تعلق کے وسوسوں کو ابھی تک پال رکھا ہے اس طرح سے اس نے رابطہ بحال رکھا ہے اپنی طرف سے کیا ہے دکھوں کا ازالہ اس نے مجھے کھو دیا ہے اور نشانیوں کو سنبھال رکھا ہے ابھی مدہوش ہیں تو ذرا سا مسکرانے دو اداسیوں کوہم نے، کل پہ ڈال رکھا ہے سب کچھ گنوا دیا ہے مگر پھر بھی مطمئن ہیں کہ دل سے ہم نے خواہشوں کو نکال رکھا ہے ایک ہم ہی تو تھے باعثِ زوالِ دوستاں ہمارے سوا جس کو بھی رکھا کمال رکھا ہے
چھوڑ کر جانا ہے تو جا پر مات ادھوری ثابت کر مجھ سے جھگڑا کر اور مجھکو غیر ضروری ثابت کر بحث نہیں بنتی دونوں کی پھر بھی اے بہتان پرست جتنی باتیں گھڑ رکھی ہیں ایک تو پوری ثابت کر