Damadam.pk
Mirh@_Ch's posts | Damadam

Mirh@_Ch's posts:

Mirh@_Ch
 

"تین۔۔۔ایک لڑکی اور دو لڑکے ہیں۔لڑکے دونوں اسکول جاتے ہیں اور لڑکی ابھی دو سال کی ہے۔جب تک میں یہاں کام کرتی ہوں اسے باپ سنبھالتا ہے۔"
وہ بڑے شوق سے بتانے لگی۔ایمان کو اسکے چہرے پہ تمانیت بھری مسکراہٹ دکھائی دے رہی تھی۔
"تمھارا شوہر خیال رکھتا ہے تمھارا؟"
ایمان نے نجانے کیوں یہ سوال پوچھ لیا۔
"بس بی بی جی۔۔۔سکون سے زندگی گزر رہی ہے اور کیا چاہیئے۔۔"وہ دونوں کچن میں داخل ہو گئیں۔
"ہاں سکون۔۔۔زندگی میں سکون ہے تو اور کیا چاہیئے۔"
وہ دھیرے سے بولتی ناشتہ بنانے کا کہتی باہر آ گئی۔
کمرے کا دروازہ تو لاکڈ تھا اس لئے وہ لاونج میں آ گئی۔اس دوران گل خان کاکا ہاتھ میں اخبار لئے لاونج میں داخل ہوا اور سلام کے بعد اخبار ٹیبل پہ رکھ کر وہاں سے چلا گیا۔ایمان اخبار اٹھا کر دیکھنے لگی۔

Mirh@_Ch
 

"السلام علیکم بی بی صاحب۔۔"
ابھی وہ لاؤنج میں داخل ہوئی ہی تھی کہ پیچھے سے شاہدہ کی آواز آئی۔
"وعلیکم السلام۔۔"ایمان نے پلٹ کر سلام کا جواب دیا۔
"آپ اتنی جلدی اٹھ گئیں آج۔۔؟"شاہدہ نے اسکے ساتھ چلتے چلتے پوچھا۔"میں روز ہی جلدی اٹھتی ہوں۔۔تم آج جلدی آ گئیں۔"ایمان نے اسکی جانب دیکھا۔
"جی بس بچوں کی آج چھٹی تھی سکول سے تو وہ اس خوشی میں جلدی اٹھ گئے تھے۔ورنہ روز تو اسکول جانے کے لئے اٹھتے ہوئے اتنا تنگ کرتے ہیں کہ بس۔۔ابھی انہیں ناشتہ بنا کر دیا تو سوچا وقت پہ کام بھی ختم کر لوں۔یہ کپ مجھے دے دیں۔"شاہدہ نے کپ لینے کے لئے ہاتھ اسکی طرف بڑھایا۔
"کتنے بچے ہیں تمھارے؟"ایمان نے کپ اسکے ہاتھ میں دیتے ہوئے پوچھا۔

Mirh@_Ch
 

اعظم ولا کا لان بھی بہت ہرا بھرا تھا۔مالی بابا بہت خیال رکھتے تھے۔شام کی چائے اعظم احمد اور عقیلہ بیگم لان میں ہی پیتے تھے۔اس کا وقت بھی ان کے ساتھ گزرتا تھا۔شاہدہ نے اسے بتایا تھا کہ اس کا شوہر یہاں مالی کا کام کرتا ہے اور وہ اس بنگلے کے سرونٹ کوارٹر میں رہتی ہے۔سرونٹ کوارٹر کی تلاش میں اس نے نظریں گھمائیں۔لان کے پچھلی جانب اسے لکڑی کا ایک چھوٹا سا دروازہ دکھائی دیا۔یہ دروازہ بنگلے کے بائیں جانب دیوار سے ملحق تھا۔ساری دیوار بوگن ویلیاء سے ڈھکی ہوئی تھی۔اس کی چائے بھی ختم ہو گئی تھی۔اس نے کپ سفید کین کی ٹیبل پر رکھا اور لان کے بائیں جانب آ گئی۔سورج کی کرنیں درختوں سے چھن چھن کر دیوار پہ پڑ رہی تھیں۔وہ دروازے کے قریب آ گئی۔دروازے کا رنگ ہلکا نیلا تھا۔ایمان نے دروازے پہ ہاتھ رکھا۔۔۔دروازہ اندر سے بند تھا۔وہ وہیں سے واپس مڑ گئی۔

Mirh@_Ch
 

اپنی محبت کے اس طرح پیروں تلے روندے جانے پر اسکے دل کا درد بڑھ گیا تھا۔چہرہ آنسوؤں سے تر ہونے لگا تھا۔
"یا اللہ۔۔تُو تو دلوں کے بھید جانتا ہے۔میرے دل کو سکون عطا کر۔۔مجھے اس تکلیف سے نجات دے۔۔"
دونوں ہاتھوں سے چہرہ چھپائے وہ بے آواز رو دی تھی۔۔۔رونے سے دل کا بوجھ تھوڑا ہلکا ہوا تو وہ جائے نماز لپیٹتی اٹھ کھڑی ہوئی۔اس نے جائے نماز صوفے پہ رکھی اور کمرے سے باہر نکل آئی۔
ابھی شاہدہ کے آنے میں وقت تھا۔اس لئے وہ کچن میں آ گئی۔اپنے لئے ایک کپ چائے بنائی اور لاونج میں آ گئی۔صوفے پہ بیٹھ کر دھیرے دھیرے چائے پینے لگی۔یہاں موجود خاموشی سے اسے الجھن ہونے لگی۔وہ جس گھر سے آئی تھی وہاں تو ہر وقت چہل پہل رہتی تھی اور یہاں دن رات گہری خاموشی کا سامنا۔۔۔اسے یوں محسوس ہونے لگا جیسے وہ کسی کھائی میں رہ رہی ہو۔جہاں صرف اپنی ہی آواز کی گونج سنائی دیتی ہو۔

Mirh@_Ch
 

روز کیطرح اسکی آنکھ فجر کے وقت کھل گئی تھی۔تکیے کے پاس رکھا ڈوپٹہ اٹھا کر اوڑھا اور سائیڈ پہ لیٹے غزنوی پر ایک بھی نظر ڈالے بغیر وہ بیڈ سے اتری۔۔۔نماز کا وقت تھا اس نے وضو کیا اور نماز ادا کی۔کتنی ہی دیر وہ جائے نماز پہ ہی بیٹھی رہی۔اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ خدا سے اپنے لئے کیا مانگے۔۔۔دونوں ہاتھ دعا کے لئے اٹھائے وہ خالی خالی نظروں سے اپنے ہاتھوں کی لکیروں کو دیکھ رہی تھی۔اپنی ذات کے استحصال نے اسکی آنکھوں میں ڈولتی محبت کو تکلیف کے گہرے پانیوں میں ڈبو دیا تھا۔وہ تو اپنی زندگی میں موجود اس شخص سے صرف اور صرف محبت کی خواستگار تھی۔یہ کب چاہا تھا کہ وہ اپنا آپ یوں اس پہ مسلط کر دے کہ وہ گھٹن محسوس کرنے لگے۔۔اسکا دم گھٹنے لگا۔۔

Mirh@_Ch
 

۔وہ کچھ لمحے اسے یونہی دیکھتا رہا اور پھر رخ پھیر کر لیٹ گیا جبکہ ایمان یونہی کھڑی رہی۔۔اس سے ایک قدم بھی نہ لیا گیا یوں جیسے زمین نے اسکے قدموں کو مضبوطی سے جکڑ لیا ہو۔
"اب کیا یونہی میرے سر پہ کھڑی رہو گی۔۔دروازہ بند کرو اور آ کر سو جاؤ۔۔اس بارے میں صبح بات کریں گے۔"
ایمان نے پلٹ کر اسے دیکھا اور قدر سخت لہجے میں بولا۔
"میں کہاں سوؤں۔۔۔یہاں اس صوفے پر۔۔یہ تو چھوٹا ہے۔"
ایمان نے پریشان چہرہ لئے دائیں طرف رکھے سنگل صوفے کیطرف اشارہ کیا۔
"یہاں بیڈ پہ آ جاؤ۔۔۔"
وہ سادہ سے لہجے میں کہتا ایک بار پھر رخ پھیر گیا اور ایمان کا رنگ اڑ گیا۔مرتا کیا نہ کرتا کے مصادق اس دروازہ بند کیا اور لائٹ آف کرتی بیڈ کی طرف آ گئی۔نائٹ بلب کی روشنی میں اس نے غزنوی کو دوسری جانب رخ کرتے دیکھا۔
"جلاد۔۔۔"
وہ دھیرے سے بڑبڑائی ا

Mirh@_Ch
 

وہ یہ سوچنا بھی نہیں چاہتی تھی کہ یہ شرارت غزنوی کی ہے مگر سچ یہی تھا وہ دروازہ لاکڈ کر گیا تھا۔۔مگر کیوں۔۔۔یہ سوچنا بھی اسکے لیے محال ہو رہا تھا۔
وہ غزنوی کے روم میں آ گئی۔
"وہ کمرے کا دروازہ لاکڈ ہو گیا ہے۔"
وہ بیڈ پہ نیم دراز موبائل میں مصروف تھا۔
"کون سے کمرے کا۔۔؟"غزنوی نے پوچھا۔
"ساتھ والے روم کا۔"وہ بیڈ کے قریب آئی۔
"اچھا وہ۔۔۔میں نے لاکڈ کیا ہے۔"غزنوی نے اسکے سر پہ بم پھوڑا۔۔"آپ نے۔۔۔؟؟ مگر کیوں۔۔۔؟"ایمان کا وجود زلزلوں کی زد میں تھا۔
"زیادہ سوال مت کرو۔۔۔دروازہ اور لائٹ بند کرو اور سو جاؤ میری پیاری بیوی۔"وہ موبائل سائیڈ ٹیبل پر رکھتا اس پہ یوں نظریں جمائے ہوئے تھا کہ ایمان کی ریڑھ کی ہڈی میں کرنٹ سا دوڑ گیا۔

Mirh@_Ch
 

غزنوی نے اسکی کلائی چھوڑ دی اور سیدھا ہو کر اپنی پلیٹ میں چاول نکالنے لگا۔اس کی دھمکی کارگر ثابت ہوئی تھی۔ایمان بھی کرسی کھینچ کر بیٹھ گئی اور تھوڑے سے چاول اپنی پلیٹ میں نکالے۔غزنوی رغبت سے کھانا کھا رہا تھا جبکہ ایمان اچاٹ دل سے کھا رہی تھی۔تھوڑی دیر بعد وہ کھانا کھا کر کمرے میں چلا گیا اور ایمان نے برتن سمیٹ کر دھوئے اور لائٹ آف کرتی اپنے کمرے کی جانب آ گئی۔غزنوی کے روم کا دروازہ بند تھا۔اس نے ساتھ والے کمرے کا دروازہ کھولنا چاہا تو دروازہ بند تھا۔اس نے ایک بار پھر کوشش کی مگر دروازہ لاکڈ تھا۔کچھ دیر ناب گھما گھما کر وہ کھولنے کی کوشش کرتی رہی مگر دروازہ کھلنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا کیونکہ دروازہ واقعی لاکڈ تھا۔وہ حیران ہونے کے ساتھ ساتھ پریشان بھی ہو گئی۔
"یہ تو اب تک کھلا ہوا تھا۔۔لاکڈ کیسے ہو گیا۔"

Mirh@_Ch
 

کھانا نہیں کھانا۔۔۔؟"وہ اسکی جانب دیکھے پوچھ رہا تھا۔ایمان کی کلائی اسکی گرفت میں تھی۔
"مجھے بھوک نہیں ہے۔۔"
جھٹکے سے رکنے کی وجہ سے ایمان کا ڈوپٹہ ڈھلک کر غزنوی کے ہاتھ پہ آ رہا تھا۔ایمان کی صراحی دار گردن اسکے سامنے تھی۔گلابی لب سختی سے باہم ملے ہوئے تھے۔بھوری آنکھوں کی سرخی بڑھ گئی تھی۔ایمان نے اسکی خود پہ بھاگتی دوڑتی نظروں کو محسوس کرتے ہوئے فورا ڈوپٹہ درست کیا۔
"بیٹھ کر کھانا کھاؤ۔۔۔ورنہ بھول جاؤ کہ میں تمھیں گاؤں جانے دوں گا۔"

Mirh@_Ch
 

یہ سوچ کر اسے بہت دکھ ہو رہا تھا کہ جب وہ اپنی الماری میں اسکے کپڑے تک برداشت نہیں کر رہا تھا تو اپنے گھر میں اسکا وجود کیسے برداشت کر رہا ہو گا۔
"کھانا ملے گا بھی یا نہیں۔۔؟"
غزنوی کی آواز نے اسے چونکا دیا۔وہ اپنے خیالوں میں اتنی گم تھی کہ اسکے آنے کا علم ہی نہ ہو سکا۔اس نے پلٹ کر دیکھا تو وہ کرسی پہ بیٹھا ویٹ کر رہا تھا۔
غزنوی کو وہاں بیٹھے پانچ منٹ سے زیادہ ہو گئے تھے۔وہ چولھے کے پاس کھڑی تھی اس لئے وہ سمجھا کہ وہ کھانا گرم کر رہی ہے مگر جب وقت گزرنے لگا تو اسے ایمان کو متوجہ کرنا پڑا۔
"لا رہی ہوں۔۔۔"ایمان نے جلدی سے ڈش میں بریانی نکالی اور ڈش اٹھائے ڈائننگ ٹیبل کی جانب آ گئی۔ڈش اس نے غزنوی کے سامنے رکھی اور خود پلٹ کر جانے لگی تھی کہ غزنوی نے اسے روک لیا۔

Mirh@_Ch
 

غزنوی نے نرمی سے کہتے ہوئے سوٹ کیس اٹھا کر وہیں ایک طرف رکھ دیا۔ایمان نے وال کلاک پر نظر ڈالی اور خاموشی سے کمرے سے نکل گئی۔کھانا تو تقریبا گرم تھا مگر پھر بھی اس نے دھیمی آنچ پہ گرم ہونے کے لئے رکھ دیا۔اسی دوران ڈائننگ ٹیبل پہ برتن رکھے اور فریج سے ٹھنڈے پانی کی بوتل اور رائتہ نکال کر ٹیبل پہ رکھا۔پتہ نہیں وہ کیوں اسقدر غصے میں ہو گئی تھی حالانکہ تنگ کرنے کا پلان تو اسکا تھا۔جب وہ جانتی تھی کہ وہ بھڑک جائے گا تو پھر اتنا دکھ کیوں ہوا تھا۔
"شاید میں دل ہی دل میں اس شخص سے نرمی کا سلوک چاہتی تھی۔اسکی نظروں میں اپنی اہمیت ڈھونڈنا چاہتی تھی۔"

Mirh@_Ch
 

غزنوی نے اسے بغور دیکھا۔وہ گلابی رنگ کی پُھولدار قمیص اور سفید شلوار پہ سفید ڈوپٹہ سلیقے سے اوڑھے ہوئے تھی۔چہرے پہ کچھ دیر پہلے دکھنے والی مسکراہٹ کی جگہ اب سنجیدگی نے لے چکی تھی۔
"مجھے نہیں جانا آپ کے ساتھ۔۔آپ اپنا کام مکمل کیجیئے۔۔میں چلی جاوں گی۔"
سارے کپڑے سوٹ کیس میں اڑستی اس نے بیگ کی زپ بند کی۔
"ٹھیک ہے۔۔۔ابھی تو وقت نہیں ہے اور نا ہی رات کا سفر مناسب۔۔۔کل صبح گل خان کاکا لے جائے گا تمھیں۔ابھی مجھے بھوک لگی ہے۔۔تم کھانا گرم کرو، میں وہیں آ رہا ہوں۔"

Mirh@_Ch
 

"میرا سوٹ کیس۔۔۔؟"
اس سے پہلے کہ وہ کمرے سے باہر نکلتا ایمان تیزی سے کمرے میں داخل ہوئی اور اپنا سوٹ کیس اٹھانے کے لئے آگے بڑھی جو الماری کے سائیڈ پہ دیوار کے ساتھ رکھا ہوا تھا۔غزنوی وہیں کھڑا اسکے چہرے کے تاثرات دیکھ رہا تھا۔ایمان نے سوٹ کیس اٹھایا اور جس تیزی سے کمرے میں آئی تھی اسی تیزی سے واپس چلی گئی۔غزنوی اسکے پیچھے آیا تھا۔
"یہ کیا کر رہی ہو۔۔۔؟"
ایمان کو سوٹ کیس میں اپنے کپڑے رکھتے دیکھکر غزنوی نے قریب آتے ہوئے پوچھا۔
"میں گاوں جانا چاہتی ہوں۔۔آپ مجھے گل خان کاکا کے ساتھ گاوں بھجوا دیں۔"
سادہ سے لہجے میں کہتی وہ کپڑے سوٹ کیس میں تقریبا پٹخ رہی تھی۔
"کیوں۔۔۔؟؟ جب میں نے کہا تھا کہ دو ہفتے ویٹ کرو۔۔میں لے جاوں گا تو پھر۔۔۔"

Mirh@_Ch
 

تھوڑی دیر پہلے وہ بےخوف ہو کر اس سے بات کر رہی تھی مگر اب اسے اسطرح سوال و جواب کرتا دیکھ کر وہ کنفیوز ہو گئی۔
"آپ کا ہر کام میں کرتی ہوں۔۔اور کیسا ہوتا ہے بیوی کا فرض۔۔۔آپکی ہر بات برداشت کرتی ہوں، خاموشی سے آپکی ہر جلی کٹی سنتی ہوں۔۔آپکی لاپروائی چپ چاپ سہتی ہوں۔۔جو کہتے ہیں مانتی اور کرتی ہوں۔کبھی آپکے رویے کی شکایت نہیں کی۔۔اور کیا کروں۔۔؟؟ اور کیا آپ نے اب تک بیوی کے فرائض پورے کیے ہیں جو مجھ سے یہ سوال کر رہے ہیں۔جب سے شادی ہوئی ہے میری ضرورتوں کا خیال تو کیا رکھنا مجھ سے ٹھیک سے بات تک نہیں کرتے آپ۔۔"
گلوں گیر لہجے میں کہتی وہ وہاں مزید نہیں رکی جبکہ غزنوی چاہ کر بھی اسے روک نہ پایا۔اسے ایمان کا رونا تکلیف دے رہا تھا۔وہ تو صرف اسے تنگ کر رہا تھا۔
"مجھے اس سے بات کرنی چاہیئے۔"وہ خود سے کہتا دروازے کی سمت بڑھا۔

Mirh@_Ch
 

میں بیوی ہوں آپکی۔۔اس کمرے پہ اور یہاں موجود ہر اک شے پہ میرا بھی اتنا ہی حق ہے جتنا کہ آپکا۔۔پھر یہ سوال۔۔چِہ معنی۔۔؟؟"ایمان نے جوابی وار کیا۔اسکی بات سے غزنوی کی آنکھیں حیرانی سے مزید پھیل گئیں۔
"آہاں۔۔۔!! بیوی ہو میری۔۔؟؟ محترمہ بیوی صاحبہ بیوی ہونے کے کون سے فرائض آپ نے نبھائے ہیں؟"
وہ اسکی آنکھوں میں جھانکتا معنی خیز سوال کر گیا۔ایمان نے اس کی آنکھوں میں دکھتے سوال کا مفہوم جان کر نظریں پھیر لیں۔
"یوں نظریں پھیر لینے سے میرے سوال کا جواب نہیں مل جائے گا۔۔بتانا پسند کریں گی کہ کون سے فرائض پورے کیے ہیں آپ نے۔۔

Mirh@_Ch
 

یہ کیا کیا آپ نے۔۔۔میرے سارے کپڑے خراب کر دیئے۔"
وہ ٹرے ٹیبل پہ رکھتی بیڈ کیطرف آئی اور سب سے اوپر پڑا سوٹ اٹھا کر ٹھیک سے بیڈ پہ رکھا۔ایک ایک کر کے باقی بھی اٹھانے لگی تھی۔
"تمھاری ہمت کیسے ہوئی اور کس سے پوچھ کر تم نے اپنے کپڑے میری الماری میں رکھے۔"وہ اسکی بات کو اگنور کرتے ہوئے غصیلے لہجے میں کہتا اسکے قریب آیا۔
"یہ صرف آپ کا کمرہ نہیں ہے۔۔میرا بھی ہے۔"
ایمان نے سنجیدہ لہجے میں کہا۔
"اوہ۔۔۔!! کس حق سے۔۔؟"وہ دونوں ہاتھ کمر پہ رکھے اسکے سامنے آ کھڑا ہوا۔

Mirh@_Ch
 

وہ جیسے ہی کمرے میں داخل ہوئی غزنوی اس پہ برس پڑا۔ایمان نے دیکھا کہ بیڈ پہ اسکے کپڑوں کا ڈھیر پڑا ہے۔
"یعنی وقت آ گیا، جس کا وہ انتظار کر رہی تھی۔"
ایمان نے لبوں پہ کِھلنے والی مسکراہٹ کو دبا کر سوچا۔اسے تنگ کرنے اور چڑانے کا ایک موقع آج اسے بھی ملا تھا تو اس موقع کو وہ ہاتھ سے کیسے جانے دیتی۔وہ اسے ذبردستی اپنے ساتھ اسلام آباد لے آیا تھا جبکہ وہ گاوں جانا چاہتی تھی۔جانتی تھی کہ اپنی الماری میں اسکے کپڑے دیکھ کر وہ بھڑک جائے گا اور ایسا ہی ہوا تھا مگر اسے اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ وہ اسکی چیزوں کا یہ حال کرے گا۔۔یہ دیکھ کر اسے بہت دکھ ہوا تھا۔بات کپڑوں کی حد تک ہوتی تو ٹھیک تھا مگر وہ اسکی ذات سے اسقدر نفرت کرتا تھا کہ اسکی چیزیں بھی اسکی برداشت سے باہر تھیں۔
"

Mirh@_Ch
 

"یہ لیں۔۔۔"اس نے باول ایمان کی طرف بڑھایا۔تب تک وہ چائے بنا چکی تھی۔ایمان نے اسکے ہاتھ سے باول لے لیا۔چولھا بند کر کے اس نے باول میں بریانی نکالی۔
"یہ تمھارے لئے۔۔۔"
ایمان نے باول پہ ڈھکن لگا کر باول رشیدہ کی طرف بڑھایا۔
"بہت شکریہ بی بی۔۔"
رشیدہ نے شکریہ ادا کرتے ہوئے باول اسکے ہاتھ سے لے لیا اور دعائیں دیتی وہاں سے چلی گئی۔اس کے جانے کے بعد ایمان نے کپ میں چائے ڈالی اور غزنوی کے کمرے میں آ گئی۔
"یہ تمھارے کپڑے میری الماری میں کیا کر رہے ہیں۔"

Mirh@_Ch
 

"ایمان۔۔۔!!"
غزنوی کچن کے دروازے میں کھڑا تھا۔ایمان جو برنر کے پاس کھڑی تھی، پلٹ کر دروازے کی سمت دیکھا۔
"جی۔۔۔؟؟"
ایمان کے لہجے اور نگاہوں میں حیرت نمایاں تھی۔غزنوی نے کبھی اسے اس طرح نہیں پکارا تھا بلکہ وہ تو ایمان کو مخاطب کرنے سے بھی گریز کرتا تھا۔
"ایک کپ چائے روم میں بھجوا دو۔۔میں روم میں ہوں۔۔"
ایمان کی آنکھوں میں دِکھتی حیرت بھانپ کر وہ پلٹ گیا۔اس کے جانے کے بعد ایمان نے چائے کا پانی رکھا۔
"بی بی صاحب۔۔!! میرا کام ختم ہو گیا ہے۔۔اگر کوئی اور کام نہیں ہے تو میں چلی جاؤں۔۔؟؟"
رشیدہ نے چائے کی پتی اسکے سامنے سلیب پہ رکھتے ہوئے پوچھا۔
"ہاں چلی جاو۔۔۔مگر جانے سے پہلے زرا مجھے وہ گرین باول پکڑانا۔"ایمان نے کھولتے پانی میں چائے کی پتی ڈالی۔رشیدہ سر ہلاتی باول لے آئی۔

Mirh@_Ch
 

پانی۔۔۔۔"ایمان نے گلاس اسکی آنکھوں کے آگے کیا تاکہ غزنوی کی توجہ اس سے ہٹے اور ایسا ہی ہوا۔۔غزنوی نے خاموشی سے گلاس اسکے ہاتھ سے لے لیا۔جب تک اس نے پانی پیا وہ وہیں کھڑی رہی۔
"کچھ اور لیں گے آپ۔۔؟؟ چائے بنا دوں۔۔؟"
ایمان نے خالی گلاس لینے کے لیے ہاتھ بڑھاتے ہوئے ہوچھا۔
"اِسے کیا ہو گیا۔۔جادوگرنی جادو کی ڈوز بڑھانے والی ہے کیا۔"غزنوی سیدھا ہو بیٹھا۔
"شاہدہ بی بی کہاں ہے۔۔؟"غزنوی نے آس پاس نظر دوڑاتے ہوئے پوچھا۔
"وہ کچن میں ہے۔"
وہ مختصر جواب دے کر پلٹ گئی۔۔اس کے جانے کے بعد وہ ایک گہری سانس خارج کرتا اٹھ کھڑا ہوا۔اپنے کمرے کی طرف اسکے بڑھتے قدم کچھ سوچ کر وہیں تھم گئے۔وہ پلٹ کر کچن کیطرف آیا۔ایمان کچن میں ہی تھی۔