غزنوی کی اس بے اعتنائی کو دیکھکر آنکھوں میں ڈولتی نمی گالوں پہ چھلک آئی تھی۔
"ایمان۔۔۔!!"
ملائکہ کی آواز پر اس نے جلدی سے آنسو پونچھے اور گجرے پہن کر دروازے کی طرف آئی۔
"آ رہی ہوں۔۔۔"
وہ دروازہ کھول کر باہر آئی تو ملائکہ دروازے کے پاس ہی کھڑی تھی۔
"چلو۔۔۔"
وہ دونوں ساتھ ساتھ چلتی لاؤنج میں آئیں تو غزنوی وہیں لاؤنج میں بیٹھا تھا۔
ابھی تو وہ اپنی غلطی ڈھونڈ ہی رہی تھی کہ غزنوی نے گجرے اسکی طرف اچھالے، جو اس سے ٹکرا کر اسکے پیروں میں گر گئے۔
"اگر تمھیں یہ چونچلے کرنے کا بہت شوق ہے تو اپنے یہ شوق کسی اور سے پورے کرواؤ۔۔۔مجھ سے ایسی کوئی امید نہ رکھنا۔"
غزنوی نے گجروں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حقت آمیز لہجے میں کہا۔ایمان اس کے لہجے اور الفاظ پہ غور کرتی جھکی اور پیروں کے قریب پڑے گجرے اٹھا لیے۔
"اور ہاں۔۔۔اپنی یہ خواہشیں میری ماں کے ذریعے پوری کرنا چھوڑ دو۔۔۔جاؤ اب یہاں سے۔۔"
نخوت سے کہتا وہ رخ پھیر گیا۔ایمان کو پہلے کبھی اتنی تحقیر محسوس نہیں ہوئی تھی۔
"آ۔۔۔آپ کو کوئی غلط۔۔۔۔۔"
گلگوں لہجے میں وہ کہہ رہی تھی مگر اس سے پہلے کہ وہ بات مکمل کرتی وہ تیزی سے اس کے پاس سے گزر کر کمرے سے نکل آ گیا۔غزنوی کی
ذرا اپنی بھابی کو بھیجو۔۔۔میں روم میں ہوں۔۔ایک شرٹ آئرن کر دے۔"
غزنوی نے ملائکہ سے کہا اور فورا واپس مڑ گیا۔ملائکہ واپس آئی اور ایمان کو غزنوی کا پیغام دے دیا۔شرٹ استری کرنے کا سن کر وہ ریلیکس انداز میں لاؤنج سے گزر کر اپنے کمرے میں آئی تھی مگر وہاں تو بپھرا ہوا شیر بیٹھا تھا۔جیسے ہی وہ کمرے میں داخل ہوئی وہ بیڈ سے اٹھ کر تیر کی سی تیزی سے اس کے پاس آیا۔کچھ لمحے تو وہ اسے گھورتا رہا۔ایمان کے دل میں غزنوی کو لے کر کوئی خوش فہمی تو تھی نہیں مگر ایسا بھی نہیں لگ رہا تھا کہ وہ اتنے غصے میں ہوگا۔اب تو وہ اسکے مزاج کے سارے رنگوں سے آشنا ہو چکی تھی۔۔آسانی سے اسکی آنکھیں پڑھ لیتی تھی۔
"یہ لو۔۔۔"
اب پھر اس جادوگرنی کی شکل دیکھنی پڑے گی۔"
وہ دل ہی دل میں کڑتا لان کی جانب بڑھ گیا۔
️
"یہ سب کے سامنے میں نے اسے دیئے تو سب کو موقع مل جانا ہے۔"
ہاتھ میں گجرے لئے وہ لاؤنج کے دروازے پر کھڑا سوچ رہا تھا۔
"اف۔۔۔امی کو بھی یہ کام مجھ سے ہی کروانا تھا۔خود دے دیتیں یا کسی اور کسی اور سے کہہ دیتیں۔اب یہ کام بھی میں کروں گا۔"
وہ کوفت کا شکار ہونے لگا۔کچھ دیر وہیں کھڑا رہا پھر کچھ سوچ کر واپس اپنے کمرے میں آ گیا مگر آنے سے پہلے وہ گجرے ٹیبل پہ رکھ کر لان میں آیا۔نظریں ادھر ادھر گھمائیں تو ایمان اسے ملائکہ اور باقی سب کے ساتھ تخت پر بیٹھی دکھائی دی۔اس نے کچھ قریب آ کر ملائکہ کو آواز دی۔ملائکہ کے دیکھنے پر اس نے اسے اشارے سے پاس بلایا۔
"جی بھائی۔۔۔"
ملائکہ نے پاس آ کر پوچھا۔
چلیں چھوڑیں بُوا۔۔۔یہ بتائیں آج آپ کی بہن نے بھی تو آنا تھا نا۔۔کیاوہ آ گئیں ہیں؟"
شمائلہ بیگم نے انکی توجہ ایمان کی جانب سے ہٹانی چاہی اور اسمیں کامیاب بھی رہی تھیں۔
"ارے ہاں۔۔دیکھو میں تو بھول ہی گئی۔۔میں تمھارے پیچھے آئی تھی کہ وہ آ گئی ہے آ کر مل لو۔۔"
خیرن بوا نے ماتھے پہ ہاتھ مارا۔
"جی جی۔۔چلیں۔۔غزنوی۔۔بیٹا یہ گجرے ایمان کو دے دو۔"
شمائلہ بیگم نے گجرے غزنوی کے ہاتھ میں دیئے اور خیرن بوا کے ساتھآگے بڑھیں۔غزنوی ہاتھ میں پکڑے پھولوں کے گجرے کو دیکھ رہا تھا۔
سلام و علیکم بوا۔۔۔"
غزنوی نے سر کو تھوڑا سا خم دیا تھا۔انھیں دیکھ کر اسے بلقیس خالہ یاد آ گئیں تھیں۔ان چار دنوں میں بلقیس بیگم نے اسکا بہت خیال رکھاتھا۔دن میں تو وہ آفس میں ہی لنچ کر لیتا تھا لیکن وہ رات میں اسکے لئے کھانا ضرور بھجواتی تھیں۔
"وعلیکم السلام۔۔۔جیتے رہو۔۔کب آئے تم۔۔صبح سے تمھاری ماں تو باؤلی ہوئی جا رہی تھی۔"
خیرن بوا نے ڈوپٹہ سر پہ ٹھیک سے جماتے ہوئے شمائلہ بیگم کی جانب دیکھا۔شمائلہ بیگم مسکرا دیں تھیں۔
"بس ابھی کچھ دیر پہلے ہی پہنچا ہوں بُوا۔۔ایک کام میں پھنس گیا تھا کہ وقت پر نکلنا نہ ہو سکا۔آپ کو تو پتہ ہے کسی بھی کام کی شروعات اتنی آسان نہیں ہوتی۔۔بس اسی وجہ سے دیر ہو گئی۔امی کو تو فون پر کہا بھی تھا کہ دیر ہو سکتی۔۔امی تو یونہی پریشان ہوتی رہتی ہیں۔"
شمائلہ بیگم نے اس کے چہرے پہ ملائمت سے ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔سفید شلوار سوٹ پہ بلیک واسکٹ اور بلیک پشاوری چپل پہنے وہ واقعی کسی شہزادے سے کم نہیں لگ رہا تھا۔چہرے پہ بلا کی سنجیدگی تھی۔ہلکی بڑھی ہوئی داڑھی سے بھی اسکی آن بان میں کوئی کمی نہیں آئی تھی بلکہ یہ سنجیدہ انداز اسے سب میں مختلف اور مزید خوبرو بنا رہا تھا۔انھوں نے آنکھوں آنکھوں میں اسکی نظر اتاری۔غزنوی ان کے اس انداز میں تعریف کرنے پہ مسکرا دیا۔
"اے دلہن جلدی آؤ نا۔"
خیرن بوا کی آواز پہ وہ دونوں پلٹے تھے۔وہ لاؤنج ہی کے دروازے میں کھڑی شمائلہ بیگم کی جانب دیکھ رہی تھیں۔
"بس آ ہی رہی تھی بوا۔"
شمائلہ بیگم نے گجرے غزنوی کی طرف بڑھائے مگر اس نے ہاتھ نہیں بڑھایا۔
وہ باہر آیا تو اسکی نظریں ایمان ہی کو تلاش کر رہی تھیں مگر وہ کمرے میں نہیں تھی۔اس نے اپنے دل کی کارستانیوں پہ اسے جھڑکتے ہوئے باقی کی تیاری مکمل کی۔سفید شلوار سوٹ پہ اسکے لئے پیلے رنگ کا صافہ بھی رکھا گیا تھا مگر وہ اس نے بیڈ پہ چھوڑ دیا۔الماری سے اپنی بلیک واسکٹ نکال کر پہنی اور کمرے سے باہر آ گیا۔گھر کے اندر مکمل خاموشی تھی۔وہ تیزی سے سیڑھیاں اتر کر لاؤنج سے ہوتا لان کی طرف بڑھنے والا تھا کہ شمائلہ بیگم کے پکارنے پر پلٹا۔وہ اپنے کمرے سے نکل رہی تھیں۔ان کے ہاتھ میں پیلے اور سفید رنگ کے پھولوں کے دو گجرے تھے۔
"جی امی۔۔"
وہ ان کے پاس آیا۔
"ماشاءاللہ۔۔!! میرا بیٹا کتنا پیارا لگ رہا ہے۔"
ارفع نے احد کی محبت کا نغمہ سناتی آنکھوں میں جھانکا۔
"ہونہہ۔۔۔چلو گرلز وہاں چلتے ہیں۔"
ارفع نے ناک منہ چڑھاتے ہوئے احد کی طرف دیکھا اور صوفے کے دائیں طرف تھوڑے سے فاصلے پہ رکھے تخت کی جانب اشارہ کیا جسے بھی پھولوں سے سجایا گیا تھا اور وہیں ڈھولک بھی موجود تھی۔اگلے ہی لمحے وہ سبھی وہاں تخت پہ بیٹھی ڈھولک پیٹ رہی تھی۔
"جاو بیٹا بہنوں کو لے آو تاکہ رسم شروع کی جائے۔"
عقیلہ بیگم نے احد سے کہا۔وہ مرتضی، طٰہٰ اور فروز بھی اٹھ کھڑے ہوئے۔
"خیرن ذرا ان کے ساتھ جاؤ یہ نہ ہو کہ بچیوں کو یونہی ہاتھ سے پکڑ کر لے آئیں۔"
عقیلہ بیگم نے ہنستے ہوئے خیرن بوا سے کہا تو وہ اپنا سفید غرارہ سنبھالے اٹھ کھڑی ہوئیں۔چاروں لڑکے آگے آگے اور خیرن بوا ان کے پیچھے پیچھے اندر کی جانب بڑھ گئیں تھیں۔
عنادل نے اپنے کھلے سلکی بالوں کو اٹھلا کر پیچھے کیا تھا۔
"توبہ توبہ کیا زمانہ آ گیا ہے۔۔کیسے کیسے لوگ ہیں دنیا میں۔۔صبح تک تو ساری چڑیلیں تھیں اور اب ایک دم سے پریاں۔۔۔یہ کون سی جادو کی چھڑی ہے بوا۔۔۔آپ کو معلوم ہو تو مجھے بھی بتائیے گا۔"
احد نے ساتھ بیٹھی بوا کو بھی بیچ میں گھسیٹ لیا۔
"ہاں ہاں بوا۔۔۔میں بھی جاننا چاہوں گا۔"
مرتضی نے بھی اپنی ٹانگ اڑانی چاہی۔طہ اور فروز بھی ہنس دئیے تھے۔
جیسے وہ کسی بڑے سنجیدہ موضوع پہ بات کر رہا ہو۔خیرن بوا اسکا اشارہ سمجھ کر منہ پہ ڈوپٹہ رکھ کر ہنسنے لگی تھیں۔
"احد۔۔۔۔"
عقیلہ بیگم نے اسے تنبیہی انداز میں گھورا۔
"شاہ گل۔۔۔اس لمبو کو سمجھا دیں کہ ہم سے نہ ٹکرائے ورنہ پاش پاش ہو جائے گا۔"
"ارے واہ۔۔۔ہماری بھابھی نے تو آج میدان لوٹ لینا ہے۔"
ملائکہ نے ایمان کو سیڑھیوں سے اترتے دیکھ کر ان سب سے کہا۔سبھی نے ایمان کو دیکھ کر اوئے ہوئے کے نعرے لگائے۔ایمان لبوں پہ شرمیلی مسکان لئے ان کے قریب آئی۔کتنے دنوں سے اس پہ چھائی یاسیت نجانے کہاں چھپ گئی تھی۔سبھی نے رسم کی مناسبت سے پیلے رنگ کے ڈریسز بنوائے تھے مگر تمام لباس تراش خراش میں ایک دوسرےسے مختلف تھے۔وہ سبھی ایمان کو ساتھ لئے ہنستی کھلکھلاتی لان میں آئیں۔
"لیجیئے شاہ گل سبھی چڑیلیں نازل ہو چکی ہیں۔"
احد کی نظر ان پہ پڑی تو اس نے عقیلہ بیگم کو متوجہ کیا تھا۔انھوں آنکھوں ہی آنکھوں میں ان سب کی نظر اتاری۔۔سارے لڑکے بھی عقیلہ بیگم کے اردگرد کرسیاں ڈالے بیٹھے تھے۔
"ماشاءاللہ ۔۔۔۔میری بیٹیاں کتنی پیاری لگ رہی ہیں۔"
عقیلہ بیگم نے ان کے قریب آنے پہ کہا۔
"تھینک یو شاہ گل۔۔۔"
کمرے کی خاموشی کو غزنوی کی سنجیدہ آواز نے توڑا۔ایمان الماری کی طرف بڑھی تھی۔غزنوی کی طرف اسکی پیٹھ تھی۔وہ الماری کے پٹ کھولے کپڑے نکال رہی تھی۔پیلے جوڑے میں ہلکا ہلکا میک اپ کیے وہ نظر لگ جانے کی حد تک خوبصورت لگتی بڑے سے ڈوپٹے کو سنبھالنے میں وہ ہلکان ہو رہی تھی۔غزنوی شرٹ کے اوپری بٹن کھولتا، بےخود انداز میں دھیرے دھیرے چلتا اسکے پیچھے آ کھڑا ہوا۔وہ الماری سے سفید شلوار سوٹ نکال کر مڑی۔یوں اپنے پیچھے اسے کھڑے دیکھ کر ایک پل کو تو وہ گھبرا گئی۔
"یہ لیں۔۔"
وہ اپنے بیوٹی بکس میں جلدی جلدی چیزیں ڈالتے ہوئے بولی اور بکس بند کر کے کھلے دروازے سے باہر نکل گئی۔غزنوی تو وہیں قدم جمائے کھڑا ایمان کی جانب دیکھ رہا تھا۔بیوٹیشن کمرے سے نکلتے ہوئے اپنے پیچھے دروازہ بند کر دیا تھا۔دروازہ بند ہونے کی آواز غزنوی کو ہوش میں لے آئی۔ایمان بھی اس سے نظریں چرائے ڈریسنگ ٹیبل پہ رکھی چیزوں کو خواہ مخواہ ہی ادھر ادھر کر رہی تھی۔
"السلام و علیکم۔۔"
ایمان نے بار بار شانے سے ڈھلک جانے والے ڈوپٹے کو سنبھالتے ہوئے دروازے کے پاس قدم جمائے کھڑے غزنوی کو دیکھ کر سلام کیا۔
"وعلیکم السلام۔۔"
غزنوی نے سلام کا جواب دیا اور جیب سے گاڑی کی چابی اور موبائل نکال کر بیڈ کی طرف بڑھا۔ایمان نے پلٹ کر اسے دیکھا۔بڑھی ہوئی شیو۔۔۔ملگجا لباس اور چہرے پہ چھائی سنجیدگی۔۔۔وہ اسے بہت تھکا ہوا سا لگا۔
"میرے کپڑے نکال دو۔"
ساتھ اس سے باتیں بھی کرتی جا رہی تھی۔
"امی میرے کپڑے نکال دیجیئے آ کر۔۔۔میں ابھی ریڈی۔۔۔"
غزنوی بجلی کی سی تیزی سے کمرے میں داخل ہوا تھا۔اسے یوں اچانک کمرے میں داخل ہوتے دیکھ کر ایمان کھڑی ہو گئی اور بیوٹیشن جو اسکا ڈوپٹہ پن اپ کرنے کی سعی کر رہی تھی اس کے ہاتھ سے ڈوپٹہ چُھوٹ کر ایمان کے شانے سے ہوتا چیئر پہ ٹھہر گیا۔بیوٹیشن ایمان کی کنڈیشن دیکھ کر جان گئی تھی کہ آنے والا کون ہو سکتا ہے۔دوسری جانب غزنوی کی حالت بھی ایمان سے کسی صورت کم نہیں لگ رہی تھی۔وہ دروازے پہ ہاتھ رکھے وہیں مجسمے کیطرح کھڑا رہ گیا تھا اور ٹکٹکی باندھے ایمان کو دیکھ رہا تھا۔
"آ۔۔۔۔اسے یونہی رہنے دیں۔"
ایمان فورا رخ پھیر کر بیوٹیشن کو ڈوپٹے سے الجھتے دیکھ کر بولی تھی۔
"ٹھیک ہے۔۔۔بس آپ ریڈی ہیں۔"
وہ اسے ہدایت دیتی واپس مڑ گئیں۔وہ سست قدموں سے چلتی اپنے کمرے میں آ گئی۔شمائلہ بیگم نے آج کے لئے اسکا ڈریس بیڈ پہ رکھا تھا۔یہ پیلے رنگ کا جدید تراش خراش کا بہت خوبصورت ڈریس تھا۔وہ بجھے دل سے کپڑے اٹھا کر واش روم میں گھس گئی۔فریش ہو کر باہر آئی تو بیوٹیشن باہر اس کے انتظار میں بیٹھی تھی۔اسے باہر آتا دیکھ کر وہ اٹھ کھڑی ہوئی اور مسکراتے ہوئے اسکی جانب بڑھی۔پیلے جوڑے میں وہ اِس سادگی میں بھی غضب ڈھا رہی تھی۔پیلے رنگ میں اسکی سپید رنگت دمک رہی تھی۔
"آپ تو بنا میک اپ کے بھی بہت پیاری لگ رہی ہیں۔"
بیوٹیشن نے ایمان کی موہنی صورت کو توصیفی نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا۔ایمان نے مسکراتے ہوئے اسے شکریہ کہا اور پھر ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے بیٹھ گئی۔بیوٹیشن اسکے بیٹھتے ہی اپنا بیوٹی بکس کھول چکی تھی
ساتھ والے پورشن میں مہمانوں کے لئے کھانے کا انتظام کیا گیا تھا۔سحرش اور پرخہ تیار ہونے پالر جا چکی تھیں۔۔دونوں کی مایوں کی رسم اکٹھی ہی ہونی تھی جبکہ دونوں دولہے ہادی اور مصطفی بھی اپنی اپنی تیاری میں مگن تھے۔کچھ لڑکیوں کی تیاری مکمل تھی اور کچھ تیار ہو رہیں تھیں۔ایمان ابھی تک تیار نہیں ہوئی تھی۔اس وقت وہ کچن میں تھی۔
"ایمان۔۔بیٹا اب تک تیار نہیں ہوئی تم۔۔؟"
شمائلہ بیگم کچن میں آئیں تو وہ کچن میں مٹھائی کے ٹوکرے رکھوا رہی تھی۔
"جی امی بس جا ہی رہی تھی۔"
ایمان ڈوپٹہ درست کرتے ہوئے بولی۔
"جلدی جاو بیٹا۔۔تیار ہو جاؤ میں بیوٹیشن کو بھیجتی ہوں تمھارے روم میں۔۔"
شمائلہ بیگم اسے کہتی پلٹ کر جانے لگیں۔
آج مایوں کی رسم تھی۔گھر میں مہمانوں کی آمد شروع ہو چکی تھی۔گھر میں کافی چہل پہل تھی۔غزنوی دو دن کا کہہ کر گیا تھا مگر اب تک واپس نہیں آیا تھا۔مایوں کی رسم کے لئے گھر کے لان میں ہی ڈیکوریشن کی گئی تھی۔پورے گھر کو برقی قمقموں سے سجایا گیا تھا۔یہ سجاوٹ مکرم احمد کے پورشن میں کی گئی تھی۔پورا گھر کسی خوبصورت محل کا سا منظر پیش کر رہا تھا۔پیلے، گلابی اور نارنجی رنگوں سے پورے لان کو سجایا گیا تھا۔
ایک جانب گلابی رنگ کے صوفے کو دلہنوں کے لئے نشست کے طور پر سجایا گیا تھا۔صوفے کے سامنے کے حصے کے کو چھوڑ کر پیچھے اور اطراف میں پیلے، گلابی اور نارنجی رنگ کے پھولوں کی لڑیاں لٹک رہی تھیں جو صوفے کے اوپر بنی آرٹیفیشل گلابی اور نارنجی رنگ کی چھوٹی سی چھت کے وسط میں لگے پھولوں کے گلدستے سے جوڑیں گئیں تھیں جو ایک پھولوں کے تخت کا سا منظر پیش کر رہا تھا۔
"کیا ضرورت تھی اتنی بکواس کرنے کی۔۔منہ کو ذرا لگام نہیں لگا سکتے تھے۔جب دیکھو تمھارا یہ کاہل دماغ کا پرندہ جھوٹ کے انڈے دینے لگتا ہے۔"
غزنوی اس پہ چڑھ دوڑا۔
"ارے یار جھوٹ کہاں بولا۔۔۔تُو شادی شدہ ہے کہ نہیں۔۔ہے نا۔۔؟؟"
کمیل اسکی حالت سے حظ اٹھاتا بولا۔
"بکواس نہ کرو۔"
غزنوی نے اسے گھورا۔
"اور مجھے یقین ہے کہ جو تیرا ارادہ ہے۔۔بھابھی کو تو جب تک یہاں لانے پہ راضی ہوگا تیرے ایک تو کیا تین چار بچے تو ہو ہی جانے ہیں۔"
کمیل شرارتی انداز میں ہنستے ہوئے بولا جبکہ وہ اسے کھا جانے والی نظروں سے دیکھ رہا تھا۔
"چل یار پیٹ میں چوہے دوڑ رہے ہیں۔"
ائے میاں تم شادی شدہ ہو؟"
ابھی وہ لاونج کے دروازے تک پہنچے ہی تھے کہ بلقیس بیگم ماتھے پہ ہاتھ مارتیں غزنوی کی جانب پلٹی تھیں۔غزنوی کا ٹرے کی طرف بڑھتا ہاتھ وہیں تھم گیا۔
"جی جی خالہ۔۔یہ میاں شادی شدہ ہے بلکہ ایک بچے کا باپ بھی ہے۔"
غزنوی کی بجائے کمیل نے جواب دیا تھا جبکہ غزنوی بچے کے بارے میں سن کر کمیل کو سخت نظروں سے دیکھ رہا تھا۔کمیل کو یقین تھا کہ بلقیس بیگم کے چلے جانے کے بعد اسکی خیر نہیں۔وہ ہنسی ضبط کیے غزنوی کو ہی دیکھ رہا تھا۔دونوں ایک دوسرے کو آنکھیں دکھانے میں اس قدر مگن تھے کہ بلقیس بیگم کا تاریک ہوتا چہرہ نہ دیکھ سکے مگر پھر وہ خود کو سنبھال کر بولیں۔
"ماشاءاللہ۔۔! تو بیٹا اکیلے یہاں نہ رہنا، بیگم کو لے آنا جا کر۔۔۔اس بہانے میرا بھی دل لگا رہے گا۔"
غزنوی مسکرا دیا۔
اچھا چھوڑو۔۔۔ٹیپو میرے بچے۔۔ادھر آ۔"
بلقیس بیگم نے کمیل کے ساتھ کھڑے بچے کو اپنے پاس بلایا۔وہ ہنستے ہوئے انکے پاس آ کر بیٹھ گیا۔کمیل نے ٹرے ٹیبل پہ رکھی اور غزنوی سے کھانے کے آرڈر کے متعلق پوچھنے لگا۔
"بابا آ گئے تمھارے؟"
وہ ٹیپو سے پوچھنے لگیں جبکہ کمیل اور غزنوی کی بھوک ٹرے میں رکھی بریانی کی پلیٹ اور قورمے کے باول کے ساتھ روٹیاں دیکھ کر چمک اٹھی تھی مگر پھر بھی وہ دونوں ان دادی پوتے کی طرف متوجہ رہے۔
"نہیں دادو بابا ابھی تک نہیں آئے لیکن فون کر کے بتایا ہے کہ لیٹ آئیں گے۔اس لئے مما کہہ رہی تھیں کہ آ کر کھانا کھا لیں اور پڑوسیوں کو زیادہ سر نہ چڑھائیں۔"
بچے نے دادی کے سامنے من و عن اپنی ماں کے الفاظ دہرا دیئے۔کمیل اور غزنوی دونوں ایک دوسرے کو دیکھ کر رہ گئے جبکہ بلقیس بیگم ان کے سامنے شرمندہ ہو گئیں۔
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain