شگفتہ نے ٹرے سائیڈ ٹیبل پہ رکھی اور اسکا معائنہ کرتے ہوئے بولی۔
"طبیعت خراب رہی ساری رات۔۔بخار کی وجہ سے ٹھیک سے سو نہیں سکی۔"
وہ سُوجے پپوٹوں کو انگلیوں سے دباتے ہوئے بولی تھی۔
"پر آپ تو شاہ گل کے ساتھ مظفر صاحب کی طرف گئی تھیں۔۔یہاں کب آئیں؟؟ کیا صبح صبح آئی ہیں؟"
وہ اسکا سُتا سُتا چہرہ بغور دیکھ رہی تھی۔ایمان سے کوئی جواب نہیں بن پڑا۔
"تمھیں میں نے یہاں دوا دینے بھیجا تھا یا انٹرویو لینے۔"
غزنوی کی آواز پہ دونوں نے دروازے کی جانب دیکھا۔وہ کھا جانے والی نظروں سے شگفتہ کو دیکھ رہا تھا۔اسے شگفتہ کی ٹوہ لینے والی عادت کا علم تھا۔
"تمھیں بخار ہے۔۔تم۔وہاں بیڈ پہ لیٹ جاؤ۔۔میں تمھارے لئے میڈیسن لے کر آتا ہوں۔"
وہ دھیرے سے کہتا کمرے سے نکل گیا۔ایمان نے اسکے جانے کے بعد اسکی ہدایت پر فورا عمل کیا۔وہ نہیں چاہتی تھی کہ شمائلہ بیگم یا عقیلہ بیگم میں سے کوئی بھی اسے اس طرح صوفے پہ لیٹا دیکھے۔پچھلی بار تو وہ بےچینی کا بہانا بنا کر خود کو ملائکہ کے سوالات سے بچا گئی تھی مگر اس بار وہ ان سے کوئی بہانا نہیں بنا پائے گی اور اوپر سے غزنوی کا غصہ۔۔اس لئے وہ خاموشی سے اسکی ہدایت پہ عمل کرتی سر تک کمبل اوڑھے ہوئی تھی۔تھوڑی دیر بعد اسے دروازہ کھلنے اور پھر بند ہونے کی آواز آئی۔
"ایمان بی بی۔۔۔"
شگفتہ کی آواز سن کر اس نے کمبل سرکایا۔شگفتہ ہاتھ میں ٹرے لئے اس کے قریب کھڑی تھی۔وہ اٹھ کر بیٹھی۔
"ہائے بی بی جی آپکی آنکھیں تو بڑی سوجی ہوئی ہیں۔۔کیا ساری رات روتی رہی ہیں جی۔۔؟"
ایمان۔۔۔"
غزنوی اس پہ جھکا اسکا بازو ہلا رہا تھا۔ایمان کو بازو پہ ہلکا سا دباؤ محسوس ہوا تو اس نے فورا آنکھیں کھول دیں۔اس نے دیکھا غزنوی اس پہ جھکا اسے بغور دیکھ رہا تھا۔پہلے تو ایمان اسے یوں دیکھ کر حیران ہوئی اور پھر اگلے ہی لمحے پریشان۔۔وہ فورا اٹھ کر پیچھے ہوئی۔۔پھرتی سے نیچے گرا ڈوپٹہ اٹھا کر اوڑھا۔مگر دوسری جانب تو کوئی اور ہی معاملہ تھا۔غزنوی کی نظریں اسکی خم دار پلکوں میں اڑ گئی تھیں اور واپسی بھول بیٹھی تھیں۔وہ بھول گیا تھا کہ اس وقت وہ کہاں موجود تھا اور کیا کر رہا تھا۔ایمان نے اسے یوں محو انداز میں خود پہ نظریں گاڑھے دیکھا تو نظروں کا رخ پھیر لیا۔غزنوی کا دل چاہا کہ وہ اسکی اٹھتی گرتی پلکوں کو چھو کر محسوس کرے مگر ایمان کے نگاہیں پھیر لینے سے جیسے وہ ہوش میں آ کر فورا سیدھا ہوا۔اس دوران کمرے میں صرف چوڑیوں کی کھنک کی آواز تھی۔
اس نے قدرے بلند آواز میں ایمان کو پکارا۔۔اسے اپنا لہجہ عجیب سا لگا۔ایمان کے وجود میں ذرا سی بھی جُنبش نہیں ہوئی۔گلابی چوڑیوں سے سجی کلائی اسکی توجہ اپنی طرف مبذول کر گئی۔اسے یاد آیا کہ وہ جس رنگ کا لباس زیب تن کرتی تھی اسی رنگ کی چوڑیاں بھی اسکی کلائیوں میں سجی رہتی تھیں۔وہ چوڑیوں پہ نظر جمائے سوچ رہا تھا کہ کل ایمان نے جامنی رنگ کی چوڑیاں پہنی تھیں۔اس سے پہلے سرخ، اس سے پہلے بلیک اور اس سے پہلے آسمانی رنگ کی۔۔
"لاحول ولاقوة۔۔"
اس نے فوراً سر جھٹکا۔اسے خود پہ حیرانی ہوئی تھی کہ وہ بےخبری میں اسے نوٹ کر رہا تھا۔اب اسکی نظریں ایمان کے چہرے کا طواف کر رہی تھیں۔سوجی آنکھیں رات بھر خود پہ گزری تکلیف کی کہانی بیان کر رہی تھیں۔گلابی ہونٹ سرخی مائل تھے۔غزنوی نے کچھ سوچ کر اسکے ماتھے کو ہلکے سے چُھوا جو تپ رہا تھا۔
وہ صبح اٹھا تو کمرے میں دبیز پردوں کے باعث تاریکی کا راج تھا۔آج اتوار کا دن تھا۔گھڑی پہ نگاہ گئی تو دس بج رہے تھے۔اس نے بیڈ سے اتر کر ٹیوب لائٹ آن کی اور الماری سے کپڑے لے کر واش روم کیطرف بڑھ گیا۔فریش ہو کر باہر آیا تو صوفے پہ لیٹی ایمان پہ اسکی نظر گئی۔سینے تک چادر اوڑھے وہ خود سے بےخبر تھی۔رات کا واقعہ کسی فلم کیطرح اسکی آنکھوں کے آگے گھوم گیا تھا۔اسے اپنے سخت رویے پہ افسوس ہوا لیکن پھر اگلے ہی لمحے سر جھٹک کر وہ ڈریسنگ ٹیبل سے برش اٹھا کر بال برش کرنے لگا۔بھوک محسوس ہوئی تو ایک بار پھر سوئی ہوئی ایمان پہ نظر گئی۔
"یہ کیوں اب تک سو رہی ہے؟؟"
وہ ایک بار پھر گھڑی پہ نظر ڈالتے ہوئے خود سے بولا اور ایمان کیطرف بڑھا۔
"اوئے اٹھو۔۔"
تین دن بخار کے بعد شکل جون ایلیاء جیسی
اور بـال عـابدہ پرویـن جیسـے ہو جاتـے ہیں
😔🙊😁😂
آپ کے پاس کسی کو دینے کو کچھ بھی نہیں ھے تو اپنے ہونٹوں پر صرف ایک مسکراہٹ ہی سجا لیں.😊 یقین کریں آپ کا یہ تحفہ ہر شے سے قیمتی ہو گا.🎁
ایک لمحے کو تو اسکی آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا۔سر میں اٹھتی درد کی شدید لہر نے اسے اٹھنے نہ دیا۔بھوری خمار آلود آنکھیں نمکین پانیوں سے بھر گئی تھیں۔ایک پل کو تو غزنوی کا دل بھی بھورے نینوں میں ڈوب گیا تھا مگر اگلے ہی پل دماغ کی سختی نے دل کی نرمی کو نگل لیا۔اس نے بغیر اسکی پرواہ کیے لائٹ آف کی اور بستر پہ دراز ہو گیا۔کمرے میں گُھپ اندھیرا تھا۔تیزی سے بہتے آنسوؤں نے چہرہ تر کر دیا تھا۔اسے کچھ بھی دکھائی نہیں دے رہا تھا۔تھوڑی دیر بعد آنکھیں اندھیرے سے کچھ مانوس ہوئیں تو وہ ٹیبل کے سہارے اٹھی اور صوفے پہ کشن سیدھا کر کے خاموشی سے لیٹ گئی۔کمرہ اس کی ہلکی ہلکی سسکیوں سے گونج رہا تھا مگر غزنوی اسکی مدھم سسکیاں سننے کے باوجود کان بند کیے لیٹا رہا۔رات دھیرے دھیرے بیتی جا رہی تھی۔اس کی خوبصورت آنکھوں میں نیند کا شائبہ تک نہ تھا
وہ نظریں جھکائے بولی اور اس کی گرفت سے نکلنے کی سعی کرنے لگی۔
"میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ تم کیا کرتی ہو اور کیا نہیں۔"اسکے دونوں بازوں پہ غزنوی کی گرفت مضبوط ہوتی جا رہی تھی۔
"مجھے درد ہو رہا ہے۔۔۔پلیز چھوڑیں۔"
ایمان کی آنکھوں میں نمی ڈولنے لگی تھی۔
"اپنی اوقات میں رہو۔۔میری فیملی کو میرے خلاف کرنے کا خیال دل سے نکال دو اور نہ ہی ایسی کوئی کوشش کرنا ورنہ میں کوئی بھی فیصلہ کرنے میں ذرا دیر نہیں لگاؤں گا۔"غزنوی نے جھٹکا دے کر اسے چھوڑا۔
"سی۔۔۔"
آہ۔۔۔!"وہ سنبھل نہ سکی اور اسکا ماتھا ٹیبل کے کونے سے ٹکرایا۔
سحرش ہونٹوں پہ دبی دبی مسکراہٹ لئے واپس مڑ گئی۔ایمان اپنی پریشانی میں سحرش کی نگاہوں کی معنی خیزی نہ بھانپ سکی۔وہ تیز تیز قدم اٹھاتی بیرونی گیٹ پار کر گئی۔
گھر میں داخل ہوتے ہی وہ سیدھی اپنے کمرے کی طرف بڑھی۔دروازے پہ دستک دینے کے بعد جب کوئی جواب موصول نہیں ہوا تو وہ اندر داخل ہو گئی۔گہری خاموشی نے اسکا استقبال کیا تھا۔غزنوی سامنے سامنے بیڈ پہ نیم دراز اسی کی جانب دیکھ رہا تھا۔اسے اپنی طرف دیکھتا پا کر اس نے پلٹ کر دروازہ بند کیا اور بناء اسکی طرف دیکھے صوفے کی طرف قدم بڑھائے۔غزنوی بیڈ سے اترا اور اگلے ہی لمحے وہ اسکے سامنے کھڑا تھا۔
"بہت شوق ہے نا تمھیں دوسروں کی ہمدردیاں حاصل کرنے کا۔۔"اس نے ایک بار پھر اسے بازو سے پکڑ کر اپنے اور اس کے بیچ کے فاصلے کو گم کیا۔
"مم۔۔میں نے ایسا کچھ نہیں چاہا۔"
جی۔۔۔"وہ صرف اتنا ہی کہہ سکی۔
"صرف دس منٹ۔۔"غزنوی نے اسے جھٹکا دے کر چھوڑا تھا۔وہ صوفے سے ٹکرائی تھی جبکہ غزنوی واپس پلٹ گیا۔وہ بھی اسکے پیچھے لپکی تھی۔
"ارے ارے ایمان۔۔کہاں جا رہی ہو۔۔غزنوی تو چلا گیا ہے۔"
سحرش نے ایمان کو غزنوی کے پیچھے جاتے دیکھ کر روکا تھا۔
"وہ کہہ رہے تھے گھر آؤ۔"ایمان نے بیرونی دروازے کی طرف دیکھا جہاں سے وہ نکل کر گیا تھا۔
"مگر اس وقت۔۔۔۔صبح چلی جانا۔"سحرش نے اسے روکنے کی کوشش کی۔
"نہیں سحرش آپی۔۔کچھ کام ہے۔۔نہیں کیا تو غصہ ہو جائیں گے۔۔میں چلتی ہوں آپ شاہ گل کو بتا دینا۔"اسے یہی بہانا بہتر لگا۔
"اچھا ٹھیک ہے۔"
"نیچے آؤ۔۔۔"غزنوی نے وہیں کھڑے کھڑے اسے بلایا مگر وہ وہیں کھڑی رہی۔اسکی ہمت ہی نہیں پڑ رہی تھی قدم اٹھانے کی۔
"سنا نہیں تم نے۔۔۔"
وہ آواز بلند نہیں کر سکتا تھا ورنہ اسکا غصہ تو اپنی حد پار کر چکا تھا۔اس سے پہلے کہ وہ اسکے سر پہ پہنچتا وہ اسکی طرف بڑھی۔ایمان کے دل کی دھڑکن اسکے اٹھتے قدموں کے ساتھ ساتھ بڑھتی جا رہی تھی۔
"اگر اگلے دس منٹ میں تم کمرے میں نہ پہنچی تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہو گا۔"
ابھی وہ اس سے کچھ فاصلے پر تھی کہ غزنوی نے اسے بازو سے پکڑ جھٹکے سے قریب کیا۔وہ توازن برقرار نہیں رکھ سکی اور اسکے سینے سے آ لگی۔ایمان کو اسکی انگلیاں اپنے بازو میں پیوست ہوتی ہوئی محسوس ہوئی تھیں۔۔وہ اسکی پھٹی پھٹی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے کہہ رہا تھا۔
"سنا تم نے۔۔۔؟"
غزنوی نے اسے ایک اور جھٹکا دیا مگر اپنی گرفت سے نکلنے نہیں دیا تھا۔
"
سحرش باہر ہی رک گئی اسے غزنوی کے پیچھے اندر جانا مناسب نہیں لگا تو وہ لان میں کین کی کرسیوں کی طرف بڑھ گئی۔
"مجھے آج پتہ چلا کہ تم ٹہل ٹہل کر سوتی ہو۔"
وہ سیڑھیوں کی جانب بڑھ رہی تھی کہ غزنوی کی آواز پہ پلٹ کر دیکھا تو وہ لاؤنج کے بیچوں بیچ کھڑا اسے گھور رہا تھا۔آواز میں دبا دبا غصہ صاف جھلک رہا تھا۔ایمان سے تو ایک قدم بھی نہ لیا گیا۔۔ایک تو وہ اس پہ غصہ تھا اور اب اسکا جھوٹ بھی پکڑا گیا تھا۔
سحرش اسے لاؤنج میں رکنے کا کہہ کر باہر آ گئی۔
"کیا بات ہے غزنوی۔۔اس وقت۔۔؟"
وہ لاؤنج میں ان کی جانب پشت کیے کھڑا تھا۔موسم کافی حد تک تبدیل ہو گیا تھا۔ہلکی ہلکی ٹھنڈی ہوا موسم کی خنکی کو بڑھا رہی تھی۔وہ اسکی طرف پلٹا۔
"آپی وہ ایمان سے بات کرنی تھی۔"
ایمان کی بجائے سحرش کو اپنے سامنے موجود پا کر ایک بار پھر سے اسکے اندر ابال اٹھنے لگا۔
"وہ تو سو رہی ہے۔۔تم صبح بات کر لینا۔"
سحرش نے اسکے چہرے پہ غصہ ٹٹولتے ہوئے کہا۔سحرش کو وہ قطعی غصے میں نہیں لگ رہا تھا۔
"اچھا میں خود اس سے مل لیتا ہوں۔"
اس سے پہلے کہ وہ اسے روکتی وہ تیزی سے اندر کیطرف بڑھا۔
"سحرش آپی۔۔۔وہ باہر غزنوی آئے ہیں اور مجھے بلا رہے ہیں۔آپ پلیز ان سے جا کر کہہ دیں کہ میں سو چکی ہوں۔پلیز آپی۔۔"اس نے سحرش کے ہاتھ تھام لئے اور لجاجت آمیز انداز میں بولی۔
"مگر کیوں۔۔جاؤ جا کر دیکھ لو کیا کہہ رہا ہے بلکہ ٹھہرو میں تمھارے ساتھ چلتی ہوں۔"
سحرش اسکا ہاتھ تھامے باہر کی طرف بڑھنے لگی۔
"نہیں نا آپی۔۔وہ بہت غصے میں ہونگے۔مجھے ڈانٹے گے۔ان کی ڈانٹ سے بچانے کے لئے ہی تو شاہ گل مجھے یہاں لائی ہیں۔آپ خود جا کر کہہ دیں نا پلیز۔۔میری پیاری آپی۔۔"
ایمان باہر جانے کو تیار نہیں تھی۔وہ چاہتی تھی کہ سحرش جا کر غزنوی سے کہہ دے۔
"اچھا ٹھیک ہے۔۔تم۔یہاں رکو۔۔۔میں کہتی ہوں اس سے۔۔اتنی گھبرا کیوں ہو رہی ہو پاگل۔۔بیٹھو تم۔"
"کون چھوٹے صاحب؟"ایمان نے حیرانی سے پوچھا۔شریفاں نے پلٹ کر اسکی جانب دیکھا۔اسکے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا غزنوی آیا ہوگا۔
"غزنوی صاحب۔۔۔باہر ہیں۔"شریفاں تو پلٹ گئی مگر اسکے چہرے کا رنگ اڑنے میں ایک پل سے بھی کم وقت لگا۔ٹانگوں نے چلنے سے انکار کر دیا۔
"کیا ہوا ایمان۔۔بابا کیا کہہ رہے تھے؟"سحرش اسکے پیچھے آئی تھی۔
"وہ۔۔۔باہر۔۔۔۔؟"ایمان نے بیرونی دروازے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔سحرش اسے یوں گھبراتا دیکھ کر پریشان ہو گئی تھی۔
"تم اتنی گھبرائی ہوئی کیوں ہو۔"
سحرش نے اسے بٹھایا۔اسکی اڑی رنگت اسے پریشان کیے دے رہی تھی۔
انھوں نے اپنی جگہ سنبھالی تو وہ بھی ان کے ساتھ بیٹھ گیا۔
"خیریت تو ہے نا بیٹا۔۔۔اس وقت۔۔؟"انہوں نے پوچھا۔
"جی چاچو۔۔۔سب ٹھیک ہے۔۔بس ایک ضروری فائل اسے دی تھی۔وہ مجھے مل نہیں رہی۔"غزنوی نے جلدی سے بہانا بنایا۔
"اچھا ٹھیک ہے۔۔وہ تو شاید سحرش کے کمرے میں ہوگی اور اماں جی تو دوا لے کر ابھی سوئی ہیں۔"
مظفر صاحب نے ٹیبل پہ رکھا کپ اٹھا لیا تھا اور گھونٹ گھونٹ پینے لگے تھے۔
"نہیں چاچو آپ اسے یہیں بُلا دیں۔میں باہر انتظار کر رہا ہوں۔"وہ یہ کہہ کر رکا نہیں اور تیز تیز قدم اٹھاتا لاؤنج سے نکل گیا۔مظفر صاحب نے ملازمہ سے کہہ کر ایمان کو بلوایا۔
"کہاں ہیں ظفر چاچو۔۔؟"
وہ لاؤنج میں آئی تو وہاں سوائے شریفاں کے کوئی نہیں تھا جو ٹیبل پہ دھرا خالی کپ اٹھا رہی تھی۔
غزنوی جو پہلے ہی غصے میں تپا ہوا تھا یہ سُن کر تو آگ بگولا ہو گیا اور اسی غصے میں بناء سوچے سمجھے بیرونی دروازے کیطرف بڑھ گیا۔اسکا رخ مظفر احمد کے پورشن کیطرف تھا۔ان کے پورشن میں داخل ہونے سے پہلے اس نے خود کو ریلیکس کیا اور پھر اندر داخل ہوا۔لاؤنج میں مظفر صاحب بیٹھے کسی کتاب کا مطالعہ کر رہے تھے۔انھوں نے غزنوی کو لاؤنج میں داخل ہوتے دیکھ لیا تھا۔انہوں نے مسکراتے ہوئے ہاتھ میں پکڑا دُھواں اڑاتا کپ ٹیبل پہ رکھا۔
"السلام و علیکم چاچو۔۔"غزنوی ان کے قریب آیا۔
"واعلیکم السلام برخوردار آج یہاں کا راستہ کیسے بُھلا دیا۔"
وہ دونوں بغلگیر ہوئے۔
"کچھ خاص نہیں چاچو بس ذرا ایمان سے کام تھا۔"
کچن میں ایمان کی بجائے شگفتہ برتن دھو رہی تھی۔
"جی صاحب۔۔کچھ چاہئیے آپکو؟"شگفتہ بھی اسے دیکھ چکی تھی۔اس لئے ہاتھ دھو کر دوپٹے سے پونچتی ہوئے بولی۔
"نہیں۔۔۔وہ کمرے سے بھی برتن لے جاؤ۔"
مزید کچھ کہے بنا وہ پلٹ کر جانے لگا۔
"جی۔۔۔"وہ دُھلے ہوئے برتن سائیڈ پہ کرتے ہوئے بولی۔
"ایمان کہاں ہے؟"اس سے پہلے کہ وہ کچن سے نکلتی غزنوی نے پوچھا۔
"چھوٹے صاحب وہ تو شاہ گل کے ساتھ مظفر صاحب کیطرف گئی ہیں۔سحرش بی بی آ کر لے گئی تھیں انھیں۔"
یہ کہہ کر شگفتہ سیڑھیوں کی طرف بڑھ گئی
مگر وہ کمرے میں نہیں آئی۔پھر ڈنر کے دوران بھی ایمان اسے دکھائی نہیں دی تھی۔ڈنر کے بعد واپس کمرے میں آنے تک اسکا غصہ سوانیزے پر پہنچ چکا تھا۔ڈنر کے بعد ایمان اسکے لئے دودھ کا گلاس لایا کرتی تھی۔کمرے میں واپس آنے کے بعد وہ اسی انتظار میں تھا مگر دروازے سے شگفتہ کو اندر آتے دیکھ کر غصے سے سرخ ہوتی آنکھوں سے اب خون چھلکنے لگا تھا۔شگفتہ نے جھٹ پٹ ٹرے ٹیبل پہ رکھا اور تیزی سے کمرے سے چلی گئی۔وہ اسے روک کر ایمان کے بارے میں پوچھنا چاہتا تھا مگر الفاظ منہ میں ہی رہ گئے۔اس نے دودھ کا گلاس خالی کیا اور کمرے سے نکل آیا۔اسکا رخ کچن کی جانب تھا۔لاؤنج میں مکمل خاموشی تھی۔کچن سے کھٹ پٹ کی آوازیں آ رہی تھیں۔
"اچھا تو بلی یہاں چھپی بیٹھی ہے۔"
وہ مسکرایا۔۔مگر کچن میں قدم رکھتے ہی مسکراتے لب سکڑ گئے۔
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain