Damadam.pk
Mirh@_Ch's posts | Damadam

Mirh@_Ch's posts:

Mirh@_Ch
 

خوش رہا کرو۔۔۔تم ہنستی مسکراتی اچھی لگتی ہو۔۔۔غزنوی کو بہت جلد تمھاری قدر ہو گی۔وہ یقینا دل ہی دل میں تم سے محبت کرتا ہے۔۔بس اپنی بےنام ضد کے ہاتھوں یہ سب کر رہا ہے۔۔سب ٹھیک ہو جائے گا۔تمھاری محبت اسے احساس دلا سکتی ہے مگر اس کے لئے تمھیں قدم بڑھانا پڑے گا۔آئی ایم شیور وہ بھی تم سے محبت کرتا ہے۔"
وہ حوصلہ دیتی نظروں سے ایمان کو دیکھتی دروازے کی سمت بڑھ گئی۔
"آپ کی غلط فہمی ہے آپی کہ وہ مجھ سے محبت کرتے ہیں۔"
وہ عائشہ کے جانے کے بعد استہزائیہ ہنستے ہوئے خود سے بولی تھی۔لان سے ابھی بھی ہلکی پھلکی موسیقی کی آواز آ رہی تھی۔

Mirh@_Ch
 

یہاں بیڈ پہ آ جاؤ۔۔یہاں ریلیکس رہو گی۔"
کمرے میں داخل ہوتے ہی ایمان کو بیڈ کی بجائے صوفے کی جانب بڑھتا دیکھ کر کہا۔
"نہیں میں فلحال یہیں ٹھیک ہوں۔۔۔پہلے چینج کروں گی۔"
ایمان نے دونوں ہاتھوں کی انگلیوں سے اپنا سر دباتے ہوئے کہا۔اب وہ اسے کیا بتاتی کہ اس بیڈ سے اسکا ناطہ صرف دور سے دیکھنے تک کا ہے۔
"اچھا ٹھیک ہے۔۔۔تمھارے لئے کچھ کھانے کو بھیجوں۔۔تم نے کھانا بھی نہیں کھایا۔"
عائشہ نے اسے صوفے کی پشت سے ٹیک لگاتے دیکھ کر کہا۔
"نہیں مجھے بھوک نہیں ہے۔"
اس نے انکار کیا۔
ایمان۔۔۔!! اِس کمرے میں اپنا مقام سمجھو۔۔۔یہاں کی ہر چیز تمھاری ہے اور یہاں رہنے والا بھی۔"
عائشہ نے اسکے کندھے پہ ہاتھ رکھا۔۔۔اسکے الفاظ سن کر ایمان نے مسکراتے ہوئے اثبات میں سر ہلایا۔

Mirh@_Ch
 

مجھے ایسا نہیں لگتا۔۔تمھارے اور غزنوی کے درمیان شادی شدہ جوڑوں جیسی کوئی بات نہیں۔"
عائشہ اسے باور کروانا چاہتی تھی کہ وہ غزنوی اور اسکے رشتے کے بارے میں سب جانتی ہے۔وہ اسکی بات پہ یقین کر لیتی مگر اس نے خود غزنوی نے منہ نکلے الفاظ سنے تھے جن سے صاف ظاہر تھا دونوں کے بیچ نارمل ریلیشن نہیں ہے۔
"امی میں تھک گئی ہوں۔۔اپنے روم میں جانا چاہتی ہوں۔"
شمائلہ بیگم جو اسکے پاس ہی کھڑی پرخہ سے کوئی بات کر رہی تھی۔عائشہ اسکا رویہ دیکھ کر پیچھے ہٹ گئی۔
"اچھا بیٹا۔۔۔عائشہ۔۔!! بیٹا بھابھی کو کمرے میں لے جاؤ۔"
وہ جس کے سوالات سے بچنا چاہ رہی تھی شمائلہ بیگم نے اسی کو اسکے ہمراہ کر دیا تھا۔عائشہ نے حذیفہ کو شمائلہ بیگم کی گود میں دیا اور ایمان کی جانب ہاتھ بڑھایا جسے ایمان نے ایک گہری سانس خارج کرتے ہوئے تھام لیا۔

Mirh@_Ch
 

وہ لبوں پر مسکراہٹ سجاتے ہوئے بولی۔پتہ نہیں عائشہ اس کے جواب سے مطمئن ہوئی تھی یا نہیں مگر ایمان نے چہرے پہ مسکراہٹ سجا لی تھی تاکہ کوئی دوسرا اسکے اندر چھپے بھید کو نہ پا لے۔۔وہ کیوں کسی کے سامنے اپنا آپ آشکار کرے۔۔یہ اسے قبول نہیں تھا۔اس نے سب کے ہنستے مسکراتے چہروں پہ نظر ڈالی۔۔سبھی ہنسی مذاق اور خوش گپیوں میں مگن تھے۔سبھی کی جانب دیکھتے اسکی نگاہ ایک جگہ آ کر ٹھہر گئی۔عائشہ کی نگاہوں نے بھی اسکی نظروں کا پیچھا کیا۔اس کے چہرے پہ مسکراہٹ چھا گئی۔وہاں غزنوی مصطفیٰ کی کسی بات پہ ہنس رہا تھا۔
عائشہ نے ایمان کے مسکراتے چہرے کو ایک دم تاریک پڑتے دیکھا۔
"ایمان۔۔۔۔تمھارے اور غزنوی کے مابین سب ٹھیک ہے۔۔۔؟؟"
عائشہ نے ایک بار پھر اپنا سوال دہرایا۔
"جی۔۔۔"
مختصر جواب آیا۔۔اب اسکی نظریں اپنے ہاتھوں پر تھیں۔

Mirh@_Ch
 

"دلہن تو پرخہ اور سحرش بھی ہیں۔۔۔وہ تو دیکھو کیسے چہک رہی ہیں۔۔۔اور تمھارے چہرے پہ سنجیدگی طاری ہے۔"
عائشہ نے اس کے چہرے کو بغور دیکھا۔
"ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔۔۔آپکو کوئی غلط فہمی ہوئی ہے۔۔۔بس آج مجھے اماں اور بابا کی بہت یاد آ رہی ہے۔"
اس نے آدھا سچ بیان کیا۔۔۔۔اور واقعی صبح سے اپنے والدین کو یاد کر کے بار بار اسکی آنکھیں بھیگنے لگتی تھیں۔
"ٹھیک کہتی ہو۔۔۔یہ وقت ہی ایسا ہوتا ہے۔۔۔جب والدین کا ساتھ بیٹی کے لئے کسی ڈھال سے کم نہیں ہوتا۔آئی ایم سوری۔۔۔میں نے تمھیں دُکھی کر دیا۔"
عائشہ نے اسکے ہاتھوں پہ ہاتھ رکھا۔
"اِٹس او کے آپی۔۔۔"

Mirh@_Ch
 

ایمان۔۔۔تم ٹھیک ہو۔۔؟"
عائشہ نے گود میں سوتے حذیفہ کو تھپکی دیتے ہوئے کہا۔جو بار بار اتنے شور کے باعث اٹھ جاتا تھا۔
"جی آپی۔۔۔ٹھیک ہوں۔"
ایمان نے اس کی کھوجتی آنکھوں سے نظریں چُرائیں۔
"تو پھر اتنی خاموش کیوں ہو۔۔۔غزنوی کا رویہ تمھارے ساتھ ٹھیک تو ہے نا۔۔؟"
عائشہ نے بلاآخر دل میں کلبلاتا سوال اس سے پوچھ لیا۔
"جی سب ٹھیک ہے۔۔۔اور خاموش اس لئے ہوں کہ میں دلہن ہوں اور دلہن زیادہ بولتی نہیں ہے۔"
ایمان نے اس کے کان کے قریب آ کر کہا۔۔اس کا جواب سن کر عائشہ ہنس دی مگر اب بھی اسکی تسلی نہیں ہوئی تھی۔

Mirh@_Ch
 

اور جو پکچرز بنوانی شروع ہوئیں تو پھر رکنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھیں۔فوٹوگرافر بیچارے کی شامت آئی ہوئی تھی۔کبھی اسے دائیں طرف بلاتیں تو کبھی بائیں جانب۔۔۔وہ بیچارہ گِھن چکر ہو کر رہ گیا تھا۔تھک ہار کر اس نے غزنوی کو اشارہ کیا۔تو اس نے انھیں اسٹیج سے اتارا۔اسطرح فوٹوگرافر کی جان بخشی ہوئی۔۔ورنہ وہ تو مرتضیٰ کے مشورے پر عمل کرنے پر تُلی ہوئیں تھیں۔آخر میں ایک فیملی فوٹو بنائی گئی۔اسکے بعد تینوں دولہا صاحبان اسٹیج سے اتر گئے۔

Mirh@_Ch
 

"بُری بات فروز۔۔۔۔اتنی پیاری تو لگ رہیں ہیں سب۔۔۔"
احد کی نظریں سبھی پر سے ہوتی ہوئیں صوفے کے پیچھے کھڑی ارفع پہ ٹھہر گئیں۔جبکہ وہ تو لاپروائی سے پوز بنا بنا کر تصویریں بنوا رہی تھی۔وہ مسکرا دیا۔
"ہمیں ایک دو پکچرز بنوانے دو پھر تم لوگ چاہو تو ساری رات اس فوٹو سیشن کو جاری رکھنا۔۔۔چلو چلو ایک طرف ہو جاؤ شاباش۔۔۔۔"
مرتضیٰ نے ان سبھی کو یوں پیچھے ہونے کو کہا جیسے وہ ساری بکریاں ہوں اور وہ خود چرواہا۔اسٹیج پہ موجود سبھی ان کی اس عزت افزائی پر ہنس رہے تھے۔صرف ایک ایمان تھی جس نے سر اٹھا کر دیکھنے کی ہمت نہیں کی تھی جبکہ پرخہ اور سحرش ان کی باقاعدہ سائیڈ لے رہی تھیں۔بلاآخر وہ سبھی ٹیڑھے ٹیڑھے منہ بناتی بڑے سے اسٹیج کے دائیں جانب کھڑی ہو گئیں۔اچھی خاصی پکچرز بنوانے کے بعد وہ سارے نیچے اترے تھے اور وہ ساری انھیں گھورتی پیچھے جا کھڑیں ہوئیں

Mirh@_Ch
 

اوئے۔۔آؤ ہم سب بھی پیچھے کھڑے ہوتے ہیں۔۔کچھ پکچرز بنوا لیں۔"
عنادل نے ان سب سے کہا تو وہ سب اس کا آئیڈیاء سن کر ہنستے ہوئے اس کے ساتھ اسٹیج پہ چڑھ گئیں۔
"اوئے اوئے۔۔۔چلو اترو۔۔۔ہماری باری ہے۔۔"
انھوں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو طہ، مرتضیٰ، احد اور فروز کھڑے تھے۔مرتضی اور احد تو باقاعدہ تیوری چڑھائے انھیں دیکھ رہے تھے۔
"کیوں جی۔۔۔۔پہلے ہماری باری۔۔۔۔"
ارفع ناک پُھلاتی پیچھے جا کھڑی ہوئی۔
"یہ ناانصافی ہے۔۔۔۔تم چڑیلیں اس وقت سے بیچارے فوٹوگرافر کو گھیرے ہوئیں تھیں۔نقلی بیوٹی دیکھو ان کی۔"فروز نے آنکھیں گھما گھما کر کہا۔
"ہاں تو۔۔۔۔تمھیں کیا تکلیف ہے۔۔۔۔؟؟"
ملائکہ بھی میدان میں اتر آئی۔

Mirh@_Ch
 

جیسے ہی وہ بیٹھی ہر طرف سے کیمرے کے فلیش چمکنے لگے۔ایک ہی نقطے پہ نگاہیں یوں رکی ہوئیں تھیں جیسے اٹھنا بھول گئی ہوں۔
"ایمان۔۔!! ماشاءاللہ بہت پیاری لگ رہی ہو۔"
لاریب نے اسکی جانب جھکتے ہوئے دھیرے سے کہا۔وہ سب بھی اسکی تعریف میں رطب اللسان تھیں جبکہ وہ سر جھکائے ان کی باتوں پر مسکرا دیتی۔خاندان کی خواتین اس سے ملنے اسٹیج پر آنے لگیں تو وہ ساری اسٹیج سے اتر کر پہلی نشستوں پہ بیٹھ گئیں۔خاندان کی ساری خواتین اس سے بہت محبت و اپنائیت سے ملیں۔تھوڑی دیر بعد فوٹوگرافی کا دور شروع ہو گیا۔اسی دوران مصطفیٰ، ہادی اور غزنوی بھی اپنے دوست احباب اور اعظم احمد کے ہمراہ اسٹیج کی جانب آئے۔تینوں جوڑیاں سبھی کی توجہ کا مرکز تھیں۔اعظم احمد اور عقیلہ بیگم محبت بھری نگاہوں سے اپنے بچوں کو دیکھ رہے تھے۔

Mirh@_Ch
 

تھوڑی دیر بعد شمائلہ بیگم اسے لینے آ گئیں تھیں۔کمرے سے لان تک کے راستے میں انھوں نے اسے بتایا کہ تمام مہمان بڑی شدت سے اسکے منتظر ہیں۔جب وہ لان کی انٹرنس پہ پہنچی، جسے پھولوں سے سجایا گیا تھا۔۔ وہ سبھی اس کی طرف دوڑی آئیں۔
"تم لوگ بھابھی کو لے کر آؤ۔۔"
وہ اسے ان کے حوالے کر کے خود عقیلہ بیگم کی طرف بڑھ گئیں۔وہ سبھی اسکے اطراف ہو گئیں۔ایمان ان کی سنگت میں اسٹیج کی جانب قدم بڑھائے۔سبھی مہمانوں کی ستائش بھری نظریں اس پہ ٹکی ہوئی تھیں۔ملائکہ اور لاریب کی مدد سے وہ اسٹیج پہ آ گئی۔پرخہ اور سحرش پہلے ہی سے اسٹیج پہ موجود تھیں۔اسکی آمد پر دونوں مسکراتے چہروں کے ساتھ اس کے استقبال کے لئے اٹھ کھڑی ہوئیں۔انھوں نے اسے پرخہ اور سحرش کے ساتھ بٹھا دیا۔اپنے ہاتھوں کی لرزش اور دل کی بےترتیب دھڑکنیں اسے نروس کیے دے رہی تھیں۔

Mirh@_Ch
 

اس نے اتنی تیز آواز کے ساتھ الماری کے پٹ بند کیے کہ وہ بدک کر پیچھے ہٹی۔اس نے کچھ لمحے تو غصیلی نظروں سے ایمان کو دیکھا اور پھر جھپٹ کر موبائل اس کے ہاتھ سے کھینچ لیا۔
"میری چیزوں کو ہاتھ مت لگایا کرو۔۔"
وہ بہت ہی بدتمیزی سے کہتا کمرے سے نکل گیا جبکہ وہ حیران پریشان کھڑی اسکے اتنے غصے میں آ جانے کا سبب سوچ رہی تھی۔روم میں آنے سے پہلے تو اسکے لہجے میں غصے کا شائبہ تک نہ تھا۔پھر اچانک ایسا کیا ہوا۔۔۔

Mirh@_Ch
 

ایمان کے لہجے سے واضح تھا کہ اسے غزنوی کا انداز پسند نہیں آیا تھا۔وہ پلٹ کر جانے لگی۔پلٹ کر جاتے ہوئے ایمان کی نظر بیڈ کی سائیڈ ٹیبل پہ پڑے موبائل پر پڑی۔اس نے غزنوی کی جانب دیکھا جو دراز کھولے اس میں کچھ ٹٹول رہا تھا۔وہ فون کی طرف بڑھی۔اس نے خاموشی سے فون اٹھایا اور میکسی سنبھالتی واپس غزنوی کے پاس آئی۔
"یہ رہا آپ کا فون۔۔۔"
وہ قدرے بلند آواز میں بولی اور موبائل اسکی طرف بڑھایا۔دراز میں کچھ ڈھونڈتے غزنوی کے ہاتھ تھم گئے اور اسے یاد آیا کہ وہ روم میں موبائل لینے کی غرض سے آیا تھا۔یہ خیال آتے ہی اسکا خود پہ مزید غصہ بڑھنے لگایا۔یعنی اس پہ ایمان کا وجود اس قدر اثرانداز ہو رہا تھا کہ وہ جو چیز لینے آیا تھا وہی اسکے دماغ سے ہی نکل گئی تھی اور پھر اوپر سے بہت یاد کرنے پر بھی اسے یاد نہیں آ رہا تھا کہ وہ روم میں کیا لینے آیا تھا۔

Mirh@_Ch
 

اب اِسکی جانب نہیں دیکھنا غزنوی احمد۔۔۔۔جادوگرنی ہے یہ۔۔"
وہ الماری کے پٹ کھولے اپنی مطلوبہ چیز دریافت کرنے لگا مگر وہ بھول گیا تھا کہ وہ کیا لینے آیا تھا۔چیزوں کو اُلٹ پُلٹ کرتے اسے خود پہ غصہ آنے لگا تھا۔
"کیا ڈھونڈ رہے ہیں؟"
وہ پیچھے کھڑی اس سے پوچھ رہی تھی۔۔غزنوی اپنے عقب سے خوشبوؤں کا ریلا خود پہ چھاتا محسوس ہوا۔وہ فورا سیدھا ہوا۔
پیچھے ہٹو۔۔۔"غزنوی نے بھڑک کر غصے سے اسکی جانب دیکھا۔وہ فورا پیچھے ہٹی۔۔
"میں تو آپکی مدد کے لئے آئی تھی۔"

Mirh@_Ch
 

غزنوی کی شیرینی میں لپٹی آواز آئی۔وہ گھبرا کر اٹھ کھڑی ہوئی۔۔لیکن دروازے کیطرف بڑھنے کی ہمت نہ ہوئی۔۔یہ مٹھاس اسے ہضم نہیں ہوئی تھی۔۔اس کے ذہہن میں غزنوی کے الفاظ گردش کر رہے تھے۔
"آج کی تاریخ میں یہ دروازہ کھل جائے گا یا نہیں۔۔؟؟"
غزنوی کی آواز ایک بار پھر اسکے کانوں سے ٹکرائی تھی۔اب کے لہجے میں سنجیدگی نمایاں تھی۔ایمان نے آگے بڑھ کر دروازہ کھول دیا۔
"بہت شکریہ ملکہ عا۔۔۔۔۔"
ایمان کو دیکھ کر باقی کے الفاظ اسکے منہ میں ہی رہ گئے۔ایمان اسے خود کو یوں گھورتے دیکھ کر فوراً صوفے کی طرف بڑھ گئی۔
"جادوگرنی۔۔۔۔"
وہ منہ ہی منہ میں بڑبڑاتا اس سے کترا کر الماری کی جانب بڑھ گیا۔

Mirh@_Ch
 

اس نے آنکھوں میں پھیلتی نمی کو پیچھے دھکیلا۔یہ رنگ اور یہ روپ، یہ دلکش انداز اسے کوئی خوشی نہیں دے رہے تھے۔وہ آئینے سے نظر ہٹاتی صوفے کی جانب آئی تھی۔ماں کی یاد نے اسے مزید غمگین کیا تھا اور باپ سے ملنے کے لئے دل مچلنے لگا تھا۔وہ ایک گہری سانس خارج کرتی بیٹھ گئی۔وہ شادی ختم ہونے کے فوراً بعد داجی سے کہے گی کہ اسے کچھ دنوں کے لئے گاؤں بھیج دیں۔وہ صوفے کی پشت سے ٹیک لگا کر آنکھیں موند گئی۔اسی دوران دروازے پہ دستک ہوئی۔اس نے آنکھیں کھول کر بند دروازے کو دیکھا۔کسی نے ناب کو گھمایا مگر دروازہ اندر سے لاکڈ تھا اس لئے ایک بار پھر دستک دی گئی۔
"کون۔۔۔؟"اس نے وہیں بیٹھے بیٹھے بلند آواز میں پوچھا۔
"دروازہ کھولیے ملکہ عالیہ۔۔۔!!"

Mirh@_Ch
 

ایمان پالر سے آ چکی تھی۔اسے شمائلہ بیگم نے اس کے کمرے میں چھوڑ گئیں تھیں تاکہ کچھ دیر وہ ریسٹ کر لے۔وہ دروازہ لاکڈ کر کے آئینے کے سامنے آ کھڑی ہوئی تھی۔پستئی رنگ میں اسکی چھب ہی نرالی تھی۔اسے یقین ہی نہیں آ رہا تھا کہ آئینے میں دکھتا یہ وجود اسکا ہے۔
"میری بیٹی جب دلہن بنے گی تو اتنی پیاری لگے گی کہ سارا گاؤں دیکھتا رہ جائے گا۔"
دلہن کے روپ میں خود کو دیکھ کر اسے اپنی ماں کے کہے جملے یاد آ گئے تھے۔
"جی نہیں میری گڑیا زیادہ پیاری لگ رہی ہے۔"
وہ اپنی دلہن بنی گڑیا اپنی ماں کی آنکھوں کے سامنے لہرا کر نہایت نروٹھے انداز میں بولی تھی۔اس کی بات سن کر اسکی ماں کے چہرے پہ مسکراہٹ چھا گئی تھی۔
"یہ بھی پیاری لگ رہی ہے لیکن میری گڑیا جب دلہن بنے گی تو اس سے بھی پیاری لگے گی۔اسکی آنکھوں میں چمکتے خواب ہونگے۔"

Mirh@_Ch
 

انھوں نے اس کے آنسو پونچھتے ہوئے کہا۔ایمان بھیگی آنکھوں سے مسکرا دی۔شمائلہ بیگم کو وہ بہت عزیز ہو گئی تھی۔اسکی خاموشی انھیں کَھلتی تھی اور وہ یہ بھی جانتی تھیں کہ غزنوی کا رویہ اس کے ساتھ ٹھیک نہیں ہے جسکی وجہ سے وہ اس قدر خاموش ہوتی جا رہی ہے۔ایمان کے جانے کے بعد وہ سوچ رہیں تھیں کہ ایمان کو غزنوی کے ساتھ بھیجیں گی تاکہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ کچھ وقت گزاریں اور ایک دوسرے کو سمجھیں۔وہ انھیں اسطرح نہیں رہنے دے سکتیں تھیں اور نہ ہی ساری زندگی اسطرح گزاری جا سکتی ہے۔انھیں کچھ نہ کچھ تو کرنا ہی ہو گا۔
🌼🌼🌼

Mirh@_Ch
 

وہ ڈریس تہہ کرنے لگی تھی کہ شمائلہ ببگم نے اسے روک دیا۔وہ صبح سے اسکا تھکا تھکا سا انداز دیکھ رہی تھیں۔انھوں نے اس کا ذکر عقیلہ بیگم سے بھی کیا تھا مگر انھوں نے یہ کہہ کر انھیں تسلی دی کہ وہ گھبرا رہی ہے اور اپنے والدین کو بھی یاد کر رہی گی اس لئے صبح سے اداس ہے۔
"ایمان۔۔۔۔!!"
اس سے پہلے کہ وہ دروازہ کھول کر باہر نکلتی انھوں نے اسے روکا۔
"جی۔۔!!"وہ پلٹی۔۔
"کیا بات ہے بیٹا۔۔۔صبح سے تم کچھ بُجھی بُجھی سی لگ رہی ہو۔"وہ چہرے پہ پریشانی لئے اسے دیکھ رہی تھیں۔
"نہیں تو ایسی کوئی بات نہیں۔۔۔بس بابا کی یاد آ رہی تھی۔"اسکی آنکھوں میں تیرتے آنسو انھیں بے چین کر گئے تھے۔وہ اٹھ کر اس کے پاس آئیں۔
"یہ شادی کے بھکیڑے ختم ہوں تو میں غزنوی سے کہوں گی کہ تمھیں لے جائے۔ایک دو دن رہ لینا ان کے پاس۔"

Mirh@_Ch
 

ایمان۔۔بیٹا کیا سوچ رہی ہو۔۔؟ کیسا ہے؟"
شمائلہ بیگم نے اس کے سامنے پستئ رنگ کی بے حد خوبصورت میکسی کو پھیلا رکھا تھا۔اس نے چونک کر انھیں دیکھا تو شمائلہ بیگم نے آنکھوں کے اشارے سے اسے متوجہ کیا۔جوڑے کی دمک آنکھوں کو خیرا کیے دے رہی تھی۔
"بہت پیارا ہے۔۔"وہ آہستگی سے بولی۔
"اچھا یہ لے جاؤ۔۔۔آج تم بھی سحرش اور پرخہ کے ساتھ پالر سے تیار ہو گی۔ان کے ساتھ ہی چلی جانا۔یہ نا ہو کہ ادھر ادھر کے کاموں کو خود کو مصروف کر لو اور بھول جاؤ۔۔بلکہ اب اپنے کمرے میں جا کر آرام کرو۔۔آج تو میری بیٹی کا دن ہے۔"
شمائلہ بیگم نے بہت محبت سے اسکی ٹھوڑی کو چُھو کر اسکا چہرہ اونچا کیا۔
"جاؤ تم جاؤ اپنے روم میں، میں شگفتہ کے ہاتھ بھیجتی ہوں