🌼----"" سیکھیں آج کی حدیث پاک ابوسعید خدری ؓ بیان کرتے ہیں ، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عید الفطر اور عید الاضحی کے لیے عید گاہ تشریف لے جاتے تو آپ سب سے پہلے نماز پڑھتے ، پھر نماز سے فارغ ہو کر لوگوں کے سامنے کھڑے ہو کر وعظ و نصیحت فرماتے ، لوگ اپنی صفوں میں بیٹھے رہتے ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم احکام جاری کرتے ، اگر کوئی لشکر روانہ کرنا ہوتا تو اسے روانہ فرماتے یا کسی چیز کے بارے میں حکم فرمانا ہوتا تو آپ اس کے متعلق حکم فرماتے ، پھر آپ گھر تشریف لے جاتے ۔ (مشکوٰۃ المصابیح، حدیث نمبر 1426)
✨حضورﷺ پر درود آپ خود نہیں پڑھتے بلکہ آپ کو چُن لیا جاتا ہے۔آپ کا نام وہاں لیا جانا بھی درِ رسول ﷺ کی حاضری کے برابر ہے. جیسے دل کو دل سے راہ ہوتی ہے یونہی یاد بھی یکطرفہ نہیں ہوتی یہ بعید نہیں آپ رسول صلى الله عليه وسلم خدا کا نام لے کر رحمت کی دعا کرتے ہیں تو وہاں سے بھی رحمت کی دعا نہ فرمائی جائے۔♥️ *اللَّهُمَّ صَل عَلٰی سَيِد ِنَا مُحَمَّدٍ وَّعَلٰٓی اٰلِہٖ وَسَلِمُ*
میں مانتی ہوں وبا کے دن ھیں مگر یہ دن بھی خدا کے دن ہیں دلوں سے مایوسیاں نکالو ذرا سا آگے شفا کے دن ہیں گزر گئی عمر غفلتوں میں یہی تو رب سے وفا کے دن ھیں
تمہیں پتا ہے تمہارا مسئلہ کیا ہے...! تم نے اپنے فیصلے اللہ پر چھوڑ تو دیے ہیں مگر دل سے نہیں چھوڑے, آپکی ابھی بھی خواہش یہی ہے کہ فیصلہ آپکی مرضی کا ہو, یہ کیسا اعتبار ہے بھلا؟ اب سمندر کے بیچ کھڑے کو اس بات سے کیا غرض کے کشتی آر لگے یا پار, اسےتو یہ یقین ہونا چاہیے کے اگرمیں ڈوب بھی گیا تو یہی میرے لیے آر یا پار جانے سے بہتر ہوگا...! اللہ جتنی محبت اپنے بندے سے کرتا ہے, آپ اسکا اندازہ نہیں لگا سکتے, ہمیں وہی چیز نظر آتی ہے جو ظاہر ہو, جس دن اس اعتبار پر فیصلہ اللہ پر چھوڑ دو گے کہ جو بھی ہوا وہ میرے لیے بہترین ہوگا, اس دن نا صرف آپ بےچینی سے نکل آئینگے بلکہ فیصلہ آپکے یقین سے بھی زیادہ بہترین ہوگا, کیونکہ اللہ ساری دنیا اور لوگوں کے دلوں سمیت ان کی سوچوں کے رخ تک بدلنے میں قادر ہے 💯❤
سیکھیں آج کی حدیث پاک سیدنا صہیب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: مجھے مؤمن کے معاملے پر تعجب ہے، بیشک اس کا سارے کا سارا معاملہ خیر پر مشتمل ہے اور یہ چیز صرف اور صرف مؤمن کو حاصل ہے، اس کی تفصیل یہ ہے کہ جب اس کو خوشی ملتی ہے اور وہ شکر ادا کرتا ہے تو اس میں بھی اس کی بہتری ہے اور اگر اس کو کوئی تکلیف لاحق ہوتی ہے اور وہ صبر کرتا ہے تو اس میں بھی اس کے لیے بہتری ہے۔ (مسند احمد, حدیث نمبر 9352)