Damadam.pk
Mirh@_Ch's posts | Damadam

Mirh@_Ch's posts:

Mirh@_Ch
 

شام کے ساڑھے سات بج رہے تھے جب وہ تھکاوٹ سے چُور گھر میں داخل ہوا۔سستی سے چلتا وہ لاؤنج میں صوفے پہ ڈھے گیا۔ہاتھ میں پکڑی فائلز اور اپنا لیپ ٹاپ اس نے ٹیبل پہ رکھ دیا۔کچن سے آتی کھٹ پٹ کی آوازیں اس کے کانوں تک بھی پہنچ رہی تھیں۔
"شاہدہ بی بی۔۔ایک گلاس پانی لانا۔"
اس نے وہیں سے بلند آواز میں شاہدہ کو پکارا۔
"یہ لیں۔۔۔"
ایک مانوس سے آواز اسکے کانوں سے ٹکرائی۔وہ جو آنکھیں بند کیے بیٹھا تھا، پٹ سے آنکھیں کھول کر اسے دیکھا۔ایمان پانی کا گلاس ہاتھ لئے اسکی جانب دیکھ رہی تھی۔آج کے اس قدر ٹف دن کے باعث وہ اسے بھول ہی گیا تھا۔کل شام یہاں آنے کے بعد سے وہ اسے اب دیکھ رہا تھا۔اسے یاد آیا کہ رات وہ روم میں بھی نہیں تھی۔یک ٹک اسے اپنی جانب دیکھتا پا کر ایمان کنفیوز ہو گئی۔

Mirh@_Ch
 

یاد آنے پر اس نے کچن سے باہر نکلتی رشیدہ سے پوچھا۔
"جی بی بی صاحب کر دی تھی۔اس کے لئے علاوہ کوئی اور کام ہو تو بتا دیں۔۔آپ کا سامان ترتیب سے رکھ دوں؟"
اس کی بات سن کر فریج کی طرف بڑھتی ایمان نے ذہہن میں ایک چنگاری سی جلی۔۔
"ہاں کر دو۔۔صاحب کے کپڑے تو میں نے لگا دیئے ہیں تم میرے کپڑے الماری میں ترتیب سے لگا دو۔"
ایمان نے لبوں پہ در آنے والی شرارتی مسکراہٹ کو روکتے ہوئے رشیدہ کی طرف دیکھا۔
"ابھی کر دیتی ہوں۔۔"
وہ کچن سے نکل گئی۔۔جبکہ ایمان رائتہ بنانے لگی۔
"الماری میں اپنے کپڑوں کے ساتھ ساتھ میرے کپڑے دیکھ کر صاحب بہادر کی شکل دیکھنے والی ہو گی۔"
وہ دل ہی دل میں سوچتی مسکرا رہی تھی۔

Mirh@_Ch
 

فریش ہو کر باہر آئی تو اپنا سامان کسی اور وقت پہ درست کرنے کا ارادہ کرتی روم سے باہر آ گئی۔ویسے بھی وہ جانتی تھی کہ اسے اس کمرے میں ایک صوفے تک پہ جگہ نہیں ملنے والی اس لئے کچن میں آ گئی۔رشیدہ کچن میں ہی تھی۔
"بی بی صاحب۔۔۔چاول دم پہ رکھ دئیے ہیں بس صرف رائتہ بنانا رہ گیا ہے۔"
رشیدہ نے اسے آتے دیکھ کر کہا۔
"ٹھیک ہے تم رہنے دو۔۔۔رائتہ میں خود بنا لوں گی۔"
ایمان نے آنچ دھیمی کی۔
"جی۔۔۔"
تمنا ہاتھ دھونے کے لیے سنک کی طرف بڑھ گئی۔
"سنو۔۔۔!! تم نے وہ دوسرے والے بیڈ روم کی صفائی کر دی ہے یا نہیں

Mirh@_Ch
 

۔"
وہ اس سے کہتی غزنوی کے روم میں آ گئی۔۔گرے اور پرپل کلر پورے کمرے میں نمایاں تھا۔رات کو اسے موقع نہیں ملا تھا کمرہ دیکھنے کا۔بیڈ کی پچھلی دیوار پرپل پینٹ کی وجہ سے پورے کمرے میں سب سے نمایاں تھی۔کمرے میں موجود ہر چیز میں انہی دونوں رنگوں کا استعمال کیا گیا تھا۔وہ توصیفی نظروں سے دیکھتی ہر چیز کو چھو کر محسوس کر رہی تھی۔یہ کمرہ پورے گھر سے مختلف تھا۔یوں لگ رہا تھا جیسے اس کمرے کی دنیا الگ اور اس سے باہر الگ دنیا بسی ہے۔ہر چیز نفاست سے اپنی جگہ پہ موجود تھی۔کمرے میں غزنوی کے پرفیوم کی مہک کمرے میں موجود ہر چیز سے لپٹی ہوئی محسوس ہو رہی تھی۔وہ ہر چیز کا باریک بینی سے جائزہ لیتی الماری کے قریب پڑے سوٹ کیس کے طرف آئی۔اس نے پہلے غزنوی کا سفری بیگ کھولا۔اس کے کپڑے اور ضرورت کی تمام چیزیں اپنی اپنی جگہ پہ رکھیں۔

Mirh@_Ch
 

بی بی صاحب۔۔۔!! آج کھانے میں کیا بناؤں۔۔؟"
رشیدہ نے اسے بیٹھتے دیکھ کر پوچھا۔
"بریانی بنا لو اور ساتھ میں رائتہ۔۔۔"
ایمان سادہ سے لہجے میں بولتی ٹیبل پہ پڑا اخبار اٹھا کر دیکھنے لگی۔کچھ دیر میں ہی بور ہو کر اخبار اپنی جگہ پر رکھتی کچن میں آ گئی۔
"لاؤ میں بھی تمھاری مدد کر دوں۔"
ایمان نے اسکے ہاتھ سے چھری لینے کے لیے ہاتھ بڑھایا۔رشیدہ اس وقت پیاز کاٹ رہی تھی۔
"ارے نہیں بی بی۔۔۔میں کر لوں گی۔۔"
رشیدہ نے مسکراتے ہوئے اسے دیکھا۔
"اچھا ٹھیک ہے پھر میں اپنے روم میں ہوں۔"

Mirh@_Ch
 

رشیدہ نے کچن کا کام نمٹایا۔۔وہ برتن دھو کر کر نل بند کرتی واپس مڑی تو اسکی نظر کچن میں داخل ہوتی ایمان پہ پڑی۔
"ارے بی بی۔۔۔آپ جاگ گئیں۔۔ناشتہ بناؤں آپ کے لئے۔۔؟"
رشیدہ نے اس نے پوچھا۔
"نہیں تم ایسا کرو کہ باقی کے کام دیکھ لو۔۔۔ناشتہ میں خود بنا لوں گی۔صاحب چلے گئے۔۔؟؟"
اس نے فریج کی طرف آتے ہوئے اس سے پوچھا۔
"جی بی بی صاحب۔۔۔"
رشیدہ ہاتھ پونچتی کچن سے نکل گئی۔ایمان نے اپنے لئے ناشتہ بنایا۔ناشتے کے بعد وہ لاونج میں آ گئی۔رشیدہ وہیں موجود جھاڑ پونچھ کر رہی تھی۔

Mirh@_Ch
 

جی صاحب۔۔پَر دروازہ کیوں بند کیا تھا۔۔میں صبح سے دو بار آئی تھی۔۔روز تو بند نہیں ہوتا۔۔"
وہ مزید سوال کرنے کے موڈ میں تھی۔اس کے سوال پہ غزنوی نے پلٹ کر اسے کھا جانے والی نظروں سے دیکھا تو وہ سیدھی سیدھی کچن میں چلی گئی۔جلدی جلدی ناشتہ تیار کیا اور ٹرے لئے کمرے میں آئی۔روز وہ اپنے روم میں ہی ناشتہ کرتا تھا۔
"صاحب وہ بی بی صاحب کدھر ہیں۔۔؟"
رشیدہ نے پورے کمرے پہ نظر دوڑائی۔باتھ روم کا دروازہ بھی کھلا ہوا تھا اور وہاں سے کوئی آواز بھی نہیں آ رہی تھی۔
"ناشتہ یہاں رکھو اور جاؤ۔۔۔"
وہ ٹرے اپنی جانب کھینچتے ہوئے بولا۔رشیدہ کمرے سے نکل گئی۔غزنوی نے جلدی جلدی ناشتہ کیا اور پھر آفس کے لئے نکل گیا۔

Mirh@_Ch
 

غزنوی نے دروازہ کھول دیا۔
"کیا دروازہ توڑو گی اب۔۔"
وہ غصیلے لہجے میں بولا۔
"ہائے صاحب۔۔۔میں بھلا دروازہ کیوں توڑوں گی۔۔جھلی تو نہیں ہوں۔"
وہ ڈوپٹہ منہ پہ رکھ کر کھی کھی کرنے لگی۔
"اسکی کمی تھی۔۔"
وہ بڑبڑایا۔
"کیا صاحب۔۔؟"
رشیدہ نے اسے غصے سے اپنی طرف دیکھتا پا کر پوچھا۔
"کچھ نہیں میرے لئے ناشتہ بناؤ۔۔جلدی نکلنا ہے مجھے۔"

Mirh@_Ch
 

۔فریج سے ترکاری کا باول نکال کر اون میں گرم کرنے لئے رکھ دیا۔کھانا گرم ہوا تو اس نے وہیں بیٹھ کر کھانا کھایا اور گندے برتن سنک میں رکھ کر لائٹس آف کرتا کچھ سے نکل آیا۔۔اب اس ٹائم کچھ اور تو تھا نہیں کرنے کو اس لئے لاؤنج کی بھی لائٹس بند کرتا اپنے روم میں آ گیا۔
اگلے دن وہ ٹائم سے اٹھ گیا تھا۔فریش ہو کر کچن میں آیا تو وہاں خاموشی تھی۔ایمان ابھی تک روم سے باہر نہیں آئی تھی۔
"یہ رشیدہ بی بی بھی تشریف نہیں لائی اب تک۔"
اس نے فریج سے پانی کی بوتل نکال کر گلاس میں پانی ڈالا۔پانی پینے کہ بعد وہ کچن سے نکل آیا۔اپنے روم کی طرف جا ہی رہا تھا کہ دروازے پہ دستک ہوئی۔وہ دروازے کی طرف بڑھا جسے اب کوئی تقریبا پیٹ رہا تھا۔
"صاحب جی۔۔۔بی بی صاحب۔۔۔"
دستک کے ساتھ ساتھ فل والیوم میں پکارا بھی جا رہا تھا۔آواز رشیدہ کی تھی۔اس سے پہلے کہ دروازہ توڑ دیا جاتا

Mirh@_Ch
 

اسکی آنکھ کھلی تو رات کے گیارہ بج رہے تھے۔کمرے میں نائٹ بلب جل رہا تھا۔اسے اپنی اتنی بےخبری والی نیند پر حیرانی ہوئی تھی۔اچانک کچھ یاد آنے پہ صوفے پہ نظر گئی لیکن وہاں ایمان نہیں تھی۔صوفہ بھی سنگل تھا۔کمرے میں اسکے علاوہ کسی اور کے موجود ہونے کے آثار بھی نہیں لگ رہے تھے۔
"یہ اب تک روم میں کیوں نہیں آئی۔"
اس نے کلاک کی طرف دیکھتے ہوئے حیرانی سے سوچا۔
وہ بیڈ سے اتر آیا۔لائٹس آن کیں اور پھر روم سے باہر آ گیا۔لاؤنج کی تمام لائٹس آن تھیں۔وہ یہاں بھی نہیں تھی۔گھر کا میں ڈور بھی بند تھا۔وہ اپنے روم کے ساتھ والے روم کی جانب آیا۔اس نے بناء دستک کے دروازہ کھولنا چاہا مگر دروازہ اندر سے لاکڈ تھا۔وہ واپس لاؤنج میں آ گیا اور صوفے پہ بیٹھ گیا۔بھرپور نیند لینے کے بعد اب اسے بھوک ستا رہی تھی۔وہ کچن کیطرف آ گیان

Mirh@_Ch
 

وہاں سے وہ سیدھے کچن میں آئی تھی۔اپنے لئے کھانا گرم کیا اور وہیں کچن میں بیٹھ کر کھانا کھایا۔کھانا کھانے کے بعد اس نے برتن دھوئے اور لائٹس آف کرتی کچن سے باہر آئی۔روم میں جانے سے پہلے اس نے لاؤنج کا دروازہ اندر سے بند کیا مگر لائٹس آن رہنے دیں تاکہ اگر غزنوی اٹھے تو باہر آنے پہ اسے اندھیرے کا سامنا نہ کرنا پڑے۔وہ غزنوی کے روم کے ساتھ والے روم میں آ گئی۔۔یہ بھی بیڈ روم تھا۔۔اردگرد نظر دوڑا کر اس نے دروازہ اندر سے بند کیا اور خود بیڈ پہ آ گئی۔تکیے پہ سر رکھتے ہی اسے نیند نے اپنے بازوؤں میں جکڑ لیا تھا۔
❇️ ⁦❇️⁩ ⁦❇️⁩

Mirh@_Ch
 

دروازے کے قریب پہنچ کر وہ ششں و پنج میں مبتلا تھی کہ اندر جائے یا نہیں مگر پھر کچھ سوچ کر سامان کے بہانے دستک دے ڈالی۔اندر سے کوئی آواز نہ آئی۔ایک بار دو بار مسلسل تین بار دستک دینے کے بعد بھی جب کوئی جواب نہ ملا تو اس نے دھیرے سے ناب گھمائی۔دروازہ لاکڈ نہیں تھا۔وہ محتاط انداز میں دروازہ کھول کر اندر داخل ہو گئی۔کمرے میں اندھیرا تھا۔اس نے سوئچ بورڈ ڈھونڈ کر لائٹ آن کی۔کمرہ روشن ہوتے ہی اسکی نظر بیڈ پہ آڑھے ترچھے سوئے غزنوی پر پڑی۔وہ گہری نیند میں تھا اسی لئے تو لائٹ آن ہونے کے بعد بھی اسکی نیند میں کوئی خلل نہیں آیا۔پہلے تو اسکا جی چاہا کہ ہاتھ بڑھا کر اسے جگا دے مگر پھر اپنا ارادہ ملتوی کر دیا اور وہ جس خاموشی سے آئی تھی اسی خاموشی سے کمرے سے نکل آئی مگر آنے سے پہلے وہ غزنوی پہ پڑا کمبل درست کرنا نہ بھولی تھی۔

Mirh@_Ch
 

اچھا۔۔۔ایسا کرو کہ ایک کپ چائے بنا دو اسٹرانگ سی۔۔"
وہ واپس صوفے سے کمر ٹکا گئی۔رشیدہ اٹھ کر کچن میں چلی گئی جبکہ ایمان نے ایک بار پھر بند دروازے کو گُھوری سے نوازا۔
⁦❇️⁩ ⁦❇️⁩ ⁦❇️⁩
رات کے نو بجنے والے تھے۔وہ ابھی تک صوفے پہ ہی براجمان تھی۔تمنا اپنا سارا کام ختم کر کے جا چکی تھی۔غزنوی بھی کمرے سے باہر نہیں آیا تھا۔اتنی دیر ہو گئی تھی انھیں یہاں آئے ہوئے۔اب تو بھوک سے پیٹ میں چوہے دوڑنے لگے تھے۔یہاں آنے کی پریشانی میں اس نے دوپہر میں بھی کچھ نہیں کھایا تھا اور یہاں آنے کے بعد تھکاوٹ کے باعث صرف چائے کی ہی طلب ہوئی تھی۔اسی لئے صرف چائے ہی پی تھی۔اب زرا تھکاوٹ دور ہوئی تو بھوک نے آ جکڑا تھا۔اسے اندازہ لگانے میں دیر نہ لگی کہ غزنوی سو گیا ہو گا۔وہ اٹھ کر اسکے کمرے کی طرف بڑھی۔ کے

Mirh@_Ch
 

"پتہ نہیں یہ کھڑوس غزنوی اتنی دیر سے کمرے میں کیا کر رہا ہے۔"
ایمان نے بند کمرے کے دروازے کو گُھورا۔
"خیر۔۔۔مجھے کیا۔۔"
وہ دل پر پتھر رکھتی پاؤں پسار کر پرسکون انداز میں بیٹھ گئی۔سفر کی تھکان سے اسکی آنکھیں بند ہونے لگیں تھیں۔
"السلام علیکم بی بی۔۔!"
کسی کے سلام کرنے پر اس نے چونک کر آنکھیں کھول دیں۔ایک سانولی رنگت والی عورت اسکے سامنے کھڑی اسے تجسّس بھری نظروں سے دیکھ رہی تھی۔
"کون ہو تم۔۔۔؟"
ایمان سیدھی ہو بیٹھی اور اسے سر سے پیر تک دیکھا۔۔حلیے سے تو وہ ملازمہ لگ رہی تھی۔
"بی بی میں رشیدہ۔۔۔ادھر کام کرتی ہوں اور یہیں سرونٹ کوارٹر میں رہتی ہوں۔میرا مرد یہاں مالی کا کام کرتا ہے جی۔۔"
وہ اپنے ڈوپٹے سے منہ پونچتی نیچے کارپٹ پہ آلتی پالتی مار کر بیٹھ گئی۔

Mirh@_Ch
 

نہیں کچھ نہیں۔۔تم جاؤ یہ سامان صاحب کے کمرے میں رکھ آؤ۔۔بعد میں میں خود دیکھ لوں گی۔"
گل خان کے چہرے پر تذبذب کے آثار دیکھتے ہوئے اسے اپنی غلطی کا احساس ہوا۔اس نے اپنے الفاظ کو بہانے کی چادر میں لپیٹا۔
"جی ٹھیک ہے۔۔"
وہ دونوں سوٹ کیس اٹھا کر دائیں جانب والے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔کچھ دیر بعد وہ سامان رکھ کر کمرے سے باہر آ گیا۔
"بی بی۔۔۔!! میں رشیدہ کو بھیج دیتا ہوں وہ آپ کی مدد کر دے گی۔"
گل خان اس کے پاس آ کر بولا۔
"کون رشیدہ۔۔۔؟"
ایمان نے پوچھا۔
"جی وہ یہاں ملازمہ ہے۔"
گل خان کے بتانے پر ایمان نے سر ہلا کر اسے جانے کو کہا۔وہ پلٹ کر لاؤنج سے نکل گیا۔

Mirh@_Ch
 

وہ توصیفی نظر ڈالتی اندرونی دروازے سے اندر داخل ہو گئی۔لاؤنج میں آئی تو غزنوی وہاں نہیں تھا۔
"اب کہاں غائب ہو گیا۔۔۔؟"
اس نے ارد گرد نظر دوڑاتے ہوئے سوچا اور کچھ دیر سستانے کے لئے صوفے کی جانب آ گئی۔صوفے کی بیک سے سر ٹکا کر وہ آنکھیں موند گئی تھی۔
"بی بی یہ سامان کہاں رکھوں۔۔؟"
چوکیدار کی آواز پہ اس نے آنکھیں کھول دیں۔وہ دونوں سوٹ کیس اپنے پیروں کے قریب رکھے اسکی جانب دیکھ رہا تھا۔
"صاحب کے کمرے میں پہنچا دو۔۔لیکن صرف ان کا سامان۔۔یہ براؤن کلر والا سوٹ کیس دوسرے کمرے میں رکھ دو۔"
وہ پرسکون انداز میں بولی۔
"یہاں تو میں اس شخص کی غلامی نہیں کروں گی۔"
"جی بی بی آپ نے کچھ کہا؟"
ایمان کو منہ ہی منہ میں بڑبڑاتے دیکھ کر چوکیدار نے پوچھا۔

Mirh@_Ch
 

گاؤں سے کب آئے کاکا۔۔۔۔؟"
غزنوی نے سلام کے بعد پوچھا جبکہ چوکیدار کی سوالیہ نظریں ایمان کی جانب اٹھی ہوئیں تھیں۔
"کاکا یہ میری بیوی ہے اور ایمان یہ گل خان کاکا ہیں۔یہ بھی ہمارے گاؤں سے ہیں۔یہاں چوکیدار کی حیثیت سے ملازم ہیں۔"
غزنوی نے ان دونوں کا تعارف کروایا۔ایمان نے سر کے اشارے سے گل خان کو سلام کیا۔یہ جان کر اسے بہت خوشی ہوئی کہ گل خان کا تعلق انہی کے گاؤں سے ہے۔گل خان نے پدرانہ شفقت کے ساتھ اس کے سر پر ہاتھ رکھا تھا۔
"کاکا۔۔۔۔گاڑی سے سامان لے آئیں۔"
وہ گل خان سے کہتا راہداری سے ہوتا ہوا اندر کی طرف بڑھ گیا۔ایمان بھی اس کے پیچھے آئی تھی۔اندر جاتے ہوئے اس نے چاروں اطراف نظر ڈالی، بنگلہ مختلف پھول پودوں سے ڈھکا ہوا تھا۔دیوار پر گلابی اور سفید بوگن ویلیا عجب بہار دکھا رہا تھا۔چھوٹا سا لان رنگ برنگی پھولوں سے سجا ہوا تھا۔

Mirh@_Ch
 

کچھ دیر مزید سفر کے بعد گاڑی ایک چھوٹے مگر بہت ہی خوبصورت بنگلے کے پاس آ رکی۔غزنوی نے ہارن دیا تو گیٹ کھول دیا گیا۔
وہاں خاموشی اس قدر تھی کہ ہارن کی آواز فضا کو چیرتی ہوئی سی محسوس ہوئی تھی۔ہارن دینے کے دو منٹ بعد نہایت پُھرتی سےگیٹ کھول دیا گیا۔گاڑی تیزی سے اندر داخل ہوئی۔ایمان نے دیکھا کہ ایک شخص سیاہ کپڑوں میں ملبوس، کندھے پہ بندوق لٹکائے گیٹ کے قریب کھڑا تھا۔وہ یقینا چوکیدار تھا۔عمر سے تقریبا چالیس سے پینتالیس کا لگ رہا تھا۔گاڑی پورچ میں آ کھڑی ہوئی۔گاڑی کا انجن بند ہوتے ہی وہ دونوں ایک ساتھ ہی گاڑی سے نکلے تھے۔
"السلام علیکم کاکا۔۔"
غزنوی نے چوکیدار کو سلام کیا اور گاڑی کی چابی اس کے ہاتھ میں دے دی۔چوکیدار نے مسکراتے ہوئے غزنوی کو سلام کا جواب دیا۔

Mirh@_Ch
 

عقیلہ بیگم اس کی آنکھوں کے بجھے دیوں سے نگاہ چرا کر بولیں۔وہ سر ہلاتی باہر نکل گئی۔وہ ان سے کچھ کہنا چاہتی تھی۔۔ان سے وعدہ لینا چاہتی تھی کہ وہ اس کے پاس اسلام آباد آئیں گی۔۔مگر غزنوی ہارن پہ ہارن دئیے جا رہا تھا۔وہ باہر آئی تو چوکیدار رؤف نے اسے دیکھ کر گاڑی کا فرنٹ ڈور کھول دیا۔وہ غزنوی کی جانب دیکھے بغیر بیٹھ گئی۔گیٹ کھلا تھا۔۔اسکے بیٹھتے ہی غزنوی نے گاڑی اسٹارٹ کی۔گاڑی جیسے ہی مین روڈ پہ آئی چوکیدار نے گیٹ بند کر دیا۔گیٹ بند ہونے کے اگلے ہی پل گاڑی ہوا سے باتیں کرتی آگے بڑھنے لگی۔ایمان کو اپنا پہلا سفر یاد آ گیا۔فرق صرف اتنا تھا کہ آج غزنوی نے اسے پیچھے بیٹھنے کے لیے نہیں کہا تھا۔وہ خاموشی سے ڈرائیو کر رہا جبکہ وہ کھڑکی سے باہر بھاگتے دوڑتے مناظر میں کھو گئی۔رات کے آٹھ بجے تھے جب وہ لوگ اسلام آباد پہنچے

Mirh@_Ch
 

مہارانی کا سامان میں کیوں اٹھاؤں۔۔نوکر نہیں ہوں اسکا۔"
یہ سوچ کر سوٹ کیس کی طرف بڑھتا اسکا ہاتھ وہیں رک گیا۔وہ اسے وہیں چھوڑ کر کمرے سے نکل گیا۔غزنوی کے جانے کے کچھ دیر بعد چوکیدار رؤف اسکا سامان لینے کمرے میں آیا۔ایمان وہیں مجسمے کی صورت کھڑی تھی۔
"بی بی۔۔۔صاحب کہہ رہے ہیں جلدی آئیں۔"
چوکیدار اسے وہیں جمے دیکھ کر بولا اور پھر سامان اٹھاتا کمرے سے نکل گیا۔
"آتی ہوں صاحب کے چمچے۔۔"
وہ بھی دانت پیستی کمرے سے نکل آئی۔لاؤنج میں سبھی موجود تھے اسے سی۔آف کرنے کے لئے۔۔۔سوائے غزنوی کے۔۔شاید وہ ان سے ملکر جا چکا تھا۔باری باری سب سے ملنے کے بعد وہ آخر میں عقیلہ بیگم کے پاس آئی۔
"اپنا اور غزنوی کا خیال رکھنا۔"