Damadam.pk
Mirh@_Ch's posts | Damadam

Mirh@_Ch's posts:

Mirh@_Ch
 

ائے کیا چھڑے چھانٹ ہو؟"
بلقیس بیگم نے اپنی موٹے موٹے عدسوں والی عینک کے پیچھے سے غزنوی کو گھورا۔اسی دوران کمیل کسی آٹھ سالہ صحت مند سے بچے کے ساتھ لاونج میں داخل ہوا تو ان کی جانب سے اسکا دھیان ہٹ گیا۔کمیل کے ہاتھ ٹرے تھی جس سے اٹھتی لوازمات کی خوشبو اسکے نتھنوں سے ٹکرائی تھی۔
"جی۔۔۔۔؟؟ میں سمجھا نہیں۔"
وہ دھیان ہٹنے کے باعث انھیں ٹھیک سے سن نہیں پایا تھا۔
"اے میاں۔۔اب ایسی مشکل اردو بھی نہیں بولی جو تم سمجھ نہیں سکے۔"
وہ ہنستے ہوئے بولیں تو غزنوی جھنپ گیا۔
"نہیں خالہ میرا یہ مطلب نہیں تھا۔"
وہ مسکرا دیا۔

Mirh@_Ch
 

کمیل نے غزنوی کی سوال کرتی نگاہوں کو دیکھ کر کہا۔
اسی دوران ڈور بیل کی چنگھاڑتی آواز ان کے کانوں سے ٹکرائی۔
"ائے بیٹا دیکھو تو ذرا ٹیپو آ گیا ہو گا۔"
بلقیس خالہ نے کمیل سے کہا۔وہ سر ہلا کر لاؤنج سے نکل گیا۔اس دوران بلقیس بیگم کبھی غزنوی تو کبھی گھر کا جائزہ لینے میں مصروف رہیں۔
"اکیلے رہتے ہو۔۔؟"
بلقیس خالہ نے غزنوی سے پوچھا۔جس پہ اس نے صرف سر ہلانے پر اکتفاء کیا۔
"ائے لو بھلا اکیلے کیسے رہو گے۔۔؟ کھانا پینا، صاف ستھرائی۔۔یہ سب کون کرے گا؟"
انہوں نے ٹھوڑی پہ انگلی رکھی اور حیرانی سے اسکی طرف دیکھا۔ان کا انداز دیکھ کر اسے خیرن بوا یاد آ گئیں۔وہ بھی اسی انداز میں گفتگو کیا کرتی تھیں اور ان کا انداز تخاطب بھی بالکل ایسا ہی تھا۔
"کوئی کام والی رکھ لوں گا۔"
وہ بولا۔

Mirh@_Ch
 

کمیل نے انھیں لگاتار غزنوی کی جانب دیکھتا پا کر اپنی جانب متوجہ کیا۔
"ہاں بیٹا بس کیا کروں۔۔بوڑھی ہو گئی ہوں اور پھر اتنے دن بھی تو ہو گئے ہیں یاد نہیں رہا۔"
وہ پھولی سانسوں کے درمیان بولیں۔
"ارے خالہ بوڑھی کہاں۔۔ابھی تو جوان ہیں آپ۔"
کمیل ہنستے ہوئے ان کے ساتھ بیٹھ گیا۔
"ائے اب اتنی بھی مبالغہ آرائی سے کام نہ لو لڑکے۔۔" وہ دوپٹہ منہ پر رکھ کر کھلکھلائیں۔
کمیل بلقیس بیگم کو شرماتے دیکھ کر مسکرا دیا۔
"یہ بلقیس خالہ ہیں۔یہیں پڑوس میں رہتی ہیں۔جب میں یہاں کام سے آتا تھا تو دو تین بار ان سے ملاقات ہوئی تھی۔اِنھوں نے میرا بڑا خیال رکھا تھا۔"

Mirh@_Ch
 

کمیل انھیں صوفے پہ بٹھا کر پانی لانے کے لئے مڑا۔
"ارے نہیں بیٹا۔۔۔میں ٹھیک ہوں۔۔۔یہ لڑکا کون ہے؟ تمھارا دوست ہے۔۔ائے لگتا تو بڑے اچھے گھر کا ہے۔"
بلقیس بیگم نے اپنی عینک ناک پہ ٹکائی اور غزنوی کی جانب بغور دیکھتے ہوئے کہا۔کمیل مسکرا دیا۔
"خالہ یہ اسی کا گھر ہے۔بتایا تھا نا آپکو کہ دوست کا گھر ہے۔آپ بھول گئیں شاید۔"
کمیل نے مسکراتے ہوئے غزنوی کا تعارف کروایا تو غزنوی نے آگے بڑھ کر انھیں سلام کیا۔
"جیتے رہو۔۔۔ماشااللہ۔۔!! اللہ تمھاری ماں کا کلیجہ ٹھنڈا رکھے۔"
بلقیس بیگم نے غزنوی کے شانے پہ ہاتھ رکھتے ہوئے دعا دی۔انھیں غزنوی بہت بھایا تھا۔
"اور سنائیں خالہ کیسی ہیں۔۔مجھے تو پہلے سے کافی کمزور لگ رہی ہیں۔"

Mirh@_Ch
 

آئیے آئیے خالہ۔"
کمیل کسی بزرگ خاتون کو ساتھ لئے لاؤنج میں داخل ہوا۔وہ خاتون کمیل کی جانب یوں مسکرا کر دیکھ رہی تھیں جیسے کافی ٹائم سے ان کی سلام دعا ہو۔غزنوی جو کچن کے دروازے میں موبائل لئے کھڑا تھا لاؤنج میں آ گیا۔اب وہ خاتون غزنوی کی جانب دیکھ رہی تھیں۔
"کیسی ہیں آپ۔۔۔؟"
وہ خاتون غزنوی کی جانب بغور دیکھ رہی تھیں کہ کمیل نے انھیں اپنی طرف متوجہ کیا۔
"کیسی ہیں خالہ۔۔؟"
کمیل نے ان سے پوچھا۔
میں ٹھیک ہوں بیٹا۔۔بس ذرا جوڑوں کے درد کی وجہ سے کہیں آ جا نہیں سکتی اسی لئے تو تم سے دوبارہ ملنے بھی نہیں آ سکی تھی۔"
وہ کمیل کے ساتھ ساتھ چلتیں صوفے تک آئیں۔
"کمبخت یہ جوڑوں کا درد۔۔بیٹھ جاو تو پھر کھڑا ہوا نہیں جاتا۔"
"یہاں بیٹھ جائیں خالہ۔۔میں آپکے لئے پانی لاتا ہوں۔"

Mirh@_Ch
 

"کیا کہہ رہا ہے؟"
کمیل اسکے بڑبڑانے پہ سیدھا ہوا۔
"کچھ نہیں یار شادی ہے نا گھر میں۔۔اسی لئے نہیں لایا اور پھر میں نے واپس جانا ہے۔۔صرف دو دن کے لئے آیا ہوں۔"
وہ چائے کے کپ اٹھا کر کچن میں چلا گیا۔جبکہ کمیل نے اٹھ کر ٹی وی آن کیا اور واپس آ کر اسی پوزیشن میں بیٹھ گیا۔وہ یونہی چینل سرچنگ کر رہا تھا کہ ڈور بیل کی آواز پہ ٹی وی آف کردیا۔
"تم ٹھہرو۔۔۔میں دیکھتا ہوں۔"
اسی وقت غزنوی بھی کچن سے نکلا۔۔کمیل اسے روکتا خود لاؤنج سے باہر نکل گیا۔غزنوی واپس کچن کی جانب مڑ گیا

Mirh@_Ch
 

کمیل ہنسنے لگا جبکہ اسکی بات سن کر غزنوی نے جھٹکے سے اسکا ہاتھ چھوڑا۔
"ویسے اچھا ہوتا کہ تُو بھابھی کو لے آتا۔۔کم از کم گھر کا پُرلطف کھانا تو نصیب ہوتا نا۔۔ویسے بھی تیرے ہاتھ کی کڑوی کسیلی چائے میں نے ابھی بھی بڑی مشکل سے حلق میں انڈیلی ہے۔"
کُمیل ٹیڑھے ٹیڑھے منہ بناتا یوں بولا جیسے چائے کی جگہ کریلے کاجوس پی لیا ہو۔
"تُو اپنے یہ قیمتی مشورے اپنے پاس رکھ اور بیٹھ کھانا باہر سے آرڈر کر لیتا ہوں۔"
اس نے کمیل کو کشن کھینچ مارا۔
"یار بھابھی کو کیوں نہیں لایا۔"
کمیل نے کشن کیچ کر کے اپنے پیچھے رکھا اور پیر پسار لئے۔
"اسی جادوگرنی سے تو بھاگ کر آیا ہوں۔"
غزنوی بڑبڑایا۔

Mirh@_Ch
 

بس یار پھر کبھی بتاؤں گا۔بہت لمبی کہانی ہے۔"
غزنوی اسکا سوال ہنسی میں اڑاتے ہوئے چائے پینے لگا۔کمیل نے بھی اسکا انداز دیکھ کر دوبارہ نہیں پوچھا۔
"اچھا ٹھیک ہے میں چلتا ہوں۔۔۔کل آفس میں ملتے ہیں۔"
کمیل خالی کپ ٹیبل پہ رکھتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا اور غزنوی کی طرف معانقہ کے لئے ہاتھ بڑھایا۔
"نہیں یار۔۔۔بیٹھ کھانا کھا کر جا۔۔مجھے اکیلے مزا نہیں آئے گا۔۔کیا یاد کرے گا آج اپنے ہاتھ سے بنا کر تجھے کھانا کھلاؤں گا۔"
غزنوی نے اسکا ہاتھ نہیں چھوڑا۔
"تو اس مزے کے لئے تُو بھابھی کو لے آ۔۔"
کمیل ہنسنے لگا جبکہ اسکی بات سن کر غزنوی نے جھٹکے سے اسکا ہاتھ چھوڑا۔

Mirh@_Ch
 

سب کچھ بہت اچھے سے ہوگیا۔میں تو بہت گھبرا رہا تھا کہ کیسے اتنی جلدی مینیج کروں گا۔۔تھیکنس یار اگر تم ہیلپ نہ کرتے تو میں یہ اکیلے نہیں کر سکتا تھا اور سب سے بڑھ کر یہ گھر۔۔۔۔بہت شاندار ہے اور قریب بھی ہے آفس سے۔۔۔میری پسند کے عین مطابق۔۔"
غزنوی اسکی طرف چائے کا کپ بڑھاتے ہوئے فلور کشن پہ بیٹھ گیا۔۔وہ تشکّر بھری نظروں سے کمیل کو دیکھ رہا تھا۔
"ارے یار۔۔۔یہ تو کچھ بھی نہیں۔۔میں چاہتا تھا سب تیری پسند کے مطابق ہو۔۔لیکن یار مجھے ایک بات سمجھ نہیں آ رہی۔۔۔اتنا اسٹیبلشڈ بزنس چھوڑ کر یہاں سب سے الگ نئے سِرے سے شروعات کرنا۔۔۔میری سمجھ سے باہر ہے۔"
چند دنوں سے ذہہن میں کلبلاتا سوال کمیل کی زبان پہ آ ہی گیا تھا۔

Mirh@_Ch
 

جس کی وجہ سے وہ آج روشنیوں میں اور اتنی محبتوں کے بیچ کھڑی تھی۔
"کبھی تو سیریس ہو جایا کرو تم لوگ۔۔جب دیکھو مذاق سُوجھتا رہتا ہے۔اب دیکھو نا اسے ناراض کر دیا تم لوگوں نے۔۔"
پرخہ نے ان سب کو ڈانٹا۔
"ہم تو مذاق کر رہے تھے۔۔وہ صبح سے ہی دکھی لگ رہی تھی اس لئے میں نے سوچا کہ تھوڑا سا۔۔"
فائقہ نے منہ بسور کر کہا۔
"ہاں اب دیکھو اپنا کارنامہ۔۔۔اسے اور بھی دکھی کر دیا ہے تم نے۔۔"
پرخہ نے اسے ڈانٹا اور وہاں سے چلی گئی۔اسکا رخ ایمان کے کمرے کی جانب تھا۔باقی سب بھی اسکے پیچھے آئیں تھیں۔
______________________________________

Mirh@_Ch
 

ارفع نے سنجیدگی سے کہا۔باقی سب بھی ایمان کے دھواں دھواں ہوتے چہرے کی پرواہ کیے بغیر اپنے اپنے اندازے بتانے لگیں۔پتہ نہیں کیوں آج ان کا مذاق اسے نہیں بھا رہا تھا۔ان کے ہنستے ہوئے چہرے ایک دم سے سنجیدہ تب ہوئے جب ایمان جھٹکے سے اٹھ کر وہاں سے چلی گئی۔اور وہ سب ایک دوسرے کو سوالیہ نظروں سے دیکھ کر رہ گئیں۔ایمان کا یہ انداز انھوں نے پہلی دفعہ دیکھا تھا ورنہ تو اس طرح کا مذاق وہ اس سے شروع سے ہی کرتی آئی تھیں لیکن کبھی بھی ایمان نے برا نہیں مانا تھا۔بس شرمیلی مسکان لبوں پہ سجائے نظریں جھکا لیتی تھی۔جب وہ اس کے نام کے ساتھ غزنوی کا نام لیتی تھیں تو اسے یہ خیال نہایت ہی خوش کن لگتا تھا اس کا نام اس کے نام کے ساتھ جڑا ہے جو اس کی زندگی میں ایک سایہ دار درخت کی طرح شامل ہوا تھا جس کے سائے میں اس نے پناہ لی تھی

Mirh@_Ch
 

"سیاں دل میں آنا رے
آ کر پھر نہ جانا رے
ہو آ کر پھر نہ جانا رے۔۔۔
چھم چھما چھم چھم۔۔"
عنادل کھڑی ہو ٹھمکے لگانے لگی اور باقی سب پہلے تو ہنس دیں پھر اس کے ساتھ مل کر گانے لگیں۔۔ساتھ ہی ساتھ ایمان کو اشارے بھی کرتی جا رہی تھیں۔وہ بھی لبوں پہ شرمیلی مسکان لئے انھیں دیکھ رہی تھی۔
"ویسے یار میں سوچ رہی ہوں کہ ایمان نے یہ گانا غزنوی بھائی کو کتنی بار سنایا ہوگا۔"
فائقہ نے پُرسوچ انداز میں سب کی طرف دیکھا جو لبوں پر دبی دبی مسکراہٹ لیے فائقہ کی جانب دیکھنے لگی تھیں۔
"مجھے لگتا ہے کہ کم از کم دن میں چار پانچ مرتبہ تو سناتی ہی ہو گی۔"

Mirh@_Ch
 

"ایسی کوئی بات نہیں۔۔بس مجھے بابا یاد آ رہے ہیں۔"
یہ کہتے ہوئے اس کے چہرے پہ اداسی چھا گئی اور آنکھوں میں نمی سی چھلکنے لگی۔
"آئی۔ایم سوری ایمان۔۔میرا مقصد تمھیں ہرٹ کرنا نہیں تھا۔میں تو بس یونہی۔۔۔"
عائشہ نے اسے اپنے ساتھ لگایا۔۔پھر وہ سبھی اسکی دلجوئی میں لگ گئیں۔وہ اتنی محبتیں دیکھ کر شرمندہ ہو گئی۔
"چلو چلو۔۔۔مل کر ایمان کا پسندیدہ گانا گاتے ہیں۔"
یہ مشورہ عنادل کی جانب سے آیا تھا۔وہ سب حیران ہو رہی تھیں کہ ایمان کا پسندیدہ گانا صرف عنادل کو پتہ ہے اور انھیں اندازہ بھی نہیں۔ایمان خود بھی حیرت کے سمندر میں غرق تھی۔
"ارے بھئی۔۔تمھارا پسندیدہ گانا۔۔"
عنادل نے اسکی آنکھوں میں جھانکا۔

Mirh@_Ch
 

لاریب نے گہری سوچ میں گم ایمان کی آنکھوں کے سامنے ہاتھ لہرایا۔
"آں۔۔۔کہا تو ہے کہ بہت خوبصورت ڈریس ہے۔"
ایمان نے اپنے سامنے پھیلے پیلے رنگ کے سوٹ پہ ہاتھ پھیرا۔
"کب کہا۔۔۔؟"
لاریب نے اسے گھورا۔
"ابھی کہا نا۔۔۔"
ایمان مسکرائی۔۔لاریب اسے ابھی بھی گھور رہی تھی۔
"ارے یار ایمان اپنے سیاں جی کے پیچھے اداس ہے۔۔کیوں ایمان۔۔؟؟"
عائشہ نے ایمان کو ٹہوکا دیا۔

Mirh@_Ch
 

اگر وہ یہاں ہوتا تو اس کے رویے سے وہ جان لیتی کہ اس کی اس بیوقوفی کو وہ کیا نام دیتا۔پریشان چہرہ لیے اس نے ادھر اُدھر کے کاموں میں خود کو مصروف رکھا۔شادی والا گھر تھا۔سب اپنے اپنے کاموں میں مگن تھے، کسی کا دھیان اسکی طرف نہیں گیا اور اگر کسی نے اسکے چہرے پہ اداسی دیکھی بھی تو اسکی اداسی کو غزنوی کے جانے کا سبب گردان لیا تھا۔اس وقت بھی وہ کسی گہری سوچ میں گم تھی کہ لاریب نے متوجہ کیا۔
"ایمان۔۔۔یار کہاں گم ہو۔۔؟میں تم سے پوچھ رہی ہوں کہ مایوں کے لئے یہ ڈریس کیسا رہے گا اور تم ہو کہ غزنوی بھائی کے خیالوں میں یوں گم اور دکھی بیٹھی ہو جیسے وہ اسلام آباد نہیں بلکہ ملک سے باہر چلے گئے ہیں۔"

Mirh@_Ch
 

غزنوی اسلام آباد جا چکا تھا اور اسکا سکون بھی اپنے ساتھ ہی لے گیا تھا۔صبح جب اس نے خود کو بیڈ پہ پایا تو اس وقت سے اب تک شرمندگی کے سمندر میں غوطہ زن تھی۔اپنی جانب سے ہوئی یہ لاپروائی اسے خون کے آنسو رلا رہی تھی۔جہاں کہیں بھی اکیلی ہوتی تو اس خیال سے آنکھوں میں نمی ہلکورے لینے لگتی۔یہ خیال ہی اسے چین لینے نہیں دے رہا تھا کہ ساری رات وہ اس بیڈ پہ سوئی رہی جس کا مالک اسے اپنے سامنے دیکھ کر فوراً ہی منہ پھیر لیتا تھا۔ایک لفظ بات کرنا تو دور وہ اس کی جانب دیکھتا بھی نہیں تھا۔ایک لمحے کو تو یہ خوش فہمی بھی اسے ہوئی کہ شاید وہ رات کو واپس آیا ہی نہ ہو مگر صبح جب وہ ناشتے کے لئے نیچے اتری تو شمائلہ بیگم نے اسے غزنوی کی رات دیر سے آمد کے بارے میں بتایا۔اس کے بعد تو وہ بالکل ہی ڈھے گئی۔وہ اس خیال کو جھٹک رہی تھی کہ وہ اس کے متعلق کیا سوچتا ہو گا۔

Mirh@_Ch
 

وہ خود سے سوال کرتا بیڈ سے نیچے اتر آیا۔الماری سے کپڑے لیے اورفریش ہونے کی غرض سے واش روم کیطرف بڑھ گیا۔آدھے گھنٹے کے شاور نے اس کی طبیعت کو ہلکا پھلکا کر دیا تھا۔ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑے بال برش کرتے کرتے اسکی نظر ایک مرتبہ پھر آئینے میں دکھتے وجود پر پڑی۔وہ اسی انداز میں سوئی ہوئی تھی۔
"میں ہار نہیں سکتا۔"
غزنوی نے سر جھٹک کر بال سلیقے سے جمائے اور پھر ایمان پہ ایک نظر بھی ڈالے بغیر ٹیبل سے اپنا سفری بیگ اٹھا کر کمرے سے نکل گیا۔ ____________________________________________

Mirh@_Ch
 

صبح غزنوی کی آنکھ وقت پر کھلی تھی۔اس نے گھڑی کی طرف دیکھا۔ابھی نکلنے میں ایک گھنٹے تک کا وقت تھا۔وہ بیڈ کراؤن سے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا۔نظر ساتھ سوئے وجود پہ پڑی اور وہیں جم گئی۔سفید چہرے میں گلابیاں گھلی ہوئی تھیں۔یاقوتی لب اپنے اندر تمام تر نرمیاں سمیٹے ہوئے تھے۔ایک بازو سینے پہ دھرا تھا جبکہ دوسرا تکیےپر تھا۔سفید کلائیاں اس وقت بھی سیاہ چوڑیوں سے سجی تھیں۔وہ بلاشبہ بہت خوبصورت تھی۔غزنوی کا دل ایک بار پھر سے شہد رنگ کھلی زُلفوں میں الجھنے لگا۔وہ اس کے چہرے پہ بکھری لٹوں کو پرے ہٹانے کو آگے ہوا تھا مگر اس سے پہلے کہ وہ اپنی بےخودی میں اسکے قریب ہوتا ایمان کے سوئے ہوئے وجود میں حرکت ہوئی۔وہ فورا سیدھا ہوا۔
"میں کیوں اتنا کمزور ہو رہا ہوں کہ ایک نازک سی لڑکی میرے حواس سلب کیے دے رہی ہے۔"

Mirh@_Ch
 

ایک پل کو تو اس کا جی چاہا کہ اسے جگا دے مگر وقت کا احساس کر کے اسے سونے دیا اور خود لائٹ آف کی اور نائٹ بلب روشن کر کے بیڈ کی دوسری جانب خاموشی سے لیٹ گیا۔روم میں آنے سے پہلے نینداس پہ حاوی ہو رہی تھی مگر اب جیسے کہیں اُڑنچھو ہو گئی تھی۔قریب سے اٹھتی سانسوں کا مدھر گیت اسکی نیند اڑائے دے رہا تھا۔دل کی ایک ہی تکرار تھی کہ دیدار کے سوکھے کو سیراب کر لینے میں کیا قباحت ہے مگر برا ہو اس ضدی طبیعت کا جو اپنے سامنے کسی کو نہیں ٹکنے دیتی تھی۔آنکھیں ذبردستی بند کیے وہ سونے کی تگ و دو میں تھا لیکن نیند اس کی آنکھوں سے کوسوں دور کھڑی اسکا مذاق اڑا رہی تھی۔پھر رات کے نجانے کونسے پہر نیند اسکی آنکھوں میں آن بسی تھی اور دل اور دماغ کے درمیان چھڑی جنگ اپنے اختتام کو پہنچی۔

Mirh@_Ch
 

کمرے میں داخل ہوا تو مکمل اندھیرے میں اسے کچھ بھی دکھائی نہ دیا۔اس نے سوئچ بورڈ ٹٹول کر لائٹ آن کی اور واش روم میں گھس گیا۔کچھ دیر بعد واش روم سے نکلتے ہوئے اسکی نظر صوفے کی جانب اٹھی۔وہ وہاں نہیں تھی۔پہلے تو وہ حیران ہوا پھر یہ سوچ کر کہ چاچو کیطرف گئی ہو گی۔۔۔وہ بیڈ کیطرف آیا۔
یہ دیکھ کر اسے حیرت کا شدید جھٹکا لگا کہ ایمان صوفے کی بجائےبیڈ پہ سو رہی تھی۔
"افف۔۔۔جتنا اس سے بھاگ رہا ہوں اتنا میرے حواسوں پہ سوار ہوتی جا رہی ہے۔"