Damadam.pk
MushtaqAhmed's posts | Damadam

MushtaqAhmed's posts:

MushtaqAhmed
 

#دعا_لیجئے_صاحب
کچھ عرصہ پہلے ایک دن ایسے ہی ذہن میں اس خیال نے جنم لیا کہ خیرات سے اگر دعا لینی ہے تو حقدار تک اس کے حق کو پہنچایا جائے ورنہ خدا کی ذات کو ہمارے بیل ، بکرے اور چاول کی دیگوں کی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔۔۔۔
ایک دن چاول کے کچھ شاپر دے کر گھر والوں نے کہا رشتے داروں کے گھر دے آو ۔ راستے میں کچھ مزدور طبقے اور رہڑی والوں کو دیکھا تو دل میں خیال آیا کہ اصل حقدار تو یہ ہیں ورنہ رشتے دار تو صرف کیڑے ہی نکالتے ہیں ۔۔ تمام شاپر اس طبقے میں تقسیم کیے اور گھر واپس لوٹ گیا ۔۔
کچھ دن پہلے کزن نے خیرات کی تو میں نے یہی مشورہ دیا کہ یار ناصر اگر حقیقی دعا کا مزہ چکھنا ہے تو کچھ شاپر مزدور طبقے میں تقسیم کر دو ۔۔ کزن نے کہا مشورہ تو بہت اچھا ہے ۔ تیس شاپر بنا کر رکھے اور کزن کو کہا کہ رکشے والا ، سبزی فروش ، پھل فروش

MushtaqAhmed
 

شوہر بھی لے اڑی اسی پر بس نہیں دونوں شوہروں کی وراثت بھی اپنے نام کرلیا۔
قاضی ابن ابی لیلی کہنے لگے:
مجھے تو اس کیس میں حرام کہیں نظر نہیں آیا،طلاق بھی جائز ہے،وکالت بھی جائز ہے،طلاق کے بعد بیوی سابقہ شوہر کے پاس دوبارہ جاسکتی ہے بشرطیکہ درمیان میں کسی اور سے اس کی شادی ہو کر طلاق یا شوہر فوت ہوا ہو تمہاری کہانی میں بھی ایسا ہی ہوا ہے.
اس کے بعد قاضی نے خلیفہ منصور کو یہ واقعہ سنایا خلیفہ ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہوگئے اور کہا کہ جو کوئی اپنے بھائی کیلئے گڑھا کھودے گا خود اس گڑھے میں گرے گا یہ بڑھیا تو گڑھے کی بجائے گہرے سمندر میں گر گئی.
كتاب :جمع الجواهر في - الحُصري

MushtaqAhmed
 

ھولتا ہے چنانچہ مجھ سے یوں مل کر اس کی پہلی محبت نے انگڑائی لی میں نے ان سے کہا کیا پھر مجھ سے شادی کروگے؟
اس نے ہاں کرلی
میں نے ان کے سامنے شرط رکھ لی کہ اپنی پہلی بیوی(میری پھوپھی کی بیٹی) کا معاملہ میرے ہاتھ میں دیں،اس نے ایسا ہی کیا.
میں نے اپنے سابق شوہر سے شادی کرلی اور اس کی بیوی کو شوہر کی وکالت کرتے ہوئے طلاق دے دی.
قاضی ابن ابی لیلی سر پکڑ کر بیٹھ گئے پھر پوچھا کہ
اس کیس میں اب مسئلہ کیا ہے؟
میری پھوپھی کہنے لگی :
قاضی صاحب کیا یہ حرام نہیں کہ میں اور میری بیٹی دونوں کی یہ لڑکی طلاق کروا چکی پھر میرا شوہر اور میری بیٹی کا شوہر بھی لے اڑی اسی پر بس ن

MushtaqAhmed
 

نے ان کے سامنے شرط رکھ لی کہ آپ کی پہلی بیوی(یعنی میری پھوپھی) کا معاملہ میرے ہاتھ سونپ دیں اس نے ایسا ہی کیا میں نے پھوپھی کے شوہر سے شادی کرلی اور اس کے شوہر کی وکالت کرتے ہوئے اسے طلاق دے ڈالی.
قاضی حیرت سے پھر ؟
وہ کہنے لگی قاضی صاحب کہانی ابھی ختم نہیں ہوئی.
کچھ عرصہ بعد میرے اس شاعر شوہر کا انتقال ہوا میری یہ پھوپھی وراثت کا مطالبہ کرتے پہنچ گئی میں نے ان سے کہا کہ میرے شوہر نے تمہیں اپنی زندگی میں طلاق دی تھی اب وراثت میں تمہارا کوئی حصہ نہیں ہے، جھگڑا طول پکڑا اس دوران میری عدت بھی گزر گئی ایک دن میری یہ پھوپھی اپنی بیٹی اور داماد(میرا سابقہ شوہر) کو لیکر میرے گھر آئی اور وراثت کے جھگڑے میں میرے اسی سابق شوہر کو ثالث بنایا اس نے مجھے کئی سالوں بعد دیکھا تھا مرد اپنی پہلی محبت نہیں بھولتا ہے چنانچہ مجھ سے یوں مل ک

MushtaqAhmed
 

یہ پھوپھی میرے گھر آئی اور میرے شوہر کو اپنی بیٹی سے دوسری شادی کی آفر کرلی ساتھ یہ شرط رکھ لی کہ پہلی بیوی(یعنی میں) کا معاملہ پھوپھی کے ہاتھ میں سونپ دے،میرے شوہر نے کنواری دوشیزہ سے شادی کے چکر میں شرط مان لی میرے شوہر کی دوسری شادی ہوئی سہاگ رات کو میری پھوپھی میرے پاس آئی اور مجھ سے کہا تمہارے شوہر کے ساتھ میں نے اپنی بیٹی بیاہ دی ہے تمہارا شوہر نے تمہارا معاملہ میرے ہاتھ سونپ دیا ہے میں تجھے تیرے شوہر کی وکالت کرتے ہوئے طلاق دیتی ہوں.
جج صاحب میری طلاق ہوگئی.
کچھ عرصے بعد میری پھوپھی کا شوہر سفر سے تھکے ہارے پہنچ گیا وہ ایک شاعر اور حسن پرست انسان تھے میں بن سنور کر اس کے آگے بیٹھ گئی اور ان سے کہا کیا آپ مجھ سے شادی کریں گے؟ اسکی خوشی کا ٹھکانہ نہ رہا اس نے فوری ہاں کرلی،میں نے ان کے سامنے شرط رکھ لی کہ آپ کی پہلی بیوی(ی

MushtaqAhmed
 

دو عورتیں قاضی ابن ابی لیلی کی عدالت میں پہنچ گئیں،یہ اپنے زمانے کے مشہور و معروف قاضی تھے.
قاضی نے پوچھا
تم دونوں میں سے کس نے بات پہلے کرنی ہے؟
ان میں سے بڑھی عمر والی خاتون نے دوسری سے کہا تم اپنی بات قاضی صاحب کے آگے رکھو.
وہ کہنے لگی قاضی صاحب یہ میری پھوپھی ہے میں اسے امی کہتی ہوں چونکہ میرے والد کے انتقال کے بعد اسی نے میری پرورش کی ہے یہاں تک کہ میں جوان ہوگئی.
قاضی نے پوچھا اس کے بعد ؟
وہ کہنے لگی پھر میرے چچا کے بیٹے نے منگنی کا پیغام بھیجا انہوں نے ان سے میری شادی کر دی،میری شادی کو کئی سال گزر گئے ازدواجی زندگی خوب گزر رہی تھی ایک دن میری یہ پھوپھی

MushtaqAhmed
 

اوّل جس نے 1714ء سے
1727ء تک وہاں حکومت کی لیکن حیرت کی بات یہ تھی کہ اُسے انگلش کا ایک لفظ نہیں آتا تھا، کیونکہ وہ ایک جرمن نژاد باشندہ تھا۔
16۔ ڈاکٹر طہ حسین 1889ء کو مصر میں پیدا ہوئے، اُن کی خاصیت یہ تھی کہ وہ پیدائشی نابینا ہونے کے باوجود مصر کے وزیر تعلیم رہے، اور کم از کم 40 کتابوں کے مصنف تھے.
17۔ آرمنڈ جسیکو ایک فرانسیسی باشندہ تھا۔ ایک کار حادثے میں اُسکے دماغ میں ایسی چوٹ لگی کہ اُسے پھر کبھی نیند نہ آ سکی۔ پیشے کے لحاظ سے وہ ایک قابل وکیل تھا، لیکن حادثے کے بعد 27 سال تک مسلسل جاگتا رہا، اور اِسی دوران وفات پا گیا.

MushtaqAhmed
 

ہے۔
9۔ ایفل ٹاور کی آخری منزل تک جانے کیلئے 1792 سیڑھیاں ہیں۔
10۔ انسانی دل دھڑکتے وقت اتنا دباؤ پیدا کرتا ہے، جو خون کو 30 فٹ دور تک پھینک سکتا ہے۔
11۔ کالا اور نیلا رنگ مچھر کو اپنی طرف زیادہ مائل کرتے ہیں۔
12۔ مشہور مسلمان حکیم، عالم و موسیقار، ابو نصرالفارابی دنیا کی ستر زبانیں جانتے تھے۔
13۔ انسانی جسم میں اتنا فولاد ہوتا ہے کہ اُس سے 7 کیل بنائے جا سکتے ہیں۔
14۔ لوئیز چہاردہم فرانس کا ایک ایسا بادشاہ گزرا ہے جس کا دورِ بادشاہت صرف 15 منٹ تھا۔
15۔ انگلینڈ کا بادشاہ جارج اوّل جس

MushtaqAhmed
 

*حیرت انگیز معلومات٭
1۔ بچھو کے جسم پر الکوحل کا ایک قطرہ ڈال دینے سے وہ پاگل ہو کر اپنے آپ کو ڈنگ مارنے لگتا ہے اور مر جاتا ہے۔
2۔ پیاز کاٹتے وقت چینگم چبانے سے آنکھوں میں آنسو نہیں آتے.
3۔ چمگاڈر غار سے یا درخت سے نکلتے ہی بائیں طرف مڑتے ہیں۔
4۔ کس خوشگوار چیز کو دیکھنے پر انسان کی آنکھوں کی پتلیاں 45 فیصد پھیل جاتی ہیں۔
5۔ اُلو وہ واحد پرندہ ہے جو اپنی اُوپری پلک جھپکاتا ہے، جبکہ باقی سارے پرندے اپنی نچلی پلک جھپکاتے ہیں۔
6۔ شہد وہ واحد خوراک ہے جو پہلے سے ہضم شدہ حالت میں ہوتی ہے۔
7۔ انسان کا بایاں پھیپھڑا، دائیں پھیپھڑے سے چھوٹا ہوتا ہے تاکہ دل کیلئے جگہ بن سکے۔
8۔ دریائی گھوڑا جب غصے میں ہوتا ہے تو اُس کے پسینے کا رنگ سرخ ہو جاتا ہے۔

MushtaqAhmed
 

ﺮﺍﻡ ﮐﯽ ﭘﮩﭽﺎﻥ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ؟“
ﻭﮦ ﺑﻮﻟﮯ: ”ﺩﻧﯿﺎ ﮐﯽ ﮨﺮ ﻭﮦ ﭼﯿﺰ ﺟﺴﮯ ﺩﯾﮑﮭﻨﮯ، ﺳﻨﻨﮯ، ﭼﮑﮭﻨﮯ ﺍﻭﺭ ﭼﮭﻮﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺁﭖ ﮐﮯ ﺩﻝ ﻣﯿﮟ ﻻﻟﭻ ﭘﯿﺪﺍ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﮯ ﻭﮦ ﺣﺮﺍﻡ ﮨﮯ۔
ﺁﭖ ﺍﺱ ﺣﺮﺍﻡ ﺳﮯ ﺑﭽﻮ ، ﯾﮧ ﺁﭖ ﮐﮯ ﻭﺟﻮﺩ ﮐﻮ ﻗﺒﺮﺳﺘﺎﻥ ﺑﻨﺎ ﺩﮮ ﮔﺎ ، ﯾﮧ ﺁﭖ ﮐﻮ ﺍﻧﺪﺭ ﺳﮯ ﺍﺟﺎﮌ ﺩﮮ ﮔﺎ ، تباہ کردے گا ، ﯾﮧ ﺁﭖ ﮐﻮ ﺑﮯ ﺟﻮﮨﺮ ﮐﺮ ﺩﮮ ﮔﺎ، بے قیمت کر دے گا، اپنے گھر میں، اپنے پڑوس میں اور پوری دنیا میں، پھر معاشرے میں آپ کی کوئی اہمیت ہی نہ رہے گی۔ اور آپ کے چہرے کی رونق ختم ہو جائے گی ۔۔۔
end

MushtaqAhmed
 

ﺑﻨﻨﮯ ﮐﯽ ﺧﻮﺍﮨﺶ ﺑﮭﯽ ﭘﯿﺪﺍ ﮨﻮ ﮔﯽ ۔۔۔
ﻣﯿﮟ ﮈﺭ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﺳﺘﺎﺩ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ : ﻣﯿﮟ ﺍﮔﺮ ﺣﺮﺍﻡ ﮐﮯ ﺍﻥ ﺑﺮﮮ ﺍﺛﺮﺍﺕ ﺳﮯ ﺑﭽﻨﺎ ﭼﺎﮨﻮﮞ ﺗﻮ ﻣﺠﮭﮯ ﮐﯿﺎ ﮐﺮﻧﺎ ﭘﮍﮮ ﮔﺎ ؟
ﻭﮦ ﺑﻮﻟﮯ: ”ﺭﻭﺯﮦ ﺭﮐﮭﻮ ﺍﻭﺭ ﺧﺎﻣﻮﺷﯽ ﺍﺧﺘﯿﺎﺭ ﮐﺮﻭ ۔ ﯾﮧ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺍﻧﺪﺭ ﺳﮯ ﭘﺎﮎ ﮐﺮ ﺩﯾﮟ ﮔﮯ۔“
ﺍﻧﮩﻮﮞ نے ﺳﺮ ﮨﻼﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﺑﻮﻟﮯ : ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﭼﺎﻟﯿﺲ ﺳﺎﻝ ﮐﯽ ریاضت ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺟﻮ ﺳﯿﮑﮭﺎ، ﻭﮦ ﻣﯿﮟ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺑﺘﺎ ﺩﯾﺘﺎ ﮨﻮﮞ۔ ﯾﮧ ﮐﺎﺋﻨﺎﺕ ﺍﯾﮏ ﺻﻨﺪﻭﻕ ﮨﮯ ، ﺍﺱ ﺻﻨﺪﻭﻕ ﭘﺮ ﺍﺳﺮﺍﺭ ﮐﺎ ﻣﻮﭨﺎ ﺗﺎﻻ ﭘﮍﺍ ﮨﮯ ، ﯾﮧ ﺗﺎﻻ ﺍﯾﮏ ﺍﺳﻢ ﺍﻋﻈﻢ ﺳﮯ ﮐﮭﻠﺘﺎ ﮨﮯ۔ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﺍﺳﻢ ﺍﻋﻈﻢ ﮨﮯ ﺣﻼﻝ، ﺁﭖ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻣﯿﮟ ﺣﻼﻝ ﺑﮍﮬﺎﺗﮯ ﺟﺎﺅ ﮐﺎﺋﻨﺎﺕ ﮐﺎ ﺻﻨﺪﻭﻕ ﮐﮭﻠﺘﺎ ﭼﻼ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﺎ “۔
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﻋﺮﺽ ﮐﯿﺎ: ”ﺍﻭﺭ ﺣﺮﺍﻡ ﮐﯽ ﭘﮩﭽﺎﻥ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ؟“

MushtaqAhmed
 

ﻮﻟﮯ : ﺑﯿﭩﺎ ﯾﮧ ﺣﺮﺍﻡ ﮐﺎ ﮐﻤﺎﻝ ﮨﮯ۔ ﺣﺮﺍﻡ ﺁﭖ ﮐﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﯽ ﺗﻤﺎﻡ ﻧﻌﻤﺘﻮﮞ ﮐﺎ ﺟﻮﮨﺮ ﺍﮌﺍ ﺩﯾﺘﺎ ﮨﮯ، ﺁﭖ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﺳﮯ ﺟﺎﻧﻮﺭ ﺑﻦ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔
ﻣﯿﺮﮮ ﺍﺳﺘﺎﺩ ﻧﮯ ﺑﺘﺎﯾﺎ: بیٹا ﺣﺮﺍﻡ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﺁﭖ ﮐﯽ ﺑﮭﻮﮎ ﺑﮍﮬﺎ ﺩﯾﺘﺎ ﮨﮯ۔ ﯾﮧ ﺁﭖ ﮐﯽ ﻧﯿﻨﺪ ﻣﯿﮟ ﺍﺿﺎﻓﮧ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ، ﯾﮧ ﺁﭖ ﮐﮯ ﺟﺴﻢ ﻣﯿﮟ ﺑﻮ ﭘﯿﺪﺍ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ، ﯾﮧ ﺁﭖ ﮐﺎ ﺩﻝ ﺗﻨﮓ ﮐﺮ ﺩﯾﺘﺎ ﮨﮯ، ﯾﮧ ﺁﭖ ﮐﯽ ﺳﻮﭺ ﮐﻮ ﭼﮭﻮﭨﺎ ﮐﺮ ﺩﯾﺘﺎ ﮨﮯ، ﯾﮧ ﺁﭖ ﮐﯽ ﻧﯿﻨﺪ ﮐﻮ ﭘﮭﯿﻼ ﺩﯾﺘﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﺁﭖ ﮐﯽ ﺭﻭﺡ ﺳﮯ ﺳﮑﻮﻥ ﮐﮭﯿﻨﭻ ﻟﯿﺘﺎ ﮨﮯ۔
ﻣﯿﺮﮮ شیخ ﻧﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﺑﺘﺎیا : ﺁﭖ ﮐﻮ ﺁﺝ ﺍﯾﮏ ﺩﻥ ﮐﺎ ﺣﺮﺍﻡ 40 ﺩﻥ ﺳﺘﺎﺋﮯ ﮔﺎ۔
ﺁﭖ ﺍﻥ 40 ﺩﻧﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺟﮭﻮﭦ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺑﮭﯽ ﻣﺎﺋﻞ ﮨﻮﮞ ﮔﮯ،
ﺁﭖ ﻏﯿﺒﺖ ﺑﮭﯽ ﮐﺮﯾﮟ ﮔﮯ،
ﺁﭖ ﮐﮯ ﺩﻝ ﻣﯿﮟ ﻻﻟﭻ ﺑﮭﯽ ﺁﺋﮯ ﮔﺎ، ﺁﭖ ﺩﻭﺳﺮﻭﮞ ﮐﻮ ﺩﮬﻮﮐﺎ ﺑﮭﯽ ﺩﯾﮟ ﮔﮯ، ﺍﻭﺭ ﺁﭖ ﮐﮯ ﺍﻧﺪﺭ ﺍﻣﯿﺮ ﺑﻨﻨﮯ ﮐﯽ ﺧﻮﺍﮨﺶ ﺑﮭﯽ ﭘﯿﺪﺍ ﮨﻮ ﮔﯽ ۔۔۔

MushtaqAhmed
 

ﻧﺎ، ﺷﺎﻡ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﺎ ﻣﻌﺎﻭﺿﮧ ﻟﯿﻨﺎ ﺍﻭﺭ ﻭﺍﭘﺲ ﺁ ﺟﺎﻧﺎ۔“
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺷﯿﺦ ﮐﮯ ﺣﮑﻢ ﭘﺮ ﻋﻤﻞ ﮐﯿﺎ، ﻣﯿﮟ ﺳﺎﺭﺍ ﺩﻥ ﭘﯿﭧ ﻣﯿﮟ ﺩﺭﺩ ﮐﺎ ﺑﮩﺎﻧﮧ ﺑﻨﺎ ﮐﺮ ﻟﯿﭩﺎ ﺭﮨﺎ، ﺷﺎﻡ ﮐﻮ ﻣﻌﺎﻭﺿﮧ ﻟﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﺘﺎﺩ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺁ ﮔﯿﺎ۔ ﺍﺳﺘﺎﺩ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ : ﺗﻢ ﺍﺏ ﺩﻭ ﻭﻗﺖ ﮐﮯ ﮐﮭﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﭘﯿﺴﮯ ﺭﮐﮫ ﮐﺮ ﺑﺎﻗﯽ ﺭﻗﻢ ﺧﯿﺮﺍﺕ ﮐﺮ ﺩﻭ ۔
ﺁﭖ ﯾﻘﯿﻦ ﮐﺮﯾﮟ ﻭﮦ ﮔﯿﺎﺭﮦ ﻣﺎﮦ ﻣﯿﮟ ﭘﮩﻼ ﺩﻥ ﺗﮭﺎ ﺟﺐ ﻣﯿﺮﺍ ﺩﻝ ﺧﯿﺮﺍﺕ ﮐﻮ ﻧﮩﯿﮟ ﭼﺎﮦ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﺱ ﺩﻥ ﺧﻮﺏ ﺳﯿﺮ ﮨﻮ ﮐﺮ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﮐﮭﺎﯾﺎ ﻟﯿﮑﻦ ﻣﯿﺮﯼ ﺑﮭﻮﮎ ﺧﺘﻢ نہ ﮨﻮﺋﯽ۔ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﺱ ﺭﺍﺕ ﭘﮩﻠﯽ ﺑﺎﺭ ﺍﭘﻨﮯ ﮐﻤﺮﮮ ﮐﯽ ﮐﻨﮉﯼ ﻟﮕﺎﺋﯽ۔ ﻣﯿﮟ ﮔﮭﻮﮌﮮ ﺑﯿﭻ ﮐﺮ ﺳﻮﯾﺎ ﻟﯿﮑﻦ ﻣﯿﺮﯼ ﻧﯿﻨﺪ ﻣﮑﻤﻞ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺋﯽ۔
ﻣﺠﮭﮯ ﺍﮔﻠﮯ ﺩﻥ ﺍﭘﻨﮯ ﺟﺴﻢ ﺳﮯ ﺑﻮ ﺁﺋﯽ ﺍﻭﺭ ﻣﺠﮭﮯ ﭘﮩﻠﯽ ﻣﺮﺗﺒﮧ ﺍﭘﻨﮯ ﮐﭙﮍﻭﮞ ﭘﺮ ﭘﺮﻓﯿﻮﻡ ﻟﮕﺎﻧﺎ ﭘﮍﺍ ﺍﻭﺭ ﻣﺠﮭﮯ ﭘﮩﻠﯽ ﻣﺮﺗﺒﮧ ﻧﻤﺎﺯ ﻣﯿﮟ ﻟﺬﺕ ﻣﺤﺴﻮﺱ نہ ﮨﻮﺋﯽ۔
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺷﯿﺦ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﯽ ﺳﺎﺭﯼ ﮐﯿﻔﯿﺎﺕ ﺑﺘﺎئیں۔
ﻭﮦ ﮨﻨﺲ ﮐﺮ ﺑﻮﻟﮯ : ﺑﯿﭩﺎ ﯾﮧ ﺣﺮﺍﻡ ﮐﺎ

MushtaqAhmed
 

*حرام کی کمائی*
ﺟﺐ میں ﺍﭘﻨﮯ استاد ( شیخ ) ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺗﮭﺎ، ہم نے مزدوری کرنا شروع کی۔ ﺳﺎﺭﮮ ﺩﻥ ﮐﯽ ﻣﺤﻨﺖ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺟﺘﻨﮯ ﭘﯿﺴﮯ ﮐﻤﺎتے، ﻣﯿﺮﺍ ﺍﺳﺘﺎﺩ ﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﺩﻭ ﻭﻗﺖ ﮐﮯ ﮐﮭﺎﻧﮯ ﮐﯽ ﺭﻗﻢ ﺭﮐﮫ ﮐﺮ ﺑﺎﻗﯽ ﮐﻤﺎﺋﯽ ﺧﯿﺮﺍﺕ ﮐﺮ ﺩﯾﺘﺎ ﺗﮭﺎ۔
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﺩﻥ ان سے ﺍﺱ ﺣﮑﻤﺖ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﭘﻮﭼﮭﯽ، ﻭﮦ ﻣﺴﮑﺮﺍ ﮐﺮ ﺑﻮﻟﮯ : ﺗﻢ ﮔﯿﺎﺭﮦ ﻣﮩﯿﻨﮯ میرے ساتھ ﯾﮧ ﮐﺎﻡ ﮐﺮﻭ ، ﻣﯿﮟ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﻭﮞ ﮔﺎ۔
ﻣﯿﮟ ﮔﯿﺎﺭﮦ ﻣﺎﮦ کام ﮐﺮﺗﺎ ﺭﮨﺎ۔ ﻣﯿﺮﺍ ﻭﻇﯿﻔﮧ ﻣﮑﻤﻞ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ ﺗﻮ ﻣﯿﺮﮮ ﺍﺳﺘﺎﺩ ﻧﮯ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﮐﮩﺎ: ”ﺗﻢ ﺁﺝ ﻣﺰﺩﻭﺭﯼ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺟﺎﺅ ۔ ﮐﺎﻡ ﺷﺮﻭﻉ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﮯ ﺗﻮ ﺗﻢ ﺟﮭﻮﭦ ﻣﻮﭦ ﮐﮯ ﺑﯿﻤﺎﺭ ﭘﮍ ﺟﺎﻧﺎ، ﺳﺎﺭﺍ ﺩﻥ ﮐﺎﻡ ﮐﻮ ﮨﺎﺗﮫ ﻧﮧ ﻟﮕﺎﻧﺎ، ﺷﺎﻡ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﺎ ﻣﻌﺎﻭﺿﮧ ﻟﯿﻨﺎ ﺍﻭﺭ ﻭﺍﭘﺲ ﺁ ﺟﺎﻧﺎ۔“
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺷﯿﺦ ﮐﮯ ﺣﮑﻢ ﭘﺮ ﻋﻤﻞ ﮐﯿﺎ، ﻣﯿﮟ ﺳﺎﺭﺍ ﺩﻥ ﭘﯿﭧ ﻣﯿﮟ ﺩﺭﺩ ﮐﺎ ﺑﮩﺎﻧﮧ ﺑﻨﺎ ﮐﺮ ﻟﯿﭩﺎ ﺭﮨﺎ، ﺷﺎﻡ ﮐﻮ ﻣﻌﺎﻭﺿﮧ ﻟﯿﺎ ﺍﻭﺭ

MushtaqAhmed
 

شام کو باقی بندر آئےانہوں نے مرے ہوئے بندر کی لاش پر کچھ آنسو بہائے افسوس کیا اور اس کی لاش کو پتوں سےڈھانپ دیا۔ ابھی وہ اتنا کر ہی رہے تھے کہ ایک دوسرے بندر کو وہی مصنوعی سیب ملا۔ اور اس نے اپنا ہاتھ بلند کر کے سب کو وہ سیب دکھانا شروع کر دیا
سبق:- دنیا کی مثال بھی اس پلاسٹک کے سیب کی طرح ہے اس سے حاصل کچھ نہیں ہوتا۔ جب کہ اس کو دیکھنے والے اس سے متاثر ہورہے ہوتے ہیں اور دنیا کو ہاتھ میں رکھنے کا دعوے دار بلا آخر خالی ہاتھ لا حاصل اس دنیا سے چلا جاتا ہے۔ جھوٹا دکھاوا انسان کو پہلے تھکا دیتا ہے پھر مار ڈالتا ھے.end

MushtaqAhmed
 

ا پیاسا رہا اور یہی سلسلہ اگے کچھ دنوں تک چلتا رہتا۔ دوسرے بندر اس کے ہاتھ میں مصنوعی سیب ہونے کی وجہ سے عزت کرتے مگر اسے کھانے کے لیے کچھ نہیں دیتے۔
بھوک سے بے حال وہ بندر اتنا نڈھال ہوچکا تھا کہ اس کو اپنا آخری وقت نظر آ رہا تھا۔ اس نے ایک بار پھر اس سیب کو کھانے کی کوشش کی مگر اس بار میں نتیجہ مختلف نہ تھا۔ اس کے دانت اس مرتبہ بھی درد کر رہے تھے۔ چور بندر کو اپنی آنکھوں کے سامنے درختوں سے لٹکے ہوئے پھل نظر آ رہے تھے مگر اس میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ وہ ان درختوں پر چڑھ سکتا۔ آہستہ آہستہ اس کی آنکھیں ہمیشہ کے لیے بند ہوگئیں۔ جان نکلتے ہی اس کی گرفت مصنوعی سیب پر ڈھیلی ہوگئی اور وہ مصنوعی سیب اس کے ہاتھ سے نکل کر لڑھک گیا۔
شام کو باقی بندر آئےانہوں نے مرے ہوئے بندر کی لاش پر کچھ آنسو بہائے افسوس کیا ا

MushtaqAhmed
 

مگریہ مصنوعی سیب سخت پلاسٹ کا بنا ہوا تھا جسے چبانے سے بندر کے دانتوں میں درد ہونے لگا۔ بندر نے دو تین بار اور کوشش کی مگر ہر بار اسے درد ہونے لگتا۔
وہ دن چور بندرنے اسی اونچی شاخ پر بھوکے رہ کر گزارا۔ اگلے دن وہ نیچے اتر آیا۔ دوسرے تمام بندر اسے احترام سے دیکھنے لگے کیونکہ اس وقت بھی اس کے ہاتھ میں وہ مصنوعی سیب موجود تھا۔ دوسرے بندروں سے ملنے والا احترام دیکھ کر اس بندر نے اس سیب پر اپنی پکڑ اور مضبوط کر دی۔ اب دوسرے بندر پھلوں کی تلاش میں نکل گئے اور تیزی سے ایک درخت سے دوسرے درخت پر چھلانگ لگاتے ہوئے پھل توڑ توڑ کر کھانے لگے۔
چور بندر کے ایک ہاتھ میں چونکہ مصنوعی سیب تھا اس لیے وہ درختوں پر نہیں چڑھ سکا۔ مگر وہ سیب بھی ہاتھ سے چھوڑنا نہیں چاہتا تھا۔ اس لیے وہ سارا دن بھوکا پیاسا رہا اور یہی سل

MushtaqAhmed
 

ہ کے سامنے کی جگہ صاف کرنے کے لیے ذرا باہر نکلی تو ایک بندر نے تیزی سے جھپٹا مارا اور ایک مصنوعی سیب اٹھا لیا اور عین اسی وقت لڑکی کی نظر بھی اس پر پڑ گئی۔ لڑکی نے فوراً بندوق اٹھا کر نشانہ لیا اور فائر داغ دیا۔ مگر تمام بندر اتنی دیر میں وہاں سے بھاگ گئے تھے۔
کافی دیر تک بھاگنے کے بعد تعاقب نہ ہونے کا یقین ہونے پر تمام بندر رک گئے۔ چورب ندر نے ہاتھ بلند کرکے سب کو سیب دکھایا۔ سب بندر حیرت سے اس بندر کو دیکھنے لگے اور اس کو خوش قسمت گرداننے لگے کہ اسے ایسا اچھا سیب مل گیا۔ اور کوشش کرنے لگے کہ ایک بار اس مصنوعی سیب کو ہاتھ لگا کر دیکھ سکیں۔
چور بندر نے سب کو جھڑکا اور یہ مصنوعی سیب لے کر ایک درخت کی سب سے اونچی شاخ پر جا بیٹھا اور سیب کو کھانے کے لیے اسے منہ میں لے کر دبایا۔

MushtaqAhmed
 

ایک جنگل میں بندروں کا ایک غول رہتا تھا اس جنگل میں چونکہ بہت زیادہ تعداد میں پھل وغیرہ اُگتے تھے اس لیے وہ سب بندر بہت اطمینان اور خوشی سے رہتے تھے۔
ایک دن ایسا ہوا کہ ایک سائنسدان اپنی بیٹی کے ساتھ اسی جنگل میں ریسرچ کے لیے آیا۔ خیمہ نصب کرنے کے بعد سائنسدان تو پودوں کے سیمپل اکھٹے کرنے نکل کھڑا ہوا مگر وہ لڑکی اس خیمہ کی تزین و آرائش کے لیے پیچھے رہ گئی۔ اس نے پہلے زمین پر ایک پرانا قالین بچھایا۔ پر اس قالین پر بستر لگائے۔ خیمے کی درمیانی ٹیک سے برقی لالٹین لٹکائی اور اس کے عین نیچے ایک چھوٹی سی میز اور اس پر سجاوٹی سیبوں سے بھرا ایک پیالہ رکھ دیا۔ وہ سیب دیکھنے میں بہت تازہ، خوبصورت اور بڑے لگ رہے تھے۔
تمام بندر درختوں پر بیٹھے ان مصنوعی سیبوں کو لالچ سے دیکھ رہے تھے۔ لڑکی خیمہ کے سامنے کی جگہ صاف

MushtaqAhmed
 

میرا بیٹا فوت ہوگیا یہ صرف میں اور اللہ جانتا ہے آپ کو کیسے پتہ؟
حضرت فرمانے لگے!
جب آپ واپس آئیں تو میں قیلولہ کر رہا تھا میری آنکھ لگی اور نیند میں آواز آئی کہ آپ نے اللہ کے ایک دوست کا جنازہ پڑھانے سے انکار کیسے کیا؟
اللہ اکبر!
یہاں ندامت کے دو آنسوں گرے وہاں مغفرت کا فیصلہ ہوگیا۔
ایک آخری بات عرض کرتا چلوں کے اگر کبھی کوئی ویڈیو، قول، واقعہ،سچی کہانی یا تحریر وغیرہ اچھی لگا کرئے تو مطالعہ کے بعد مزید تھوڑی سے زحمت فرما کر اپنے دوستوں سے بھی شئیر کر لیا کیجئے، یقین کیجئے کہ اس میں آپ کا بمشکل ایک لمحہ صرف ہو گا لیکن ہو سکتا ہے کہ، اس ایک لمحہ کی اٹھائی ہوئی تکلیف سےend