Damadam.pk
MushtaqAhmed's posts | Damadam

MushtaqAhmed's posts:

MushtaqAhmed
 

۔ سب گھر والے پریشان ہوگئے
تھے کہ اتنی کزور اور نازک لڑکی میں اتنی طاقت کہاں سے آ گئی ہے جو وہ اتنی طاقتور ہوگئی ہے کہ اپنے سے بھاری، بھاری سامان اور انسانوں کو اس طرح پھینک رہی ہے جیسے کوئی کھلونا پھینک رہی ہو۔‘
''ممکن ہے آیا ہو۔'' میں نے کہا۔
میں ان سے اس وقت کہہ بھی سکتا تھا۔ نصیر کو میں نے خاصے فاصلے سے دیکھا تھا۔ یہ بھی ہوسکتا تھا کہ میرا وہم ہو، وہاں کوئی بھی نہ ہو۔ نصیر کا رات کے ساڑھے بارہ بجے قبرستان میں کیا کام ہوسکتا تھا۔
اس واقعہ کو گزرے دو ماہ ہو چکے تھے اور میں بھی اس واقعہ کو بھولتا جا رہا تھا اس دن سے میں محسوس کر رہا تھا کہ نصیر کی صحت پہلے جیسی نہیں رہی تھی۔ وہ سوکھتا جارہا تھا۔ اس کی آنکھوں کے گرد حلقے پڑتے جارہے تھے اس کے جسم سے گو

MushtaqAhmed
 

ا۔ تمہیں ضرور وہم ہوا ہے۔''
''مجھے وہم نہیں ہوا میں نے اپنی آنکھوں سے تمہیں قبرستان میں دیکھا تھا۔ اور میں جب تمہارے پیچھے بھاگا تو تم غائب ہوگئے ۔'' میں نے اسے بتایا۔
''میرا تمہیں ایک قیمتی اور مفید مشورہ ہے کہ آئندہ کبھی قبرستان کے اندر اس طرح مت چلے جانا۔ قبرستان میں آسیب ہوتا ہے جو رات میں لوگوں کو تنگ کرتا ہے۔ وہ انسان کے دوستوں اور رشتہ داروں کے روپ میں نظر آتا ہے ان کے پاس جانے والے شخص پر وہ آسیب حملہ کردیتا ہے۔ یا اس کے جسم میں داخل ہوکر اسے اور اس کے گھر والوں کو پریشانی میں مبتلا کردیتا ہے۔'' نصیر نے کہا۔
''ہاں ہاں نصیرسچ کہہ رہا ہے۔“ فرحان بیچ میں بول پڑا۔
"'' ہمارے پڑوسی مرزا ندیم کی لڑکی پر آسیب آ گیا تھا۔ آسیب کے باعث اس نے گھر میں توڑ پھوڑ مچا دی۔ کبھی کسی کو اٹھا کر دیوار پردے مارتی تھی۔

MushtaqAhmed
 

وتا کہ چند لمحوں پہلے میں نے ڈرا دینے والا جو منظر دیکھا وہ خواب تھا۔ اس بات سے دل کو سکون ملتا اور میں دوبارہ سو جاتا خواب میں جو منظر مجھے آرہا تھا وہ کچھ یوں تھا کہ میں قبرستان میں جارہا ہوں اور اچانک میرے سامنے نصیر آ جاتا ہے۔ میں ابھی اس سے بات کرنے ہی والا تھا کہ کوئی سیاہ لباس میں ملبوس مخلوق اچانک وارد ہوتی ہے اور نصیر کو اٹھا کر لے جاتی ہے۔ میں چیخنا چاہتا ہوں لیکن میری آواز حلق میں پھنس کر رہ جاتی ہے اور بے اختیار میری آنکھ کھل جاتی ہے۔
صبح کالج میں میری ملاقات نصیر سے ہونے پر میں نے قبرستان میں اس کی موجودگی اور غائب ہونے سے متعلق بات پوچھی تو وہ ہنس کر میری طرف دیکھنے لگا۔
''میں رات میں قبرستان جا کر کیا کروں گا۔ تمہیں ضرور وہم ہوا ہے۔''
''مجھے وہم نہیں ہوا میں نے اپنی آنکھوں سے

MushtaqAhmed
 

ھا کہ نصیر کو زمین نگل گئی یا آسمان کھا گیا۔ وہ قبرستان سے کیسے غائب ہوگیا، میرے بدن سے پسینے چھوٹ پڑے میرے علاوہ اس وقت قبرستان میں کوئی نہیں تھا۔ اس لئے زیادہ خوف طاری تھا۔ مجھے ایسا محسوس ہورہا تھا کہ کوئی نظر نہ آنے والی مخلوق میری بے بسی پر دانت نکالے قہقہے لگارہی ہے، اچانک جیسے میرے بدن میں طاقت سی بھر گئی ہو۔ میں تیزی سے قبروں کو پھلانگتا ہوا دوڑ پڑا اور سائیکل کے پاس پہنچ کر میرا بھاگنا بند ہوا سائیکل پر بیٹھتے ہی میں نے پیڈل پر بدحواسی کے عالم میں پاؤں مارنا شروع کر دیئے اور چند لمحوں میں میں قبرستان سے دور نکل گیا اور گھر آ کر ہی دم لیا۔
رات میں کئی بار میری آنکھ کھلی اور میں ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا لیکن آنکھ کھلنے پر احساس ہوتا کہ چند لمحوں پہلے میں نے ڈرا دینے والا جو منظر دیکھا وہ خواب تھا۔

MushtaqAhmed
 

ڑا دکھائی دیا نصیر کو دیکھ کر مجھے ایک جھٹکا سا لگا کہ وہ اس وقت قبرستان میں کیا کررہا ہے۔ حالانکہ اس کا گھر قبرستان سے بہت دور تھا، ایک لمحے کومیراخوف جاتا رہا اور میں ایک درخت کے پاس سائیکل کھڑی کر کے اس کی جانب لپکا۔
''نصیر'' میں نے زور سے آواز لگائی۔
سناٹے میں میری آواز بہت تیز گونجی تھی۔ میرا خیال تھا کہ وہ میری آواز سن کر میری طرف لپکے گا۔ لیکن اس نے مخالف سمت میں دوڑ لگا دی۔ میں بھی تیزی سے اس کی طرف لپکا مجھے قبروں کو پھلانگتا دیکھ کر وہ بھی اور تیز ہو گیا تھا پھر اچانک وہ غائب ہوگیا۔ میں نے اس کو بہت تلاش کیا لیکن اس کا کچھ پتا نہیں چلا کہ وہ کدھر گیا، اسے یوں غائب ہوتا دیکھ کر مجھ پرخوف طاری ہوگیا۔
سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ نصیر کو زمین نگل گئی یا آسمان کھا گیا۔ وہ قبرستان سے کیسے غائب ہوگیا،

MushtaqAhmed
 

ھا۔ میں اٹھارہ سال کا ہو چکا تھا۔ مجبوری یہ تھی کہ گھر جانے کے لئے راستہ یہ ہی تھا اس کا متبادل کوئی اور راستہ نہیں تھا۔ میرے دوست بھی میری اس بزدلی سے واقف تھے اور اس معاملے میں میرا مذاق بھی اڑاتے تھے، میں خاموشی سے ان کا مذاق برداشت کر جاتا لیکن اپنے خوف پر کبھی قابو نہیں پا سکا تھا۔ گورکنوں کے چھوٹے چھوٹے بچے اکثر رات کے وقت قبرستان میں ایسے گھومتے پھرتے رہتے تھے جیسے وہ قبرستان میں نہیں کسی پارک میں گھوم رہے ہوں۔
قبرستان کے آتے ہی میرے ذہن پر خوف طاری ہوگیا۔ سائیکل چلاتے ہوئے میں نے ایک نظر قبرستان پر ڈالی قبرستان میں کسی بزرگ کا مزار بنا ہوا تھا جہاں ایک بلب روشن تھا۔
بلب کی روشنی میں قریب کی چیزیں صاف دکھائی دے رہی تھیں، مزار سے چند قدم دور نصیر کھڑا دکھائی دیا نصیر کو دیکھ کر مجھے ایک جھٹکا سا لگا کہ وہ ا

MushtaqAhmed
 

رات خاصی بیت چکی تھی، میں ایک شادی کی تقریب سے لوٹ رہا تھا، مجھے رات کی شادیوں سے بڑی چڑ تھی، اس لئے میں شادی بیاہ کی تقریبات میں جانے سے گریز کرتا تھا۔ آج بھی میرا شادی کی تقریب میں شرکت کرنے کا موڈ نہیں تھا لیکن ابا جان کی طبیعت اچانک خراب ہو جانے سے مجھے جانا پڑ گیا۔
شادی ہمارے قریبی رشتہ داروں میں تھی۔ رات کے ساڑھے بارہ بج رہے تھے۔ میں سائیکل کے پیڈل پرتیز تیز پاؤں مار رہا تھا۔ ہمارے گھر سے ذرا پہلے راستے میں قبرستان آتا تھا۔ قبرستان آتے ہی مجھے خوف سا آنے لگا تھا۔ بچپن ہی سے نہ جانے کیوں مجھے قبرستان کے قریب سے گزرنے پر خوف طاری ہوجاتا تھا۔ مجھے ایسا محسوس ہوتا تھا کہ اندھیرے میں کوئی آسیب مجھے گھور گھور کر دیکھ رہا ہے، میں تیزی سے دوڑ لگا کر قبرستان سے دور ہوتا چلا جاتا تھا ۔ بچپن کا خوف آج بھی مجھ پر غالب تھا۔ میں اٹھارہ سال کا ہو چ

MushtaqAhmed
 

ی پشت میں نور محمدی ﷺ امانت ہے آپ پر سلامتی ہو ۔“
آپ نے مزید فرمایا کہ اکثر ایسا ہوا ہے کہ میں ایک خشک درخت کے نیچے بیٹھا ہوں تو وہ سرسبز و شاداب ہو گیا اور مجھ پر سلام کرتا ہے۔
عبدالمطلب نے فرمایا کہ اے جان پدر! تمہیں مبارک ہو کہ تمہاری صلب سے رحمِ مادر میں ایسا نطفہ منتقل ہو گا جو تمام مخلوقِ الٰہی کی بزرگ ترین شخصیت ہو گا اور میں نے بھی ایسے بہت سے مشاہدات کئے ہیں اور مجھے خواب میں بھی بہت سی بشارتیں دی گئی ہیں۔
(معارج النبوۃ فی مدارج الفتوۃ جلد مصنف ملا معین واعظ الہروی، جلد اول صفحہ ۷٣۵۔ ─━•<☆end

MushtaqAhmed
 

طفوی کی برکات :
۔"" "" "" "" "" "" "" "" ""
مؤرخین نے لکھا ہے کہ حضرت عبداللہ کی تربیت عالمِ غیب سے اس طرح ہوتی کہ ایک دن آپ نے اپنے والد ماجد حضرت عبدالمطلب سے عرض کیا کہ جب کبھی میں بطائے مکہ اور کوہ بثیرہ کی طرف جاتا ہوں تو میری پشت سے نور چکمتا دمکتا ظاہر ہوتا ہے۔ اور وہ دو حصوں میں تقسیم ہو کر مشرق و مغرب کی طرف جاتا ہے، پھر مجتمع ہو کر ابر کی شکل اختیار کر کے میرے اوپر سایہ فگن ہو جاتا ہے۔ پھر میں دیکھتا ہوں کہ آسمان کے دروازے کھلتے ہیں اور یہ ابر پارہ مدور شکل اختیار کر کے آسمان کی طرف جاتا ہے اور فوراً واپس آ جاتا ہے اور میری پشت میں واپس چلا جاتا ہے۔ میں جب زمین پر بیٹھتا ہوں تو زمین سے آواز آتی ہے؛
”اے وہ شخص جس کی پشت میں نور محمدی ﷺ امانت ہے آپ پر سلامتی ہو ۔“

MushtaqAhmed
 

ہے۔ میں تسلیم کرتا ہوں کہ تم حلیم ہو، تمھاری عرب میں شہرت ہے۔ تم دور اندیش ہو تمھارے قبیلے والے تم سے محبت کرتے ہیں۔ لیکن تم ایک ایسے آدمی کے مقابلے میں آئے ہو جو تم سے بہت ممتاز ہے۔ نفیل نے عبدالمطلب کے حق میں فیصلہ کر دیا لیکن حرب نے اس کا فیصلہ تسلیم نہ کیا۔ عبدالمطلب نے یہ معاملہ عبداللہ بن جدعان کے سپرد کر دیا۔ عبداللہ بن جدعان حرب کے پیچھے پڑے رہے یہاں تک کہ مقتول یہودی کے چچازاد کو اس سے دیت دلوائی۔
(سیرت انسائیکلو پیڈیا تصنیف و تالیف حافظ محمد ابراہیم طاہر گیلانی، حافظ عبد اللہ ناصر مدنی اور حافظ محمد عثمان یوسف جلد دوم صفحہ ٦۴ تا ٦٩)
نور مصطفوی کی برکات :
۔"" "" "" "" "" "" "" "" ""
مؤرخین نے لک

MushtaqAhmed
 

وں کو پیش کرنے کا مطالبہ کیا۔ حرب نے قاتلوں کو چھپا دیا اور انھیں عبدالمطلب کے حوالے کرنے پر آمادہ نہ ہوا۔ دونوں کے درمیان میں تلخ کلامی بھی ہوئی۔ معاملہ سنگین نوعیت اختیار کر گیا تو ان دونوں نے نجاشی کو حُکم مان لیا کہ وہ جو فیصلہ کرے گا، ہمیں منظور ہو گا لیکن نجاشی ان کا فیصل بننے کے لئے تیار نہ ہوا۔ پھر انھوں نے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے جد امجد نفیل بن عبدالعزی بن ریاح کو حکم مان لیا۔ نفیل حرب سے مخاطب ہو کر کہنے لگے : اے ابو عمرو! کیا تم ایک ایسے آدمی سے اختلاف کر رہے ہو جو اقامت میں تم سے لمبا، صورت میں تم سے زیادہ حسین اور سرداری میں تم سے بڑھ کر ہے۔ اسے ملامت کرنے والے تم سے تھوڑے ہیں، اس کی اولاد تم سے زیادہ ہے۔ وہ صلہ رحمی میں تم سے بڑھ کر ہے اور اس کا دسترخوان تم سے وسیع تر ہے۔ میں تسلیم کرتا ہوں کہ تم حلیم ہو، تمھاری عرب

MushtaqAhmed
 

" "" "" "" "" "" "" ""
علامہ بلاذری بیان کرتے ہیں: عبدالمطلب انتہائی بردبار، دانا اور انصاف کے علمبردار تھے۔ حرب بن امیہ ان کا ہم نوالہ و ہم پیالہ تھا۔ عبدالمطلب کی پناہ میں ادینہ نامی ایک یہودی رہتا تھا۔ وہ تہامہ کے بازار میں خرید و فروخت کیا کرتا تھا۔ حرب کو یہ بات اچھی نہیں لگتی تھی۔ اس نے قریش کے نوجوانوں کو ترغیب دی : اگر تم اس یہودی کو قتل کر کے اس کے مال پر قبضہ کر لو تو یہاں کوئی اس کے خون کا مطالبہ کرنے والا ہے نہ اس کا مال طلب کرنے والا۔ دو نوجوانوں ہاشم بن عبد مناف بن عبدالدار اور صخر بن عامر بن کعب نے حرب کی باتوں میں آ کر اسے قتل کر دیا۔ عبدالمطلب کو اس جرم سے بہت تکلیف پہنچی۔ انھوں نے اس قتل کا سراغ لگا لیا اور حرب بن امیہ سے اس یہودی کے قاتلوں کو پیش کرنے کا مطالبہ کیا۔ حرب نے قاتلوں کو چھپا دیا اور انھیں عبدالمطلب

MushtaqAhmed
 

کر دینا“۔*
*ہم بھی شاید اسی مغالطے کا شکار ہیں زندگی کا ذائقہ باہر ہے جب کہ حیات کے سارے ذائقے ہمارے اندر ہیں‘ دور گہرائی میں‘ ہماری روح کے اندر۔ میں نے بے اختیار اپنے دل پر ہاتھ پھیرا‘عین اس لمحے ایک سفید کبوتر نے ڈائیو لگائی اور پھڑپھڑاتا ہوا فوارے کی چھت پر آبیٹھا‘ کونیا کا سکوت ٹوٹ گیا‘ اس کونیا کا سکوت جس کے بارے میں مولانا نے کہا تھا‘ دنیا ختم بھی ہو جائے تو بھی انگورہ کی بھیڑیں اور کونیا کے درویش باقی رہ جائیں گے۔*
end

MushtaqAhmed
 

ورہی تھیں۔*
*شاید یہ بھی یہ کہہ رہی تھیں موت کا ذائقہ تو ہر نفس چکھتا ہے لیکن زندگی کا ذائقہ کسی کسی کو نصیب ہوتا ہے اور تم لوگ کس قدر بدقسمت ہو تم پوری زندگی مر مر کر جیتے ہو اور جو مر جائیں تم انہیں زندہ سمجھتے رہتے ہو‘ تم کسی دن ٹھنڈے دماغ سے سوچو تم زندگی کے ذائقے سے کیوں محروم ہو؟۔ شاید ہم نے کبھی زندگی کے بارے میں سوچا ہی نہیں‘ شاید ہم حالات کو بدلنے کے چکر میں خود کو بدلنا بھول گئے ہیں‘ مولانا نے ایک دن اسی صحن میں گلابوں کے درمیان پھرتے پھرتے اپنے ایک شاگرد سے کہا تھا ”اللہ یار میں جوانی میں بہت چالاک تھا‘ میں دنیا کو بدلنے کی کوشش میں مصروف تھا‘ میں آج سمجھ دار ہو گیا ہوں چناں چہ میں اب خود کو بدل رہا ہوں‘ تم بھی جب سمجھ دار ہو جاؤ تو تم بھی دوسروں کی بجائے خود کو تراشنا شروع کر دینا“۔*

MushtaqAhmed
 

سکیں‘ ہم زندگی کو کیوں محدود کرتے چلے جا رہے ہیں؟*۔
*ہم مولانا کی درگاہ کے چوتھے گیٹ سے سلطان سلیم مسجد کے بیرونی احاطے میں آ گئے‘ مولانا روم کے زمانے میں یہاں گلاب کے وسیع کھیت ہوتے تھے‘ دور دور تک گلاب لہلہاتے تھے اور ان کی خوشبو سے ماحول ہر وقت گلابی رہتا تھا‘ مولانا گلاب کے اپنے ان کھیتوں پر بہت ناز کرتے تھے لیکن اب وہاں پتھر کا فرش تھا اور فرش کے درمیان ایک سنگی فوارہ‘ سلطان سلیم مسجد سارا دن دور سے اس فوارے کو دیکھتی رہتی ہے‘ ہم فوارے کی طرف بڑھ گئے‘ مجھے پتھریلے فرش کے نیچے گلابوں کی جڑیں سسکیاں لیتی محسوس ہورہی تھیں۔*

MushtaqAhmed
 

1ء کے بعد بھی ملک کو سکون کا سانس نہیں لینے دیا‘ ہم نے اسے موت کے کنوئیں سے باہر نہیں نکلنے دیا‘ میں بار بار عرض کر رہا ہوں‘ آپ بے شک چالیس سال کے لیے مارشل لاء لگا دیں۔*
*بے شک پورے ملک کے ہونٹ سی دیں اور بے شک میڈیا اور عدالتیں بند کر دیں لیکن ملک میں استحکام آنے دیں تاکہ محدود ہی سہی لیکن لوگ سانس تو لے سکیں تاکہ سڑکوں پر صرف ٹریفک ہو جلسے اور جلوس نہ ہوں اور پولیس اور بیوروکریسی صرف عوام کے لیے کام کرے‘ سیاسی جماعتوں کو روکنے یا حکومت کی انا کی تسکین میں نہ جتی رہے اور ہمیں ساتھ ہی عوام کی خوشی کا بندوبست بھی کرنا ہوگا‘ سینما ہوں جہاں لوگ فلمیں دیکھیں‘ پارک ہوں جہاں واک کر سکیں‘ میدان ہوں جہاں کھیل سکیں اور ریستوران اور چائے خانے ہوں جہاں لوگ بیٹھ سکیں‘ ہم زندگی ک

MushtaqAhmed
 

اگر آپ کو سب کچھ دے رکھا ہے تو پھر آپ اداس کیوں ہیں؟۔*
*ان کا ایک ہی جواب ہوتا ہے ”ملک کے حالات“ ہم اگر ان لوگوں کو ذاتی طور پر دیکھیں تو یہ دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کر رہے ہیں‘ یہ دکانوں سے فیکٹریوں اور ورکشاپس سے کارخانوں تک پہنچ گئے ہیں‘ دس دس ارب روپے کا ”ٹرن اوور“ ہے لیکن ان کے چہرے پر ٹینشن نے مستقل ڈیرے ڈال رکھے ہیں‘ یہ ہر وقت ایک اداسی‘ ایک نامعلوم خوف کا شکار رہتے ہیں‘ آپ نے کبھی سوچا ایسا کیوں ہے؟ پورا ملک مایوسی کا شکار کیوں ہے؟ دو لفظوں میں بتایا جائے تو عدم استحکام ۔*
*عدم استحکام انسان کی خوشی کھا جاتا ہے چناں چہ صدر عارف علوی سے لے کر عارفے لوہار تک آپ کو کسی کے چہرے پر خوشی اور سکون نہیں ملے گا‘ ہم سب اندر سے تلاطم کا شکار ہیں‘ ہم پہلے 1952ء سے 1971ء تک لسی کی چاٹی کی طرح ملک کو ہلاتے رہے تھے اور پھر ہم نے 1971

MushtaqAhmed
 

وغیرہ اور میں اپنی بساط کے مطابق انہیں جواب دے رہا تھا لیکن دل کے اندر ایک بے چینی‘ ایک اضطراب تھا اور یہ اضطراب بار بار پوچھ رہا تھا‘ ہم من حیث القوم اداس‘ پریشان اور مایوس کیوں ہیں اور ہر بار ایک ہی جواب آتا تھا‘ ہمارے اندر بھی بخارا کے زمین دار کی طرح خوشی مر گئی ہے‘ ہم بھی خوشی کے جوہر سے محروم ہو گئے ہیں۔*
*ہم لوگ بخارا کے زمین دار ہیں‘ ہم خود محفوظ ہیں مگر غیر محفوظ حالات نے ہمیں اندر سے ویران کر دیا ہے‘ مجھے مولانا کے صحن میں چلتے پھرتے ہوئے وہ سارے کردار یاد آ گئے جنہیں اللہ تعالیٰ نے خوش حالی‘ شہرت اور اقتدار تمام نعمتوں سے نواز رکھا ہے مگر یہ اس کے باوجود اداس اور پریشان ہیں اور میں انہیں ہمیشہ روتے ہوئے دیکھتا ہوں‘ ہمارے سارے سیٹھ‘ ہمارے سارے ارب پتی بخارا کے زمین دار ہیں‘ میں ہمیشہ سیٹھوں سے ایک سوال کرتا ہوں‘ اللہ نے اگر آپ کو

MushtaqAhmed
 

ی دیکھ کر حیران ہوتے گئے۔*
*میں نے وضو خانے کی طرف اشارہ کیا‘ وہ تالاب اب فوارے میں سمٹ آیا ہے اور فوارے پر ٹونٹیاں لگا کر اسے وضو خانے میں تبدیل کر دیا گیا ہے‘ لوگ عقیدت سے فوارے کی طرف دیکھنے لگے‘ مولانا کے حجرے سامنے تھے‘ ان میں ان کے درویش بھی رہتے تھے‘ اہل خانہ بھی‘ خادم بھی اور ان ہی حجروں میں سے کسی ایک حجرے میں شمس تبریز نے مولانا کے ساتھ چالیس دن گزارے تھے اور ان چالیس دنوں میں آپ نے وقت کے درویش سے محبت کے چالیس سبق سیکھے تھے‘ روز ایک سبق‘ چالیس دن اور چالیس سبق۔*
*گروپ پوچھ رہا تھا مولانا اتنے مشہور کیوں تھے‘ بادشاہ اور شہزادے ان کے ساتھ کیوں رہتے تھے اور مولانا اور سلطان ولید کی قبریں ساتھ ساتھ کیوں ہیں وغیرہ وغیرہ اور میں اپنی بساط

MushtaqAhmed
 

کھتا ہے لیکن زندگی کا ذائقہ کسی کسی کو نصیب ہوتا ہے‘ اللہ سے جب بھی دعا کرو زندگی کا ذائقہ مانگو“۔*
*ہمارا گروپ ہفتے کی دوپہر کونیا پہنچا‘ کونیا میں لاک ڈاؤن تھا‘ پورے شہر میں ایک سوگوار سی ویرانی اور خاموشی تنی ہوئی تھی‘ ہلکی ہلکی بارش ہو رہی تھی‘ سردی کا موسم‘ ہلکی ہلکی بارش‘ لاک ڈاؤن اور مولانا روم کی درگاہ اور اوپر سے مرکزی وضو خانے کے گرد بکھرے پاکستانیوں کا ڈپریشن‘ یہ بڑا عجیب کمبی نیشن تھا‘ گروپ پوچھ رہا تھا وہ تالاب کہاں تھا جہاں مولانا بیٹھتے تھے اور حضرت شمس تبریز نے آ کر ان کی ساری کتابیں اس میں پھینک دی تھیں اور پھر وہ پانی میں ہاتھ ڈال کر ایک ایک کتاب نکالتے گئے‘ اسے جھاڑتے گئے اور کتابیں دوبارہ مولانا کے ہاتھ میں پکڑاتے گئے اور مولانا تمام کتابیں سوکھی دیکھ کر حیران ہوتے گئے۔*
*میں نے وضو خانے کی طرف اشارہ کیا‘ وہ