پاس اپنے حکمرانو ں اور اداروں پر اعتماد کرنے کے علاوہ کوئی دوسرا آپشن نہیں ہے کیونکہ مہذب شہری اپنے اداروں پر ہی اعتماد کرتے ہیں اور کبھی کسی اجنبی لشکر کے حمایتی یا سپاہی نہیں بنتے۔ بلاشبہ یہ درست ہے کہ ہم زندگی کے بہت سے اہم معاملات میں عالمی ریٹنگ میں کسی اچھے مقام پر فائز نہیں ہیں لیکن ایک فہرست اِن اداروں نے کبھی جاری نہیں کی جو دنیا میں ہمارے مقام و مرتبے کو پہلے نمبر پر لا کھڑا کرتی ہے۔جس سے ہماری ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کے سر فخر سے بلند ہو جاتے ہیں۔ جو قوموں کی حقیقی حیات کی رگوں میں خونِ تازہ کا سا کردار ادا کرتی ہے۔ پاکستان دنیا بھر میں شہیدوں کے حوالے سے پہلے نمبر پر ہے اور یہ شہادتیں ہم نے کسی ایسی جنگ میں حاصل نہیں کیں جو ہمیں کسی ازلی اور ابدی دشمن کے ساتھ مقابلہ کرتے ہوئے نصیب ہوئی ہوں بلکہ اِس کیلئے ہم نے دنیا بھر کی ریاستوں
دنیا بھر کے ریسرچ اداروں سے جاری ہونے والی فہرستوں کوغور سے دیکھنے کے بعد یہی معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان معاشی حوالے سے کون سے نمبر پر ہے یا پھر عدل فراہم کرنے والے عالمی انصاف کے اداروں کی دوڑ میں کس مقام پر کھڑے ہیں۔ یہ تحقیقی مراکز خطِ افلاس سے لے کر ہماری تعلیمی اہلیت اور پاکستان میں کرپشن کے حوالے سے ہمارے مقام و فضیلت کے علاوہ امن کے وکٹری سٹینڈ پر ہماری عدم موجودگی کی نشاندہی کرتے ہوئے ہمیں کسی بے امن و بے اماں سرزمین کے حوالے سے یاد کرتا ہے۔ اِن اداروں سے ہرگز یہ گلے نہیں کہ وہ ایسا کیوں کرتے ہیں کہ یہ اُن کی ذمہ داری ہے جسے وہ خوش اسلوبی سے سرانجام دے رہے ہیں اس سے ہمیں اپنے حکمرانوں کی کارکردگی کے ارتقائی عمل کا گراف سمجھنے میں مد د مل جاتی ہے۔ گو کہ اُس کو سمجھنے کے بعد بھی پاکستانی عوام کے پاس اپنے حکمرانو ں اور اداروں پر اعتماد ک
جائز نہیں ہے۔
افطار کی دعا
افطار کے وقت جو نیک اور جائز دعا بھی آپ مانگیں گے،اللہ قبول فرمائے گا۔قرآنی اور مسنون دعائیں اللہ کو زیادہ محبوب ہیں۔ روزہ کھلنے کے وقت کی ایک مسنون دعا ہے۔”اَللّٰھُمَّ اِنِّی لَکَ صُمتُ وَ عَلٰی رِزقِکَ اَفطَرتُ“ یعنی اے اللہ،میں نے تیری ہی رضا کی خاطر روزہ رکھا اور تیری ہی عطا کردہ روزی سے افطار کیا۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم افطار کے بعد یہ کلمات پڑھا کرتے تھے۔ ”ذَھَبَ الظَّمَاُ وَابتَلَّتِ العُرُوقُ وَ ثَبَتَ الاَجرُ اِن شَاءَ اللّٰہُ“ یعنی پیاس بجھ گئی، رگیں تروتازہ ہوگئیں اور اللہ نے چاہا تو اجر و ثواب ضرور ملے گا۔
end
ثواب ہے۔
امام بیہقی کی ایک روایت کے مطابق ”کسی روزے دار کا روزہ کھلوانے والے یا کسی مجاہد فی سبیل اللہ کو سامان جہاد فراہم کرنے والے کو روزے دار اور مجاہد کے برابر اجروثواب ملتا ہے جبکہ ان کے اجروثواب میں کوئی کمی نہیں کی جاتی۔“
افطار کا وقت خصوصی طور پر قبولیت دعا کا وقت ہے۔افطار سے پہلے انتظار کے لمحات میں تلاوت،ذکرالٰہی اور دعا کا اہتمام بڑی سعادت ہے۔جو خواتین اپنے کام اور سامانِ افطار تیار کرنے میں لگی ہوتی ہیں وہ اسی دوران اللہ کی حمد و تسبیح اور تکبیر پڑھتی رہیں تو انہیں بڑا اجر ملے گا۔
بہترین افطار وہ ہے، جس میں غربا و مساکین کو روزہ کھلوایا جائے۔ اسراف، نمائش اور ریاکاری نیز کھاتے پیتے لوگوں تک افطاریوں کو محدود کردینا اسلام کے بنیادی فلسفے اور روح کے منافی ہے۔افطار کی وجہ سے نماز مغرب باجماعت میں تساہل یا قیام اللّیل میں سستی
ھایا کرو کیونکہ اس میں بڑی برکت ہے“ (بروایت ابن ماجہ)۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ بھی فرمان ہے ”سحری کھانے والوں پر اللہ رحمت فرماتا ہے اور فرشتے ان کے لیے مغفرت کی دعا کرتے ہیں“ (بحوالہ مسند احمد)۔ سحری آدھی رات کو کھانے کے بجائے صبح صادق سے قبل متصل وقت کھانا زیادہ افضل ہے۔یہی آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کا معمول تھا۔
افطار
افطار کا لفظی معنٰی روزہ کھولنا یا کھلوانا ہے۔ افطار میں تاخیر کرنا غلط ہے۔ سورج غروب ہوتے ہی فوراً افطار آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے اور یہی اللہ کو محبوب ہے۔ایک متفق علیہ روایت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا”میری امت کے لوگ خیر کی حالت میں رہیں گے جب تک افطار میں جلدی کیا کریں گے“۔ افطار کرانا یعنی کسی روزے دار کا روزہ کھلوانا بہت بڑا ثواب
قیام کرے گا،اس کے بھی سارے پچھلے گناہ معاف کردیے جائیں گے۔ جو شخص لیلۃ القدر کو ایمان و احتساب کے ساتھ قیام کرے گا اس کے سب پچھلے گناہ معاف کر دیے جائیں گے۔ احتساب کا مطلب یہ ہے کہ صیام و قیام میں خالص اللہ کی رضا اور اجرِ آخرت مطلوب ہو اور ان تمام غلط کاموں سے صیام و قیام کو پاک رکھا جائے، جو اللہ کو نا پسند اور قیام و صیام کی روح کے منافی ہیں۔گویا جس صیام و قیام کے بدلے اتنا بڑا انعام بتایا گیا ہے وہ پوری روح کے ساتھ جلوہ گر ہو گا تو بندہ اس بشارت کا مستحق قرار پائے گا۔ محض مشقت اور چند حرکات اس کے لیے کافی نہیں۔
سحری کی فضیلت
روزہ آیت قرآنی کے مطابق تمام امتوں پر فرض رہا ہے۔یہودیوں نے روزے کے دوران سحری کو ممنوع قرار دے دیا تھا۔آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ”سحری کھایا کرو کیونکہ اس
حدیث اور کئی دیگر احادیث میں صیام کے ساتھ قیام اللّیل کا بھی ذکر ہے۔ رمضان کا روزہ تو فرض ہے جبکہ قیام اللیل مسنون بدرجہئ سنت مؤکدہ ہے اور بعض ائمہ کے نزدیک واجب کے درجے میں شامل ہے۔قیام اللیل کا عمل آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق اللہ کو اتنا پسندیدہ تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کی طرف سے اس کی فرضیت کا اندیشہ ہوا اور خیال گزرا کہ امت کے لیے کہیں یہ مشقت نہ بن جائے۔ہر چند کہ اسے فرض قرار نہیں دیا گیا مگر اس کا اجر فرض کے برابر بتایا گیا ہے۔
حضرت ابوہریرہؓ کی روایت کے مطابق امام بخاری ومسلم نے بیان کیا ہے کہ جو شخص ایمان واحتساب کے ساتھ روزہ رکھے گا،اس کے سارے پچھلے گناہ معاف کر دیے جائیں گے اور جو شخص ایمان و احتساب کے ساتھ رمضان کی راتوں میں قیام کرے گا
حضرت عبداللہؓ بن عمروؓ بن العاص کی روایت امام بیہقیؒ نے اپنی سنن میں نقل کی ہے،جس کے مطابق روزہ اور قرآن دونوں بندے کے حق میں روزِ محشر سفارش کریں گے۔روزہ کہے گا: ”اے میرے رب! میں نے تیرے اس بندے کو کھانے پینے اور خواہشاتِ نفس کی تسکین سے روکے رکھا تھا۔آج میں اس کے حق میں شفاعت کرتا ہوں، تو اسے قبول فرما لے“۔ اسی طرح قرآن بھی عرض کرے گا ”پروردگار! میں نے تیرے اس بندے کو رات کے وقت نیند اور استراحت سے روکے رکھا تھا، اس کے حق میں میری سفارش کو شرفِ قبولیت عطا فرما“ اور اللہ، روزے اور قرآن کی سفارش اپنے بندے کے حق میں قبول فرما لے گا۔
اس حدیث اور کئی
اور دوسری اسے اس روز ملے گی، جب وہ اپنے رب سے ملاقات کرے گا۔ روزے دار کے منہ سے آنے والی بو اور بساند خدا کے نزدیک مشک کی خوشبو سے بھی محبوب تر ہے اور روزہ ڈھال ہے۔ جب تم میں سے کوئی روزے سے ہوتو وہ بے حیائی کے ہر کام، شوروغل اور ہنگامہ آرائی سے مجتنب رہے۔اگر کوئی اس کو گالی گلوچ بھی دے یا لڑائی جھگڑا کرنے لگے تو وہ جواب میں کہے”اَنَا صَاءِمٌ“ یعنی ”میں روزے سے ہوں“۔
آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابی حضرت ابو امامہؓ کو روزے کی فضیلت بتاتے ہوئے فرمایاکہ روزہ رکھا کرو، اس کی مثل کوئی دوسرا عمل نہیں ہو سکتا (بروایت نسائی)۔ایک اورحدیث قدسی میں،جو متفق علیہ ہے،آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ رب العزت فرماتا ہے:”آدمی کے ہر اچھے عمل کا بدلہ دس سے ستر گنا تک بڑھا کر دیا جاتا ہے مگر روزے کا معاملہ الگ ہے۔وہ خالص میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا اجر دوں گا۔بندے نے میری رضا کی خاطر اپنی خواہشات اور کھانے پینے کا عمل چھوڑ دیا،روزے دار کو دو مسرتوں کی بشارت ہے، ایک وہ جو روزہ کھلنے کے وقت اسے حاصل ہوتی ہے اور دوسری
جا سکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ سوا کا بلیڈر چین کے روایتی کھانوں میں استعمال ہوتا ہے، جب کہ ادویات اور سرجری میں استعمال ہونے والے دھاگے بھی اس سے بنائے جاتے ہیں۔
سوا مچھلی کے بلیڈر سے چین، سنگا پور اور ہانگ کانگ میں خاص قسم کی یخنی میں استعمال کیا جاتا ہے۔
معظم خان کا کہنا تھا کہ سوا مچھلی کا سائز ڈیڑھ میٹر اور وزن 30 سے 40 کلو گرام تک ہو سکتا ہے اور یہ پورا سال پکڑی جاتی ہے۔ تاہم نومبر سے مارچ تک اس کی دستیابی آسان ہو جاتی ہے کیونکہ یہی اس کا بریڈنگ سیزن ہے۔
اس مچھلی کو سندھی میں ’سوّا‘ اور بلوچی میں ’کر‘ کہا جاتا ہے جبکہ اس کا نباتاتی نام ارگائیروسومس جیپونیکس ہے۔
کمال شاہ کا کہنا تھا کہ سوا مچھلی کا شکار ایک کٹھن کام ہے، جس میں ماہی گیر سمدنر میں ڈیزل پھینکتے ہیں تاکہ شکار کو بے ہوش کیا جا سکے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’جب ادھ مری سوا مچھلیاں پانی کی سطح پر تیرنے لگتی ہیں تو مچھیرے انہیں پکڑ لیتے ہیں۔‘
ماحول کی بقا کے لیے کام کرنے والے ادارے ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ (ڈبلیو ڈبلیو ایف) کے معاون محمد معظم نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ سوا مچھلی کے مہنگے ہونے کی وجہ اس میں موجود ایئر بلیڈر ہے جسے مقامی زبان میں پوٹا کہتے ہیں۔ اس کے ذریعے یہ پانی میں اوپر اور نیچے آ جا سکتی ہے۔
معظم خان نے مزید بتایا کہ مارچ اور اپریل میں یہ مچھلی انڈے دینے کے لیے جمع ہوتی ہیں اور اس وقت اس کا شکار سوا مچھلی کو معدوم کرنے کا باعث بن سکتا ہے۔
کمال شاہ کا کہنا تھا کہ 40 کلو نر سوا مچھلی (جسے گولڈن سوا بھی کہا جاتا ہے) کی مالیت سوا کروڑوں روپے ہے، جب کہ مادہ سوا کی قیمت زیادہ سے زیادہ 50 لاکھ روپے تک ہو سکتی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ماہی گیروں نے ایک وقت میں چھوٹی بڑی تقریباً پانچ ہزار سوا مچھلیاں پکڑی اور اس میں مچھیروں کی کئی کشتیوں نے حصہ لیا۔
انہوں نے مزید بتایا کہ 20 مارچ کو پکڑی جانے والی سوا مچھلی کی مجموعی قیمت کا تخمینہ تقریباً ایک ارب روپے لگایا گیا ہے۔
کوسٹل میڈیا سینٹر کے ترجمان کمال شاہ نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا کہ ’یہ کوئی بندرگاہ یا جے ٹی نہیں بلکہ کیٹی بندر حجامڑو کری کا کھلا سمندر ہے اور یہاں تین سے چار کشتیاں جمع ہو گئیں تھیں اور بڑی تعداد میں ’سوا‘ مچھلی کا شکار کیا گیا۔‘
تاہم جنگلی حیات کے لیے کام کرنے والے بین الاقوامی ادارے ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ (ڈبلیو ڈبلیو ایف) کے معاون محمد معظم کے مطابق کروکر نسل سے تعلق رکھنے والی سوا مچھلی کا بڑے پیمانے پر شکار اس کی نسل کے معدوم ہونے کا باعث بن سکتا ہے۔
معظم خان نے مزید بتایا کہ مارچ اور اپریل میں یہ مچھلی انڈے دینے کے لیے جمع ہوتی ہیں اور اس وقت اس کا شکار سوا مچھلی کو معدوم کرنے کا باعث بن سکتا ہے۔
ڈبلیو ایف کے مطابق مارچ اور اپریل سوا مچھلی کے لیے افزائش نسل کا موسم ہے اور ایسے میں ان کا شکار اس آبی جانور کے لیے خطرہ ثابت ہو سکتا ہے۔
سندھ کی قدیم بندرگاہ کیٹی بندر کے ماہی گیروں کے لیے 20 مارچ کسی طور عید سے کم ثابت نہیں ہوا کیوں کہ اس دن بحیرہ عرب کی کائنر کریک میں ان کے جال میں بڑی تعداد میں قیمتی اور نایاب مگر معدومی کے خطرے سے دوچار ’سوا‘ مچھلی پھنسی۔
دن میں کم از کم چند بار اپنے ساتھی کے ساتھ جسمانی طور پر قریب ہونا جیسے بوسہ لینا یا گلے لگانا نہ صرف تناؤ کو کم کرتا ہے بلکہ ہمارے جسم کے مدافعتی نظام کو بھی بڑھاتا ہے، تھکاوٹ کو کم کرتا ہے، انفیکشن کے امکانات کو کم کرتا ہے۔ اور بے چینی یا ڈپریشن کو روکتا ہے۔ایک تحقیق کے مطابق ہمیں صرف جینے کے لیے دن میں 4 بار ، صحت مند رہنے کے لیے 8 بار اور زندگی میں آگے بڑھنے کے لیے 12 بار گلے لگانے کی ضرورت پڑتی ہے۔ماہرین کے مطابق جسمانی اور ذہنی طور پر صحت مند رہنے کے لیے ہمیں ہفتے میں کم از کم دو بار سیکس کرنا چاہیے۔ آپ کو اپنے ساتھی کو ہفتے میں کم از کم 30 بار کس کرنا چاہیے۔
تحقیق کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جوڑے کو 6 سیکنڈ تک کسن کرنا یا 20 سیکنڈ تک گلے لگانا دونوں کے جسموں میں آکسیٹوسن کی سطح کو بڑھاتا ہے۔ یہ آکسیٹوسن ہیپی ہارمون کہلاتا ہے، جس کا مطلب ہے کہ جب یہ ہارمون جسم میں بڑھتا ہے تو ہمارا تناؤ کم ہوجاتا ہے اور ہمارا دماغ پرسکون اور مستحکم ہوجاتا ہے۔آکسیٹوسن ہارمون جسم میں ایک اور ہارمون کورٹیسول کی سطح کو کم کرنے میں مدد کرتا ہے اور بلڈ پریشر کے لیے بھی اچھا رہتا ہے۔
محققین کے مطابق ہر جوڑے یا کسی بھی بالغ کو دن میں کم از کم 3 سے 5 بار بوسہ لینا چاہیے، بوسہ کافی شدید ہونا چاہیے اور یہ کم از کم 6 سیکنڈ تک جاری رہنا چاہیے۔فیملی ڈاکٹر جان گوٹ مین اور ان کی اہلیہ ماہر نفسیات جولی سوارٹز گوٹ مین نے ‘کسنگ رول’ کے بارے میں بتایا ہے۔ اسے ‘سکس سیکنڈ کس رول’ کہا جاتا ہے۔ یہ رول نہ صرف یہ کہتا ہے کہ ہر جوڑے کو اپنے ساتھی کو دن میں کم از کم 6 سیکنڈ تک بوسہ دینا چاہیے، وہ یہ بھی بتاتے ہیں کہ دن میں کتنی بار کس کرنا جسم اور دماغ کے لیے اچھا ہوتا ہے۔
ڈاکٹروں سے لے کر ریلیشن شپ ایکسپرٹس تک، سبھی کہتے ہیں کہ ساتھی کے ساتھ باقاعدہ جسمانی قربت ہماری جسمانی اور ذہنی صحت کے لیے اہم ہے۔ اس میں صرف جسمانی تعلقات ہی شامل نہیں ہے، بلکہ عام طور پر پیار کرنا، گلے لگانا اور بوسہ لینا بھی شامل ہے۔ہم کبھی بھی اپنی ذہنی اور جسمانی صحت یا اپنے پیاروں کی صحت کی پرواہ نہیں کرتے لیکن صحت مند زندگی گزارنے کے لیے بوسہ لینا اور گلے لگانا کم از کم روزانہ تو کرنا ہی چاہیے۔ ویسے وہ رولز کیا ہیں؟
آج کل ہم اپنے کام میں بہت مصروف رہتے ہیں، خاص کر ہم اپنی نوکری اور اپنے کام کاج میں اتنے مصروف ہو جاتے ہیں کہ اپنی صحت کو اہمیت دینا بھول جاتے ہیں۔ پورا دن باس کو خوش کرنے میں گزر جاتا ہے۔ جب لوگ پورا دن کام کرنے کے بعد تھکے ہارے گھر واپس آتے ہیں تو اس عمل میں وہ میاں بیوی کے درمیان محبت کو بھول جاتے ہیں، اس بات کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain