بہت خوش ہوں۔سب میرا بہت خیال رکھتے ہیں۔"
وہ دھیرے سے بولی۔
"اللہ تمھیں ہمیشہ خوش رکھے۔۔آمین۔۔!! چلو آؤ کھانا کھاتے ہیں۔تمھیں بھی بھوک لگ رہی ہوگی۔میں نے بھی صبح صرف ایک پیالی چائے کی پی ہے۔"
رشید خان نے اسے پلیٹ میں چٹنی نکالتے دیکھکر کہا۔ایمان نے ٹرے میں چٹنی، مچھلی اور روٹیاں رکھیں اور دونوں باپ بیٹی کچن سے باہر آ گئے۔
"بابا یہ تو بہت مزے کی ہے۔۔"
ایمان نے پہلا لقمہ منہ میں ڈالتے ساتھ ہی کہا۔مچھلی واقعی بہت ذائقے دار تھی۔کانٹے بھی کم تھے۔اسے شروع سے ہی مچھلی بہت پسند تھی۔اماں اس کے لئے کبھی کبھار گھر میں بنایا کرتی تھیں۔
"ہاں۔۔۔وہ گل شیر ہوٹل والا تھا نا۔۔۔وہی بناتا ہے اپنے ہوٹل میں۔۔سارے گاؤں کو بہت پسند ہے۔اس لئے دن بدن ترقی کر رہا ہے۔"
رشید خان نے اسے یاد دلایا۔
"جی جی۔۔۔مجھے یاد ہے۔۔"
"ہاں کہو۔۔"
وہ اسے بغور دیکھتے ہوئے بولا۔
"بابا۔۔۔جب تک میں یہاں ہوں۔آپ میرے پاس حویلی آ کر رہیں۔۔میں اکیلی ہوں وہاں۔آپ میرے ساتھ آ کر رہیں گے تو مجھے اچھا لگے گا۔"
اس نے مچھلی کا ایک ٹکڑا اٹھا بڑی محبت سے باپ کے منہ میں ڈالا۔
"رہنے تو نہیں مگر تم سے ملنے آؤں گا۔۔کتنے دن تک یہاں ہو اور تمھارا شوہر آیا ہے تمھارے ساتھ یا نہیں؟"
رشید خان غزنوی کا پوچھا۔
"انہیں بہت ضروری کام تھا اس لئے میں گل خان کاکا کے ساتھ آئی ہوں۔ایک دو دن تک وہ آئیں گے مجھے لینے۔"
غزنوی کے ذکر سے دل میں اٹھتی ٹیسوں نے اسے بےکل کر دیا۔لیکن جلد ہی خود پہ قابو پا کر بولی۔
"تم خوش ہو نا۔۔؟"
رشید خان نے اپنے منہ کیطرف بڑھتا اسکا ہاتھ بیچ میں ہی روک لیا۔
لیکن بی بی۔۔شاہ گل نے کہا تھا کہ جب تک آپ یہاں رہیں میں آپکے ساتھ رہوں۔"
شفیقہ نے اسے یاد دہانی کرائی۔
"معلوم ہے مجھے۔۔۔۔وہ میرے بابا ہیں۔مجھے ان سے کیا خطرہ ہو سکتا ہے۔۔۔تم جاؤ۔۔۔"
یہ کہہ کر وہ اٹھی اور رشید خان کیطرف بڑھ گئی۔
"کیا لائے ہیں بابا۔۔۔؟"
اس نے مسکراتے ہوئے رشید خان کے ہاتھ سے شاپر لیا۔
"مچھلی لایا ہوں۔۔۔تمھیں پسند ہے نا۔۔"
رشید خان نے اسکے سر پر ہاتھ رکھا۔اسی دوران شفیقہ خدا حافظ کہتی بیرونی دروازے سے باہر نکل گئی۔ایمان شاپر اٹھائے کچن میں آ گئی۔شفیقہ کے جانے کے بعد رشید خان نے دروزاہ بند کیا اور ایمان کے پیچھے کچن میں آ گیا۔
"بابا۔۔۔ایک بات کہوں؟"
ایمان نے تلی ہوئی مچھلی کے ٹکڑوں کو پلیٹ میں نکالتے ہوئے پوچھا۔
"ہاں۔۔لیکن میری آنکھوں کا رنگ بالکل بابا کی آنکھوں کے جیسا ہے۔"
ایمان نے اسکی طرف دیکھا۔شفیقہ نے اسکی بھوری کانچ جیسی آنکھوں میں جھانکا تھا۔
"کیسی تھیں آپکی والدہ۔۔۔۔؟"
شفیقہ بہت باتونی تھی۔۔خاموش رہنا نہیں سیکھا تھا اس نے۔۔ایک دن میں اسے کافی اندازہ ہو گیا تھا۔
"بہت اچھی۔۔بہت محبت کرنے والی تھیں میری اماں۔۔۔"
وہ کھوئے کھوئے انداز میں بولیں۔۔ماں کے ذکر پر اسکی آنکھیں نم ہو گئیں تھیں لیکن لبوں پہ مسکان لئے وہ اسے ان کے بارے میں بتانے لگی۔۔انہی باتوں میں کافی وقت بیت گیا۔رشید خان ابھی تک واپس نہیں آیا تھا۔
"بابا نے کنتا وقت لگا دیا ہے۔۔نجانے کہاں چلے گئے ہیں۔تم چلی جاؤ حویلی۔۔"
بی بی صاحب۔۔۔گھر کب جانا ہے؟"
شفیقہ نے اپنی کالی چادر سے پسینہ پونچھتے ہوئے پوچھا۔
"شفیقہ تم ایسا کرو کہ گل خان کاکا کے ساتھ گھر چلی جاؤ۔۔ظہر کے بعد ان کو بھیج دینا۔۔میں دوپہر کا کھانا بابا کے ساتھ کھاؤں گی۔"
"جی ٹھیک ہے۔۔جیسا آپ کہو۔۔لیکن جب تک وہ واپس نہیں آتے میں رکتی ہوں آپ کے پاس۔"
شفیقہ چارپائی پہ بیٹھ گئی۔
"اچھا ٹھیک ہے۔۔"
ایمان نے نیلے آسمان پہ نظر ڈالی جہاں کبوتروں کا غول گول چکر لگا رہا تھا۔گول گول چکر لگاتے کچھ دیر کے لئے وہ نظروں سے اوجھل ہو جاتے تھے۔
"بی بی صاحب آپ بالکل اپنی والدہ جیسی ہوں گی۔۔رشید خان سے تو آپکی زرا شکل نہیں ملتی۔۔"
شفیقہ اسے لگاتار آسمان کیطرف دیکھتا پا کر بغور اسکا جائزہ لیتے ہوئے بولی تاکہ ایمان اسکی طرف متوجہ ہو جائے۔
پہلے تو ایمان کے اس طرح پوچھنے پر وہ گھبرا گیا لیکن پھر اپنی گھبراہٹ پر قابو پاتے ہوئے بولا۔
"بابا۔۔۔سچ کب چھپتا ہے۔۔آپ کی اور گھر کی حالت تو کچھ اور ہی کہہ رہی ہے۔"
وہ رشید خان کیطرف بغور دیکھ رہی تھی۔
"ارے دیکھو میں تو بھول ہی گیا۔۔شادی کے بعد پہلی بار تم اپنے باپ کے گھر آئی ہو اور میں نے تمھاری کوئی خاطر مدارت بھی نہیں کی۔"
رشید خان فورا اٹھ کھڑا ہوا۔۔صاف ظاہر تھا کہ وہ اس کے سوالوں اور ٹٹولتی نظروں سے بچنا چاہ رہا تھا۔
"نہیں بابا۔۔۔میں ابھی ناشتہ کر کے آئی ہوں۔۔آپ بس میرے پاس بیٹھیں۔۔"
اس نے انھیں روکنا چاہا۔
"اچھا لیکن کھانا میرے ساتھ کھاؤ گی۔"
ایمان کتنی ہی دیر اس کے سینے سے لگی روتی رہی۔
"بس بیٹا۔۔۔بس کرو۔۔"
رشید خان نے سینے سے لگی ایمان کو خود سے الگ کیا۔
"بابا کیا میں آپکو یاد نہیں آتی تھی۔۔ایک بار بھی مجھ سے ملنے نہیں آئے؟"
ایمان نے باپ کے سینے سے لگتے ہوئے شکایت کی۔
"یاد تو آتی تھی۔۔۔لیکن بس کام کی وجہ سے ملنے نہیں آ سکا۔۔تم سناؤ خوش ہو نا۔۔؟"
رشید خان اسکے ساتھ قدم اٹھاتے ہوئے برآمدے میں بچھی اکلوتی چارپائی کی جانب آ گیا۔شفیقہ وہاں سے اٹھ کر اندر کمرے میں چلی گئی تھی۔دونوں باپ بیٹی کافی دیر تک راز ونیاز کرتے رہے۔ایمان کو ان کی حالت میں کوئی سدھار نہیں لگ رہا تھا۔
"بابا۔۔۔میں نے سنا ہے کہ آپ پھر سے بادشاہ خان کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے لگے ہیں اور اس کے جوے کے اڈے پر بھی جاتے ہیں۔"
اگلے دن وہ گل خان اور شفیقہ کے ساتھ گھر آئی تھی۔رشید خان گھر پہ موجود نہیں تھا۔۔گھر کا دروازہ کھلا تھا اور حالت بہت خراب تھی۔گل خان گھر سے کچھ فاصلے پر موجود درختوں کے سائے میں گاڑی کھڑی کیے خود بھی وہیں موجود تھا۔ایمان نے شفیقہ کے ساتھ مل کر گھر کی بکھری حالت کو سمیٹا اور رشید خان کا انتظار کرنے لگی۔تقریبا دو گھنٹے کے انتظار کے بعد رشید خان گھر میں داخل ہوا۔وہ دونوں برآمدے میں چارپائی پہ بیٹھیں تھیں۔ایمان کو والد کی یاد تو آ ہی رہی تھی مگر گھر آ کر اور گھر کی حالت دیکھ کر ماں کی یاد بھی شدت سے آنے لگی۔کام کے دوران بار بار اسکی آنکھیں بھیگ جاتیں، جنھیں وہ اپنے سفید پلو سے پونچھ ڈالتی۔
رشید خان نے جیسے ہی دروازے سے اندر قدم رکھا، وہ تیز قدموں سے اسکی طرف آئی۔رشید خان بھی اسے یوں اچانک دیکھ کر بیک وقت حیران اور خوش تھا۔
اچھا ٹھیک ہے۔۔اپنا خیال رکھنا۔۔اللہ حافظ۔"
عقیلہ بیگم نے خدا حافظ کہا تو اس نے بھی انھیں اپنا خیال رکھنے کی تاکید کرتی فون رکھ دیا۔
"یہ لیں پانی۔۔"
وہ فون رکھ کر شفیقہ کیطرف پلٹی تو اس نے پانی کا گلاس اس کی طرف بڑھایا۔
"وہ جی گل خان پوچھ رہا تھا کہ آپ آج جائیں گی اپنے والد سے ملنے یا وہ آپ کو کل لے چلے۔۔؟"
شفیقہ نے اسے گل خان کا پیغام دیا۔ایمان نے پانی کر گلاس اس کے حوالے کیا۔اس کے ذہہن میں عقیلہ بیگم کے الفاظ گونج رہے تھے۔وہ اس وجہ کو سوچ رہی تھی جس کی وجہ سے وہ اسے حویلی میں رہنے کا کہہ رہی تھیں۔
"بی بی۔۔۔آپ نے بتایا نہیں۔۔گل خان سے کیا کہوں؟"
شفیقہ نے اسے سوچوں میں گم دیکھ کر دوبارہ پوچھا۔
"آں ہاں۔۔۔آج نہیں کل جاؤں گی۔"
کیسے کر لیتی۔۔ایک تو میرے پاس موبائل فون نہیں ہے اور دوسرا گھر میں لینڈ لائن فون بھی نہیں لگا ہوا۔"
ایمان نے انھیں اپنی مجبوری بتائی۔
"ہاں غزنوی بتا رہا تھا کہ اس نے درخواست دے رکھی ہے جلد ہی لگ جائے۔ہم آئیں گے تم سے ملنے اسلام آباد۔۔بچیاں بھی کہہ رہی تھیں۔ویسے بھی اگلے ماہ سے رمضان بھی شروع ہونے والا ہے تو تم دونوں رمضان یہیں گزارو ہمارے ساتھ، پھر عید کر کے لوٹ جانا۔"
عقیلہ بیگم نے اسکی بےچینی محسوس کرتے ہوئے کہا۔
"کیا۔۔۔آپ سچ کہہ رہی ہیں؟"
وہ ان کی بات سن کر خوشی سے بولی۔
"ہاں بالکل۔۔"
وہ اسکے بچوں کے سے انداز میں پوچھنے پر مسکرا دیں۔
"سچ شاہ گل۔۔آپ نے تو میرے دل کی بات کہہ دی۔"
وہ بہت خوش تھی۔
پہلے غزنوی نے اسے حویلی میں رہنے کا کہا تھا اور اب عقیلہ بیگم بھی اس سے یہی بات کر رہی ہیں کہ ایک تو وہ وہاں قیام نہ کرے اور دوسرا شفیقہ کو ساتھ لے کر جائے۔وہ سمجھنے سے قاصر تھی کہ وہ دونوں ایسا کیوں کہہ رہے ہیں جبکہ اب تو سب ٹھیک ہو گیا ہے۔
"ٹھیک ہے شاہ گل۔۔اور آپ سنائیں باقی سب ٹھیک ہیں۔آپ سب کو لے کر آئیں نا میرے پاس اسلام آباد۔۔میں نے آپ سب کو بہت مس کیا۔"
ایمان نے ذہہن میں آتے خیالات کو جھٹکا اور ان سے سب کے متعلق پوچھنے لگی۔
"تو ایک فون کر لیتی۔۔ہمیں تھوڑی تسلی مل جاتی۔۔میں اور تمھاری ساس پریشان ہو رہے تھے۔"
عقیلہ بیگم نے تکیے سے ٹیک لگائی۔
عقیلہ بیگم نے دھیرے سے اپنی پریشانی، جو یہ سن کر کہ ایمان گاوں میں اکیلی ہے، اسکے کان میں انڈیلی۔۔جسے سن کر وہ بھی پریشان ہو گیا۔
"السلام علیکم شاہ گل۔۔۔!! آپ فکر نہ کریں۔۔گل خان کاکا وہیں ہیں۔ایمان انہی کے ساتھ گئی ہے۔میں بھی پرسوں تک چلا جاؤں گا۔وہ بہت ضد کر رہی تھی ورنہ میں ان کے ساتھ اسے نہ بھیجتا۔۔۔"
اس نے سلام کے بعد انھیں تسلی دی۔حالانکہ ان کی بات نے اسے پریشانی میں مبتلاء کر دیا تھا۔
"ٹھیک ہے بیٹا۔۔۔یاد سے چلے جانا۔۔میں بھی بات کرتی ہوں ایمان سے۔۔اللہ حافظ۔۔"
باقی کی ڈیٹیل آپ اپنی بہو کو فون کر کے اس سے لے لیں۔"غزنوی اپنے متعلق اپنی ماں کی قیاس آرائیاں سن کر غصے سے بولا۔
"تو تم ایک دن کے لئے اپنی مصروفیات کو ایک طرف نہیں رکھ سکتے تھے کیا۔۔۔معصوم بچی کو تمھارے حوالے کیا کیا تم نے تو آنکھیں ماتھے پہ ہی رکھ لیں۔"
انہوں نے اسکے غصے کی ذرا پرواہ نہ کی۔
"لاؤ دو مجھے۔۔میں خود بات کرتی ہوں۔"
عقیلہ بیگم کو ساری بات کا اندازہ ہو گیا تھا۔اس لئے انہوں نے شمائلہ بیگم کے ہاتھ سے فون لے لیا۔
"غزنوی بیٹا۔۔۔۔تم جلدی چلے جانا اسے لینے۔۔وہاں حالات نجانے کیسے ہوں۔۔تمھارے داجی بتا رہے تھے کہ ایمان کے والد کے وہی حالات ہیں۔۔جُوا کھیلنا اسکی زندگی ایک بار پھر اوڑھنا بچھونا بن گیا ہے۔۔بیٹا میں نہیں چاہتی، بلکہ تم بھی یقینا ایسا نہیں چاہو گے کہ وہ کسی مصیبت میں پھنسے۔"
ارے امی۔۔۔وہ گاؤں گئی ہے۔۔داجی سے کہا تھا اس نے کہ وہ گاؤں جانا چاہتی ہے۔میں خود ابھی آفس کے کام سے فارغ نہیں تھا اس لئے گل خان کاکا لے گئے ہیں اسے۔۔۔اگلے ہفتے میں جاؤں گا اسے لینے۔"
اس سے پہلے کہ وہ دونوں خواتین پریشان ہوتیں۔۔اس نے جلدی سے بتایا۔
"کیا۔۔۔۔؟؟ تم اس سے اتنے تنگ تھے غزنوی کہ تم نے اسے اگلے ہی دن گاؤں بھیج دیا۔۔۔شاباش بیٹا شاباش۔۔۔"
شمائلہ بیگم کا غصہ ایک بار پھر عود کر آیا۔
"یار امی۔۔۔آپ پہلے میری پوری بات تو سن لیں۔۔کیا آپ مجھے ایسا سمجھتی ہیں۔۔آپ کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ میں اتنا ظالم نہیں ہوں۔۔آپ کی بہو رانی کو ہی صبر نہیں تھا۔۔کہا بھی کہ کچھ دن انتظار کر لو، لے جاوں گا مگر نہیں۔۔بیگم صاحبہ کو کل ہی جانا تھا۔اب میں اسے ذبردستی روک تو نہیں سکتا تھا نا۔۔۔اسے جانا تھا سو چلی گئی۔
تو پھر میرا فون کیوں نہیں اٹھا رہے تھے تم۔۔۔کتنی بار کال کر چکی ہوں۔"
وہ ابھی بھی غصے میں تھیں۔
"میں روم سے باہر تھا اسلئے پتہ نہیں چل سکا۔"
اس نے فون نہ اٹھانے کی وجہ پیش کی۔
"اچھا ایمان سے میری بات کرواؤ۔۔"
اب جب کہ غزنوی سے بات ہو گئی تھی تو انہوں نے مطمئن انداز میں کہا۔
"ایمان۔۔۔۔۔امی ایمان تو یہاں نہیں ہے۔"
غزنوی نے دھیرے سے کہا۔
"وہاں نہیں ہے سے کیا مراد۔۔۔۔وہ تمھارے ساتھ نہیں ہے کیا۔۔؟"
وہ ایک بار پھر پریشانی سے بولیں۔ان کے چہرے پہ ہوائیاں اڑتے دیکھ کر عقیلہ بیگم نے بھی اپنا دل تھام لیا۔
وہ ان کے پاس آئیں اور کال ملا کر موبائل کان سے لگایا۔دوسری جانب بیل جا رہی تھی مگر غزنوی فون نہیں اٹھا رہا تھا۔انہوں نے وال کلاک کیطرف دیکھا۔رات کے آٹھ بج رہے تھے۔انہوں نے موبائل سائیڈ پہ رکھ دیا اور عقیلہ بیگم کی طرف دیکھا۔اسی دوران موبائل فون کی رنگ ٹون بجی۔شمائلہ بیگم نے اسکرین پہ نظر ڈالی تو غزنوی کا نمبر دیکھ کر جھٹ فون اٹھایا۔
"السلام علیکم امی۔۔۔کیسی ہیں آپ۔۔؟"
غزنوی ک آواز سن کر ان کے دل کو کچھ ڈھارس بندھی تھی۔
"وعلیکم السلام۔۔۔غزنوی بیٹا یہ کیا طریقہ ہے۔فون کیوں نہیں اٹھا رہے تھے۔۔تمھیں معلوم بھی ہے کہ میں اور تمھاری شاہ گل یہاں کتنے پریشان رہتے ہیں۔کم از کم ایک فون تو کر دیتے۔"
شمائلہ بیگم نے اسکی آواز سنتے ہی اسے ڈانٹا تھا۔
"ارے امی۔۔فون کیا تو تھا میں نے کہ ہم خیریت سے پہنچ گئے ہیں اور ابھی دو دن ہی ہوئے ہیں ہمیں آئے ہوئے۔۔
وہ اسکا مختصر جواب سن کر اٹھ کھڑی ہوئی۔
"کچھ بھی بنا لو۔"
ایمان کے کہنے پہ وہ سر ہلاتی کمرے سے نکل گئی۔ایمان نے چائے ختم کی اور کپ ٹیبل پہ رکھ کر لیٹ گئی۔آنکھیں موندیں تو تھکاوٹ سے چور جلتی آنکھوں کو جیسے سکون سا ملا تھا۔
❣️
"شمائلہ زرا غزنوی کو فون کرو۔۔۔پہچنے کے بعد صرف ایک ہی بار ہی فون کیا تھا اور ایمان سے تو بات ہی نہیں ہو پائی۔"
شمائلہ بیگم کمرے میں داخل ہوئیں تو عقیلہ بیگم نے جو قرآن مجید کو جزدان میں رکھ رہی تھیں ان سے کہا۔
"جی شاہ گل کرتی ہوں۔۔۔۔ابھی کچھ دیر پہلے بھی میں نے کال کی تھی مگر وہ فون نہیں اٹھا رہا اور لینڈ لائن نمبر ہے نہیں میرے پاس۔"
"بی بی۔۔۔چائے۔"
شفیقہ نے چائے کا کپ سائیڈ ٹیبل پہ رکھا۔وہ جو لیٹ رہی تھی سیدھی ہو بیٹھی۔
"بی بی۔۔گھر والے سب کیسے ہیں۔۔عقیلہ بیگم نے تو جیسے یہاں کا راستہ ہی بھولا دیا ہے ورنہ ہر مہینے داجی کے ساتھ ایک چکر ضرور لگاتی تھیں۔داجی بھی آپکے جانے کے بعد دوبارہ نہیں آئے۔"
شفیقہ نیچے کارپٹ پہ بیٹھتے ہوئے اس سے پوچھا۔
"سب ٹھیک ہیں۔۔بس گھر میں شادی تھی اس لئے سبھی مصروف تھے۔"
ایمان نے کپ اٹھاتے ہوئے مسکرا کر اس کی جانب دیکھا۔
"لو دیکھو۔۔۔مجھ بھلکڑ کو۔۔۔کیسی گزری شادی۔۔آپکا بھی تو ولیمہ ہو گا نا۔۔؟"شفیقہ نے پر تجسس انداز میں پوچھا۔
"ہاں۔۔۔"وہ مختصراً بولی۔
"اچھا بی بی آپ تھکی ہوئی ہیں آرام کریں۔۔کھانے میں کیا بنواؤں آپ کے لئے۔۔؟
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain