تم سے الفت کے تقاضے نہ نباہے جاتے ورنہ ہم کو بھی تمنا تھی کہ چاہے جاتے دل کے ماروں کا نہ کر غم کہ یہ اندوہ نصیب زخم بھی دل میں نہ ہوتا تو کراہے جاتے کم نگاہی کی ہمیں خود بھی کہاں تھی توفیق کم نگاہی کے لئے عذر نہ چاہے جاتے کاش اے ابر بہاری ترے بہکے سے قدم میری امید کے صحرا میں بھی گاہے جاتے ہم بھی کیوں دہر کی رفتار سے ہوتے پامال ہم بھی ہر لغزش مستی کو سراہے جاتے لذت درد سے آسودہ کہاں دل والے ہیں فقط درد کی حسرت میں کراہے جاتے ہے ترے فتنۂ رفتار کا شہرا کیا کیا گرچہ دیکھا نہ کسی نے سر راہے جاتے دی نہ مہلت ہمیں ہستی نے وفا کی ورنہ اور کچھ دن غم ہستی سے نباہے جاتے شان الحق حقی❤️
محبت ہار جائے تو مداوا پھر نہیں ہوتا فلک سے بارشیں اتریں گلوں پر تتلیاں ٹھہریں بہاریں آکے رک جائیں چمبیلی جس قدر مہکے بلا کا دلنشیں موسم کوئی اچھا نہیں لگتا! ندامت خیز آنکھوں میں لہو کے اشک لےکر بھی پلٹ کے آنے والا بھی کبھی سچا نہیں لگتا محبت ہار جائے تو مداوا پھر نہیں ہو
اگر کبھی میری یاد آئے گریز کرتی ہوا کی لہروں پہ ہاتھ رکھنا میں خوشبوؤں میں تمہیں ملوں گی مجھے گلابوں کی پتیوں میں تلاش کرنا میں اوس قطروں کے آئینوں میں تمہیں ملوں گی اگر ستاروں میں اوس قطروں میں خوشبوؤں میں نہ پاؤ مجھ کو تو اپنے قدموں میں دیکھ لینا میں گرد ہوتی مسافتوں میں تمہیں ملوں گی
سرِ طور ہو سرِ حشر ہو، ہمیں انتظار قبول ہے وہ کبھی ملیں، وہ کہیں ملیں، وہ کبھی سہی وہ کہیں سہی نہ ہو ان پہ میرا جو بس نہیں، کہ یہ عاشقی ہے ہوس نہیں میں انہی کا تھا میں انہی کا ہوں، وہ میرے نہیں تو نہیں سہی میری زندگی کا نصیب ہے، نہیں دور مجھ سے قریب ہے مجھے اس کا غم تو نصیب ہے،وہ اگر نہیں تو نہیں سہی اسے دیکھنے کی جو لو لگی، تو نصیر دیکھ ہی لیں گے ہم وہ ہزار آنکھ سے دور ہو، وہ ہزار پردہ نشیں سہی پیر نصیرالدین نصیرؒ