بی بی آپ جس وقت بھی اپنے گھر جانا چاہیں میں لے جاؤں گا آپکو۔"
یہ کہہ کر وہ پلٹ گیا جبکہ ایمان دروازہ بند کرتی بیڈ پہ آ گئی۔بیڈ پہ لیٹتے ہی اسکی نظر سامنے دیوار پہ گئی۔دیوار پہ غزنوی کی تصویریں چھوٹے بڑے خوبصورت فریمز میں سجی ہوئیں تھیں۔وہ بیڈ سے اتر کر دیوار کے پاس آئی تھی۔ایک ایک تصویر کو بغور دیکھتے ہوئے وہ ایک تصویر کے سامنے آ کر رک گئی۔اس تصویر میں غزنوی کے ساتھ کمیل بھی کھڑا تھا۔کمیل کو دیکھ کر اسکے کانوں میں غزنوی کے الفاظ گونج گئے۔دل سے ایک ٹیس سی اٹھی تھی جو اسکے مسکراتے لبوں کو سنجیدگی کے پیراہن پہ لپیٹ گئی۔وہ واپس بیڈ کی طرف آ گئی۔اسی دوران شفیقہ چائے لئے کمرے میں داخل ہوئی۔
گل خان نے ریویو مرر میں دکھتے اسکے عکس کو دیکھتے ہوئے کہا۔اتنے لمبے سفر نے واقعی اسے تھکا دیا تھا۔اس لئے وہ خاموش ہو گئی۔گاڑی طویل راہداری سے گزرتی ہوئی پورچ میں آ کر رکی۔گاڑی جیسے ہی رہی ایمان اندر کیطرف بڑھ گئی۔حویلی کی پرانی ملازمہ شفیقہ اس کے استقبال کے لئے لاونج میں ہی موجود تھی۔شفیقہ نے بہت گرم جوشی سے اسکا استقبال کیا۔
"شفیقہ بی بی۔۔۔بی بی کا سامان کون سے کمرے میں رکھنا ہے؟وہ شفیقہ سے حال چال پوچھنے لگی تھی کہ گل خان لاؤنج میں داخل ہوا۔اس نے ایمان کا سوٹ کیس اٹھا رکھا تھا۔
"کاکا یہ سامان غزنوی صاحب کے کمرے میں رکھ دو۔۔بی بی۔۔۔آپ بھی سفر کی تھکان اتار لیں۔۔میں آپ کے چائے بنواتی ہوں۔
ایمان نے بےدلی سے فون گل خان کیطرف بڑھایا۔گل خان نے فون ڈیش بورڈ پہ رکھا اور گاڑی کی سپیڈ بڑھائی۔ابھی گاوں پہنچنے کے لئے ایک گھنٹہ مزید لگنا تھا۔اس لئے ایمان ریلکیس ہو کر آنکھیں موند گئی۔اگلے ایک گھنٹے میں وہ گاوں پہنچ گئے تھے۔دھول اڑاتی گاڑی حویلی کے گیٹ کے قریب جھٹکے سے آ کر رکی۔گاڑی کے جھٹکے سے رکنے سے ایمان کی آنکھ کھل گئی۔حویلی کا چوکیدار گیٹ کھول رہا تھا۔
"کاکا آپ حویلی کیوں آئے ہیں۔۔مجھے اپنے گھر جانا ہے بابا سے ملنے۔۔"
ایمان نے حویلی میں گاڑی داخل ہوتے دیکھی تو بولی۔
"بی بی۔۔۔صاحب نے کہا تھا کہ آپکو پہلے حویلی لے جاؤں۔۔آپ تھوڑا ریسٹ کر لیں پھر میں آپکو لے جاؤں گا۔"
جو گاڑی کی پچھلی سیٹ پر بیٹھی سفر کی تھکان کے باعث اونگھ رہی تھی۔گل خان کے پکارنے پر وہ چونک کر اٹھی تھی۔
"صاحب بات کرنا چاہتے ہیں۔"
اس نے فون ایمان کو دیتے ہوئے کہا۔ایمان نے فون اس کے ہاتھ سے لے کر کان سے لگایا۔
"السلام علیکم۔۔۔!"اس نے سلام کیا۔
"وعلیکم السلام۔۔۔ایمان آپ ایک دو دن اپنے والد کی طرف گزار کر حویلی چلی جانا۔"غزنوی نے سلام کا جواب دینے کے بعد کہا۔
"مگر کیوں۔۔۔؟"ایمان نے ناپسندیدگی سے پوچھا۔
"میں نے سوال کرنے کو نہیں کہا۔۔۔جب جی چاہے چلی جایا کرنا مگر رہنا حویلی میں ہی۔۔۔"غزنوی نے یہ کہہ کر فون بند کر دیا۔
"یہ لیں کاکا۔۔"
گھر سے جاتے ہوئے غزنوی گل خان سے کہہ آیا تھا کہ وہ ایمان کو گاؤں لے جائے۔اب واپسی میں آتے ہوئے وہ یہی سوچ رہا تھا کہ ایمان جا چکی ہو گی۔اس لئے اسکا گھر جانے کو جی نہیں چاہ رہا تھا۔وہ تقریبا شام سات بجے وہاں سے روانہ ہوا تھا۔راستے میں اچانک ایک خیال آیا تو اس نے ایمان کو کال کرنے کا سوچا مگر یہ سوچ کر کہ ایمان کے پاس موبائل فون نہیں ہے، اپنی لاپروائی پہ بےحد افسوس ہوا۔گاڑی سڑک کے ایک جانب روک کر اس نے گل خان کو کال کی۔
"جی صاحب۔۔۔۔!"گل خان نے فون ریسیو کرتے ہی پوچھا۔
"کاکا زرا ایمان کو فون دیجیئے گا۔"
اس نے کہا۔۔۔گل خان نے اسکے کہنے پر فون ایمان کی جانب بڑھایا
اسی دوران ملازمہ چائے اور لوازمات کی ٹرے اٹھائے کمرے میں داخل ہوئی۔
"یہ لو آ گئی چائے۔۔۔"
کمیل نے ہنستے ہوئے کہا اور ٹرے اپنی جانب کھسکائی۔غزنوی نے بھی چائے کا کپ اٹھا لیا تھا۔بھوک تو نہیں تھی مگر چائے کی طلب ہو رہی تھی۔کمیل اسے بغور دیکھتے ہوئے گرم چائے کی چسکیاں لینے لگا۔وہ چاہتا تو کُرید کُرید کر اس سے پوچھ سکتا تھا مگر وہ چاہتا تھا کہ غزنوی خود اس سے شئیر کرے۔
❇️
غزنوی نے اس کی جانب دیکھے بغیر اس کے ہاتھ سے موبائل لے لیا۔اپنی چوری پکڑے جانے کی وجہ سے وہ اس سے نظریں نہیں ملا پایا تھا۔
"کہہ دیا ہے۔۔۔ویسے میں سیریسلی پوچھ رہا ہوں اگر کوئی بات ہے تو شئیر کر سکتے ہو۔"
کمیل نے سنجیدہ لہجے میں استفسار کیا۔
"ایسا کچھ نہیں ہے تمھیں یونہی لگ رہا ہے۔"
غزنوی اسے سنجیدہ دیکھ کر مسکرا دیا۔
"تم کہتے ہو تو مان لیتا ہوں۔۔ورنہ تمھاری شکل کی ٹیڑھی میڑھی سوئیاں تو بڑا سنجیدہ وقت دکھا رہی ہیں۔"
کمیل نے آخر میں غیر سنجیدہ رویہ اپنایا۔
"اچھا۔۔۔اور یہ چائے ہے کہ موٹا گوشت۔۔۔جو ابھی تک تیار نہیں ہوا۔"
غزنوی نے بھی اسکا دھیان اپنی طرف سے ہٹانے کے لئے غیر سنجیدہ اندر اپنایا۔کمیل اسکا بہترین دوست تھا اور وہ نہیں چاہتا تھا کہ وہ مزید سوال کرے اور وہ اس سے کچھ بھی شئیر نہ کر پائے۔
کمیل نے موبائل اس کی آنکھوں کے سامنے کر کے موبائل کی گیلری میں موجود ایک پکچر کی طرف اشارہ کیا۔غزنوی نے دیکھا اس تصویر میں وہ ایمان کی جانب مکمل توجہ اور محبت سے دیکھ رہا تھا۔تصویر بہت خوبصورت تھی۔اسے یاد آیا کہ ولیمے میں ایمان لگ ہی اتنی خوبصورت رہی تھی کہ نظر بھٹک کر وہیں چلی جاتی جہاں وہ موجود ہوتی تھی۔نجانے کس وقت کیمرہ مین نے یہ پکچر لی تھی اسے پتہ نہیں چلا تھا۔بعد میں جب غزنوی نے اس سے تمام فوٹوز لیے تو اس میں ان دونوں کی پکچرز بھی تھیں جو ان کی بےخبری میں لی گئیں تھیں۔لیکن اپنے زعم میں وہ اس قدر گم رہتا تھا کہ کبھی ان تصویروں کو دیکھا ہی نہیں تھا۔کبھی کبھی جو دل میں اک نرم گوشہ بیدار ہوتا تھا اسی کے باعث اس نے اپنی اور ایمان کی تصویریں اس سے لے لی تھی۔ابھی بھی اس نے کسی خیال میں گم گیلری کھول لی تھی۔
وہ موبائل لینے کے لیے آگے ہوا مگر کمیل نے ہاتھ پیچھے کرلیا اور موبائل سکرین کی جانب دیکھا جہاں غزنوی اور ایمان کے ولیمے کی ایک تصویر جس میں دونوں بےحد ساتھ ساتھ کھڑے تھے،ابھری ہوئی تھی۔
"آہاں۔۔۔!! تو محترم اس حالت پہ پہنچ گئے ہیں کہ بیوی گھر میں ہیں اور وہ خود باہر مجنوں بنے پھر رہے ہیں۔"
کمیل اس کی جانب دیکھ کر ہنسا تھا۔
"بکواس مت کرو۔۔۔ہر وقت فضول گوئی۔"
غزنوی نے اس کے ہاتھ سے موبائل لینا چاہا مگر کمیل ہاتھ کمر کے پیچھے لے گیا۔
"اچھا یہ تو ذرا یہ بتاؤ کہ یہ مجنوں کی کونسی قسم ہے؟"
کیا بات ہے۔۔؟ کچھ پریشان اور الجھے ہوئے دکھ رہے ہو۔"
کمیل نے اسکے ستے ستے چہرے کو بغور دیکھتے ہوئے پوچھا۔وہ اس وقت کمیل کے گھر پہ تھا۔آفس سے آف ہونے کے باعث کچھ دیر سڑکوں پہ آوارہ گردی کے بعد وہ کمیل کیطرف آ گیا تھا۔کمیل کی چھوٹی سی فیملی تھی۔وہ دو بھائی اور ایک بہن تھے۔والد حیات نہیں تھے۔۔بہن کی شادی ہو چکی تھی۔دونوں بھائی فُضیل اور کمیل اپنے والد کا بزنس سنبھال رہے تھے۔غزنوی اور اسکی دوستی ایک بزنس پارٹی میں ہوئی تھی اور شہروں کے فاصلے ہونے کے باوجود دن بدن مضبوط ہوتی جا رہی تھی۔
"کچھ نہیں۔۔۔"وہ موبائل میں گم بولا۔
"کیسے کچھ نہیں تمہیں کبھی ایسی حالت میں نہیں دیکھا یوں اداس تو تم اپنی زبردستی ہونے والی شادی پر بھی نہیں تھے کمیل اس کے ساتھ صوفے پر آکر بیٹھ گیا اور موبائل اس کے ہاتھ سے جھپٹ لیا۔
"نیند پوری نہیں ہوئی اس لیے۔۔"
ایمان کچن کیطرف بڑھ گئی جبکہ غزنوی وہیں بیٹھا رہا۔اسکی نظر اپنے ہاتھ پہ تھی جہاں ایمان کا نازک اور مہکتا لمس رہ گیا تھا۔کچھ پل یونہی گزر جانے کے بعد وہ اٹھا اور مین ڈور کیطرف بڑھ گیا۔
"آپ کا ناشتہ۔۔۔۔"
ایمان کچن سے باہر آئی تھی مگر وہ وہاں موجود نہیں تھا۔اس نے غزنوی کے کمرے کی جانب دیکھا۔۔دروازہ بند تھا لیکن ساتھ والے کمرے کا دروازہ کھلا ہوا تھا۔وہ ایک گہری سانس لیتی واپس پلٹ گئی۔
آپکو یونہی تکلیف ہو گی۔۔۔میں ان کے ساتھ چلی جاوں گی پھر آپ کو جب مناسب لگے مجھے لینے آ جائیے گا۔"
وہ دھیمے لہجے میں بولی تھی۔غزنوی کو اس کے الفاظ سن کر کچھ سکون ہوا ورنہ وہ تو یہ سوچ رہا تھا کہ اگر وہ گل خان کے ساتھ چلی گئی تو کہیں واپس آنے سے انکار نہ کر دے اور اگر وہ واپس نہ آئی تو وہ گھر والوں سے کیا کہے گا۔۔خاص طور پر داجی کا سامنا کیسے کرے گا۔۔۔مگر اب اسکے الفاظ نے اسے اس الجھن سے نکال لیا تھا۔
"بی بی صاحب۔۔! ناشتہ یہیں لے آوں؟"
اسی لمحے شاہدہ کچن سے باہر آئی۔ایمان نے پلٹ کر اسکی طرف دیکھا۔غزنوی نے فورا اسکا ہاتھ چھوڑا تھا۔
"نہیں میں وہیں آتی ہوں۔"
وہ بےچینی سے بالوں میں ہاتھ پھیرتا کہتا رہا اور وہ بناء اسکی جانب دیکھے سنتی رہی مگر کہا کچھ نہیں۔۔غزنوی نے اپنی بات کا ردعمل جاننے کے لیے اسکی جانب دیکھا۔
"ایمان۔۔۔!!"اس نے اسے اپنی جانب متوجہ کرنے کے لئے پکارا۔
"میں گاوں جانا چاہتی ہوں۔۔آپ یا مجھے خود چھوڑ آئیں یا پھر گل خان کاکا کے ساتھ بھیج دیں۔"
وہ اتنا کہہ کر اٹھ کر جانے لگی مگر اس سے پہلے کہ وہ اپنے اور غزنوی کے درمیان فاصلہ بنا پاتی غزنوی نے اسکی کلائی اپنی گرفت میں لے لی۔
"نیکسٹ ویک میں خود لے جاؤں گا۔"
وہ نرم لہجے میں بولا۔۔ایمان کی نازک کلائی پہ اسکی گرفت مضبوط تھی۔
"
ایمان جو پہلے ریلکیس انداز میں بیٹھی ہوئی تھی۔۔سیدھی ہو بیٹھی۔دونوں کے مابین فاصلہ کم تھا۔ایمان کو اسکے چہرے پہ سنجیدگی کے ساتھ ساتھ شرمندگی بھی دکھائی دے رہی تھی۔وہ اسکے بولنے کا انتظار کر رہی تھی مگر وہ بالکل خاموش تھا یوں جیسے دل ہی دل میں الفاظ ترتیب دے رہا ہو۔بالاآخر کچھ دیر بعد چپ کا کفل ٹوٹا۔
"میں بہت۔۔۔آئی ایم سوری۔۔اس کے علاؤہ میرے پاس الفاظ نہیں ہیں جو میں تم سے کہوں۔۔امید ہے کہ تم میری پہلی اور آخری خطا کو معاف کر دو گی۔"
یہی سوچ کر وہ کمرے سے باہر آیا۔۔اردگرد نظر دوڑائی تو ایمان اسے لاؤنج میں ہی نظر آ گئی۔ایمان کا دھیان اسکی جانب نہیں تھا اس نے دھیرے سے دوسرے بیڈ روم کا دروازہ ان لاکڈ کیا اور چابی پاکٹ میں رکھتا سست روی سے چلتا اسکے پاس ایا۔وہ صوفے کی پشت سے ٹیک لگائے آنکھیں موندے ہوئے تھی۔وہ نیند میں تھی یا کسی گہری سوچ میں وہ جان نہیں سکا اور نا ہی اسکی آہٹ ایمان کو متوجہ کر پائی تھی۔غزنوی نے بغور اسکی جانب دیکھا۔وہ لیمن کلر کی پرنٹڈ شرٹ اور سفید ٹراؤزر پہ سفید ڈوپٹہ سلیقے سے لیے ہوئے تھی۔پیلے رنگ میں اسکی رنگت سنہری ہوئی جا رہی تھی۔وہ اپنی نگاہوں میں اسکا سنہری روپ سموتا دھیرے سے اسکے پاس بیٹھ گیا۔ایمان نے چونک کر آنکھیں کھولیں اور اپنے دائیں جانب دیکھا۔غزنوی اپنے دونوں ہاتھوں کو آپس میں پھنسائے، نظریں جھکائے بیٹھا تھا۔چہرے کے نقوش سے سنجیدگی ٹپک رہی تھی
مگر اس وقت یہ بات ایمان کو سمجھانا اسکے بس میں نہیں تھا۔ایمان کے معصوم چہرے پہ دکھتے سوالوں کے اسکے پاس کوئی جواب نہیں تھے۔صرف اور صرف پچھتاوے تھے۔ایسا نہیں تھا کہ وہ اسے بے چینیاں سونپ کر خود سکون کی ندی میں غوطہ زن تھا۔۔۔وہ بھی بے چین تھا۔اس معاملے میں وہ ایک نتیجے پر پہنچا تھا کہ اسے ایمان سے معافی مانگنی ہے پھر وہ اسے گاؤں بھیج دے گا کیونکہ اسکے خیال میں وقت ہی اب اس معاملے پہ گرد ڈال سکتا تھ
س کی صرف ایک ضد نے اسے اس حال تک پہنچا دیا تھا کہ وہ ہر کام جسے وہ یقیناً تکلیف محسوس کرتی، وہ کرنے سے گریز نہیں کرتا تھا۔اپنی نام نہاد مردانگی نے اسے ایمان کے سامنے آنکھ اٹھا کر دیکھنے کے قابل بھی نہیں چھوڑا تھا۔ایمان کا معصوم چہرہ اسکی نگاہوں کے سامنے گھوم رہا تھا۔پچھتاوے کے ناگ اپنا پھن پھیلائے اسے ڈسنے کو تیار تھے۔وہ کہیں غائب ہو جانا چاہتا تھا۔گھر پہ رہ کر وہ اسکی سوال کرتی نظروں کا سامنا نہیں کرنا چاہتا۔اوپر سے آج سنڈے بھی تھا۔اس لئے اس نے کمیل کو فون کیا کہ اسے کچھ ڈسکشن کرنی ہے۔گھر پہ رکتا تو ایمان اسکی نظروں کے سامنے رہتی اور وہ اس وقت اسکا سامنا کرنے کی ہمت خود میں نہیں پاتا تھا۔یہ تو وہی جانتا تھا کہ وہ محبت میں ہارا تھا۔یہ پسپائی محبت نے اس کے مقدر میں لکھی تھی ورنہ وہ منہ زور خواہشات کا تابع نہیں تھا
آنکھیں جیسے ہی کمرے میں کھڑکی آتی روشنی سے مانوس ہوئیں تھیں اس نے رخ پلٹ کر اپنی دائیں جانب دیکھا۔ایمان وہاں نہیں تھی۔وہ اٹھ بیٹھا اور کچھ دیر یونہی بیڈ پہ بیٹھا رہا۔رات کا واقعہ اپنی پوری جزئیات سمیت اسکی آنکھوں کے پردے پر چلنے لگا۔اپنی کی گئی حرکت اسے بھلائے نہیں بھول رہی تھی۔انسان اپنی خواہشات کے آگے کس قدر کمزور ہے یہ اسے آئینے میں دکھتے اسکے عکس نے بتایا تھا۔اس کی ایمان سے کوئی ذاتی پرخاش نہیں تھی بیوی تھی
ایمان بلقیس بیگم کا نام سن کر مطمئن ہو گئی۔شاہدہ بھی ٹرے لے کر کچن میں جا چکی تھی۔ایمان نے وال کلاک کی جانب دیکھا۔سوئیاں آٹھ کا ہندسہ پار کر چکی تھیں۔اگلی نظر اس نے غزنوی کے روم کے بند دروازے پر ڈالی۔
"آپ کے لئے ناشتہ بنا دوں یا صاحب کے ساتھ ناشتہ کریں گی؟"شاہدہ اس سے پوچھنے کچن سے باہر آئی۔
"بنا دو۔۔"ایمان نے نظریں بند دروازے سے ہٹا کر اسے دیکھا۔شاہدہ سر ہلا کر واپس کچن میں چلی گئی جبکہ ایمان صوفے کی پشت سے سر ٹکا کر آنکھیں موند گئی۔
۔
"بی بی صاحب۔۔!!"اس نے اخبار سے سر اٹھا کر سامنے کھڑے گل خان کو دیکھا۔اسکے ہاتھ میں ٹرے تھا جس پہ سفید جالی کا کپڑا پڑا ہوا تھا۔
"جی کاکا۔۔۔۔؟"ایمان نے اخبار سائیڈ پہ رکھتے ہوئے پوچھا۔
"بی بی صاحب۔۔یہ ٹیپو دے کر گیا ہے۔۔۔کہہ رہا تھا کہ دادو نے دیا ہے۔"گل خان کاکا کے ٹیپو کا نام لینے کے باوجود ایمان اسے سوالیہ نظروں سے دیکھ رہی تھی۔
"لاؤ کاکا مجھے دے دو۔۔"
گل خان اسے مزید بتانے ہی لگا تھا کہ اتنے میں شاہدہ کچن سے باہر آ گئی اور آگے بڑھ کر گل خان سے ٹرے لے لی۔گل خان واپس چلا گیا۔شاہدہ نے ایمان کو بتایا کہ ٹیپو ان کا پڑوسی ہے اور بلقیس بیگم کا پوتا ہے اور یہ کہ وہ اکثر غزنوی کے لئے ناشتہ بھجواتی
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain