ا تھا۔ میں دو دن تک کالج نہیں جاسکا۔ تیسرے دن کالج جانے پر پتا چلا کہ نصیربھی دو دن سے نہیں آرہا ہے۔ میں اس رات کے واقعہ سے ویسے بھی خوف زدہ تھا۔ اس لئے میں نے نصیر کے بارے میں کسی سے بھی ذکر نہیں کیا کہ میں نے نصیر کو کس حالت میں قبرستان سے نکلتے دیکھا تھا۔ اس واقعہ کو دو ماہ گزر گئے تھے لیکن نصیرکالج نہیں آیا اور نہ ہی میری ہمت ہوئی کہ اس سے ملاقات کرنے گھر جاؤں اور پوچھوں کہ وہ کالج کیوں نہیں آرہا ہے؟ ایک دن سرراہ نصیر کے چھوٹے بھائی نثارسے ملاقات ہوگئی۔ میں نے ہمت کر کے پوچھ ہی لیا۔ کیوں بھئی نثار۔۔۔۔۔۔۔ تمہارا بھائی کالج نہیں آرہا ہے خیریت تو ہے؟ نصیر بھائی کی دو ماہ سے طبیعت خراب ہے وہ سوکھ کر ہڈیوں کا ڈھانچہ بن کر رہ گئے ہیں۔ (جاری ہے)
ور سوار ہو کر تیز رفتاری سے سائیکل کو بھگاتا ہوا آگے کو بڑھ گیا۔ پھر میں نے پلٹ کر بھی نہیں دیکھا۔ اس وقت میں بہت خوفزدہ تھا اور جلد سے جلد گھر جانا چاہتا تھا۔ وہ رات میری آنکھوں میں کٹی ۔ رات بھر میں سکون کی نیند نہ سو سکا تھا۔ بار بار آنکھ کھل جاتی تھی۔ نیند سے بیدار ہونے پر مجھے اپنا جسم گرم گرم لگ رہا تھا۔ اور درد بھی کر رہا تھا۔ تمہیں تو سخت بخار ہے‘امی جان نے میرے بستر سے اٹھنے پر میرے ماتھے پر ہاتھ لگایا۔ تم آرام کرو آج کالج جانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔“ میں مشکل سے بستر سے اٹھا اور ہاتھ منہ دھو کر چائے اور پائے سے ناشتہ کیا۔ بخار کی گولی گھر میں موجود تھی۔ کھانے سے دوپہر تک بخار کا زور ٹوٹ گیا اور میں خود کو ہلکا پھلکا محسوس کرنے لگا البتہ بخارسے منہ کا ذائقہ کڑوا ہوگیا تھا۔
ر۔۔۔۔۔۔ نصیر ٹھہرو میری بات سنو۔'' میں نے بے ساختہ اسے پکارا مگر نصیر چلتا ہوا میرے پاس سے گزر کر اس طرح جانے لگا جیسے اس نے میری آواز سنی ہی نہ ہو۔ میں نے اس کا کاندھا پکڑ کر اس کو جھٹکا دیا وہ ایسے چونکا جیسے میں نے اسے نیند سے بیدار کردیا۔ وہ غصے سے گھور کر مجھے دیکھنے لگا۔ نصیر ایسے کیا دیکھ رہے ہو۔ میں تمہارا دوست ہوں۔ میں نے اسے حیرت سے دیکھتے ہوئے کہا۔ زندگی چاہتا ہے توفوراً میری نظروں سے دور ہو جا ورنہ ابھی اور اسی وقت تجھے ختم کردوں گا۔“ نصیر نے عجیب نظروں سے اور غصے بھرے لہجے میں کہا۔ اس کی آواز مجھے بدلی بدلی سی لگ رہی تھی۔ ایسا محسوس ہورہا تھا کہ کوئی بہت ہی بھاری بھرکم شخص بول رہا ہے۔ اس کی آواز سے بے اختیار مجھ پر کپکپی سی طاری ہوگئی تھی۔ میں نے یہ بمشکل کانپتے ہاتھوں سے سائیکل کو پکڑا اور سوار ہو
ے۔ میں بدحواسی میں تیزی سے صوفے سے اٹھا اور غلام محی الدین سے اجازت لے کر گھر کوچل دیا۔ قبرستان آتے ہی میری سائیکل اچانک ایک جھٹکے سے فضا میں اچھلی اور میں دھڑام سے سڑک پر گر پڑا سائیکل کے نیچے ایک بڑاسا پتھر آ گیا تھا جو میں دیکھ نہیں پایا۔ اور سائیکل سمیت سڑک پرگر پڑا۔ میں جیسے ہی سڑک سے اٹھا اچانک مجھے ایسا لگا کہ کوئی شخص قبرستان سے باہر آیا ہے۔ میں اس کو دیکھ کر بری طرح چونکا۔ . وہ شخص کوئی اور نہیں نصیرہی تھا۔ میری آنکھیں حیرت سے پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ اس کی آنکھیں آگ کا شعلہ لگ رہی تھیں، آنکھیں کھلی ہونے کے باوجود وہ ایسے چل رہا تھا کہ جیسے نیند میں چل رہا ہو۔ ''نص
سوکھتا جارہا تھا۔ اس کی آنکھوں کے گرد حلقے پڑتے جارہے تھے اس کے جسم سے گوشت کم اور ہڈیوں کا ابھار زیادہ دکھائی دینے لگا تھا۔ مجھے اس کی صحت گرنے پرسخت تشویش تھی میں نے کئی بار اس کو مشورہ دیا کہ وہ کسی اچھے ڈاکڑکو دکھائے۔ وہ میری بات کو ہنس کر ٹال کر ہاں، ہاں، ہوں کر کے رہ جاتاتھا۔ ۔ ایک رات میں سائیکل پرقبرستان کے قریب سے گزر رہا تھا۔ میں رات میں گھر سے باہر زیادہ دیر نہیں رہتا۔ اس دن اتفاق سے اپنے دوست غلام محی الدین کے گھر گیا۔ اس کے گھر والے کسی شادی کی تقریب میں گئے ہوئے تھے۔ غلام محی الدین نے ڈی۔وی۔ڈی پر میرے پسندیدہ گانے لگادیئے۔ میں اور غلامی الدین گانے سننے میں اتنے مگن ہوئے کہ وقت کا پتا ہی نہیں چلا اور میں اس وقت بری طرح چونکا جب میری نظر گھڑی پر پڑی رات کے بارہ بج چکے تھے
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain