ی اور تباہی نے میرے اندر خوشی کا جوہر مار دیا‘ مجھے اب کوئی چیز خوشی نہیں دیتی‘ میں اندر سے ختم ہو گیا ہوں“ ۔مولانا دکھی ہو گئے۔*
*اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور اداس لہجے میں کہا ”میرے عزیز مجھے تم سے ہمدردی ہے‘ تم دنیا کے سب سے بڑے اثاثے سے محروم ہو گئے ہو‘ یہ نقصان ناقابل تلافی ہے لیکن افسوس میں تمہارے لیے کچھ نہیں کر سکتا“ زمین دار کی آنکھوں میں دوبارہ آنسو آ گئے اور اس نے ہچکی لیتے ہوئے کہا ”کیا دنیا میں میرے دکھ کی کوئی دوا نہیں“ مولانا نے چند لمحے سوچا اور پھر فرمایا ”صرف ایک علاج باقی ہے اور اس علاج کو محبت کہتے ہیں‘ محبت دنیا کا واحد جذبہ ہے جو خوشی کے سوکھے ہوئے چشمے دوبارہ رواں کر دیتا ہے‘ تم محبت آزما کر دیکھو“ وہ رکے اور ٹھہر ٹھہر کر فرمایا ”اوریہ بھی یاد رکھو دنیا کا ہر شخص موت کا ذائقہ چکھتا ہے لیکن زندگی کا ذائقہ کسی کسی کو ن
ر کہنیوں کے ریلے میں بہتا ہوا آپ تک پہنچ گیا‘ مولانا نے اس کی طرف مسکرا کر دیکھا اور پوچھا ”تمہیں کون سے دکھ چین نہیں لینے دے رہے“ زمین دار دھاڑ مار کر رو پڑا‘ مولانا نے اسے سینے سے لگایا‘ کندھوں پر تھپکی دی‘ اپنے عمامہ کے پلو سے اس کی آنکھیں صاف کیں اور پھر فرمایا ”تم اپنا دکھ بتاؤ شاید میں کوئی تالیف کر سکوں“۔*
*زمین دار نے ہتھیلی کی پشت سے آنکھیں رگڑیں اور عرض کیا ”حضور میں جہاں دیکھتا ہوں مجھے بدامنی اور تباہی کے سوا کچھ دکھائی نہیں دیتا“ مولانا نے پوچھا ”کیا تم محفوظ ہو“ وہ بولا ”اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے میں‘ میرا خاندان‘ میرے مال مویشی‘ کھیت‘ باغ اور گاؤں سب محفوظ ہیں‘ سارے لشکر اور ساری آفتیں ہمیں چھوئے بغیر گزر گئیں‘ میں محفوظ ہوں مگر میرے دائیں بائیں کی ابتری اور تباہی نے میرے اندر خوشی کا جوہر مار دیا‘ مجھے اب کوئی چیز خوشی
‘ سلجوق ریاست کی دیواریں اور برج بھی گر رہے تھے اور ایران کے اندر بھی شورشیں کروٹ لے رہی تھیں چناں چہ پورا عالم اسلام پھوڑے کی طرح بہہ رہا تھا‘ ہر طرف موت کا رقص جاری تھا‘ اس عالم آشوب میں دکھی دلوں کے صرف دو ٹھکانے تھے‘حلب میں ابن عربی کی درگاہ اور کونیا میں مولانا روم کا آستانہ چناں چہ لوگ دیوانہ وار ان کی طرف دوڑرہے تھے‘ مولانا کے لفظ مرہم کی طرح زخموں پر گرتے تھے اور روح کے دریدہ دامن تک سیتے چلے جاتے تھے۔آشوب کے اس دور میں بخارا کا ایک زمین دار سانڈ پر بیٹھ کراڑھائی ہزار میل کا سفر طے کر کے کونیا پہنچا‘ چار دن شہر سے باہر پڑا رہا‘ جمعہ کا دن آیا تو وہ نہا دھو کر مولانا کی درگاہ پہنچ گیا‘ خطبہ سنا‘ مولانا کی امامت میں نماز پڑھی اور مولانا نے آخر میں جب لوگوں سے ملاقات شروع کی تو وہ کندھوں اور کہنیوں
*زندگی کا ذائقہ*
*مولانا روم کونیا میں ہر جمعہ کو خطاب کرتے تھے‘ لوگ سیکڑوں میل سفر کر کے خطاب سننے آتے تھے‘ زائرین کاشغر سے زیارت‘ غورستان سے اصفہان اور بلخ سے لے کر مشہد تک سے کونیا آتے تھے اور کاروان سرائے میں بیٹھ کر جمعہ کا انتظار کرتے تھے‘ جمعہ کی نماز سے پہلے درگاہ کے دروازے کھول دیے جاتے تھے‘ مولانا روم درمیان میں بیٹھ جاتے تھے اورمنبر کی ایک سمت عمائدین‘ تاجر اور رؤساء‘ دوسری طرف عام لوگ اور تیسری طرف مولانا کے درویش بیٹھ جاتے تھے۔*
*مولانا بولتے تھے اور آپ کے لفظ گلاب کی خوشبو میں مل کر پورے ماحول کو معطر کر دیتے تھے‘ وہ ایک پرآشوب دور تھا‘ منگول بھی کھوپڑیوں کے مینار بنا رہے تھے‘ صلیبی جنگیں بھی چل رہی*
*تھیں‘ سلجوق ریاست کی دیواریں اور برج بھی گر رہے تھے اور ایران کے اندر بھی شورشیں کروٹ لے رہی
دیا جاتا ہے۔ اگر کسی شخص کے پاس اس انسٹی ٹیوٹ کا سر ٹیفکیٹ نہ ہو تو اسے وزیر یا مشیر کے قابل نہیں سمجھا جاتا۔ یہاں تک کہ چین کے آنیوالے صدر کو پانچ سال پہلے ہی صدر بننے کی تربیت دی جاتی ہے۔
• چین کے رہنما ماؤزے تنگ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ بہترین انگلش جاننے کے باوجود انہوں نے پوری زندگی کبھی انگریزی نہیں بولی یہاں تک کہ انہیں انگریزی میں لطیفہ بھی سنایا جاتا تو وہ اس وقت تک ہنستے نہیں تھے جب تک کہ اس کا ترجمہ نہیں کیا جاتا۔ یعنی اپنی زبان سے محبت بھی چین کی ترقی کی وجہ ہے۔
• چین کے تمام لوگ بشمول افسران‘ مزدور سب مل کر ایک ہی جیسا کھانا کھاتے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ کسی بھی ملک جاتے ہیں تو وہ اپنے ساتھ چینی مصنوعات بھی لے آتے ہیں تاکہ دنیا کو چین کی مصنوعات سے متعارف کروایا جا سکے۔end
یا۔
• ماؤزے تنگ نے تاریخ کے سب سے بڑے لانگ مارچ کے دوران اپنی قوم کو ہدایت کی تھی کہ وہ لانگ مارچ کے دوران چنے اور گرم پانی ساتھ رکھیں۔ چنے تھوڑے سے کھانے سے آپ کی بھوک ختم ہو جائے گی اور گرم پانی آپ کو پیٹ کی بیماریوں سے بچائے گا۔ آج بھی چینی قوم گرم پانی استعمال کرتی ہے جس کی وجہ سے یہ قوم صحت مند اور توانا ہے۔
• چین کی کمیونسٹ پارٹی نے بیجنگ میں ایک انسٹی ٹیوٹ قائم کر رکھا ہے جہاں پارٹی کے اراکین کومتعلقہ شعبوں میں وزیر‘ مشیر بنانے اور چین کے لئے نئی قیادت تیار کرنے کی تربیت دی جاتی ہے۔ تربیت مکمل ہونے کے بعد ان کو سر ٹیفکیٹ دیا جاتا ہے۔ اگر کسی شخص کے پاس اس انسٹی ٹیوٹ کا سر ٹیفکیٹ نہ ہو تو اسے وزیر یا مشیر
س قدر رونے کی وجہ پوچھی تو اس نے جو جواب دیا وہ سنہرے حروف میں لکھنے کے قابل ہیں۔ اس نے کہا ” میں کیسے نہ روؤں یہ میرے ملک کا نقصان ہو رہا۔” بعد میں گاؤں والوں کی مدد سے اس بلڈوزر کو بچا لیا گیا۔
میں سمجھتا ہوں چینی لوگوں کی اپنے ملک سے محبت اور اخلاص کا ہی نتیجہ ہے کہ یہ قوم آج دنیا کی ترقی یافتہ قوموں میں شمار ہوتی ہے۔ چینی قوم کے بارے کچھ غیر معروف دلچسپ وعجیب باتیں بتاتے ہیں۔ اس وقت چین عالمی معیشت پر چھایا ہوا ہے۔ شاید ہی کوئی گھر ایسا ہو جس میں چین کی مصنوعات استعمال نہ ہو رہی ہوں۔
• ماؤزے تنگ جدید چین کا بانی شمار کیا جاتا ہے۔ چین کو ترقی دینے میں اس کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ چین کے لوگ افیون اور ہیروئین کے نشہ کی لت میں مبتلا تھے لیکن ماؤزے تنگ نے اپنی قوم سے یہ لت چھڑوا کر اسے دنیا کی ایک محنتی قوم بنا دیا۔
ں کہ ایک ہمارے پاکستانی کالم نگار اپنا آنکھوں دیکھا حال لکھتے ہیں۔ کہ ایک دفعہ چینی کمپنی نے سڑک کی تعمیر کے لئے ایک دیو ہیکل بلڈوزر منگوایا۔ اسے ایک گاؤں سے آگے لے جانا تھا۔ راستے میں ایک ندی تھی جس پر ایک نازک سا پل تھا جو اس بلڈوزر کا وزن برداشت نہیں کر سکتا تھا۔ چینی انجینئر نے حل یہ نکالا کہ بلڈوزر ندی کی کھائی میں خود اتر کر راستہ بنائے گا اور دوسری طرف راستہ بناتے ہوئے نکل جائے گا۔ اس تجویز پر جب عمل ہوا تو بلڈوزر جب نیچے اتر رہا تھا تو ایک بڑی چٹان آ گئی اور بلڈوزر پھسل کر ندی میں گرنا شروع ہو گیا۔ اس دوران چینی انجینئر نے بے چینی میں ادھر ادھر بھاگنا شروع کر دیا۔ جب بلڈوزر کا گرنا لگ بھگ طے ہو گیا تو اس نے پھوٹ پھوٹ کر رونا شروع کر دیا۔ لوگوں نے جب اس سے اس قدر رونے کی وجہ پ
ین کہاں پہنچ گیا اور ہم کہاں کھڑے ہیں۔ اس کی سب سے بنیادی وجہ ہے مخلص لیڈر شپ کی کمی۔ چین کو ماؤزے تنگ جیسا لیڈر مل گیا۔ جس نے چین کی کایا ہی پلٹ دی۔ اور ہمیں قائداعظم اور نواب زادہ لیاقت علی خان کے بعد کوئی بھی مخلص لیڈر نہ مل سکا۔ قائداعظم کی تو زندگی نے وفا نہ کی اور لیاقت علی خان کو ہم نے گولی سے مار دیا۔ جس کی وجہ سے ہم تنزلی کے ہی شکار رہے۔ اور دوسری قومیں ہم سےکئی گنا آگے نکل گئیں۔ آپ میں سے کچھ دوستوں کو یہ جان کر حیرت ہوگی امریکہ جیسا ترقی یافتہ ملک بھی چائنہ کا تقریباً 1.31 ٹریلین ڈالرز کا مقروض ہے۔ جبکہ امریکن پرائیویٹ کمپنیز کا قرض 19.5 ٹریلین ڈالرز سے بھی زائد ہے۔
چائنہ کی ترقی کی ایک اور بنیادی وجہ یہ ہے کہ چین کے لوگ ملک کے نقصان کو ذاتی نقصان سے بھی زیادہ ترجیح دیتے ہیں۔ جس کا انداز ہ آپ اس بات سے لگائیں کہ ایک ہ
چینی قوم کی دلچسپ و عجیب باتیں :
۔"" "" "" "" "" "" "" "" "" "" "" "" "" ""
چین اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دو سال بعد معرضِ وجود میں آیا۔ چینی قوم پوری دنیا میں ایک پسی ہوئی قوم تھی۔ کوئی نظام نہیں تھا۔ ہر چیز تباہ ہو چکی تھی۔ جاپان نے دوسری جنگ عظیم میں چین کے کم و بیش دو کروڑ افراد قتل کردیئے تھے۔ ١٩۴٩ء میں یہ ایک الگ ملک کے طور پر نمودار ہوا۔ اور سب سے پہلے اس کو تسلیم کرنے والا ملک ہمارا پیارا ملک پاکستان تھا۔ سب سے پہلا غیر ملکی طیارہ جو چین کی سر زمین پر اترا وہ پاکستانی ائیر لائن پی آئی اے کا ہی جہاز تھا۔ جس کا استقبال چین نے بڑے پرتپاک طریقے سے کیا تھا۔ چین کو بینکنگ نظام بھی پاکستان کے اکانومسٹس نے ہی بنا کر دیا تھا۔ ہمارے دیئے ہوئے نظام کو لیکر چین کہاں پہنچ گیا اور ہم کہاں کھڑے ہیں۔ اس کی سب سے بنیادی وجہ ہے مخلص لی
ہ محرومیاں ان کا مقدر رہیں۔
کہتے ہیں کہ کوئی کسی کا دکھ نہیں سمجھ سکتا، جب تک کہ وہ خود اس دکھ کی کیفیت کو نہ پہنچا ہو اور جس دکھ کے ساتھ جس محرومی کے ساتھ میں نے زندگی گزاری اس کا احساس مجھے ہمیشہ ہوتا ہے۔ جب کسی غریب کے بچے کو ٹوٹی ہوئی جوتی کے ساتھ دیکھتا ہوں تو مجھے اپنا آپ نظر آتا ہے۔ لیکن میں ان لوگوں میں سے نہیں ہوں جو بے حس ہو جائیں، میں بے حس نہیں ہوا۔ سارے احساس سارے جذبات ہمیشہ میرے ساتھ رہا، اور ان احساسات کا تقاضہ یہ ہے کہ میں کسی ایک چہرے پر بھی مسکراہٹ لا سکوں تو وہ میری محرومیوں کی تکمیل ہو گی۔
🔰end
انے کہ دیکھ کر ہی محسوس ہوتا کہ بہت پرانے ہیں۔ ایسے میں آٹھ نو سو طلباء کے مجمعے میں انعام لینا وہ بھی ٹوٹی ہوئی جوتی کے ساتھ بڑا عجیب لگتا تھا۔
وقت ایسے ہی گزرتا رہا ، ہر سال اپنی جماعت میں پہلی پوزیشن لیتا لیکن فنکشن میں جانے سے کتراتا۔ ایک بڑی محرومی ہمیشہ یہ بھی رہی کہ میرے ابو کبھی اس فنکشن میں نہیں ہوتے تھے۔ دوسری پوزیشن لینے والا لڑکا جب اپنا انعام لے کر اپنے باپ کے پاس جاتا تھا تو میری نظریں ہمیشہ اس پر ہوتی تھیں۔ ایک عجیب احساس تھا جس سے میں ساری زندگی محروم رہا۔ زندگی کی اور کئی محرومیاں رہیں، جن سے دل سے خواہشات آہستہ آہستہ رخصت ہو گئیں۔ اب دل میں اپنی ذات کے لئے کوئی خواہش نہیں رہی، اور میں جانتا ہوں میرے جیسے ہزاروں ہوں گے جن کی زندگی میری زندگی جیسی رہی اور شائد ہمیشہ محرومیاں ان کا مقدر رہیں۔
کہتے
غریبی
۔"" ""
ایک شخص واقعہ سناتا ہے کہ میں جب چھوٹا تھا تو میرے ماموں اپنے بچوں کے لئے روز کئی فروٹس لاتے۔ میں ان کو کھاتے ہوئے تو نہیں دیکھتا تھا، لیکن جانتا تھا کہ وہ فروٹس لذیذ ہوں گے۔ اگر کبھی مہینے میں ایک آدھ بار ہمارے گھر میں آم آ جاتے تو وہ دن خوشی کا دن ہوتا۔ وقت کے ساتھ ساتھ فروٹس کا شوق مرتا گیا۔ زیادہ کھانے سے نہیں نہ کھانے کی وجہ سے۔
انسان جب کسی چیز کے لئے ترستا ہے تو یا تو وہ اس کو پا لینے کی اتنی کوشش کرتا ہے کہ اپنی زندگی کا مقصد بنا لیتا ہے، یا پھر وہ خواہش اس کے دل کے اندر ہی دم توڑ دیتی ہے۔ میں سکول کا ایک ہونہار طالب علم تھا۔ سالانہ امتحان کے بعد جب مجھے انعام سے نوازا جاتا تو میں کبھی خوش نہیں ہو پاتا تھا۔ پتہ ہے کیوں؟ کیوں کہ میرے جوتے ٹوٹے ہوتے تھے، میرے کپڑے پیوند زدہ ہوتے یا پھر اتنے پرانے کہ دیکھ
💚 فرمان حق تعالیٰ ہے:
*مگر انسان ( ایسا ہے ) کہ جب اس کا رب اسے ( راحت و آسائش دے کر ) آزماتا ہے اور اسے عزت سے نوازتا ہے اور اسے نعمتیں بخشتا ہے تو وہ کہتا ہے: میرے رب نے مجھ پر کرم فرمایا*
*لیکن جب وہ اسے ( تکلیف و مصیبت دے کر ) آزماتا ہے اور اس پر اس کا رزق تنگ کرتا ہے تو وہ کہتا ہے: میرے رب نے مجھے ذلیل کر دیا*
*یہ بات نہیں بلکہ ( حقیقت یہ ہے کہ عزت اور مال و دولت کے ملنے پر ) تم یتیموں کی قدر و اِکرام نہیں کرتے*
*اور نہ ہی تم مسکینوں ( یعنی غریبوں اور محتاجوں ) کو کھانا کھلانے کی ( معاشرے میں ) ایک دوسرے کو ترغیب دیتے ہو*
*اور وراثت کا سارا مال سمیٹ کر ( خود ہی ) کھا جاتے ہو ( اس میں سے افلاس زدہ لوگوں کا حق نہیں نکالتے )*
*اور تم مال و دولت سے حد درجہ محبت رکھتے ہو*
📗 سورۃ الفجر، آیات:15-20
میں : "شاید تم ٹھیک کہہ رہی ہو "
محبت " اچھا اب میں چلتی ہوں "
میں : " کچھ دیر مزید رک جاو تو ؟"
محبت : " نہیں ۔ تم جیسے ہزاروں ہیں جو اپنی غلطی اور اپنے انتخاب کی بے وفائی کا بوجھ مجھ پر ڈال کر میرے نام کو ایک دھبہ بنا رہے ہیں ۔
یاد رکھنا ، اب کی بار اپنی غلطیوں اور اپنے انتخاب پر توجہ دینا تاکہ تمہیں " محبت " سے نفرت کرنے کی ضرورت پیش نہ آئے end
خاب جیسے کچھ کم ظرف چہروں کی وجہ سے میری اپنی ذات دفن ہو جاتی ہے ۔ میں تو صرف " محبت " ہوں اور محبت کسی کو نفرت نہیں سکھاتی ، مر جانے کا نہیں کہتی ۔ میں ایک خوب صورت احساس ہوں مگر وفادار اور خوب صورت دل والوں کیلئے "
میں : "ایک سوال پوچھوں تم سے ؟"
محبت : " پوچھو "
میں: " کیا میرا انتخاب غلط تھا ؟"
محبت " جس طرح محبت کرنے کیلئے ایک خوب صورت دل چاہئے اسی طرح محبت کو ہضم کرنے کیلئے بھی وفا اور خلوص کا ہونا ضروری ہے ۔ سانپ کو دودھ پلانے سے وہ اپنی عادت نہیں چھوڑ دیتا ۔ دیکھو وسیم ! تم محبت کا سمندر ہو ، اس سمندر کے بہاو کیلئے بھی سمندر جیسی گہرائی درکار ہے جو تمہارے انتخاب میں نہیں تھی " ۔
میں : "شاید تم ٹھیک کہہ رہ
رت ہے " ۔
محبت : " میری وجہ سے ؟"
میں : " جی ہاں ! تمہاری وجہ سے "
محبت : " مگر میں تو لوگوں کو جینے کا ہنر اور وجہ دیتی ہوں "
میں : " تم اگر جینا سکھاتی ہو تو جیتے جی مار کیوں دیتی ہو ؟"
محبت : " میں نہیں ، لوگوں کو ان کا انتخاب مار دیتا ہے "
میں: " انتخاب کی وجہ بھی تو تم ہی بنتی ہو نا ؟"
محبت: " اپنے غلط انتخاب کی وجہ سے مجھ پر الزام ڈال کر تم کہنا کیا چاہتے ہو ؟ اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھو یا پھر جا کر اپنے انتخاب کا گریبان پکڑو "
میں : " مجھے یا میرے انتخاب کو غلط کہہ کر تم اپنی جان چھڑا رہی ہو ؟ تسلیم کیوں نہیں کرتیں کہ تم لوگوں کو دیمک کی طرح چاٹ جاتی ہو ۔ ان کی خوشیوں کو جونک کی طرح چوس لیتی ہو "
محبت : " تم جیسے کمزور لوگ اور تمہارے انتخاب جیسے کچھ کم ظرف چہروں کی وجہ سے میری
#محبت
میں : " کون ہو تم ؟"
محبت : " میں محبت ہوں "
میں : " محبت؟"
محبت : " ہاں میرا نام " محبت " ہے ، لیکن تمہارے چہرے کا رنگ کیوں اڑ گیا ہے ؟"
میں : " کیونکہ مجھے تمہارے نام سے بھی نفرت ہے" ۔
محبت : "میرے نام سے نفرت ؟"
میں : " ہاں تمہارے نام اور تمہاری پرچھائی سے بھی نفرت ہے مجھے " ۔
محبت " محبت کے نام سے نفرت ؟ سننے میں بھی کتنا عجیب لگتا ہے ویسے ۔ تمہیں کرتے وقت عجیب نہیں لگتا ؟"
میں : " تمہاری وجہ سے کتنے ہی مسکراتے چہرے کم عمری میں جھریوں کی زد میں ہیں ۔ کتنے زندہ دل لوگ تمہاری وجہ سے منوں مٹی تلے دفن ہوئے ہیں ۔ کتنے لوگوں کو زندہ لاش بنا کر رکھ دیا ہے تم نے ۔ مجھے تمہارے نام سے بھی نفرت ہے " ۔
محبت : " میری وجہ سے
ہوٹل یا کسی شاہی تخت پر بھی نہیں پا سکتے ۔ اللہ تعالی کو آپ کے بکرے یا بیل کی نہیں بلکہ نیت اور خوب صورت دل کی ضرورت ہوتی ہے ۔
دینے کو وہ مالک ہے وہ اس طبقے کو بھی چھپر پھاڑ کر دے سکتا ہے مگر اس نے کچھ طبقے کو محروم صرف اس وجہ سے رکھا ہے تاکہ وہ ان کو آزما سکے جنہیں اس نے اپنے خزانوں میں سے بے دریغ اور ضرورت سے زیادہ عطا کیا ہے ۔۔۔۔
لکھنے کا مقصد بس اتنا ہے کہ اس طرح یہ سلسلہ عروج پا سکتا ہے
ھا ہے ۔ تیس شاپر بنا کر رکھے اور کزن کو کہا کہ رکشے والا ، سبزی فروش ، پھل فروش ، جوتا پالش کرنے والے طبقے کو دینا ۔۔
کزن دے کر واپس آیا تو بہت خوش تھا ۔ کہنے لگا یار آج دل کو سکون ملا ہے ۔ جب میں چاول دیتا تھا تو اس طبقے کی مسکراہٹ دیکھنے والی ہوتی تھی ۔ ایک شخص تو منڈی کے سامنے گند کے ڈھیر سے چن کر کچھ کھا رہا تھا ۔ میں نے جب اسے رک کر چاول دیئے تو اس کی آنکھوں میں گہرا سمندر اور چہرے پر مسکراہٹ تھی مگر مجھے رونا آ رہا تھا ۔۔۔۔
آج پھر کزن نے خیرات کی تو ایسا ہی کیا ۔ زیادہ حصہ اسی طبقے کیلئے رکھا اور مجھے کہا تم دے آو ۔ اتنا سکون ملتا ہے جس کی تلاش آپ کبھی بھی کسی مہنگے ہوٹل یا کسی شاہی
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain