کیا فرشتے چلے گئے ہیں - کاندھوں سے
کہ اب لوگ ، لوگوں کا حساب کرتے ھیں
علی بابا 🖤
"اعمال" درست کریں "محترم"
حوریں" اس "دنیا" میں بھی ملیں گی
علی بابا 🖤
تم تو خود شعلہءِ فروزاں ہو
آگ کیسے بجھاؤ گے صاحب
علی بابا 🖤
کل شب خدا کے ساتھ بڑی گفتگو رہی
ڈر مت! ترے ستم کا کہیں ذکر تک نہ تھا
علی بابا 🖤
وہ بات بات پہ دیتا ہے پرندوں کی مثالیں
صاف صاف نہیں کہتا ہمارا شہر چھوڑ دو
علی بابا 🖤
لگا کر آگ سینے میں چلے ہوتم کہاں؟
ابھی تو راکھ اڑنے دو تماشا اور بھی ہے
علی بابا 🖤
ٹوٹے ہوئے کانچ کی طرح چکنا چور ہو گیا
کسی کو لگ نہ جاوں اسلئے سب سے دور ہو گیا
علی بابا 🖤
تم بھی شیشے کی طرح نکلے
جس کے سامنے آۓ اسی کے ہو گئے
علی بابا 🖤
کبھی یہ بھی تو سوچا ہوتا
کاندھوں پر اٹھانے والے ، ہمیشہ مٹی میں ملا دیتے ہیں
علی بابا 🖤
قبرستان کے باہر کہاں لکھا ہے
کہ یہاں صرف بوڑھوں نے آنا ہے
علی بابا 🖤
مرنے سے کونسا دکھ ختم ہو جائیں گے
وہاں بھی پوچھی جائے گی وجہ زندگی برباد کرنے کی
علی بابا 🖤
کیا کہا؟ وہاں دل نہیں لگتا۔
میں صدقے! واپس آ جائیے نا
علی بابا 🖤
ہجر تیرا جےپانی مَنگے، میں کھُوہ نیناں دے گیڑاں
جی کردا تینوں کول بٹھا کے، میں درد پرانے چھیڑاں
علی بابا 🖤
کب ضیا بار ترا چہرۂ زیبا ہوگا
کیا جب آنکھیں نہ رہیں گی تو اجالا ہوگا
مشغلہ اس نے عجب سونپ دیا ہے یارو
عمر بھر سوچتے رہیے کہ وہ کیسا ہوگا
جانے کس رنگ سے روٹھے گی طبیعت اس کی
جانے کس ڈھنگ سے اب اس کو منانا ہوگا
اس طرف شہر ادھر ڈوب رہا تھا سورج
کون سیلاب کے منظر پہ نہ رویا ہوگا
یہی انداز تجارت ہے تو کل کا تاجر
برف کے باٹ لیے دھوپ میں بیٹھا ہوگا
دیکھنا حال ذرا ریت کی دیواروں کا
جب چلی تیز ہوا ایک تماشا ہوگا
آستینوں کی چمک نے ہمیں مارا بابا
ہم تو خنجر کو بھی سمجھے ید بیضا ہوگا.
علی بابا 🖤
دنیا بھی عجب قافلۂ تشنہ لباں ہے
ہر شخص سرابوں کے تعاقب میں رواں ہے
تنہا تری محفل میں نہیں ہوں کہ مرے ساتھ
اک لذت پابندیٔ اظہار و بیاں ہے
حق بات پہ ہے زہر بھرے جام کی تعزیر
اے غیرت ایماں لب سقراط کہاں ہے
کھیتوں میں سماتی نہیں پھولی ہوئی سرسوں
باغوں میں ابھی تک وہی ہنگام خزاں ہے
احساس مرا ہجر گزیدہ ہے ازل سے
کیا مجھ کو اگر کوئی قریب رگ جاں ہے
جو دل کے سمندر سے ابھرتا ہے یقیں ہے
جو ذہن کے ساحل سے گزرتا ہے گماں ہے
پھولوں پہ گھٹاؤں کے تو سائے نہیں بابا
آوارۂ گلزار نشیمن کا دھواں ہے.
علی بابا 🖤
رات آئی ہے بلاؤں سے رہائی دے گی
اب نہ دیوار نہ زنجیر دکھائی دے گی
وقت گزرا ہے پہ موسم نہیں بدلا یارو
ایسی گردش ہے زمیں خود بھی دہائی دے گی
یہ دھندلکا سا جو ہے اس کو غنیمت جانو
دیکھنا پھر کوئی صورت نہ سجھائی دے گی
دل جو ٹوٹے گا تو اک طرفہ چراغاں ہوگا
کتنے آئینوں میں وہ شکل دکھائی دے گی
ساتھ کے گھر میں ترا شور بپا ہے بابا
کوئی آئے گا تو دستک نہ سنائی دے گی.
علی بابا 🖤
شکوۂ گردش حالات لیے پھرتا ہے
جس کو دیکھو وہ یہی بات لیے پھرتا ہے
اس نے پیکر میں نہ ڈھلنے کی قسم کھائی ہے
اور مجھے شوق ملاقات لیے پھرتا ہے
شاخچہ ٹوٹ چکا کب کا شجر سے لیکن
اب بھی کچھ سوکھے ہوئے پات لیے پھرتا ہے
سوچئے جسم ہے اب روح سے کیسے روٹھے
اپنے سائے کو بھی جو سات لیے پھرتا ہے
آسماں اپنے ارادوں میں مگن ہے لیکن
آدمی اپنے خیالات لیے پھرتا ہے
پرتو مہر سے ہے چاند کی جھلمل بابا
اپنے کاسے میں یہ خیرات لیے پھرتا ہے.
علی بابا 🖤
ثبوت عشق کی یہ بھی تو ایک صورت ہے
کہ جس سے پیار کریں اس پہ تہمتیں بھی دھریں
علی بابا 🖤
مجھے اس نے کہا آؤ، نئی دنیا بستاتے ہیں
اسے سوجھی شرارت تھی، یہ دل کچھ اور سمجھا تھا
علی بابا 🖤
الفاظوں میں پڑ جائے گی ـــــ جب جان مکمل
لے آئیں گے ہم بھی ـــــ عشق پر ایمان مکمل
آجائے میرا نام ـــــــ تیرے نام کے ہمراہ
ہو جائے کسی روز ــــــ تو پہچان مکمل
علی بابا 🖤
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain