Damadam.pk
Mirh@_Ch's posts | Damadam

Mirh@_Ch's posts:

Mirh@_Ch
 

واعلیکم السلام بیٹا۔۔لیٹ ہو گئے۔۔میں کافی دیر تمھارا انتظار کرتی رہی۔"
انھوں نے سلام کا جواب دے کر پوچھا۔
"جی امی بس فرینڈز کے ساتھ وقت گزرنے کا احساس ہی نہیں ہوا۔۔آپ کیوں انتظار کرتی رہیں۔۔آرام کرتیں۔"
اس نے شرمندگی سے کہا۔
"میں نے سوچا کہ کہیں تمھیں چائے کی طلب نہ ہو اس لئے جاگ رہی تھی لیکن کچھ دیر پہلے ہی آنکھ لگ گئی۔تمھارے لئے چائے بنا دوں؟"
شمائلہ بیگم نے اس سے پوچھا۔
"نہیں بس میں آرام کروں گا۔۔آپ بھی آرام کیجیئے۔"
طلب تو ہو رہی تھی چائے کی مگر اس نے ماں کی تھکاوٹ کے پیش نظر رہنے دیا اور انھیں شب بخیر کہتا اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔

Mirh@_Ch
 

رات کے تقریبا ایک بجے وہ گھر میں داخل ہوا۔گاڑی پورچ میں کھڑی کرنے کے بعد وہ چوکیدار کے پاس آیا۔
اسے صبح اپنے اسلام آباد روانہ ہونے کے مطلق بتایا اور اسے ہدایت دیکہ صبح آٹھ بجے تک گاڑی کی صفائی بھی کر دے۔چوکیدار کے سرہلانے کے بعد وہ راہداری سے ہوتا ہوا اندرونی مین ڈور سے اندر داخل ہوا۔لاؤنج میں مکمل خاموشی تھی۔صرف ایک بلب کی مدھم سی روشنی لاؤنج میں پھیلی ہوئی تھی۔وہ کچن کی طرف آیا۔یہاں بھی تاریکی نے اسکا استقبال کیا تھا۔فریج سے اپنے لئے پانی کی بوتل نکال کر گلاس بھرا۔پانی پی کر لائٹ آف کرتا اپنے روم کیطرف بڑھ گیا۔
"غزنوی۔۔۔"
ابھی وہ سیڑھیوں تک پہنچا ہی تھا کہ شمائلہ بیگم کی نیند بھری آواز اسکے کانوں سے ٹکرائی تو اس نے پلٹ کر دیکھا۔
"السلام علیکم امی۔۔۔!!"
وہ انہی قدموں سے واپس پلٹ کر ان کے پاس آیا تھا۔

Mirh@_Ch
 

سنو۔۔۔۔"
وہ وہیں دروازے کے قریب رکی تھی لیکن مڑ کر نہیں دیکھا تھا۔
"میں کل صبح سویرے اسلام آباد کے لئے روانہ ہوں گا۔میرے کچھ کپڑے اس بیگ میں رکھ دو۔"
غزنوی نے الماری کے نچلے خانے سے ایک سفری بیگ نکال کر بیڈ پہ رکھا۔
"ڈنر بھی باہر دستوں کے ساتھ کروں گا۔امی چاچو کی طرف گئی ہوئی ہیں۔رات دیر ہو جائے گی۔وہ آئیں تو انھیں بتا دینا۔"
"جی۔۔"
وہ اتنا ہی کہہ سکی جبکہ غزنوی اس پہ ایک گہری نظر ڈالتا واش روم میں گھس گیا۔
___________________________

Mirh@_Ch
 

تمھارا یہ سرچ آپریشن ختم ہو گیا ہو تو مجھے کچھ کام ہے۔"وہ پیچھے ہوا۔ایمان کا دراز کی طرف بڑھتا ہاتھ وہیں رک گیا۔وہ واپس پلٹی۔ایک لمحے کو دونوں کی نظریں ملی تھیں اور پھر اگلے ہی لمحے وہ وہاں سے ہٹ گئی تھی۔غزنوی کی نگاہوں نے اسکا پیچھا کیا تھا۔ایمان صوفے پہ رکھے کپڑوں کی طرف بڑھی جو ابھی اسے عقیلہ بیگم کے کمرے میں دینے تھے۔اسے لگا جیسے وہ غزنوی کی نگاہوں کے گھیرے میں ہے۔اس نے پلٹ کر دیکھا تو غزنوی نگاہیں پھیر گیا۔غزنوی کو اسطرح ٹکٹکی باندھے اپنی طرف دیکھتا پا کر اسکی دھڑکنیں بڑھ گئی تھیں۔اس نے کپڑے اٹھائے اور دروازے کی طرف بڑھی۔

Mirh@_Ch
 

بولا۔
وہ سر ہلا کر واپس سے اپنے کام میں مصروف ہو گئی۔غزنوی اسکی گھبراہٹ صاف محسوس کر رہا تھا۔وہ اس کے اس قدر قریب کھڑا تھا کہ اگر وہ پلٹتی تو اس سے ٹکرا جاتی اور اوپر سے الماری کے دونوں پٹ کھلے ہونے کی وجہ سے وہ سائیڈ سے نکل بھی نہیں سکتی تھی۔شہد رنگ سلکی بالوں کی اونچی سی پونی ٹیل بنائے، جو جھکنے کی وجہ سے آگے کی جانب آ گئے تھے۔۔صراحی دار سفید گردن سے لپٹے بال۔۔۔قرمزی رنگ کے کپڑوں میں ملبوس اور لباس کے ہم رنگ کھنکتی چوڑیاں، سارے کیل کانٹوں سے لیس وہ اسکے لئے کڑا امتحان ثابت ہو رہی تھی۔غزنوی کے دل کی دھڑکن اسکی ضد کو مات دینے کے درپے تھی۔اسی امتحان سے تو وہ بھاگ رہا تھا جو وہ ہر بار لینے کے لئے اسکے سامنے آ کھڑی ہوتی تھی مگر ہر بار وہ ان جذبوں کے چُنگل سے بھاگ نکلتا تھا۔ابھی بھی وہ دامن بچانے میں کامیاب رہا تھا۔

Mirh@_Ch
 

شادی کی شاپنگ تقریباً سبھی کی مکمل ہو چکی تھی۔اگلے ہفتے سے شادی کا باقاعدہ آغاز ہو جانا تھا۔کچھ کپڑے تیار ہوچکے تھے اور کچھ ابھی ٹیلر کے پاس تھے۔اس وقت وہ الماری میں استری شدہ کپڑے لٹکا رہی تھی کہ کوئی دروازہ کھول کر تیزی سے اندر آیا اور اسکے پیچھے آ کھڑا ہوا۔غزنوی کے لباس سے اٹھتی اسکی مخصوص خوشبو نے اسے اپنے گھیرے میں لیا جبکہ وہ بناء کچھ کہے خاموشی سے اسکے پیچھے کھڑا تھا۔
ایمان اسکے یوں اپنے پیچھے کھڑے ہونے پہ بھول گئی تھی کہ وہ کیا کام کر رہی تھی۔کرنا کچھ چاہتی تھی اور ہو کچھ اور رہا تھا۔پلٹ کر دیکھنے کی ہمت اس میں نہیں تھی۔پھر جب وہ یونہی اسکے پیچھے کھڑا رہا تو اس نے ہمت کر کے بغیر مڑے پوچھ ہی لیا۔
"کوئی کام تھا؟"
"تم سے مجھے کیا کام ہو سکتا ہے۔"وہ نہایت ہی سنجیدگی سے بولا۔

Mirh@_Ch
 

اس نے ایک بار پھر نظروں کا ذاویہ بدلا۔
"ٹھیک ہے بیٹا۔۔تم فیصلہ کر چکے ہو تو میں تمھیں روکوں گا نہیں کیونکہ میں اپنے بچوں کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ نہیں بننا چاہتا اور نہ ہی چاہتا ہوں کہ تمھارا عہد ٹوٹے۔۔تمھاری زبان ہماری زبان ہے۔۔"
انھوں نے اسکے کندھے پہ ہاتھ رکھا اور پھر اٹھ کھڑے ہوئے۔
"شکریہ داجی۔۔"
وہ بھی اٹھ کھڑا ہوا۔انھوں نے ایک دوستانہ مسکراہٹ اس کی جانب اچھالی اور دروازے کیطرف بڑھ گئے۔
"لیکن شادی کے بعد چلے جانا۔۔ابھی فلحال روک دو اس کام کو۔۔"اعظم احمد سست روی سے قدم اٹھاتے پلٹے تھے۔
"جی داجی۔۔ابھی صرف دو دن کے لئے جا رہا ہوں۔۔بس آپ ذرا بابا کو سنبھال لیں۔"
وہ اپنی کرسی کی طرف بڑھتے ہوئے بولا۔
"بےفکر رہو میں سمجھا دوں گا۔"

Mirh@_Ch
 

تین چار دن سے اس کے اندر ایک شور سا برپا تھا اور وہ اس شور سے دور جانا چاہتا تھا۔جہاں اسے اس محبت کی پکار سنائی نہ دے جو ہر پل اسے سنائی دیتی تھی۔وہ اس چلتے پھرتے وجود سے بھاگنا چاہتا تھا جو اسکی ضد کے سامنے کھڑا تھا۔
"تو تم نے فیصلہ کر لیا ہے؟"
اعظم احمد کا سنجیدہ لہجہ اسے سوچ کی گہری کھائی سے باہر کھینچ لایا۔اس نے ان کی جانب دیکھا۔
"جی۔۔۔کُمیل نے آفس کے لئے بلڈنگ بھی دیکھ لی ہے۔مجھے ایک دو دن میں نکلنا ہے۔"وہ دو ٹوک انداز میں بولا۔
"مگر یہاں کیا حرج ہے۔۔ہم سے دور جانا مقصود ہے کیا۔۔یہیں شروع کر لو بزنس۔۔شراکت میں بعد میں بڑے مسائل جنم لیتے ہیں۔یہاں ہم سبھی ہیں، تمھارے بابا، تایا اور چچا۔۔سبھی ہیلپ فل رہیں گے۔"انھوں نے اسے قائل کرنے کی کوشش کی۔
"آپ سہی کہہ رہے ہیں داجی۔۔مگر میں اب کُمیل کے ساتھ معاہدہ کر چکا ہوں۔۔اب توڑ نہیں سکتا۔"

Mirh@_Ch
 

"میں کب کہہ رہا ہوں بیٹا جی کہ کوئی حرج ہے۔۔حرج تو صرف اس بات کے دوسرے اینگل میں ہے اور وہ یہ کہ اسلام آباد میں کیوں۔۔۔یہاں کیوں نہیں۔۔کیا تم پرائیوسی چاہتے ہو۔۔؟"
اعظم احمد نے اپنے لہجے کو نرم رکھا ورنہ انھیں یہ بات قطعی پسند نہیں آئی تھی۔
"نہیں داجی۔۔۔پرائیوسی کیوں چاہوں گا میں۔۔میرے ساتھ ایک فرینڈ بھی ہے۔وہ اسلام آباد میں رہتا ہے۔ہم دونوں مل کر اپنا بزنس شروع کرنا چاہتے ہیں اور ویسے بھی کچھ وقت کی بات ہے، میں آتا جاتا رہوں گا۔"
اس نے ان کی جانب دیکھنے سے گریز کیا۔کیونکہ ان کی آنکھوں میں دیکھکر جھوٹ بولنے کی ہمت اس میں نہیں تھی۔ان سب سے دور جا کر رہنا اس کے لئے بھی مشکل تھا مگر وہ بھاگنا چاہتا تھا۔

Mirh@_Ch
 

کہو میاں کیسا چل رہا ہے سب کچھ؟"
وہ اسکے کندھے پہ بازو دھرتے اسے ساتھ لئے صوفے کی جانب بڑھے۔
"سب ٹھیک ہے داجی۔۔۔"اس نے مختصراً جواب دیا۔
"ایسا لگ تو نہیں رہا۔۔"انھوں نے اسکی آنکھوں میں جھانکا۔
"کیا مطلب داجی میں سمجھا نہیں۔۔سب ٹھیک چل رہا ہے۔"
اسے ان کے چہرے پہ دِکھتے سوال سمجھ نہیں آ رہے تھے۔
"اگر سب ٹھیک ہے تو تم اسلام آباد میں اپنا کاروبار شروع کرنے کا کیوں سوچ رہے ہو۔"
وہ جس بات کے لئے آئے تھے وہ انھوں نے شروع کی۔ان کی بات سن کر اس کے مسکراتے لب ساکت ہو گئے۔
"داجی اس میں حرج کیا ہے؟"
اس نے ان کی جانب سوالیہ نظروں سے دیکھا۔

Mirh@_Ch
 

لاریب ارفع کی طرف متوجہ ہوئی جو گلے پہ چھری پھیرنے کے سےانداز میں گا رہی تھی۔اگلے لمحے اسکی آواز بھی ان سب کی آوازوں میں شامل ہو گئی تھی۔
_______________________________________
"کیا میں اندر آ سکتا ہوں؟"
اعظم احمد نے دروازے سے جھانکا اور وہ جو کسی فائل میں گم تھا ان کی جانب دیکھ کر مسکرا دیا۔
"آپ کو اجازت کی کیا ضرورت ہے؟"
فائل چھوڑ کر وہ ان کے خیر مقدم کے لئے اٹھ کھڑا ہوا۔
"کہہ تو ٹھیک رہے ہو برخوردار۔۔"
انھوں نے اس کے لئے اپنے بازو وا کیے۔وہ ہنستے ہوئے ان سے بغلگیر ہوا۔

Mirh@_Ch
 

کس کی آنکھیں چُنی چُنی ہیں۔"
لاریب آستین اونچی کرتے ہوئے مرتضی کی طرف بڑھی۔
"آئینہ نہیں دیکھا کیا۔"مرتضی نے ہنسی ضبط کرتے ہوئے کہا۔
"مرتضی بھائی۔۔۔۔۔۔"لاریب نے اسے آنکھیں دکھائیں۔
"خدا کو مانو لڑکی۔۔۔میں کسی کا بھائی نہیں ہوں اور تمھارا تو بالکل نہیں ہوں۔"
آخری جملہ اس نے دھیمی آواز میں لاریب کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے کہا تھا۔اسکی بولتی آنکھیں لاریب کو رخ پھیرنے پر مجبور کر گئیں۔وہ اٹھ کھڑا ہوا۔
"میرے دل کا تم سے ہے کہنا
بس میرے ہی رہنا
نہیں تو
سمجھے۔۔۔۔۔۔"

Mirh@_Ch
 

ملائکہ نے مرتضی کو ٹٹولتی نظروں سے دیکھا۔
"چھپکلی میں تو صرف پوچھ رہا ہوں کہ کون جھوٹ بول رہا ہے۔۔۔دراصل میں آجکل جھوٹ بولنے والے لوگوں پر رسرچ کر رہا ہوں اور میرا ارادہ ہے تمھیں اپنی اسسٹینٹ بنا لوں۔"
مرتضی نے لاریب کی جانب کنکھیوں سے دیکھتے ہوئے ملائکہ کو اشارہ کیا۔
"آ۔۔۔۔۔اچھا۔۔۔یہ رہا آپ کا پہلا ٹارگٹ۔"
ملائکہ نے لاریب کو بازو سے پکڑا جو فائقہ سے ڈھولکی چھیننے کیلئے پورا ذور لگا رہی تھی جبکہ فائقہ ڈھولکی دینے کے لئے قطعی تیار نہیں تھی۔
"ہائے یہ تو جتنا جھوٹ بول لیں ان کی چنی چنی آنکھوں میں ہمیں سچ دِکھ ہی جاتا ہے۔"
مرتضی نے دل پہ ہاتھ رکھتے ہوئے ملائکہ سے کہا۔
"او۔۔ہو۔۔۔۔۔"
ملائکہ ہنسنے لگی اور لاریب مرتضی کی بات سن کر اسکی جانب مڑی تھی۔

Mirh@_Ch
 

خیرن بوا نے اپنی ٹھوڑی پہ انگشت شہادت جمائی۔
"ارے بوا آپ کو پتہ نہیں ہے ملائکہ تو شادی میں اس گانے پہ ڈانس بھی کرے گی۔"
لاریب نے ہنستے ہوئے ملائکہ تو ٹہوکا دیا۔
"اے ہے ملائکہ۔۔۔توبہ کر۔۔تجھے کچھ اور نہیں ملا کیا۔"
خیرن بوا نے ملائکہ کو دیکھا۔
"بوا یہ لاریب جھوٹ بول رہی ہے۔"
ملائکہ نے لاریب کو چٹکی کاٹی۔
"کون جھوٹ بول رہا ہے؟"
مرتضی ہاتھ میں شاپنگ بیگز پکڑے کمرے میں داخل ہوا اور شاپرز ملائکہ کے پاس رکھتے ہوئے قریب ہی بیٹھ گیا۔
"مرتضی بھائی آپکو بڑا شوق ہے ہر کام میں ٹانگ اڑانے کا۔۔خیر تو ہے نا۔۔؟"

Mirh@_Ch
 

ملائکہ نے ان سب کے خاموش ہونے کا فائدہ اٹھایا اور پھر اگلے ہی پل سبھی اسکے ساتھ ہم آواز ہو کر گا رہی تھیں۔۔ساتھ ہی ساتھ ہنسنے کا سلسلہ بھی جاری تھا۔
سحرش جو ان سے تھوڑا پرے بیٹھی اپنے ڈوپٹے میں گوٹہ لگانے میں مصروف تھی۔۔۔ملائکہ کو دیکھ کر ہنس دی۔پرخہ بھی اس کا ساتھ دے رہی تھی۔عقیلہ بیگم بھی وہیں موجود مسکرا کر اُن سب کو دیکھ رہی تھیں اور خیرن بوا تھوڑی تھوڑی دیر بعد سحرش کو ٹوک کر گوٹہ لگوا رہی تھیں۔شمائلہ بیگم ابھی ابھی چائے لے کر کمرے میں داخل ہوئیں تھیں۔
"اے لڑکیو۔۔! یہ کیا ڈھنکا چھکا، ڈھنکا چھکا لگا رکھا ہے۔توبہ توبہ یہ آج کل کے گانے۔۔"
خیرن بوا نے گوٹہ کناری چھوڑ کر کانوں کو ہاتھ لگائے۔ان کے انداز پہ سبھی کھلکھلا کر ہنس دیں۔

Mirh@_Ch
 

اسٹاپ اسٹاپ۔۔۔یار کوئی اور گانا گاتے ہیں۔"
عنادل نے دونوں ہاتھوں اٹھا کر انھیں روکا۔
"کون سا گانا۔۔؟"
لاریب اور عائشہ نے عنادل کو گُھوری سے نوازا جو اپنے پسندیدہ گانے کو تو یوں گاتی جیسے گانے کی اصل گلوکارہ وہی ہو۔۔۔لیکن اگر کوئی دوسرا اپنی پسند کے سُر لگانے کی کوشش کرے تو اسٹاپ اسٹاپ کہہ کر انھیں روک دیتی۔وہ ساری عنادل کی اس حرکت پہ اسے صرف گُھورنے پہ اکتفاء کرتیں۔
"کوئی بہت اچھا سا۔۔۔میری پسند کا۔۔جیسے۔۔"
وہ ایک لمحے کو سوچ میں پڑ گئی اور باقی سب اسکی گانوں کی پوٹلی کھلنے کی منتظر تھیں۔ایمان بھی ان کے بیچ موجود یہ سب بہت انجوائے کر رہی تھی۔

Mirh@_Ch
 

۔وہ جہاں موجود ہوتی وہ وہاں سے اٹھ کر چلا جاتا۔شمائلہ بیگم اورشاہ گل نے بھی یہ سوچ کر اسے اسکے حال پہ چھوڑ دیا تھا کہ وقت کے ساتھ ساتھ سب ٹھیک ہو جائے گا۔
ان کے لئے یہی بہت تھا کہ غزنوی نے ایمان کو چھوڑنے کی بات نہیں کی تھی۔شادی کے دن قریب آتے جا رہے تھے اور ایمان کی بےچینی میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔عقیلہ بیگم نے ڈھولکی اپنے پورشن میں ہی رکھوائی تھی۔شام کے بعد وہ ساری وہیں اکٹھی ہو کر ایک ہنگامہ برپا کیے رکھتی تھیں۔جہاں کہیں لڑکیاں ہوتی وہیں شرارتی لڑکے بھی آ دھمکتے تھے اور جو بھی گانا وہ گاتی تھیں اس میں اپنی ٹانگ اڑا کر گانے کا تیاپانچہ کر دیتے تھے۔اس وقت بھی ان سب نے عقیلہ بیگم کےکمرے کو گانوں کا اکھاڑا بنا رکھا تھا۔

Mirh@_Ch
 

جہاں کہیں وہ نظر آجاتا اس کے سر پر پہنچ جاتے اور پھر اتنا تنگ کرتے کہ غزنوی کو وہاں سے بھاگنا پڑتا۔غزنوی کی ڈانٹ کا بھی ان پر کوئی اثرنہ ہوتا تھا۔مصطفی اور ہادی کی شادی میں اعظم احمد نے بڑوں کے صلاح مشورے سے غزنوی اور ایمان کے ولیمے کا فنکشن بھی رکھا تھا۔غزنوی نے سنا تو بہت اچھل کود کی مگر یہ سب بڑوں کا متفقہ فیصلہ تھا اس لئے اس کی کسی نے نہیں سنی۔ایمان بھی یہ سن کر گھبراہٹ کا شکار ہو گئی تھی۔ساری لڑکیاں ہر دم اسے گھیرے رکھتی تھیں خاص طور پرخہ اور ملائکہ۔۔انھیں معلوم تھا کہ وہ تھوڑی گھبراہٹ کاشکار ہو رہی ہے۔اسی لئے وہ اسے چھیڑنے سے باز نہیں آتی تھیں۔شمائلہ بیگم نے اسے الگ سے ولیمے کے فنکشن کی شاپنگ کروائی تھی۔غزنوی نے اس دن کے بعد سے اس کے پاس بھی پھٹکنا چھوڑ دیا تھا۔

Mirh@_Ch
 

شادی کی تیاریاں زور شور سے جاری تھیں۔شمائلہ بیگم نے ایمان کو کچھ پیسے دیئے تاکہ وہ باقی لڑکیوں کے ساتھ جاکر اپنی پسند سے شاپنگ کر لے۔تمام لڑکے بھی مری سے واپس آچکے تھے اور ایمان سے مل کر بیک وقت حیران اور خوش ہوئے تھے چونکہ وہ سب یہاں نہیں تھے اس لئے ایمان کے بارے میں انہیں معلوم نہیں تھا اور اب جب انھیں معلوم ہوا تو انھوں نے غزنوی کا خوب ریکارڈ لگایا تھا۔غزنوی بھی جہاں کہیں انہیں اکٹھے دیکھتا وہیں سے واپس ہو لیتا تھا۔خاص طور پر طٰہٰ اور احد تو غزنوی کی جان ہی نہیں چھوڑتے تھے

Mirh@_Ch
 

"وہ جی۔۔میں تو بس یونہی۔۔"اس نے پلٹ کر ٹرے ایمان کے قریب رکھا۔
"چلو نکلو یہاں سے اور ناشتہ لاؤ میرے لئے۔۔"
وہ صوفے کی طرف بڑھا۔شگفتہ فورا کمرے سے نکلی۔اس کے جانے کے بعد وہ صوفے سے اٹھ کر اسکے پاس آیا جبکہ وہ نظریں جھکائے سلائس ہاتھ میں پکڑے کھا رہی تھی۔اُس میں غزنوی کی طرف دیکھنے کی ہمت نہیں تھی۔
"جلدی سے ناشتہ کرو اور پھر یہ میڈیسن لے لینا۔"
وہ پلٹ تو گیا تھا مگر ایمان مسلسل اسکی نگاہیں خود پہ محسوس کر رہی تھی۔جب تک اسکا ناشتہ نہیں آیا وہ اسکا مطالعہ کرنے میں مصروف رہا۔تھوڑی دیر بعد شگفتہ اسکا ناشتہ لے آئی تو وہ ناشتہ کرنے میں مصروف ہو گیا۔وہ دوا کھا کر لیٹ گئی تھی اور ایک بار پھر سے کمبل سر تک تان گئی۔
_________________