ہمیں اتنا پیارا مہربان ملا ہے
بن کے وہ ہماری جان ملا ہے
بڑا مشکل تھا اسے ڈھونڈھنا
مگر وہ ہمیں بڑا آساں ملا ہے
جب بات ہو جاتی ہے اس سے
یوں لگتا مجھے سارا جہان ملا ہے
جب کبھی مجھ سے ملنے آجاتا ہے
ایسا لگتا ہے چوری کا سامان ملا ہے
جس دن سے مہربان ہے وہ اصغر
میزبان ہوں میں دل کو حسیں مہمان ملا ہے
تنگ آ چکے ہيں کشمکش زندگی سے ہم
ٹھکرا نہ ديں جہاں کو کہيں بے دلی سے ہم
مايوسئ مآل محبت نہ پوچھئے
اپنوں سے پيش آئے ہيں بيگانگی سے ہم
لو آج ہم نے توڑ ديا رشتۂ اميد
لو اب کبھی گلہ نہ کريں گے کسی سے ہم
ابھريں گے ايک بار ابھی دل کے ولولے
گودب گئے ہيں بار غم زندگی سے ہم
گر زندگی ميں مل گئے پھر اتفاق سے
پوچھيں گے اپنا حال تری بے بسی سے ہم
الله رے فريب مشيت کہ آج تک
دنيا کے ظلم سہتے رہے خامشی سے ہم
———-
چلو اک بار پھر اپنی انہیں قبروں کی جانب لوٹ جائیں ھم
جہاں اس حشر بے داور سے پہلے
نیند کی صدیاں گزاری تھیں
چلو پھر اپنے کفنوں میں لپٹ جائیں
لحد کی خاک چہروں پر بکھیریں اور سو جائیں
سوا نیزے پہ سورج ھے
مگر اب تک ھماری تشنہ کامی نے
میان عرصئہ محشر،کہیں بھی چشمئہ کوثر نہیں دیکھا
کہیں میزان کی تنصیب کا منظر نہیں دیکھا
کسی ظالم کے بائیں ھاتھ اعمال کا دفتر نھیں دیکھا
سوا نیزے پہ سورج ھے
مگر وہ عدل کا دن، داد خواہی کی گھڑی اب تک نہیں آئی
چلو اک بار پھر اپنی انہیں قبروں کی جانب لوٹ جائیں ھم
کہ وہ اک کاروبار خسروی تھا اور ھم اسکو
کسی کے عہد یوم الدین کی تکمیل سمجھے تھے
وہ اک دجال کی آواز تھی جس کو
ھم اپنی سادگی صور اسرافیل سمجھے تھے