Damadam.pk
Mirh@_Ch's posts | Damadam

Mirh@_Ch's posts:

Mirh@_Ch
 

میں کیوں کہوں۔۔۔خود جاؤ اور داجی سے کہہ دو۔۔پہلے ہی تمھاری وجہ سے مجھے امی اور شاہ گل کی باتیں سننی پڑتیں ہیں۔"
وہ اس کی سچویشن سے لطف اٹھا رہا تھا۔
"میں نہیں کہہ سکتی۔۔"
وہ ہار مانتے ہوئے بولی۔غزنوی کو اس پل وہ دل سے بےحد قریب لگی۔دل کیا مزید اسے تنگ کرنا ترک کر دے مگر دل کی نرمی پہ سختی جمانا اب اس کے لئے آسان ہو گیا تھا۔
"تو ٹھیک ہے۔۔زیادہ نخرے کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔۔میں نیچے گاڑی میں انتظار کر رہا ہوں۔"
وہ سوٹ کیس اٹھانے کے لئے بڑھا۔۔اپنا سامان تو وہ گاڑی میں رکھوا چکا تھ

Mirh@_Ch
 

وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔
"تو میں کون سا تمھیں ساتھ لے جانے کے لئے مر رہا ہوں۔۔۔مت جاؤ۔۔"
غزنوی نے بیڈ سے سوٹ کیس اتار کر نیچے رکھا اور وہیں بیٹھ گیا۔ایمان کا طرز عمل دیکھ کر اسکا موڈ بگڑا تھا تو اس نے بھی لاپروائی کا مظاہرہ کیا تھا۔یہ دیکھ کر ایمان کڑھ کر رہ گئی۔
"یہ شخص بہت ہی پھیل رہا ہے۔"
اس نے دل میں سوچا۔
"تو آپ جائیں اور داجی سے کہہ دیں کہ آپ مجھے ساتھ نہیں لے جا سکتے اور یہ کہ وہ مجھے ڈرائیور کے ساتھ گاوں بھیج دیں۔"
ایمان پہلی بار اس سے یوں ہمکلام تھی۔۔ورنہ اس سے پہلے تو کبھی اس نے غزنوی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات نہیں کی تھی۔۔غزنوی بھی کب اسکی ذات کے ان پہلوؤں سے واقف تھا اور نہ کبھی ایسا سوچا تھا کہ وہ یوں اس کے سامنے آ کھڑی ہو گی۔وہ تو اسے دبو سی لڑکی سمجھتا آیا تھا۔

Mirh@_Ch
 

انہوں نے اسکے کندھے پہ ہاتھ رکھتے ہوئے اسے تسلی دی۔ایمان مزید کوئی راہ نہ پا کر اپنی رضامندی ظاہر کرتی وہاں سے اٹھ آئی۔
جیسے تیسے اس نے اپنی پیکنگ کی۔غزنوی کسی کام سے گھر سے باہر تھا اور اس سے کہہ کر گیا تھا کہ شام تک نکلیں گے۔وہ سوٹ کیس ریڈی کیے منہ پُھلائے بیٹھی تھی۔موڈ سخت خراب تھا۔جیسے جیسے وقت قریب آ رہا تھا دل کی حالت عجیب سے ہو رہی تھی۔
"تم تو یوں سر پکڑ کر بیٹھی ہو جیسے میرے ساتھ نہیں کسی جنگی محاذ پر جا رہی ہو۔"
غزنوی کمرے میں آیا تو وہ بیڈ پہ بیٹھی تھی۔پاس ہی براؤن کلر کر سوٹ کیس تیار پڑا ہوا تھا۔ایمان کی صورتحال دیکھ کر غزنوی کو ہنسی آ گئی مگر اس کے سامنے ہنسنے سے گریز کیا۔۔لیکن بولنے سے خود کو روک نہ سکا۔ایمان نے نہایت غصیلے انداز میں اسے دیکھا۔غزنوی کی نظر اس کی بھوری آنکھوں میں اٹک گئی۔
"مجھے آپ کے ساتھ نہیں جانا۔۔"

Mirh@_Ch
 

دیکھو بیٹا۔۔۔غزنوی تمھارا شوہر ہے۔اسطرح اس سے بھاگنے کے درپے رہو گی تو کیسے چلے گا۔یوں سب کے سامنے اپنا اور اپنے رشتے کا تماشا مت بناو۔تمھارے اس طرح کھلے عام انکار کرنے سے یہ سب کیا سوچیں گے۔"
عقیلہ بیگم کے لہجے میں اب کے سختی نمایاں تھی۔ایمان خاموش رہی۔۔عقیلہ بیگم کچھ لمحے اسے دیکھتی رہیں پھر گہری سانس خارج کرتیں مزید بولیں۔
"ابھی تم چلی جاؤ۔۔۔میں بھی آ جاؤں گی تم سے ملنے۔۔۔اور وہاں خیرن بوا کی بہن وہ کیا نام تھا ان کا۔۔"
وہ سوچ میں پڑ گئیں۔۔ایمان اسی طرح نروٹھے انداز میں بیٹھی رہی۔
"ہاں یاد آیا۔۔۔بلقیس۔۔۔۔غزنوی کی پڑوسن ہیں وہ۔۔میں خود ان سے کہہ دوں گی کہ تمھارا خیال رکھیں

Mirh@_Ch
 

"بیٹا غزنوی نے کہا ہے نا کہ وہ فارغ ہوتے ہی لے جائے گا۔تب تک تم بھی اپنا گھر بار سنبھال لو گی۔"
عقیلہ بیگم بھی اسے سمجھانے لگیں۔
"ٹھیک ہے تو پھر آپ بھی چلئیے میرے ساتھ۔۔"
ایمان اب بھی ضد پہ اڑی ہوئی تھی۔درحقیت وہ غزنوی کے غصے سے ڈری ہوئی تھی۔یہاں سب کی موجودگی میں تو وہ تھوڑا بہت لحاظ کرتا تھا مگر وہاں وہ اسکے آسرے پر اکیلی ہو گی۔۔اسی دوران خیرن بوا ہاتھ میں چھوٹی سی ٹرے جس میں جوس کا گلاس رکھا تھا، لیے کمرے میں داخل ہوئیں۔ایمان کو وہاں بیٹھے دیکھکر ان کی تیوری چڑھ گئی اور تو اور اس کے الفاظ بھی انکے کانوں تک پہنچ گئے تھے۔
"ائے یہ لڑکی تو بالکل ہی باؤلی ہوئی بیٹھی ہے۔"
بوا نے ٹرے سائیڈ ٹیبل پر رکھا اور گلاس عقیلہ بیگم کی طرف بڑھایا جو انہوں نے فوراً تھام لیا۔
"میں بھی اسے کب سے یہی سمجھا رہی ہوں۔"

Mirh@_Ch
 

خیرن بوا اور شمائلہ بیگم نے جب اسکی بات پہ دھیان نہیں دیا تو ایمان ایک آخری مرتبہ عقیلہ بیگم سے بات کرنے کے لئے ان کے روم میں آ گئی۔وہ آج طبیعت کی خرابی کے باعث اپنے کمرے میں ہی تھیں۔ایک آخری کوشش کرنے وہ ان کے روم میں ان کے سامنے بیٹھی تھی۔
"یہ تو ایک اچھا موقع ہے تمھارے پاس۔۔اپنا آپ منوانے کا۔۔اور تم ویسے ہی اس سے گھبرا رہی ہو۔۔"
پہلے تو عقیلہ بیگم اس کی بات سن کر سر پکڑ کر رہ گئیں۔۔پھر اسے سمجھانے لگیں۔انہیں اعظم احمد نے بتا دیا تھا کہ ایمان کا غزنوی کے ساتھ جانے والا فیصلہ ان کا تھا۔غزنوی بھی مشکل سے مانا ہے۔
"شاہ گل مجھے نہیں جانا۔۔میں بابا سے ملنے جانا چاہتی ہوں۔۔آپ پلیز روک لیں مجھے۔۔"
ایمان نے انہیں راضی کرنے کی کوشش کی

Mirh@_Ch
 

وہاں مجھے اپنی خدمت کے لئے بھی تو کسی کی ضرورت پڑے گی اور تم سے بہتر کون ہو گا اس کام کے لئے۔"
وہ طنزیہ انداز میں کہتا کمرے سے نکل گیا جبکہ ایمان نے ہاتھ میں پکڑی شرٹس غصے سے زمین پر پٹخ دیں اور سر پکڑ کر وہیں بیٹھ گئی۔

پھر اس نے بڑی کوشش کی۔۔بڑے ہاتھ پیر مار کر دیکھ لئے۔۔لیکن نتیجہ دھاک کے وہی تین پات۔۔اوپر سے خیرن بوا سے اسے جو ڈانٹ پڑی وہ الگ۔۔
"بُوا مجھے آپ لوگ یاد آؤ گے۔۔میں کہاں عادی ہوں۔"
اس نے رونی صورت بنا کر خیرن بوا کو دیکھا۔
"اے لو۔۔۔!! پاگل ہوئی ہے۔۔ائے اکیلی کہاں ہو۔۔یہ ہمارا پتر ساتھ ہو گا نا۔"
بوا چاول صاف کرتے ہوئے بولیں۔
"لیکن بوا۔۔۔۔۔اچھا آپ میرے ساتھ چلیں۔"

Mirh@_Ch
 

میں پہلے بھی بتا چکی ہوں۔۔وہ تو آپکے ایکشن کا ری۔ایکشن تھا۔"
ایمان اب بھی اسکی جانب نہیں دیکھ رہی تھی۔
"ویسے ایک بات تو بتاؤ۔۔یہ سب کون سکھا رہا ہے تمھیں۔"
غزنوی اسکے چہرے کو فوکس کرتے ہوئے بولا۔
"کیا مطلب۔۔۔میں سمجھی نہیں۔۔"
ایمان نے ناسمجھی سے اسکی جانب دیکھا۔
"بھولی بننے کی اچھی خاصی ایکٹنگ کر لیتی ہو۔"
غزنوی کی آنکھوں میں دِکھتا احساس نرم مگر لہجہ سختی لیے ہوئے تھا جبکہ ایمان اسکی بات کا کوئی جواب نہ دیتی ہوئی الماری کی طرف بڑھ گئی۔
"تم میرے ساتھ جا رہی ہو۔۔۔اسلام آباد۔۔۔۔سامان پیک کر لو۔۔"
غزنوی نے کہا تو ایمان نے فوراً پلٹ کر اسے دیکھا۔اس کے چہرے پہ ہوائیاں اڑنے لگیں جو غزنوی سے چُھپی نہ رہ سکیں۔وہ اپنے ہونٹوں پر در آنے والی مسکراہٹ کو دبا گیا۔

Mirh@_Ch
 

میں نے ایسا کچھ نہیں کیا۔۔۔آپ کو کوئی غلط فہمی ہوئی ہے۔"
وہ اپنا ہاتھ اسکی گرفت سے آزاد کراتے ہوئے بولی۔۔اسکا ماتھا شکن زدہ تھا۔غزنوی نے دائیں آبرو اٹھائی۔
"آپ جو چاہتے تھے میں وہی کر کے آئی ہوں۔"
وہ مزید بولی۔
"نہایت بدتمیزی سے پیش آئی ہو تم ان کے سامنے۔"
دھیما لہجہ سختی لیے ہوئے تھا۔
"میں نے کوئی بدتمیزی نہیں کی۔"
وہ الماری کی طرف بڑھی۔۔
"بدتمیزی کی ہے تم نے۔۔اُس رات بھی نے نہایت بدتمیزی سے بات کی تھی مجھ سے۔۔"
ایمان کے اس لاپرواہ رویے پہ غزنوی کا جی چاہا اسے باہر پھینک دے۔وہ جتنا اس سے تنگ کرنا چاہتا تھا وہ اتنی ہی لاپروائی ظاہر کر رہی تھی۔

Mirh@_Ch
 

وہ غصے میں بڑبڑاتا، دھڑام سے دروازہ کھولتا کمرے میں داخل ہوا۔ایمان الماری کے پاس کھڑی تھی۔اسکے ہاتھ میں غزنوی کی شرٹس تھیں۔ایمان نے اسکے غصے کی پرواہ کیے بغیر ہاتھ میں پکڑی شرٹس بیڈ پہ رکھیں اور پھر غزنوی کے سفری بیگ میں ترتیب سے رکھنے لگی۔غزنوی نے تیز آواز سے دروازہ بند کیا اور تن فن کرتا اس کے سر پہ جا پہنچا۔
"کیا ضرورت تھی داجی کے سامنے شریفاں بی بی بننے کی۔"
وہ کڑے تیور لیے اسکی طرف دیکھ رہا تھا۔
"کیا مطلب۔۔؟"
ایمان نے بلیک شرٹ کو تہہ لگاتے ہوئے پوچھا۔
"مطلب یہ کہ تم ان کے سامنے خود کو حد درجہ معصوم اور مجھے ظالم بنا کر آ رہی ہو۔۔۔اس کے پیچھے مقصد کیا تھا۔۔؟"
غزنوی نے اسکی لاپروائی محسوس کی تو اسے بازو سے پکڑ کر اپنے سامنے کیا۔

Mirh@_Ch
 

"یہ کیا طریقہ ہے غزنوی۔۔۔تمھارا رویہ بہت روڈ تھا۔۔کیا تم خوش نہیں ہو ایمان کے ساتھ۔۔؟"
ان کے کڑے لہجے میں دریافت کرنے پہ غزنوی فائل ٹیبل پہ رکھتا ان کے پاس آیا۔
"ایسی کوئی بات نہیں ہے داجی۔۔مگر آپ کو پتہ ہے نا کہ میرا نیا نیا بزنس ہے۔یہ میٹنگ اگر میں کینسل کر سکتا تو کر لیتا مگر۔۔۔"
"اگر مگر کچھ نہیں۔۔ایمان تمھارے ساتھ اسلام آباد جائے گی اور جس دن تم فارغ ہوئے اسے گاوں لے جانا۔۔ویسے بھی تم اسلام آباد میں اکیلے کیسے رہو گے۔۔تم وہاں اور وہ یہاں۔۔مناسب نہیں لگتا۔"
انھوں نے اسے بیچ میں ہی ٹوک دیا اور بستر تک آئے اور بیڈ پہ لیٹتے ہی کتاب کھول لی۔۔جسکا مطلب تھا کہ وہ مزید اس بارے میں بات نہیں کرنا چاہتے ہیں۔
"کیا مصیبت ہے۔۔"
وہ احتجاجا بولا مگر دھیرے تاکہ ان تک آواز نہ جائے۔۔لیکن اعظم احمد نے اسکے چہرے سے اندازہ لگا لیا تھا۔

Mirh@_Ch
 

"مگر داجی۔۔۔میں اپنی میٹنگ کینسل نہیں کر سکتا۔۔میرا جانا بہت ضروری ہے۔۔آپ اسے ڈرائیور کے ساتھ بھیج دیں۔"
وہ لاپروائی سے بولا۔
"تمھارا جانا ساتھ ضروری ہے۔۔غزنوی۔۔"
انھوں نے اپنی بات پہ زور دیتے ہوئے کہا۔
"اگر میرا جانا ضروری ہے تو اس منتھ انتظار کر لے۔۔نیکسٹ منتھ لے جاوں گا۔"
اسکا دوٹوک انداز دیکھ کر ایمان کا دل بھر آیا۔
"ٹھیک ہے تو تم۔۔۔۔"
وہ بیڈ سے اتر کر غزنوی کی طرف بڑھے۔
"رہنے دیں داجی۔۔۔مجھے نہیں جانا۔"
وہ انھیں روکتی تیزی سے کمرے سے نکل گئی۔اعظم احمد اسے روکتے ہی رہ گئے۔

Mirh@_Ch
 

"کل میری ایک بہت اہم میٹنگ ہے۔۔اسی لئے کچھ دیر بعد میں اسلام آباد کے لئے روانہ ہوں گا۔وہاں سے واپس آ جاوں تو لے جاوں گا۔"
اب وہ صاف انکار تو نہیں کر سکتا تھا۔اس لئے کام کا بہانا بنا کر منع کر دیا۔ایمان کو اس کے ٹھنڈے لہجے پہ بہت غصہ آیا۔
"مگر داجی میں کل ہی جانا چاہتی ہوں۔۔آپ مجھے کسی اور کے ساتھ بھیج دیں۔ان کا کیا پتہ کب واپسی ہو۔"
ایمان نے اعظم احمد سے لجاجت بھرے لہجے میں کہا۔
"ہاں تقریبا دو ہفتے تک میں فارغ نہیں ہوں۔"
غزنوی نے فورا سے پیشتر کہا۔اسکے یوں صاف منع کرنے پر ایمان کا چہرہ تاریک ہوا جو اعظم احمد سے مخفی نہ رہ سکا۔
"کام تو بیٹا ہوتے رہتے ہیں۔۔ایمان شادی کے بعد پہلی بار اپنے میکے جا رہی ہے اور وہ بھی اتنے وقت بعد۔۔۔تمھارا جانا ساتھ ضروری ہے۔"
اعظم احمد نے ایمان کی طرفداری کی۔

Mirh@_Ch
 

ضرور جاو بیٹا۔۔تمھارا جب جی چاہے جایا کرو۔اس میں اجازت کی کیا بات۔۔۔ہاں بس تمھارے شوہر کی اجازت ہونی چاہیئے۔۔کیوں برخوردار۔۔!! کیا تم لے جاو گے میری بیٹی کو۔۔؟"
اعظم احمد نے ایمان کے پیچھے سے جھانکا۔ان کے برخوردار کہنے پر وہ فورا پلٹی تھی۔دائیں جانب صوفے پہ غزنوی ٹانگ پہ ٹانگ رکھے بیٹھا اسی کی جانب دیکھ رہا تھا۔چہرے پہ بلا کی سنجیدگی تھی۔ایمان ایک پل کو تو گھبرا گئی۔۔پھر سوچا کہ وہ کیوں کچھ کہے گا جبکہ وہ تو خود چاہتا ہے کہ وہ اسکی نظروں سے کہیں دور چلی جائے۔۔اگر اسے ذرا سا بھی غزنوی کی موجودگی کا علم ہوتا تو ابھی بات کرنے نہ آتی۔
"میں لے جاوں گا داجی۔۔۔مگر۔۔۔"
وہ ایک پل کو خاموش ہوا۔
"مگر کیا۔۔۔؟"
اعظم احمد نے اسے سوالیہ نظروں سے دیکھا۔

Mirh@_Ch
 

انھوں نے اسکی گھبراہٹ کو محسوس کرتے ہوئے نرم لہجے میں پوچھا۔ایمان اس بات سے انجان تھی کہ دائیں جانب صوفے پہ جناب غزنوی احمد بھی تشریف فرما تھے۔۔ایمان کی بات سن کر وہ سیدھے ہو بیٹھے اور ہاتھ میں پکڑی فائل ٹیبل پہ رکھ دی۔
"ہاں کہو بیٹا۔۔۔کیسی اجازت۔۔۔؟"
کوئی جواب نہ پا کر انہوں نے ایک بار پھر پوچھا۔۔ایمان گھبراہٹ میں انگلیاں چٹخا رہی تھی اور پیچھے بیٹھے غزنوی کا سانس رکا ہوا تھا کہ کہیں وہ اس کے رویے کے بارے میں تو بات کرنے نہیں آئی ہے۔پریشانی اس کے چہرے پہ چھانے لگی تھی۔۔۔اوپر سے اعظم احمد غزنوی کی جانب نہیں دیکھ رہے تھے تا کہ ایمان کھل کر بات کر سکے۔
"داجی میں کچھ دنوں کے لئے گاوں جانا چاہتی ہوں بابا سے ملنے۔۔اگر آپ اجازت دیں تو۔۔"
وہ خاموش ہوئی اور جھکی نظریں اٹھا کر ان کی جانب دیکھا۔اعظم احمد مسکرا دئیے۔

Mirh@_Ch
 

ایمان کے ہاتھ میں چائے کا کپ دیکھ کر انھوں نے کہا۔وہ آہستہ قدموں سے چلتی قریب آئی اور ٹرے سائیڈ ٹیبل پہ رکھ دی جبکہ وہ پھر سے مطالعے میں مصروف ہو گئے تھے۔ایمان جانے کی بجائے وہیں کھڑی رہی۔
"کچھ کہنا ہے بیٹا۔۔۔؟"
انھوں نے اسے وہیں کھڑے دیکھ کر پوچھا۔
"جی داجی۔۔مجھے آپ سے اجازت درکار تھی۔"
ایمان نے نظریں جھکائے جھکائے کہا۔اعظم احمد نے ایک پل کو اسکی جھکی نظروں کو دیکھا۔انھوں نے کتاب ایک جانب رکھی اور پوری طرح اسکی طرف متوجہ ہو گئے۔
"کیسی اجازت بیٹا۔۔۔؟"

Mirh@_Ch
 

وہ چائے کا کپ ہاتھ میں لئے اعظم احمد کے کمرے کے باہر کھڑی تھی۔ایمان کو ان سے بات کرنی تھی۔وہ وہاں آ تو گئی تھی مگر اب اندر جانے کی ہمت نہیں ہو رہی تھی۔۔۔لیکن بات تو کرنی تھی، اس لئے ہمت جُتا کر دروازے پہ دستک دی۔
"کم ان۔۔۔"
اعظم احمد کی بھاری آواز اسکی سماعتوں سے ٹکرائی۔۔۔اسے آج معلوم ہوا تھا کہ غزنوی کی آواز بالکل اعظم احمد جیسی ہے۔وہ دروازہ کھولتی اندر داخل ہوئی۔
"السلام علیکم داجی۔۔۔!!"
اس نے انھیں سلام کیا۔وہ بیڈ پہ نیم دراز کسی کتاب کے مطالعے میں مصروف تھے۔وہ اسے دیکھ کر مسکرا کر بیڈ کراون سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئے۔
"وعلیکم السلام۔۔۔یہاں رکھ دو بیٹا۔"

Mirh@_Ch
 

خیرن ان کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے بولیں۔
"ائے مجھے ایسا لگتا ہے کہ غزنوی میاں اور ایمان کی شادی کچھ اچھی نہیں چل رہی ہے۔آج دونوں کا ولیمہ تھا اور دونوں ایک دوسرے سے کھچے کھچے سے لگ رہے تھے۔اس بچی کے چہرے پہ میں نے کوئی خوشی نہیں دیکھی۔۔۔خدا خبر کیا چل رہا تھا اس کے من میں کہ بالکل کھوئی کھوئی سی تھی۔"
بلقیس بیگم کی بات سن کر خیرن کو یقین ہو گیا کہ وہ جو بھی کہہ رہی ہیں، یہ سب تو وہ بھی محسوس کر رہی تھیں۔۔۔مگر وہ اسے اپنا وہم گردان کر خاموش رہی۔۔لیکن اب ان کی بہن نے بھی یہی محسوس کیا تھا۔
"نہیں ایسی تو کوئی بات نہیں۔۔ایمان تھوڑی خاموش طبع بچی ہے اور ہمارا غزنوی شروع ہی سے خود میں مگن رہنے والا بچہ۔۔کل تو وہ صبح سے ہی اپنے والدین کی کمی محسوس کر رہی تھی۔اسی لئے اداس تھی۔"

Mirh@_Ch
 

گھر آئے مہمان بھی رخصت ہو گئے تھے۔بس صرف بلقیس بیگم اور ان کی بیٹی رقیہ ابھی یہیں تھے۔انھوں نے آج شام تک نکلنا تھا۔خیرن بوا انھیں روکنا چاہ رہی تھیں مگر انھوں نے سہولت سے انکار کر دیا۔خیرن بوا چاہتی تھیں کہ رقیہ رک جائے تو وہ یہیں کہیں اسکے رشتے کی بات چلائیں گی۔۔مگر بلقیس بیگم بیٹی کو خود سے اتنی دور بیاہنے کے حق میں نہیں تھیں۔اس وقت وہ خیرن بوا کے کمرے میں بیٹھی اپنا سامان پیک کر رہی تھیں۔
"خیرن۔۔۔تم خفا نہ ہو تو ایک بات کہوں۔۔؟"
بلقیس بیگم نےخیرن سے کہا جو اپنے سامنے کپڑوں کو تہہ لگا کر رکھتی جا رہی تھیں اور پھر رقیہ انھیں ترتیب سے سوٹ کیس میں رکھ رہی تھیں۔
"ہاں ہاں کہو۔۔۔تم بھی کمال کرتی ہو آپا۔۔۔میں کیوں برا مانوں گی تمھاری بات کا۔۔؟

Mirh@_Ch
 

غزنوی کا رنگ اسے خود پہ چڑھتا محسوس ہو رہا تھا۔۔کبھی کبھی اسے یہ خیال بھی ڈسنے لگا کہ اگر غزنوی نے اسے چھوڑ دیا تو وہ کیسے رہے گی اس کے بغیر۔۔۔اسکی آنکھوں میں مرچیں سی لگنے لگیں تو اس نے پَٹ سے آنکھیں کھول دیں۔باہر ابھی بھی محفل سجی ہوئی تھی۔وہ خاموشی سے اٹھ کھڑی ہوئی۔کھڑکی کے قریب آ کر اس نے زرا سا پردہ سرکا کر نیچے دیکھا۔۔اسکی نظر کمیل کے ساتھ کھڑے غزنوی پہ پڑی تو وہ ایک گہری سانس خارج کرتی پردہ گرا کر وارڈروب کی طرف بڑھ گئی۔
🌼🌼🌼