"آپ بالکل ٹھیک کہہ رہی ہیں مگر بہن میں اپنی بیٹی کو لوگوں کی طنزیہ باتوں سے بچانا چاہتی ہوں۔اپنی زندگی میں ہی اسے اسکے گھر اور شوہر کے ساتھ بسا ہوا دیکھنا چاہتی ہوں۔اسے خوش دیکھنا چاہتی ہوں۔میری بچی کی مسکراہٹ چھن گئی ہے۔کل اتنے دنوں بعد میں نے اس کے چہرے پر سکون و اطمینان دیکھنا چاہتی ہوں۔"
بلقیس بیگم نے آنکھوں میں ڈولتی نمی کو اپنے ڈوپٹے سے پونچھا۔
"اللہ آپ کی عمر دراز کرے۔۔اُس پر توکل رکھیئے۔۔۔وہ سب بہتر کرے گا۔"
عقیلہ بیگم نے بلقیس بیگم کی ہمت بندھائی۔
"اسی کا تو آسرا ہے عقیلہ بہن۔۔۔"
بلقیس بیگم ایک گہری سانس خارج کی اور مسکرا دیں۔۔یوں جیسے دعا کی قبولیت کا احساس روح میں اتر گیا ہو۔
آج بارات تھی۔۔سبھی صبح سے تیاری میں لگے ہوئے تھے۔بلقیس بیگم اور کی بیٹی رقیہ اس وقت عقیلہ بیگم کے کمرے میں بیٹھی ان سے بات کر رہی تھیں۔رقیہ ان کے قریب اپنے کپڑوں کا بیگ کھولے آج کے لئے کپڑے نکال رہی تھی۔
"آپ پریشان نہ ہوں۔۔انشاءاللہ۔۔اللہ تعالیٰ بہت بڑا مسبب الاسباب ہے۔اُس نے ہماری رقیہ بیٹی کے لئے کچھ بہت بہترین چنا ہو گا، بس معین وقت کا انتظار۔۔۔پھر وہ آپ نے تو سنا ہی ہو گا اور آپ کو یقین بھی ہو گا کہ جب وہ دیتا ہے تو چھپر پھاڑ کر دیتا ہے۔"
عقیلہ بیگم نے تسبیح آنکھوں سے لگا کر سائیڈ ٹیبل پہ رکھی اور رقیہ کی جانب ملائم بھری نگاہوں سے دیکھا۔رقیہ اپنے کپڑے نکال کر کمرے سے باہر چلی گئی۔بلقیس بیگم نے اسے بڑے دکھ سے جاتے دیکھا۔ان کے چہرے پر چھایا دکھ عقیلہ بیگم کو مزید دُکھی کر گیا
کمال بھی کمال ہی ہے۔۔ہمیں کیا ضرورت اس کمبخت کے نقشِ قدم پر چلنے کی۔"
خیرن بوا نے وہیں سے ڈی۔جے کو لتاڑا۔عقیلہ بیگم اور بلقیس بیگم انکی بات سن کر ہنس دیں تھیں۔
"خالہ کمال نہیں کمیل نام ہے۔"
رقیہ تصحیح کرنا نہ بُھولی۔
"ائے ہاں ہاں وہی کمیل۔۔۔اماں باوے نے کیسا مشکل نام رکھ دیا بچے کا۔۔زبان پہ چڑھنے کا نام ہی نہیں لیتا۔"
خیرن بوا ٹھوڑی پہ انگلی رکھ کر ہنستے ہوئے کہنے لگیں۔باقی سب بھی ہنس دئیے تھے۔
بلقیس بیگم نے دونوں کے سر پہ ہاتھ پھیرا اور عقیلہ بیگم کے ساتھ بیٹھ گئیں۔
"جی بالکل ٹھیک۔۔آپ کیسی ہیں؟"
غزنوی نے جواب دیا۔
"خالہ آپ میوزک انجوائے کریں۔۔۔میں زرا داجی سے مل لوں۔"
کمیل نے بلقیس بیگم کی طرف دیکھ کر کہا جس پہ وہ مسکرا دیں۔وہ دونوں بائیں جانب بیٹھے داجی کی طرف بڑھ گئے جبکہ خیرن بوا کمیل کے الفاظ پر غور کرنے لگیں۔
"ائے بیٹا یہ کمال کیا کہہ کر گیا ہے؟"
خیرن بوا کی عقل جب تھک ہار گئی تو عقیلہ بیگم کے ساتھ بیٹھی بلقیس بیگم کی بیٹی رقیہ سے پوچھا۔
"خالہ وہ اس موسیقی کی بات کر رہا تھا۔"
رقیہ نے ڈی۔جے کی طرف اشارہ کیا۔۔جو اب اپنے لگائے گانے پہ وہیں کھڑے کھڑے ڈانس بھی کر رہا تھا۔
"لو توبہ میری۔۔۔یہ آج کل کے لونڈے بھی نا۔۔۔ائے ہمیں کہہ رہا ہے کہ اس مُوے۔۔۔ائے کیا نام لے رہا تھا۔۔۔ہاں مایوزک(میوزک) کو سنیں۔۔
بلقیس بیگم عقیلہ بیگم سے معانقہ کرنے کے لئے آگے ہوئیں۔عقیلہ بیگم بھی ان سے گلے ملیں۔
"اللہ کا شکر ہے۔۔۔سب ٹھیک۔۔"
کمیل اور غزنوی عقیلہ بیگم سے ملنے والی خاتون کو دیکھ کر حیران رہ گئے۔
"ارے بلقیس خالہ آپ یہاں۔۔۔واٹ آ سرپرائز۔۔۔"
کمیل نے بلقیس بیگم کو دیکھ کر خوشی کا اظہار کیا تھا۔بلقیس بیگم بھی ان دونوں کو دیکھ کر بہت خوش ہوئی تھیں۔
"ائے لونڈو(لڑکو)۔۔۔تم دونوں کیسے جانتے ہو میری بہن کو۔۔۔؟"
خیرن بوا نے حیرانی سے پوچھا جبکہ عقیلہ بیگم بھی حیران نظروں سے غزنوی اور کمیل کو دیکھ رہی تھیں۔
"شاہ گل میں اسلام آباد میں جہاں رہتا ہوں وہیں پڑوس میں بلقیس خالہ بھی رہتی ہیں۔۔وہیں پہ اِن سے میری اور کمیل کی ملاقات ہوئی تھی۔"
غزنوی نے عقیلہ بیگم سے کہا۔
"کیسے ہو بیٹا۔۔؟"
کمیل لان میں بیٹھے مہمانوں کے چہرے کھوجتا بولا۔
"ہاں ہاں مل لینا۔۔"
وہ لاپروائی سے کہتا اسے عقیلہ بیگم سے ملوانے ان کے پاس لے آیا۔عقیلہ بیگم کمیل سے مل کر بہت خوش ہوئیں۔پہلے کبھی اس سے ملی نہیں تھیں۔۔صرف اس کا نام ہی سنا تھا یا پھر غزنوی سے تھوڑا بہت ذکر سنا تھا۔غزنوی کے لئے وہ پریشان رہتی تھیں مگر اب کمیل سے مل کر وہ مطمئن ہو گئیں تھیں۔ابھی وہ کمیل سے اس کے خاندان والوں کا حال احوال پوچھا ہی رہی تھیں کہ خیرن بوا اونچا اونچا بولتی وہاں آئیں۔
"عقیلہ بیگم۔۔۔یہ میری بہن۔۔۔بلقیس۔۔اوران کی بیٹی رقیہ۔۔"
خیرن بوا نے اپنے یچھے کھڑی کسی بزرگ خاتون کا تعارف عقیلہ بیگم سے کروایا۔۔۔ساتھ ہی ساتھ اپنے پاس کھڑی سانولی سی مگر ملائم نقوش والی لڑکی سے بھی تعارف کرایا۔۔
"اسلام علیکم۔۔۔!! کیسی ہیں آپ۔۔۔؟"
وہ گیٹ پہ کھڑا انتظار کر رہا تھا کہ کمیل اسے آتا دکھائی دیا۔
"کب سے انتظار کر رہا تھا۔۔۔کہا بھی تھا کہ میرے ساتھ چلو۔۔مگر تمھیں تو اپنی کرنی ہوتی ہے۔
غزنوی اس پر برس پڑا۔
"ارے۔۔ارے۔۔۔کیا ہو گیا۔۔اتنا غصہ کیوں کر رہا ہے؟"
کمیل نے اسے پہلی مرتبہ اتنے غصے میں دیکھا تھا۔
"کچھ نہیں یار۔۔بس یونہی انتظار کی کوفت سے گزر رہا تھا۔"
غزنوی اسے لئے آگے بڑھا۔
"تم تو ایسے بی ہیو کر رہے ہو جیسے میں تمھاری روٹھی ہوئی محبوبہ ہوں۔"
کمیل ہنستے ہوئے بولا تو وہ بھی ہنسنے لگا تھا۔
"اچھا بتا بھابھی کیسی ہے؟میں تو خاص طور پر ایمان بھابی سے ملنے آیا ہوں۔"
لاریب ہنستے ہوئے کہنے لگی۔۔پھر ان سب نے اسی ہنسی مذاق میں کھانا کھایا۔کھانے کے بعد آہستہ آہستہ قریبی مہمان اپنے اپنے گھروں کو لوٹنا شروع ہوئے۔وہ سب بھی کھانے کے بعد اب سحرش اور پرخہ کے ساتھ آ کر بیٹھ گئی تھیں۔
"یار ایمان۔۔۔میں تو وہ بہت تھک گئی ہوں، چلو اندر چلتے ہیں۔"
جب تقریبا مہمان جا چکے تو سحرش نے ایمان سے کہا۔ایمان سحرش کی طرف آئی اور اسے لئے اندر کی جانب بڑھ گئی۔پرخہ بھی ان کے ساتھ ہی اٹھ گئی تھی۔آج سب کے رہنے کا انتظام عقیلہ بیگم کے پورشن میں ہی کیا گیا تھا کیونکہ اعظم احمد چاہتے تھے کہ دونوں بچوں کی رخصتی ان کے پورشن سے ہو اور ایسا ہی ہو رہا تھا۔
______________________________
ایمان۔۔۔تم ٹھیک سے کھانا کیوں نہیں کھا رہی۔"
وہ اپنے دھیان میں تھی کہ عنادل نے اس سے پوچھا۔
"ہاں میں ٹھیک ہوں، بس تھکاوٹ سی محسوس ہو رہی ہے اور سر میں بھی درد ہو رہا ہے۔"
ایمان نے اسے مطمئن کرنا چاہا۔
"لگتا ہے نظر لگ گئی ہے تمھیں۔۔آج لگ بھی تو بہت پیاری رہی ہو اور تو اور غزنوی بھائی کی بھی نظریں تم پر ہی اٹکی ہوئی تھیں۔مجھے تو لگتا ہے انہی کی نظر لگی ہے تمہیں۔۔جب بھی میری ان پر نظر پڑتی، وہ تمہیں ہی دیکھ رہے ہوتے ہیں۔"
عائشہ نے اپنے پیروں سے لپٹے معاذ کو اٹھا کر گود میں بٹھایا اور ایمان کو شرارتی انداز میں دیکھا۔باقی سب عائشہ کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے ہنس رہی تھیں جبکہ ایمان کے دل میں ایک ٹیس سی اٹھی اور اس کے رگ و پے میں سرایت کر گئی۔۔
"دیکھو تو شرما گئی ہے۔۔ابھی بھی یہ غزنوی بھائی سے شرماتی ہے۔"
"وہ دیکھو۔۔۔آ رہی ہے ملائکہ کے ساتھ۔۔۔"
عنادل کے سامنے دیکھتے ہوئے کہا۔ملائکہ اور ایمان انہی کی جانب آ رہی تھیں۔سحرش اور پرخہ کے لئے وہیں کھانا سرو کر دیا گیا تھا۔عقیلہ بیگم ان کے ساتھ ہی بیٹھی تھیں۔
"یار بڑی بھوک لگی ہے۔۔۔"
ملائکہ ان کے قریب پہنچتے ہی کرسی گھسیٹ کر بیٹھ گئی۔۔اسکے ساتھ والی چیئر ایمان نے سنبھال لی۔اس کے چہرے پر سنجیدگی تھی مگر ساتھ ہی ساتھ ان کی کسی نہ کسی بات پر مسکرادیتی تاکہ انہیں اس کے رویے کی تبدیلی کا اندازہ نہ ہو سکے۔اس نے ان کے سامنے مسکراہٹ کا لبادہ اوڑھ رکھا تھا مگر اندر اندر وہ اس تکلیف کو نہیں بُھلا پا رہی تھی جس سے اس کا کچھ دیر پہلے سامنا ہوا تھا۔
عنادل نے ٹیبل سے نیپکن اٹھاتے ہوئے کہا۔
"وہ کچھ خاموش سی نہیں لگ رہی تھی آج۔۔؟"
فائقہ نے ٹیبل کے قریب ہوتے ہوئے تھوڑا رازداری سے کہا۔
"نہیں تو۔۔۔مجھے تو ایسا کچھ نہیں لگا۔۔"
لاریب نے اسکے اندازے کی تردید کی تو سبھی سر ہلا کر کھانے کی طرف متوجہ ہو گئیں۔
تھوڑی دیر بعد عقیلہ بیگم نے باقاعدہ رسم کا آغاز کیا۔دونوں جوڑیاں تمام مہمانوں کی نگاہوں کا مرکز بنی ہوئی تھیں۔سبھی ہادی اور مصطفی کو چھیڑنے میں بھرپور کردار ادا کر رہے تھے۔مصطفی تو غزنوی کیطرح سنجیدہ مزاج کا تھا اس لئے ان کی چھیڑ خانی پہ صرف مسکرانے پہ اکتفا کر رہا تھا مگر ہادی بھرپور جواب دے رہا تھا۔سحرش اور پرخہ دونوں ہی لبوں پر شرمیلی مسکان سجائے، نظریں جھکائے بیٹھی تھیں۔مایوں کے ساتھ مہندی کی رسم بھی ادا کر دی گئی تھی کیونکہ اعظم احمد صرف گھر کی لڑکیوں کے کہنے کی وجہ سے ان رسموں کے لئے راضی ہوئے تھے ورنہ وہ زیادہ رسموں کے قائل نہیں تھے۔رسم ہو جانے کے بعد طعام کا سلسلہ شروع ہوا۔ان سبھی نے مل کر کھانا کیا۔
"ارے یار۔۔۔ایمان کہاں ہے، دکھائی نہیں دے رہی۔"
ارفع نے آس پاس نظر دوڑاتے ہوئے کہا۔۔
"اندر ہو گی۔۔۔"
خیرن بوا سمیت سب نے اسکی تعریف کی۔غزنوی ایمان کے الفاظ میں اٹکا تھا جبکہ وہ اس جانب دیکھنے سے گریز کر رہی تھی جہاں وہ بیٹھا تھا۔
"ایک اور۔۔۔ہم سب مل کر گائیں گے۔"
ملائکہ نے ایمان کی جانب دیکھ کر کہا۔
"اس رشتے نوں پیار کہیئے۔۔۔
اساں تے دیوانے ہاں، جد کہو جان وار دئی ایں۔۔"
وہ سب اس کے ساتھ مل کر گانے لگی تھیں۔ایمان نظریں جھکائے خاموشی سے کلائیوں پہ بندھے گجروں پر تھیں۔گلاب کی نم پتیاں اپنی ٹھنڈک اس کے اندر سموتی جا رہی تھیں۔اسکی آنکھوں میں نمی ہلکورے لینے لگی تھیں۔وہ اس لمحے سے کیسے نکل سکتی تھی جب اسکے دل کے نہاں خانوں میں چھپے اس شخص نے اسکے ملیح جذبوں کو اپنے سخت لہجے کی آگ سے جھلسا دیا تھا۔وہ سب اسکے دل کی حالت سے بےخبر اب خیرن بوا کے ساتھ مل کر گانا گا رہی تھیں۔وہ نظر بچا کر وہاں سے اٹھ کر اندر کی جانب بڑھ گئی
خیرن بوا نے ہنستے ہوئے دھیرے سے کہا تو وہ جھنپ گئی۔باقی سب بھی ہنس دیں۔
"چلو نہ ایمان۔۔اب تمھاری باری ہے۔"
ان سب نے اسرار کیا۔غزنوی بھی عقیلہ بیگم کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا۔ایمان اسے وہاں موجود دیکھ کر ہچکچاہٹ کا شکار تھی۔
"چلو نا بیٹا۔۔۔دیر ہو رہی ہے۔رسم بھی شروع کرنی ہے۔"
شمائلہ بیگم نے ایمان سے کہا۔
"تُسی جِتّو تے میں ہاری جاواں۔۔۔
عشق دے کھیڈ دے وچ، میں لکھ لکھ واری جاواں۔۔"
ایمان کی میٹھی آواز سبھی کے ساتھ غزنوی کے کانوں سے بھی ٹکرائی۔وہ حیران ہوا مگر چہرے پر کسی بھی قسم کے پہلےجذبے کو جگہ نہیں دی۔
"واہ واہ۔۔۔۔"
"چلو بھئی بہت ہو گیا۔۔۔میرا خیال ہے اب رسم کر دی جائے۔"
شمائلہ بیگم ہنستے ہوئے ان کی جانب آئیں۔اچھی خاصی رونق لگا رکھی تھی انہوں نے۔۔سارے مہمان بہت انجوائے کر رہے تھے۔
"بس تائی امی۔۔۔۔۔میری باری۔۔۔"
فائقہ نے جلدی سے کہا۔
"مینہ وس دا اے ہوٹل تے۔۔
تیرا میرا پیار ہو گیا، کوکا کولا دی بوتل تے۔۔"
فائقہ نے جیسے ہی مصرعہ مکمل کیا مہمانوں کا قہقہ گونج گیا۔
"چلو ایمان۔۔۔"
اب وہ سب ایمان کے پیچھے پڑ گئیں جبکہ وہ سر نفی میں ہلانے لگی۔۔ملائکہ کے بلند آواز میں کہنے سے سب ایمان کو دیکھ رہے تھے۔عقیلہ بیگم بھی مسکرا رہی تھیں۔اتنے دنوں میں جب جب وہ ڈھولک لے کر بیٹھتی تھیں ایمان بھی ان کا ساتھ دیتی تھی۔
"چل اب گا لے۔۔اب تو تیرا میاں بھی آ گیا ہے۔"
جیسے ہی پرخہ اور سحرش نے نشست سنبھالی۔۔ان کے ہاتھوں میں جان آ گئی۔فائقہ ڈھولک بجا کم اور پیٹ زیادہ رہی تھی اور باقی سب گانا سوچنے میں لگی تھیں۔سارے مہمانوں کا دھیان پہلے تو مایوں کی دولہنوں پر تھا مگر جیسے وہ شروع ہوئیں، سبھی کا دھیان ان کی جانب ہو گیا۔
"یار تم لوگ تو سوچتے رہو۔۔۔میں تو گا رہی ہوں۔۔۔"
فائقہ نے ڈھولک بجانے سے سرخ ہوتی اپنی ہتھیلیوں کو آپس میں رگڑا اور پھر ان سبھی کو کھسر پھسر کرتے دیکھ کر کہا۔وہ سب اسے دیکھنے لگیں۔وہ اسے روکنا چاہتی تھیں کیونکہ وہ جانتی تھیں کہ وہ ایک گانا گائے گی اور مجبوراً انھیں بھی اسکا ساتھ دینا پڑے گا۔۔۔اس سے پہلے وہ گانا سوچتی فائقہ شروع ہو چکی تھی۔
"ٹپیاں دی اے واری۔۔
میں کُڑی پِشور شہر دی_ٹپیاں توں نہ ہاری۔۔"
جیسے ہی فائقہ شروع ہوئی وہ سب بھی اسکا ساتھ دینے لگیں۔
لاریب نے چہرے پر دنیا جہان کی معصومیت سجاتے ہوئے کہا۔
"واہ واہ۔۔۔۔کیا معصومیت ہے۔"
ملائکہ نے بھی لاریب کی خبر لی۔فائقہ اور ارفع بھی اسے دیکھ کر اشارے کر رہی تھیں جبکہ ایمان مرتضی کے دل کی کیفیت سے واقف تھی
"تم لوگوں کا تو دماغ خراب ہو گیا ہے۔"
لاریب نے ڈھولکی فائقہ کی طرف دھکیلی۔۔فائقہ نے کے پہلے آئیے پہلے پائیے کے مصداق جلدی ڈھولکی پر اپنا تسلط جمایا کیا۔میوزک بند ہو چکا تھا۔اسی دوران غزنوی، طہ، مرتضی اور احد خیرن بوا کے ہمراہی میں پرخہ اور سحرش کو سرخ چمکیلے دوشالے کے سائے میں لان میں لائے۔سارے مہمانوں کی نظریں ان پر جمی تھیں۔وہ سب بھی محبت بھری نگاہوں سے پرخہ اور سحرش کو دیکھ رہی تھیں۔وہ لگ بھی تو بہت پیاری تھیں۔ہادی اور مصطفی پہلے ہی سے ان کے لئے سجائی گئی نشست پہ براجمان تھے اور اب انھیں اپنی طرف بڑھتا دیکھ کر اپنی جگ کھڑے ہو گئے
"یار تمھیں کتنی بار کہا ہے کہ میں کسی کا بھائی وائی نہیں ہوں۔۔تمھیں بڑی خواہش ہے میری بہن بننے کی۔اگر تم یہ بھائی کا صیغہ ہٹا کر ذرا پیار سے کہو تو گلا تو کیا ڈائریکٹ اوپر پہنچا نہ دوں تو کہنا۔ہمیشہ کانٹے ہی بھیجتی ہو مجھے زخمی کرنے کے لئے۔"
مرتضی نے آنکھوں ہی آنکھوں میں لاریب کو محبت کے تار بھیجے۔
"اچھا مرتضی بھائی ذرا میوزک بند کروائیں۔"
اس بار عنادل نے کہا تو وہ ایک نظر لاریب پر ڈالی اور سر ہلاتا ڈی جے کی طرف چلا گیا۔اس کے جانے کے بعد وہ سبھی لبوں پہ مسکراہٹ لئے لاریب کو گھور رہی تھیں۔لاریب نے ان سب کی مسکراتی نظروں کے جواب میں لاعلمی ظاہر کرتے ہوئے کندھے اچکا کر رہ گئی۔
"یہ کیا چل رہا ہے۔۔؟"
عنادل نے لاریب کو ٹہوکا دیا۔
"قسم سے عنادل مجھے نہیں پتہ۔۔"
"فائقہ جاو ذرا اس ڈی جے بھائی کو تو بند کرواؤ۔۔۔منحوس جان بوجھ کر ہمارے گانوں میں اپنے گانے اڑا رہا ہے۔"
لاریب نے فائقہ کے ہاتھ سے ڈھولک کھینچی۔
"خودی جاؤ۔۔میں نہیں لگتی اس کالے کے منہ۔۔۔منحوس کے سرخ ڈیلے تو ملاحظہ کرو۔۔ساری لڑکیوں پہ ایسے گھما رہا ہے جیسے اس کی رشتےدار ہوں۔میں نہیں جا رہی۔۔۔اسکے ڈیلوں کو برداشت کرنا میرے بس سے باہر ہے۔"
فائقہ نے ڈھولکی لاریب سے لےکر وہاں جانے سے انکار کیا۔
"ارے آپ مجھ سے کہیے۔۔۔کیا کام ہے۔۔۔میں ابھی فٹافٹ کر دوں گا۔"
مرتضیٰ اسی وقت وہاں آیا اور کرسی کھینچ کر ان کے قریب ہی بیٹھ گیا۔اس کے چہرے پر شرارت ناچ رہی تھی۔
اس کے چہرے پر شرارت ناچ رہی تھی۔
"مرتضی بھائی جائیں ذرا اس ڈی جے بھائی کا گلا تو دبا کر آئیں۔
"لاریب نے فورا مرتضی سے کہا۔لاریب کے بھائی کہنے پر اسکے چہرے کا ذاویہ بگڑا تھا۔
"بھائی آپ یہاں کیوں بیٹھے ہیں؟"
ملائکہ غزنوی کے پاس آئی تھی۔جو ان کو پاس آتے دیکھکر اب موبائل کان سے لگائے کسی سے بات کر رہا تھا۔
"کچھ نہیں۔۔ایک ایمپورٹنٹ کال کر رہا تھا۔"
اس نے ملائکہ کے ساتھ کھڑی ایمان کو دیکھا۔جو اس کی جانب دیکھ بھی نہیں رہی تھی۔اس نے ایک سرسری سی نظر ایمان پر ڈالی اور موبائل پاکٹ میں ڈالتا اٹھ کھڑا ہوا اور پھر لاؤنج سے نکل گیا۔وہ دونوں بھی اس کے پیچھے ہی باہر آئیں تھیں۔
____________________________________
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain