کی مَوجُوں نے
بَڑی ہَلچَل مَچائی ہے
تَیری تَصوِیر،سُوکھے پُھول اَور تحفے
تَیری چاہَت کی خُوشبُو میں
اَبھی تَک سانس لَیتے ہیں
وہ سَب رَستے کہ جِن پَر تُم ہَمارے ساتھ چَلتے تھے
وہ سَب رَستے جَہاں تَیری ہَنسی کے پُھول کِھلتے تھے
جَہاں پَیڑُوں کی شاخُوں پَر
ہَم اَپنا نام لِکھتے تھے
اُداسی سے بَھرے مَنظَر
تُمہارے لَوٹ کَر آنے کی اُمِیدَیں دِلاتے ہیں
سُنو کُچھ بھی نَہیں بَدلا
تُمہارے پاؤں کی آواز سُننے کی
مَیرے کَمرے کی بے تَرتِیب چِیزَیں مُنتظِر ہیں
سُنو !
تَکمِیل پاتی چاہتُوں کَو یُوں اَدھُورا تَو نَہیں چَھوڑَو
مُجھے مَت آزماؤ تمُ
چَلو اَب لَوٹ آؤ تُم__😘😘😘
چَلو اَب لَوٹ آؤ تُم____
سُنو تُم نے کَہا تھا نا
مُجھے جَذبہ مُحَبّت سے کَبھی جَو تُم پُکارَو گے
میں اُس دِن لَوٹ آؤں گا
تَو دَیکَھو نا
کَئی لَمحُوں
کَئی سالُوں
کئی صَدِیُوں
سے تَیرا رَستہ تَکتی
یہ مَیری مُنتظِر آنکَھیں
مَیرے دِل کی یہ دَھڑکَن اَور سانسَیں
بَس تُمہارا نام لَیتی ہیں
وَہی اِک وِرد کَرتی ہیں
مَیری آنکُھوں کے ساحِل پَر
تَیری خَواہِش کی مَوجُوں نے
بَڑی ہَلچَل مَچائی ہے
تَیری تَصوِیر،سُوکھے پُھول اَور تحفے
تَیری چاہَت کی خُوشبُو میں
ﻣﺠﮭﮯ ﺑﮯ ﺣﺪ ﺳﺘﺎﺗﺎ ﮨﮯ ....
ﮐﺒﮭﯽ ﭘﻠﮑﯿﮟ ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ، ﺩﮬﻮﭖ ﺍﻭﮌﮬﮯ ....
ﺟﺴﻢ ﻭ ﺟﺎﮞ ﭘﺮ ﺷﺎﻡ ﮐﺮﺗﯽ ﮨﯿﮟ ....
ﮐﺒﮭﯽ ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ .....
ﻣﯿﺮﮮ ﻟﮑﮭﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﻣﺼﺮﻋﻮﮞ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﮯ ﻧﺎﻡ ﮐﺮﺗﯽ ﮨﯿﮟ ....
ﻣﯿﮟ ﺧﻮﺵ ﮨﻮﮞ ﯾﺎ ..... ﺍُﺩﺍﺳﯽ ﮐﮯ ﮐﺴﯽ ﻣﻮﺳﻢ ﺳﮯ لپٹی ﮨﻮﮞ ....
ﮐﻮﺋﯽ ﻣﺤﻔﻞ ﮨﻮ ﺗﻨﮩﺎﺋﯽ ﻣﯿﮟ ﯾﺎ ﻣﺤﻔﻞ ﻣﯿﮟ ﺗﻨﮩﺎ ﮨﻮﮞ ....
ﯾﺎ ﭘﮭﺮ ﺍﭘﻨﯽ ﻟﮕﺎﺋﯽ ﺁﮒ ﻣﯿﮟ ﺑﺠﮫ ﺑﺠﮫ ﮐﮯ جلتی ﮨﻮﮞ ....
ﻣﺮﮮ ﺟﺬﺑﮯ، ﻣﺮﮮ ﺍﻟﻔﺎﻅ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﺭﻭﭨﮫ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ....ﻣﯿﮟ ﮐﭽﮫ ﺑﮭﯽ ﮐﮩﮧ ﻧﮩﯿﮟ سکتا....ﻣﯿﮟ ﮐﭽﮫ ﺑﮭﯽ ﻟﮑﮫ ﻧﮩﯿﮟ سکی ....
ﺍُﺩﺍﺳﯽ ﺍﻭﮌﮪ لیتا ﮨﻮﮞ ....
ﺍﻭﺭﺍﻥ ﻟﻤﺤﻮﮞ ﮐﯽ ﻣﭩﮭﯽ ﻣﯿﮟ .....
ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﯾﺎﺩ ﮐﮯ ﺟﮕﻨﻮ ﮐﮩﯿﮟ ﺟﮕﻤﮕﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔
ﻣﯿﮟ ﻧﮧ ﭼﺎﮨﻮﮞ ﻣﮕﺮ ﭘﮭﺮ ﺑﮭﯽ ....
ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﺳـــــﻮﭺ ﺭﮨﺘﯽ ﮨﮯ ....
ﮨﺮ ﺍﮎ ﻣﻮﺳﻢ ﮐﯽ ﺩﺳﺘﮏ ﺳﮯ ....
ﺗﻤﮩﺎﺭﺍ ﻋﮑﺲ ﺑﻨﺘﺎ ﮨﮯ ....
ﮐﺒﮭﯽ ﺑﺎﺭﺵ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ .....
ﺷﺒﻨﻤﯽ ﻟﮩﺠﮯ ﻣﯿﮟ ﮈﮬﻠﺘﯽ ﮨﮯ ....
ﮐﺒﮭﯽ ﺳﺮﻣﺎ ﮐﯽ ﯾﮧ ﺭﺍﺗﯿﮟ ....
ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﺳﺮﺩ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ﮐﺎ .....
ﺩﮨﮑﺘﺎ ﻟﻤﺲ ﻟﮕﺘﯽ ﮨﯿﮟ ....
ﮐﺒﮭﯽ ﭘﺖ ﺟﮭﮍ ....
ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﭘﺎﺅﮞ ﺳﮯ ....
ﺭﻭﻧﺪﮮ ﮨﻮﺋﮯ ﭘﺘﻮﮞ ﮐﯽ ﺁﻭﺍﺯﯾﮟ ﺳﻨﺎﺗﺎ ﮨﮯ ....
ﻣﺠﮭﮯ ﺑﮯ ﺣﺪ ﺳﺘﺎﺗﺎ ﮨﮯ ....
ﮐﺒﮭﯽ ﻣﻮﺳﻢ ﮔﻼﺑﻮﮞ ﮐﺎ .....
ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﻣﺴﮑﺮﺍﮨﭧ ﮐﮯ ....
ﺳﺒﮭﯽ ﻣﻨﻈﺮ ﺟﮕﺎﺗﺎ ﮨﮯ ....
ﻣﺠﮭﮯ ﺑﮯ ﺣﺪ ﺳﺘﺎﺗﺎ ﮨﮯ ....
ﮐﺒﮭﯽ ﭘﻠﮑﯿﮟ ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ
سن کر
تمہیں لگے گا میں بے وفا ہوں
اُداس کلیوں کو چھوڑ کر میں
نئی بہاروں کو ڈھونڈتا ہوں
مگر حقیقت میں اس چمن کے
تمام پھولوں کی خواہشوں کا
اور ان کی ناکام کاوشوں کا
حسین موسم کی بارشوں کا
نہ میرے دل پر اثر ہوا تھا
نہ میرے دل پر اثر ہوا ہے
میں آج بھی اک نئے چمن میں
پُرانے قصّے سنا رہا ہوں
جو میری چاہت کا دیوتا تھا
میں آج بھی اس کو پوجتا ہوں
یقین نہیں تو پلٹ کے دیکھو
وہیں کھڑا تھا ، وہیں کھڑا ہوں😘😘😘
😘😘😘😘
کبھی جو مجھ کو تلاش کرنا
تو چاند راتوں کی چاندنی میں
گلِ چمن سے سوال کرنا
اُداس کیوں ہو ؟
کیوں اوس قطروں میں اپنے آنسو
چُھپا رہے ہو
حسین موسم میں کس کی یادوں میں
اپنے دل کو جلا رہے ہو
گلِ چمن یہ سوال سن کر
تمہاری آمد کا حال سن کر
کہے گا تم جس کو کھوجتے ہو
وہ ان بہاروں کی ساری خوشبو
چُرا کے اب اک نئے چمن میں
مہک رہا ہے
اُداس کر کے یہاں پہ ہم کو
کسی چمن میں چہک رہا ہے
گلِ چمن کا یہ حال سن کر
تمہیں لگے گا میں بے وفا ہوں
ا
ہاں دے دیں.
کیہڑا؟
کچا .... یا کاڑھ کےَ؟
ڈاکٹر: کاڑھ کے.
ٹھنڈا کر کے یا گرم گرم؟
ڈاکٹر :نیم گرم، کوسا کر کے دے دیں.
کنّاں کوسا ؟
ڈاکٹر : ہلکا کوسا...
اتنی دیر میں مریض کا دوسرا رشتہ دار جو ساتھ ھی بیٹھا تھا..
چھڈ... تینوں تاں سمجھہ ہی نئی آؤندی.. مینوں پچھن دے...
"ھیں جی ڈاکٹر صاحب... مریض نوں خوراک کیہڑی دیئے...!!!؟" 😜😂😂😂
دس دیو۔
ڈاکٹر :نرم غذا کھلائیں۔ دلیا کھچڑی پھل ڈبل روٹی جوس وغیرہ۔
گوشت کیہڑا کھوایئے؟
ڈاکٹر :ابھی گوشت نہیں دینا۔
چھوٹا وھڈّا کوئی وی نئیں دینا ؟ مرغی وی نئیں؟
ڈاکٹر :نہیں مرغی بھی نا دیں ؟
تے مچھلی ڈاکٹر صاب؟
ڈاکٹر :نہیں۔
چوچا یا بٹیر دے دیئے؟
ڈاکٹر :نہیں بابا ابھی کوئی پکانے والی چیز نہیں دینی۔
دودھ تے پلا سکدے آں؟
ڈاکٹر : ہاں دے دیں.
کیہڑا؟
آپریشن کے بعد گاوُں سے آئے ھوئے مریض کے رشتہ داروں کی ڈاکٹر سے بات چیت:
ڈاکٹر صاب مریض نوں کھان لئی کی دیئے؟
ڈاکٹر :نرم غذا دیں...
مطلب کیہڑی نرم؟
ڈاکٹر : دلیہ ، کھچڑی ڈبل روٹی بسکٹ پھل جوس وغیرہ۔
پھل کیہڑے کیہڑے۔۔۔ یاں سارے؟
ڈاکٹر کوئی بھی موسمی پھل
"فروٹر" دے سکدے آں؟
ڈاکٹر: ہاں دے دیں.
پر ایہہ تے کھنگ کر سکدا اے ؟
ڈاکٹر :اچھا تو نہ دیں۔
نئیں ڈاکٹر صاحب جے ضروری اے تاں کھلا دیندے آں جی۔
پھل روٹی توں پہلے دیئے یا بعد وچ؟
ڈاکٹر :او بھائی ابھی کھانا نہیں دینا۔
تے مریض کی کھاوے۔ خوراک دا تے دس دیو۔
ڈاکٹر :نرم غذا کھلائیں۔ دلیا کھچڑی پھل ڈبل
بہت مصروف رہنا بھی خدا کی ایک نعمت ھے ھجومِ دوستاں ھونا ،کسی سنگت کا مِل جانا،کبھی محفل میں ہنس لینا ،کبھی خِلوت میں رو لینا ،کبھی تنہائی ملنے پر خود اپنا جائزہ لینا ،کبھی دُکھتے کسی دل پر ،تشفّی کا مرہم رکھنا ،کسی آنسو کو چُن پانا ،کسی کا حال لے لینا ،
کسی کا راز ملنے پر ،لبوں کو اپنے سِی لینا ،
کسی بچے کو چھُو لینا ،کسی بُوڑھے کی سُن لینا ،کسی کے کام آ سکنا ،کسی کو بھی دُعا دینا ،
کسی کو گھر بلا لینا ،کسی کے پاس خود جانا ،
نگاھوں میں نمی آ نا ،بِلا کوشش ہنسی آ نا ،
تلاوت کا مزہ آ نا ،کوئی آیت سمجھ پانا ،
کبھی سجدے میں سو جانا ،کسی جنت میں کھو جانا۔۔ ،خدا کی ایک نعمت ہے۔۔۔
آئی ھے اور قرآن سر پر رکھنے کی رسم بھی کم عقل مسلمانوں نے ایجاد کرلی
جبکہ اس رسم کا تعلق دینِ اسلام سے نہیں اور نا ہی یہ باعث ثواب و برکت عمل ھے بلکہ عورت بغیر پردے کے فقط نام کے دوپٹے میں نامحرموں کی نظروں اور کیمرے کی آنکھوں میں سے گزرتے ہوئے رخصت کی جاتی ھے اور اوپر قرآن کو سر پر رکھ کر اللّٰہ تعالیٰ سے رحمت کی امید رکھنا باعث گناہ بھی ھے اور یہ عمل شرعی طور پر بدعت ھے اس رسم کو معاشرے سے ختم کر دینا چاہیے خود بھی بچیں اور دوسروں کو بھی اخلاق سے سمجھائیں اللّٰہ ﷻ ہمیں سیدھے راستے پر چلا دیں آمین!
وغیرہ) میں اس کی طرف نظر اٹھا کر بھی نا دیکھنا تاہم اس کو کبھی کبھی تبرک کے طور پر دلہن کے سر پر یا مردے بخشوانے اور کھانے پر فاتحہ پڑھنے کے لیے استعمال کر لیا کرنا
*زندگی میں خوشی*
زندگی بہتر گزارنی ہے تو بیٹی کو قرآن کے سایے میں رخصت کرنے کے بجائے قرآن کی تعلیمات دے کر اگلے گھر بھیجا جائے تب تو یقینی برکت و رحمت پڑے گی مگر افسوس کہ آج کل قرآن سر پر لہراتے ہوئے اُس کی بے ادبی کرتے ہوئے اور شادی میں اللّٰہ ﷻ کے احکامات کی بڑے جوش و خروش سے خلاف ورزی کرتے ہوئے دُلہن صاحبہ رخصت کی جاتی ھے اور پھر لوگ کہتے ہیں گھروں میں خوشیاں نہیں سکون نہیں
آج کل ہونے والی رخصتی کی رسم بھی ہندوؤں سے آئی ھے اور ق
ی
(نعوذباللّٰہ تعالیٰ) یہ سراسر جھوٹ ھے
قرآن کو پکڑ کر اسے دلہن کے سر پر چھتری کی طرح تان کر اس کا سایہ کیا جاتا ھے گویا قدم قدم پر ہر کام میں اللّٰہﷻ کی نافرمانی اور قرآنی تعلیمات کی مٹی پلید کرنے کے باوجود ہم قرآن سے اس جذباتی تعلق کا اظہار کرکے اللّٰہ ﷻ سے کہتے ہیں
یا اللّٰہﷻ! دیکھ لے اس سب خودفراموشی اور خدافراموشی کے بعد بھی بطور تبرک تیرے قرآن کریم کو ہی استعمال کر رہے ہیں یہ قرآن کریم کے ساتھ کتنا بھونڈا مذاق ھے اعاذ نا الله منه
کیا روزِ محشر اللّٰہ ﷻ ہم مسلمانوں سے نہیں پوچھے گا کہ کیا قرآن کریم میں نے صرف اسی لیے نازل کیا تھا کہ تم اس کو حریر و ریشم کے غلافوں میں لپیٹ کر گل و ستہ طاق نسیاں بنا کر رکھ دینا اور اپنے کاروبار میں معاملات زندگی میں اور اپنی معاشرتی تقریبات (شادی بیاہ وغیرہ) میں اس کی طرف نظر اٹھا کر بھی نا
*اَصل
شادی کی 90 فیصد رسومات برِصغیر کے ہندوؤں سے آئی ہیں کچھ اسی شکل میں چلتی آ رہی اور کچھ کی شکل اسلامی بنا دی گئی جیسے گھوڑا چڑھائی دودھ پلائی مہندی و مائیوں بیٹھنا سہرا بندی و سہرا پڑھنا اور بھگوت گیتا کی جگہ قرآن کو رکھ دیا
یہ رواج ہم میں ہندوؤں سے آیا ھے وہ دلہن کے کندھے یا سر کے پاس *بھگوت گیتا* رکھا کرتے تھے اور برِصغیر میں رہنے کی وجہ سے کم عقل مسلمانوں نے بھی اسے اپنا لیا اور قرآن رکھ کر اس ہندوانہ رسم کو اسلامی رسم بنا دیا اب وقت گزرتا گیا اور رسم کی اصل تو فراموش ہو گئی مگر آنے والی نسل اسے شادی کا لازمی جزو سمجھنے لگے اور ثواب کی نیت سے کرنے لگ گئے
*اِضافی
عاجز کے علم میں آیا کہ کچھ لوگوں کا عقیدہ تو یہ ھے کہ رسولِ پاک ﷺ نے حصرت فاطمہؓ کے سر پر قرآن کا سایہ کیا تھا اسی لیے ہم بھی کر رہے ہیں
(نعوذباللّٰہ تعالیٰ) یہ سراسر
🥀 _*ایــک غلــط ســوچ اپنی اصلاح کیجئے*_ 🥀
بیٹی کی رخصتـی کے وقـت قــرآن کا سـایـہ کـرنا
ہمارے معاشرے میں ہونے والی شادیوں میں عجیب قسم کے رسم و رواج ہوتے ہیں جن کو ہر نسل ناجانے کب سے کرتی آ رہی ھے مگر کسی نے بھی یہ تکلیف نہیں کی کہ مسلمان ہونے کے ناطے یہی دیکھ لیں کہ شادیوں میں جو رسومات کر رہے ہیں آیا کہ اسلامی رسم ھے بھی یا کسی اور مذہب کے عقیدے سے منسلک ھے
انہی رسومات میں سے ایک ھے جسے پاکستان میں 90 فیصد گھروں میں آزمایا جاتا ھے اور وہ ھے
رخصتی کے وقت دلہن کا بھائی یا والد قرآن پاک کو غلاف میں لپیٹ کر اس کے سر پر سائے کے طور پر رکھتے ہیں اس نیت سے کہ اس کی شادی کے بعد کی نئی زندگی میں قرآن کی برکت کی وجہ سے خوشحالی ہوگی
(یعنی اللّٰہﷻ کی رحمت ہو گی)
*یہ ایک غلط سوچ ھے*
*اَصل
شادی کی 90 فیصد رسومات برِصغیر
۔ بہت سے والدین یہ اپنی بیٹیوں کے لیے منتخب کرتے ہیں کیونکہ یہ نام زیادہ عام نہیں ہے۔ بہناز فارسی زبان کا نام ہے جس کے معنی ہیں ''اچھے ناز و نخروں والی''، چونکہ نام کا اثر شخصیت پر ہوتا ہے لہٰذا بہناز نام کی لڑکیاں نازک مزاج کی ہوتی ہیں۔ اس کو ترکیہ میں بھی پسند کیا جاتا ہے۔
دُرناز:
دُرناز عربی زبان کا نام ہے جو کہ کافی مختصر اور منفرد نام ہے۔ دُرناز کے معنی ہیں ''اصلی ہیرے کی طرح خوبصورت''۔ اس نام کا تعلق بھی بلوچی خاندانوں سے ہے۔
''چاند کی طرح روشن'' اور ''پھول کی طرح خوبصورت، نرم شخصیت کی مالک''۔
ایشتم:
ایشتم بھی ایک بلوچی نام ہے جس کے معنی ہیں ''ہوش والی، عقل مند خاتون''۔ ایشتم پکارنے میں زرا مشکل نام ہے لیکن اس کے معنی کی وجہ سے والدین اس نام کا انتخاب اپنی ننھی پریوں کے لیے کرتے ہیں۔ اس نام کو مصر میں بھی رکھا جاتا ہے۔
گرزین:
گرزین بھی بلوچی نام ہے جس کا تعلق فارسی زبان سے ہے۔ معنی کے حوالے سے بات کی جائے تو گرزین نام کا مطلب ہے ''آسمان'' جس کا مفہوم بلندی سے ہے۔ گرزین نام ناصرف منفرد اور مختلف ہے بلکہ اس کے معنی بھی انتہائی اچھے اور خوبصورت ہیں۔
بہناز:
بہناز بلوچی کمیونٹی کا بہت ہی خوبصورت اور منفرد نام ہے۔ بہت سے والدین
بلوچستان کی ثقافت ہمارے ملک میں سب سے زیادہ منفرد ہے اور اس کو اب زیادہ سے زیادہ پسند کیا جاتا ہے کیونکہ خوبصورتی میں بلوچ ثقافت کسی سے کم نہیں ہے۔ جہاں روایات منفرد ہیں وہیں بلوچوں کے نام بھی دوسرے لوگوں سے بالکل الگ ہیں اور ان کے معنی بھی بہت اچھے ہیں۔
اس لیے آج ہم آپ کو بلوچی لڑکیوں کے نام اور ان کے معنی کے بارے میں بتائیں گے جو جان کر آپ بھی یہ نام اپنی بچیوں کے لیے رکھنا پسند کریں گے۔
گل بی بی:
نام گل بی بی بہت سی بلوچی خواتین کا ہوتا ہے۔ اس نام کے معنی بہت اچھے ہیں: ''پھولوں جیسی خاتون، یا نرم مزاج والی نیک خاتون'' کے ہیں۔
ماہ گل:
ماہ گُل انتہائی منفرد اور خوبصورت نام ہے، یہ نام پکارنے میں بھی اچھا لگتا ہے۔ ماہ گل دو ناموں سے مل کر بنا ہے۔ ماہ یعنی چاند اور گل مطلب پھول۔ اس طرح ماہ گل کے دو معنی ہیں
کی قرأت کرتے ہیں، پس یہ اہل کتاب کے عمل میں سے ہے اور ہم ان کی مشابہت اختیار نہيں کرتے۔ الله عزوجل نے فرمایا:
﴿ وَاِذَا قُرِئَ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَهٗ وَاَنْصِتُوْا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ﴾
📘(الاعراف: 204)
(جب قرآن پڑھا جائے تو خاموش رہ کر اسے غور سے کان لگا کر سنو، تاکہ تم پر رحم کیا جائے)
اور ’’الانصات‘‘ کا مطلب حرکت کو منقطع کرنا، یہاں وہاں جھولنا یا ہلنا جلنا یا التفات کو ترک کرنا ہے۔
(الإجابات المهمة فى المشاكل الملمة، ج 2 ص 312)
┄┄┅✵✰✿🍂
قرآن پڑھتے ہوئے آگے پیچھے ہلنا جھولنا یہود کی عادات میں سے ہے ، یہود اپنی کتاب توریت کو پڑھتے ہوئے جھولتے ہيں، اور ہم مسلمانوں کو ان کی مشابہت اختیار کرنے سے منع کیا گیا ہے۔
شیخ صالح الفوزان حفظہ الله سے سوال کیا گیا :
بعض لوگ جب قرآن مجید کی تلاوت کرتے ہيں تو اپنے کمر کو جھلاتے رہتے ہیں، کیا یہ فعل صحیح ہے؟
شیخ صالح الفوزان حفظہ الله نے جواب دیا :
تلاوت کرتے وقت جسم کو جھلانا یا آگے پیچھے ہونا تحقیق کرنے پر واضح ہوا کہ یہ یہود کا عمل ہے جب وہ توراۃ کی قرأت کرتے ہيں یا نصاریٰ انجیل کی قرأت کرتے
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain